• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دفاعِ قراء ات…خلاصۂ کتاب

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢٥) حمزہ رحمہ اللہ (تبع تابعی):
٭ یہ قرآن کے متبحر عالم ہیں۔(اعمش رحمہ اللہ)
دو چیزوںمیں آپ ہم پرغالب ہیں ان میں ہم آپ کامقابلہ نہیں کرسکتے۔قراء ت اور علم میراث۔ (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ)
٭ آپ سے سفیان ثوری رحمہ اللہ،شریک بن عبداللہ رحمہ اللہ، وکیع رحمہ اللہ اور ائمہ اہل کوفہ کی ایک جماعت نے قراء ت پڑھی ہے۔ شدیدموسم گرما میں ایک روز حمزہ زیات رحمہ اللہ کامیرے پاس سے گذر ہوا میں نے پینے کا پانی پیش کیا تو انکار فرما دیا، کیونکہ میں آپ سے قراء ت پڑھتا تھا۔ (جریر بن عبدالحمیدرحمہ اللہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢٦) کسائی رحمہ اللہ:
٭ اپنے زمانے میں عربیت کے نیز قراء ت میں لوگوں کے امام تھے۔ (ابن مجاہدرحمہ اللہ)
٭ نافع رحمہ اللہ کے کبار تلامذہ میں سے ہیں۔ میں نے کتاب اللہ کا کسائی رحمہ اللہ سے بڑا قاری نہیں دیکھا۔ (اسماعیل بن جعفر مدنی رحمہ اللہ)
٭ جو شخص نحو میں تبحر کامتمنی ہے وہ کسائی رحمہ اللہ کا دست نگر ہے۔ (امام شافعی رحمہ اللہ)
٭ میں نے ایک روز کسائی رحمہ اللہ سے خوب بڑھ چڑھ کر مناظرہ کیاتو گویا میں ایک پرندہ تھا جو دریا سے پانی پی رہا تھا۔ (فراء رحمہ اللہ)
٭ نحو میں اعلم الناس اور حدیث کے مشکل الفاظ نیز قراء ت میں سب لوگوں میں لاثانی تھے۔ (ابوبکر بن الانباری رحمہ اللہ)
٭ بحالت احرام کمبل میں ملبوس تھے۔ (امام شاطبی رحمہ اللہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(ھـ): تشکیل قراء ات کاپس منظر :
(٢٧) حضور اقدسﷺپرقرآن کریم، سات قبائل عرب کی سات لغات قریش ہذیل، ثقیف، ہوازن، کنانہ، تمیم، یمن کی اجازت کے ساتھ نازل ہوا ہے، لیکن ہرقبیلہ کو اپنی لغت میں آزاد نہ پڑھنے کی قطعی کھلی چھٹی و رخصت نہ تھی بلکہ وہ اس بارے میں تلقین و توقیف و تعلیم نبوی کے تابع و پابند تھے۔ قراء ات کے اُصولی اختلافات انہیں سبعہ لغات سے ماخوذ ہیں۔ اسی طرح جبریل امین علیہ السلام کے ساتھ رمضان المبارک میں حضور علیہ السلام کے متعدد دوروں میں قرآن کریم کے متعدد کلمات و فرش الحروف ، قرآنی شان اعجازی کے حامل، علم بیان وعلم بدیع کے انواع و الوان کے ساتھ مختلف طرق تلفظ و انداز و اَسالیب بیان و تراکیب عربیت و بلاغت پر نازل ہوئے اور وہ یہ ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) ابدال الحرف بالحرف مع تغیر المعنٰی بدون تغیر صورت رسم (تَبْلُوْا۔تَتْلُوْا)
(٢) ابدال الحرف بالحرف مع تغیر المعنٰی والصورۃ (مِنْکُم ۔ مِنْھُمْ)
(٣) ابدال الحرکۃ بالحرکۃ مع تغیر المعنٰی (وَقَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَکُمْ، وَقَدْ اُخِذَ مِیْثَاقُکُم)
(٤) زیادت و نقص (وَسَارِعُوْا،سَارِعُوْا)
(٥) تقدیم رو تاخیر (فیَقْتُلُوْنَ ویُقْتَلُوْنَ، فَیُقْتَلُوْنَ ویَقْتُلُوْنَ)
(٦) اختلاف صیغ (لاتُضَآرَّ، لاتُضَآرُّ، لایَضِرْکُم، لایضُرُّکُمْ، وَلَا یُقْبَل، ولا تُقْبَلُ،یَعْمَلُوْنَ، تَعْمَلُوْنَ)
(٧) ابدال المادہ بالمادہ (فَتَبَیَّنُوْا،فَتَثَبَّتُوْا)قراء ات کے فرش الحروف انہیں طرق تلفظ و اسالیب بیان سے ماخوذ ہیں۔
پھر مروّجہ قراء ات کی اَسانید میں مندرجہ ذیل سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مدار و مرکز و مرجع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عثمان، علی، ابن مسعود، زید بن ثابت، ابی بن کعب، ابوالدرداء، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اولاً :حضورعلیہ السلام نے ان سات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک کو اُصول و لغات تو خاص انہی کے لغت قبیلہ کے مطابق ہی پڑھائیں البتہ فرش الحروف قسم کی وجوہ خلافیہ منزلہ تقسیم کرکے متفرقاً پڑھائیں کہ بعض وجوہ ایک صحابی کو اور بعض دوسرے کوـ ۔وعلیٰ ہذا القیاس
ثانیاً: ان سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہی اختلافات جو بطریق تواتر و قطعیت، آخری دور نبویؐ کے مطابق ثابت و مروی تھے انہیں اختلافات کی مصاحف عثمانیہ میں رعایت کی گئی ہے اور ان کے علاوہ باقی قراء ات و اختلافات اَحادیہ شاذہ کی رعایت کو ترک کردیا گیا۔
ثالثاً: آگے ان ساتوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہی خاص خاص اختلافات جو تلقین نبوی سے پڑھے اور محفوظ کیے تھے ان ائمہ قراء ات کو بالواسطہ یا بلا واسطہ پڑھائے۔ بعض ائمہ قراء ات نے ان ساتوں میں سے کئی صحابہ رضی اللہ عنہم سے پڑھا بس یہی وہ مرحلہ ہے جس میں بعض لغات کا بعض لغات میں اور بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منقول فرش الحروف کا دوسرے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منقول فرش الحروف کے ساتھ باہم انضمام و تداخل و اجتماع و تشارک شروع ہوا اور اسی بنیاد پر اور انہیں منقول وجوہ کی روشنی میں آگے آئمۂ قراء ات نے ذاتی و شخصی طور پر خاص خاص مختلف الانتخاب ترتیبات اور متعدد اختیارات کی تدوین کی اور یہی اختیارات آگے قراء ات کے نام سے موسوم ہوئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتیجہ یہ کہ مروّجہ قراء ات عشرہ کی ترتیب اس طریقہ سے ہوئی کہ مصاحف عثمانیہ کے متعدد مقری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تابعین نے اور تابعین سے تبع تابعین نے اور ان سے ائمہ مشہورین نے احرف سبعہ کی روشنی میں متعدد قراء ات حاصل کیں، کیونکہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے احرف سبعہ کو اپنے مابعد کے لوگوں تک نقل کیا تو وہ لغات باہم متداخل اور مخلوط ہوگئیں حتیٰ کہ متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے اخذ کرنے والا قاری کچھ حصہ ایک صحابی کی تلقین کردہ لغت کے مطابق اور کچھ دوسرے صحابی کی تلقین کردہ لغت کے مطابق پڑھنے لگا اسی کے نتیجہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اَخذ کردہ قراء ات متعدد ہوگئیں مگر یہ سب اَحرف سبعہ سے خارج قطعاً نہیں۔
تو یہ سب قراء ات کثیرہ منتشرہ، نتیجہ ہیں نزول القرآن علیٰ سبعۃ احرف کا، ہر قراء ت کی ترتیب فقط ایک ہی لغت عربیہ کے لحاظ سے نہیں کہ پورا قرآن من اوّلہٖ الیٰ آخرہٖ فقط اُسی ایک ہی لغت کے مطابق پڑھا جاتا ہو اور دوسری لغات میں سے کسی لغت کا کوئی لفظ بھی قطعاً اس میں شامل نہ ہو ایسا ہرگز نہیں بلکہ ہر قراء ت میں سب کی سب لغات عرب کا اشتراک و تداخل موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(و) : کیا ابن شہاب زُہری رحمہ اللہ، بقول ناقد۔ معاذ اللہ شیعہ ہیں؟
(٢٨) حضرت ابن شہاب زہری رحمہ اللہ، حدیث پاک کے ’اوّل المدونین‘ ہیں جنہوں نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے حکم سے سب سے پہلے احادیث کو مدون فرمایا، خود زہری فرماتے ہیں:’’أمرنا عمر بن عبدالعزیز بجمع السنن فکتبناھا دفتراً دفتراً‘‘ (أخرجہ ابن عبد البر فی جامع بیان العلم) ’’أوّلُ من دوّن العلم ابن شہاب‘‘ (قالہ،السیوطی فی الوسائل إلی معرفۃ الاوائل) کیا خلیفۂ راشد کو زہری رحمہ اللہ کی شیعیت کا علم نہ ہوسکا؟ اگر نہیں تو خود خلیفۂ راشد پر حرف آتاہے۔ ابن شہاب زُہری رحمہ اللہ کے تلامذہ میں امام مالک رحمہ اللہ، سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ، اوزاعی رحمہ اللہ، لیث بن سعد رحمہ اللہ جیسے کبار ائمۃ شامل ہیں ان حضرات کو بھی علم نہ ہوسکا کہ ہمارے استاذ والعیاذ باللہ شیعہ ہیں۔ ایسے ذمہ دار ائمہ امت کو اپنے استاذ کے حالات کا زیادہ علم ہوسکتا ہے یا آپ جیسے علامہ آخرالزمان کو؟ آج اگرکسی سنی عالم کے متعلق علم ہوجائے کہ وہ فلاں شیعہ شیخ سے علم حدیث حاصل کرتا ہے تو سنی حضرات اس عالم کا سخت ایکشن لینے پرتُل جائیں گے اگر زُہری آپ کے بقول شیعہ ہوتے تو لامحالہ اُس زمانۂ خیر و رُشد کے لوگوں کواس بات کا علم ہوتا اور وہ امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ پراعتراض کا طوفان کھڑا کردیتے کہ یہ ایسے شیعہ محدث سے حدیثیں حاصل کررہے ہیں مگر اس قسم کی کوئی بات پایہ ثبوت تک نہیں پہنچی جس سے روز روشن کی طرح یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ حضرت زُہری رحمہ اللہ قطعی سنی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(ذ) :کیا حدیث جمع القرآن۔ معاذ اللہ۔ موضوع ہے؟
(٢٩) ناقد نے حدیث جمع القرآن کو موضوع بتایا ہے۔ اس کی بابت اتنا ہی عرض ہے کہ چلئے! اگر آپ سنی ائمہ حدیث سے اتنے ہی ناراض ہیں کہ وہ سب آپ کے یہاں قطعاً درخور اعتناء نہیں بلکہ سب کے سب مطعون و قابل تنقید ومجروح ہیں اور اس حدیث جمع القرآن کو صحیح سمجھنے میں۔خاکم بدہن۔ سب ہی حضرات محدثین نے غلطی کی ہے تو باوجودیکہ آپ بزعم خود سنی ہیں مگر بایں ہمہ طبری رافضی (جو فی الواقع سنی ہیں)کی مدح سرائی میں آپ رطب اللسان ہیں اور ستہ احرف کی متروکیت کے متعلق ان کے قول سے آپ نے بھرپور استدلال کیا ہے کہ موصوف نے جمع عثمانی میں چھ حروف کے مرفوع و منسوخ و متروک ہوجانے کا قول کیا ہے (اگرچہ اس کی اصل صورت حال اس کے برخلاف ہے جو آگے اپنے موقع پر بیان ہوگی) بس اتنی درخواست ہے کہ طبری رحمہ اللہ رافضی ہی کی بات کو تسلیم کرکے آپ جمع قرآن کی حدیث پر ایمان واعتقاد لے آئیے۔ وگرنہ طبری رحمہ اللہ کے قول سے استدلال کو ترک کردیجئے۔ فتأمل کراتٍ بعد مراتٍ ینقلب إلیک البصر خاسئاً وہو حسیر
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(ح): راوی کی عدالت کے ثبوت کا ایک ذریعہ شہرت و استفاضہ اور اشتغال علم بھی ہے
(٣٠) مقدمہ ابن الصلاح اُصول حدیث کی مشہور کتاب ہے، اس میں لکھتے ہیں:
’’عدالۃ الراوی تارۃ تثبت بتنصیص العدلین علی عدالتہ وتارۃ تثبت بالاستفاضۃ فمن اشتھرت عدالتہ بین أھل النقل أو نحوھم من أھل العلم وشاع الثناء علیہ بالثقۃ والامانۃ استغنی فیہ بذلک عن بینۃ شاھدۃ بعدالتہ تنصیصاً ھذا ھو الصحیح فی مذھب الشافعی وعلیہ الاعتماد فی فن أصول الفقہ‘‘ (ص:۴۰)
’’یعنی راوی کی عدالت کبھی ثابت ہوتی ہے کہ دو عادل اس کی عدالت پر تصریح کردیں اور کبھی ثابت ہوتی ہے ساتھ شہرت اور استفاضہ کے۔ پس جس کی عدالت اہل علم کے درمیان مشہور ہو اور اس پر ثقہ ہونے کی اور امین ہونے کی تعریف شائع ہو تو وہ مستغنی ہوتا ہے ایسے بینہ سے جو اس کی عدالت پر صراحتہً شاہد ہو یہی صحیح ہے مذہب شافعی میں اور اسی پر اعتماد ہے۔ فن اصول فقہ میں، بلکہ حافظ ابوعمر بن عبدالبررحمہ اللہ نے تو اور توسیع کرکے یہاں تک کہہ دیا ہے۔ ‘‘
’’کل حامل علم معروف العنایۃ بہ فھو عدل محمول فی أمرہ ابداً علی العدالۃ حتی یتبین الجرحۃ… الخ‘‘ (مقدمہ، ص۴۰)
’’یعنی ہر صاحب علم جس کا اشتغال علم کے ساتھ معروف ہو عادل ہے اور ہمیشہ عادل قرار دیا جاوے گا جب تک اس پر جرح ثابت نہ ہو۔ ‘‘ (آثارِ خیر، ص۲۴۲)

٭_____٭_____٭
 
Top