• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسمِ قرآنی کا اِعجاز اور اس کے معنوی اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وَإِیْتَآئِ … وَإِیتَآی ئِ​
کلمہ ’’وَإِیتَآئِ‘‘ اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں دو مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ ’’وَإِیتَآیئِ‘‘ یاء کی زیادتی کے ساتھ قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہے۔ اس کلمہ کا یاء کی زیادتی کے ساتھ ورود، اس عطا اور انفاق کی اہمیت پردلالت کرتا ہے اور وہ ہے قریبی رشتہ داروں پر خرچ کرنا۔ قرآن مجید نے صلہ رحمی کا خصوصی اہتمام کیا ہے۔اسی وجہ سے یہ کلمہ ’’وَإِیتَآیئِ‘‘ اپنی معروف شکل سے ہٹ کر آیاہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’إنَّ اﷲَ یَأمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإحسٰنِ وَإِیتَآیئِ ذِی الْقُرْبٰی‘‘ (النحل :۹۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حرف واؤ کی زیادتی :
أرِیکُمْ … سَأورِیْکُمْ​
کلمہ ’’أُرِیْکُمْ‘‘ اپنی اس معروف شکل پر، قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہواہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِیْکُمْ اِلَّا مَا أریٰ‘‘ (غافر:۲۹)
جبکہ کلمہ ’’سَأُورِیْکُمْ‘‘ اپنی اس غیر معروف شکل (بزیادۃ الواؤ) پر، قرآن مجید میں دو مرتبہ وارد ہواہے۔
’’وَأمُرْ قَوْمَکَ یَأخُذُوْا بِأحْسَنِھَا سَأورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ‘‘ (الأعراف:۱۴۵)
’’خُلِقَ الاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأوْرِیْکُمْ ء اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ‘‘ (الأنبیاء :۳۷)

مذکورہ آیات کریمہ میں غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کلمہ ’’أُرِیْکُمْ‘‘ فرعون کی زبان سے جاری ہوا ہے وہاں وہ عام رسم کے ساتھ مکتوب ہے۔ اور جہاں کلمہ ’’سَأورِیکُمْ‘‘ اللہ تعالیٰ کی زبان سے جاری ہوا ہے وہاں وہ غیر معروف رسم (بزیادہ الواؤ) کے ساتھ مکتوب ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور شان پر دلالت کرے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الرِّبَٰوا​
کلمہ ’’الرِّبَٰوا‘‘ حرف واؤ کی زیادتی کے ساتھ، قرآن مجید میں سات مرتبہ وارد ہواہے۔
جبکہ کلمہ ’’رِبًا‘‘ اپنی اس معروف رسم پر قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہوا ہے۔
اس کلمہ ’’الرِّبَٰوا‘‘ کا واؤ کی زیادتی کے ساتھ ورود، سود کے خطرات پر دلالت کرتاہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سود کو حرام کیاہے۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔
جبکہ کلمہ ’’رِبًا‘‘ قلیل شے کے ساتھ خاص ہے۔ جس پر لفظ ’’رِبًا‘‘ کااطلاق ہوتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مَلَکُوْتَ​
کلمہ ’’مَلَکُوْتَ‘‘ میں واؤ اور تاء زائد ہیں۔ جواصل کلمہ ’’ملک‘‘ پر اضافہ ہیں۔ اس کلمہ میں واؤ اور تاء کی زیادتی، اللہ کی بادشاہت کی عظمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان سمیت ہر شے کا بادشاہ ہے۔
(٣) قاعدۃ الھمز
امام ابوعمرو دانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’المقنع في رسم مصاحف الأمصار‘ میں ذکر کرتے ہیں کہ بعض کلمات قرآنیہ کے آخر میں ہمزہ کو واؤ کی صورت میں لکھا جاتا ہے اور اگر وہ کلمہ مرفوع ہو تو اس واؤ کے بعد الف زیادہ کر دیا جاتاہے جیسے : ’’ نَبَؤٌاعَظِیْم‘‘،’’تَفْتَؤُا‘‘،’’ الْمَلَؤُا‘‘، ’’الْبَلَٰؤُا‘‘، ’’شُفَعَٰؤُا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔اس کے بعد امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شاید اس کا سبب اتصال اور تسہیل ہے۔
لیکن ہم ایک اور نظر سے دیکھتے ہیں کہ ہمزہ کا مذکورہ صورت میں آنا کئی خفیہ معانی پردلالت کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الْمَلَأُ … الْمَلَؤُا​
کلمہ ’’الْمَلَأُ‘‘ اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں (۱۸) مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ ’’الْمَلَؤُا‘‘ اپنی اس غیر معروف شکل پر قرآن مجید میں چارمرتبہ وارد ہوا ہے۔
کلمہ ’’الْمَلَأُ‘‘ سے قوم کے اشراف اور معزز لوگ مراد لیے جاتے ہیں جبکہ کلمہ ’’الْمَلَؤُا‘‘ کی آیات مبارکہ میں غوروفکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے عام کافروں کے سردار نہیں بلکہ کفر کے امام اور کفر کے بادشاہ و وزراء مراد لیے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’قالت یأیہا الْمَلَؤُا إنی ألقی إلی کتٰب کریم‘‘ (النّمل: ۲۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الْعُلَمٰٓؤُا​
کلمہ ’’الْعُلَمَٰٓؤُا‘‘ قرآن مجید میں فقط دو مرتبہ وارد ہوا ہے اور دونوں مقامات پر ہی اسی شکل میں وارد ہے۔تاکہ علماء کرام کی عظمت و منزلت پر دلالت کرے۔ کیونکہ یہ عام لوگوں کی مانند نہیں ہیں۔’’قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَایَعْلَمُوْنَ‘‘ (الزّمر:۹)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’أوَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ آیَۃٌ اَنْ یَّعْلَمَہٗ عُلَمَٰؤُا بَنِی إسْرٰئِ یْلَ‘‘ (الشعراء :۱۹۷)
’’إنَّمَا یَخْشَی اﷲُ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَٰٓؤُا‘‘ (فاطر:۲۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بَلآئٌ … الْبَلٰٓؤُا​
کلمہ ’’بَلآئٌ‘‘ مرفوع، اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں تین مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ ’’ الْبَلَٰٓؤُا‘‘ مرفوع، اپنی اس غیر معروف شکل پر قرآن مجید میں دو مرتبہ وارد ہوا ہے۔
اس کلمہ کی یہ غیر معروف شکل، بڑی آزمائش کی تبیین و وضاحت کے لیے ہے۔ خصوصاً ابراہیم علیہ السلام کی نسبت سے، جب انہیں اللہ نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کا حکم دے کرآزمایا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’إنَّ ھٰذَا لَھُوَ الْبَلَٰٓؤُا الْمُبِیْنَ‘‘ (الصّافات:۱۰۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) قاعدۃ البدل
الف کی واؤ کی شکل میں کتابت:
امام دانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’المقنع‘ میں فرماتے ہیں کہ بعض کلمات قرآنیہ میں الف کو واؤ کی شکل میں لکھا گیا ہے۔ جیسے ’’الصَّلَٰوۃ، الزَّکَٰوۃ، الْحَیَٰوۃ، الرِّبَٰوا‘‘
ان کلمات میں واؤ کی شکل میں، الف کی کتابت متعدد اسرا ر و رموز پر دلالت کرتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الصَّلَوٰۃ​
کلمہ ’’الصَّلَوٰۃ‘‘ اپنی اس غیر معروف شکل پر، قرآن مجید میں(۶۷) مرتبہ وارد ہوا ہے۔ اس کلمے کا یہ رسم نماز کی شرعی اہمیت پر دلالت کرتاہے۔کیونکہ نماز دین کا ستون ہے۔بندے اور اللہ کے درمیان تعلق کاذریعہ ہے۔اسی اہمیت کے پیش نظر اس کلمہ کا رسم غیر معروف طریقے پر آیا ہے تاکہ قاری اس کی اہمیت سے متنبہ ہوجائے۔
اسی طرح جب اس کلمہ کی نسبت انبیاء کرام کی طرف ہوتی ہے اور وہ اہل باطل سے مجادلہ یا مومنوں کے لیے دعا کر رہے ہوتے ہیں تو اس صورت میں بھی اس کی کتابت اسی مخصوص طریقے پر ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَصَلِّ عَلَیْھِمْ اِنَّ صَلَٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ‘‘ (التوبۃ:۱۰۳)
’’قَالُوْا یٰشُعَیْبُ أَصَلَٰوتُکَ تَأمُرُکَ اَنْ نَتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَآئُ نَا‘‘ (ہود: ۸۷)

مگر جب یہ کلمہ عام شکل میں وارد ہو تو اس کی کتابت معروف طریقے کے مطابق ہوگی اور اپنی اس معروف شکل پر یہ کلمہ قرآن مجید میں چھ مقامات پر وارد ہے۔ جیسے:
’’کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہُ وَتَسْبِیْحَہٗ‘‘ (النور:۴۱)
’’وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا‘‘ (الاسراء :۱۱۰)
’’وَھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ‘‘ (الانعام :۹۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الزَّکَـــوۃَ​
کلمہ ’’الزَّکَــوۃ‘‘ اپنی اس غیر معروف شکل پر قرآن مجیدمیں (۳۲) مرتبہ وارد ہوا ہے اور پورے قرآن مجید میں اسی مخصوص شکل پر ہی وارد ہے۔
یہ کلمہ بھی مثل ’’الصَّلَوٰۃ‘‘ اپنی اس مخصوص شکل کے ساتھ زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی عظمت و اہمیت پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ زکوٰۃ ارکان اسلام میں سے ایک رکن ہے۔
 
Top