• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۲- راویِ میں کسی نقص اور عیب کے سبب ضعیف حدیث کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں

موضوع ، متروک، منکر، شاذ، معلل یامعلول ، مدرج، مقلوب، مضطرب، اورمصحف
موضوع: اگرراوی کاذب اور جھوٹا ہے اور اس نے اپنی طرف سے سند، یا متنِ حدیث وضع کرکے رسول اللہ ﷺکی طرف منسوب کردیا ہے تو اُس کی یہ گڑھی اور بنائی ہوئی حدیث ''موضوع''کہلاتی ہے ، اور یہ ضعیف کی سب سے بدتر قسم ہے ، اس کے مرتکب کو رسول اللہ ﷺنے جہنم کی وعید سنائی ہے۔
متروك : اگر راوی اپنی عام بول چال میں جھوٹا آدمی ہواور اس کی روایت کردہ حدیث صرف اسی کے واسطے سے مروی ہو، اوروہ حدیث دین کے مُسَلَّمَاتَ کے خلاف ہوتو اس حدیث کو''متروک''کہتے ہیں، اس کا درجہ شناعت وقباحت میں موضوع کے بعدہے۔
منكر (ومعروف): وہ حدیث ہے جس کے راوی کے اندر ازحدغفلت ، وہم، ظاہری فسق وفجور جیسے برے صفات پائے جاتے ہوں، یا کسی طرح کا کوئی ضعیف راوی کسی ثقہ (عادل وضابط) راوی کے برخلاف روایت کرے : توضعیف کی روایت ''منکر''اورثقہ کی روایت کو ''معروف'' کہا جاتاہے۔
شاذ (ومحفوظ): شاذبھی ضعیف کی ایک قسم ہے ، یہ ایسے ثقہ کی روایت کو کہتے ہیں جس نے اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے خلاف روایت کی ہویا ثقہ نے ثقات کی ایک جماعت کے برخلاف روایت کی ہو،توکم ثقہ اور ثقہ کی روایت کوشاذ اور اعلیٰ درجے کے ثقہ یا ثقات کی روایت کو ''محفوظ''کہا جاتا ہے ، اورظاہر بات ہے کہ تعارض کے وقت ''محفوظ''کو ترجیح دی جائے گی۔
مُعَلَّلْْ(یامعلول): اگر راوی کے اندرنقص ''وہم''ہو تو اس کی روایت کومعلل یامعلول کہتے ہیں، اور سبب کو''علت''کہتے ہیں، مخفی علت صحتِ حدیث میں قادح ہوتی ہے ، اور اس پر بڑے بڑے ماہرمحدثین ہی مطلع ہو پاتے ہیں ۔
مدرج: راوی کا اپنی طرف سے اسناد یامتن میں ایسا اضافہ جو بظاہر اس کے اوپرکے راوی کے کلام (سندمیں) یامتنِ حدیث ہی سے معلوم ہو، راوی کسی وضاحت کے لئے ایساکرتا ہے لیکن سامع اس کو اصل سند یا اصل متن میں سے سمجھ کر روایت کردیتاہے ، ادراج کا علم اس روایت کے کسی اور سند سے مروی ہونے ، یا خود راوی کی وضاحت سے ہوتاہے (تعریف سے ظاہر ہے کہ ادراج سند اورمتن دونوںمیں ہوتا ہے)
مقلوب: سندیامتن میں الٹ پھیرکو کہتے ہیں جیسے کوئی ''کعب بن مرّۃ'' کو '' مُرّہ بن کعب''کر دے ، یا روایت میں موجود ابن رضی اللہ عنہماکے شاگرد''سالم''کی جگہ دوسرے شاگرد ''نافع'' کا نام لے لے (یہ مقلوبِ سندہے)یا جیسے مسلم کی مشہورحدیث: <لاَ تَعْلَمُ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِيْنُهُ> کو <لاَ تَعلَمُ يَمِيْنُهُ مَا تُنْفِقُ شِمَالُهُ>کردیاہے۔ (یہ مقلوبِ متن ہے)۔
مضطرب: کسی ایک ہی حدیث کا اس طرح مختلف شکلوں میں مروی ہونا کہ ان شکلوں کا آپس میں باہم سخت اختلاف ہو،اور ان کے درمیان جمع وتوفیق اورتاویل ممکن نہ ہو، اورتمام روایات قوت میں ایک دوسرے کے برابرہوں ، کسی کودوسرے پر کسی صورت میں ترجیح ممکن نہ ہو، اگرکوئی شکل (روایت)قوت میں زیادہ ہوتو پھر اس حدیث کو مضطرب نہیں کہیں گے ،، راجح شکل پر عمل کریں گے ، اسنادی قوت کے علاوہ ترجیح کے اوربھی اسباب وعوامل ہوتے ہیں ان کے لحاظ سے بھی روایت کوترجیح دی جاسکے تواس پر عمل کیاجائے گا۔
مُصَحَّفْْ: کسی لفظ کو(جو ثقات سے مروی ہو)کسی دوسرے لفظ سے بدل کر روایت کردینا (یہ تبدیلی لفظی اورمعنوی دونوں ہوسکتی ہے) جیسے''العوام بن مُراحم'' (بالراء المهملة) کو العوام بن مُزاحم (بالزاي المعجمة) کردینا،یا جیسے ''احتجر في المسجد''(مسجدمیں حجرہ بنایا) کو''احتجم في المسجد''(مسجدمیں پچھنا لگایا)کردینا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۳-منسوب الیہ کے اعتبارسے حدیث کی قسمیں

حدیث یا خبر کسی ذات یا شخص سے منسوب ہوتی ہے یعنی ہرحدیث اورخبر کا ایک مصدر ہوتا ہے اس کو منسوب الیہ کہتے ہیں ،اس اعتبارسے حدیث کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں:
حدیث قدسی، حدیث مرفوع، موقوف،مقطوع، اوریہ اقسام صحیح ضعیف دونوںمیں مشترک ہیں۔
حدیث قدسی: وہ حدیث ہے جس کی نسبت رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف کریں ، جیسے آپ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
مرفوع : وہ حدیث جس کی نسبت رسول اللہﷺکی طرف ہو، قولی ہویافعلی یاتقریری، احادیث کا بیشترحصہ حدیث مرفوع ہی پر مشتمل ہے، جیسے : نبی اکرم ﷺنے فرمایا:''اعمال کا دارومدارنیتوں پرہے''۔
موقوف: وہ خبرجوکسی صحابی کی طرف منسوب ہو،قولی ہویا فعلی یا تقریری جیسے : ''عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عورتوں کی مہروںمیں غلونہ کرو'' (اس کو اثربھی کہتے ہیں)۔
مقطوع: وہ خبرجس کی نسبت تابعی یا تبع تابعی کی طرف ہو، جیسے حسن بصری کا فرمان ہے''بدعتی کے پیچھے نمازپڑھ سکتے ہواس کی بدعت کاوبال اسی کے اوپرہوگا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۴- حدیث کی مشترک قسمیں

مسند: وہ مرفوع حدیث ہے جس کی سند متصل ہو ، اس کی سند کے اندر کسی طرح کا انقطاع نہ ہو(عام مرفوع حدیث: منقطع اور معضل بھی ہوسکتی ہے)۔
متصل : وہ حدیث یاخبرہے جس کی سند متصل ہو، اس کی سندکے اندرکسی قسم کا انقطاع نہ ہو،خواہ مرفوع ہویا موقوف یا مقطوع۔
۵- عام اصطلاحات

متابعات: سندکے کسی طبقہ میں واقع کسی راوی کے ساتھ کوئی اوربھی راوی اس حدیث کی روایت میں شریک ہولیکن صحابی ایک ہی ہوتودوسرے راوی کو یا اس کی روایت کو''مُتابِع''اور پہلے راوی کو یا اس کی روایت کو مُتَابَع''کہتے ہیں ، اور اس عمل کو متابعت کہتے ہیں جس کی جمع ''متابعات''ہے۔
شواہد: ایک صحابی کی روایت دوسرے صحابی سے بھی آئے تو اُس کوشاہد کہتے ہیں، بلکہ ہرایک دوسرے کی حدیث کی شاہدہے، اس کی جمع شواہدہے۔
لین الحدیث: اس کتاب میں کسی ضعیف حدیث کے اسباب ضعف میں اس راوی کے متعلق لکھا گیا ہے جس کے بارے میں حافظ ابن حجرنے ''مقبول''لکھاہے ، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر اس راوی کا کوئی اور متابِع ہوگا تو اس کی روایت قبول کی جائے گی ورنہ ردکردی جائے گی ، اور اس روایت میں اس کا کوئی متابِع نہیں ہے ، اس لئے اس کی یہ روایت ضعیف ہے ۔
اختلاط (اورمختلط): کسی ثقہ عادل ضابط راوی کے حفظ وضبط میں کسی حادثہ یا بڑھاپا کے سبب کمزوری واقع ہوجائے تو اس کو اختلاط کہتے ہیں اور راوی کو مختلط کہتے ہیں،مختلط کی روایت کو قبول کر نے کے سلسلے میں مندرجہ ذیل تفصیل ہے:
اس مختلط راوی سے روایت کر نے والے نے اختلاط طاری ہونے سے پہلے اس سے روایت لی ہے یابعدمیں؟ یا پہلے اوربعد دونوں حالتوں میں؟توجس نے اختلاط سے پہلے روایت لی ہے (اوروہ خودبھی ثقہ ہے)تو اس کی روایت مقبول ہوگی، اور دونوںحالتوں یااختلاط کے بعدروایت لینے والے کی روایت قبول نہیں کی جائے گی۔
مجہول اورجہالت: کسی بھی راوی کی روایت اس کی ثقاہت (عدالت اورقوتِ حافظہ)کی بنیاد پر قبول کی جاتی ہے ، اورجب کسی راوی کی ثقاہت معلوم ہی نہ ہو تو اس کی روایت کس بنیاد پر قبول کی جائے؟اسی لئے مجہول راوی کی روایت قبول نہیں کی جاتی ۔
جہالت دوطرح کی ہوتی ہے: جہالتِ عین اورجہالتِ حال ، جہالت عین کا مطلب ہے کہ سرے سے راوی کی شخصیت کا اس سے زیادہ اتہ پتہ نہیں کہ اس سے ایک آدمی نے روایت لی ہے اورکسی امامِ جرح وتعدیل نے اس کی ثقاہت کا ذکر نہ کیا ہو،اور جب شخصیت مجہول ہے تو ثقاہت کا کیسے پتہ چلے ، ایسے راوی کوصرف''مجہول'' یا مجہول العین کہتے ہیں۔
اور جہالتِ حال کا مطلب یہ ہے کہ دو آدمیوں کے اس سے روایت لے لینے کی وجہ سے اس کی شخصیت تومعلوم ہوئی مگرثقاہت کے بارے میں کسی امام جرح وتعدیل نے کچھ ذکرنہیں کیاہے ایسے راوی کومجہول الحال یامستورکہتے ہیں۔
مبہم : ایسے راوی کو کہتے ہیں جس کا نام معلوم نہ ہو، اس سے روایت کر نے والا ''عن رجل '' یا عن امرأۃ ''یا''عن أبیہ '' یا''عن أمہ'' یا ''جدہ'' یا ''عن عمہ'' یا ''جدتہ'' یا ''عن صاحب لہ'' وغیرہ جیسے مبہم ناموں سے اس کا ذکرکرتاہے تو جب نام ہی نہیں معلوم تو اس کی ثقاہت کاکیا اتہ پتہ، ہاں کسی خارجی ذریعہ سے اس کانام اورثقاہت معلوم ہوجائے تو اس کی روایت قبول کرلی جاتی ہے ۔
ناسخ ومنسوخ: ناسخ کے لغوی معنی زائل کرنے والا اور منسوخ کے لغوی معنی زائل کیا ہوا ہے۔
اصطلاح میں ناسخ اس حدیث کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ شارع نے پہلے حکم کو ختم کردیا ہو۔ اور منسوخ وہ حدیث ہے جس میں پہلے حکم کو اس ناسخ حدیث نے ختم کردیا ہو۔
(مرتبہ: أحمد مجتبی بن نذیر عالم السلفی)


* * * * *​
* * *​
*​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ اور سنن ابن ماجہ

(از ڈاکٹرعبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی)
٭ نام ونسب اور ولادت:
آپ کی کنیت ابو عبد اللہ ،نام محمد بن یزید بن عبد اللہ ہے، نسبت ’’ ربعی‘‘بالو لا ء ہے ، وطن قزوین کی نسبت سے آپ کو ’’قزوینی‘‘ لکھا جاتا ہے۔
لفظ ماجہ کی تحقیق : محدثین اور رواۃ کے نام و نسب اور دیگر حالات سے متعلق تدقیق و تنقیح کے لئے فن حدیث معروف ہے، لہذا ابن ماجہ کے سلسلہ میں بھی سوال پیدا ہوا کہ یہ لفظ موصوف کے دادا کا لقب ہے یا باپ کا یا ان کی ماں کا نام ہے؟ شاہ عبد العزیز دہلوی او رنواب صدیق حسن بخاری اسے ماں کا نام قراردیتے ہیں جب کہ رافعی نے التدوین فی اخبار قزوین (۲/۴۹)میں اسے ابن ماجہ کے والد یزید کا لقب مانا ہے، تاج العروس شرح القاموس المحیط (۲/۱۰۲)میں بھی یہی بات درج ہے اور معاصر تحقیق سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔
اس مقام پر ’’ ماجہ‘‘ کے سلسلہ میں یہ تو ضیح ضروری ہے کہ اس لفظ میں میم مفتوح ہے اور جیم پر تشدید نہیں ، آخری ہاء ساکن ہے، تاء مربوطہ نہیں، لکھنے میں طلبہ اس کا لحاظ نہیں کرتے اور تاء مربوطۃ سے لکھ دیتے ہیں۔
’’ ربعی‘‘ نسب کے سلسلہ میں علامہ ابن خلکان نے قبیلہ کا تعین نہیں کیا ہے،لیکن امام جزری نے وضاحت کی ہے کہ یہ نسبت ربیع بن نزار اور ربیعہ الازد کی طرف ہے۔
’’قزو ینی‘‘ نسبت قزوین کی طرف ہے، جو عراق عجم کا سب سے مشہورشہر ہے، سمعانی نے لکھا ہے کہ ’’اصبہان‘‘ کے نام سے معروف شہروں میں ایک شہر قزوین بھی ہے،متحدہ روس کے زوال کے بعد اس علاقہ کی اہمیت میں اضافہ ہوگیا ہے، اقتصاد وسیا ست کے مسائل تو ضرور ابھر ے ہیں، لیکن علوم اسلامیہ کی سابقہ گرم بازاری ابھی تک نہیں آئی ، اللہ کرے علوم دینیہ کے عروج کی بادبہاری ایک بار پھر علاقہ کا نصیب بن جائے ۔
طلب علم : ابن ماجہ کی پیدائش ۲۰۹ھ میں شہرقزوین میں ہوئی ، اس شہر کی علمی اور تمدنی حیثیت کا اندازہ صرف اس کی تاریخ پر مرتب التدوین فی تاریخ قزوین نامی کتاب سے ہوتاہے جو چار جلدوں میں مطبوع ہے ،آپ کا شمارقزوین ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے کبار ائمہ حدیث میں ہوتا ہے، ائمہ ستہ میں پیدائش کے اعتبار سے آپ کو امام نسائی سے پہلے ذکر کیا جاتا ہے، جبکہ سنن نسائی کا مرتبہ سنن ابن ماجہ سے افضل ہے۔
٭ تحصیل علم : علم حدیث کی تعلیم سب سے پہلے اپنے شہر کے علماء سے حاصل کی ، اس کے بعد اہل علم کے یہاں مروجہ دستور کے مطابق آپ نے مختلف ممالک اسلامیہ جیسے خراسان، عراق(کوفہ ،بصرہ)، حجاز (مکہ ومدینہ)، مصر، اور شام وغیرہ کے شہروں اور قصبات کا سفر کیا کیونکہ یہی علم و روایت کے معتبر اور مشہور مراکز تھے، اور اس عصر کے علماء علم حدیث میں تبحر کے لئے مختلف علمی مراکز کا سفر کرتے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭ اساتذہ کرام وشیوخ عظام:
آپ نے متعدد کبار ائمہ حدیث سے احادیث روایت کی ہیں ، جن میں ابو بکر عبداللہ بن ابی شیبہ صاحب (المصنف) سے کثرت سے احادیث روایت کی ہے، نیز ان مشایخ میں عثمان بن ابی شیبہ، مشہور امام حدیث وماہر جرح وتعدیل ابو خیثمۃ زہیر بن حرب، ناقد حدیث عبد الرحمن دحیم، نیز موطا امام مالک کے ایک راوی ابو مصعب الزہری ہیں، حافظ علی بن محمد الطنافسی سے گہرے تعلقات تھے، اور ان سے بکثرت احادیث روایت کی ہیں۔
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے جبارہ بن مغلس کی سند سے پانچ حدیثیں ثلاثی اسناد سے روایت کی ہیں، لیکن جبارہ ضعیف راوی ہیں، اس طرح سے آپ اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان تین راوی ہوتے ہیں، یعنی جبارہ ، جبارہ کے استاذ، اور استاذ الاستاذ صحابی جلیل انس بن مالک رضی اللہ عنہ ۔
علمی اسفار ورحلات:
عالم اسلام کے مختلف مراکز علم کا سفرکیا جیسا کہ علماء نے صراحت فرمائی ہے، ابن ماجہ نے بصرہ، کوفہ، بغداد، مکہ ،شام ،مصر ،ری، نیساپور کا سفر علم حدیث کے حصول کے لئے کیا(التقیید۱/۱۲۵)
ذیل میں ہم مختلف شہروں اور ان کے بعض مشہور شیوخ حدیث کا تذکرہ کرتے ہیں:
۱- مکہ مکرمہ: یہاں پر محمد بن یحیی بن ابی عمر العدنی، ابومروان محمد بن عثمان العثمانی، ھدیہ بن عبدالوہاب الصدقی اور ابراہیم بن محمد الشافعی سے احادیث کی سماعت فرمائی۔
۲- مدینہ منورہ: یہاں پر ابراہیم بن المنذر الحزامی، احمد بن ابی بکر الزہری سے سماع حدیث کیا۔
۳- مصر:یہاں پر یونس بن عبدالاعلی، عیسی بن حماد زغبہ، احمد بن عمروالسرح ، حرملہ بن یحیی اور محمد بن رمح وغیرہ سے روایت حدیث کی۔
۴- دمشق: یہاں پر ہاشم بن عمار، عبدالرحمن بن ابراہیم دحیم، عبداللہ بن احمد بن بشیربن ذکوان ، احمد بن ابی الحواری اور ابن المصفی سے استفادہ کیا ۔
۵- کوفہ: کوفہ میں ابوکریب، ھناد بن السری ، مسروق بن المرزبان، ابوبکر ابن ابی شیبہ، عثمان ابن ابی شیبہ، محمد بن اسماعیل بن سمرۃ الاحمسی، محمد بن عبداللہ بن نمیراور علی بن المنذر الطریقی سے احادیث سنیں۔
۶- واسط: یہاں پر احمد بن سنان القطان ، محمد بن عبادہ اور تمیم بن المنتصر وغیرہ سے روایت حدیث کی۔
۷- بصرہ: یہاں پر محمد بن بشار بندار، نصر بن علی، احمدبن عبدہ، عباس بن عبدالعظیم العنبری سے روایت کی ۔
۸- بغداد: یہاں پر ابوخیثمہ زھیر بن حرب، ھارون بن عبداللہ الحمال اور ابو ثور ابراہیم بن خالد الفقیہ سے روایت کی۔
۹- نیساپور:یہاں پر محمد بن یحیی ذہلی اور ان کے اقران سے روایت کیا۔
۱۰- ری:ری میں محمد بن حمید سے احادیث سنیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭ تلامذہ اور سنن کے راوی:
سنن کے چار راوی مشہور ہیں:
۱- ابو الحسن علی بن ابراہیم القطان، ہمارے سامنے موجود سنن ابن ماجہ کے راوی یہی ہیں، انہوں نے بعض حدیثیں اپنی سند سے بھی بیان کی ہیں جن کو زوائد ابن قطان کہا جاتا ہے، ابو الحسن القطان مؤلف ابن ماجہ کے شہر قزوین کے باشندہ تھے، ان کی ولادت ۲۵۴ ھ میں ہوئی، آپ قزوین کے عالم اور محدث تھے ، علم حدیث کے لئے اسفار کیے اور بکثرت احادیث لکھیں (تذکرۃ الحفاظ )
۲- سلیمان بن یزید قزوینی
۳- ابو جعفر محمد بن عیسی المطوعی
۴- ابو بکر حامد الابھری
۵- اس کے علاوہ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں رواۃ سنن میں سعدون
۶- اور ابراہیم بن دینار کا اضافہ کیا ہے
٭ تلامذہ:
آپ سے کبار علماء نے روایت حدیث کی ،جن میں ابن سمویہ،محمد بن عیسی الصفار،اسحاق بن محمد، ابو الحسن علی بن ابراہیم بن سلمہ القزوینی الحافظ،احمد بن ابراہیم قزوینی(جدحافظ ابی یعلی خلیل بن عبداللہ)اور سلیمان بن زید ہیں(ملاحظہ ہو : التقیید ۱/۱۲۶)
۱- علی بن سعید بن عبداللہ الغدانی
۲- ابراہیم بن دینار الجرشی الہمدانی
۳- جعفر بن ادریس
۴- الحسین بن علی بن برانیاد
۵- سلیمان بن یزید القزوینی
۶- ابو عمرو احمد بن محمد بن حکیم المدنی الاصبہانی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭ تألیفات:
امام ابن ماجہ نے مندرجہ ذیل کتابیں تصنیف فرمائیں:
۱- تفسیر القرآن الکریم:امام مزی کو اس کتاب کے صرف دو منتخب جزء ملے تھے (تہذیب الکمال ۱/۱۵۰)
۲- سنن ابن ماجہ
۳- التأریخ :حافظ محمد بن طاہر مقدسی کہتے ہیں: «رأيت الابن ماجه بمدينة قزوين تاريخًا على الرجال والأمصار إلى عصره » (شروط الائمۃالستہ۲۴ و السیر ۱۳؍۲۷۹)۔
(میں نے شہر قزوین میں ابن ماجہ کی رجال و امصار کی تاریخ دیکھی جو آپ کے زمانہ تک پر مشتمل ہے)۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ: استاذ محمدمطیع الحافظ نے مجمع اللغہ العربیہ دمشق ۱۹۷۹؁ء سے تاریخ الخلفاء کے نام سے ابن ماجہ کی ایک کتاب شائع کی ہے، لیکن اس نام کی کتاب کو کسی اہل علم نے ابن ماجہ سے منسوب نہیں کیا ہے اور ظاہر ہے کہ ابن ماجہ کی تاریخ عہد صحابہ سے ان کے عہد تک پر مشتمل ہوگی اور وہ مبسوط اورمفصل ہوگی ،پھر تاریخ الخلفاء کے مولف نے عباد بن عباد المہلبی سے روایت کی ہے اور ان کی وفات ۱۸۱ ھ کی ہے اور ہیثم بن عدی سے روایت کی ہے اور ان کی وفات ۲۰۷ ھ میں ہے، جبکہ ابن ماجہ کی ولادت ان دونوں کی وفات کے بعد ۲۰۹ ھ میں ہوتی ہے ، اور تاریخ الخلفاء کے مولف کی ولادت تقریبا ۱۶۵ ھ میں ہوئی ہوگی اور وفات تقریبا ۲۴۷ ھ میں ، کیوں کہ اسی سن تک کی یہ تاریخ ہے ،پھر اس کے بعد اس کی تکمیل ان کے شاگرد نے کی ہے ، تفصیل کے لئے ملاحظ ہو: الائمہ الستہ للشیخ عبدالوہاب بن عبدالعزیز الزید ط دارالامام مالک ۱۴۱۹ ھ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭ابن ماجہ اور ان کی سنن علمائے حدیث کی نظر میں:
۱- حافظ محمد بن طاہرمقدسی فرماتے ہیں: آپ کی کتاب السنن بڑی جامع، عمدہ، اور کثیر ابواب وغرائب حدیث والی ہے، اور اس میں شدید ضعیف احادیث بکثرت ہیں، حتی کہ السری کا یہ مقولہ مجھے پہنچا کہ جن احادیث کو ابن ماجہ نے تنہا روایت کیا ہے وہ اکثرضعیف ہیں، لیکن میرے تتبع اور استقراء میں ایسی بات نہیں ہے، لیکن فی الجملہ اس میں بکثرت منکر احادیث موجود ہیں، واللہ المستعان۔
۲- حافظ ابو یعلی خلیل بن عبداللہ فرماتے ہیں: « هو -أي: ابن ماجه- ثقةٌ كبيرٌ، متفقٌ عليه، محتجٌ به، له معرفةٌ بالحديث وحفظٌ ارتحل الى العراقين -البصرة والكوفة - وبغداد و مكة والشام ومصر والري لكتب الحديث » (التقیید ۱/۱۲۵ ،سیر اعلام لنبلاء ۱۳/۲۷۹ وتذکرۃ الحفاظ ۲؍۶۳۶، تہذیب التہذیب ۹؍۵۳۱) ( آپ ابن ماجہ ثقہ ، متفق علیہ قابل استناد بڑے عالم ہیں، آپ کو علم حدیث میں معرفت حاصل ہے، حافظ بھی ہیں، آپ کی مصنفات سنن، تفسیر، اور تاریخ میں ہیں، کوفہ ،بصرہ، بغداد، مکہ، شام، مصر اور ری کا سفر علم حدیث لکھنے کے لئے کیا)
نیز فرمایا :عالم بهذاالشان ورع، مكثر،صحاب تصانيف في التاريخ والسنن،اتحل إلي العراقين ومصر وشام و نسيابور(التقیید ۱/۱۲۵) (آپ فن حدیث کے عالم تھے،صاحب ورع و تقوی ،کثیر الروایہ، تاریخ اور سنن کے مصنف تھے،کوفہ ، بصرہ،مصر ،شام اور نیساپور کا سفر کیا)
۳- امام ذہبی نے آپ کو الحافظ الکبیر الحجۃ المفسر و حافظ قزوین فی عصرہ کا خطاب دیا ہے، نیز دوسری جگہ فرمایا: قد كان ابن ماجه حافظاً ناقداً صادقاً واسع العلم یعنی ابن ماجہ حافظ حدیث ، ناقد ،سچے ، وسیع علم والے تھے اور اپنے زمانہ کے بڑے قابل حجت حافظ حدیث تھے اور قزوین کے حافظ حدیث تھے، ساتھ ہی مفسر قرآن بھی تھے ۔
۴- حافظ ابو الحجاج المزی فرماتے ہیں کہ ابن ماجہ کے سارے تفردات ضعیف ہیں، یعنی ائمہ خمسہ سے ہٹ کر تنہا جن احادیث کی روایت فرمائی ہے وہ ضعیف ہیں ۔
٭ سنن ابن ماجہ کے بارے میں ناقد حدیث امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ کی راے :
امام ابن ماجہ فرماتے ہیں : عرضت هذه السنن على أبي زرعة الرازي فنظر فيه وقال " أظن إن وقع هذا في أيدي الناس تعطلت هذه الجوامع أو أكثرها ثم قال : لعل لايكون فيه تمام ثلاثين حديثاً مما في إسناده ضعف أو نحو ذا(سیر أعلام النبلاء ۱۳ / ۲۷۸ ' تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۳۶)۔
(امام موصوف کا بیان ہے کہ سنن کو میں نے ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے اسے ملاحظہ کیا اور فرمایاکہ میرے خیال میں اگر یہ کتاب لوگوں کے ہاتھ لگ گئی تو جوامع یا اکثر مدونات حدیث معطل ہو کر رہ جائیں گی،پھر فرمایا: شاید پوری تیس حدیثیں بھی اس کتاب میں ایسی نہ ہوں جن کی سندوں میں ضعف ہے)۔
حقیقت میں امام ابو زرعہ رحمہ اللہ سے منسوب یہ تبصرہ بڑا عجیب سا ہے، اسی لئے امام ذہبی رحمہ اللہ نے بشرط صحت اس پر تبصرہ ان الفاظ میں فرمایا : قلت: كان ابن ماجه حافظاً ناقداً صادقاً واسع العلم وإنما غض من رتبة''سننه'' ما في الكتاب من المناكير وقليل من الموضوعات و قول أبي زرعة - إن صح - فإنما عني بثلاثين حديثاً الأحاديث المطرحة الساقطة، وأما الأحاديث التي لاتقوم بها حجة فكثيرة لعلها نحو الألف.
(امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابن ماجہ حافظ، ناقد، صادق اور وسیع العلم تھے، ان کی سنن کے مرتبہ گھٹنے کی وجہ اس میں موجود منکر اور بعض موضوع احادیث ہیں، ابو زرعہ کے بیان کی صحت کو مانتے ہوئے ان کے اس قول کہ ان کی سنن میں تیس ضعیف حدیثیں ہونے کا مطلب ساقط اور مردود حدیثیں ہیں، ورنہ ایسی حدیثیں جو نا قابل استدلال ہیں وہ بہت ہیں اور شاید وہ ہزارکے قریب ہوں)۔
ابو زرعہ رحمہ اللہ کی اس عبارت کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ کا یہ تبصرہ گویا دوسریلفظوں میں ان کے بیان کی حقیقت کے بارے میں شک وشبہہ کا اظہار ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کی تضعیف فرمائی ہے ،فرماتے ہیں :
هي حكاية حكاها ابن طاهر المقدسي عن أبي زرعة الرازي ولا تصح لانقطاع إسنادها وإن كانت محفوظة فلعله أراد ما فيه من الأحاديث الساقطة إلى الغاية أو كان مارأى من الكتاب إلا جزئً منه فيه هذا القدر.
(اس حکایت کو ابن طاہر مقدسی نے ابو زرعۃ رازی سے نقل کیا ہے لیکن اس کی سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ صحیح نہیں ہے اور اس کے صحیح اور محفوظ ہونے کی صورت میں شاید کہ انتہائی درجہ کی ساقط اور ضعیف احادیث کی بات کہی ہے یا یہ کہ کتاب کا ایک جزء دیکھا تھا اور اس میں یہ ضعیف حدیثیں ملیں)
مذکورہ بالا علماء کے بیانات کے بعد اصل حکایت کو ہم تاریخ دمشق سے پیش کرتے ہیں ، جس سے بات مزید واضح ہوجائے گی:
قال ابن عساكر في تأريخه: قرأت بخط علي بن عبدالله بن الحسن الرازي - فيما نقله من خط غيره - قال أبوعبدالله ابن ماجه رحمه الله : وآخرها (...لعل لا يكون فيه تمام ثلاثين حديثا مما في إسناده ضعف، أوقال : عشرين، أو نحو هذا الكلام)
ابن عساکر اپنی تاریخ دمشق میں کہتے ہیں کہ میں نے علی بن عبداللہ بن حسن رازی کے قلم سے لکھی تحریر پڑھی جس کو انہوں نے کسی دوسرے کی تحریر سے نقل کیا تھا کہ ابوعبداللہ ابن ماجہ نے فرمایا پھر مذکورہ بالا قول نقل کرنے کے بعد اس کے آخر میں یہ عبارت ہے کہ شاید کہ اس سنن میں تیس حدیثیں ایسی نہیں ہوں گی کہ جن کی سند میں ضعف ہو یا فرمایا : بیس حدیثیں یا اس طرح کی بات کہی، پھر اس کے بعد کی عبارت یہ ہے:
قال: وحكي أنه نظر في جزء من أجزائه ، وكان عنده في خمسة أجزاء)
(بیان کیا گیا ہے کہ ابوزرعہ نے ابن ماجہ کا صرف ایک جزء دیکھا تھا ،اور ان کے پاس یہ کتاب پانچ جزء میں تھی )
پھر اس کے بعد ابن عساکر فرماتے ہیں:
أخبرنا أبوالمعمر الأنصاري، أنا أبوالفضل المقدسي قال: رأيت على ظهرجزء قديم بالري حكاية كتبها أبوحاتم الحافظ - المعروف بخاموش - قال أبوزرعة الرازي : طالعت كتاب أبي عبدالله ابن ماجة فلم أجد فيه إلاقدرا يسيرا مما فيه شيء،وذكر قريب تسعة عشر - أو ما هذا معناه - (تاريخ ابن عساكر (56/271 - 272)
ہمیں ابو المعمر انصاری نے خبر دی کہ ان سے ابوالفضل مقدسی نے بیان کیا کہ میں نے ری میں ایک قدیم جزء کے غلاف پر یہ حکایت دیکھی جس کو حافظ ابوحاتم خاموش نے لکھا تھا کہ ابوزرعہ رازی فرماتے ہیں: میں نے ابوعبداللہ ابن ماجہ کی کتاب (سنن ) کا مطالعہ کیا جس میں مجھے صرف تھوڑی تعداد ملی جس میں کچھ کلام ہے ، اور تقریباً (۱۹) حدیث کا ذکر کیا یا اس معنی کی کوئی بات کہی ۔
یہی قول ابن طاہر مقدسی کی کتاب شروط الائمہ الستہ (۲۴)اورالتقییدلابن نقطہ (۱/۱۲۴- ۱۲۵) میں ہے اور دونوں میں(تسعۃ عشر) کے بجائے (بضعۃ عشر) کا لفظ ہے (ا/۱۲۴) میں بھی ایسے ہی ہے ۔
ابن نقطہ نے ابن طاہر کے حوالہ سے ابوزرعہ رازی کے قول کو نقل کرنے کے بعد فرمایا: و حسبك من كتاب يعرض على أبي زرعة الرازي ويذكرهذا الكلام بعدإمعان النظر والنقد.(التقیید ۱/۱۲۴)
(تمہارے لئے اس کتاب کے بارے میں یہی کافی ہے کہ یہ کتاب ابوزرعہ رازی پر پیش کی جائے اور گہری نقد و نظر کے بعد یہ کلام فرمائیں)، پھر اس کے بعد ابن طاہر فرماتے ہیں :

ولعمري إن كتاب أبي عبدالله بن ماجه من نظرفيه علم مزية الرجل من حسن الترتيب ،و غزارة الأبواب ، وقلة الأحاديث، وترك التكرار، ولايوجد فيه من النوازل، والمقاطيع، والمراسيل،والرواية عن المجروحين إلاقدر ما أشار إليه أبو زرعة.
وهذاالكتاب وإن لم يشتهرعندأكثرالفقهائفإن له بالري وماوالاها من ديارالجبل، وقوهستان،ومازندران وطبرستان شأن عظيم عليه اعتمادهم،وله عندهم طرق كثير، وقد ذكر له في تاريخ قزوين ما يعرف به الجاهل قدره ومنزلته (التقیید24/1).
قسم ہے کہ ابوعبداللہ ابن ماجہ کی کتاب کو جس نے دیکھا اسے موصوف کے امتیازی علم کا پتہ چلا ،اس اعتبار سے کہ کتاب کی ترتیب بڑی عمدہ ہے، ابواب بہت زیادہ ہیں اور ان ابواب میں احادیث کم اورتکرار سے خالی ہیں، ان احادیث میں نازل اسناد والی احادیث ، مقاطیع( یعنی آثار تابعین) اور مرسل حدیثیں اور مجروح رواۃ سے روایت نہیں ہے،سوائے اس مقدار کے جس کا ذکر ابوزرعہ نے کیا ، اور یہ کتاب فقہاء کی اکثریت کے ہاں مشہور نہ ہوسکی لیکن ری ا ور اس کے نواحی علاقے :دیار جبل (پہاڑی علاقے )نیز قوہستان، مازندران اورطبرستان میں اس کتاب کی بڑی قدر وعظمت ہے اور لوگوں کا اس پراعتماد ہے لوگوں کے پاس اس کے بہت سے طرق ہیں اور تاریخ قزوین میں اس کے بارے میں تذکرہ سے اس کی قدر و منزلت کا حال جاہل اور ناواقف لوگوں کو ہوجائے گا(۱/۱۲۴)
سابقہ بیانات میں پوری کتاب کی اسانید یا احادیث پر تبصرہ مفصل نہیں تھا ، جبکہ امام ذہبی جن کا رجال حدیث اور نقد حدیث میں جو مرتبہ ہے وہ سب پر واضح ہے، اور صحیحین سے خارج کتب ستہ کے رواۃ پر ان کی مستقل کتاب بھی ہے ،نیز کتب ستہ کے رواۃ پر الکاشف میں بھی آپ نے سارے رواۃ پر کلام کیا ہے ، آپ کی رائے میں ضعیف احادیث کی تعداد ہزار کے قریب ہوتی ہے ، ظاہر بات ہے کہ یہ تبصرہ ضعیف رواۃ کی روایتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے ، اور تفصیلی طور پر زوائد کے بارے میں امام بوصیری کے احادیث پرتبصرے مصباح الزجاجہ میں موجود ہیں ، معاصرمحقق علماء میں علامہ محمد بن ناصرالدین البانی کی کتاب ضعیف ابن ماجہ میں ان ضعیف حدیثوں کی تعداد (۸۷۷) ہے ،جن میں موضوع حدیثیں بھی ہیں اور یہ تبصرہ امام ذہبی کے مجمل تبصرہ سے قریب تر ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
٭ وفات:
۲۲ ؍ماہ رمضان، بروز دوشنبہ ۲۷۳؁ھ میں آپ کا انتقال ہوا، عمر ۶۴ سال کی تھی۔
حافظ ابن طاہرمقدسی کا ارشاد ہے: ''میں نے آپ کی تالیف تاریخ دیکھی ہے، جس کے آخر میں جعفر بن ادریس صاحب نسخہ کے قلم سے یہ مرقوم ہے کہ ابو عبداللہ کا انتقال رمضان ۲۷۳؁ھ میں ہوا، ابھی رمضان کے آٹھ دن باقی تھے، اور میں نے ابن ماجہ کو اپنے بارے میں یہ کہتے ہوا سنا کہ میری پیدائش ۲۰۹؁ھ میں ہوئی''، آپ کی صلاۃِ جنازہ ابو بکر نے پڑھائی، اور کفن دفن کا انتظام آپ کے بیٹے عبداللہ وغیرہ نے کیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی وفات ۲۷۵؁ھ میں ہوئی(التقیید لمعرفۃ الرواۃ والسنن المسانید لابن نقطہ ۱/۱۲۲ )
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سنن ابن ماجہ کا تعارف

امام ذہبی رحمہ اللہ نے سنن ابن ماجہ میں موجود کتابوں کی تعداد (۳۲) ذکر فرمائی ہے، اور ابوالحسن القطان راوی کتاب سے نقل فرمایا ہے کہ سنن میں (۱۵۰۰) ابواب ہیں، نیز امام ذہبی رحمہ اللہ نے احادیث کی تعداد (۴۰۰۰) بتائی ہے۔
استاذ محمد فواد عبدالباقی کے ایڈیشن میں مقدمہ کتاب کے علاوہ (۳۷) کتابوں کا ذکر ہے، اس طرح مقدمہ کو ملا کر (۳۸) کتابیں ہوجاتی ہیں، اور ابواب کی تعداد (۱۵۱۵) ہے، اور حدیثوں کی تعداد (۴۳۴۱)ہے، اس طرح امام ذہبی رحمہ اللہ کے بیان اور مذکورہ ایڈیشن میں موجود تعداد قریب قریب یکساں ہی ہے۔
اختلاف نسخ کا بھی فرق ملحوظ رکھنا چاہئے۔
ابن ماجہ کی (۴۳۴۱) احادیث میں (۳۲۰۰) حدیثیں صحاح ستہ کی پانچ کتابوں یعنی بخاری، مسلم، ابو داود، ترمذی، نسائی میں یا ان میں سے کسی ایک میں موجود ہیں۔
اس طرح سے امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے مذکورہ کتابوں پر (۱۳۳۹) حدیثوں کا اضافہ فرمایا ہے جن کو ''زوائد ابن ماجہ'' کہا جاتا ہے۔
حافظ بوصیری نے ان زوائد کی تحقیق وتخریج پر مشتمل ایک کتاب ''مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ'' لکھی ہے، اور مذکورہ احادیث پر کلام کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان احادیث میں سے (۴۸۲) احادیث صحیح یا حسن ہیں، یعنی قابل استناد واستدلال ، اور (۶۱۳) حدیثیں ضعیف ہیں، ان میں (۹۹) حدیثیں زیادہ ضعیف یا منکر وموضوع ہیں۔
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ''ضعیف ابن ماجہ'' میں (۸۷۷) احادیث کا تذکرہ کیا ہے جن میں فضل قزوین کی حدیث بلا شبہہ موضوع ہے،(ملاحظہ ہو: ابن ماجہ۲۷۸۰) اس حدیث کو ابن الجوزی نے ''کتاب الموضوعات'' میں ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے : « هذا حديث موضوع لا شك فيه »، اور داود بن المحبر کو اس حدیث کا واضع قرار دیا ہے، ان کی عبارت یہ ہے: « لاأتهم بوضع هذا الحديث غيره، والعجب من ابن ماجه مع علمه كيف استحل أن يذكر هذا في كتابه السنن ولا يتكلم ... » (الموضوعات ۸۸۴)۔ (میں اس حدیث کے وضع کرنے میں داود بن المحبرکے علاوہ کسی اور کو متہم نہیں گردانتا،ابن ماجہ نے اپنے علم وفضل کے باوجود اپنی کتاب ''السنن ''میں ذکرکرنا کیسے جائز کیا اور اس پرکلام نہیں کیا )
 
Top