صحاح ستہ کے مؤلفین کی شروط
صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اپنی تالیف کے بارے میں کوئی ایسی وضاحت نہیں کی ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ فلاں مؤلف کی احادیث کی تخریج کے بارے میں شرط و قید ایسے اور ایسے ہے، لیکن اہل علم نے ان کتابوں پر غور و خوض کرنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کتابوں میں سے کس کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور کس کی کیا شرط ہے۔
جن ائمہ نے اپنی کتاب کا نام الصحیح رکھا ہے تو اس نام سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں ایسی احادیث کو جگہ دی ہے جن پر صحیح کی شرطوں کا انطباق ہوتا ہے ، یعنی ان احادیث کے رواۃ ثقہ و عادل اور پختہ حفظ کے مالک ہیں اور ایک راوی نے دوسرے راوی سے ابتداء سے سند کی انتہاء تک سنا ہے ، اسی کو سند کا اتصال کہتے ہیں اور حدیث شذوذ اور علت قادحہ سے پاک ہو، امام ابن مندہ(م ۳۹۵ھ) نے طبقات رواۃ اور ان کی حدیثی خدمات کے مرحلہ وار تذکرے کے بعد جو عہد تابعین سے احمد بن حنبل اور ان کے اقران و تلامیذ پر مشتمل ہے فرمایا :پھر سابقہ جن علمائے متقدمین کا ذکر ہم نے کیا ہے ،ان کا علم ان ائمہ کے پاس آیا ہے :
۱- ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل،۲- ابو زکریا یحیی بن معین، ۳- علی بن المدینی،۴- ابوبکر بن ابی شیبہ،۵-عثمان بن ابی شیبہ،۶- ابو خثیمہ زہیر بن حرب،۷- محمد بن عبداللہ بن نمیر اور جوان کے بعد کے علماء ہیں ، ان سارے علماء امصار و بلدان کا علم مندرجہ ذیل علماء کے پاس پہنچا جو اہل معرفت و اصحاب صحیح ہیں ، اور وہ یہ ہیں: بخاری ، مسلم، دارمی، ابوداوداور نسائی ،اور اس طبقہ کے لوگ ،اس طبقہ کی احادیث متفقہ طور پر مقبول ہیں اور ان کاعلم دوسرے لوگوں پر حجت و سند ہے ،پھر فرمایا :
اور دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جن کو اہل معرفت و تمیز کی ایک جماعت نے قبول کیا اور دوسروں نے ان کو رد کردیا، پھر ان کی مثالیں دیں اور فرمایا کہ ان سے بخاری نے روایت کی اور مسلم نے ان کو ترک کردیا یا مسلم نے ان سے روایت کی اور بخاری نے ان کی حدیث میں کلام کی بناء پر یا مذہب میں غلو کی بناء پر انہیں ترک کردیا ،اور ان علماء کی اس منہج میں اتباع ابوداود ، نسائی اور ان سارے لوگوں نے کی جنہوں نے اس طریقہ کو اختیار کیا ، اور یہ چند رواۃ کو چھوڑ کرسب ابوداود اور نسائی کے مذہب پر مقبول الروایہ ہیں، اس کے بعد ابن مندہ نے رواۃ حدیث پر علی بن مدینی کا کلام نقل کیا جن پر امام زہری سے لے کر ان کے اپنے زمانے تک علم حدیث کی روایت میں دارو مدار رہا ہے اور علی بن مدینی کے بارے میں فرمایا کہ علم حدیث میں ان کا شمار ان ائمہ میں ہوتا ہے جو مرجع اور سند کے حیثیت رکھتے ہیں ، پھر فرمایا : ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ دین اور علم میں علی بن مدینی سے اعلی و افضل تھے ، یحیی بن معین اور ابن ابی شیبہ اور اس طبقہ کے علماء علم حدیث میں آپ کے علم و فضل کے منکر نہیں تھے ، اور ایسے ہی ان سے پہلے کے علماء جیسے سفیان بن عیینہ ، یحیی بن سعید القطان اور عبدالرحمن بن مہدی اور ان کے بعد ان کے تلامذہ میں سے محمد بن اسماعیل البخاری ، ابو حاتم الرازی اور ابو زرعہ الرازی اور ان کے اقران جن لوگوں نے علی بن مدینی سے اس علم کو حاصل کیا ، پھر عرض کیا کہ علی بن مدینی نے جس طرح علماء کے طبقات کا تذکرہ کیا ہے میں بھی ایسے علماء کا ذکر کروں گا، جن کی طرف علماء نے حدیث کی نسبت کی ہے اورجن کا تفرد قابل حجت واستدلال مانا ہے، جو اپنے مخالفین پر حجت تھے، اور جو اپنے زمانہ میں ائمہ تھے اور جن سے ائمہ اربعہ جنہوں نے صحیح احادیث کی تخریج کی اور صحیح کو معلول سے ممیز کیا اور خطا کو صواب سے الگ کیا اور وہ بخاری ، مسلم ،ابوداود اور نسائی ہیں اور اس کے بعد وہ علماء جنہوں نے اس طریقہ کو اپنایا اور اس منہج کی اتباع کی گرچہ ان سے فہم میں کم درجہ کے تھے اوروہ درج ذیل علماء ہیں:
۱- عبداللہ بن عبدالرحمن سمر قندی(دارمی) ،۲- ابوعیسی محمد بن عیسی ترمذی ،۳- محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیساپوری ، ۴- احمد بن عمرو بن ابی عاصم النبیل رحمہم اللہ ۔
میں نے ابو علی حسین بن علی نیساپوری کو یہ کہتے ہوئے سنا :'' ماتحت أدیم السماء کتاب أصح من کتاب مسلم بن الحجاج ''( آسمان کے نیچے مسلم بن حجاج کی کتاب سے زیادہ صحیح کوئی اور کتاب نہیں ہے )
اور محمد بن یعقوب الاخرم سے سنا:
كلا ما يفوت البخاري ومسلما مما يثبت من الحديث(بخاری ومسلم سے کم ہی صحیح اور ثابت حدیثیں چھوٹی ہیں )
اور محمد بن سعد البارودی سے مصر میں یہ کہتے ہوئے سنا:
كان من مذهب النسائي أن يخرج عن كل من لم يجمع على تركه(نسائی کا مذہب یہ تھا کہ جو رواۃ اجماعی طور پر متروک الحدیث نہیں ہے ان سے روایت کی جائے )
ابوداود کا بھی یہی مذہب تھا ،وہ ضعیف سندوں کی تخریج اس واسطے کرتے تھے کہ ان کے نزدیک وہ آراء رجال سے زیادہ قوی ہوتی تھیں ۔
امام محمد بن طاہر مقدسی (م ۵۰۷ ھ) فرماتے ہیں : جان لیں کہ بخاری ومسلم اور جن لوگوں کو ہم نے ان کے بعد ذکر کیاہے (یعنی ابوداود، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ) میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ میری شرط اپنی کتاب میں ایسے اور ایسے رواۃ سے حدیث کی تخریج کی ہے ،یہ تو صرف اس کو معلوم ہوگا جو ان کی کتابوں کو غور سے پڑھے گا تو ہر مولف کی شرط کا اس کو علم ہوجائے گا (شروط الائمہ ۱)
امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتابوں کو الصحیح کا نام دیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے شروط صحت کا اہتمام کیا ہے ،امام بخاری سے یہ قول منقول ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث داخل کی ہیں اور جن صحیح احادیث کو چھوڑ دیا ہے وہ اس سے زیادہ ہیں(شروط الائمہ ۴۹و تدریب الراوی ۱/۹۹)
ابن الصلاح نے مقد مہ علوم حدیث میں بخاری کاقول ذکر کیا ہے کہ میں نے اپنی جامع میں صرف صحیح احادیث داخل کی ہیں اور طوالت کے باعث بقیہ دوسری صحیح احادیث چھوڑ دی ہیں۔
امام مسلم فرماتے ہیں : میں نے اس کتاب یعنی صحیح مسلم میں احادیث صحیحہ کی تخریج کی ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ جن احادیث کو میں نے اس کتاب میں داخل نہیں کیا ہے وہ ضعیف ہیں، میں نے یہ صحیح احادیث میں سے تخریج کی ہیں تاکہ میرے پاس یہ مجموعہ ان لوگوں کے لئے رہے جو مجھ سے ان احادیث کو لکھنا چاہیں اور ان کی صحت کے بارے میں ان کو کوئی شک و شبہ نہ ہو، میں نے یہ نہیں کہا کہ ان احادیث کے علاوہ بقیہ احادیث ضعیف ہیں (شروط الائمہ ۶۳)
امام قرطبی نے صحیح مسلم کی شرح المفہم میں بخاری و مسلم کے اقوال سے استدلال کرکے یہ فرمایا کہ یہ ان دونوں کے نصوص اس بات پر ہیں کہ ان دونوں کی شرط صرف صحیح احادیث کی تخریج ہے ۔
امام مسلم نے مقدمہ صحیح مسلم میں تین ایسے طبقات رواۃ کا ذکر کیاہے جن میں سے وہ سب سے پہلے طبقہ کی احادیث پر اعتماد کریں گے ، پھر دوسرے طبقہ کی احادیث کو داخل کتاب کریں گے اور تیسرے طبقہ کی احادیث سے صرف نظر کریں گے۔
امام حازمی کی بیان کردہ صحیحین کی شرط کو سخاوی نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے :
''بخاری کی شرط یہ ہے کہ وہ ایسے ثقہ ، متقن اور شیوخ حدیث کے ساتھ برابر رہنے والے رواۃ کی متصل سندوں سے حدیث کی تخریج کریں جنہوں نے اپنے شیوخ کے ساتھ سفر و حضر میں ایک طویل مدت گذاری ہو ، کبھی کبھی اس سے کم درجہ کے رواۃ جنہوں نے اپنے شیوخ کے ساتھ تھوڑی مدت گزاری ہے ان کی روایتوں کو بھی اپنی صحیح میں جگہ دی ہے ، رہ گیا امام مسلم کا معاملہ توانہوں نے دونوں طبقوں کی احادیث کو بالاستعاب اپنی صحیح میں جگہ دی ہے اور طول صحبت کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے رواۃ کی احادیث کی بھی تخریج کرتے ہیں جو جرح سے نہ بچ سکیں، اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اس راوی نے اپنے شیخ کے ساتھ طویل زمانہ گزارا ہے جیسے حماد بن سلمہ کی روایت ثابت البنانی سے اس لئے کہ حماد نے ان کے ساتھ طویل وقت گزارا ہے تو اس کی وجہ سے ثابت کی احادیث کا صحیفہ حماد کے اختلاط کے بعد بھی پہلی حالت کی طرح ان کو ازبر اور یاد تھا ، اور امام مسلم کا اس طبقہ کے بارے میں رویہ امام بخاری کے دوسرے طبقہ کے ساتھ تعامل کی طرح ہے ، پھر عرض کیا کہ اور یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ امام مسلم نے معاصرت کی موجودگی میں عنعنہ کی روایت کو کافی سمجھا اور امام بخاری نے کم از کم ایک بار راوی کی شیخ سے ملاقات کو شرط مانا اور یہ صحیحین میں تحری اور
تثبت کی وجہ سے تھا۔
سنن اربعہ احادیث احکام کے باب میں صحیحین اور موطا کے بعد قابل اعتماد اہم مراجع حدیث ہیں ، ان کی شروط کا خلاصہ حافظ ابن طاہر مقدسی نے یوں کیا ہے کہ یہ ائمہ ایسے رواۃ احادیث کی تخریج کرتے ہیں جن کے متروک ہونے پر اجماع نہیں ہے ، ان کی کتاب میں وارد احادیث کی تین قسمیں ہیں :
۱- ایسی صحیح احادیث جو صحیحین یا دونوں میں سے کسی ایک میں موجود ہیں یا دونوں کی شرط پر پوری اترتی ہیں۔
۲- ان ائمہ کی اپنی شرط پر یعنی ایسے رواۃ سے احادیث کی روایت جن کو اجماعی طورپر متروک نہیں قراردیا گیا ہے بشرطیکہ کے حدیث متصل سند کے ساتھ صحیح ہو اور اس میں انقطاع اور ارسال نہ ہو ۔
۳- وہ احادیث جن کوان ائمہ نے یہ بتانے کے لئے اپنی کتابوں میں داخل کیاہے کہ یہ صحیح احادیث کے مخالف اور معارض ہیں ۔
۴- اور سنن ترمذی میں احادیث کی ایک چوتھی قسم بھی ہے اور وہ ایسی احادیث جن پر بعض فقہاء کا عمل رہا ہے (
شروط الائمہ الستہ للمقدسی ۱۲)
امام حازمی نے ائمہ کی ان شروط کو امام زہری کے تلامذہ کو پانچ طبقات میں تقسیم کرکے واضح کیا ہے کہ تلامذہ زہری کا پہلا طبقہ اہل اتقان کا ہے جو امام بخاری کا مقصود ہیں ، اور دوسرا طبقہ پہلے سے کم تر اس واسطہ ہے کہ طول زمانی اور ممارست حدیث میں پہلے سے کمزور ہیں اور یہ امام مسلم کی شرط کے راوی ہیں ، اور تیسرے طبقہ میں وہ رواۃ ہیں جو رد و جرح سے نہ بچ سکیں ،تو یہ رد وقبول کے مابین کا طبقہ ہے جو ابوداود اور نسائی کی شرط والے رواۃ ہیں ، اور چوتھے طبقہ میں ایسے رواۃ ہیں جنہوں نے زہری کے ساتھ زیادہ زمانہ نہیں گزارا ہے اس لئے ان کی احادیث میں ممارست نہیں ہوپائی ہے تو یہ ترمذی کی شرط والے رواۃ ہیں ، اور پانچواں طبقہ ان ضعیف اور مجہول راویوں پرمشتمل ہے جن کی احادیث کو اصحاب سنن نے اعتبار اور استشہاد کی غرض سے اپنی کتابوں میں داخل کیا ہے (
شروط الائمہ الخمسہ )
مذکورہ بالا تفصیل اور تقسیم میں صرف ابن طاہر مقدسی نے ابن ماجہ کو اصحاب سنن اربعہ میں داخل کیا ہے ، ابن مندہ نے ابن ماجہ کا نام ہی نہیں لیا اور حازمی نے شروط الائمہ الخمسہ میں بخاری ، مسلم ، ابوداود ، نسائی اور ترمذی کو داخل کیا ہے ، یعنی ابن ماجہ سے تعرض ہی نہیں کیا ، عملی طور پر ابن ماجہ کے رواۃ میں ضعیف اور مجروح رواۃ کی کثرت اور احادیث کی اتنی بڑی تعداد جن میں بعض احادیث موضوع بھی ہیں کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ سنن ابن ماجہ کا درجہ باعتبار صحت سنن ابی داود، نسائی اور ترمذی سے کم ہے ، اسی لئے ابویعلی الخلیلی کا یہ تبصرہ برمحل ہے :
سنن ابن ماجه كتاب حسن لولاماكدره من أحاديث واهية ليست بالكثيرة.(سنن ابن ماجہ اچھی کتاب ہے ، اگرضعیف احادیث کی روایت سے اس کو نقصان نہ پہنچادیا ہوتا )
اوپر یہ گزرا کہ ابن ماجہ کے تفردات پر ضعف غالب ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء نے صحت اور ضعف کے اعتبار سے ان کتابوں کے مراتب میں اصول خمسہ کے ساتھ موطا یا سنن دارمی کو داخل کیا ہے ،جیسا کہ حافظ ابن حجر کا ارشاد ہے کہ سنن دارمی کا رتبہ سنن اربعہ سے کم نہیں بلکہ اگر اس کو ابن ماجہ کی بجائے سنن خمسہ میں ملادیا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں ،یہ ابن ماجہ سے بہرحال اولی اور امثل ہے ، اور امام مزی فرماتے ہیں کہ جن احادیث میں ابن ماجہ منفرد ہیں ان پر ضعف غالب ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء نے اصول خمسہ کے ساتھ موطا یا سنن دارمی کو شامل کیا ہے ۔
لیکن بایں ہمہ علماء نے سنن ابن ماجہ کواپنی متعدد خوبیوں کی بنا ء پر اصول ستہ میں داخل کیا ۔