• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابن ماجه

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭ سنن ابن ماجہ کی تصنیفی خوبیاں:

۱- ابن ماجہ نے اپنی کتاب کی ابتداء احادیث نبویہ کی فضیلت ومنقبت اور اتباع سنت اور فضائل صحابہ وغیرہ پر مشتمل مقدمہ سے فرمائی ہے جو کتاب کی بڑی اہم خوبی مانی جاتی ہے، اور تربیتی وتعلیمی نقطہ نظر سے ہر مسلمان کے لئے اس میں رہنمائی ہے۔
۲- احادیث کی ترتیب بڑے اچھے طریقہ پر ہے، نیز اختصار بھی مد نظر ہے، اور ابواب کی کثرت کے ساتھ ان میں تکراراحادیث بھی نہیں ہے، یہ خوبی صحیح امام مسلم میں پائی جاتی ہے کہ احادیث ایک ہی باب میں اکٹھا مل جاتی ہیں لیکن تکرار متن وسند کے ساتھ، اور دوسرے ابواب میں ان کا اعادہ نہیں ہوتا۔
۳- زوائد ابن ماجہ کے بارے میں امام مزی رحمہ اللہ کا ایک قول علماء کے یہاں مشہور ومعروف ہے کہ تفردات ابن ماجہ اکثر وبیشتر ضعیف ہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ابن القیم رحمہ اللہ نے (زاد المعاد) میں یہ راے نقل کی ہے، نیز مزی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے: « وكتاب ابن ماجه إنما تداولته شيوخ لم يعتنوا به بخلاف صحيحي البخاري ومسلم، فإن الحفاظ تداولوهما واعتنوا بضبطهما وتصحيحهما »، قال: « ولذلك وقع فيه أغلاط وتصحيف ».
یعنی ابن ماجہ ایسے مشایخ کے یہاں متداول تھی جنہوں نے اس کی خدمت نہیں کی، برعکس اس کے صحیح بخاری و صحیح مسلم حفاظ کے یہاں متداول تھی، انہوں نے بخاری ومسلم کے ضبط وتدوین اور تصحیح کا خیال رکھا، یہی وجہ ہے کہ ابن ماجہ میں غلطیاں اور تصحیفات واقع ہوئیںہیں۔
امام مزی رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مذکورہ راے فی الجملہ صحیح ہے کیونکہ زوائد میں (۶۰۰) سے زیادہ حدیثیں ضعیف ہیں، اور یہ بہت بڑی تعداد ہے، لیکن ساری حدیثوں کو مطلقًا ضعیف قرار دینا صحیح نہیں ہے، اسی لئے ابن حجر رحمہ اللہ نے واضح کیا ہے کہ زوائد ابن ماجہ میں ایسی حدیثیں بھی ہیں جو صحیح ہیں اور جسے صرف ابن ماجہ ہی نے روایت کیا ہے: «بل هناك أحاديث نبهت عليها وهي صحيحة، وهي مما تفرد بها ابن ماجه».
۴- سنن ابن ماجہ کے راوی ابو الحسن القطان نے (۴۴) حدیثیں اپنی سند سے روایت کی ہیں، ان میں سے بعض قول کسی لفظ کی تشریح یا کسی مسئلہ کی توجیہ پر مشتمل ہے، اس اضافہ کا سبب اپنی عالی سند کا تذکرہ ہوتا ہے یا مذکورہ فوائد، یہ تعداد سنن ابن ماجہ سے خارج ہوجائیں گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
صحاح ستہ کے مجموعہ میں سنن ابن ماجہ کا مرتبہ و مقام

صحاح ستہ کی مشہور اصطلاح میں صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، سنن نسائی اور سنن ترمذی تو بالاتفاق داخل ہیں، ان کو دواوین اسلام بھی کہا جاتا ہے، چھٹویں کتاب کی تعیین اور تحدید کے بارے میں علماء کے مابین اختلاف رہا ہے۔
سب سے پہلے حافظ ابو الفضل محمد بن طاہر مقدسی رحمہ اللہ نے سنن ابن ماجہ کو دواوین اسلام میں چھٹویں کتاب کے طور پر اپنی دو کتابوں میں داخل کیا، پہلی کتاب ''اطراف الکتب الستہ'' ہے، اور دوسری ''شروط الائمۃ الستہ''، اس طرح سے ابن ماجہ کا شمار اس مجموعہ میں پہلی مرتبہ ہوا۔
اس کے بعد حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے ان کی اتباع میں ابن ماجہ کو ''اطراف السنن الاربعہ''میں داخل کیا۔
اس کے بعد امام مزی رحمہ اللہ نے اس کتاب کو ''زیادات خلف الواسطی''اور ''زیادات ابی مسعود الدمشقی'' کے ساتھ ملا کر ''تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف'' کا جزء بنادیا، حافظ ابن عساکر نے ائمہ ستہ کے شیوخ پر مشتمل کتاب ''المعجم المسند'' میں ابن ماجہ کو چھٹویں امام کے طور پر متعارف کرایاہے۔
اس کے بعد حافظ عبدالغنی مقدسی رحمہ اللہ نے ''الاکمال فی اسماء الرجال'' میں یہی ترتیب باقی رکھی، اور امام مزی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ''تہذیب الکمال'' میں مذکورہ کتاب کی تہذیب وتدوین کر کے ابن ماجہ کو کتب ستہ یا دواوین اسلام کا مستقل جزء مشتہر کر دیا، اس طرح سے محدثین کے یہاں صحاح ستہ کے نام پر مشہور مجموعہ حدیث میں ابن ماجہ کا نام زبان زد عام وخاص ہو گیا۔
لیکن ''تجرید الصحاح والسنن'' کے مؤلف رزین بن معاویہ العبدری نے ابن ماجہ کی جگہ پر ''موطأ امام مالک'' کو رکھا، اور ابن الاثیر نے ان کی متابعت میں ''جامع الاصول'' میں ابن ماجہ کی جگہ ''احادیث موطأ ''کا ذکر کیا۔
''موطأامام مالک'' کو صحاح ستہ میں رکھنے کی وجہ بہت واضح ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا علمی مقام، احادیث موطأ کی صحت، اور علماء کا اس پر اعتماد، لیکن موطأ میں آثار صحابہ واقوال تابعین کی کثرت ہے، اسی طریقہ سے اس میں امام مالک رحمہ اللہ بغیر سند کے بہت سی احادیث ذکر کرتے ہیں، جن کو اصطلاح میں ''بلاغات مالک ''کہا جاتا ہے جس میں امام مالک « بلغني عن رسول الله ﷺ كذا، أو عن أبي بكر كذا » کے صیغہ سے حدیث یا اثر ذکر کردیتے ہیں، ایسے ہی مرسل احادیث ذکر فرماتے ہیں جس میں تابعی بغیر واسطہ ذکر کئے رسول اللہ ﷺ سے حدیث روایت کرتے ہیں۔
موطأ میں موجود علمی مواد مذکورہ پانچوں کتابوں پر معمولی اضافہ ہی ہوگا، لیکن ابن ماجہ میں زوائد کی کثرت ہے کما تقدم۔
بعض علماء نے موطأ یا سنن ابن ماجہ کے بجائے سنن دارمی کو اس مجموعہ کی چھٹی کتاب کے طور پر شمار کیا ہے۔ حافظ مغلطائی، علائی، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہی راے ہے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی راے میں'' سنن ابن ماجہ'' پر ''سنن دارمی'' کی فضیلت کا سبب یہ ہے کہ سنن دارمی میں سنن ابن ماجہ کے مقابلہ میں ضعیف احادیث بہت کم ہیں، لیکن جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ابن طاہر مقدسی رحمہ اللہ نے سنن دارمی کو اس مجموعہ میں شاید اس واسطہ نہیں رکھا کہ امام عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی نے صحابہ اور تابعین کے بے شمار اقوال وفتاوی کواپنی کتاب میں جگہ دی ہے، جبکہ ابن ماجہ نے اپنی کتاب میں مرفوع احادیث کو بڑے سلیقہ سے کثیر تعداد میں فقہی ابواب کے تحت ذکر کرکے تفقہ اور فتاوے کے باب میں ایک بڑا علمی اضافہ کیا ہے۔
اوپر کی تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ بذات خود امام ابن ماجہ فن حدیث کے قابل اعتماد اور معتبر ناقد اور متبحر عالم دین ، اور سنت رسول اور اتباع سنت کے شیدائی تھے ، فن تصنیف و تبویب اور تفقہ میں غایت درجہ مہارت تھی جس کی یہ کتاب شاہد عدل ہے ، امام بن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں اس کتاب پر اس طرح تبصرہ کیا ہے: وهي دالة على علمه و تبحره واطلاعه واتباعه السنة في الأصول والفروع (سنن ابن ماجہ مولف کے علم وفضل ، تبحر علمی ، احادیث پراطلاع اور اصول وفروع میں آپ کی اتباع سنت پر دلیل ہے )
ابن کثیر ''الباعث الحثیث'' میں مزیدلکھتے ہیں : و هوكتاب مفيدقوي التبويب في الفقه.(یہ کتاب فقہی تبویب میں قوی اورمفید ہے )
لیکن سنن میں ضعیف اور منکر راویوں سے روایت کی وجہ سے منکر وضعیف اوربعض موضوع روایات کے آجانے سے صحاح ستہ میں شمار ہونے کے باوجود سب سے آخری درجہ پر اس کتاب کا نام آیا ، اور سابقہ نقول سے یہ بھی واضح ہوا کہ امام ابوزرعہ سے منقول قول کی سند ضعیف ہے اس لئے وہ ناقابل استدلال ہے اور ثبوت کی صورت میں تاویل و توجیہ کے بغیر کوئی چارئہ کارنہیں ، خود حافظ ابن عساکر کی روایت میں کتاب کے بعض اجزاء کے موجود ہونے کی بات کہی گئی ہے اور یہی ان کے قول کی صحت کے بعد کہنا صحیح ہوگا کہ جس حصہ کو امام ابوزرعہ نے دیکھا تھا اس میں تیس ضعیف احادیث تھیں ، امام ذہبی کا جو اندازہ تھا وہ شیخ البانی کی ضعیف ابن ماجہ کے عدد سے قریب تر ہے ، یہ واضح رہے کہ ابن ماجہ میں موجود بہت سی احادیث کو خود ابوزرعہ نے ہدف تنقید بنایا ہے اور ان کو باطل ، ساقط اور منکر قرارا دیا ہے ،کما فی علل الحدیث لابن ابی حاتم الرازی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
صحاح ستہ کے مؤلفین کی شروط

صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اپنی تالیف کے بارے میں کوئی ایسی وضاحت نہیں کی ہے جس سے یہ پتہ چلے کہ فلاں مؤلف کی احادیث کی تخریج کے بارے میں شرط و قید ایسے اور ایسے ہے، لیکن اہل علم نے ان کتابوں پر غور و خوض کرنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کتابوں میں سے کس کا مقام و مرتبہ کیا ہے اور کس کی کیا شرط ہے۔
جن ائمہ نے اپنی کتاب کا نام الصحیح رکھا ہے تو اس نام سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں ایسی احادیث کو جگہ دی ہے جن پر صحیح کی شرطوں کا انطباق ہوتا ہے ، یعنی ان احادیث کے رواۃ ثقہ و عادل اور پختہ حفظ کے مالک ہیں اور ایک راوی نے دوسرے راوی سے ابتداء سے سند کی انتہاء تک سنا ہے ، اسی کو سند کا اتصال کہتے ہیں اور حدیث شذوذ اور علت قادحہ سے پاک ہو، امام ابن مندہ(م ۳۹۵ھ) نے طبقات رواۃ اور ان کی حدیثی خدمات کے مرحلہ وار تذکرے کے بعد جو عہد تابعین سے احمد بن حنبل اور ان کے اقران و تلامیذ پر مشتمل ہے فرمایا :پھر سابقہ جن علمائے متقدمین کا ذکر ہم نے کیا ہے ،ان کا علم ان ائمہ کے پاس آیا ہے :
۱- ابو عبداللہ احمد بن محمد بن حنبل،۲- ابو زکریا یحیی بن معین، ۳- علی بن المدینی،۴- ابوبکر بن ابی شیبہ،۵-عثمان بن ابی شیبہ،۶- ابو خثیمہ زہیر بن حرب،۷- محمد بن عبداللہ بن نمیر اور جوان کے بعد کے علماء ہیں ، ان سارے علماء امصار و بلدان کا علم مندرجہ ذیل علماء کے پاس پہنچا جو اہل معرفت و اصحاب صحیح ہیں ، اور وہ یہ ہیں: بخاری ، مسلم، دارمی، ابوداوداور نسائی ،اور اس طبقہ کے لوگ ،اس طبقہ کی احادیث متفقہ طور پر مقبول ہیں اور ان کاعلم دوسرے لوگوں پر حجت و سند ہے ،پھر فرمایا :
اور دوسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جن کو اہل معرفت و تمیز کی ایک جماعت نے قبول کیا اور دوسروں نے ان کو رد کردیا، پھر ان کی مثالیں دیں اور فرمایا کہ ان سے بخاری نے روایت کی اور مسلم نے ان کو ترک کردیا یا مسلم نے ان سے روایت کی اور بخاری نے ان کی حدیث میں کلام کی بناء پر یا مذہب میں غلو کی بناء پر انہیں ترک کردیا ،اور ان علماء کی اس منہج میں اتباع ابوداود ، نسائی اور ان سارے لوگوں نے کی جنہوں نے اس طریقہ کو اختیار کیا ، اور یہ چند رواۃ کو چھوڑ کرسب ابوداود اور نسائی کے مذہب پر مقبول الروایہ ہیں، اس کے بعد ابن مندہ نے رواۃ حدیث پر علی بن مدینی کا کلام نقل کیا جن پر امام زہری سے لے کر ان کے اپنے زمانے تک علم حدیث کی روایت میں دارو مدار رہا ہے اور علی بن مدینی کے بارے میں فرمایا کہ علم حدیث میں ان کا شمار ان ائمہ میں ہوتا ہے جو مرجع اور سند کے حیثیت رکھتے ہیں ، پھر فرمایا : ابوعبداللہ احمد بن محمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ دین اور علم میں علی بن مدینی سے اعلی و افضل تھے ، یحیی بن معین اور ابن ابی شیبہ اور اس طبقہ کے علماء علم حدیث میں آپ کے علم و فضل کے منکر نہیں تھے ، اور ایسے ہی ان سے پہلے کے علماء جیسے سفیان بن عیینہ ، یحیی بن سعید القطان اور عبدالرحمن بن مہدی اور ان کے بعد ان کے تلامذہ میں سے محمد بن اسماعیل البخاری ، ابو حاتم الرازی اور ابو زرعہ الرازی اور ان کے اقران جن لوگوں نے علی بن مدینی سے اس علم کو حاصل کیا ، پھر عرض کیا کہ علی بن مدینی نے جس طرح علماء کے طبقات کا تذکرہ کیا ہے میں بھی ایسے علماء کا ذکر کروں گا، جن کی طرف علماء نے حدیث کی نسبت کی ہے اورجن کا تفرد قابل حجت واستدلال مانا ہے، جو اپنے مخالفین پر حجت تھے، اور جو اپنے زمانہ میں ائمہ تھے اور جن سے ائمہ اربعہ جنہوں نے صحیح احادیث کی تخریج کی اور صحیح کو معلول سے ممیز کیا اور خطا کو صواب سے الگ کیا اور وہ بخاری ، مسلم ،ابوداود اور نسائی ہیں اور اس کے بعد وہ علماء جنہوں نے اس طریقہ کو اپنایا اور اس منہج کی اتباع کی گرچہ ان سے فہم میں کم درجہ کے تھے اوروہ درج ذیل علماء ہیں:
۱- عبداللہ بن عبدالرحمن سمر قندی(دارمی) ،۲- ابوعیسی محمد بن عیسی ترمذی ،۳- محمد بن اسحاق بن خزیمہ نیساپوری ، ۴- احمد بن عمرو بن ابی عاصم النبیل رحمہم اللہ ۔
میں نے ابو علی حسین بن علی نیساپوری کو یہ کہتے ہوئے سنا :'' ماتحت أدیم السماء کتاب أصح من کتاب مسلم بن الحجاج ''( آسمان کے نیچے مسلم بن حجاج کی کتاب سے زیادہ صحیح کوئی اور کتاب نہیں ہے )
اور محمد بن یعقوب الاخرم سے سنا:كلا ما يفوت البخاري ومسلما مما يثبت من الحديث(بخاری ومسلم سے کم ہی صحیح اور ثابت حدیثیں چھوٹی ہیں )
اور محمد بن سعد البارودی سے مصر میں یہ کہتے ہوئے سنا:كان من مذهب النسائي أن يخرج عن كل من لم يجمع على تركه(نسائی کا مذہب یہ تھا کہ جو رواۃ اجماعی طور پر متروک الحدیث نہیں ہے ان سے روایت کی جائے )
ابوداود کا بھی یہی مذہب تھا ،وہ ضعیف سندوں کی تخریج اس واسطے کرتے تھے کہ ان کے نزدیک وہ آراء رجال سے زیادہ قوی ہوتی تھیں ۔
امام محمد بن طاہر مقدسی (م ۵۰۷ ھ) فرماتے ہیں : جان لیں کہ بخاری ومسلم اور جن لوگوں کو ہم نے ان کے بعد ذکر کیاہے (یعنی ابوداود، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ) میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ میری شرط اپنی کتاب میں ایسے اور ایسے رواۃ سے حدیث کی تخریج کی ہے ،یہ تو صرف اس کو معلوم ہوگا جو ان کی کتابوں کو غور سے پڑھے گا تو ہر مولف کی شرط کا اس کو علم ہوجائے گا (شروط الائمہ ۱)
امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی کتابوں کو الصحیح کا نام دیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے شروط صحت کا اہتمام کیا ہے ،امام بخاری سے یہ قول منقول ہے کہ میں نے اپنی کتاب میں صرف صحیح احادیث داخل کی ہیں اور جن صحیح احادیث کو چھوڑ دیا ہے وہ اس سے زیادہ ہیں(شروط الائمہ ۴۹و تدریب الراوی ۱/۹۹)
ابن الصلاح نے مقد مہ علوم حدیث میں بخاری کاقول ذکر کیا ہے کہ میں نے اپنی جامع میں صرف صحیح احادیث داخل کی ہیں اور طوالت کے باعث بقیہ دوسری صحیح احادیث چھوڑ دی ہیں۔
امام مسلم فرماتے ہیں : میں نے اس کتاب یعنی صحیح مسلم میں احادیث صحیحہ کی تخریج کی ہے ، میں یہ نہیں کہتا کہ جن احادیث کو میں نے اس کتاب میں داخل نہیں کیا ہے وہ ضعیف ہیں، میں نے یہ صحیح احادیث میں سے تخریج کی ہیں تاکہ میرے پاس یہ مجموعہ ان لوگوں کے لئے رہے جو مجھ سے ان احادیث کو لکھنا چاہیں اور ان کی صحت کے بارے میں ان کو کوئی شک و شبہ نہ ہو، میں نے یہ نہیں کہا کہ ان احادیث کے علاوہ بقیہ احادیث ضعیف ہیں (شروط الائمہ ۶۳)
امام قرطبی نے صحیح مسلم کی شرح المفہم میں بخاری و مسلم کے اقوال سے استدلال کرکے یہ فرمایا کہ یہ ان دونوں کے نصوص اس بات پر ہیں کہ ان دونوں کی شرط صرف صحیح احادیث کی تخریج ہے ۔
امام مسلم نے مقدمہ صحیح مسلم میں تین ایسے طبقات رواۃ کا ذکر کیاہے جن میں سے وہ سب سے پہلے طبقہ کی احادیث پر اعتماد کریں گے ، پھر دوسرے طبقہ کی احادیث کو داخل کتاب کریں گے اور تیسرے طبقہ کی احادیث سے صرف نظر کریں گے۔
امام حازمی کی بیان کردہ صحیحین کی شرط کو سخاوی نے ان الفاظ میں ذکر کیا ہے :
''بخاری کی شرط یہ ہے کہ وہ ایسے ثقہ ، متقن اور شیوخ حدیث کے ساتھ برابر رہنے والے رواۃ کی متصل سندوں سے حدیث کی تخریج کریں جنہوں نے اپنے شیوخ کے ساتھ سفر و حضر میں ایک طویل مدت گذاری ہو ، کبھی کبھی اس سے کم درجہ کے رواۃ جنہوں نے اپنے شیوخ کے ساتھ تھوڑی مدت گزاری ہے ان کی روایتوں کو بھی اپنی صحیح میں جگہ دی ہے ، رہ گیا امام مسلم کا معاملہ توانہوں نے دونوں طبقوں کی احادیث کو بالاستعاب اپنی صحیح میں جگہ دی ہے اور طول صحبت کی وجہ سے کبھی کبھی ایسے رواۃ کی احادیث کی بھی تخریج کرتے ہیں جو جرح سے نہ بچ سکیں، اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اس راوی نے اپنے شیخ کے ساتھ طویل زمانہ گزارا ہے جیسے حماد بن سلمہ کی روایت ثابت البنانی سے اس لئے کہ حماد نے ان کے ساتھ طویل وقت گزارا ہے تو اس کی وجہ سے ثابت کی احادیث کا صحیفہ حماد کے اختلاط کے بعد بھی پہلی حالت کی طرح ان کو ازبر اور یاد تھا ، اور امام مسلم کا اس طبقہ کے بارے میں رویہ امام بخاری کے دوسرے طبقہ کے ساتھ تعامل کی طرح ہے ، پھر عرض کیا کہ اور یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ امام مسلم نے معاصرت کی موجودگی میں عنعنہ کی روایت کو کافی سمجھا اور امام بخاری نے کم از کم ایک بار راوی کی شیخ سے ملاقات کو شرط مانا اور یہ صحیحین میں تحری اور تثبت کی وجہ سے تھا۔
سنن اربعہ احادیث احکام کے باب میں صحیحین اور موطا کے بعد قابل اعتماد اہم مراجع حدیث ہیں ، ان کی شروط کا خلاصہ حافظ ابن طاہر مقدسی نے یوں کیا ہے کہ یہ ائمہ ایسے رواۃ احادیث کی تخریج کرتے ہیں جن کے متروک ہونے پر اجماع نہیں ہے ، ان کی کتاب میں وارد احادیث کی تین قسمیں ہیں :
۱- ایسی صحیح احادیث جو صحیحین یا دونوں میں سے کسی ایک میں موجود ہیں یا دونوں کی شرط پر پوری اترتی ہیں۔
۲- ان ائمہ کی اپنی شرط پر یعنی ایسے رواۃ سے احادیث کی روایت جن کو اجماعی طورپر متروک نہیں قراردیا گیا ہے بشرطیکہ کے حدیث متصل سند کے ساتھ صحیح ہو اور اس میں انقطاع اور ارسال نہ ہو ۔
۳- وہ احادیث جن کوان ائمہ نے یہ بتانے کے لئے اپنی کتابوں میں داخل کیاہے کہ یہ صحیح احادیث کے مخالف اور معارض ہیں ۔
۴- اور سنن ترمذی میں احادیث کی ایک چوتھی قسم بھی ہے اور وہ ایسی احادیث جن پر بعض فقہاء کا عمل رہا ہے (شروط الائمہ الستہ للمقدسی ۱۲)
امام حازمی نے ائمہ کی ان شروط کو امام زہری کے تلامذہ کو پانچ طبقات میں تقسیم کرکے واضح کیا ہے کہ تلامذہ زہری کا پہلا طبقہ اہل اتقان کا ہے جو امام بخاری کا مقصود ہیں ، اور دوسرا طبقہ پہلے سے کم تر اس واسطہ ہے کہ طول زمانی اور ممارست حدیث میں پہلے سے کمزور ہیں اور یہ امام مسلم کی شرط کے راوی ہیں ، اور تیسرے طبقہ میں وہ رواۃ ہیں جو رد و جرح سے نہ بچ سکیں ،تو یہ رد وقبول کے مابین کا طبقہ ہے جو ابوداود اور نسائی کی شرط والے رواۃ ہیں ، اور چوتھے طبقہ میں ایسے رواۃ ہیں جنہوں نے زہری کے ساتھ زیادہ زمانہ نہیں گزارا ہے اس لئے ان کی احادیث میں ممارست نہیں ہوپائی ہے تو یہ ترمذی کی شرط والے رواۃ ہیں ، اور پانچواں طبقہ ان ضعیف اور مجہول راویوں پرمشتمل ہے جن کی احادیث کو اصحاب سنن نے اعتبار اور استشہاد کی غرض سے اپنی کتابوں میں داخل کیا ہے ( شروط الائمہ الخمسہ )
مذکورہ بالا تفصیل اور تقسیم میں صرف ابن طاہر مقدسی نے ابن ماجہ کو اصحاب سنن اربعہ میں داخل کیا ہے ، ابن مندہ نے ابن ماجہ کا نام ہی نہیں لیا اور حازمی نے شروط الائمہ الخمسہ میں بخاری ، مسلم ، ابوداود ، نسائی اور ترمذی کو داخل کیا ہے ، یعنی ابن ماجہ سے تعرض ہی نہیں کیا ، عملی طور پر ابن ماجہ کے رواۃ میں ضعیف اور مجروح رواۃ کی کثرت اور احادیث کی اتنی بڑی تعداد جن میں بعض احادیث موضوع بھی ہیں کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ سنن ابن ماجہ کا درجہ باعتبار صحت سنن ابی داود، نسائی اور ترمذی سے کم ہے ، اسی لئے ابویعلی الخلیلی کا یہ تبصرہ برمحل ہے : سنن ابن ماجه كتاب حسن لولاماكدره من أحاديث واهية ليست بالكثيرة.(سنن ابن ماجہ اچھی کتاب ہے ، اگرضعیف احادیث کی روایت سے اس کو نقصان نہ پہنچادیا ہوتا )
اوپر یہ گزرا کہ ابن ماجہ کے تفردات پر ضعف غالب ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء نے صحت اور ضعف کے اعتبار سے ان کتابوں کے مراتب میں اصول خمسہ کے ساتھ موطا یا سنن دارمی کو داخل کیا ہے ،جیسا کہ حافظ ابن حجر کا ارشاد ہے کہ سنن دارمی کا رتبہ سنن اربعہ سے کم نہیں بلکہ اگر اس کو ابن ماجہ کی بجائے سنن خمسہ میں ملادیا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں ،یہ ابن ماجہ سے بہرحال اولی اور امثل ہے ، اور امام مزی فرماتے ہیں کہ جن احادیث میں ابن ماجہ منفرد ہیں ان پر ضعف غالب ہے ، یہی وجہ ہے کہ اکثر علماء نے اصول خمسہ کے ساتھ موطا یا سنن دارمی کو شامل کیا ہے ۔
لیکن بایں ہمہ علماء نے سنن ابن ماجہ کواپنی متعدد خوبیوں کی بنا ء پر اصول ستہ میں داخل کیا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سنن ابن ماجہ کی خصوصیات

۱- سنن ابن ماجہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ امام موصوف نے اس کتاب کی ابتداء کتاب السنہ سے کی ،اور عقیدہ ، اتباع سنت،روایت حدیث میں ثقہ راویوں پر اعتماد، فضائل صحابہ،رد اہل بدعت کے ابواب کے ذریعہ لوگوں کی ذہن سازی فرمائی اور کتاب کے آخر میں کتاب الفتن اور کتاب الزہد کی احادیث سے علمی اور عملی تربیت کا بڑا ذخیرہ چھوڑا ، علامہ ابوالحسن سندھی لکھتے ہیں کہ ان ابواب پر کتاب کے خاتمہ میں اس بات کی تنبیہ فرمائی تھی کہ علم کا نتیجہ اور ثمرہ دنیا سے بے رغبتی اور اللہ کے پاس جو ہے اس سے دلچسپی اور اس میں رغبت ہے۔
۲- ابن ماجہ میں ۱۳۳۹ احادیث زوائد کے نام سے جانی جاتی ہے یعنی صحیحین اور سنن ثلاثہ : نسائی ، ترمذی و ابوداود پر اضافہ ، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
(۴۲۸ ) احادیث کے رجال ثقہ اور ان کی احادیث صحیح ہے
(۱۹۹) احادیث کی اسناد حسن ہے
(۶۱۳) احادیث کی اسناد ضعیف ہے
(۹۹) احادیث واہی یعنی زیادہ ضعیف یا منکریا موضوع ہیں
واضح رہے کہ صحیح احادیث کا یہ بھاری اضافہ صحاح ستہ میں اس کتاب کی خصوصیت کو نمایا ں کرتا ہے ۔
۳۔ امام ابن ماجہ نے کتب خمسہ کی (۳۲۰۰) احادیث کو دوسروں طرق سے روایت کیا ہے ، اور یہ چیز تقویت احادیث میں اہمیت کی حامل ہے اور ابن ماجہ کو اس میں امتیاز حاصل ہے ۔
۴- کتاب کی عمدہ ترتیب و تبویب : اس کتاب میں احادیث کو بڑے سلیقہ سے مرتب کیا گیا ہے ، جس میں اختصار کو مدنظر رکھا گیا ہے اور تکرار سے پاک ہے ۔
۵- روایت احادیث کے باب میں سند کا عالی ہونا اہل علم کے ہاں اس شرط کے ساتھ بہت اہم ہے کہ وہ سندیں صحیح ہوں ، ابن ماجہ میں (۵) ثلاثی احادیث ہیں لیکن وہ ضعیف ہیں۔
۶- ابن ماجہ میں بعض اسانید اور احادیث پر تفرد یا غرابت کا حکم لگایا ہے ، اہل علم کے ہاں اس طرح کے فوائد کی بھی اہمیت ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سنن ابن ماجہ کی احادیث سے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ کے افادات

علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے مجلس التربیہ لدول الخلیج، الریاض (گلف کے تربیتی آفس) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد احمد الرشید کی خواہش پر سنن اربعہ کی احادیث پر مختصر حکم لگا کر چاروں کتابوں کو الگ الگ مجلس ہی سے شائع کرنے کی غرض سے اس منصوبہ پر کام کیا اور چاروں کتابیں ضعیف اور صحیح کے عنوان سے شائع ہوئیں ، بعد میں علامہ مرحوم نے ۱۴۱۷ ھ میں ان کتابوں کا نیا ایڈیشن تیار کیا اور یہ ساری کتابیں مکتبہ المعارف ریاض سے شائع ہوئیں ، ذیل میں ہم نئے ایڈیشن میں دئیے ہوئے آپ کے ان افادات کو پیش کرتے ہیں جن سے سنن ابن ماجہ کی احادیث کی صحت وضعف کے مسئلہ پر قارئین کرام کو مفید معلومات حاصل ہوں گی اور ائمہ حدیث کے بالعموم اور علامہ ناصر الدین الالبانی کے بالخصوص طریقہ کار پر روشنی پڑے گی، البانی صاحب نے پہلے ایڈیشن کے طریقہ کار کو مختصراً ذکر کرنے کے بعد اس نئے ایڈیشن کی مناسبت سے مندرجہ ذیل فوائد کا ذکر کیا:
۱- قرائے کرام اس ایڈیشن میں بعض صحیح یا ضعیف حدیثیں دیکھیں گے جو پہلے ایڈیشن میں موجود نہ تھیں، تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت مجھے اس کا علم نہ تھا، صرف ابن ماجہ کی سند پر علمی نظر ڈال کر حسب حال حدیث کے رتبہ کا ذکر کردیا تھا ، ایسے ہی بعض سندوں کے ضعف کے ظاہر ہوتے ہوئے میں نے ان کے رتبہ کا ذکر اس ڈر سے نہیں کیا تھا کہ شاید شواہد کی وجہ سے وہ تقویت پاجائیں یا دوسرے اسباب جن میں سابقہ تحقیق کے لئے مقررہ مدت میں وقت کی تنگ دامانی بھی ایک سبب ہے جس کی وجہ سے حدیث پر حکم نہ لگ سکا ۔
۲- میں نے بہت ساری احادیث کو جن کی اس کتاب کی اسانید میں ضعف تھااس لئے قوی قرار دیاکہ اس کے دوسرے طرق یا شواہد خود اس کتاب یا دوسری کتب احادیث میں موجودتھے اور اس قسم کی احادیث کو اہل حدیث ’’صحیح لغیرہ‘‘ یا ’’حسن لغیرہ‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں ، اس بات کا تذکرہ اس واسطہ کررہا ہوں کہ کوئی فوراً تنقید نہ شروع کردے بالخصوص حافظ بوصیری کے زوائد ابن ماجہ میں یا دوسرے علماء کے دوسری کتابوں میںاحکام کومیرے احکام کے خلاف پائے ، اس لئے کہ ’’صحیح الجامع الصغیر ‘‘وغیرہ میں میں نے بعض احادیث کی تقویت کی تو بعض لوگوں نے اس پر یہ گمان کرکے نقد کیا کہ میں نے صرف جامع میں مؤلف کتاب کی حدیث کی اسناد پر مطلع ہوکرایسا کیا اور اس کا ضعف کبھی ظاہر ہوتا ہے ،تو ان لوگوں نے طرق احادیث یا دوسری کتابوں کے شواہد میں زیادہ وسعت سے کام نہیں لیا ، یہ لوگ اس علم کے مبتدی ہوسکتے ہیں یا اس علم کو سمجھے بغیر اور عملی تطبیق سے پہلے احادیث پر حکم لگانے میں جلدی کرتے ہیں ، اور ضعیف حدیث اور حسن حدیث میں تفریق نہیں کرتے یا ’’حسن‘‘ اور ’’حسن لغیرہ‘‘ میں فرق نہیں کرتے اور ان کو اس بات کا وہم ہوتاہے کہ ہروہ حدیث جس میں ضعف ہو وہ ان کے ہاں ضعیف اور ناقابل استدلال ہے ، علماء نے حدیث حسن کی جو تعریف کی ہے اس کا وہ لحاظ نہیں کرتے یعنی ایسی حدیث جس کا راوی ’’خفیف الضبط‘‘ ہو یعنی صحیح حدیث کے راوی کے حافظہ سے اس کا حافظہ کمزور ہو تو اس میں ضعف ہوگا لیکن وہ ضعف زیادہ سخت نہیں ہوگا ، اور اس کے علاوہ دوسری چیزیں جن سے واقفیت صرف انہی لوگوں کو ہوتی ہے جوعمر کا ایک بڑا حصہ اس علم کی ممارست میں گزارتے ہوں اور طرق و شواہد حدیث کا تتبع کریں ،جس سے حدیث کی صحت یا شذوذ و نکارت کی تحقیق و تاکید میں مدد ملتی ہے ،بعض متقدمین جیسے حافظ بوصیری بھی اس وہم کا شکار ہوئے ،آپ نے صرف ابن ماجہ کی سند وں پر اقتصار کرکے بہت سی حدیثوں کو ضعیف قرار دیا جبکہ دوسرے طرق سے یہ احادیث صحیح اور ثابت ہیں ،بطور مثال کے ملاحظہ ہو (۸۶،۷۴،۱۱۱،۱۱۷) اور اس کے علاوہ بہت سی مثالیں ہیں ، اور ان احادیث میں سے بعض کی سند بخاری ومسلم یا کسی ایک کے یہاں صحیح ہوسکتی ہے جیسے کہ (۹۱ اور ۱۵۸۰ نمبر کی احادیث) ، اور اس کے برعکس ظاہری سند یا کمزور توثیق کی وجہ سے منکر احادیث کو قوی قرار دیا ، بطور مثال ملاحظہ ہو:(۴۵۸، ۹۷۱،۱۰۱۰،۱۰۷۰ وغیرہ )
یہیں سے میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ قرائے کرام اس کتاب یا اس کے علاوہ دوسری کتابوں کی احادیث پر جو یہ احکام دیکھیں گے،یہ ایسے احکام نہیں ہیں کہ صرف سندوں کو دیکھ کر ان پر حکم لگا دیا گیا اور رواۃ کے تراجم پر دقت نظر سے کام نہیں لیا گیا ، ان کے بارے میں جرح و تعدیل کے جو اقوال تھے ان پر غور وخوض نہیں کیا گیا، اور علم حدیث کے قواعد کی تطبیق نہیں کی گئی یا محدثین اور اہل اصول اور اہل رائے اور اہل ظاہر وغیرہ کے باہمی اختلافات سے صرف نظر کیا گیا ہے یا طرق حدیث اور ان کے شواہد و متابعت پر گہری نظر نہیں ڈالی گئی ، جیسا کہ اس علم کے بعض مبتدی حضرات کا عمل ہے جن میں شیوخ ، ڈاکٹر حضرات ، یونیورسٹیوں کے طلباء اور نوجوان لوگ ہیں ، تو یہ لوگ کرتے یہ ہیں کہ سند میں رجال کی توثیق کو دیکھتے ہی حدیث کی تصحیح کردیتے ہیں اور صحت کی بقیہ کتب مصطلح میں مذکور شرطیں جیسے شذوذ اور علت سے حدیث کاصحیح سالم ہونے کی رعایت نہیں کرتے ، اور ایسے ہی کون سی علت قادح (موثر) ہے اور کون سی قادح نہیں ہے اس میں تفریق نہیں کرتے ، اوربعض لوگ دوسری ان صحیح احادیث پر ثقہ کے تفرد کی وجہ سے چاہے زیادہ ثقہ اور زیادہ حافظ راوی اس کا مخالف نہ ہو حدیث پر ضعف یا شذوذ کا حکم لگادیتے ہیں یا ضعیف راوی کسی حدیث میں متفرد ہوتا ہے اور وہ اس کے متابع یا شاہد کا علم نہیں رکھتے یا حدیث مرسل ہوتی ہے ، اور اس کے دوسرے موصول طرق سے آنے کا علم نہیں ہوتا تو ان سب باتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے صحیح حدیث پر ضعف یا شذوذ کا حکم لگادیتے ہیں ، اس پر میرے پاس بہت ساری مثالیں ہیں جو میری مطبوع اور مخطوط کتابوں میں پھیلی ہوئی ہیں ،جن کے تذکرے کا یہاں موقع نہیں ہے، جو اس مسئلہ میں بحث و تحقیق چاہتا ہے اسے میسر مراجع بالخصوص سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ،سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ اور ارواء الغلیل کا مطالعہ کرنا چاہئے ۔
تو میں کہتا ہوں کہ کمزوری اور تساہلی کی کوئی بات ہرگزنہیں ہے ، احادیث پر یہ صحت و ضعف کے احکام الل ٹپ نہیں ہیں بلکہ نصف صدی سے زیادہ اللہ کی رضا کی خاطر اس شریف علم سے تعلق اور اس میں تخصص کا یہ ثمرہ اور نتیجہ ہے ، جس علم کی تحصیل میں اللہ رب العزت کی توفیق سے دن و رات کامل شوق و رغبت اور اس کے حصول میں اجتہاد کی برکت سے اور احادیث کے متون و الفاظ اور طرق پر بالخصوص کتب احادیث کے مخطوط و مطبوع ذخیروں کے ساتھ تفسیر ، سیر ،تاریخ ، زہد و رقائق کی ایسی کتابیں جو احادیث کو سندوں کے ساتھ ذکر کرتی ہیں ، ان کتابوں میں سے چھان پھٹک کر اس نتیجہ تک پہنچنے کا عمل نصف صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے ،ضائع شدہ ورق کا قصہ اس پر سب سے اچھی دلیل ہے جس کو میں نے دارالکتب الظاہریہ کے مخطوطات کی فہرست کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے ،جس کو مجمع اللغہ العربیہ دمشق نے شائع کیا ہے ، جس کا صفحہ (۴ تا ۷) ملاحظہ ہو ، اس لئے کہ اس میں عبرت پکڑنے والوں کے لئے عبرت اور دلیل ہے ۔
اور انہیں اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے اپنے فضل و کرم سے میرے لئے مختلف علوم و فنون کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں علماء کی صحبت عطا فرمائی ، ان مبارک سالوں میں جن کے ساتھ مجالس کی نعمت میسر رہی ،جن کی قدر وحلاوت اور شیرینی صرف وہی شخص محسوس کرسکتاہے جس نے اس طرح کی زندگی گزاری ہے ، اور جن کے بارے میں شاعر نے سچ ہی کہا:


لنا جلساء لانمل حديثهم​
ألباء مأمونون غيباً ومشهدًا​
يفيدوننا من علمهم علم ما مضى​
وعقلاً وتأديباً ورأياً مسددًا​
بلا فتنةٍ تخشى ولا سوء عشرةٍ​
ولا نتقي منهم لساناً ولايدًا​
فإن قلت أموات فما أنت كاذبٌ​
وإن قلت أحيائٌ فلست مفندًا​

( ہمارے ہم نشیں ایسے ہیں جن کی باتوں سے ہم اکتاتے نہیں اور حاضر و غائب ہر حالت میں وہ عقل مند اور مامون ہیں ، وہ ہمیں ماضی کے علم سے جو ان کا علم ہے فائدہ پہنچاتے ہیں اور ان سے ہمیں عقل ، ادب اور عمدہ رائے ملتی ہے ، جن کے فتنہ کا ہمیں کوئی ڈر نہیں اور نہ جن کی صحبت بد سے ہمیں کوئی خوف ہے ، اور نہ ہم کو ان کی زبان اورہاتھ سے کوئی ڈر ہے ،اگر تم ان کو مردہ کہو تو جھوٹے نہیں ہو اور اگر تم ان کو زندہ کہو تو بھی غلط گو نہیں ہو)​
تو میں برابر انہی اسلاف کرام کے علم سے فیض یاب ہورہا ہوں اور انہی سے خوشہ چینی کر رہا ہوں ، بالخصوص اہل الحدیث و الاثر سے، اللہ کے فضل و توفیق سے میرے پاس ہزاروں احادیث و آثار اور ان کے ہزارہاہزارطرق واسانید موجود ہیں ، جس کی وجہ سے ان احادیث کی علت کی معرفت اور ضعیف کی صحیح سے شناخت و تمیز میں مجھے پوری مدد ملی ، جن کے نتیجہ میں یہ ساری تصانیف وجود میں آئیں، جن پر سالہا سال گزر گئے ہیں اور جن پربحث و تحقیق و تنقیح کا کام جاری ہے اور انہی سے ان احادیث کی صحت و ضعف پر کام ہوا ۔
۳- تیسرے فائدہ میں البانی صاحب نے اپنی (۶۶) کتابوں کا ذکر کیا ہے ، اور آخر میں اپنی بعض اصطلاحات کا ذکر کیا ہے ، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جب میں ’’صحیح‘‘ یا ’’حسن‘‘ کہوں تو اس سے میری مراد متن حدیث ہے ، اور سند کبھی ’’صحیح‘‘ ہوگی یا ’’حسن لذاتہ‘‘ ہوگی یا ’’حسن لغیرہ‘‘ اور یہ اس فن کے واقف کاروں پر واضح ہے یا ان مؤلفات کی طرف رجوع کرکے واضح ہوگا جس کا میں نے اس حدیث میں حوالہ دیا ہے، اور جب میں ’’حسن صحیح‘‘ ایک ساتھ کہوں تو اس کا معنی یہ ہے کہ حدیث کی سند ’’حسن لذاتہ‘‘ ہے اور حدیث ’’صحیح لغیرہ‘‘ (یعنی دوسری سندکی وجہ سے اس کو یہ حکم دیا گیا )،اور جب میں بخاری ومسلم یا دونوں میں سے کسی ایک کی طرف حدیث کو منسوب کرتا ہوں تو اس سے میری مراد ابن ماجہ کے یہاں حدیث میں موجو د صحابی سے قطع نظر متن حدیث کی ہوتی ہے، کبھی اسی صحابی کی حدیث ہوسکتی ہے جو ابن ماجہ کے ہاں ہے اور کبھی کسی دوسرے صحابی کی حدیث ہوگی (مقدمہ صحیح سنن ابن ماجہ ۵-۱۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سنن ابن ماجہ کی شروح وتخاریج

ابن ماجہ کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں جن میں ہندوستان میں بڑے سائز پر حاشیہ کے ساتھ مطبوع نسخہ ہے، سندی کی شرح کے ساتھ والا نسخہ بھی مطبوع ہے، عصر حاضر میں محمد فؤاد عبدالباقی کی تحقیق وترقیم سے جو نسخہ متداول ہے اس کی شہرت کی وجہ یہ ہے کہ ''المعجم المفہرس لألفاظ الحدیث النبوی'' کی ترتیب میں اس کے ابواب وکتب پر اعتماد کیا گیا ہے، ذیل میں سنن ابن ماجہ سے متعلق ہونے والی خدمات ذکر کی جاتی ہیں:
۱- شرح الحافظ علاء الدین مغلطائی بن قلیج بن عبداللہ الحنفی (م ۷۶۲ھ) یہ اوائل سنن ابن ماجہ کی احادیث کی مبسوط تخریج ہے جس میں شرح سے تعرض نہیں کیا گیا ہے ۔
۲- شرح ابن رجب الزبیری : اس سے علامہ ابولحسن سندھی نے استفادہ کیا ہے ۔
۳- ماتمس إليه الحاجة على سنن ابن ماجة تاليف: سراج الدين عمر بن علي ابن الملقن(م 804ھ) یہ زوائد ابن ماجہ علی الخمسۃ : الحیحین و السنن لابی داود والترمذی والنسائی ۸ جلدوں میں ہے۔
۴- الدیباجہ شرح الشیخ کمال الدین محمد بن موسی ابو البقا الدمیری مولف حیاۃ الحیوان الکبری(م ۸۰۸ھ) (پانچ جلدوں میں)
۵- شرح ابن العجمی برہان الدین ابراہیم (ت ۸۴۱)یہ شرح بہت مختصر ہے ۔
۶- مصباح الزجاجة شرح ابن ماجة تاليف: السيوطي (م 911ھ)یہ مختصرحاشیہ ہے اور اس کا اختصار شیخ علی عثمان نے نور مصباح الزجاجہ سے کیا ہے جو مصر میں شائع ہوا ہے ۔
۷- صحیح سنن ابن ماجہ (البانی رحمہ اللہ )(دو جلدوں میں)
۸- ضعیف سنن ابن ماجہ (البانی رحمہ اللہ ) (ایک جلد میں)
۹- تحقیق محمد فواد عبدالباقی مطبوع مصر (دو جلدوں میں)
۱۰- تحقیق مشہور حسن سلمان مع تصحیح و تضعیف الالبانی ط ۔ مکتبہ المعارف ریاض(ایک جلد میں)
۱۱- سنن ابن ماجہ بشرح ابی الحسن السندی (م ۱۱۳۸ھ) وبحاشیۃ تعلیقات مصباح الزجاجۃ فی زوائد ابن ماجہ (م۸۴۰ھ) تحقیق خلیل مامون شیحا، دارالمعرفۃ، بیروت ۔
۱۱- المجرد فی ا سماء رجال سنن ابن ماجہ سو ی من أخرج لہ منہم فی أحد الصحیحین للإ مام الذہبی ط ۔ دارالرایۃ الریاض، بتحقیق و تعلیق و استدراک الدکتور باسم فیصل الجوابرۃ ، ۱۴۰۹ھ
اس کتاب میں ۱۹۳۹ رواۃ کا ذکر ہے،اوراستدراک میں موصوف نے ۳۵۶ راویوں کا ذکر کتاب کے آخر میں کیا ہے، اور اس کی فہرست (فہرس أسماء المجرد فی أسماء رجال ابن ماجہ و المستدرک علیہ کے نام سے شائع کی، ط دارالرایہ ، الریاض ۱۴۰۹ھ)
۱۲- إتحاف ذی التشوق والحاجۃ إلی قراء ۃ سنن ابن ماجہ : تالیف محمد الحفید بن عبد الصمد کنون الحسینی الإ دریسی (ط وزارۃ الاوقاف ، رباط ، مغرب )
اب تک اس کے آٹھ (۸) حصے شائع ہو چکے ہیں ، آٹھواں حصہ کتاب الفتن سے پہلے کی احادیث کی شرح پر ختم ہے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سنن ابن ماجہ پر برصغیر میں ہونے والی خدمات

۱- شرح السندی ابولحسن محمد بن عبدالھادی (م ۱۱۳۸ھ)ط بمصر المطبعۃ العلمیۃ سن ۱۳۱۳
۲- إنجاح الحاجۃ شرح سنن ابن ماجہ للشیخ عبدالغنی المجددی، (م ۱۲۹۵ھ) ۱۳۸۲ھ)مطبوع دہلی
۳ - سنن ابن ماجہ( نصف اول) تصحیح محمد طاہر ط المطبع الفاروقی دہلی سن ۱۸۴۷
ب- سنن ابن ماجہ (نصف آخر) تصحیح الشیخ عبدالاحد ط مطبع مجتبائی دہلی اور اس ایڈیشن کے ساتھ حاشیہ پر سیوطی کی شرح ابن ماجہ اور عبدالغنی مجددی کی إنجاح الحاجہ بھی شائع ہوئی ہے ،
۴- سنن ابن ماجہ مع الحوشی المعتبرۃ المقبولۃ المأخوذۃ من شرح الشیخ عبدالغنی المجددی و الشیخ السیوطی ط سعید کمپنی کراچی اور اس کے ساتھ حاشیہ پر مؤطا امام مالک اور سیوطی کی إسعاف المبطا برجال الموطأ بھی شائع ہوئی ہے اور حاشیہ ہی پر نخبۃ الفکر آخر میں مطبوع ہے، اور یہ مطبع نظامی دہلی سے شائع شدہ ہے اور اس کا فوٹو آف سیٹ پاکستان کراچی سے شائع ہوا ہے ۔
۵- مفتاح الحاجہ شرح سنن ابن ماجہ للشیخ محمدبن عبداللہ العلوی (ط ۔ الھند ،ایک جلد میں)
۶- رفع العجاجہ شرح و ترجمۃ ابن ماجہ تالیف : علامہ وحید الزمان حیدر آبادی
۷- ما تمس إلیہ الحاجہ لمن یطالع سنن ابن ماجہ (مؤلف: عبدالرشید نعمانی)
۸- تحقیق الدکتور محمد مصطفی الاعظمی (چارجلدوں میں)(موصوف فاضل دیوبند اور فاضل ازہر ہیں اور جامعہ ام القری اور جامعۃ الملک سعود میں حدیث کے استاذ تھے ، ایک زمانے سے سعودی شہریت کے حامل ہیں ، ہندوستان کے مشہور صنعتی اور تعلیمی شہر مئوناتھ بھنجن یو پی کے اصل باشندہ ہیں)
اعظمی صاحب کے سامنے اس کتاب کی تحقیق میں بعض قدیم مخطوطات تھے ،یہ چار حصوں پر مشتمل ہے، دوحصے متن حدیث کے اور دو فہارس احادیث کے، اس نسخہ میں (۲۰۰) حدیثیں محمد فواد عبدالباقی کے نسخہ سے کم ہیں جس کا سبب محقق کا مذکورہ قلمی نسخہ پر اعتماد ہے۔
میرے خیال میں (تحفۃ الأ شراف) کو سامنے رکھ کر اگریہ ایڈیشن تیار کیا جاتا تو وہ مناسب ترین ایڈیشن ہوتا۔
٭ مآخذ ومصادر:
ابن ماجہ کی سوانح حیات کے لئے ملاحظہ ہو:
۱- تأریخ دمشق (لابن عساکر)
۲- المنتظم (لابن الجوزی)
۳- وفیات الاعیان لابن خلکان
۴- تہذیب الکمال فی اسماء الرجال للمزی
۵- تہذیب التہذیب لابن حجر(۹؍۵۳۰-۵۳۲)
۶- تذکرۃ الحفاظ للذہبی
۷- العبر للذہبی
۸- الوافی بالوفیات للصفدی
۹- البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر
۱۰- تذہیب التہذیب
۱۱- النجوم الزاہرۃ لابن بردی تغری(۳؍۷۰)
۱۲- طبقات الحفاظ للسیوطی(۲۷۸-۲۷۹)
۱۳- خلاصۃ تذہیب تہذیب الکمال (۳۶۵)
۱۴- طبقات المفسرین للسیوطی(۲؍۲۷۲-۲۷۳)
۱۵- شذرات الذہب لابن العماد(۲؍۱۶۴)
۱۶- الإ رشاد إلی بلاد الأ مصار(للخلیلی)
۱۷- التقیید (لابن نقطہ)
۱۸- الحطۃ فی ذکر الصحاح الستہ (للنواب صدیق حسن القنوجی البوفالی)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سنن ابن ماجہ میں استعمال ہونے والے رموز وعلامات


خ صحیح البخاری
م صحیح مسلم
د سنن ابی داود
ن سنن النسائی
ت سنن الترمذی
ق سنن ابن ماجہ
حم مسند احمد
ط موطا امام مالک
دی سنن الدارمی


الصحیحۃ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ، للالبانی
الضعیفۃ سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ، للالبانی


تفرد بہ ابن ماجہ یعنی یہ حدیث صرف سنن ابن ماجہ میں ہے اور صحاح ستہ کے بقیہ مؤلفین کے یہاں نہیں ہے
انظر ما قبلہ اس سے پہلے کی حدیث ملاحظہ ہو
انظر حدیث رقم (۔۔۔۔) حدیث نمبر (۔۔۔۔) ملاحظہ ہو
* تخريج: خ/الاعتکاف ۵ (۲۰۳۲) (خ) سے مراد صحیح البخاری، (الاعتکاف) یعنی صحیح البخاری کی کتاب الاعتکاف، (۵) یعنی باب نمبر، (۲۰۳۲) یعنی حدیث نمبر


٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207


{ كِتَاْبُ السُّنَّةِ }

1- بَاب اتِّبَاعِ سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ ﷺ
۱-باب: اتباعِ سنت کابیان ۱؎​
وضاحت ۱؎ : اتباع: لغت میں پیروی یعنی پیچھے چلنے کو کہتے ہیں ،اسی سے اتباع جنائز ہے ،یعنی جنازہ کے پیچھے چلنا، یہاں اتباع سنت سے مراد عقائد واعمال اور اخلاق ومعاملات میں رسول اکرم ﷺ کی پیروی اور اقتداء ہے۔
اور سنت لغت میں طریقہ اور سیرت کو کہتے ہیں ، اور یہاں (اصطلاحًا) وہ عقیدہ ، عمل اور اخلاق وعادات مراد ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے قولاً، فعلاً، اور تقریراً مروی اور ثابت ہیں۔


1- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا أَمَرْتُكُمْ بِهِ فَخُذُوهُ، وَمَا نَهَيْتُكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۹۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۵۵) (صحیح)
(اس سند میں شریک بن عبد اللہ القاضی ضعیف ہیں، لیکن متابعت سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث کی تخریج میں دئیے گئے حوالہ جات)
۱ - ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں جس چیز کا حکم دوں اسے مانو، اور جس چیز سے روک دوں اس سے رک جاؤ‘‘ ۔


2- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: أَخبرنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ؛ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِسُؤَالِهِمْ وَاخْتِلافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْئٍ فَخُذُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْئٍ فَانْتَهُوا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۶۱)، الحدیث أخرجہ من طریق الأعمش: م/الحج ۷۳ (۱۳۳۷)، الفضائل ۳۷ (۱۳۱)، ت/العلم ۱۷ (۶۲۷۹)، حم (۲/۴۹۵)، وقد أخرجہ من طرق أخری: خ/الاعتصام ۲ (۷۲۸۸)، م/الفضائل ۳۷ (۱۳۰)، ن/الحج ۱ (۲۶۲۰)، حم (۲/۲۴۷، ۲۵۸، ۳۱۳، ۴۲۸، ۴۴۸) (صحیح)
۲- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو چیز میں نے تمہیں نہ بتائی ہو اسے یوں ہی رہنے د و ۱؎ ، اس لئے کہ تم سے پہلے کی امتیں زیادہ سوال اور اپنے انبیاء سے اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لہٰذا جب میں تمہیں کسی چیز کا حکم دوں تو طاقت بھر اس پر عمل کرو، اور جب کسی چیز سے منع کردوں تو اس سے رک جاؤ‘‘ ۔
وضاحت ۱؎ : ’’ذَرُوْنِيْ مَاْ تَرَكْتُكُمْ‘‘ میں ’’ما‘‘ مصدریہ ظرفیہ ہے، یعنی جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، مطلب یہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں میں تم سے کچھ نہ کہوں اس کے بارے میں تم مجھ سے غیر ضروری سوالات کرنے سے بچو۔


3- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَنْ أَطَاعَنِي فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ عَصَى اللَّهَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف ۱۲۴۷۷، ۱۲۵۴۷)، الحدیث أخرجہ: خ/الجہاد ۱۰۹ (۲۹۵۷)، الأحکام ۱ (۷۱۳۷)، م/الإمارۃ ۸ (۸۱۳۵)، ن/البیعۃ ۲۷ (۴۱۹۸)، حم (۲/۲۴۴، ۲۵۲، ۲۷۰، ۳۱۳، ۳۴۲، ۴۱۶، ۴۶۷) (صحیح)
(یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے حدیث نمبر : ۲۸۵۹)
۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی، اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اکرم ﷺ کی اطاعت دراصل اللہ تعالی ہی کی اطاعت ہے، اور ان کی نافرمانی اللہ تعالی کی نافرمانی ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے : {مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ} [سورة النساء: 80]، یعنی: (جو اطاعت کرے رسول کی وہ اطاعت کرچکا اللہ کی)۔


4- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثًا لَمْ يَعْدُهُ، وَلَمْ يُقَصِّرْ دُونَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۴۴۲، ومصباح الزجاجۃ: ۲)، وقد أخرجہ: حم (۲/۸۲)، دي/المقدمۃ ۳۱ (۳۲۷) (صحیح)
۴- ابو جعفر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث سنتے تو نہ اس میں کچھ بڑھاتے ، اور نہ ہی کچھ گھٹاتے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی وہ حدیث کی روایت میں حد درجہ محتاط تھے، الفاظ کی پوری پابندی کرتے تھے، اور ہو بہو اسی طرح روایت کرتے جس طرح سنتے۔


5- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ سُمَيْعٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَفْطَسُ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَائِ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَنَحْنُ نَذْكُرُ الْفَقْرَ وَنَتَخَوَّفُهُ، فَقَالَ: < آلْفَقْرَ تَخَافُونَ؟ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتُصَبَّنَّ عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا صَبًّا حَتَّى لا يُزِيغَ قَلْبَ أَحَدِكُمْ إِزَاغَةً إِلا هِيهْ، وَايْمُ اللَّهِ؛ لَقَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى مِثْلِ الْبَيْضَائِ لَيْلُهَا وَنَهَارُهَا سَوَائٌ >.
قَالَ أَبُو الدَّرْدَائِ: صَدَقَ -وَاللَّهِ- رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، تَرَكَنَا -وَاللَّهِ- عَلَى مِثْلِ الْبَيْضَائِ، لَيْلُهَا وَنَهَارُهَا سَوَائٌ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۲۹، ومصباح الزجاجۃ: ۱) (حسن)
۵- ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، ہم اس وقت غربت وافلاس اور فقر کاتذکرہ کر رہے تھے، اور اس سے ڈر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگفقر سے ڈرتے ہو؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضرور تم پر دنیا آئندہ ایسی لائی جائے گی کہ اس کی طلب مزید تمہارے دل کو حق سے پھیر دے گی ۱؎ ، قسم اللہ کی! میں نے تم کو ایسی تابناک اور روشن شریعت پر چھوڑا ہے جس کی رات (تابناکی میں) اس کے دن کی طرح ہے‘‘۔
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم اللہ کی! رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا، قسم اللہ کی! آپ نے ہم کو ایک تابناک اور روشن شریعت پر چھوڑا، جس کی رات (تابناکی میں) اس کے دن کی طرح ہے ۲؎ ۔
وضاحت ۱ ؎ : ’’إلا هيه‘‘ میں ھی کی ضمیر دنیا کی طرف لوٹ رہی ہے، اور اس کے آخر میں ’’ھا‘‘ ھائے سکت ہے ۔
وضاحت ۲؎ : اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں نے تمہیں ایک ایسے حال پر چھوڑا ہے کہ تمہارے دل پاک وصاف ہیں،ان میں باطل کی طرف کوئی میلان نہیں، اور اللہ تعالی کی طرف توجہ سے تنگی وخوشحالی کوئی بھی چیزانہیں پھیر نہیں سکتی ۔


6- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: « لا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي مَنْصُورِينَ لايَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ >۔
* تخريج: ت/کتاب الفتن ۲۷ (۲۱۹۲)، ۵۱ (۲۲۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۳۶ ۴/۹۷، ۱۰۱) (صحیح)
۶- قرہ بن ایاس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’میری امت میں سے ایک گروہ کو ہمیشہ قیامت تک اللہ تعالی کی مدد حا صل رہے گی ۱؎ ، اور جو اس کی تائید ومدد نہ کرے گا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ’’طائفة‘‘ کا لفظ نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے قلت مراد ہے، یعنی یہ ایک ایسا گروہ ہوگا جوتعداد میں کم ہوگا،یا تعظیم کے لئے ہے یعنی یہ ایک بڑے رتبے والا گروہ ہوگا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس گروہ کے بار ے میں فرماتے ہیں کہ اگر اس سے مراد اہل حدیث نہیں ہیں تومیں نہیں جانتا کہ پھر اس سے مراد کون ہوں گے، اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے عاملین بالحدیث کو یہ بشارت دی ہے کہ کسی کی موافقت یا مخالفت اس کو نقصان نہ پہنچا سکے گی، اس لئے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حفاظت وامان میں ہیں، اس لئے متبع سنت کو اس حدیث کی روشنی میں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ حدیث رسول کے ثابت ہوجانے کے بعدسلف صالحین کے فہم ومرادکے مطابق اس پر بلا خوف وخطر عمل کرے اور اگر ساری دنیا بھی اس کی مخالف ہو تو اس کی ذرہ برابر پرواہ نہ کرے، اس لئے کہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت اللہ کا آخری دین ہے، اور اسی پر چل کر ہمارے لئے نجات ہے۔


7- حَدَّثَنَا أَبُو عَبْداللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلْقَمَةَ نَصْرُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ عُمَيْرِ بْنِ الأَسْوَدِ وَكَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي قَوَّامَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لا يَضُرُّهَا مَنْ خَالَفَهَا >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۷۸، ومصباح الزجاجۃ: ۳)، وقد أ خرجہ: حم (۳/۴۳۶، ۴/۹۷) (حسن صحیح)
۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم (دین) پر قائم رہنے والا ہو گا، اس کی مخا لفت کرنے والا اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا‘‘ ۔


8- حَدَّثَنَا أَبُو عَبْداللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْجَرَّاحُ بْنُ مَلِيحٍ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ زُرْعَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عِنَبَةَ الْخَوْلانِيَّ -وَكَاْنَ قَدْ صَلَّى الْقِبْلَتَيْنِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ- قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُوْلُ: “ لا يَزَالُ اللَّهُ يَغْرِسُ فِي هَذَا الدِّينِ غَرْسًا يَسْتَعْمِلُهُمْ فِي طَاعَتِهِ “۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۷۵، ومصباح الزجاجۃ: ۴)، حم (۴/۲۰۰) (حسن)
۸- ابو عنبہ خولانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دونوں قبلوں کی طرف صلاۃ پڑھی تھی، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ ہمیشہ اس دین میں نئے پودے اگا کر ۱؎ ان سے اپنی اطاعت کراتا رہے گا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : نئے پودے اُگانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نئے نئے لوگوں کو پیدا فرمائے گا، جو اس کی اطاعت وفرمانبرداری کریں گے۔


9- حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ابْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَامَ مُعَاوِيَةُ خَطِيبًا فَقَالَ: أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلا وَطَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي ظَاهِرُونَ عَلَى النَّاسِ لا يُبَالُونَ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلا مَنْ نَصَرَهُمْ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۱۹)، وقد أخرجہ: خ/فرض الخمس ۷ (۳۱۱۶)، المناقب ۲۸ (۳۶۴۰)، الاعتصام ۱۰ (۷۳۱۱)، التوحید ۲۹ (۷۴۵۹)، م/الإمارۃ ۵۳ (۱۹۲۳)، حم (۴/۹۳) (صحیح)
۹- شعیب کہتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور کہا: تمہارے علماء کہاں ہیں؟ تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ’’ قیامت تک میری امت میں سے ایک گروہ لوگوں پر غالب رہے گا، کوئی اس کی مدد کرے یا نہ کرے اسے اس کی پروا ہ نہ ہوگی‘‘ ۔


10- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَائَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ مَنْصُورِينَ، لا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ >۔
* تخريج: م/الإمارۃ ۵۳ (۱۹۲۰)، الفتن ۵ (۲۸۸۹)، ت/الفتن ۱۴ (۲۱۷۶)، ۵۱ (۲۲۲۹)، (تحفۃ الأشراف: ۲۱۰۲)، وقد أخرجہ: د/الفتن ۱ (۴۲۵۲)، حم (۵/۳۴، ۳۵)، دي/الجہاد ۳۸ (۲۴۷۶) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے : ۳۹۵۲) (صحیح)
۱۰- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ نصرت الٰہی سے بہرہ ور ہوکر حق پر قائم رہے گا، مخالفین کی مخالفت ا سے (اللہ کے امریعنی:) ۱؎ قیامت تک کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گی ‘‘ ۔
وضاحت ۱؎ : امر اللہ سے مراد وہ ’’ہوا‘‘ ہے جو سارے مومنوں کی روحوں کو قبض کرے گی۔


11- حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ عَبْدُاللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَالِدًا يَذْكُرُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَخَطَّ خَطًّا، وَخَطَّ خَطَّيْنِ عَنْ يَمِينِهِ، وَخَطَّ خَطَّيْنِ عَنْ يَسَارِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ فِي الْخَطِّ الأَوْسَطِ فَقَالَ: < هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ >، ثُمَّ تَلا هَذِهِ الآيَةَ: {وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ}.
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۲۳۵۷، ومصباح الزجاجۃ: ۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۹۳، ۳۱۶، ۳۲۲، ۳۸۵) (صحیح)
(سند میں مجالد بن سعید ضعیف راوی ہیں، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: السنہ لابن ابی عاصم : ۱۶ ، وتعلیق عوض الشہری علی مصباح الزجاجۃ: ۵)
۱۱- جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے پاس تھے،آپ نے ایک لکیر کھینچی اور دو لکیریں اس کے دائیں جانب اور دو بائیں جانب کھینچیں، پھر اپنا ہاتھ بیچ والی لکیر پر رکھا اورفرمایا:’’یہ اللہ کا راستہ ہے‘‘، پھر اس آیت کی تلاوت کی: {وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ} (سورۂ انعام: ۱۵۳): ’’یہی میرا سیدھا راستہ ہے پس تم اسی پر چلو، اور دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ یہ تمہیں اللہ تعالی کے راستہ سے بھٹکا دیں گے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدھا راستہ اللہ تعالی کا بتایا ہوا راستہ ہے، اور اللہ تعالی نے یہی فرمایا کہ یہ قرآن جو میں نے تمہارے واسطے بھیجا ، اور جو رویہ اور طریقہ اس میں تمہارے چلنے کو مقرر فرمایا ہے، یہی میری ر ضا مندی اور میری طرف پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے، اسی پر چلو اور اس کے علاوہ دیگر راستے تم کو نجات کے راستہ سے بہکادیں گے، کیونکہ وہ سب شیطان کے راستے ہیں، اورنبی اکرم ﷺ نے بھی بکمال رأفت ورحمت یہ سب طریقے صاف طور پر ہرآدمی کے لئے واضح فرمادیئے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2- بَاب تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عارَضَهُ
۲-باب: حدیثِ نبوی کی تعظیم وتوقیراور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید​


12- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ جَابِرٍ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِيكَرِبَ الْكِنْدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < يوشِكُ الرَّجُلُ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يُحَدَّثُ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِي فَيَقُولُ: بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلّ، مَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَلالٍ اسْتَحْلَلْنَاهُ، وَمَا وَجَدْنَا فِيهِ مِنْ حَرَامٍ حَرَّمْنَاهُ، أَلا وَإِنَّ مَا حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِثْلُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ >۔
* تخريج: ت/العلم ۱۰ (۲۶۶۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۵۵۳)، وقد أخرجہ: د/السنۃ ۶ (۴۶۰۴)، حم (۴/۱۳۲)، دي/المقدمۃ ۴۹، (۶۰۶) (صحیح)
۱۲- مقدام بن معدیکرب کندی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''قریب ہے کہ کوئی آدمی اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور اس سے میری کوئی حدیث بیان کی جائے تو وہ کہے: (ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی کتاب کافی ہے، ہم اس میں جو چیز حلال پائیں گے اسی کو حلال سمجھیں گے اور جوچیز حرام پائیں گے اسی کوحرام جانیں گے)، تو سن لو! جسے رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے وہ ویسے ہی ہے جیسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے''۔


13- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ فِي بَيْتِهِ أَنَا سَأَلْتُهُ عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ - ثُمَّ مَرَّ فِي الْحَدِيثِ قَالَ: أَوْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ- عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الأَمْرُ مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ: لا أَدْرِي ، مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ >۔
* تخريج: د/السنۃ ۶ (۴۶۰۵)، ت/العلم ۱۰ (۲۶۶۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۰۱۹)، وقد أخرجہ: حم (۳/۳۶۷) (صحیح)
۱۳- ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''میں تم میں سے کسی کو ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے ہو، اور اس کے پاس جن چیزوں کا میں نے حکم دیا ہے، یا جن چیزوں سے منع کیا ہے میں سے کوئی بات پہنچے تو وہ یہ کہے کہ میں نہیں جانتا، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو چیز پائی اس کی پیروی کی'' ۔


14- حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ابْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قاَلَ: < مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ >۔
* تخريج: خ/الصلح ۵ (۲۶۹۷)، م/الأقضیۃ ۸ (۱۷۱۸)، د/السنۃ ۶ (۴۶۰۶)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۴۵۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۷۳، ۱۴۶، ۱۸۰، ۲۴۰، ۲۵۶، ۲۷۰) (صحیح)
۱۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز ایجاد کی جواس میں سے نہیں ہے، تو وہ قابل رد ہے ۱؎ '' ۔
وضاحت ۱؎ : یہ ایک اہم شرعی ضابطہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جس کام پر کتاب اورسنت صحیحہ کی کوئی دلیل نہ ہو، اور صحابہ وتابعین اور خیر القرون کے تعامل سے وہ محروم ہو تو وہ بدعت ہے۔


15- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّ رَجُلا مِنَ الأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ: سَرِّحِ الْمَائَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَاخْتَصَمَا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <اسْقِ يَا زُبَيْرُ! ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَائَ إِلَى جَارِكَ"، فَغَضِبَ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ ؟! فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، ثُمَّ قَالَ: <يَا زُبَيْرُ! اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَائَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ>، قَالَ: فَقَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ، إِنِّي لأَحْسِبُ هَذِهِ الآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَ لِكَ: { فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} ۔
* تخريج: خ/الشرب المساقاۃ ۶ (۲۳۵۹)، ۸ (۲۳۶۲)، تفسیر القرآن ۱۲ (۳۰۲۷)، م/الفضائل ۳۶ (۲۳۵۷)، د/الأقضیۃ ۳۱ (۳۶۳۷)، ت/الأحکام ۲۶ (۱۳۶۳)، تفسیر القرآن سورۃ النساء (۳۰۲۷)، ن/آداب القضاۃ ۲۶ (۵۴۱۸)، (تحفۃ الأشراف: ۵۲۷۵)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۶۵، ۴/۵)، (یہ حدیث مکرر ہے دیکھئے: ۲۴۸۰) (صحیح)
۱۵- عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ ایک انصاری نے زبیررضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کے پاس مقام حرہ کی اس نالی کے بارے میں جھگڑا کیا جس سے لوگ کھجور کے باغات کی سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیررضی اللہ عنہ سے کہا: پانی چھوڑ دو تاکہ میرے کھیت میں چلا جائے، زبیر رضی اللہ عنہ نے انکار کیا، ان دونوں نے اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ''زبیر! تم اپنا کھیت سینچ لو! پھر اپنے پڑوسی کی طرف پانی چھوڑدو''، انصاری غضبناک ہوکر بولا: اللہ کے رسول! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کے پھوپھی کے بیٹے ہیں؟ یہ سن کر رسول اکرم ﷺ کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا، آپ ﷺ نے فرمایا: ''زبیر! تم اپنا باغ سینچ لو، پھر پانی روکے رکھو یہاں تک کہ وہ مینڈوں تک پہنچ جائے''، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: زبیر نے کہا: قسم اللہ کی! میرا خیال ہے کہ یہ آیت اسی سلسلہ میں نازل ہوئی ہے: {فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا} [سورة النساء: 65]: (قسم ہے آپ کے رب کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس کے سارے اختلافات اور جھگڑوں میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلہ آپ ان میں کر دیں اس سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں،اور فرما نبرداری کے ساتھ قبول کرلیں)۔


16- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <لا تَمْنَعُوا إِمَائَ اللَّهِ أَنْ يُصَلِّينَ فِي الْمَسْجِدِ"، فَقَالَ ابْنٌ لَهُ: إِنَّا لَنَمْنَعُهُنَّ، قال: فَغَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا وَقَالَ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَتَقُولُ: إِنَّا لَنَمْنَعُهُنَّ ؟!
* تخريج: خ/الأذان ۱۶۶ (۸۷۳)، والنکاح ۱۱۷ (۵۲۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۴۳)، وقد أخرجہ: م/الصلاۃ ۳۰ (۴۴۲)، د/الصلاۃ ۵۳ (۵۶۶)، ت/الصلاۃ ۲۸۳ (۵۷۰)، ن/المساجد ۱۵ (۷۰۷)، ط/القبلۃ ۶ (۱۲)، حم (۲/۷، ۱۵۱)، دي/الصلاۃ ۵۷ (۱۳۱۴) (صحیح)
۱۶- عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''تم اللہ کی بندیوں (عورتوں) کو مسجد میں صلاۃ پڑھنے سے نہ روکو''، تو ان کے ایک بیٹے نے ان سے کہا: ہم تو انہیں ضرور روکیں گے، یہ سن کر ابن عمر رضی اللہ عنہما سخت ناراض ہوئے اور بولے: میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کررہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں ضرور روکیں گے؟! ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : گویا تم اپنے آپ کو رسول اکرم ﷺ کے مدمقابل لا رہے ہو، مسند احمد (۲/۶۳) میں ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے زندگی بھر اس لڑکے سے بات نہیں کی۔


17- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ، وَأَبُو عَمْرٍو حَفْصُ بْنُ عُمَرَ قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا إِلَى جَنْبِهِ ابْنُ أَخٍ لَهُ ، فَخَذَفَ، فَنَهَاهُ وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْهَا وَقَالَ: < إِنَّهَا لا تَصِيدُ صَيْدًا وَلا تَنْكِي عَدُوًّا، وَإِنَّهَا تَكْسِرُ السِّنَّ وَتَفْقَأُ الْعَيْنَ "، قَالَ: فَعَادَ ابْنُ أَخِيهِ يَخْذِفُ، فَقَالَ: أُحَدِّثُكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ نَهَى عَنْهَا ثُمَّ عُدْتَ تَخْذِفُ؟ لا أُكَلِّمُكَ أَبَدًا۔
* تخريج: م/الذبائح ۱۰ (۱۹۵۴)، (تحفۃ الأشراف: ۹۶۵۷)، وقد أخرجہ: خ/تفسیر سورۃ الفتح ۵ (۴۸۴۱)، والذبائح ۵ (۵۴۷۹)، والأدب ۱۲۲ (۶۲۲۰)، د/الدیات ۲۱ (۴۵۷۸)، ن/القسامۃ ۳۳ (۴۸۱۹)، حم (۴/۸۶، ۵/۴۶، ۵۴، ۵۵، ۵۶)، دي/المقدمۃ ۴۰ (۴۵۲)، (یہ حدیث مکرر ہے ، دیکھئے : ۳۲۲۶، ۳۲۲۷) (صحیح)
۱۷- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا ایک بھتیجا ان کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا، اس نے دو انگلیوں کے درمیان کنکری رکھ کر پھینکی، تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس کام سے روکا ہے اور فرمایاہے کہ: ''یہ کنکری نہ تو کوئی شکار کرتی ہے، اور نہ ہی دشمن کو زخمی کرتی ہے، البتہ یہ دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے''۔
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ان کا بھتیجا دوبارہ کنکریاں پھینکنے لگا تو انہوں نے کہا: میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ ﷺ نے اس کام سے روکا ہے اور تم پھر اسے کرنے لگے، میں تم سے کبھی بات نہیں کروں گا۔


18- حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ، عَنْ إِسْحَاقَ ابْنِ قَبِيصَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ الأَنْصَارِيَّ -النَّقِيبَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ- غَزَا مَعَ مُعَاوِيَةَ عَرْضَ الرُّومِ، فَنَظَرَ إِلَى النَّاسِ، وَهُمْ يَتَبَايَعُونَ كِسَرَ الذَّهَبِ بِالدَّنَانِيرِ، وَكِسَرَ الْفِضَّةِ بِالدَّرَاهِمِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ الرِّبَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا تَبْتَاعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلا مِثْلا بِمِثْلٍ، لا زِيَادَةَ بَيْنَهُمَا وَلا نَظِرَةً >، فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: يَا أَبَا الْوَ لِيدِ! لا أَرَى الرِّبَا فِي هَذَا إِلا مَا كَانَ مِنْ نَظِرَةٍ، فَقَالَ عُبَادَةُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَتُحَدِّثُنِي عَنْ رَأْيِكَ؟! لَئِنْ أَخْرَجَنِي اللَّهُ لا أُسَاكِنْكَ بِأَرْضٍ لَكَ عَلَيَّ فِيهَا إِمْرَةٌ، فَلَمَّا قَفَلَ لَحِقَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا أَقْدَمَكَ يَا أَبَا الْوَلِيدِ؟ فَقَصَّ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ وَمَا قَالَ مِنْ مُسَاكَنَتِهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِلَى أَرْضِكَ، فَقَبَحَ اللَّهُ أَرْضًا لَسْتَ فِيهَا وَأَمْثَالُكَ، وَكَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ: لا إِمْرَةَ لَكَ عَلَيْهِ، وَاحْمِلِ النَّاسَ عَلَى مَا قَالَ، فَإِنَّهُ هُوَ الآمِرُ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۰۶، ومصباح الزجاجۃ: ۶)، وقد أخرجہ: م/المساقاۃ ۱۵ (۱۵۸۷)، د/البیوع ۱۲ (۳۳۴۹)، ت/البیوع ۲۳ (۱۲۴۰)، ن/البیوع ۴۲ (۴۵۶۷)، حم (۵/۳۱۴)، دي /البیوع ۴۱ (۲۵۵۴)، (یہ حدیث مکرر ہے ، دیکھئے: ۲۲۵۴) (صحیح)
(بوصیری کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل صحیحین میں عبادہ رضی اللہ عنہ سے قصہ مذکورہ کے بغیرمروی ہے، اور اس کی صورت مرسل ومنقطع کی ہے کہ قبیصہ کو قصہ نہیں ملا، امام مزی کہتے ہیں: قبیصہ کی ملاقات عبادہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی)
۱۸- قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ ﷺسے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سرزمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: ''تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎ ''، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابوالولید! ۲؎ میر ی رائے میں تو یہ سود نہیں ہے، یعنی نقدا نقد میں تفاضل (کمی بیشی) جائز ہے، ہاں اگر ادھار ہے تو وہ سود ہے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سے حدیثِ رسول بیان کررہاہوں اورآپ اپنی رائے بیان کررہے ہیں، اگر اللہ تعالی نے مجھے یہاں سے صحیح سالم نکال دیاتو میں کسی ایسی سرزمین میں نہیں رہ سکتا جہاں میرے اوپر آپ کی حکمرانی چلے، پھر جب وہ واپس لوٹے تو مدینہ چلے گئے، تو ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابو الولید! مدینہ آنے کا سبب کیا ہے؟ تو انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کے زیر انتظام علاقہ میں نہ رہنے کی جو بات کہی تھی اسے بھی بیان کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ''ابوالولید! آپ اپنی سرزمین کی طرف واپس لوٹ جائیں، اللہ اس سرزمین میں کوئی بھلائی نہ رکھے جس میںآپ اورآپ جیسے لوگ نہ ہوں''، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ عبادہ پرآپ کا حکم نہیں چلے گا، آپ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ عبادہ کی بات پر چلیں کیونکہ شرعی حکم در اصل وہی ہے جو انہوں نے بیان کیا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ایک ہاتھ لو اور دوسرے ہاتھ دو۔
وضاحت ۲؎ : عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو الولید ہے ۔


19 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْخَلاَّدِ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَجْلانَ، أَنْبَأَنَا عَوْنُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَظُنُّوْا بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ الَّذِي هُوَ أَهْنَاهُ وَأَهْدَاهُ وَأَتْقَاهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۹۵۳۲، ومصباح الزجاجۃ: ۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۴۱۵)، دي/المقدمۃ ۵۰ (۶۱۲) (ضعیف)
(عون بن عبداللہ کی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں ہے،سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن آگے علی رضی اللہ عنہ سے ثابت اس معنی کا قول آرہا ہے، ملاحظہ ہو حدیث نمبر: ۲۰ )
۱۹- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان کروں تو تم رسول اللہ ﷺ کے متعلق یہی (خیال وگمان) رکھو کہ آپ کی بات سب سے زیادہ عمدہ ،اور ہدایت وتقوی میں سب سے بڑھی ہوئی ہے۔


20- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِالرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثًا فَظُنُّوا بِهِ الَّذِي هُوَ أَهْنَاهُ وَأَهْدَاهُ وَأَتْقَاهُ ۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۷۷، ومصباح الزجاجۃ: ۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۲۲، ۱۳۰)، دي/المقدمۃ ۵۰ (۶۱۲) (صحیح)
۲۰- علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے کہ جب میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث بیان کروں تو تم یہی (خیال گمان) رکھو کہ آپ ﷺ کی بات سب سے زیادہ عمدہ،اور ہدایت وتقوی میں سب سے بڑھی ہوئی ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی حدیثوں کو صحیح محمل پر رکھو اور مناسب موقع پر فٹ کرو، اور اس میں تعارض اور تناقض کا خیال نہ کرو ،اور جو حدیث کا منطوق ہو اسی کو تقوی اور ہدایت جانو، اور اس کے خلاف کو مطلقاً بہتر اور ہدایت نہ سمجھو۔


21 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، حَدَّثَنَا الْمَقْبُرِيُّ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أ نَّهُ قَالَ: < لا أَعْرِفَنَّ مَا يُحَدَّثُ أَحَدُكُمْ عَنِّي الْحَدِيثَ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى أَرِيكَتِهِ فَيَقُولُ: اقْرَأْ قُرْآنًا، مَا قِيلَ مِنْ قَوْلٍ حَسَنٍ فَأَنَا قُلْتُهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۳۳۶) (ضعیف جدًا)
(سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری متروک روای ہیں)
۲۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''میں یہ ہرگز نہ پاؤں کہ تم میں سے کسی سے میری حدیث بیان کی جارہی ہو اور وہ اپنے آراستہ تخت پر ٹیک لگائے یہ کہتا ہو: قرآن پڑھو، سنو! جو بھی اچھی بات کہی گئی ہے وہ میری ہی کہی ہوئی ہے'' ۔


22- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ آدَمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ (ح) وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ لِرَجُلٍ: يَا ابْنَ أَخِي، إِذَا حَدَّثْتُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَدِيثًا فَلا تَضْرِبْ لَهُ الأَمْثَالَ .
* تخريج: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۳۲، ۱۵۰۷۰)، وقد أخرجہ: حم (۲/ ۳۳۲) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۴۸۵) (حسن)
۲۲- ابو سلمہ (ا بن عبدالرحمن بن عوف) سے روایت ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی سے کہا: میرے بھتیجے! جب میں تم سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی حدیث بیان کروں تو تم اس پر کہاوتیں اور مثالیں نہ بیان کیا کرو ۔


[ز] 22/ أ- [زِيَادَاْتُ أَبِيْ الْحَسَنِ القَطَّانِ] قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِاللَّهِ الْكَرَابِيسِيُّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ مِثْلَ حَدِيثِ عَلِيٍّ -رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ-۔
* تخريج: (ملاحظہ ہو حدیث نمبر : ۲۰) (صحیح)
۲۲/أ- اس سند سے عمرو بن مرہ سے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ہم مثل مروی ہے ۔
 
Top