• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
22- بَاب فِي النُّجُومِ
۲۲-باب: علم نجوم کا بیان​


3905- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَمُسَدَّدٌ -الْمَعْنَى- قَالا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ ابْنِ الأَخْنَسِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ >۔
* تخريج: ق/الأدب ۲۸ (۳۷۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۶۵۵۹)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۲۷، ۳۱۱) (حسن)
۳۹۰۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے علم نجوم کا کوئی حصہ اخذ کیا تو اس نے اتنا ہی جادو اخذ کیا، وہ جتنا اضافہ کرے گا اتنا ہی اضافہ ہوگا''۔


3906- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ صَلاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ [فِي] إِثْرِ سَمَائٍ كَانَتْ مِنَ اللَّيْلِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ: < هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ >، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < قَالَ: أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ: فَأَمَّا مَنْ: قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ، وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْئِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ>.
* تخريج: خ/الأذان ۱۵۶ (۸۴۶)، الاستسقاء ۲۸ (۱۰۳۸)، المغازي ۳۵ (۴۱۴۷)، التوحید ۳۵ (۷۵۰۳)، م/الإیمان ۳۲ (۱۲۵)، ن/الاستسقاء ۱۶ (۱۵۲۶)، عمل الیوم واللیلۃ ۲۶۷ (۹۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۳۷۵۷)، وقد أخرجہ: ط/الاستسقاء ۳ (۴)، حم (۴/۱۱۵، ۱۱۶، ۱۱۷) (صحیح)
۳۹۰۶- زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے حدیبیہ میں ہمیں صلاۃِ فجر بارش کے بعد پڑھا ئی جو رات میں ہوئی تھی تو جب آپ فارغ ہوگئے اور لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے توفرمایا:'' کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا کہا؟'' ، لوگوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جا نتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:'' اس نے کہا: میرے بندوں میں سے کچھ نے آج مو من ہو کر صبح کی، اور کچھ نے کافر ہو کر، جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی وہ میرے اوپر ایما ن رکھنے والاہوا اور ستا روں کا منکر ہوا، اور جس نے کہا کہ ہم فلاں اور فلاں نچھتر کے سبب بر سا ئے گئے تو وہ میرا منکر ہوا اور ستاروں پر یقین کرنے والا ہوا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
23- بَاب فِي الْخَطِّ وَزَجْرِ الطَّيْرِ
۲۳-باب: رمل اور پرندہ اڑا نے کا بیان​


3907- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَوُفٌ، حَدَّثَنَا حَيَّانُ، قَالَ غَيْر مُسَدَّدٍ: حَيَانُ بْنُ الْعَلاءِ، حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ قَبِيصَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < الْعِيَافَةُ وَالطِّيَرَةُ وَالطَّرْقُ مِنَ الْجِبْتِ > الطَّرْقُ: الزَّجْرُ، وَالْعِيَافَةُ: الْخَطُّ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۷۷، ۵/۶۰) (ضعیف)
(اس کے راوی''حیان'' لین الحدیث ہیں )
۳۹۰۷- قبیصہ بن وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''رمل، بدشگونی اور پرند اڑانا کفر کی رسموں میں سے ہے''، پرندوں کو ڈانٹ کر اڑانا طرق ہے، اور عیافہ وہ لکیریں ہیں جو زمین پر کھینچی جاتی ہیں جسے رمل کہتے ہیں۔


3908- حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ: قَالَ عَوْفٌ: الْعِيَافَةُ زَجْرُ الطَّيْرِ، وَالطَّرْقُ الْخَطُّ يُخَطُّ فِي الأَرْضِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۳۹۰۸- عوف کہتے ہیں: عیا فہ سے مراد پر ندہ اڑانا ہے اور طرق سے مراد وہ لکیریں ہیں جو زمین پر کھینچی جاتی ہیں (اور جسے رمل کہتے ہیں)۔


3909- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمِنَّا رِجَالٌ يَخُطُّونَ، قَالَ: < كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الأَنْبِيَائِ يَخُطُّ؛ فَمَنْ وَافَقَ خَطَّهُ فَذَاكَ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۹۳۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۷۸) (صحیح)
۳۹۰۹- معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول !ہم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو خط کھینچتے ہیں، آپ نے فرمایا: '' انبیاء میں ایک نبی تھے جو خط کھینچتے تھے تو جس کا خط ان کے خط کے موافق ہوا تو وہ ٹھیک ہے''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
24- بَاب فِي الطِّيَرَةِ
۲۴-باب: بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان​


3910- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَيْسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، الطِّيَرَةُ شِرْكٌ -ثَلاثًا- وَمَا مِنَّا إِلا، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ >۔
* تخريج: ت/السیر ۴۷ (۱۶۱۴)، ق/الطب ۴۳ (۳۵۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۹، ۴۳۸، ۴۴۰) (صحیح)
۳۹۱۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین با ر فرمایا: ''بدشگو نی شرک ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ اس کو تو کل سے دور فرما دیتا ہے''۔


3911- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا عَدْوَى، وَلا طِيَرَةَ، وَلا صَفَرَ، وَلا هَامَّةَ >، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: مَا بَالُ الإِبِلِ تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ فَيُخَالِطُهَا الْبَعِيرُ الأَجْرَبُ فَيُجْرِبُهَا؟ قَالَ: < فَمَنْ أَعْدَى الأَوَّلَ >.
قَالَ مَعْمَرٌ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَحَدَّثَنِي رَجُلٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ >، قَالَ: فَرَاجَعَهُ الرَّجُلُ فَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَنَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا عَدْوَى وَلا صَفَرَ وَلا هَامَةَ؟ >، قَالَ: لَمْ أُحَدِّثْكُمُوهُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: قَدْ حَدَّثَ بِهِ، وَمَا سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ نَسِيَ حَدِيثًا قَطُّ غَيْرَهُ۔
* تخريج: خ/الطب ۲۵ (۵۷۱۷)، ۴۵ (۵۷۵۷)، ۵۳ (۵۷۷۰)، ۵۴ (۵۷۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷۳، ۱۵۵۰۲)، وقد أخرجہ: م/السلام ۳۳ (۲۲۲۳)، حم (۲/۲۶۷، ۳۲۷، ۳۹۷) (صحیح)
۳۹۱۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''نہ کسی کوکسی کی بیماری لگتی ہے، نہ کسی چیز میں نحوست ہے، نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے اور نہ کسی مردے کی کھوپڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے''، تو ایک بدوی نے عرض کیا: پھر ریگستان کے اونٹوں کا کیا معاملہ ہے؟ وہ ہر ن کے مانند ( بہت ہی تندرست ) ہو تے ہیں پھر ان میں کوئی خارشتی اونٹ جا ملتا ہے تو انہیں بھی کیا خارشتی کر دیتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''بھلا پہلے اونٹ کو کس نے خارشتی کیا؟''۔
معمر کہتے ہیں: زہری نے کہا: مجھ سے ایک شخص نے ابو ہر یرہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''کوئی بیمار اونٹ تندرست اونٹ کے ساتھ پا نی پلا نے کے لئے نہ لایا جائے''، پھر وہ شخص ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور ان سے کہا: کیا آپ نے مجھ سے یہ حدیث بیان نہیں کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے، اور نہ کسی کی کھو پڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے''، تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انکا رکیا، اور کہا: میں نے اسے آپ لوگوں سے نہیں بیان کیاہے۔
زہری کا بیان ہے: ابوسلمہ کہتے ہیں: حالا نکہ انہوں نے اسے بیان کیا تھا،اور میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کبھی کوئی حدیث بھولتے نہیں سنا سوا ئے اس حدیث کے ۔


3912- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنِ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا عَدْوَى، وَلا هَامَةَ، وَلا نَوْءَ، وَلا صَفَرَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۶۸)، وقد أخرجہ: م/ الطب ۳۳ (۲۲۲۰)، حم (۲/۳۹۷) (صحیح)
۳۹۱۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، نہ کسی کی کھوپڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے، نہ نچھتر کوئی چیز ہے، اور نہ صفر کے مہینہ میں نحوست ہے'' ۔


3913- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ بْنِ الْبَرْقِيِّ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَجْلانَ، حَدَّثَنِي الْقَعْقَاعُ بْنُ حَكِيمٍ وَعُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مِقْسَمٍ وَزَيدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا غُولَ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۲۲، ۱۲۸۲۹، ۱۲۸۶۸) (حسن صحیح)
۳۹۱۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بھوت پریت کو کسی کو نقصان پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں''۔


3914- قَالَ أَبو دَاود: قُرِءَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِيْنٍ وَأَنَا شَاهِدٌ: أَخْبَرَكُمْ أَشْهَبُ، قَالَ: سُئِلَ مَالِكٌ عَنْ قَوْلِهِ: < لا صَفَرَ >، قَالَ: إِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يُحِلُّونَ صَفَرَ، يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا صَفَرَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۳۹۱۴- ابو داو د کہتے ہیں :حا رث بن مسکین پر پڑھا گیا، اور میں موجود تھا کہ اشہب نے آپ کو خبردی ہے کہ امام مالک سے نبی اکرم ﷺ کے قول: ''لا صفر'' کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:''جا ہلیت میں لوگ ''صفر'' کو کسی سال حلا ل قرار دے لیتے تھے اور کسی سال اسے (محرم کا مہینہ قرار دے کر ) حرام رکھتے تھے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''صفر '' ( اب ایسا) نہیں ہے''۔


3915- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ -يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ- قَوْلُهُ: < هَامَ >، قَالَ: كَانَتِ الْجَاهِلِيَّةُ تَقُولُ: لَيْسَ أَحَدٌ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ إِلا خَرَجَ مِنْ قَبْرِهِ هَامَةٌ، قُلْتُ: فَقَوْلُهُ صَفَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ يَسْتَشْئِمُونَ بِصَفَرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا صَفَرَ >، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ سَمِعْنَا مَنْ يَقُولُ هُوَ وَجَعٌ يَأْخُذُ فِي الْبَطْنِ، فَكَانُوا يَقُولُونَ: هُوَ يُعْدِي، فَقَالَ: < لا صَفَرَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۳۹۱۵- بقیہ کہتے ہیں کہ میں نے محمدبن راشد سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ کے قول''هام'' کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے:جو آدمی مرتا ہے اور دفن کردیا جاتا ہے تو اس کی روح قبر سے ایک جانور کی شکل میں نکلتی ہے، پھر میں نے پوچھا آپ کے قول ''لا صفر'' کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا:میں نے سنا ہے کہ جا ہلیت کے لوگ ''صفر'' کو منحوس جانتے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' صفر'' میں نحوست نہیں ہے۔
محمد بن راشد کہتے ہیں: میں نے کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہے: صفر پیٹ میں ایک قسم کا درد ہے، لوگ کہتے تھے: وہ متعدی ہو تا ہے ( یعنی ایک کو دوسرے سے لگ جاتا ہے) تو آپ نے فرمایا :''صفر کوئی چیز نہیں ہے''۔


3916- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لاعَدْوَى وَلا طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِي الْفَأْلُ الصَّالِحُ، وَالْفَأْلُ الصَّالِحُ الْكَلِمَةُ الْحَسَنَةُ >۔
* تخريج: خ/الطب ۴۴ (۵۷۵۶)، ۵۴ (۵۷۷۶)، ت/السیر ۴۷ (۱۶۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۸)، وقد أخرجہ: م/السلام ۳۴ (۲۲۲۴)، حم (۳/۱۱۸، ۱۵۴، ۱۷۸) (صحیح)
۳۹۱۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، اور نہ بد شگونی کوئی چیز ہے، اور فال نیک سے مجھے خوشی ہوتی ہے اور فا ل نیک بھلی با ت ہے''۔


3917- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ سُهَيلٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سَمِعَ كَلِمَةً فَأَعْجَبَتْهُ فَقَالَ: < أَخَذْنَا فَأْلَكَ مِنْ فِيكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۸۸) (صحیح)
۳۹۱۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بات سنی جو آپ کو بھلی لگی تو آپ نے فرمایا: ''ہم نے تیری فال تیرے منہ سے سن لی ''( یعنی انجا م بخیر ہے ان شا ء للہ ) ۔


3918- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ، قَالَ: يَقُولُ النَّاسُ: الصَّفَرُ وَجَعٌ يَأْخُذُ فِي الْبَطْنِ، قُلْتُ: [فَمَا] الْهَامَةُ؟ قَالَ: يَقُولُ النَّاسُ: الْهَامَةُ الَّتِي تَصْرُخُ هَامَةُ النَّاسِ، وَلَيْسَتْ بِهَامَةِ الإِنْسَانِ، إِنَّمَا هِيَ دَابَّةٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۳۹۱۸- عطاء سے روایت ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ صفر ایک قسم کا درد ہے جو پیٹ میں ہو تا ہے تو میں نے پوچھا: ہامہ کیا ہے؟ کہا : لوگ کہتے تھے: الو جو بو لتا ہے وہ لوگوں کی روح ہے، حالا نکہ وہ انسان کی روح نہیں بلکہ وہ ایک جانور ہے (اگلے لوگ جہا لت سے اسے انسا ن کی روح سمجھتے تھے)۔


3919- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَأبُو بَكْرِ بْنُ شَيْبَةَ -الْمَعْنَى- قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ أَحْمَدُ: الْقُرَشِيُّ، قَالَ: ذُكِرَتِ الطِّيَرَةُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: < أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ وَلا تَرُدُّ مُسْلِمًا، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَهُ فَلْيَقُلِ: اللَّهُمَّ لا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلا أَنْتَ، وَلا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلا أَنْتَ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۹) (ضعیف)
(اس کے راوی'' عروہ قرشی'' تابعی ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے )
۳۹۱۹- عروہ بن عامر قرشی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس طیرہ (بدشگو نی) کا ذکر کیاگیا تو آپ نے فرمایا: ''اس کی سب سے اچھی قسم نیک فال، اور اچھا(شگو ن) ہے، اور فال (شگون) کسی مسلما ن کواس کے ارا دہ سے با ز نہ رکھے پھر جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے نا گوار ہو تو وہ یہ دعا پڑھے: ''اللَّهُمَّ لا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلا أَنْتَ وَلا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلا أَنْتَ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِكَ'' (اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلا ئی نہیں پہنچا سکتا اور سوا ئے تیرے کوئی برائیوں کو روک بھی نہیں سکتا اور برا ئی سے با زرہنے اور نیکی کے کام کر نے کی طاقت وقوت صرف تیری تو فیق ہی سے ملتی ہے) ''۔


3920- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لا يَتَطَيَّرُ مِنْ شَيْئٍ، وَكَانَ إِذَا بَعَثَ عَامِلا سَأَلَ عَنِ اسْمِهِ فَإِذَا أَعْجَبَهُ اسْمُهُ فَرِحَ بِهِ وَرُئِيَ بِشْرُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهُ رُئِيَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِذَا دَخَلَ قَرْيَةً سَأَلَ عَنِ اسْمِهَا: فَإِنْ أَعْجَبَهُ اسْمُهَا فَرِحَ وَرُئِيَ بِشْرُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهَا رُئِيَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۴۷) (صحیح)
۳۹۲۰- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کسی چیز سے فال بد(بد شگو نی) نہیں لیتے تھے اور جب آپ کسی عامل کو بھیجتے تو اس کا نام پو چھتے، اگر آپ ﷺ کواس کا نام پسند آتا تو اس سے خوش ہو تے اور خو شی آپ کے چہرے پر نظر آتی اور اگر وہ پسند نہ آتا تو یہ نا پسندیدگی آپ کے چہرے پر دکھائی پڑتی، اور جب کسی بستی میں داخل ہو تے تو اس کا نام پو چھتے اگر وہ نام اچھا لگتا تو اس سے خوش ہو تے اور یہ خوشی آپ ﷺ کے چہرے پر دکھائی پڑتی اور اگر وہ ناپسند ہو تا تو یہ نا پسندید گی آپ کے چہرے پر دکھائی پڑتی ۔




3921- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى أَنَّ الْحَضْرَمِيَّ بْنَ لاحِقٍ حَدَّثَهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ: < لاهَامَةَ، وَلا عَدْوَى، وَلا طِيَرَةَ، وَإِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِي شَيْئٍ فَفِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۰، ۱۸۶) (صحیح)
۳۹۲۱- سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرما تے تھے: ''مردے کی روح جانور کی شکل میں نہیں نکلتی، اور نہ کسی کی بیماری کسی کولگتی ہے، اور نہ کسی چیز میں نحو ست ہے، اور اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھو ڑے، عورت اور گھر میں ہوتی''۔
3922- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَمْزَةَ وَسَالِمٍ ابْنَيْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الشُّؤْمُ فِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ >.
[قَالَ أَبو دَاود: قُرِءَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ: أَخْبَرَكَ ابْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سُئِلَ مَالِكٌ عَنِ الشُّؤْمِ فِي الْفَرَسِ وَالدَّارِ، قَالَ: كَمْ مِنْ دَارٍ سَكَنَهَا نَاسٌ فَهَلَكُوا، ثُمَّ سَكَنَهَا آخَرُونَ فَهَلَكُوا، فَهَذَا تَفْسِيرُهُ فِيمَا نَرَى، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه: حَصِيرٌ فِي الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَأَةٍ لا تَلِدُ]۔
* تخريج: خ/الجھاد ۴۷ (۲۸۵۸)، النکاح ۱۷ (۵۰۹۳)، الطب ۴۳ (۵۷۵۳)، ۵۴ (۵۷۷۲)، م/السلام ۳۴ (۲۲۲۵)، ت/الأدب ۵۸ (۲۸۲۴)، ن/الخیل ۴ (۳۵۹۹)، ق/النکاح ۵۵ (۱۹۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۶۴، ۱۸۲۷۶، ۶۶۹۹)، وقد أخرجہ: ط/الاستئذان ۸ (۲۲)، حم (۲/۸، ۳۶، ۱۱۵، ۱۲۶) (صحیح)
(اس حدیث میں ''الشؤم'' کا لفظ آیا ہے، اور بعض روایتوں میں ''إنما الشؤم'' ہے۔ جبکہ صحیحین وغیرہ میں ابن عمر سے ''إن کان الشؤم'' ثابت ہے، جس کے شواہد سعد بن أبی وقاص (کما تقدم: ۳۹۲۱)، سہل بن سعد (خ/۵۰۹۵)، وجابر (م/۲۲۲۷) کی احادیث میں ہیں، اس لئے بعض اہل علم نے پہلے لفظ کو شاذ قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو: الصحیحۃ: ۷۹۹، ۷۸۹، ۱۸۵۷)۔
۳۹۲۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''نحوست گھر،عورت اور گھو ڑے میں ہے'' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ ابن قاسم نے آپ کو خبر دی ہے کہ امام مالک سے گھوڑے اور گھر کی نحوست کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: بہت سے گھر ایسے ہیں جس میں لوگ رہے تو وہ مر گئے پھر دوسرے لوگ رہنے لگے تو وہ بھی مر گئے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہی اس کی تفسیر ہے، واللہ اعلم ۔
ابو داود کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ گھر کی ایک چٹا ئی با نجھ عورت سے اچھی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہی روایت صحیح مسلم میں کئی سندوں سے اس طرح ہے : '' اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی'' اور یہی مطلب اِس عام روایت کا بھی ہے، اس کی وضاحت سعد بن مالک کی پچھلی روایت سے بھی ہورہی ہے، اور وہ جو دیگر روایات میں ہے، جیسے حدیث نمبر( ۳۹۲۴) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ظاہر کو حقیقت سمجھ بیٹھیں اور ان کا عقیدہ خراب ہوجائے اسی لئے اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم دیا جیسے کوڑھی سے بھاگنے کا حکم دیا، حالانکہ آپ نے ﷺ خود فرمایا ہے کہ :'' چھوت کی کوئی حقیقت نہیں''۔


3923- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ وَعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ فَرْوَةَ بْنَ مُسَيْكٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرْضٌ عِنْدَنَا يُقَالُ لَهَا أَرْضُ أَبْيَنَ، هِيَ أَرْضُ رِيفِنَا وَمِيرَتِنَا، وَإِنَّهَا وَبِئَةٌ أَوْ قَالَ: وَبَاؤُهَا شَدِيدٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < دَعْهَا عَنْكَ فَإِنَّ مِنَ الْقَرَفِ التَّلَفَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۵۱) (ضعیف الإسناد)
(فروۃ کے شاگردمبہم ہیں)
۳۹۲۳- فروہ بن مسیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول ! ہمارے پاس ایک زمین ہے جسے ابین کہا جاتا ہے یہی ہمارا کھیت ہے جہاں سے ہمیں غلہ ملتا ہے لیکن یہ وبا ء والی زمین ہے یا کہاکہ اس کی وباء سخت ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''تم اس زمین کو اپنے سے علاحدہ کر دے کیو نکہ اس کے سا تھ وبا لگی رہنے سے ہلا کت ہے ''۔


3924- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ إِسْحَاقَ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّا كُنَّا فِي دَارٍ كَثِيرٌ فِيهَا عَدَدُنَا وَكَثِيرٌ فِيهَا أَمْوَالُنَا، فَتَحَوَّلْنَا إِلَى دَارٍ أُخْرَى فَقَلَّ فِيهَا عَدَدُنَا وَقَلَّتْ فِيهَا أَمْوَالُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < ذَرُوهَا ذَمِيمَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳) (حسن)
۳۹۲۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عر ض کیا: اللہ کے رسول !ہم ایک گھر میں تھے تو اس میں ہمارے لوگوں کی تعداد بھی زیا دہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی زیادہ رہتا تھا پھر ہم ایک دوسرے گھر میں آگئے تو اس میں ہماری تعداد بھی کم ہوگئی اور ہما را مال بھی گھٹ گیا، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ''اسے چھو ڑدو، مذموم حالت میں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم آپ ﷺ نے اس لئے دیا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ گھر ہی کو مؤثر سمجھنے لگ جائیں اور شرک میں پڑجائیں۔


3925- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَخَذَ بِيَدِ مَجْذُومٍ فَوَضَعَهَا مَعَهُ فِي الْقَصْعَةِ، وَقَالَ: <كُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَكُّلا عَلَيْهِ>۔
* تخريج: ت/الأطعمۃ ۱۹ (۱۸۱۷)، ق/ الطب ۴۴ (۳۵۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۱۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''مفضّل بن فضالۃ بصری '' ضعیف ہیں )
۳۹۲۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کوڑھی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سا تھ پیا لہ میں رکھ لیا اور فرمایا: ''اللہ پر بھر وسہ اور اعتما دکرکے کھاؤ''۔



* * * * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

{ 23- كِتَاب الْعِتْقِ }
۲۳-کتاب: غلام آزاد کر نے کے احکام ومسائل


1- بَاب فِي الْمُكَاتَبِ يُؤَدِّي بَعْضَ كِتَابَتِهِ فَيَعْجِزُ أَوْ يَمُوتُ
۱-باب: مکاتب غلام بدل کتابت میں سے کچھ ادا کرے پھر نہ دے سکے یا مر جائے توکیا حکم ہے؟​


3926- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو عُتْبَةَ إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < الْمُكَاتَبُ عَبْدٌ مَابَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ مُكَاتَبَتِهِ دِرْهَمٌ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۰۷)، وقد أخرجہ: ت/البیوع ۳۵ (۱۲۶۰)، ق/العتق ۳ (۲۵۱۹)، حم (۲/۱۷۸، ۲۰۶، ۲۰۹) (حسن)
۳۹۲۶- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''مکاتب ۱؎ اس وقت تک غلام ہے جب تک اس کے بدل کتابت(آزادی کی قیمت) میں سے ایک درہم بھی اس کے ذمہ با قی ہے ''۔
وضاحت ۱؎ : مکاتب اس غلام کوکہتے ہیں جو اپنے مالک سے کسی مخصوص رقم کی ادائیگی کے بدلے اپنی آزادی کا معاہدہ کرلے۔


3927- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي عَبْدُالصَّمَدِ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < أَيُّمَا عَبْدٍ كَاتَبَ عَلَى مِائَةِ أُوقِيَّةٍ فَأَدَّاهَا إِلا عَشْرَةَ أَوَاقٍ فَهُوَ عَبْدٌ، وَأَيُّمَا عَبْدٍ كَاتَبَ عَلَى مِائَةِ دِينَارٍ فَأَدَّاهَا إِلا عَشْرَةَ دَنَانِيرَ فَهُوَ عَبْدٌ >.
[قَالَ أَبو دَاود: لَيْسَ هُوَ عَبَّاسٌ الْجُرَيْرِيُّ، قَالُوا: هُوَ وَهْمٌ، وَلَكِنَّهُ هُوَ شَيْخٌ آخَرُ].
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۷۲۵)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری (۵۰۲۶)، حم (۲/۱۸۴) (حسن)
۳۹۲۷- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس غلام نے سو اوقیہ پر مکا تبت کی ہو پھر اس نے اسے ادا کر دیا ہو سوائے دس اوقیہ کے تو وہ غلام ہی ہے ( ایسا نہیں ہو گا کہ جتنا اس نے ادا کر دیا اتنا وہ آزاد ہو جائے ) اور جس غلام نے سو دینا ر پر مکا تبت کی ہو پھر وہ اسے ادا کر دے سوا ئے دس دینا ر کے تو وہ غلام ہی رہے گا (جب تک اسے پورا نہ ادا کر دے)''۔


3928- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ [بْنُ مُسَرْهَدٍ] حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ مُكَاتَبِ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ تَقُولُ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < إِنْ كَانَ لإِحْدَاكُنَّ مُكَاتَبٌ فَكَانَ عِنْدَهُ مَا يُؤَدِّي فَلْتَحْتَجِبْ مِنْهُ >۔
* تخريج: ت/ البیوع ۳۵ (۱۲۶۱)، ق/العتق ۳ (۲۵۲۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۲۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۸۹، ۳۰۸، ۳۱۱) (ضعیف)
(اس کے روای''نبھان'' لین الحدیث ہیں اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق امھات المؤمنین کا عمل اس کے برعکس تھا، ملاحظہ ہو: ارواء الغلیل : ۱۷۶۹)
۳۹۲۸- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے مکا تب غلام نبھا ن کہتے ہیں کہ میں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کوکہتے سناکہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے فرمایا: ''جب تم عو رتوں میں سے کسی کا کوئی مکا تب ہو اور اس کے پاس اتنا مال ہو جس سے وہ اپنا بدل کتابت ادا کر لے جائے تو تمہیں اس سے پر دہ کر نا چا ہئے'' (کیو نکہ اب وہ آزاد کی طرح ہے )۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2- بَاب فِي بَيْعِ الْمُكَاتَبِ إِذَا فُسِخَتِ الْكِتَابَةُ
۲-باب: عقدِ کتابت فسخ ہو جانے پر مکاتب غلام کو بیچنے کا بیان​


3929- حَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ بَرِيرَةَ جَائَتْ عَائِشَةَ تَسْتَعِينُهَا فِي كِتَابَتِهَا، وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ، فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ وَلاؤُكِ لِي فَعَلْتُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لأَهْلِهَا، فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَائَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ فَلْتَفْعَلْ، وَيَكُونُ لَنَا وَلاؤُكِ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي؛ فَإِنَّمَا الْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ >، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ: < مَا بَالُ أُنَاسٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللَّهِ؟ مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلَيْسَ لَهُ، وَإِنْ شَرَطَهُ مِائَةَ مَرَّةٍ، شَرْطُ اللَّهِ أَحَقُّ وَأَوْثَقُ > ۔
* تخريج: خ/ المکاتب ۲ (۲۵۶۱)، الشروط ۱۱ (۲۷۲۷)، م/ العتق ۲ (۱۵۰۴)، ت/ الوصایا ۷۱ (۲۱۲۴)، ن/ البیوع ۸۳ (۴۶۵۹)، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۰)، وقد أخرجہ: حم (۶/۸۱) (صحیح)
۳۹۲۹- عروہ سے روایت ہے کہ ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں بتایا کہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے بدل کتابت کی ادائیگی میں تعاون کے لئے ان کے پاس آئیں ابھی اس میں سے کچھ بھی ادا نہیں کیا تھا ،تو ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: اپنے آدمیوں سے جا کر پو چھ لو اگر انہیں یہ منظور ہو کہ تمہارا بدل کتابت ادا کر کے تمہاری ولاء ۱؎میں لے لوں تو میں یہ کرتی ہوں، بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آدمیوں سے جا کر اس کا ذکر کیا تو انہوں نے ولاء دینے سے انکار کیا اور کہا: اگر وہ اسے ثواب کی نیت سے کر نا چا ہتی ہیں تو کریں، تمہاری ولاء ہما ری ہی ہو گی، ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان سے فرمایا : ’’ تم خرید کر اسے آزاد کر دو ولاء تو اسی کی ہو گی جو آزاد کرے‘‘ ، پھر آپ ﷺ (مسجد میں خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا: ’’لوگوں کا کیا حال ہے وہ ایسی شرطیں لگا تے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہیں، جو شخص بھی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب میں نہ ہو تو اس کی شرط صحیح نہ ہو گی اگر چہ وہ سو بار شرط لگا ئے، اللہ ہی کی شرط سچی اور مضبوط شرط ہے‘‘ ۔
وضاحت ۱؎ : وِلاء وہ ترکہ ہے جسے آزاد کیا ہوا غلام چھوڑ کر مرے۔


3930- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، قَالَتْ: جَائَتْ بَرِيرَةُ لِتَسْتَعِينَ فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي، فَقَالَتْ: إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا عَدَّةً وَاحِدَةً وَأُعْتِقَكِ وَيَكُونَ وَلاؤُكِ لِي فَعَلْتُ، فَذَهَبَتْ إِلَى أَهْلِهَا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ نَحْوَ الزُّهْرِيِّ، زَادَ فِي كَلامِ النَّبِيِّ ﷺ فِي آخِرِهِ: < مَابَالُ رِجَالٍ يَقُولُ أَحَدُهُمْ: أَعْتِقْ يَا فُلانُ وَالْوَلاءُ لِي، إِنَّمَا الْوَلاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۲۲۳۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۷۲۹۶) (صحیح)
۳۹۳۰- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بر یرہ رضی اللہ عنہا اپنے بدل کتابت میں تعاون کے لئے ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے لوگوں سے نواوقیہ پرمکاتبت کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ اداکرنا ہے، لہٰذا آپ میری مددکیجئے، تو انہوں نے کہا: اگر تمہارے لوگ چاہیں تو میں ایک ہی دفعہ انہیں دے دوں ،اور تمہیں آزاد کر دوں البتہ تمہاری ولاء میری ہوگی ؛ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کے پاس گئیں پھر راوی پو ری حدیث زہری والی روایت کی طرح بیان کی، اور نبی اکرم ﷺ کے کلام کے آخر میں یہ اضافہ کیا کہ: لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ دوسروں سے کہتے ہیں: تم آزاد کر دو اور ولاء میں لو ں گا( کیسی لغوبات ہے) ولاء تو اس کاحق ہے جو آزاد کرے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : بریرہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے باب کی مطابقت اس طرح ہے کہ : مکاتَب غلام کو بیچناجائز نہیں، جب کہ آپ ﷺ نے بریرہ کی خرید وفروخت کو جائز قراردیا: توگویا مکاتبت کا معاملہ فسخ کردیاگیا تب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ کو خریدا اور یہی مطابقت اگلی حدیث میں بھی ہے۔


3931- حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى أَبُو الأَصْبَغِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ -يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ - عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا، قَالَتْ: وَقَعَتْ جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ بْنِ الْمُصْطَلِقِ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، أَوِ ابْنِ عَمٍّ لَهُ، فَكَاتَبَتْ عَلَى نَفْسِهَا، وَكَانَتِ امْرَأَةً مَلاَّحَةً تَأْخُذُهَا الْعَيْنُ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِي اللَّه عَنْهَا: فَجَائَتْ تَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فِي كِتَابَتِهَا، فَلَمَّا قَامَتْ عَلَى الْبَابِ فَرَأَيْتُهَا كَرِهْتُ مَكَانَهَا، وَعَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سَيَرَى مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي رَأَيْتُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَنَا جُوَيْرِيَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ، وَإِنَّمَا كَانَ مِنْ أَمْرِي مَا لا يَخْفَى عَلَيْكَ، وَإِنِّي وَقَعْتُ فِي سَهْمِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، وَإِنِّي كَاتَبْتُ عَلَى نَفْسِي، فَجِئْتُكَ أَسْأَلُكَ فِي كِتَابَتِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < فَهَلْ لَكِ إِلَى مَا هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ؟ >، قَالَتْ: وَمَا هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: < أُؤَدِّي عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَأَتَزَوَّجُكِ >، قَالَتْ: قَدْ فَعَلْتُ، قَالَتْ: فَتَسَامَعَ -تَعْنِي النَّاسَ- أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَدْ تَزَوَّجَ جُوَيْرِيَةَ، فَأَرْسَلُوا مَا فِي أَيْدِيهِمْ مِنَ السَّبْيِ، فَأَعْتَقُوهُمْ، وَقَالُوا: أَصْهَارُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ ، فَمَا رَأَيْنَا امْرَأَةً كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً عَلَى قَوْمِهَا مِنْهَا، أُعْتِقَ فِي سَبَبِهَا مِائَةُ أَهْلِ بَيْتٍ مِنْ بَنِي الْمُصْطَلِقِ.
قَالَ أَبو دَاود: هَذَا حُجَّةٌ فِي أَنَّ الْوَلِيَّ [هُوَ] يُزَوِّجُ نَفْسَهُ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۸۶)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۷۷، ۶/۲۷۷) (حسن)
۳۹۳۱- ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام المومنین جویریہ بنت حارث بن مصطلق رضی اللہ عنہا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ یا ان کے چچا زاد بھائی کے حصہ میں آئیں تو جویرہ نے ان سے مکاتبت کر لی، اور وہ ایک خوبصورت عورت تھیں جسے ہر شخص دیکھنے لگتا تھا، وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے کے لئے آئیں، جب وہ دوازہ پر آکر کھڑی ہوئیں تو میری نگاہ ان پر پڑی مجھے ان کا آنا اچھا نہ لگا اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ عنقریب آپ بھی ان کی وہی ملاحت دیکھیں گے جو میں نے دیکھی ہے ،اتنے میں وہ بو لیں: اللہ کے رسول! میں جویریہ بنت حارث ہو ں، میرا جو حال تھا وہ آپ سے پو شیدہ نہیں ۱؎ثابت بن قیس کے حصہ میں گئی ہوں، میں نے ان سے مکاتبت کر لی ہے، اور آپ کے پاس اپنے بدل کتابت میں تعاون مانگنے آئی ہوں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم اس سے بہتر کی رغبت رکھتی ہو؟‘‘، وہ بو لیں :وہ کیا ہے ؟ اللہ کے رسول!آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میں تمہارا بدل کتابت ادا کر دیتا ہوں اور تم سے شادی کر لیتا ہوں‘‘، وہ بولیں: میں کر چکی (یعنی مجھے یہ بخوشی منظور ہے)۔
ام المومنین عا ئشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں :پھر جب لوگوں نے ایک دوسرے سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ نے جویریہ سے شادی کر لی ہے تو بنی مصطلق کے جتنے قیدی ان کے ہاتھوں میں تھے سب کو چھوڑ دیا انہیں آزاد کر دیا، اور کہنے لگے کہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے سسرال والے ہیں، ہم نے کوئی عورت اتنی بر کت والی نہیں دیکھی جس کی وجہ سے اس کی قوم کو اتنا زبر دست فائدہ ہوا ہو، ان کی وجہ سے بنی مصطلق کے سو قیدی آزاد ہوئے ۔
ابو داود کہتے ہیں: یہ حدیث دلیل ہے اس بات کی کہ ولی خود نکاح کر سکتا ہے ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی آپ ﷺ کو معلوم ہے کہ میں ایک رئیس کی صاحبزادی ہوں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3- بَاب فِي الْعِتْقِ عَلَى الشَّرْطِ
۳-باب: شرط لگا کر غلام آزاد کر نے کا بیان​


3932- حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: كُنْتُ مَمْلُوكًا لأُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ: أُعْتِقُكَ وَأَشْتَرِطُ عَلَيْكَ أَنْ تَخْدُمَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَا عِشْتَ، فَقُلْتُ: وَإِنْ لَمْ تَشْتَرِطِي عَلَيَّ مَا فَارَقْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ مَا عِشْتُ، فَأَعْتَقَتْنِي وَاشْتَرَطَتْ عَلَيَّ۔
* تخريج: ق/العتق ۶ (۲۵۲۶)، (تحفۃ الأشراف: ۴۴۸۱)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۲۱) (حسن)
۳۹۳۲- سفینہ کہتے ہیں کہ میں ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا غلام تھا، وہ مجھ سے بولیں: میں تمہیں آزاد کرتی ہو ں، اور شرط لگاتی ہوں کہ تم جب تک زندہ رہو گے رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرتے رہوگے، تو میں نے ان سے کہا : اگرآپ مجھ سے یہ شرط نہ بھی لگاتیں تو بھی میں جیتے جی رسول اللہ ﷺ کی خدمت سے جدا نہ ہوتا ،پھر انہوں نے مجھے اسی شرط پر آزاد کر دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4- بَاب فِيمَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ مِنْ مَمْلُوكٍ
۴-باب: جو شخص غلام کا کچھ حصہ آزاد کر دے اس کے حکم کا بیان​


3933- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ (ح) وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ -الْمَعْنَى- أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، قَالَ أَبُو الْوَلِيدِ: عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلا أَعْتَقَ شِقْصًا لَهُ مِنْ غُلامٍ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: < لَيْسَ لِلَّهِ شَرِيكٌ >.
زَادَ ابْنُ كَثِيرٍ فِي حَدِيثِهِ: فَأَجَازَ النَّبِيُّ ﷺ عِتْقَهُ۔
* تخريج: ن/الکبری العتق ۱۷ (۴۹۷۰)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۷۴، ۷۵) (صحیح)
۳۹۳۳- اسامہ بن عمیر الہذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دیا، نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :''اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے'' ۔
ابن کثیر نے اپنی روایت میں اضافہ کیا ہے کہ پھر نبی اکرم ﷺ نے اس کی آزادی کو نافذ کر دیا۔


3934- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنِي هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ ابْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلا أَعْتَقَ شِقْصًا لَهُ مِنْ غُلامٍ، فَأَجَازَ النَّبِيُّ ﷺ عِتْقَهُ، وَغَرَّمَهُ بَقِيَّةَ ثَمَنِهِ۔
* تخريج: خ/الشرکۃ ۵ (۲۴۹۲)، ۱۴ (۲۵۰۴)، والعتق ۵ (۲۵۲۷)، م/العتق ۱ (۱۵۰۳)، ت/الأحکام ۱۴ (۱۳۴۶)، ق/العتق ۷ (۲۵۲۷)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۵۵، ۳۴۷، ۴۲۶، ۴۶۸، ۴۷۲، ۵۳۱) (صحیح)
۳۹۳۴- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک شخص نے کسی غلام میںسے اپناحصہ آزاد کر دیا تو نبی اکرم ﷺ نے اس کی آزادی کو نافذ کردیا اور اس سے اس کے بقیہ قیمت کاتا وان دلا یا۔


3935- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ سُوَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ بِإِسْنَادِهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَعْتَقَ مَمْلُوكًا بَيْنَهُ وَبَيْنَ آخَرَ فَعَلَيْهِ خَلاصُهُ > وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ سُوَيْدٍ ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۱) (صحیح)
۳۹۳۵- قتادہ اس سند سے بھی نبی اکرم ﷺ سے مر فو عاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ''جس نے کسی ایسے غلام کو جو اس کے اور کسی اور کے در میان مشتر ک ہے آزاد کیا تو اس کے ذمّہ اس کی مکمل خلاصی ہو گی'' ۱؎ ، یہ ابن سوید کے الفاظ ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی دوسرے شریک کے حصہ کی قیمت بھی اسی کو ادا کرنی ہوگی۔


3936- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي (ح) وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ ابْنِ سُوَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِاللَّهِ، عَنْ قَتَادَةَ بِإِسْنَادِهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ عَتَقَ مِنْ مَالِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ >، وَلَمْ يَذْكُرِ ابْنُ الْمُثَنَّى النَّضْرَ ابْنَ أَنَسٍ، وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ سُوَيْدٍ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۱۱) (صحیح)
۳۹۳۶- قتادہ اس سند سے بھی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو وہ غلام اس کے مال سے پورا آزاد ہوگا اگر اس کے پاس مال ہے''۔
اور ابن مثنی نے نضر بن انس کا ذکر نہیں کیا ہے ،اور یہ ابن سوید کے الفا ظ ہیں ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5- بَاب مَنْ ذَكَرَ السِّعَايَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ
۵-باب: جس شخص کے نزدیک آزاد کرنے والا مفلس ہو توغلام سے محنت کرائی جائے اس کی دلیل کا بیان​


3937- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ [يَعْنِي الْعَطَّارَ]، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < مَنْ أَعْتَقَ شَقِيصًا فِي مَمْلُوكِهِ فَعَلَيْهِ أَنْ يُعْتِقَهُ كُلَّهُ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ، وَإِلا اسْتُسْعِيَ الْعَبْدُ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ >۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۱) (صحیح)
۳۹۳۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو اپنے مشتر ک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردے تو اگر اس کے پاس مال ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اسے مکمل خلاصی دلا ئے ااور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا ئی جائے گی پھر اور شریکوں کے حصوں کے بقدر اس سے محنت کر ائی جائے گی ،بغیر اُسے مشقت میں ڈالے''۔


3938- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ -يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ- (ح) وَحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ -وَهَذَا لَفْظُهُ- عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <مَنْ أَعْتَقَ شِقْصًا لَهُ، أَوْ شَقِيصًا لَهُ، فِي مَمْلُوكٍ فَخَلاصُهُ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَالٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ [لَهُ مَالٌ] قُوِّمَ الْعَبْدُ قِيمَةَ عَدْلٍ ثُمَّ اسْتُسْعِيَ لِصَاحِبِهِ فِي قِيمَتِهِ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ >.
قَالَ أَبو دَاود: فِي حَدِيثِهِمَا جَمِيعًا [فَاسْتُسْعِيَ غَيْرَ مَشْقُوقٍ عَلَيْهِ] وَهَذَا لَفْظُ عَلِيٍّ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۱) (صحیح)
۳۹۳۸- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جس نے کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو اگر وہ مالدار ہے تو اس پر اس کی مکمل خلاصی لا زم ہو گی اور اگر وہ مالدارنہیں ہے تو غلام کی و اجبی قیمت لگائی جائے گی''، پھر اس قیمت میں دوسرے شریک کے حصہ کے بقدر اس سے اس طرح محنت کرا ئی جائے گی کہ وہ مشقت میں نہ پڑے ( یہ علی کے الفا ظ ہیں)۔


3939- حَدَّثَنَا [مُحَمَّدُ] بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ.
قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ عَنْ سَعِيدٍ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، لَمْ يَذْكُرِ السِّعَايَةَ، وَرَوَاهُ جَرِيرُ ابْنُ حَازِمٍ وَمُوسَى بْنُ خَلَفٍ جَمِيعًا عَنْ قَتَادَةَ، بِإِسْنَادِ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ وَمَعْنَاهُ، وَذَكَرَا فِيهِ السِّعَايَةَ۔
* تخريج: انظر حدیث رقم : (۳۹۳۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۲۱۱) (صحیح)
۳۹۳۹- اس سند سے سعید سے بھی اسی مفہوم کی حدیث اسی طریق سے مروی ہے۔
ابوداود کہتے ہیں : اور اسے روح بن عبادہ نے سعید بن ابی عروبہ سے روایت کیا ہے انہوں نے سعایہ کا ذکر نہیں کیا ہے، اور اسے جریر بن حازم اور موسی بن خلف نے قتادہ سے یز ید بن زریع کی سند سے اسی کے مفہوم کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان دونوں نے اس میں سعایہ کا ذکر کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6- بَاب فِيمَنْ رَوَى أَنَّهُ لا يُسْتَسْعَى
۶-باب: جنہوں نے اس حدیث میں محنت کرانے کا ذکرنہیں کیا ان کی دلیل کا بیان​


3940- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي مَمْلُوكٍ أُقِيمَ عَلَيْهِ قِيمَةُ الْعَدْلِ فَأَعْطَى شُرَكَائَهُ حِصَصَهُمْ، وَأُعْتِقَ عَلَيْهِ الْعَبْدُ، وَإِلا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ > ۔
* تخريج: خ/الشرکۃ ۵ (۲۴۹۱)، ۱۴ (۲۵۰۳)، العتق ۴ (۲۵۲۲)، م/العتق ۱ (۱۵۰۱)، الأیمان ۱۲ (۱۵۰۱)، ن/البیوع ۱۰۴ (۴۷۰۳)، ق/العتق ۷ (۲۵۲۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۳۲۸)، وقد أخرجہ: ط/العتق ۱ (۱)، حم (۱/۵۶) (صحیح)
۳۹۴۰- عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص (مشترک ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو اس کے حصہ کے مطا بق ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا آزاد ہواہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا ‘‘۔


3941- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: وَكَانَ نَافِعٌ رُبَّمَا قَالَ: <فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ > وَرُبَّمَا لَمْ يَقُلْهُ۔
* تخريج: خ/ الشرکۃ ۵ (۲۴۹۱)، العتق ۴ (۲۵۲۴)، م/ العتق ۱ (۱۵۰۱)، ت/ الأحکام ۱۴ (۱۳۴۶)، ن/ البیوع ۱۰۴ (۴۷۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۵) (صحیح)
۳۹۴۱- اس سند سے بھی اسی مفہو م کی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مر فو عاً مر وی ہے۔
راوی کہتے ہیں :نا فع نے کبھی ’’فقد عتق منه ما عتق‘‘ کی روایت کی ہے اور کبھی نہیں کی ہے۔


3942- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ [الْعَتَكِيُّ]، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ أَيُّوبُ: فَلا أَدْرِي هُوَ فِي الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَوْ شَيْئٌ قَالَهُ نَافِعٌ: < وَإِلا عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ >۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۷۵۱۱) (صحیح الإسناد)
۳۹۴۲- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مر فو عاً مر وی ہے ۔
ایوب کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ ’’وَإِلا عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ‘‘ نبی اکرم ﷺ کی حدیث کا حصہ ہے یا نافع کا قول ہے ۔


3943- حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى [بْنُ يُونُسَ]، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا مِنْ مَمْلُوكٍ لَهُ فَعَلَيْهِ عِتْقُهُ كُلِّهِ إِنْ كَانَ لَهُ مَا يَبْلُغُ ثَمَنَهُ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ عَتَقَ نَصِيبَهُ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۸۰۸۳)، وقد أخرجہ: خ/العتق ۴ (۲۵۲۳)، م/الأیمان والنذور ۱۲ (۱۵۰۱)، ت/الأحکام ۱۴ (۱۳۴۶)، ن/البیوع ۱۰۴ (۴۷۰۳) (صحیح)
۳۹۴۳- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص (مشترک ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس پر اس کی مکمل آزادی لا زم ہے اگر اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کی قیمت کو پہنچ سکے ، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہوتو صرف اس کا حصہ آزاد ہو گا ‘‘ ( اور باقی شرکا ء کو اختیا ر ہو گا چاہیں تو آزاد کر یں اور چاہیں تو غلام رہنے دیں)۔


3944- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، بِمَعْنَى إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُوسَى۔
* تخريج: خ/العتق ۴ (۲۵۲۵تعلیقًا) م/ العتق ۱ (۱۵۰۱)، ن/ الکبری (۴۹۵۸)، (تحفۃ الأشراف: ۸۵۲۱) (صحیح)
۳۹۴۴- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابرا ہیم بن مو سی کی روایت کے ہم معنی روایت مرفو عاً مر وی ہے ۔


3945- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ بِمَعْنَى مَالِكٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ: < وَإِلا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ >، انْتَهَى حَدِيثُهُ إِلَى: < وَأُعْتِقَ عَلَيْهِ الْعَبْدُ > عَلَى مَعْنَاهُ۔
* تخريج: خ/ الشرکۃ ۱۴ (۲۵۰۳)، (تحفۃ الأشراف: ۷۶۱۷) (صحیح)
۳۹۴۵- اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مالک کی روایت کے ہم معنی روایت مرفوعاً مروی ہے مگر اس میں: ’’وَإِلا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ‘‘ کا ٹکڑا مذکور نہیں اور ’’وَأُعْتِقَ عَلَيْهِ الْعَبْدُ‘‘کے ٹکڑے ہی پر روایت ختم ہے ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : ابوہریرہ اور ابن عمر(e) کی جملہ روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کرنے والا اگر مالدار ہے تو بقیہ حصہ کی قیمت اپنے شریک کو ادا کرے گا اور غلام آزاد ہوجائے گا، ورنہ غلام سے بقیہ رقم کے لئے بغیر دباؤ کے محنت کرائی جائے گی، اور جب یہ بھی ممکن نہ ہوتو بقیہ حصہ غلام ہی باقی رہے گا، اور اسی کے بقدر وہ اپنے دوسرے مالک کی خدمت کرتا رہے گا۔ اس مفہوم کے اعتبار سے روایات میں کوئی اختلاف نہیں ہے(فتح الباری)۔


3946- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ عَتَقَ مِنْهُ مَا بَقِيَ فِي مَالِهِ إِذَا كَانَ لَهُ مَايَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ >۔
* تخريج: م/ العتق ۱ (۱۵۰۱)، ت/ الأحکام ۱۴ (۱۳۴۷)، ن/ الکبری (۴۹۴۴)، (تحفۃ الأشراف: ۶۹۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۴) (صحیح)
۳۹۴۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ جو شخص (مشترک ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردے تو جتناحصہ باقی بچا ہے وہ بھی اسی کے مال سے آزاد ہو گا بشرطیکہ اس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ غلام کی قیمت کو پہنچ سکے‘‘۔


3947- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ ﷺ : < إِذَا كَانَ الْعَبْدُ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ فَإِنْ كَانَ مُوسِرًا يُقَوَّمُ عَلَيْهِ قِيمَةً لاوَكْسَ وَلا شَطَطَ ثُمَّ يُعْتَقُ >۔
* تخريج: خ/ العتق ۴ (۲۵۲۱)، م/ العتق ۱ (۱۵۰۱)، ن/ الکبری (۱۵۴۱)، (تحفۃ الأشراف: ۶۷۸۸)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۱) (صحیح)
۳۹۴۷- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب غلام دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہو پھر ان میں سے ایک شخص اپنا حصہ آزاد کر دے تو اگر آزاد کرنے والا مالدار ہو تو اس غلام کی واجبی قیمت ٹہرائی جائے گی نہ کم نہ زیادہ پھر وہ غلام آزاد کر دیا جائے گا ‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اور اپنا حصہ آزاد کرنے والا اس واجبی قیمت میں سے جتنا حصہ دوسرے شریک کا ہوگا اسے ادا کرے گا۔


3948- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ الْعَنْبَرِيِّ، عَنِ ابْنِ التَّلِبِّ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلا أَعْتَقَ نَصِيبًا لَهُ مِنْ مَمْلُوكٍ فَلَمْ يُضَمِّنْهُ النَّبِيُّ ﷺ ، قَالَ أَحْمَدُ: إِنَّمَا هُوَ بِالتَّائِ -يَعْنِي التَّلِبَّ- وَكَانَ شُعْبَةُ أَلْثَغُ لَمْ يُبَيِّنِ التَّاءَ مِنَ الثَّائِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: 050۲) (ضعیف الإسناد)
(اس کے راوی ’’ملقام بن تلب‘‘ مجہول الحال ہیں، اور ان کی یہ روایت سابقہ صحیح روایات کے مخالف ہے)
۳۹۴۸- تلب بن ثعلبہ تمیمی عنبری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے با قی قیمت کا ذمہ دا ر نہیں ٹھہرا یا۔
احمد کہتے ہیں: (صحابی کا نام) تلب تائے فوقانیہ سے ہے نہ کہ ثلب ثائے مثلثہ سے اور راوی حدیث شعبہ ہکلے تھے یعنی ان کی زبان سے تاء ادا نہیں ہوتی تھی وہ تاء کو ثاء کہتے تھے ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
7- بَاب فِيمَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ
۷-باب: جو کسی مَحرَم رشتہ دا ر کا مالک ہو تو کیا کرے؟​


3949- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، وَقَالَ مُوسَى فِي مَوْضِعٍ آخَرَ: عَنْ سَمُرَةَ [بْنِ جُنْدُبٍ] فِيمَا يَحْسِبُ حَمَّادٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَهُوَ حُرٌّ >.
[قَالَ أَبو دَاود: رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ قَتَادَةَ، وَعَاصِمٍ عَنِ الْحَسَنِ عَنْ سَمُرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ ، مِثْلَ ذَلِكَ الْحَدِيثِ، قَالَ أَبو دَاود: وَلَمْ يُحَدِّثْ ذَلِكَ الْحَدِيثَ إِلا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَقَدْ شَكَّ فِيهِ]۔
* تخريج: ت/الأحکام ۲۸ (۱۳۶۵)، ق/العتق ۵ (۲۵۲۴)، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۳۴، ۱۸۴۶۹، ۱۸۵۴۶۹)، وقد أخرجہ: ن/ الکبری (۴۸۹۸، ۴۸۹۹)، حم (۵/۱۵، ۱۸، ۲۰) (صحیح)
(متابعات سے تقویت پا کریہ حدیث صحیح ہے،ورنہ ثقات نے مرفوعاً روایت کرنے میں حماد کی مخالفت کی ہے)
۳۹۴۹- سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''جو کسی قرابت دا ر محرم کا مالک ہوجائے تو وہ (ملکیت میں آتے ہی ) آزاد ہو جائے گا''۔
ابو داود کہتے ہیں: محمد بن بکر برسانی نے حماد بن سلمہ سے، حماد نے قتادہ اور عاصم سے، انہوں نے حسن سے، حسن نے سمرہ سے، سمرہ نے نبی اکرم ﷺ سے اسی حدیث کے ہم مثل روایت کی ہے۔
ابو داود کہتے ہیں:اور اس حدیث کو حما د بن سلمہ کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا ہے اور انہیں اس میں شک ہے ۔


3950- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَهُوَ حُرٌّ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۴۵۸۵، ۱۸۴۶۹، ۱۸۵۳۴) (ضعیف)
(سند میں قتادہ وعمر کے درمیان انقطاع ہے ،لیکن پچھلی مرفوع سند سے یہ روایت صحیح ہے)
۳۹۵۰- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جو کسی قرابت دار محرم کا مالک ہو جائے تو وہ (ملکیت میں آتے ہی ) آزاد ہوجائے گا ۔


3951- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَهَّابِ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: مَنْ مَلَكَ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ فَهُوَ حُرٌّ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۳۴، ۱۸۴۶۹، ۴۵۸۵) (صحیح)
۳۹۵۱-حسن کہتے ہیں :جو کسی قرابت دار محرم کامالک ہو جائے تو ( وہ ملکیت میں آتے ہی ) آزاد ہو جائے گا ۔


3952- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ وَالْحَسَنِ، مِثْلَهُ.
[قَالَ أَبو دَاود: سَعِيدٌ أَحْفَظُ مِنْ حَمَّادٍ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف: ۱۸۵۳۴، ۱۸۴۶۹، ۴۵۸۵) (صحیح)
۳۹۵۲- جابربن زید اور حسن سے بھی اسی کے ہم مثل مر وی ہے ۔
ابو داود کہتے ہیں: سعید حما د(بن سلمہ )سے زیا دہ یا د رکھنے والے ہیں ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : مؤلف کا مقصد یہ ہے کہ: حماد نے قتادہ کے واسطے سے اس کو مرفوعا روایت کیاہے(جیساکہ حدیث نمبر:۳۹۴۹میں ہے) مگر سعید بن ابی عروبہ نے قتادہ کے واسطے سے یاتو عمرؓ کے قول سے یا حسن کے قول سے روایت کیاہے، اور ابن ابی عروبہ حماد کے بالمقابل زیادہ یاد رکھنے والے ہیں۔
 
Top