24- بَاب فِي الطِّيَرَةِ
۲۴-باب: بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان
3910- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ عَيْسَى بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <الطِّيَرَةُ شِرْكٌ، الطِّيَرَةُ شِرْكٌ -ثَلاثًا- وَمَا مِنَّا إِلا، وَلَكِنَّ اللَّهَ يُذْهِبُهُ بِالتَّوَكُّلِ >۔
* تخريج: ت/السیر ۴۷ (۱۶۱۴)، ق/الطب ۴۳ (۳۵۳۸)، (تحفۃ الأشراف: ۹۲۰۷)، وقد أخرجہ: حم (۱/۳۸۹، ۴۳۸، ۴۴۰) (صحیح)
۳۹۱۰- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین با ر فرمایا: ''بدشگو نی شرک ہے اور ہم میں سے ہر ایک کو وہم ہو ہی جاتا ہے لیکن اللہ اس کو تو کل سے دور فرما دیتا ہے''۔
3911- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلانِيُّ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا عَدْوَى، وَلا طِيَرَةَ، وَلا صَفَرَ، وَلا هَامَّةَ >، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: مَا بَالُ الإِبِلِ تَكُونُ فِي الرَّمْلِ كَأَنَّهَا الظِّبَاءُ فَيُخَالِطُهَا الْبَعِيرُ الأَجْرَبُ فَيُجْرِبُهَا؟ قَالَ: < فَمَنْ أَعْدَى الأَوَّلَ >.
قَالَ مَعْمَرٌ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَحَدَّثَنِي رَجُلٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ >، قَالَ: فَرَاجَعَهُ الرَّجُلُ فَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ حَدَّثَنَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لا عَدْوَى وَلا صَفَرَ وَلا هَامَةَ؟ >، قَالَ: لَمْ أُحَدِّثْكُمُوهُ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: قَدْ حَدَّثَ بِهِ، وَمَا سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ نَسِيَ حَدِيثًا قَطُّ غَيْرَهُ۔
* تخريج: خ/الطب ۲۵ (۵۷۱۷)، ۴۵ (۵۷۵۷)، ۵۳ (۵۷۷۰)، ۵۴ (۵۷۷۲)، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۲۷۳، ۱۵۵۰۲)، وقد أخرجہ: م/السلام ۳۳ (۲۲۲۳)، حم (۲/۲۶۷، ۳۲۷، ۳۹۷) (صحیح)
۳۹۱۱- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ''نہ کسی کوکسی کی بیماری لگتی ہے، نہ کسی چیز میں نحوست ہے، نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے اور نہ کسی مردے کی کھوپڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے''، تو ایک بدوی نے عرض کیا: پھر ریگستان کے اونٹوں کا کیا معاملہ ہے؟ وہ ہر ن کے مانند ( بہت ہی تندرست ) ہو تے ہیں پھر ان میں کوئی خارشتی اونٹ جا ملتا ہے تو انہیں بھی کیا خارشتی کر دیتا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ''بھلا پہلے اونٹ کو کس نے خارشتی کیا؟''۔
معمر کہتے ہیں: زہری نے کہا: مجھ سے ایک شخص نے ابو ہر یرہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ اس نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''کوئی بیمار اونٹ تندرست اونٹ کے ساتھ پا نی پلا نے کے لئے نہ لایا جائے''، پھر وہ شخص ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور ان سے کہا: کیا آپ نے مجھ سے یہ حدیث بیان نہیں کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے، اور نہ کسی کی کھو پڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے''، تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انکا رکیا، اور کہا: میں نے اسے آپ لوگوں سے نہیں بیان کیاہے۔
زہری کا بیان ہے: ابوسلمہ کہتے ہیں: حالا نکہ انہوں نے اسے بیان کیا تھا،اور میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کبھی کوئی حدیث بھولتے نہیں سنا سوا ئے اس حدیث کے ۔
3912- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ -يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ- عَنِ الْعَلاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < لا عَدْوَى، وَلا هَامَةَ، وَلا نَوْءَ، وَلا صَفَرَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۴۰۶۸)، وقد أخرجہ: م/ الطب ۳۳ (۲۲۲۰)، حم (۲/۳۹۷) (صحیح)
۳۹۱۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، نہ کسی کی کھوپڑی سے الو کی شکل نکلتی ہے، نہ نچھتر کوئی چیز ہے، اور نہ صفر کے مہینہ میں نحوست ہے'' ۔
3913- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحِيمِ بْنِ الْبَرْقِيِّ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَجْلانَ، حَدَّثَنِي الْقَعْقَاعُ بْنُ حَكِيمٍ وَعُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مِقْسَمٍ وَزَيدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا غُولَ > ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۲۲، ۱۲۸۲۹، ۱۲۸۶۸) (حسن صحیح)
۳۹۱۳- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''بھوت پریت کو کسی کو نقصان پہنچانے کا کوئی اختیار نہیں''۔
3914- قَالَ أَبو دَاود: قُرِءَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِيْنٍ وَأَنَا شَاهِدٌ: أَخْبَرَكُمْ أَشْهَبُ، قَالَ: سُئِلَ مَالِكٌ عَنْ قَوْلِهِ: < لا صَفَرَ >، قَالَ: إِنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يُحِلُّونَ صَفَرَ، يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا صَفَرَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۳۹۱۴- ابو داو د کہتے ہیں :حا رث بن مسکین پر پڑھا گیا، اور میں موجود تھا کہ اشہب نے آپ کو خبردی ہے کہ امام مالک سے نبی اکرم ﷺ کے قول:
''لا صفر'' کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:''جا ہلیت میں لوگ ''صفر'' کو کسی سال حلا ل قرار دے لیتے تھے اور کسی سال اسے (محرم کا مہینہ قرار دے کر ) حرام رکھتے تھے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ''صفر '' ( اب ایسا) نہیں ہے''۔
3915- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، قَالَ: قُلْتُ لِمُحَمَّدٍ -يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ- قَوْلُهُ: < هَامَ >، قَالَ: كَانَتِ الْجَاهِلِيَّةُ تَقُولُ: لَيْسَ أَحَدٌ يَمُوتُ فَيُدْفَنُ إِلا خَرَجَ مِنْ قَبْرِهِ هَامَةٌ، قُلْتُ: فَقَوْلُهُ صَفَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ يَسْتَشْئِمُونَ بِصَفَرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لا صَفَرَ >، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ سَمِعْنَا مَنْ يَقُولُ هُوَ وَجَعٌ يَأْخُذُ فِي الْبَطْنِ، فَكَانُوا يَقُولُونَ: هُوَ يُعْدِي، فَقَالَ: < لا صَفَرَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۳۹۱۵- بقیہ کہتے ہیں کہ میں نے محمدبن راشد سے پوچھا کہ نبی اکرم ﷺ کے قول
''هام'' کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: جاہلیت کے لوگ کہا کرتے تھے:جو آدمی مرتا ہے اور دفن کردیا جاتا ہے تو اس کی روح قبر سے ایک جانور کی شکل میں نکلتی ہے، پھر میں نے پوچھا آپ کے قول
''لا صفر'' کے کیا معنی ہیں؟ تو انہوں نے کہا:میں نے سنا ہے کہ جا ہلیت کے لوگ ''صفر'' کو منحوس جانتے تھے تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: '' صفر'' میں نحوست نہیں ہے۔
محمد بن راشد کہتے ہیں: میں نے کچھ لوگوں کو کہتے سنا ہے: صفر پیٹ میں ایک قسم کا درد ہے، لوگ کہتے تھے: وہ متعدی ہو تا ہے ( یعنی ایک کو دوسرے سے لگ جاتا ہے) تو آپ نے فرمایا :''صفر کوئی چیز نہیں ہے''۔
3916- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < لاعَدْوَى وَلا طِيَرَةَ، وَيُعْجِبُنِي الْفَأْلُ الصَّالِحُ، وَالْفَأْلُ الصَّالِحُ الْكَلِمَةُ الْحَسَنَةُ >۔
* تخريج: خ/الطب ۴۴ (۵۷۵۶)، ۵۴ (۵۷۷۶)، ت/السیر ۴۷ (۱۶۱۵)، (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۸)، وقد أخرجہ: م/السلام ۳۴ (۲۲۲۴)، حم (۳/۱۱۸، ۱۵۴، ۱۷۸) (صحیح)
۳۹۱۶- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' نہ کسی کو کسی کی بیماری لگتی ہے، اور نہ بد شگونی کوئی چیز ہے، اور فال نیک سے مجھے خوشی ہوتی ہے اور فا ل نیک بھلی با ت ہے''۔
3917- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ سُهَيلٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سَمِعَ كَلِمَةً فَأَعْجَبَتْهُ فَقَالَ: < أَخَذْنَا فَأْلَكَ مِنْ فِيكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۵۵۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۲/۳۸۸) (صحیح)
۳۹۱۷- ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک بات سنی جو آپ کو بھلی لگی تو آپ نے فرمایا: ''ہم نے تیری فال تیرے منہ سے سن لی ''( یعنی انجا م بخیر ہے ان شا ء للہ ) ۔
3918- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءِ، قَالَ: يَقُولُ النَّاسُ: الصَّفَرُ وَجَعٌ يَأْخُذُ فِي الْبَطْنِ، قُلْتُ: [فَمَا] الْهَامَةُ؟ قَالَ: يَقُولُ النَّاسُ: الْهَامَةُ الَّتِي تَصْرُخُ هَامَةُ النَّاسِ، وَلَيْسَتْ بِهَامَةِ الإِنْسَانِ، إِنَّمَا هِيَ دَابَّةٌ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
۳۹۱۸- عطاء سے روایت ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ صفر ایک قسم کا درد ہے جو پیٹ میں ہو تا ہے تو میں نے پوچھا: ہامہ کیا ہے؟ کہا : لوگ کہتے تھے: الو جو بو لتا ہے وہ لوگوں کی روح ہے، حالا نکہ وہ انسان کی روح نہیں بلکہ وہ ایک جانور ہے (اگلے لوگ جہا لت سے اسے انسا ن کی روح سمجھتے تھے)۔
3919- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَأبُو بَكْرِ بْنُ شَيْبَةَ -الْمَعْنَى- قَالا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ أَحْمَدُ: الْقُرَشِيُّ، قَالَ: ذُكِرَتِ الطِّيَرَةُ عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: < أَحْسَنُهَا الْفَأْلُ وَلا تَرُدُّ مُسْلِمًا، فَإِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ مَا يَكْرَهُ فَلْيَقُلِ: اللَّهُمَّ لا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلا أَنْتَ، وَلا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلا أَنْتَ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِكَ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۹۸۹۹) (ضعیف)
(اس کے راوی'' عروہ قرشی'' تابعی ہیں اس لئے یہ روایت مرسل ہے )
۳۹۱۹- عروہ بن عامر قرشی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس طیرہ (بدشگو نی) کا ذکر کیاگیا تو آپ نے فرمایا: ''اس کی سب سے اچھی قسم نیک فال، اور اچھا(شگو ن) ہے، اور فال (شگون) کسی مسلما ن کواس کے ارا دہ سے با ز نہ رکھے پھر جب تم میں سے کوئی ایسی چیز دیکھے جو اسے نا گوار ہو تو وہ یہ دعا پڑھے:
''اللَّهُمَّ لا يَأْتِي بِالْحَسَنَاتِ إِلا أَنْتَ وَلا يَدْفَعُ السَّيِّئَاتِ إِلا أَنْتَ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِكَ'' (اے اللہ! تیرے سوا کوئی بھلا ئی نہیں پہنچا سکتا اور سوا ئے تیرے کوئی برائیوں کو روک بھی نہیں سکتا اور برا ئی سے با زرہنے اور نیکی کے کام کر نے کی طاقت وقوت صرف تیری تو فیق ہی سے ملتی ہے) ''۔
3920- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ لا يَتَطَيَّرُ مِنْ شَيْئٍ، وَكَانَ إِذَا بَعَثَ عَامِلا سَأَلَ عَنِ اسْمِهِ فَإِذَا أَعْجَبَهُ اسْمُهُ فَرِحَ بِهِ وَرُئِيَ بِشْرُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهُ رُئِيَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِذَا دَخَلَ قَرْيَةً سَأَلَ عَنِ اسْمِهَا: فَإِنْ أَعْجَبَهُ اسْمُهَا فَرِحَ وَرُئِيَ بِشْرُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَرِهَ اسْمَهَا رُئِيَ كَرَاهِيَةُ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۹۳)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۴۷) (صحیح)
۳۹۲۰- بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کسی چیز سے فال بد(بد شگو نی) نہیں لیتے تھے اور جب آپ کسی عامل کو بھیجتے تو اس کا نام پو چھتے، اگر آپ ﷺ کواس کا نام پسند آتا تو اس سے خوش ہو تے اور خو شی آپ کے چہرے پر نظر آتی اور اگر وہ پسند نہ آتا تو یہ نا پسندیدگی آپ کے چہرے پر دکھائی پڑتی، اور جب کسی بستی میں داخل ہو تے تو اس کا نام پو چھتے اگر وہ نام اچھا لگتا تو اس سے خوش ہو تے اور یہ خوشی آپ ﷺ کے چہرے پر دکھائی پڑتی اور اگر وہ ناپسند ہو تا تو یہ نا پسندید گی آپ کے چہرے پر دکھائی پڑتی ۔
3921- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنِي يَحْيَى أَنَّ الْحَضْرَمِيَّ بْنَ لاحِقٍ حَدَّثَهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ: < لاهَامَةَ، وَلا عَدْوَى، وَلا طِيَرَةَ، وَإِنْ تَكُنِ الطِّيَرَةُ فِي شَيْئٍ فَفِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف: ۳۸۶۱)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۸۰، ۱۸۶) (صحیح)
۳۹۲۱- سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرما تے تھے: ''مردے کی روح جانور کی شکل میں نہیں نکلتی، اور نہ کسی کی بیماری کسی کولگتی ہے، اور نہ کسی چیز میں نحو ست ہے، اور اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو گھو ڑے، عورت اور گھر میں ہوتی''۔
3922- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَمْزَةَ وَسَالِمٍ ابْنَيْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < الشُّؤْمُ فِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ >.
[قَالَ أَبو دَاود: قُرِءَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ: أَخْبَرَكَ ابْنُ الْقَاسِمِ قَالَ: سُئِلَ مَالِكٌ عَنِ الشُّؤْمِ فِي الْفَرَسِ وَالدَّارِ، قَالَ: كَمْ مِنْ دَارٍ سَكَنَهَا نَاسٌ فَهَلَكُوا، ثُمَّ سَكَنَهَا آخَرُونَ فَهَلَكُوا، فَهَذَا تَفْسِيرُهُ فِيمَا نَرَى، وَاللَّهُ أَعْلَمُ.
قَالَ أَبو دَاود: قَالَ عُمَرُ رَضِي اللَّه عَنْه: حَصِيرٌ فِي الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنِ امْرَأَةٍ لا تَلِدُ]۔
* تخريج: خ/الجھاد ۴۷ (۲۸۵۸)، النکاح ۱۷ (۵۰۹۳)، الطب ۴۳ (۵۷۵۳)، ۵۴ (۵۷۷۲)، م/السلام ۳۴ (۲۲۲۵)، ت/الأدب ۵۸ (۲۸۲۴)، ن/الخیل ۴ (۳۵۹۹)، ق/النکاح ۵۵ (۱۹۹۵)، (تحفۃ الأشراف: ۶۸۶۴، ۱۸۲۷۶، ۶۶۹۹)، وقد أخرجہ: ط/الاستئذان ۸ (۲۲)، حم (۲/۸، ۳۶، ۱۱۵، ۱۲۶) (صحیح)
(اس حدیث میں
''الشؤم'' کا لفظ آیا ہے، اور بعض روایتوں میں
''إنما الشؤم'' ہے۔ جبکہ صحیحین وغیرہ میں ابن عمر سے
''إن کان الشؤم'' ثابت ہے، جس کے شواہد سعد بن أبی وقاص (کما تقدم: ۳۹۲۱)، سہل بن سعد (خ/۵۰۹۵)، وجابر (م/۲۲۲۷) کی احادیث میں ہیں، اس لئے بعض اہل علم نے پہلے لفظ کو شاذ قرار دیا ہے، (ملاحظہ ہو: الصحیحۃ: ۷۹۹، ۷۸۹، ۱۸۵۷)۔
۳۹۲۲- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''نحوست گھر،عورت اور گھو ڑے میں ہے'' ۱؎ ۔
ابو داود کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ ابن قاسم نے آپ کو خبر دی ہے کہ امام مالک سے گھوڑے اور گھر کی نحوست کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: بہت سے گھر ایسے ہیں جس میں لوگ رہے تو وہ مر گئے پھر دوسرے لوگ رہنے لگے تو وہ بھی مر گئے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہی اس کی تفسیر ہے، واللہ اعلم ۔
ابو داود کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ گھر کی ایک چٹا ئی با نجھ عورت سے اچھی ہے ۔
وضاحت ۱؎ : عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی یہی روایت صحیح مسلم میں کئی سندوں سے اس طرح ہے : '' اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی'' اور یہی مطلب اِس عام روایت کا بھی ہے، اس کی وضاحت سعد بن مالک کی پچھلی روایت سے بھی ہورہی ہے، اور وہ جو دیگر روایات میں ہے، جیسے حدیث نمبر( ۳۹۲۴) تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ظاہر کو حقیقت سمجھ بیٹھیں اور ان کا عقیدہ خراب ہوجائے اسی لئے اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم دیا جیسے کوڑھی سے بھاگنے کا حکم دیا، حالانکہ آپ نے ﷺ خود فرمایا ہے کہ :'' چھوت کی کوئی حقیقت نہیں''۔
3923- حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ وَعَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ فَرْوَةَ بْنَ مُسَيْكٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَرْضٌ عِنْدَنَا يُقَالُ لَهَا أَرْضُ أَبْيَنَ، هِيَ أَرْضُ رِيفِنَا وَمِيرَتِنَا، وَإِنَّهَا وَبِئَةٌ أَوْ قَالَ: وَبَاؤُهَا شَدِيدٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < دَعْهَا عَنْكَ فَإِنَّ مِنَ الْقَرَفِ التَّلَفَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۲۴)، وقد أخرجہ: حم (۳/۴۵۱) (ضعیف الإسناد)
(فروۃ کے شاگردمبہم ہیں)
۳۹۲۳- فروہ بن مسیک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عر ض کیا: اللہ کے رسول ! ہمارے پاس ایک زمین ہے جسے ابین کہا جاتا ہے یہی ہمارا کھیت ہے جہاں سے ہمیں غلہ ملتا ہے لیکن یہ وبا ء والی زمین ہے یا کہاکہ اس کی وباء سخت ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : ''تم اس زمین کو اپنے سے علاحدہ کر دے کیو نکہ اس کے سا تھ وبا لگی رہنے سے ہلا کت ہے ''۔
3924- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ إِسْحَاقَ ابْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّا كُنَّا فِي دَارٍ كَثِيرٌ فِيهَا عَدَدُنَا وَكَثِيرٌ فِيهَا أَمْوَالُنَا، فَتَحَوَّلْنَا إِلَى دَارٍ أُخْرَى فَقَلَّ فِيهَا عَدَدُنَا وَقَلَّتْ فِيهَا أَمْوَالُنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < ذَرُوهَا ذَمِيمَةً >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۱۹۳) (حسن)
۳۹۲۴- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عر ض کیا: اللہ کے رسول !ہم ایک گھر میں تھے تو اس میں ہمارے لوگوں کی تعداد بھی زیا دہ تھی اور ہمارے پاس مال بھی زیادہ رہتا تھا پھر ہم ایک دوسرے گھر میں آگئے تو اس میں ہماری تعداد بھی کم ہوگئی اور ہما را مال بھی گھٹ گیا، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ''اسے چھو ڑدو، مذموم حالت میں'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس گھر کو چھوڑ دینے کا حکم آپ ﷺ نے اس لئے دیا کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ گھر ہی کو مؤثر سمجھنے لگ جائیں اور شرک میں پڑجائیں۔
3925- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ أَخَذَ بِيَدِ مَجْذُومٍ فَوَضَعَهَا مَعَهُ فِي الْقَصْعَةِ، وَقَالَ: <كُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَكُّلا عَلَيْهِ>۔
* تخريج: ت/الأطعمۃ ۱۹ (۱۸۱۷)، ق/ الطب ۴۴ (۳۵۴۲)، (تحفۃ الأشراف: ۳۰۱۰) (ضعیف)
(اس کے راوی ''مفضّل بن فضالۃ بصری '' ضعیف ہیں )
۳۹۲۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کوڑھی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے سا تھ پیا لہ میں رکھ لیا اور فرمایا: ''اللہ پر بھر وسہ اور اعتما دکرکے کھاؤ''۔
* * * * *