• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن ابو داود

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
350- بَاب فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
۳۵۰-باب: سور ہ فاتحہ کی فضیلت کا بیان​



1457- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: <{الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} أُمُّ الْقُرْآنِ وَأُمُّ الْكِتَابِ، وَالسَّبْعُ الْمَثَانِي >۔
* تخريج: خ/تفسیر القرآن ۳ (۴۷۰۴)، ت/فضائل القرآن ۱ (۲۸۲۵)، وتفسیر القرآن ۱۶ (۳۱۲۴)، (تحفۃ الأشراف:۱۳۰۱۴)، وقد أخرجہ: ن/الافتتاح ۲۶ (۹۱۵)، حم (۲/۴۴۸)، دي/فضائل القرآن ۱۲ (۳۴۱۷) (صحیح)
۱۴۵۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: { الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} ام القرآن اور ام الکتاب ہے اور سبع مثانی ۱؎ ہے ۔
وضاحت ۱؎ : سبع اس لئے کہ اس میں سات آیتیں ہیں اور مثانی اس لئے کہ وہ ہر صلاۃ میں دہرائی جاتی ہیں۔


1458- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ يُحَدِّثُ؛ عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّى أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِهِ وَهُوَ يُصَلِّي فَدَعَاهُ، قَالَ: فَصَلَّيْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ، قَالَ: فَقَالَ: < مَا مَنَعَكَ أَنْ تُجِيبَنِي؟ > قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي، قَالَ: < أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ}؟ لأُعَلِّمَنَّكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ -أَوْ فِي الْقُرْآنِ شَكَّ خَالِدٌ- قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ > قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! قَوْلُكَ، قَالَ: <{الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} [وَ] هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي الَّتِي أُوتِيتُ وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ >۔
* تخريج: خ/تفسیر الفاتحۃ ۱ (۴۴۷۴)، وتفسیر الأنفال ۳ (۴۶۴۸)، وتفسیر الحجر ۳ (۴۷۰۳)، وفضائل القرآن ۹ (۵۰۰۶)، ن/الافتتاح ۲۶ (۹۱۴)، ق/الأدب ۵۲ (۳۷۸۵)، (تحفۃ الأشراف:۱۲۰۴۷)، وقد أخرجہ: ط/الصلاۃ ۷ (۳۷)، حم (۳/۴۵۰، ۴/۲۱۱)، دي/الصلاۃٔ ۱۷۲ (۱۵۳۳)، وفضائل القرآن ۱۲ (۳۴۱۴) (صحیح)
۱۴۵۸- ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا وہ صلاۃ پڑھ رہے تھے، تو آپ نے انہیں بلایا، میں (صلاۃ پڑھ کر) آپ کے پاس آیا، تو آپ ﷺ نے پوچھا: ’’تم نے مجھے جواب کیوں نہیں دیا؟‘‘، عرض کیا: میں صلاۃ پڑھ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا : ’’اے مو منو! جواب دو اللہ اور اس کے رسول کو، جب رسول اللہ تمہیں ایسے کام کے لئے بلا ئیں، جس میں تمہاری زندگی ہے‘‘ میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورہ سکھائوں گا اس سے پہلے کہ میں مسجد سے نکلوں‘‘، (جب آپ ﷺ مسجد سے نکلنے لگے ) تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابھی آپ نے کیا فرمایا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ سورہ { الحمدلله رب العالمين} ہے اور یہی سبع مثانی ہے جو مجھے دی گئی ہے اور قرآن عظیم ہے ‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
351- بَاب مَنْ قَالَ هِيَ مِنَ الطُّوَلِ
۳۵۱-باب: سورہ فاتحہ لمبی سورتوں میں سے ہے اس کے قائل کا بیان​



1459- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أُوتِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي الطُّوَلِ، وَأُوتِيَ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلام سِتًّا، فَلَمَّا أَلْقَى الأَلْوَاحَ رُفِعَتْ ثِنْتَانِ وَبَقِيَ أَرْبَعٌ۔
* تخريج: ن/الافتتاح ۲۶ (۹۱۶، ۹۱۷)، (تحفۃ الأشراف:۵۶۱۷) (صحیح)
۱۴۵۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو سات لمبی سورتیں دی گئیں ہیں ۱؎ اور موسی (علیہ السلام) کو چھ دی گئی تھیں، جب انہوں نے تختیاں ( جن پر تورات لکھی ہوئی تھی) زمین پر ڈال دیں تو دو آیتیں اٹھالی گئیں اور چار باقی رہ گئیں۔
وضاحت : معنی کے اعتبار سے لمبی ہیں ورنہ ان کے الفاظ مختصر ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
352- بَاب مَا جَاءَ فِي آيَةِ الْكُرْسِيِّ
۳۵۲-باب: آیت الکرسی کی فضیلت کا بیان​



1460- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ إِيَاسٍ، عَنْ أَبِي السَّلِيلِ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ الأَنْصَارِيِّ؛ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < أَبَا الْمُنْذِرِ، أَيُّ آيَةٍ مَعَكَ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ أَعْظَمُ؟ > قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: < أَبَا الْمُنْذِرِ، أَيُّ آيَةٍ مَعَكَ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ أَعْظَمُ؟ > قَالَ: قُلْتُ: {اللَّهُ لاإِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ} قَالَ: فَضَرَبَ فِي صَدْرِي وَقَالَ: < لِيَهْنَ لَكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ الْعِلْمُ >۔
* تخريج: م/المسافرین ۴۴ (۸۱۰)، (تحفۃ الأشراف:۳۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۴۱) (صحیح)
۱۴۶۰- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ اے ابومنذر ! ۱؎ کتا ب اللہ کی کون سی آیت تمہارے نزدیک سب سے باعظمت ۲؎ ہے ؟‘‘، میں نے عرض کیا : اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’ابومنذر !کتاب اللہ کی کون سی آیت تمہارے نزدیک سب سے بڑی ہے؟‘‘، میں نے عرض کیا: {الله لا إله إلا هو الحي القيوم}، تو آپ ﷺ نے میرے سینے کو تھپتھپایا اور فرمایا: ’’اے ابومنذر! تمہیں علم مبارک ہو‘‘۔
وضاحت ۱؎ : ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے۔
وضاحت ۲؎ : باعظمت سے مراد الفاظ کی کثرت ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے معانی کی عظمت مراد ہے یعنی اس آیت کے معنی بہت عظیم ہیں نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے درجہ کی بڑائی مراد ہے یعنی اس آیت کا درجہ بڑا ہے کیونکہ اس میں اللہ کی عظمت، اس کی وحدانیت اور اس کی صفات کاملہ کا ذکر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
353-بَاب فِي سُورَةِ الصَّمَدِ
۳۵۳-باب: سو رہ اخلا ص کی فضیلت کا بیان​



1461- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَجُلا سَمِعَ رَجُلا يَقْرَأُ: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} يُرَدِّدُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحَ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَذَكَرَ لَهُ، وَكَأَنَّ الرَّجُلَ يَتَقَالُّهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّهَا لَتَعْدِلُ ثُلُثَ الْقُرْآنِ >۔
* تخريج: خ/فضائل القرآن ۱۳ (۵۰۱۳)، والأیمان والنذور ۳ (۶۶۴۳)، والتوحید ۱ (۷۳۷۴)، ن/الافتتاح ۶۹ (۹۹۶)، وعمل الیوم واللیلۃ ۲۰۴ (۶۹۸)، (تحفۃ الأشراف:۴۱۰۴)، وقد أخرجہ: ط/القرآن ۶ (۱۷)، حم (۳/۳۵، ۴۳) (صحیح)
۱۴۶۱- ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو{قل هو الله أحد} باربار پڑھتے سنا، جب صبح ہوئی تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اورآپ سے اس کا تذکرہ کیا، گویا وہ اس سورت کو کمتر سمجھ رہا تھا، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یہ (سورہ) ایک تہائی قرآن کے برابر ہے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
354-بَاب فِي الْمُعَوِّذَتَيْنِ
۳۵۴-باب: سورہ ’’الفلق‘‘اور سورہ ’’الناس‘‘ کی فضیلت کا بیان​



1462- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنِ الْعَلاءِ ابْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ مَوْلَى مُعَاوِيَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: كُنْتُ أَقُودُ بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ نَاقَتَهُ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ لِي: < يَا عُقْبَةُ أَلا أُعَلِّمُكَ خَيْرَ سُورَتَيْنِ قُرِئَتَا>، فَعَلَّمَنِي: {قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} وَ{قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} قَالَ: فَلَمْ يَرَنِي سُرِرْتُ بِهِمَا جِدًّا، فَلَمَّا نَزَلَ لِصَلاةِ الصُّبْحِ صَلَّى بِهِمَا صَلاةَ الصُّبْحِ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ الصَّلاةِ، الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ: <يَاعُقْبَةُ، كَيْفَ رَأَيْتَ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود ، (تحفۃ الأشراف:۹۹۴۶)، وقد أخرجہ: م/المسافرین ۴۶ (۸۱۴)، ت/فضائل القرآن ۱۲ (۲۹۰۲)، قیام اللیل (۱۳۳۷)، ن الکبری/الاستعاذۃ (۷۸۴۸)، حم (۴/۱۴۴، ۱۴۹، ۱۵۱، ۱۵۳)، دي/فضائل القرآن ۲۴ (۳۴۸۲) (صحیح)
۱۴۶۲- عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے اونٹ کی نکیل پکڑ کر چل رہا تھا، آپ نے فرمایا: ’’عقبہ! کیا میں تمہیں دو بہترین سورتیں نہ سکھائوں؟‘‘، پھر آپ ﷺ نے مجھے { قل أعوذ برب الفلق} اور{قل أعوذ برب الناس} سکھائیں، لیکن آپ ﷺ نے مجھے ان دونوں ( کے سیکھنے) سے بہت زیادہ خو ش ہوتے نہ پایا، چنانچہ جب آپ ﷺ فجر کے لئے (سواری سے) اتر ے تو لوگوں کو صلاۃ پڑھائی اور یہی دونوں سورتیں پڑھیں، پھر جب صلاۃ سے فارغ ہوئے تو میری طرف متوجہ ہوکر فرمایا: ’’عقبہ ! تم نے انہیں کیا سمجھا ہے‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت۱؎ : انہیں معمولی اور حقیر سمجھ رہے ہو، حالانکہ یہ بڑے کام کی ہیں، نبی اکرم ﷺ بلاؤں اور جادو سے نجات پانے کے لئے یہ سورتیں پڑھتے تھے۔


1463- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَسِيرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ الْجُحْفَةِ وَالأَبْوَاءِ؛ إِذْ غَشِيَتْنَا رِيحٌ وَظُلْمَةٌ شَدِيدَةٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَعَوَّذُ بِـ{أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} وَ{أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} وَيَقُولُ: < يَا عُقْبَةُ، تَعَوَّذْ بِهِمَا، فَمَا تَعَوَّذَ مُتَعَوِّذٌ بِمِثْلِهِمَا > قَالَ: وَسَمِعْتُهُ يَؤُمُّنَا بِهِمَا فِي الصَّلاةِ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۹۹۵۲) (صحیح)
۱۴۶۳- عقبہ بن عا مر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حجفہ اور ابواء کے درمیان رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ہمیں تیز آندھی اور شدید تاریکی نے ڈھانپ لیا تو رسول اللہ ﷺ {أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} اور {أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ} پڑھنے لگے ، آپ ﷺ فرمارہے تھے: ’’اے عقبہ! تم بھی ان دونوں کو پڑھ کر پناہ مانگو، اس لئے کہ ان جیسی سورتوں کے ذریعہ پناہ مانگنے والے کی طرح کسی پناہ مانگنے والے نے پناہ نہیں مانگی‘‘۔
عقبہ کہتے ہیں: میں نے آپ ﷺ کو سنا آپ انہیں دونوں کے ذریعہ ہماری امامت فرمارہے تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
355-بَاب اسْتِحْبَابِ التَّرْتِيلِ فِي الْقِرَائَةِ
۳۵۵-باب: قرأت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان ۱؎​


1464- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ: اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا >۔
* تخريج: ت/فضائل القرآن ۱۸ (۲۹۱۴)، ن الکبری / فضائل القرآن (۸۰۵۶)، (تحفۃ الأشراف:۸۶۲۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۱۹۲) (حسن صحیح)
۱۴۶۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’صاحب قرآن (حافظ قرآن یا ناظرہ خواں) سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ ا ور چڑھتے جاؤ اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے، تمہاری منزل وہاں ہے، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قرأت ختم کرو گے‘‘ ۲؎ ۔
وضاحت ۱؎ : قواعدِ تجوید کی رعایت کرتے ہوئے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہرکر پڑھنے کا نام ترتیل ہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ایک آیت پڑھ کر ایک درجہ طے کروگے پھر دوسری آیت سے دوسرا درجہ، اسی طرح جتنی آیتیں پڑھتے جاؤگے اتنے درجے اور مراتب اوپر اٹھتے چلے جاؤگے جہاں آخری آیت پڑھو گے وہیں تمہارا مقام ہوگا۔


1465- حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ؛ عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا عَنْ قِرَائَةِ النَّبِيِّ ﷺ ، فَقَالَ: كَانَ يَمُدُّ مَدًّا۔
* تخريج: خ/فضائل القرآن ۲۹ (۵۰۴۵)، ن/الافتتاح ۸۲ (۱۰۱۵)، ت/الشمائل (۳۱۵)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۷۹ (۱۳۵۳)، (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۵)، وقد أخرجہ: حم (۳/۱۱۹، ۱۲۷، ۱۳۱، ۱۹۲، ۱۹۸، ۲۸۹) (صحیح)
۱۴۶۵- قتا دہ کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم ﷺ کی قرأت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ ﷺ مد کو کھینچتے تھے۔


1466- حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى ابْنِ مَمْلَكٍ أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ عَنْ قِرَائَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَصَلاتِهِ، فَقَالَتْ: وَمَا لَكُمْ وَصَلاتَهُ ؟ كَانَ يُصَلِّي وَيَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى ثُمَّ يُصَلِّي قَدْرَ مَا نَامَ، ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى، حَتَّى يُصْبِحَ، وَنَعَتَتْ قِرَائَتَهُ، فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَائَتَهُ حَرْفًا حَرْفًا۔
* تخريج: ت/فضائل القرآن ۲۳ (۲۹۲۳)، ن/الافتتاح ۸۳(۱۰۲۳)، (تحفۃ الأشراف:۱۸۲۲۶)، وقد أخرجہ: حم (۶/۲۹۴، ۲۹۷، ۳۰۰، ۳۰۸) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ یعلی ‘‘لین الحدیث ہیں)
۱۴۶۶- یعلی بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی قرأت اور صلاۃ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: تم کہاں اور آپ ﷺ کی صلاۃ کہاں؟ آپ صلاۃ پڑھتے اور جتنی دیر پڑھتے اتنا ہی سوتے، پھر جتنا سو لیتے اتنی دیر نماز پڑھتے، پھر جتنی دیر صلاۃ پڑھتے اتنی دیر سوتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی، پھر ام سلمہ نے آپ ﷺ کی قرأت بیان کی تو دیکھا کہ وہ ایک ایک حرف الگ الگ پڑھ رہی تھیں۔


1467- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَةٍ يَقْرَأُ بِسُورَةِ الْفَتْحِ وَهُوَ يُرَجِّعُ۔
* تخريج: خ/المغازي ۴۸ (۴۲۸۱)، م/المسافرین ۳۵ (۷۹۴)، ت الشمائل (۳۹۱)، ن الکبری/فضائل القرآن (۸۰۵۵)، (تحفۃ الأشراف:۹۶۶۶)، وقد أخرجہ: حم (۴/۸۵) (صحیح)
۱۴۶۷- عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فتح مکہ کے روز ایک اونٹنی پر سوار دیکھا، آپ سورہ فتح پڑھ رہے تھے اور(ایک ایک آیت) کئی بار دہرارہے تھے ۔


1468- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ عَوْسَجَةَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < زَيِّنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ >.
* تخريج: ن/الافتتاح ۸۳ (۱۰۱۶)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۷۶ (۱۳۴۲)، (تحفۃ الأشراف:۱۷۷۵)، وقد أخرجہ: خ/التوحید ۵۲، تعلیقاً، حم (۴/۲۸۳، ۲۸۵، ۲۹۶، ۳۰۴)، دي/فضائل القرآن ۳۴ (۳۵۴۴) (صحیح)
۱۴۶۸- براء بن عا زب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ قرآن کو اپنی آواز سے زینت دو‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : خطابی وغیرہ نے اس کا ایک مفہوم یہ بتایا ہے کہ قرآن کے ذریعہ اپنی آواز کو زینت دو، یعنی اپنی آوازوں کو قرآن کی تلاوت میں مشغول رکھو، اس مفہوم کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جس میں’’زينوا أصواتكم بالقرآن‘‘کے الفاظ ہیں۔


1469- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، بِمَعْنَاهُ أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي نَهِيكٍ؛ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، وَقَالَ يَزِيدُ: عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، وَقَالَ قُتَيْبَةُ: هُوَ فِي كِتَابِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ >.
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۳۹۰۵، ۱۸۶۹۰)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷۲، ۱۷۵، ۱۷۹)، دي/فضائل القرآن ۳۴ (۳۵۳۱) (صحیح)
۱۴۶۹- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ جو شخص قرآن خو ش الحانی سے نہ پڑھے ، وہ ہم میں سے نہیں‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : امام خطابی نے اس کے تین معانی بیان کئے ہیں: ایک یہی ترتیل اور حسن آواز، دوسرے :قرآن کے ذریعہ دیگر کتب سے استغناء (دیکھئے نمبر: ۱۴۷۲)، تیسرے:عربوں میں رائج سواری پر حدی خوانی کے بدلے قرآن کی تلاوت۔


1470- حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي نَهِيكٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ ، مِثْلَهُ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف:۳۹۰۵، ۱۸۶۹۰) (صحیح)
۱۴۷۰- اس سند سے بھی سعد رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل حدیث مرفوعاً مروی ہے۔


1471- حَدَّثَنَا عَبْدُالأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْجَبَّارِ بْنُ الْوَرْدِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يَقُولُ: قَالَ عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ: مَرَّ بِنَا أَبُو لُبَابَةَ، فَاتَّبَعْنَاهُ حَتَّى دَخَلَ بَيْتَهُ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَإِذَا رَجُلٌ رَثُّ الْبَيْتِ رَثُّ الْهَيْئَةِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ >، قَالَ: فَقُلْتُ لابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ: يَاأَبَامُحَمَّدٍ! أَرَأَيْتَ إِذَا لَمْ يَكُنْ حَسَنَ الصَّوْتِ؟ قَالَ: يُحَسِّنُهُ مَا اسْتَطَاعَ ۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۳۹۰۵) (حسن صحیح)
۱۴۷۱- عبید اللہ بن ابی یز ید کہتے ہیں: ہمارے پاس سے ابولبابہ رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو ہم ان کے پیچھے ہولئے یہاں تک کہ وہ اپنے گھرکے اندر داخل ہوگئے تو ہم بھی داخل ہوگئے تو دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہوا ہے۔ بوسیدہ سا گھر ہے اور وہ بھی خستہ حال ہے، میں نے سنا: وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے ہوئے سنا ہے: ’’جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
عبدالجبار کہتے ہیں :میں نے ابن ابی ملیکہ سے کہا: اے ابو محمد! اگر کسی کی آواز اچھی نہ ہو تو کیا کرے؟ انہوں نے جواب دیا : جہاں تک ہو سکے اُسے اچھی بنائے۔


1472- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الأَنْبَارِيُّ، قَالَ: قَالَ وَكِيعٌ وَابْنُ عُيَيْنَةَ: يَعْنِي يَسْتَغْنِي [بِهِ]۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف: ۳۹۰۵) (صحیح)
۱۴۷۲- محمد بن سلیمان انباری کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں: وکیع اور ابن عیینہ نے کہا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ (دیگر کتب یا ادیان سے) بے نیاز ہوجائے ۔


1473- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مَالِكٍ وَحَيْوَةُ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْئٍ مَا أَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ يَجْهَرُ بِهِ >۔
* تخريج: خ/فضائل القرآن ۱۹ (۵۰۲۴)، والتوحید ۳۲ (۷۴۸۲)، ۵۲ (۷۵۴۴)، م/المسافرین ۳۴ (۷۹۲)، ن/الافتتاح۸۳ (۱۰۱۸)، (تحفۃ الأشراف:۱۴۹۹۷)، وقد أخرجہ: حم (۲/۲۷۱، ۲۸۵، ۴۵۰)، دي/الصلاۃ ۱۷۱ (۱۵۲۹)، وفضائل القرآن ۳۳ (۳۵۴۰) (صحیح)
۱۴۷۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ تعالی کسی کی اتنی نہیں سنتا جتنی ایک خوش الحان رسول کی سنتا ہے جب کہ وہ قرآن کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھ رہا ہو‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
356- بَاب التَّشْدِيدِ فِيمَنْ حَفِظَ الْقُرْآنَ ثُمَّ نَسِيَهُ
۳۵۶-باب: قرآن یاد کرکے بھول جانے والے پر وارد وعید کا بیان​


1474- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عِيسَى بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < مَا مِنِ امْرِئٍ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ ثُمَّ يَنْسَاهُ إِلا لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَجْذَمَ >۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۳۸۳۵)، وقد أخرجہ: حم (۵/۲۸۴، ۲۸۵، ۳۲۳)، دي/فضائل القرآن ۳ (۳۳۸۳) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ یزید ‘‘ ضعیف ہیں ، نیز :عیسیٰ نے اسے براہ راست سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے )
۱۴۷۴- سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو بھی آدمی قرآن پڑھتا ہو پھر اسے بھول جائے تو قیامت کے دن وہ اللہ سے مجذوم ۱؎ ہو کر ملے گا‘‘۔
وضاحت ۱؎ : کوڑھ کے سبب جس کے ہاتھ کٹ کر گرگئے ہوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
357- بَاب أُنْزِلَ الْقُرْآنُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ
۳۵۷-باب: قرآن مجید کے سات حرف پر نازل ہونے کا بیان​


1475- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ ابْنِ عَبْدِالْقَارِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤُهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ أَقْرَأَنِيهَا، فَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ، فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < اقْرَأْ >، فَقَرَأَ الْقِرَائَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : <هَكَذَا أُنْزِلَتْ > ثُمَّ قَالَ لِيَ: < اقْرَأْ > فَقَرَأْتُ، فَقَالَ: < هَكَذَا أُنْزِلَتْ >، ثُمَّ قَالَ: < إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَئُوا مَاتَيَسَّرَ مِنْهُ > ۔
* تخريج: خ/الخصومات ۴ (۲۴۱۹)، وفضائل القرآن ۵ (۴۹۹۲)، ۲۷ (۵۰۴۱)، والمرتدین ۹ (۶۹۳۶)، والتوحید ۵۳ (۷۵۵۰)، م/المسافرین ۴۸ (۸۱۸)، ت/القراء ات ۱۱ (۲۹۴۳)، ن/الافتتاح ۳۷ (۹۳۸، ۹۳۹)، (تحفۃ الأشراف:۱۰۵۹۱)، وقد أخرجہ: ط/ القرآن ۴ (۵)، حم (۱/ ۴۰، ۴۲، ۴۳، ۲۶۳) (صحیح)
۱۴۷۵- عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورہ فرقان پڑھتے سنا، وہ اس طریقے سے ہٹ کر پڑھ رہے تھے جس طرح میں پڑھتا تھا حالاں کہ مجھے خود رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا تھا تو قریب تھا کہ میں ان پرجلدی کربیٹھوں ۱؎ لیکن میں نے انہیں مہلت دی اور پڑھنے دیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہو گئے تو میں نے ان کی چادر پکڑ کر انہیں گھسیٹا اور انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے انہیں سورہ فرقان اس کے برعکس پڑھتے سنا ہے جس طرح آپ نے مجھے سکھائی ہے، رسول اللہ ﷺ نے ہشام سے فرمایا: ’’تم پڑھو‘‘، انہوں نے ویسے ہی پڑھا جیسے میں نے پڑھتے سنا تھا، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’یہ اسی طرح نازل ہوئی ہے‘‘، پھر مجھ سے فرمایا: ’’تم پڑھو‘‘، میں نے بھی پڑھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسی طرح نازل ہوئی ہے‘‘، پھر فرمایا : ’’قرآن مجید سات حرفوں ۲؎ پر نازل ہوا ہے، لہٰذا جس طرح آسان لگے پڑھو‘‘۔
وضاحت ۱؎ : یعنی انہیں قرأت سے روک دوں۔
وضاحت ۲؎ : علامہ سیوطی نے’’الاتقان‘‘میں اس کی تفسیر میں متعدد اقوال نقل کئے ہیں مثلاً سات حرفوں سے مراد سات لغات ہیں یا سات لہجے ہیں جوعرب کے مختلف قبائل میں مروج تھے یا سات قرأتیں ہیں جنہیں قرأت سبعہ کہا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔


1476- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ قَالَ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: إِنَّمَا هَذِهِ الأَحْرُفُ فِي الأَمْرِ الْوَاحِدِ، لَيْسَ تَخْتَلِفُ فِي حَلالٍ وَلا حَرَامٍ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۱۴۷۶- زہری کہتے ہیں کہ یہ حروف ( اگرچہ بظاہر مختلف ہوں) ایک ہی معاملہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں حلال و حرام میں اختلاف نہیں۔


1477- حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ الْخُزَاعِيِّ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < يَا أُبَيُّ، إِنِّي أُقْرِئْتُ الْقُرْآنَ، فَقِيلَ لِي: عَلَى حَرْفٍ أَوْ حَرْفَيْنِ؟ فَقَالَ الْمَلَكُ الَّذِي مَعِي: قُلْ عَلَى حَرْفَيْنِ، قُلْتُ: عَلَى حَرْفَيْنِ، فَقِيلَ لِي عَلَى حَرْفَيْنِ أَوْ ثَلاثَةٍ؟ فَقَالَ الْمَلَكُ الَّذِي مَعِي: قُلْ عَلَى ثَلاثَةٍ، قُلْتُ: عَلَى ثَلاثَةٍ، حَتَّى بَلَغَ سَبْعَةَ أَحْرُفٍ، ثُمَّ قَالَ: لَيْسَ مِنْهَا إِلا شَافٍ كَافٍ إِنْ قُلْتَ سَمِيعًا عَلِيمًا عَزِيزًا حَكِيمًا، مَالَمْ تَخْتِمْ آيَةَ عَذَابٍ بِرَحْمَةٍ، أَوْ آيَةَ رَحْمَةٍ بِعَذَابٍ >۔
* تخريج: تفرد بہ ابوداود ، (تحفۃ الأشراف:۲۵)، وقد أخرجہ: حم (۵ /۱۲۴، ۱۲۷، ۱۲۸) (صحیح)
۱۴۷۷- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ’’ ابی ! مجھے قرآن پڑھایا گیا، پھر مجھ سے پو چھا گیا : ایک حرف پر یا دو حرف پر ؟ میرے ساتھ جو فرشتہ تھا ، اس نے کہا: کہو: دو حرف پر ، میں نے کہا: دو حرف پر، پھر مجھ سے پوچھا گیا :دو حرف پریا تین حرف پر ؟ اس فرشتے نے جو میرے سا تھ تھا، کہا: کہو: تین حرف پر ، چنانچہ میں نے کہا: تین حرف پر، اسی طرح معاملہ سات حروف تک پہنچا‘‘، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ان میں سے ہر ایک حرف شافی اور کا فی ہے، چا ہے تم’’سميعًا عليمًا‘‘ کہو یا’’عزيزًا حكيمًا‘‘ جب تک تم عذاب کی آیت کو رحمت پر اور رحمت کی آیت کو عذاب پر ختم نہ کرو‘‘۔


1478- حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ عِنْدَ أَضَاةِ بَنِي غِفَارٍ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِءَ أُمَّتَكَ عَلَى حَرْفٍ، قَالَ: <أَسْأَلُ اللَّهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ، إِنَّ أُمَّتِي لا تُطِيقُ ذَلِكَ >، ثُمَّ أَتَاهُ ثَانِيَةً فَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا، حَتَّى بَلَغَ سَبْعَةَ أَحْرُفٍ، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِءَ أُمَّتَكَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَأَيُّمَا حَرْفٍ قَرَئُوا عَلَيْهِ فَقَدْ أَصَابُوا۔
* تخريج: م/المسافرین ۴۸ (۸۲۱)، ن/الافتتاح ۳۷ (۹۴۰)، (تحفۃ الأشراف:۶۰)، وقد أخرجہ: حم (۵/۱۲۷) (صحیح)
۱۴۷۸- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ بنی غفار کے تالاب کے پاس تھے کہ آپ کے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لا ئے اور فرمایا: ’’اللہ عزوجل آپ کو حکم دے رہا ہے کہ آپ اپنی امت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیں‘‘، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ سے اس کی بخشش اور مغفرت مانگتا ہوں، میری امت اتنی طا قت نہیں رکھتی ہے‘‘، پھر دو بارہ آپ ﷺ کے پاس آئے اور اسی طرح سے کہا، یہاں تک کہ معاملہ سات حرفوں تک پہنچ گیا، تو انہوں نے کہا: ’’اللہ آپ کوحکم دے رہا ہے کہ آپ اپنی امت کوسات حرفوں پر پڑھائیں، لہٰذا اب وہ جس حرف پر بھی پڑھیں گے وہ صحیح ہو گا‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
358- بَاب الدُّعَاءِ
۳۵۸-باب: دعا کا بیان​


1479- حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ يُسَيْعٍ الْحَضْرَمِيِّ؛ عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ {قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ}۔
* تخريج: ت/تفسیر البقرۃ ۳ (۲۹۶۹)، تفسیر المؤمن ۴۱ (۳۲۴۷)، الدعوات ۱ (۳۳۷۲)، ن الکبری/ التفسیر (۱۱۴۶۴)، ق/الدعاء ۱ (۳۸۲۸)، (تحفۃ الأشراف:۱۱۶۴۳)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۷۱، ۲۷۶) (صحیح)
۱۴۷۹- نعما ن بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ دعا عبادت ہے ۱؎ ، تمہارا رب فرماتا ہے: مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا‘‘ (سورہ غافر: ۶۰)۔
وضاحت ۱؎ : دعا جب عبادت ہے توغیر اللہ سے دعا کرنا شرک ہوگا، کیونکہ عبادت وبندگی کی جملہ قسمیں اللہ ہی کو زیب دیتی ہیں۔


1480- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ، عَنْ أَبِي نَعَامَةَ، عَنِ ابْنٍ لِسَعْدٍ أَنَّهُ قَالَ: سَمِعَنِي أَبِي [وَأَنَا] أَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَنَعِيمَهَا وَبَهْجَتَهَا، وَكَذَا وَكَذَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ النَّارِ وَسَلاسِلِهَا وَأَغْلالِهَا، وَكَذَا وَكَذَا، فَقَالَ: يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: < سَيَكُونُ قَوْمٌ يَعْتَدُونَ فِي الدُّعَاءِ > فَإِيَّاكَ أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ، إِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَ الْجَنَّةَ أُعْطِيتَهَا وَمَافِيهَا [مِنَ الْخَيْرِ]، وَإِنْ أُعِذْتَ مِنَ النَّارِ أُعِذْتَ مِنْهَا وَمَا فِيهَا مِنَ الشَّرِّ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۳۹۴۸)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۷۲، ۱۸۳) (حسن صحیح)
۱۴۸۰- سعد رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:میرے والد نے مجھے کہتے سنا: اے اللہ ! میں تجھ سے جنت کا اور اس کی نعمتوں، لذتوں اور فلاں فلاں چیزوں کا سوال کرتا ہوں اورمیں تیری پنا ہ مانگتا ہوں جہنم سے ، اس کی زنجیروں سے، اس کے طوقوں سے اور فلاں فلاں بلا ئوں سے، تو انہوں نے مجھ سے کہا: میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے:’’عنقریب کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو دعائوں میں مبالغہ اورحد سے تجاوز کریں گے، لہٰذا تم بچو کہ کہیں تم بھی ان میں سے نہ ہو جائو جب تمہیں جنت ملے گی تو اس کی ساری نعمتیں خود ہی مل جائیں گی اور اگر تم جہنم سے بچا لئے گئے تو اس کی تمام بلائوں سے خودبخود بچالئے جاؤگے‘‘۔


1481- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، أَخْبَرَنِي أَبُو هَانِئٍ حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ عَمْرَو بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ: سَمِعَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَجُلا يَدْعُو فِي صَلاتِهِ لَمْ يُمَجِّدِ اللَّهَ تَعَالَى وَلَمْ يُصَلِّ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : < عَجِلَ هَذَا > ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ: < إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَمْجِيدِ رَبِّهِ جَلَّ وَعَزَّ وَالثَّنَاءِ عَلَيْهِ، ثُمَّ يُصَلِّي عَلَى النَّبِيِّ ﷺ ، ثُمَّ يَدْعُو بَعْدُ بِمَا شَاءَ >۔
* تخريج: ت/الدعوات ۶۵ (۳۴۷۷)، ن/السہو ۴۸ (۱۲۸۵)، (تحفۃ الأشراف:۱۱۰۳۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۸) (صحیح)
۱۴۸۱- صحابی رسول فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو صلاۃ میں دعا کرتے سنا، اس نے نہ تو اللہ تعالی کی بزرگی بیان کی اور نہ ہی نبی اکرم ﷺ پر درود (صلاۃ) بھیجا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس شخص نے جلد بازی سے کام لیا‘‘، پھر اسے بلا یا اور اس سے یا کسی اور سے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی صلاۃ پڑھے تو پہلے اپنے رب کی حمدوثنا بیان کرے، پھر نبی اکرم ﷺ پر درود (صلاۃ) بھیجے، اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے‘‘۔


1482- حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي نَوْفَلٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّه عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَسْتَحِبُّ الْجَوَامِعَ مِنَ الدُّعَاءِ وَيَدَعُ مَا سِوَى ذَلِكَ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۱۷۸۰۵)، وقد أخرجہ: حم (۶/۱۴۸، ۱۸۸، ۱۸۹) (صحیح)
۱۴۸۲- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جا مع دعائیں ۱؎ پسند فرماتے اور جو دعا جامع نہ ہوتی اسے چھوڑ دیتے ۔
وضاحت ۱؎ : جامع دعائیں یعنی جن کے الفاظ مختصر اور معانی زیادہ ہوں، یا جو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کی جامع ہو، جیسے: ’’ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة وقنا عذاب النار‘‘ وغیرہ دعائیں۔


1483- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ، اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ، لِيَعْزِمِ الْمَسْأَلَةَ فَإِنَّهُ لا مُكْرِهَ لَهُ >۔
* تخريج: خ/الدعوات ۲۱ (۶۳۳۹)، والتوحید ۳۱ (۷۴۷۷)، ت/الدعوات ۷۸ (۳۴۹۷)، (تحفۃ الأشراف:۱۳۸۷۲، ۱۳۸۱۳)، وقد أخرجہ: م/الذکر والدعا ۳ (۲۶۷۹)، ق/الدعاء ۸ (۳۸۵۴)، ط/ القرآن ۸ (۲۸)، حم (۲/۲۴۳، ۴۵۷، ۲۸۶) (صحیح)
۱۴۸۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اس طرح دعا نہ مانگے: اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اے اللہ ! اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر، بلکہ جزم کے ساتھ سوال کرے کیونکہ اللہ پر کوئی جبر کرنے والا نہیں‘‘۔


1484- حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < يُسْتَجَابُ لأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ فَيَقُولُ: قَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي >۔
* تخريج: خ/الدعوات ۲۲ (۶۳۴۰)، م/الذکر والدعاء ۲۵ (۲۷۳۵)، ت/الدعوات ۱۲ (۳۳۸۷)، ق/الدعاء ۸ (۳۸۵۳)، (تحفۃ الأشراف:۱۲۹۳۰)، وقد أخرجہ: ط/القرآن ۸ (۲۹)، حم (۲/۴۸۷، ۳۹۶) (صحیح)
۱۴۸۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور یہ کہنے نہیں لگتا کہ میں نے تو دعا مانگی لیکن میری دعا قبول ہی نہیں ہوئی‘‘ ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : دعا میں جلد بازی بے ادبی ہے، اور اس کا نتیجہ محرومی ہے۔


1485- حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ، عَمَّنْ حَدَّثَهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ الْقُرَظِيِّ، حَدَّثَنِي عَبْدُاللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: < لا تَسْتُرُوا الْجُدُرَ، مَنْ نَظَرَ فِي كِتَابِ أَخِيهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ، فَإِنَّمَا يَنْظُرُ فِي النَّارِ، سَلُوا اللَّهَ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ، وَلا تَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا، فَإِذَا فَرَغْتُمْ فَامْسَحُوا بِهَا وُجُوهَكُمْ >.
قَالَ أَبودَاود: رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ كُلُّهَا وَاهِيَةٌ، وَهَذَا الطَّرِيقُ أَمْثَلُهَا، وَهُوَ ضَعِيفٌ أَيْضًا۔
* تخريج: ق/إقامۃ الصلاۃ ۱۱۹ (۳۸۶۶)، (تحفۃ الأشراف:۶۴۴۸) (ضعیف)
(عبداللہ بن یعقوب کے شیخ مبہم ہیں )
۱۴۸۵- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’دیواروں پر پردہ نہ ڈالو، جو شخص اپنے بھائی کا خط اس کی اجازت کے بغیر دیکھتا ہے تو وہ جہنم میں دیکھ رہا ہے، اللہ سے سیدھی ہتھیلیوں سے دعا مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو اور جب دعا سے فارغ ہو جائو تو اپنے ہا تھ اپنے چہروں پر پھیر لو‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں: یہ حدیث محمد بن کعب سے کئی سندوں سے مروی ہے۔ ساری سندیں ضعیف ہیں اوریہ طریق (سند) سب سے بہتر ہے اور یہ بھی ضعیف ہے۔


1486- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ الْبَهْرَانِيُّ قَالَ: قَرَأْتُهُ فِي أَصْلِ إِسْمَاعِيلَ -يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ- حَدَّثَنِي ضَمْضَمٌ، عَنْ شُرَيْحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو ظَبْيَةَ أَنَّ أَبَا بَحْرِيَّةَ السَّكُونِيَّ حَدَّثَهُ، عَنْ مَالِكِ ابْنِ يَسَارٍ السَّكُونِيِّ ثُمَّ الْعَوْفِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: <إِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَاسْأَلُوهُ بِبُطُونِ أَكُفِّكُمْ وَلاتَسْأَلُوهُ بِظُهُورِهَا >.
قَالَ أَبودَاود: وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِالْحَمِيدِ: لَهُ عِنْدَنَا صُحْبَةٌ -يَعْنِي مَالِكَ بْنَ يَسَارٍ-۔
* تخريج: تفرد بہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۱۱۲۰۹) (حسن صحیح)
۱۴۸۶- مالک بن یسار سکونی عوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم اللہ سے مانگو تو اپنی سیدھی ہتھیلیوں سے مانگو اور ان کی پشت سے نہ مانگو ‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں: سلیمان بن عبدالحمید نے کہا: ہمارے نزدیک انہیں یعنی مالک بن یسار کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے۔


1487- حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَبْهَانَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَدْعُو هَكَذَا بِبَاطِنِ كَفَّيْهِ وَظَاهِرِهِمَا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۱۳۱۷) (صحیح)
۱۴۸۷- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دونوں طرح سے دعا مانگتے دیکھا اپنی دونوں ہتھیلیاں سیدھی کر کے بھی اور ان کی پشت اوپر کر کے بھی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : یعنی عام حالات میں ہتھیلیوں کا اندرونی حصہ چہرہ کی طرف اور استسقاء میں اندرونی حصہ زمین کی طرف اور پشت چہرہ کی طرف کرکے۔


1488- حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى -يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ-، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ -يَعْنِي ابْنَ مَيْمُونٍ صَاحِبَ الأَنْمَاطِ-، حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ سَلْمَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < إِنَّ رَبَّكُمْ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَيِيٌّ كَرِيمٌ يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ إِذَا رَفَعَ يَدَيْهِ إِلَيْهِ أَنْ يَرُدَّهُمَا صِفْرًا >۔
* تخريج: ت/الدعوات ۱۰۵ (۳۵۵۶)، ق/الدعاء ۱۳ (۳۸۶۵)، (تحفۃ الأشراف:۴۴۹۴)، وقد أخرجہ: حم (۵/۴۳۸) (صحیح)
۱۴۸۸- سلما ن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارا رب بہت باحیا اور کریم (کرم والا) ہے، جب اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہا تھ اٹھاتا ہے توانہیں خالی لوٹاتے ہوئے اسے اپنے بندے سے شرم آتی ہے‘‘۔


1489- حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ -يَعْنِي ابْنَ خَالِدٍ- حَدَّثَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَعْبَدِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: الْمَسْأَلَةُ أَنْ تَرْفَعَ يَدَيْكَ حَذْوَ مَنْكِبَيْكَ، أَوْ نَحْوَهُمَا، وَالاسْتِغْفَارُ أَنْ تُشِيرَ بِأُصْبُعٍ وَاحِدَةٍ، وَالابْتِهَالُ أَنْ تَمُدَّ يَدَيْكَ جَمِيعًا۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۵۳۵۶) (صحیح)
۱۴۸۹- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مانگنا یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں کے بالمقابل یا ان کے قریب اٹھاؤ، اور استغفار یہ ہے کہ تم صرف ایک انگلی سے اشارہ کرو اورابتہال ( عا جز ی و گریہ وزاری سے دعا مانگنا) یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہا تھ پوری طرح پھیلا دو۔


1490- حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَعْبَدِ بْنِ عَبَّاسٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ: وَالابْتِهَالُ هَكَذَا، وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَجَعَلَ ظُهُورَهُمَا مِمَّا يَلِي وَجْهَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۵۳۵۶) (صحیح)
۱۴۹۰- اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے:’’ ابتہال اس طرح ہے‘‘ اور انہوں نے دونوں ہاتھ اتنے بلند کئے کہ ہتھیلیوں کی پشت اپنے چہرے کے قریب کردی۔


1491- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ ، حدثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَعْبَدِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَخِيهِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ؛ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۵۳۵۶، ۱۸۸۸۰) (صحیح)
۱۴۹۱- اس سند سے بھی ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، پھر راوی نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔


1492- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۱۱۸۲۸)، وقد أخرجہ: حم (۴/۲۲۱) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ابن لھیعہ ‘‘ ضعیف ہیں اور ’’حفص بن ہاشم ‘‘ مجہول ہیں)
۱۴۹۲- یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جب دعا ما نگتے تو اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے اورانہیں اپنے چہرے پر پھیرتے۔


1493- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ؛ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سَمِعَ رَجُلا يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ: < لَقَدْ سَأَلْتَ اللَّهَ بِالاسْمِ الَّذِي إِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى وَإِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ > ۔
* تخريج: ت/الدعوات ۶۴ (۳۴۷۵)، ق/الدعاء ۹ (۳۸۵۷)، (تحفۃ الأشراف:۱۹۹۸)، وقد أخرجہ: حم (۵/۳۴۹، ۳۵۰، ۳۶۰) (صحیح)
۱۴۹۳- بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کہتے سنا: ’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ الأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ‘‘ (اے اللہ! میں تجھ سے ما نگتا ہوں اِس وسیلے سے کہ :میں گواہی دیتا ہوں کہ تو ہی اللہ ہے، تیرے سوا کوئی اورمعبود نہیں، تو تنہا اورایسا بے نیاز ہے جس نے نہ تو جنا ہے اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے اور نہ اس کا کوئی ہمسر ہے) یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تو نے اللہ سے اس کا وہ نام لے کر مانگا ہے کہ جب اس سے کوئی یہ نام لے کر مانگتا ہے توعطا کرتا ہے اور جب کوئی دعا کرتا ہے تو قبول فرماتا ہے‘‘۔


1494- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ خَالِدٍ الرَّقِّيِّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ فِيهِ: لَقَدْ سَأَلْتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بِاسْمِهِ الأَعْظَمِ۔
* تخريج: انظر ما قبلہ، (تحفۃ الأشراف:۱۹۹۸) (صحیح)
۱۴۹۴- اس سند سے بھی بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے:’’لَقَدْ سَأَلْتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بِاسْمِهِ الأَعْظَمِ‘‘ ( تو نے اللہ سے اس کے اسم اعظم ( عظیم نام) کا حوالہ دے کرسوال کیا)۔


1495- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ عُبَيْدِاللَّهِ الْحَلَبِيُّ، حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ حَفْصٍ -يَعْنِي ابْنَ أَخِي أَنَسٍ- عَنْ أَنَسٍ أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ جَالِسًا وَرَجُلٌ يُصَلِّي،ثُمَّ دَعَا: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدُ، لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، يَا ذَا الجَلالِ وَالإِكْرَامِ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : < لَقَدْ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْعَظِيمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ، وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى >۔
* تخريج: ن/السہو ۵۸ (۱۲۹۹)، (تحفۃ الأشراف:۵۵۱)، وقد أخرجہ: ت/الدعوات ۱۰۰ (۳۵۴۴)، ق/الدعاء ۹ (۳۸۵۸)، حم (۳/۱۲۰، ۱۵۸، ۲۴۵) (صحیح)
۱۴۹۵- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص صلاۃ پڑھ رہا تھا، (صلاۃ سے فارغ ہو کر) اس نے دعا مانگی:’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدُ، لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، يَا ذَا الجَلالِ وَالإِكْرَامِ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ‘‘ ( اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس وسیلے سے کہ: ساری و حمد تیرے لئے ہے، تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں، تو ہی احسان کرنے والا اور آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے، اے جلا ل اور عطاء وبخشش والے، اے زندۂ جاوید اے آسمانوں اور زمینوں کو تھامنے والے!) یہ سن کر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اس نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم ( عظیم نام) کے حوالے سے دعا مانگی ہے کہ جب اس کے حوالے سے دعا مانگی جاتی ہے تو وہ دعا قبول فرماتا ہے اور سوال کیا جاتا ہے تو وہ دیتا ہے‘‘۔


1496- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: < اسْمُ اللَّهِ الأَعْظَمُ فِي هَاتَيْنِ الآيَتَيْنِ > {وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِيمُ} وَفَاتِحَةِ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ: {الم اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ}۔
* تخريج: ت/الدعوات ۶۵ (۳۴۷۸)، ق/الدعاء ۹ (۳۸۵۵)، (تحفۃ الأشراف:۱۵۷۶۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۶۱) (حسن لغیرہ)
(اس کے راوی’’ عبیداللہ القدَّاح ‘‘ ضعیف ہیں ، نیز’’ شہر بن حوشب‘‘ میں بھی کلام ہے ، ترمذی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، اس کی شاہد ابو امامۃ کی حدیث ہے، جس سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہوئی ) (ملاحظہ ہو: سلسلۃ ا لاحادیث الصحیحۃ: ۷۴۶و صحیح ابی داود: ۵؍ ۲۳۴)
۱۴۹۶- اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کا اسم اعظم ( عظیم نام) ان دونوں آیتوں {وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الرَّحْمَانُ الرَّحِيمُ} ۱؎ اور سورہ اٰل عمران کی ابتدائی آیت {الم اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ} ۲؎ میں ہے‘‘۔
وضاحت ۱؎ : سورة البقرة: (۱۶۳)
وضاحت ۲؎ : سورة آل عمران: (۱،۲)


1497- حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَطَائٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: سُرِقَتْ مِلْحَفَةٌ لَهَا، فَجَعَلَتْ تَدْعُو عَلَى مَنْ سَرَقَهَا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَقُولُ: < لا تُسَبِّخِي عَنْهُ >.
قَالَ أَبودَاود: لا تُسَبِّخِي أَيْ لا تُخَفِّفِي عَنْهُ۔
* تخريج: تفردبہ أبوداود، (تحفۃ الأشراف:۱۷۳۷۷)، وقد أخرجہ: حم (۶/۴۵، ۱۳۶)، ویأتي برقم (۴۹۰۹) (حسن)
(ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود۲/۹۰، والصحیحۃ: ۳۴۱۳)
۱۴۹۷- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان کا ایک لحاف چُرا لیا گیا تو وہ اس کے چور پر بددعا کرنے لگیں تو رسول اللہ ﷺ فرمانے لگے: ’’تم اس کے گناہ میں کمی نہ کرو‘‘۔
ابوداود کہتے ہیں:’’لا تسبخي‘‘ کا مطلب ہے ’’لا تخففي عنه‘‘ یعنی اس کے گناہ میں تخفیف نہ کرو۔


1498- حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ: اسْتَأْذَنْتُ النَّبِيَّ ﷺ فِي الْعُمْرَةِ، فَأَذِنَ لِي وَقَالَ: < لا تَنْسَنَا يَا أُخَيَّ مِنْ دُعَائِكَ > فَقَالَ: كَلِمَةً مَا يَسُرُّنِي أَنَّ لِي بِهَا الدُّنْيَا، قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ لَقِيتُ عَاصِمًا بَعْدُ بِالْمَدِينَةِ فَحَدَّثَنِيهِ، وَقَالَ: < أَشْرِكْنَا يَاأُخَيَّ فِي دُعَائِكَ >۔
* تخريج: ت/الدعوات ۱۱۰ (۳۵۶۲)، ق/المناسک ۵ (۲۸۹۴)، (تحفۃ الأشراف:۱۰۵۲۲)، وقد أخرجہ: حم (۱/۲۹) (ضعیف)
(اس کے راوی’’عاصم ‘‘ ضعیف ہیں)
۱۴۹۸- عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے عمرہ کرنے کی اجازت طلب کی، جس کی آپ نے مجھے اجازت دے دی اور فرمایا : ’’میرے بھائی ! مجھے اپنی دعائوں میں نہ بھولنا‘‘، آپ نے یہ ایسی بات کہی جس سے مجھے اس قدر خو شی ہوئی کہ اگر ساری دنیا اس کے بدلے مجھے مل جاتی تو اتنی خو شی نہ ہو تی۔
(راوی حدیث ) شعبہ کہتے ہیں:پھر میں اس کے بعد عاصم سے مدینہ میں ملا۔ انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی اور اس وقت ’’لا تَنْسَنَا يَاْ أُخَيَّ فِيْ دُعَاْئِكَ‘‘ کے بجائے ’’أَشْرِكْنَا يَاْ أُخَيَّ فِيْ دُعَاْئِكَ‘‘ کے الفاظ کہے (اے میرے بھائی ہمیں بھی اپنی دعائوں میں شریک رکھنا)۔


1499- حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: مَرَّ عَلَيَّ النَّبِيُّ ﷺ وَأَنَا أَدْعُو بِأُصْبُعَيَّ، فَقَالَ: <أَحِّدْ أَحِّدْ >، وَأَشَارَ بِالسَّبَّابَةِ۔
* تخريج: ن/السہو ۳۷ (۱۲۷۴)، (تحفۃ الأشراف:۳۸۵۰)، وقد أخرجہ: ت/الدعوات (۳۵۵۲) (صحیح)
۱۴۹۹- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ میرے پاس سے گزرے، میں اس وقت اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کر تے ہوئے دعا مانگ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ایک انگلی سے کرو، ایک انگلی سے کرو‘‘ اورآپ نے شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
359-بَاب التَّسْبِيحِ بِالْحَصَى
۳۵۹-باب: کنکریوں سے تسبیح گننے کا بیان​


1500- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلالٍ حَدَّثَهُ، عَنْ خُزَيْمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهَا أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ عَلَى امْرَأَةٍ وَبَيْنَ يَدَيْهَا نَوًى، أَوْ حَصًى، تُسَبِّحُ بِهِ، فَقَالَ: < أُخْبِرُكِ بِمَا هُوَ أَيْسَرُ عَلَيْكِ مِنْ هَذَا أَوْ أَفْضَلُ >، فَقَالَ: < سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَاخَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ >۔
* تخريج: ت/الدعوات ۱۱۴ (۳۵۶۸)، (تحفۃ الأشراف:۳۹۵۴) (ضعیف)
(اس کے راوی ’’ خزیمہ‘‘ مجہول ہیں)
۱۵۰۰- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک عورت ۱؎ کے پا س گئے، اس کے سامنے گٹھلیاں یا کنکریاں رکھی تھیں، جن سے وہ تسبیح گنتی تھی ۲؎ ،آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں ایک ایسی چیز بتاتا ہوں جو تمہارے لئے اس سے زیا دہ آسان ہے یا اس سے افضل ہے‘‘، پھر آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اس طرح کہا کرو: ’’سُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي السَّمَاءِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ فِي الأَرْضِ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ بَيْنَ ذَلِكَ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ عَدَدَ مَا هُوَ خَالِقٌ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ مِثْلُ ذَلِكَ‘‘ ۔
وضاحت ۱؎ : وہ ام المومنین صفیہ رضی اللہ عنہا ، یا ام المومنین جویریہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
وضاحت ۲؎ : مروجہ تسبیح جس میں سو دانے ہوتے ہیں، اور ان میں ایک امام ہوتا ہے، رسول اللہ ﷺ ، صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، انگلیوں پر تسبیح مسنون ہے ، ملاحظہ ہو اگلی حدیث نمبر (۱۵۰۱)۔


1501- حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ هَانِئِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ حُمَيْضَةَ بِنْتِ يَاسِرٍ؛ عَنْ يُسَيْرَةَ أَخْبَرَتْهَا أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَمَرَهُنَّ أَنْ يُرَاعِينَ بِالتَّكْبِيرِ وَالتَّقْدِيسِ وَالتَّهْلِيلِ، وَأَنْ يَعْقِدْنَ بِالأَنَامِلِ فَإِنَّهُنَّ مَسْئُولاتٌ مُسْتَنْطَقَاتٌ۔
* تخريج: ت/الدعوات ۱۲۱ (۳۵۸۳)، (تحفۃ الأشراف:۱۸۳۰۱)، وقد أخرجہ: حم (۶/۳۷۰، ۳۷۱) (حسن)
۱۵۰۱- یسیرہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ تکبیر، تقدیس اور تہلیل کا اہتمام کیا کریں اور اس بات کا کہ وہ انگلیوں کے پوروں سے گنا کریں اس لئے کہ انگلیوں سے(قیامت کے روز) سوال کیا جائے گا اور وہ بولیں گی ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : {يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ } [سورة النــور: 24] ’’جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے‘‘، تو جس طرح ہاتھ اور پاؤں وغیرہ اعضاء برے اعمال کی گواہی دیں گے اسی طرح اچھے اعمال کی بھی گواہی دیں گے۔


1502- حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ وَمُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ فِي آخَرِينَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَثَّامٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَعْقِدُ التَّسْبِيحَ، قَالَ ابْنُ قُدَامَةَ: بِيَمِينِهِ۔
* تخريج: ت/الدعوات ۲۵ (۳۴۱۱)، ۷۲ (۳۴۸۶)، ن/السہو ۹۷ (۱۳۵۶)، (تحفۃ الأشراف:۸۶۳۷) (صحیح)
۱۵۰۲- عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو تسبیح گنتے دیکھا ( ابن قدا مہ کی روایت میں ہے): ’’اپنے دائیں ہا تھ پر‘‘۔


1503- حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أُمَيَّةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَانِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنْ عِنْدِ جُوَيْرِيَةَ، وَكَانَ اسْمُهَا بُرَّةَ، فَحَوَّلَ اسْمَهَا، فَخَرَجَ وَهِيَ فِي مُصَلاهَا وَرَجَعَ وَهِيَ فِي مُصَلاهَا، فَقَالَ: < لَمْ تَزَالِي فِي مُصَلاكِ هَذَا؟ > قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: < قَدْ قُلْتُ بَعْدَكِ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ ثَلاثَ مَرَّاتٍ لَوْ وُزِنَتْ بِمَا قُلْتِ لَوَزَنَتْهُنَّ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ >۔
* تخريج: م/الذکر والدعاء ۱۹ (۲۱۴۰ و ۲۷۲۶)، (تحفۃ الأشراف:۶۳۵۸)، وقد أخرجہ: ن/افتتاح ۹۴ (۱۳۵۳)، ت/الدعاء ۱۰۴(۳۵۵۵)، ق/الأدب ۵۶ (۲۸۰۸)، حم (۱/۲۵۸، ۳۱۶، ۳۲۶، ۳۵۳) (صحیح)
۱۵۰۳- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جویریہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے نکلے
( پہلے ان کا نام برہ تھا ۱؎ آپ نے اسے بدل دیا)، جب آپ ﷺ نکل کر آئے تب بھی وہ اپنے مصلیٰ پر تھیں اور جب واپس اندر گئے تب بھی وہ مصلیٰ پر تھیں، آپ ﷺ نے پوچھا: ’’کیا تم جب سے اپنے اسی مصلیٰ پر بیٹھی ہو؟‘‘، انہوں نے کہا : ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تمہارے پاس سے نکل کر تین مرتبہ چار کلما ت کہے ہیں، اگر ان کا وزن ان کلما ت سے کیا جائے جو تم نے ( اتنی دیر میں) کہے ہیں تو وہ ان پر بھاری ہوں
گے: ’’سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ‘‘(میں پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کی اور اس کی تعریف کرتا ہوں اس کی مخلوق کی تعداد کے برابر، اس کی مرضی کے مطابق، اس کے عرش کے وزن اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر)‘‘۔
وضاحت ۱؎ : اسی طرح زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا کا نام بھی برّہ تھا، اس کو بدل کر آپ ﷺ نے زینب رکھ دیا، اس لئے کہ معلوم نہیں کہ اللہ کے نزدیک کون برہ (نیکوکار) ہے اور کون فاجرہ (بدکار) ہے، انسان کو آپ اپنی تعریف و تقدیس مناسب نہیں۔


1504- حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، [قَالَ:] حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَائِشَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ: يَارَسُولَ اللَّهِ! ذَهَبَ أَصْحَابُ الدُّثُورِ بِالأُجُورِ، يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي، وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ، وَلَهُمْ فُضُولُ أَمْوَالٍ يَتَصَدَّقُونَ بِهَا، وَلَيْسَ لَنَا مَالٌ نَتَصَدَّقُ بِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: < يَا أَبَا ذَرٍّ! أَلا أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ تُدْرِكُ بِهِنَّ مَنْ سَبَقَكَ وَلا يَلْحَقُكَ مَنْ خَلْفَكَ إِلا مَنْ أَخَذَ بِمِثْلِ عَمَلِكَ؟ > قَالَ: بَلَى، يَارَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: < تُكَبِّرُ اللَّهَ [عَزَّ وَجَلَّ] دُبُرَ كُلِّ صَلاةٍ ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَتَحْمَدُهُ ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَتُسَبِّحُهُ ثَلاثًا وَثَلاثِينَ، وَتَخْتِمُهَا بِلا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ، غُفِرَتْ لَهُ ذُنُوبُهُ وَلَوْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ >۔
* تخريج: تفرد بہ أبو داود، (تحفۃ الأشراف:۱۴۵۸۸)، وقد أخرجہ: م/المساجد ۲۶ (۵۹۵)، ق/إقامۃ الصلاۃ ۳۲ (۹۲۶)، ط/القرآن ۷ (۲۲)، دي/الصلاۃ ۹۰ (۱۳۹۳) (صحیح)
۱۵۰۴- ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابو ذررضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مال والے تو ثواب لے گئے، وہ صلاۃ پڑھتے ہیں، جس طرح ہم پڑھتے ہیں، صیام رکھتے ہیں جس طرح ہم رکھتے ہیں، البتہ ان کے پاس ضرورت سے زیا دہ مال ہے، جو وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہمارے پاس مال نہیں ہے کہ ہم صدقہ کریں؟
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابوذر! کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھائوں جنہیں ادا کر کے تم ان لوگوں کے برابر پہنچ سکتے ہو، جو تم پر ( ثواب میں) بازی لے گئے ہیں، اورجو (ثواب میں) تمہارے پیچھے ہیں تمہارے برابر نہیں ہو سکتے، سوائے اس شخص کے جو تمہارے جیسا عمل کرے‘‘، انہوں نے کہا: ضرور اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ہر صلاۃ کے بعد(۳۳) بار ’’اللہ اکبر‘‘ (۳۳) بار’’الحمدللہ‘‘ (۳۳) بار’’سبحان اللہ‘‘ کہا کرو، اور آخر میں’’لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ وَحْدَهُ، لا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْئٍ قَدِيرٌ‘‘ پڑھا کرو (جو ایسا کر ے گا) اس کے تمام گنا ہ بخش دئے جائیں گے اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں‘‘۔
 
Top