28-كِتَاب الْوَصَايَا عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ
۲۸-کتاب : وصیت کے احکام ومسائل
1-بَاب مَا جَاءَ فِي الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ
۱-باب: ایک تہائی مال کی وصیت کے جواز کابیان
2116- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ ابْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَرِضْتُ عَامَ الْفَتْحِ مَرَضًا أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَأَتَانِي رَسُولُ اللهِ ﷺ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ لِي مَالاً كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلاَّ ابْنَتِي أَفَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: "لاَ"، قُلْتُ: فَثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: "لاَ". قُلْتُ: فَالشَّطْرُ قَالَ: "لاَ". قُلْتُ: فَالثُّلُثُ؟ قَالَ: "الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ إِنْ تَدَعْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَائَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً، يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً إِلاَّ أُجِرْتَ فِيهَا حَتَّى اللُّقْمَةَ تَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِكَ" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ! أُخَلَّفُ عَنْ هِجْرَتِي؟ قَالَ: "إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ بَعْدِي فَتَعْمَلَ عَمَلاً تُرِيدُ بِهِ وَجْهَ اللهِ إِلاَّ ازْدَدْتَ بِهِ رِفْعَةً وَدَرَجَةً، وَلَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ". "اللَّهُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ" يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللهِ ﷺ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ لَيْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ يُوصِيَ بِأَكْثَرَ مِنَ الثُّلُثِ. وَقَدْ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَنْقُصَ مِنَ الثُّلُثِ لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ ﷺ: "وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ".
* تخريج: انظر حدیث رقم: ۹۷۵ (تحفۃ الأشراف: ۳۸۹۰) (صحیح)
۲۱۱۶- سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : فتح مکہ کے سال میں ایسا بیمارپڑا کہ موت کے قریب پہنچ گیا، رسول اللہ ﷺ میری عیادت کو آئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت مال ہے اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، کیا میں اپنے پورے مال کی وصیت کردوں؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں''، میں نے عرض کیا: دوتہائی مال کی ؟ آپ نے فرمایا: ''نہیں''، میں نے عرض کیا: آدھا مال کی؟ آپ ﷺنے کہا: ''نہیں''، میں نے عرض کیا: ایک تہائی کی ؟ آپ نے فرمایا:'' ایک تہائی کی وصیت کرواور ایک تہائی بھی بہت ہے ۱؎ ، تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو یہ اس بات سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج وغریب چھوڑ کرجاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھیریں، تم جو بھی خرچ کرتے ہواس پرتم کو ضرور اجر ملتاہے، یہاں تک کہ اس لقمہ پربھی جس کو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو''، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! میں تو اپنی ہجرت سے پیچھے رہ جاؤں گا ؟آپ نے فرمایا:'' تم میرے بعد زندہ رہ کر اللہ کی رضامندی کی خاطر جوبھی عمل کروگے اس کی وجہ سے تمہارے درجات میں بلندی اور اضافہ ہوتاجائے گا، شاید کہ تم میرے بعد زندہ رہو یہاں تک کہ تم سے کچھ قومیں نفع اٹھائیں گی اور دوسری نقصان اٹھائیں گی ۲؎ ، (پھر آپ نے دعاکی)'' اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت برقرار رکھ اور ایڑیوں کے بل انہیں نہ لوٹا دنیا'' لیکن بیچارے سعد بن خولہ جن پر رسول اللہ ﷺ افسوس کرتے تھے ، (ہجرت کے بعد) مکہ ہی میں ان کی وفات ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- سعدبن ابی وقاص سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے، ۳- اس باب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی روایت ہے، ۴- اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت کرنا آدمی کے لیے جائزنہیں ہے،۴- بعض اہل علم ایک تہائی سے کم کی وصیت کرنے کو مستحب سمجھتے ہیں اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' ایک تہائی بھی زیادہ ہے''۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ صاحب مال ورثاء کو محروم رکھنے کی کوشش نہ کرے، اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ اپنے تہائی مال کی وصیت کرسکتا ہے، اس سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا ہے، البتہ ورثاء اگر زائد کی اجازت دیں تو پھر کوئی حرج کی بات نہیں ہے، یہ بھی معلوم ہواکہ ورثاء کا مالدار رہنا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنا بہت بہترہے۔
وضاحت ۲؎ : آپ ﷺ نے سعد بن ابی وقاص کے متعلق جس امید کا اظہار کیاتھا وہ پوری ہوئی، چنانچہ سعد اس مرض سے شفا یاب ہوئے اور آپ کے بعد کافی لمبی عمر پائی، ان سے ایک طرف مسلمانوں کو فائدہ پہنچا تو دوسری جانب کفار کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا، ان کا انتقال مشہور قول کے مطابق ۵۰ ھ میں ہواتھا۔