• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يُوصِ
۴-باب: نبی اکرم ﷺ نے (کوئی مالی) وصیت نہیں کی​


2119- حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكُ ابْنُ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، قَالَ: قُلْتُ لاِبْنِ أَبِي أَوْفَى: أَوْصَى رَسُولُ اللهِ ﷺ؟ قَالَ: لاَ، قُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَتِ الْوَصِيَّةُ وَكَيْفَ أَمَرَ النَّاسَ؟ قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ.
* تخريج: خ/الوصایا ۱ (۲۷۱۰)، والمغازي ۸۳ (۴۴۶۰)، وفضائل القرآن ۱۸ (۵۰۲۲)، م/الوصایا ۵ (۱۶۳۴)، ق/الوصایا ۲ (۳۶۵۰)، ق/الوصایا ۱ (۲۶۹۶)، (تحفۃ الأشراف: ۵۱۷۰)، وحم (۴/۳۵۴، ۳۵۵، ۳۸۱) (صحیح)
۲۱۱۹- طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ ﷺ نے وصیت کی تھی ؟ انہوں نے کہا: نہیں ۱؎ میں نے پوچھا : پھر وصیت کیسے لکھی گئی اور آپ نے لوگوں کوکس چیز کا حکم دیا ؟ ابن ابی اوفیٰ نے کہا: آپ نے کتاب اللہ پرعمل پیراہونے کی وصیت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف مالک بن مغول کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ یہ سوال کسی خاص وصیت کے تعلق سے ہے اسی لیے نفی میں جواب دیا، اس سے مطلق وصیت کی نفی مقصود نہیں ہے، بلکہ اس نفی کا تعلق مالی وصیت یا علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کسی مخصوص وصیت سے ہے، ورنہ آپ ﷺ نے وصیت کی جیسا کہ خود ابن ابی اوفیٰ نے بیان کیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ لاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ
۵-باب: وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں​


2120- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَهَنَّادٌ قَالا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَوْلاَنِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ فِي خُطْبَتِهِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ: "إِنَّ اللهَ قَدْ أَعْطَى لِكُلِّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللهِ، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ التَّابِعَةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لاَ تُنْفِقُ امْرَأَةٌ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا إِلاَّ بِإِذْنِ زَوْجِهَا"، قِيلَ: يَارَسُولَ اللهِ! وَلاَ الطَّعَامَ؟ قَالَ: "ذَلِكَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا"، ثُمَّ قَالَ: "الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ وَأَنَسٍ وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْرُوِيَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَرِوَايَةُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ عَنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ وَأَهْلِ الْحِجَازِ لَيْسَ بِذَلِكَ فِيمَا تَفَرَّدَ بِهِ لأَنَّهُ رَوَى عَنْهُمْ مَنَاكِيرَ وَرِوَايَتُهُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ أَصَحُّ، هَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ. قَال: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ أَصْلَحُ حَدِيثًا مِنْ بَقِيَّةَ، وَلِبَقِيَّةَ أَحَادِيثُ مَنَاكِيرُ عَنْ الثِّقَاتِ و سَمِعْت عَبْدَ اللهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَانِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ زَكَرِيَّا بْنَ عَدِيٍّ يَقُولُ: قَالَ أَبُوإِسْحَاقَ الْفَزَارِيُّ: خُذُوا عَنْ بَقِيَّةَ مَا حَدَّثَ عَنِ الثِّقَاتِ وَلاَ تَأْخُذُوا عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ مَا حَدَّثَ عَنِ الثِّقَاتِ وَلاَ عَنْ غَيْرِ الثِّقَاتِ.
* تخريج: د/الوصایا ۶ (۲۸۷۰)، والبیوع ۹۰ (۳۵۶۵)، ق/الوصایا ۶ (۲۷۱۳) (تحفۃ الأشراف: ۴۸۸۲)، وحم (۵/۲۶۷) (صحیح)
۲۱۲۰- ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:'' اللہ تعالیٰ نے ہرحق والے کو اس کا حق دے دیاہے، لہذا کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ، لڑکا (ولدزنا) بستر والے کی طرف منسوب ہوگا(نہ کہ زانی کی طرف)، اور زانی رجم کامستحق ہے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی دوسری طرف نسبت کی یا اپنے موالی کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیااس پرقیامت کے دن تک جاری رہنے والی لعنت ہو، کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے''، عرض کیاگیا: اللہ کے رسول! کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا:''یہ ہمارے مالوں میں سب سے بہتر ہے''۔ (یعنی اس کی زیادہ حفاظت ہونی چاہیے) پھر آپ نے فرمایا:'' عاریۃ (منگنی) لی ہوئی چیز واپس لوٹائی جائے گی، منیحہ ۱؎ واپس کی جائے گی ، قرض اداکیاجائے گا، اور ضامن ذمہ دار ہے '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابوامامہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے، ۳- اسماعیل بن عیاش کی وہ روایت جسے وہ اہل عراق اور اہل شام سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، قوی نہیں ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے ان سے منکر حدیثیں روایت کی ہیں، اہل شام سے ان کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح محمدبن اسماعیل بخاری نے کہا:۴- احمد بن حنبل کہتے ہیں: اسماعیل بن عیاش حدیث روایت کرنے کے اعتبار سے بقیہ سے زیادہ صحیح ہیں، بقیہ نے ثقہ راویوں سے بہت سی منکر حدیثیں روایت کی ہیں، ۵- ابواسحاق فزاری کہتے ہیں: ثقہ راویوں کے سے بقیہ جو حدیثیں بیان کریں اسے لے لو اور اسماعیل بن عیاش کی حدیثیں مت لو، خواہ وہ ثقہ سے روایت کریں یا غیر ثقہ سے،۶- اس باب میں عمرو بن خارجہ اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : وہ دودھ والاجانور جوکسی کو صرف دودھ سے فائدہ اٹھانے کے لیے دیاجاتاہے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی ضامن نے جس چیز کی ذمہ داری لی ہے، اس کا ذمہ داروہ خود ہوگا۔


2121- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَانِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَطَبَ عَلَى نَاقَتِهِ، وَأَنَا تَحْتَ جِرَانِهَا، وَهِيَ تَقْصَعُ بِجِرَّتِهَا وَإِنَّ لُعَابَهَا يَسِيلُ بَيْنَ كَتِفَيَّ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "إِنَّ اللهَ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، وَلاَ وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ، وَالْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَمَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ رَغْبَةً عَنْهُمْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ، لاَ يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً". قَالَ: و سَمِعْت أَحْمَدَ ابْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: لاَ أُبَالِي بِحَدِيثِ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ فَوَثَّقَهُ، وَقَالَ: إِنَّمَا يَتَكَلَّمُ فِيهِ ابْنُ عَوْنٍ، ثُمَّ رَوَى ابْنُ عَوْنٍ عَنْ هِلاَلِ ابْنِ أَبِي زَيْنَبَ عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/الوصایا ۵ (۳۶۷۱)، ق/الوصایا ۶ (۲۷۱۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۷۳۱)، وحم (۴/۱۸۶)، ۱۸۷، ۲۳۸، ۲۳۹) (صحیح)
۲۱۲۱- عمر وبن خارجہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : نبی اکرمﷺ اپنی اونٹنی پرخطبہ دے رہے تھے، اس وقت میں اس کی گردن کے نیچے تھا، وہ جگالی کررہی تھی اور اس کا لعاب میرے کندھوں کے درمیان بہہ رہاتھا، آپ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے ہرحق والے کا حق دے دیاہے،کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں، لڑکا (ولد زنا) بستر والے کی طرف منسوب ہوگا، اور زانی رجم کا مستحق ہے، جوشخص اپنے باپ کے علاوہ کی طرف نسبت کرے یا(غلام) اپنے مالکوں کے علاوہ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے انہیں ناپسند کرتے ہوئے اس پر اللہ کی لعنت ہے، اللہ ایسے شخص کا نہ نفلی عبادت قبول کرے گا نہ فریضہ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- احمدبن حنبل کہتے ہیں: میں شہر بن حوشب کی حدیث کی پرواہ نہیں کرتا ہوں،۳- امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل سے شہربن حوشب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے توثیق کی اور کہا: ان کے بارے میں ابن عون نے کلام کیاہے، پھر ابن عون نے خود ہلال بن ابوزینب کے واسطہ سے شہر بن حوشب سے روایت کی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6-بَاب مَا جَاءَ يُبْدَأُ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ
۶-باب : قرض کی ادا کرنا وصیت پر مقدم ہے​


2122- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَضَى بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَأَنْتُمْ تَقْرَئونَ الْوَصِيَّةَ قَبْلَ الدَّيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يُبْدَأُ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۰۹۴ (حسن)
۲۱۲۲- علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے وصیت(کے نفاذ) سے پہلے قرض کی ادائیگی کا فیصلہ فرمایا، جب کہ تم(قرآن میں) قرض سے پہلے وصیت پڑھتے ہو ۱ ؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عام اہل علم کا اسی پرعمل ہے کہ وصیت سے پہلے قرض ادا کیا جائے گا۔
وضاحت ۱؎ : اس سے اشارہ قرآن کریم کی اس آیت {من بعد وصية يوصى بها أو دين} (النساء: ۱۲) کی طرف ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
7-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَتَصَدَّقُ أَوْ يَعْتِقُ عِنْدَ الْمَوْتِ
۷-باب: مرتے وقت صدقہ کرنے والے اور غلام آزاد کرنے والے کابیان​


2123- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ الطَّائِيِّ، قَالَ: أَوْصَى إِلَيَّ أَخِي بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ، فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَائِ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَخِي أَوْصَى إِلَيَّ بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ، فَأَيْنَ تَرَى لِي وَضْعَهُ فِي الْفُقَرَائِ أَوِ الْمَسَاكِينِ أَوِالْمُجَاهِدِينَ فِي سَبِيلِ اللهِ؟ فَقَالَ: أَمَّا أَنَا فَلَوْ كُنْتُ لَمْ أَعْدِلْ بِالْمُجَاهِدِينَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: "مَثَلُ الَّذِي يَعْتِقُ عِنْدَ الْمَوْتِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي إِذَا شَبِعَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/العتق ۱۵ (۳۹۶۸)، ن/الوصایا ۱ (۳۶۱۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۹۷۰)، وحم (۵/۱۹۷)، (۶/۴۴۷) (ضعیف)
(سندمیں ابوحبیبہ لین الحدیث ہیں)
۲۱۲۳- ابوحبیبہ طائی کہتے ہیں:میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی، میں نے ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا: میرے بھائی نے اپنے مال کے ایک حصہ کی میرے لیے وصیت کی ہے، آپ کی کیارائے ہے؟ میں اسے کہاں خرچ کروں، فقراء میں،مسکینوں میں یا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں میں؟ انہوں نے کہا: میری بات یہ ہے کہ اگر تمہاری جگہ میں ہوتا تو مجاہدین کے برابر کسی کونہ سمجھتا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سناہے:''جوشخص مرتے وقت غلام آزاد کرتاہے اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو آسودہ ہونے کے بعد ہدیہ کرتاہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


2124- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ بَرِيرَةَ جَاءَتْ تَسْتَعِينُ عَائِشَةَ فِي كِتَابَتِهَا وَلَمْ تَكُنْ قَضَتْ مِنْ كِتَابَتِهَا شَيْئًا، فَقَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: ارْجِعِي إِلَى أَهْلِكِ فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ أَقْضِيَ عَنْكِ كِتَابَتَكِ وَيَكُونَ لِي وَلاَؤُكِ فَعَلْتُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ بَرِيرَةُ لأَهْلِهَا، فَأَبَوْا، وَقَالُوا: إِنْ شَائَتْ أَنْ تَحْتَسِبَ عَلَيْكِ وَيَكُونَ لَنَا وَلاَؤُكِ فَلْتَفْعَلْ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللهِ: "ابْتَاعِي فَأَعْتِقِي فَإِنَّمَا الْوَلاَئُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: "مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا لَيْسَتْ فِي كِتَابِ اللهِ؟ مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللهِ فَلَيْسَ لَهُ وَإِنْ اشْتَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَائِشَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْوَلاَئَ لِمَنْ أَعْتَقَ.
* تخريج: خ/الصلاۃ ۷۰ (۴۵۶)، والزکاۃ ۶۱ (۱۴۹۳)، والبیوع ۶۷ (۹۲۱۵۵، ۷۳ (۲۱۶۸)، والعتق ۱۰ (۲۵۳۶)، والمکاتب ۱ (۲۵۶۰)، و ۲ (۲۵۶۱)، و ۳ (۲۵۶۳)، و۴ (۲۵۶۴)، و ۵ (۲۵۶۵)، والھبۃ ۷ (۲۵۷۸)، والشروط ۷ (۲۷۱۷)، و۱۰ (۲۷۲۶)، و۱۳ (۲۷۲۹)، و ۱۷ (۲۷۳۵)، والطلاق ۱۷ (۵۲۸۴)، والأطعمۃ: ۳۱ (۵۴۳۰)، والکفارات ۸ (۶۷۱۷)، والفرائض ۲۰ (۶۷۵۴)، و ۲۲ (۶۷۵۸)، م/العتق ۲ (۱۵۰۴)، د/الفرائض ۱۲ (۲۹۱۵، ۲۹۱۶)، والعتق ۲ (۳۹۲۹)، ن/الزکاۃ ۹۹ (۲۶۱۵)، والطلاق ۲۹ (۳۴۷۸)، و۳۰ (۳۴۷۹، ۳۴۸۰)، و۳۱ (۳۴۸۱، ۳۴۸۴)، والبیوع ۷۸ (۴۶۴۶-۴۶۴۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۰)، وحم (۶/۴۲، ۴۶، ۱۷۰، ۱۷۲، ۱۷۵) (صحیح)
۲۱۲۴- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : بریرہ اپنے زرکتابت کے بارے میں ان سے تعاون مانگنے آئیں اور زرکتابت میں سے کچھ نہیں اداکیاتھا۔ ام المومنین عائشہ نے ان سے کہا: تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ اگر وہ پسند کریں کہ میں تمہاری زرکتابت اداکردوں اورتمہاری ولاء (میراث)کا حق مجھے حاصل ہو، تو میں اداکردوں گی۔بریرہ نے اپنے گھروالوں سے اس کا ذکر کیا،تو انہوں نے انکارکردیا اورکہا: اگر وہ چاہتی ہوں کہ تمہیں آزاد کرکے ثواب حاصل کریں اور تمہارا حق ولاء (میراث)ہمارے لیے ہو تو وہ تمہیں آزاد کردیں،ام المومنین عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیاتو آپ ﷺ نے ان سے فرمایا:''اسے خریدو اور آزاد کردو اس لیے کہ حق ولاء(میراث) اسی کو حاصل ہے جو آزاد کرے'' پھر رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور فرمایا:'' لوگوں کوکیا ہوگیا ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں موجود نہیں؟ جو شخص کوئی ایسی شرط لگائے جو اللہ کی کتاب(قرآن) میں موجود نہیں تو وہ اس کا مستحق نہیں ہوگا، اگرچہ وہ سوبار شرط لگائے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲- عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے۔ ۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آزاد کرنے والے ہی کو حق ولاء(میراث) حاصل ہے۔
* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

29-كِتَاب الْوَلاَئِ وَالْهِبَةِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۲۹- کتاب: ولاء اور ہبہ کے احکام ومسائل


1-بَاب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَلاَئَ لِمَنْ أَعْتَقَ
۱-باب: ولاء(میراث) کا حق آزاد کرنے والے کو حاصل ہے​


2125- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَانِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ فَاشْتَرَطُوا الْوَلاَئَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "الْوَلاَئُ لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ أَوْ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ، وکذا رقم: ۱۲۵۶ (تحفۃ الأشراف: ۱۵۹۹۲) (صحیح)
۲۱۲۵- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ کو خرید نے (اور آزاد کرنے ) کا ارادہ کیاتو بریرہ کے گھروالوں نے ولاء (میراث) کی شرط رکھی، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' ولاء (میراث)کا حق اسی کو حاصل ہے جوقیمت اداکرے یا آزاد کرنے کی نعمت کا مالک ہو ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس باب میں ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پرعمل ہے۔
وضاحت ۱؎ : ولاء سے مراد وہ حقوق ہیں جو آزاد کرنے والے کو آزاد کئے ہوئے کی نسبت سے حاصل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ بَيْعِ الْوَلاَئِ وَهِبَتِهِ
۲-باب: ولاء کے بیچنے اور اسے ہبہ کرنے کی ممانعت کابیان​


2126- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ دِينَارٍ سَمِعَ عَبْدَاللهِ بْنَ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلاَئِ وَعَنْ هِبَتِهِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلاَئِ وَعَنْ هِبَتِهِ. وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، وَيُرْوَى عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: لَوَدِدْتُ أَنَّ عَبْدَاللهِ ابْنَ دِينَارٍ حِينَ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ أَذِنَ لِي حَتَّى كُنْتُ أَقُومُ إِلَيْهِ فَأُقَبِّلُ رَأْسَهُ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَهُوَ وَهْمٌ، وَهِمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، وَالصَّحِيحُ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ عُبَيْدِاللهِ بْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَتَفَرَّدَ عَبْدُاللهِ بْنُ دِينَارٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۱۲۳۶ (صحیح)
۲۱۲۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے : رسول اللہ ﷺ نے ولاء کے بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم اسے صرف عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے ابن عمر کی روایت سے جانتے ہیں، اور وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپ نے ولاء بیچنے اور اسے ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ شعبہ ، سفیان ثوری اور مالک بن انس نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن دینار سے روایت ہے۔ شعبہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میری خواہش تھی کہ عبداللہ بن دینار اس حدیث کو بیان کرتے وقت مجھے اجازت دے دیتے اور میں کھڑا ہوکر ان کا سرچوم لیتا، ۳- یحییٰ بن سلیم نے اس حدیث کی روایت کرتے وقت سندیوں بیان کی ہے ''عن عبيد الله بن عمر، عن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي ﷺ'' لیکن اس سند میں وہم ہے اور یہ وہم یحییٰ بن سلیم کی جانب سے ہواہے، صحیح سندیوں ہے ''عن عبيدالله بن عمر، عن عبدالله بن دينار، عن ابن عمر،عن النبي ﷺ'' ۱؎ عبیدا للہ بن عمر سے اسی طرح کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: عبیداللہ بن دینار اس حدیث کی روایت کرنے میں منفرد ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی نافع کی جگہ عبداللہ بن دینار کاواسطہ صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ أَوِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ
۳-باب: آزاد کرنے والے کے علاوہ دوسرے کومالک بنانے اور دوسرے کے باپ کی طرف نسبت کرنے والے کابیان​


2127- حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيٌّ، فَقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عِنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُهُ إِلاَّ كِتَابَ اللهِ وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ صَحِيفَةٌ فِيهَا أَسْنَانُ الإِبِلِ وَأَشْيَائٌ مِنَ الْجِرَاحَاتِ فَقَدْ كَذَبَ، وَقَالَ فِيهَا: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لاَ يَقْبَلُ اللهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا وَلاَ عَدْلاً، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ أَوْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لاَيُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ عَلِيٍّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: خ/العلم ۳۹ (۱۱۱)، وفضائل المدینۃ ۱ (۱۸۶۷)، والجہاد ۱۷۱ (۳۰۴۷)، والجزیۃ ۱۰ (۳۱۷۲)، والفرائض ۲۱ (۶۷۵۵)، والدیات ۲۴ (۶۹۰۳)، والإعتصام ۵ (۷۳۰۰)، م/الحج ۸۵ (۱۳۷۰)، د/المناسک ۹۹ (۲۰۳۴)، ن/القسامۃ ۹، ۱۰ (۴۷۴۸)، ق/الدیات ۲۱ (۲۶۵۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۳۱۷)، وحم (۱/۱۲۲، ۱۲۶، ۱۵۱)، ودي/الدیات ۵ (۲۴۰۱)، وانظر أیضا ماتقدم برقم : ۱۴۱۲ (صحیح)
۲۱۲۷- یزیدبن شریک تیمی کہتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا اور کہا: جو کہتاہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور اس صحیفہ - جس کے اندر اونٹوں کی عمر اور جراحات(زخموں) کے احکام ہیں- کے علاوہ کوئی اور چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں تو وہ جھوٹ کہتاہے ۱؎ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' عیر سے لے کر ثور تک مدینہ حرم ہے ۲؎ جو شخص اس کے اندر کوئی بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے ، اس پر اللہ، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس آدمی کی نہ کوئی فرض عبادت قبول کرے گا اور نہ نفل اور جوشخص دوسرے کے باپ کی طرف اپنی نسبت کرے یا اپنے آزاد کرنے والے کے علاوہ کو اپنا مالک بنائے اس کے اوپر اللہ ، اس کے فرشتے اورتمام لوگوں کی لعنت ہو، اس کی نہ فرض عبادت قبول ہوگی اور نہ نفل، مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی پناہ ایک ہے ان کا معمولی شخص بھی اس پناہ کا مالک ہے '' ۳؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- بعض لوگوں نے ''عن الأعمش، عن إبراهيم التيمي، عن الحارث بن سويد، عن علي'' کی سندسے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۳- یہ حدیث کئی سندوں سے علی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : علی رضی اللہ عنہ کی اس تصریح سے روافض اور شیعہ کے اس قول کی واضح طورپر تردید ہورہی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے علی رضی اللہ عنہ کو کچھ ایسی خاص باتوں کی وصیت کی تھی جن کا تعلق دین وشریعت کے اسرار و رموز سے ہے، کیوں کہ صحیح حدیث میں یہ صراحت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''ما عندنا شئ إلا كتاب الله وهذه الصحيفة عن النبي ﷺ''۔
وضاحت ۲؎ : عیر اور ثور دوپہاڑہیں: ثور جبل احد کے پیچھے ایک چھوٹا پہاڑ ہے۔جب کہ عیرذوالحلیفہ (ابیارعلی) کے پاس ہے ، اور یہ دونوں پہاڑمدینہ کے شمالاً جنوباً ہیں، اورمدینہ کے شرقاً غرباً کالے پتھروں والے دومیدان ہیں، مملکت سعودیہ نے پوری نشان دہی کرکے مدینہ منورہ کے حرم کی حدبندی محراب نمابُرجیوں کے ذریعے کردی ہے ،جزاهم الله خيراً .
وضاحت ۳؎ : یعنی اس کی دی ہوئی پناہ بھی قابل احترام ہوگی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4-بَاب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَنْتَفِي مِنْ وَلَدِهِ
۴-باب: باپ اپنے بچے کا انکار کردے تو اس کے حکم کابیان​


2128- حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلاَئِ بْنِ عَبْدِالْجَبَّارِ الْعَطَّارُ وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ الْمَخْزُومِيُّ قَالاَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلاَمًا أَسْوَدَ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: "فَمَا أَلْوَانُهَا؟" قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ: "فَهَلْ فِيهَا أَوْرَقُ؟" قَالَ: نَعَمْ، إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا. قَالَ: "أَنَّى أَتَاهَا ذَلِكَ؟" قَالَ: لَعَلَّ عِرْقًا نَزَعَهَا. قَالَ: "فَهَذَا لَعَلَّ عِرْقًا نَزَعَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الطلاق ۲۶ (۵۳۰۵)، والحدود ۴۱ (۶۸۴۷)، والإعتصام ۱۲ (۷۳۱۴)، م/اللعان ۱ (۱۵۰۰)، د/الطلاق ۲۸ (۲۲۶۰)، ن/الطلاق ۴۶ (۳۵۰۹۰)، ق/النکاح ۵۸ (۲۲۰۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۳۱۲۹)، حم (۲/۲۳۴، ۲۳۹، ۴۰۹) (صحیح)
۲۱۲۸- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: بنی فزارہ کے ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آکرعرض کیا: اللہ کے رسول! میری بیوی سے ایک کالا بچہ پیدا ہوا ہے؟ نبی اکرم ﷺ نے اس سے پوچھا:'' تمہارے پاس اونٹ ہیں؟'' اس نے کہا: ہاں، آپ نے پوچھا:'' وہ کس رنگ کے ہیں؟'' اس نے کہا: سرخ ۔ آپ نے پوچھا:'' کیا اس میں کوئی مٹمیلے رنگ کابھی ہے؟'' اس نے کہا: ہاں، اس میں ایک خاکستری رنگ کا بھی ہے۔ آپ نے پوچھا: ''وہ کہاں سے آیا؟'' اس نے کہا: شایدوہ کوئی خاندانی رگ کھینچ لایاہوگا ۱؎ ، آپ نے فرمایا:'' اس لڑکے نے بھی شاید کوئی خاندانی رگ کھینچ لا ئی ہواور کالے رنگ کاہو۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی اس کے باپ دادا میں سے کوئی اس رنگ کا ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5-بَاب مَا جَاءَ فِي الْقَافَةِ
۵-باب: نسب میں قیافہ شناسی کے حکم کابیان​


2129- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَيْهَا مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ فَقَالَ: "أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا نَظَرَ آنِفًا إِلَى زَيْدِ ابْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَقَالَ: هَذِهِ الأَقْدَامُ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَزَادَ فِيهِ: أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ مُجَزِّزًا مَرَّ عَلَى زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَأُسَامَةَ ابْنِ زَيْدٍ قَدْغَطَّيَا رُئُوسَهُمَا وَبَدَتْ أَقْدَامُهُمَا، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ الأَقْدَامَ بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۳ (۳۵۵۵)، وفضائل الصحابۃ ۱۷ (۳۷۳۱)، والفرائض ۳۱ (۶۷۷۰)، م/الرضاع ۱۱ (۱۴۵۹)، د/الطلاق ۳۱ (۲۲۶۷، ۲۲۶۸)، ن/الطلاق ۵۱ (۳۵۲۳، ۳۵۲۴)، ق/الأحکام ۲۱ (۲۳۴۹) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۵۸۱)، حم (۶/۲۲۶۸۲) (صحیح)
2129/م- وَهَكَذَا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَانِ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ احْتَجَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِهَذَا الْحَدِيثِ فِي إِقَامَةِ أَمْرِ الْقَافَةِ.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۲۱۲۹- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: نبی اکرم ﷺ خوشی خوشی ان کے پاس تشریف لائے، آپ کے چہرے کے خطوط چمک رہے تھے، آپ ﷺنے فرمایا:'' تم نے دیکھانہیں ، ابھی ابھی مجزز نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید کو دیکھ کر کہاہے کہ یہ قدم ( یعنی ان کارشتہ) ایک دوسرے سے ہیں ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- ابن عیینہ نے یہ حدیث ''عن الزهري، عن عروة، عن عائشة'' کی سند سے روایت کی ہے۔ اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے، آپ نے فرمایا:'' کیا تم نے نہیں دیکھاکہ مجزز ، زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا ، اس وقت وہ دونوں اپنا سر ڈھانپے ہوئے تھے اور ان کے پیر کھلے ہوئے تھے تواس نے کہا: ان قدموں (کارشتہ) ایک دوسرے سے ہیں، ۳- اسی طرح ہم سے سعید بن عبدالرحمن اور کئی لوگوں نے یہ حدیث '' عن سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة'' کی سند سے بیان کی ہے، یہ حدیث حسن صحیح ہے،۴- بعض اہل علم نے اس حدیث سے قیافہ کے معتبر ہونے پر استدلال کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اہل جاہلیت زید اور ان کے بیٹے اسامہ کے نسب میں طعنہ زنی کرتے تھے کیوں کہ زید گورے تھے جب کہ اسامہ کا لے اور سیاہ رنگ کے تھے، جب مجزز جیسے قیافہ شناس نے دونوں کے پیر دیکھ کر کہہ دیا کہ ان کا آپس میں نسب ثابت ہے تو آپ ﷺ بہت خوش ہوئے، کیوں کہ طعنہ زنی کرنے والوں کی جن کے نزدیک قیافہ شناسی معتبر تھی اس قیافہ شناس کی بات سے تکذیب ہوگئی، اور ان دونوں کے نسب کی تصدیق ہوگئی، یہ صرف مشرکین کے عرف سے اس طعنہ کی تردید کی وجہ سے تھا، ورنہ آپ ﷺ بذریعہ وحی اس حقیقت سے واقف تھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
6-بَاب فِي حَثِّ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى التَّهَادِي
۶-باب: ہدیہ دینے پر نبی اکرم ﷺ کی ترغیب کابیان​


2130- حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَوَائٍ، حَدَّثَنَا أَبُومَعْشَرٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "تَهَادَوْا فَإِنَّ الْهَدِيَّةَ تُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ وَلاَتَحْقِرَنَّ جَارَةٌ لِجَارَتِهَا وَلَوْ شِقَّ فِرْسِنِ شَاةٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو مَعْشَرٍ اسْمُهُ نَجِيحٌ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۰۷۲) (ضعیف)
(سندمیں ابومعشر سندی ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کا آخری ٹکڑا ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے صحیحین میں مروی ہے، دیکھیے: خ/الأدب ۳۰ (۶۰۱۷)، م/الزکاۃ ۳۰ (۱۰۳۰)
۲۱۳۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''تم لوگ ایک دوسرے کو ہدیہ دیاکرو، اس لیے کہ ہدیہ دل کی کدورت کو دور کرتاہے، کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہدیہ کوحقیر نہ سمجھے اگرچہ وہ بکری کے کھرکا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- ابومعشرکانام نجیح ہے وہ بنی ہاشم کے (آزاد کردہ) غلام ہیں، ان کے حافظے کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان کے بارے میں کلام کیاہے۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہواکہ ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجنا چاہیے کیوں اس سے آپس میں دلی محبت اور قلبی لگاؤ میں اضافہ ہوتاہے، یہ بھی معلوم ہواکہ ہدیہ خوش دلی سے قبول کرنا چاہیے، اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ ، بلکہ وہ ہدیہ جو مقدار میں کم ہو زیادہ بہتر ہے کیوں کہ اس میں ہدیہ بھیجنے والے کو زیادہ تکلف نہیں کرنا پڑتا۔
 
Top