• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
23-باب
۲۳- باب​


2922- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُو الْعَلاَئِ الْخَفَّافُ، حَدَّثَنِي نَافِعُ بْنُ أَبِي نَافِعٍ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ وَقَرَأَ ثَلاَثَ آيَاتٍ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْحَشْرِ، وَكَّلَ اللَّهُ بِهِ سَبْعِينَ أَلْفَ مَلَكٍ يُصَلُّونَ عَلَيْهِ حَتَّى يُمْسِيَ وَإِنْ مَاتَ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ مَاتَ شَهِيدًا، وَمَنْ قَالَهَا حِينَ يُمْسِي كَانَ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۴۷۸) (ضعیف جدا )
(سندمیں موجود نافع بن ابی نافع دراصل نفیع ابوداود الاعمی ہے، جو متروک ہے، بلکہ ابن معین نے تکذیب کی ہے،ملاحظہ ہو تہذیب التہذیب)
۲۹۲۲- معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' جو شخص صبح کے وقت ''أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم'' تین بار پڑھے، اور تین بار سورہ حشر کی آخری تین آیتیں پڑھے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے مغفرت مانگنے کے لیے سترہزار فرشتے لگادیتاہے جوشام تک یہی کام کرتے ہیں۔اگر وہ ایسے دن میں مرجاتاہے توشہید ہوکر مرتاہے، اور جوشخص ان کلمات کو شام کے وقت کہے گاوہ بھی اسی درجہ میں ہوگا ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
24-بَاب مَا جَاءَ كَيْفَ كَانَتْ قِرَائَةُ النَّبِيِّ ﷺ
۲۴-باب: نبی اکرمﷺ کی قرأت کیسی ہوتی تھی؟​


2923- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ ﷺ عَنْ قِرَائَةِ النَّبِيِّ ﷺ، وَصَلاَتِهِ فَقَالَتْ: مَا لَكُمْ وَصَلاَتَهُ كَانَ يُصَلِّي، ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى، ثُمَّ يُصَلِّي قَدْرَ مَا نَامَ، ثُمَّ يَنَامُ قَدْرَ مَا صَلَّى حَتَّى يُصْبِحَ، ثُمَّ نَعَتَتْ قِرَائَتَهُ؛ فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَائَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرْفًا. قَالَ أَبُوعِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَقَدْ رَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يُقَطِّعُ قِرَائَتَهُ وَحَدِيثُ لَيْثٍ أَصَحُّ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۳۵۵ (۱۴۶۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۲۲۶) (ضعیف)
(سندمیں یعلی بن مملک ضعیف ہیں، مگر شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ حدیث ثابت ہے، دیکھیے آگے حدیث رقم ۲۹۲۷)
۲۹۲۳- یعلی بن مملک سے روایت ہے، انہوں نے ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ اور آپ کی قرأت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا :تمہارا اورآپ کی صلاۃ کا کیاجوڑ ؟ آپ صلاۃ پڑھتے تھے پھر اتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر صلاۃ پڑھے ہوتے، پھر صلاۃ پڑھتے تھے اسی قدر جتنی دیر سوئے ہوئے ہوتے ، پھراتنی دیر سوتے تھے جتنی دیر صلاۃ پڑھے ہوتے۔یہاں تک کہ آپ صبح کرتے، پھر انہوں نے آپ کے قرأت کی کیفیت بیان کی اور انہوں نے اس کیفیت کو واضح طورپر ایک ایک حرف حرف کرکے بیان کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے ،۲- اسے ہم صرف لیث بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے یعلی بن مملک کے واسطہ سے ام سلمہ سے روایت کی،۳- ابن جریج نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے اور ابن ابی ملیکہ نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی قرأت کا ہر حرف جداجدا ہوتاتھا، ۴- لیث کی حدیث (ابن جریج کی حدیث سے)زیادہ صحیح ہے۔


2924- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ مُعَاوِيةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَيْسٍ -هُوَ رَجُلٌ بَصْرِيٌّ- قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَيْفَ كَانَ يُوتِرُ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ أَوْ مِنْ آخِرِهِ؛ فَقَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَصْنَعُ رُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ أَوَّلِ اللَّيْلِ، وَرُبَّمَا أَوْتَرَ مِنْ آخِرِهِ؛ فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الأَمْرِ سَعَةً؛ فَقُلْتُ: كَيْفَ كَانَتْ قِرَائَتُهُ؟ أَكَانَ يُسِرُّ بِالْقِرَائَةِ أَمْ يَجْهَرُ، قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ قَدْ كَانَ رُبَّمَا أَسَرَّ، وَرُبَّمَا جَهَرَ قَالَ: فَقُلْتُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الأَمْرِ سَعَةً، قُلْتُ: فَكَيْفَ كَانَ يَصْنَعُ فِي الْجَنَابَةِ؟ أَكَانَ يَغْتَسِلُ قَبْلَ أَنْ يَنَامَ أَوْ يَنَامُ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ؟ قَالَتْ: كُلُّ ذَلِكَ قَدْ كَانَ يَفْعَلُ فَرُبَّمَا اغْتَسَلَ فَنَامَ، وَرُبَّمَا تَوَضَّأَ فَنَامَ، قُلْتُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ فِي الأَمْرِ سَعَةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۴۴۹ (صحیح)
۲۹۲۴- عبداللہ بن ابی قیس بصری کہتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی وتر کے بارے میں پوچھا کہ آپ وتر رات کے شروع حصے میں پڑھتے تھے یاآخری حصے میں؟ انہوں نے کہا :آپ دونوں ہی طرح سے کرتے تھے۔ کبھی تو آپ شروع رات میں وتر پڑھ لیتے تھے اور کبھی آخر رات میں وتر پڑھتے تھے۔ میں نے کہا: الحمد للہ! تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین کے معاملے میں وسعت وکشادگی رکھی، پھر میں نے پوچھا: آپﷺکی قرأت کیسی ہوتی تھی؟ کیا آپ دھیرے پڑھتے تھے یا بلند آوازسے؟ کہا: آپﷺ یہ سب کرتے تھے۔ کبھی تو دھیرے پڑھتے تھے اور کبھی آپ زور سے میں نے کہا : الحمد للہ ، تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے دین میں وسعت وکشادگی رکھی۔ پھر میں نے کہا : آپ جب جنبی ہوجاتے تھے تو کیاکرتے تھے؟ کیاسونے سے پہلے غسل کرلیتے تھے یا غسل کیے بغیر سوجاتے تھے؟ کہا : آپ ﷺ یہ تمام ہی کرتے تھے ، کبھی تو آپ غسل کرلیتے تھے پھر سوتے، اور کبھی وضو کرکے سوجاتے ، میں نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے دینی کام میں وسعت وکشادگی رکھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
25-باب
۲۵-باب​


2925- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَعْرِضُ نَفْسَهُ بِالْمَوْقِفِ؛ فَقَالَ: أَلاَ رَجُلٌ يَحْمِلْنِي إِلَى قَوْمِهِ؛ فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلاَمَ رَبِّي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: د/السنۃ ۲۲ (۴۷۳۴)، ق/المقدمۃ ۱۳ (۲۰۱) (تحفۃ الأشراف: ۲۲۴۱) (صحیح)
۲۹۲۵- جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرمﷺ موقف (عرفات)میں اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتے تھے: ہے کوئی جومجھے اپنی قوم میں لے چلے،کیوں کہ قریش نے مجھے اپنے رب کے کلام (قرآن) کی تبلیغ سے روک دیا ہے۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
26-باب
۲۶-باب​


2926- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ابْنِ أَبِي يَزِيدَ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ وَذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَاأُعْطِي السَّائِلِينَ، وَفَضْلُ كَلاَمِ اللَّهِ عَلَى سَائِرِ الْكَلاَمِ كَفَضْلِ اللَّهِ عَلَى خَلْقِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۱۶) (ضعیف)
(سندمیں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں)
۲۹۲۶- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ عزوجل فرماتاہے: جس کو قرآن نے میری یادنے مجھ سے سوال کرنے سے مشغول رکھا ۔ میں اسے اس سے زیادہ دوں گا جتنا میں مانگنے والوں کو دیتاہوں۔ اللہ کے کلام کی فضیلت دوسرے سارے کلام پرایسی ہے جیسے اللہ کی فضیلت اس کی اپنی ساری مخلوقات پرہے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207

44-كِتَاب الْقِرَائَاتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴۴-کتاب: قرآن کریم کی قرأت وتلاوت


1-بَاب فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ
۱-باب: سورہ فاتحہ کی قرأت کابیان​


2927- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُقَطِّعُ قِرَائَتَهُ يَقُولُ: {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ}، ثُمَّ يَقِفُ {الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}، ثُمَّ يَقِفُ وَكَانَ يَقْرَؤُهَا "مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَبِهِ يَقْرَأُ أَبُو عُبَيْدٍ وَيَخْتَارُهُ، وَهَكَذَا رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الأُمَوِيُّ وَغَيْرُهُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ لأَنَّ اللَّيْثَ ابْنَ سَعْدٍ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، عَنْ أُمِّ سَلمَةَ أَنَّهَا وَصَفَتْ قِرَائَةَ النَّبِيِّ ﷺ حَرْفًا حَرْفًا وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَصَحُّ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ وَكَانَ يَقْرَأُ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.
* تخريج: د/الحروف والقراء ت (۴۰۰۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۸۳) (صحیح)
۲۹۲۷- ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : رسول اللہ ﷺ ٹھہرٹھہرکر پڑھتے تھے، آپ : ''الحمد للہ رب العالمین '' پڑھتے ، پھر رک جاتے ، پھر'' الرحمن الرحیم'' پڑھتے پھررک جاتے، اور ''ملک یوم الدین'' پڑھتے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- ابوعبید بھی یہی پڑھتے تھے اور اسی کو پسند کرتے تھے ۲؎ ، ۳-یحییٰ بن سعید اموی اور ان کے سوا دوسرے لوگوں نے ابن جریج سے اورابن جریج نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے ام سلمہ سے اسی طرح روایت کی ہے، اس حدیث کی سندمتصل نہیں ہے، کیونکہ لیث بن سعد نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے ابن ابی ملیکہ نے یعلی بن مملک سے انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کی قرأت کی کیفیت ایک ایک حرف الگ کرکے بیان کی۔ لیث کی حدیث زیادہ صحیح ہے اور لیث کی حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپﷺ'' ملک یوم الدین'' پڑھتے تھے۔
وضاحت ۱؎ : رسول اکرمﷺیعنی''مالک یوم الدین''کی جگہ ''ملک یوم الدین ''پڑھتے تھے۔
وضاحت ۲؎ : یعنی:ابوعبیدقاسم بن سلام ''مالک یوم الدین'' کے بجائے ملک یوم الدین کوپڑھنا پسندکرتے تھے۔


2928- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ الرَّمْلِيُّ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَأُرَاهُ قَالَ: وَعُثْمَانَ كَانُوا يَقْرَئُونَ {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ}. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ هَذَا الشَّيْخِ أَيُّوبَ بْنِ سُوَيْدٍ الرَّمْلِيِّ وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا يَقْرَئُونَ {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ} وَرَوَى عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا يَقْرَئُونَ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۰) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ''ایوب بن محمد الرملی'' روایت میں غلطیاں کرجاتے تھے، اس روایت میں صحیح بات یہ ہے کہ یہ ''الزہري عن النبی ﷺ مرسلاً'' ہے جیسا کہ مولف نے وضاحت کی ہے، مگر دیگر سندوں سے یہ حدیث ثابت ہے)
۲۹۲۸- انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ ، ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما (راوی زہری کہتے ہیں کہ) اورمیرا خیال ہے کہ انس رضی اللہ عنہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کابھی نام لیا کہ یہ سب لوگ''مالك يوم الدين'' پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ،۲- ہم اسے صرف زہری کی روایت سے جسے وہ انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں صرف اس شیخ یعنی ایوب بن سوید رملی کی روایت سے ہی جانتے ہیں،۳- زہری کے بعض اصحاب (تلامذہ)نے یہ حدیث زہری سے(مرسلاً) روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر وعمر ''مالك يوم الدين'' پڑھتے تھے۔ اور عبدالرزاق نے معمر سے، معمر نے زہری سے اورزہری نے سعید بن مسیب سے (مرسلاً) روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور ابوبکر وعمر''مالك يوم الدين'' پڑھتے تھے، (یعنی: اس کو مرفوعاً صرف ایوب بن سویدہی نے روایت کیاہے، اوروہ ضعیف ہیں)۔


2929- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنُ بِالْعَيْنِ.
* تخريج: د/الحروف (۳۹۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۵۷۲) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ابوعلی بن یزیدمجہول راوی ہے)


2929/أ- حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَبُو عَلِيِّ بْنُ يَزِيدَ هُوَ أَخُو يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: تَفَرَّدَ ابْنُ الْمُبَارَكِ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، وَهَكَذَا قَرَأَ أَبُو عُبَيْدٍ وَالْعَيْنُ بِالْعَيْنِ اتِّبَاعًا لِهَذَا الْحَدِيثِ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد)
۲۹۲۹- انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھا : أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنُ ۱؎ بِالْعَيْنِ ۲؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ابوعلی بن یزید ، یونس بن یزید کے بھائی ہیں، ۳-محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اس حدیث کو یونس بن یزید سے روایت کرنے میں ابن مبارک منفرد (تنہا) ہیں،۴- اور ابوعبید(قاسم بن سلام)نے اس حدیث کی اتباع میں اس طرح (العین ُبالعینِ) پڑھاہے۔
۲۹۳۰/أ- ہم سے سویدبن نصر نے بیان کیا،وہ کہتے ہیں ہم سے عبداللہ بن مبارک نے یونس بن یزیدسے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: العینُ کی نون پرپیش کے ساتھ ، جبکہ یہ ''النفس''پر عطف ہے جس کاتقاضاہے کہ نون پربھی زبر (فتحہ) پڑھا جائے ۔
وضاحت ۲؎ : جان کے بدلے جان اورآنکھ کے بدلے آنکھ ہے (المائدۃ : ۴۵)۔


2930- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعُمَ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ هَلْ تَسْتَطِيعُ رَبَّكَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ، وَرِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، وَالأَفْرِيقِيُّ يُضَعَّفَانِ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۳۳۷) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں عبد الرحمن بن زیاد افریقی اور رشدین بن سعد ضعیف راوی ہیں)
۲۹۳۰- معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پڑھا ''هَلْ تَسْتَطِيعُ رَبَّكَ'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف رشدین کی حدیث سے جانتے ہیں،۲- اور اس کی سند قوی نہیں ہے ، رشدین بن سعد اور (عبدالرحمن بن زیاد بن انعم) افریقی دونوں حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں ۔
وضاحت ۱؎ : مشہورقراء ت یوں ہے {هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ}یعنی یاء تحتانیہ اورراء کے اوپرضمہ کے ساتھ ، پوری آیت اس طرح ہے {هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَن يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاء}(المائدۃ :۱۱۲)اوراس حدیث میں مذکورقراء ت کسائی کی ہے ، معنی ہوگا کیا تواپنے رب سے مانگنے کی طاقت رکھتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
2-باب وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ
۲-باب: سورہ ہودکی قرأت کابیان​


2931- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْرَؤُهَا إِنَّهُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ نَحْوَ هَذَا وَهُوَ حَدِيثُ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَ: وسَمِعْت عَبْدَ بْنَ حُمَيْدٍ يَقُولُ أَسْمَائُ بِنْتُ يَزِيدَ هِيَ أُمُّ سَلَمَةَ الأَنْصَارِيَّةُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: كِلاَ الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي. وَاحِدٌ وَقَدْ رَوَى شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ غَيْرَ حَدِيثٍ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ الأَنْصَارِيَّةِ وَهِيَ أَسْمَائُ بِنْتُ يَزِيدَ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوُ هَذَا.
* تخريج: د/الحروف (۳۹۸۲، و ۲۹۸۳) (تحفۃ الأشراف: ۱۸۱۶۳/الف)، وحم (۶/۴۵۹) (صحیح)
(سندمیں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم: ۲۸۰۹)
۲۹۳۱- ام سلمہ ۱؎ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ پڑھتے تھے'' إِنَّهُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ '' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اسی طرح کئی ایک رواۃنے ثابت بنانی سے اس حدیث کی روایت کی ہے،۲- یہ حدیث شہر بن حوشب سے اسماء بنت یزیدکے واسطہ سے بھی روایت کی گئی ہے،۳- میں نے عبدبن حمید کوکہتے ہوئے سناہے کہ اسماء بنت یزید ہی ام سلمہ انصاریہ ہیں،۴- یہ دونوں ہی حدیثیں میرے نزدیک ایک ہیں ،۵- شہر بن حوشب نے کئی حدیثیں ام سلمہ انصاریہ سے روایت کی ہیں، اور ام سلمہ انصاریہ یہی اسماء بنت یزید ہیں،۶- عائشہ سے مروی ہے انہوں نے بھی نبی اکرم ﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ ام المومنین ام سلمہ نہیں ہیں، بلکہ انصاریہ صحابیہ ہیں، لیکن مسنداحمدکی بعض روایات میں ''ام المومنین ''کا اضافہ سے مزی نے اس حدیث کو دونوں ترجمہ میں ذکرکیاہے۔
وضاحت ۲؎ : نوح علیہ السلام کے بیٹے نے غیرصالح عمل کیا۔


2932- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَحَبَّانُ بْنُ هِلاَلٍ قَالاَ: حَدَّثَنَا هَارُونُ النَّحْوِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَرَأَ هَذِهِ الآيَةَ إِنَّهُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
(سندمیں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحۃ رقم: ۲۸۰۹)
۲۹۳۲- ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت اس طرح پڑھی : إِنَّهُ عَمِلَ غَيْرَ صَالِحٍ.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
3-باب وَمِنْ سُورَةِ الْكَهْفِ
۳-باب: سورہ کہف میں ''من لدنی'' میں نون کو تشدید کے ساتھ پڑھنے کابیان​


2933- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا أَبُوالْجَارِيَةِ الْعَبْدِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَرَأَ: "قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا" مُثَقَّلَةً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَأُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ ثِقَةٌ وَأَبُوالْجَارِيَةِ الْعَبْدِيُّ شَيْخٌ مَجْهُولٌ وَلاَ نَعْرِفُ اسْمَهُ.
* تخريج: د/الحروف (۳۹۸۵) (تحفۃ الأشراف: ۴۲) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں ابوالجاریہ عبدی مجہول راوی ہے)
۲۹۳۳- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے پڑھا:قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا ۱؎ یعنی لدنی کونون ثقیلہ کے ساتھ پڑھا۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے ، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- امیہ بن خالد ثقہ ہیں ، ۳- ابوالجاریہ عبدی مجہول شیخ ہیں ، ہم ان کا نام نہیں جانتے ۔
وضاحت ۱؎ : مشہورقراء ت اسی طرح ہے یعنی نون پرتشدیدکے ساتھ لیکن نافع وغیرہ نے اس کو اس طرح پڑھا ہے ''مِنْ لَدُنِیْ''یعنی نون پر صرف سادہ زیرکے ساتھ بہرحال معنی ایک ہی ہے، یعنی یقیناآپ میری طرف سے عذرکوپہنچ گئے ۔(الکہف : ۷۶)


2934- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ مِصْدَعٍ أَبِي يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَرَأَ فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قِرَائَتُهُ وَيُرْوَى أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَعَمْرَو بْنَ الْعَاصِ اخْتَلَفَا فِي قِرَائَةِ هَذِهِ الآيَةِ وَارْتَفَعَا إِلَى كَعْبِ الأَحْبَارِ فِي ذَلِكَ فَلَوْ كَانَتْ عِنْدَهُ رِوَايَةٌ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ لاسْتَغْنَى بِرِوَايَتِهِ وَلَمْ يَحْتَجْ إِلَى كَعْبٍ.
* تخريج: د/الحروف (۳۹۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۴۳) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں سعد بن اوس سے غلطیاں ہوجایا کرتی تھیں، اور مصدع لین الحدیث ہیں، مگر اس حدیث کا متن دیگر سندوں سے ثابت ہے)
ٍ ۲۹۳۴- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے'' فِي عَيْنٍ حَمِئَةٍ''پڑھا ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں ،۲- صحیح ابن عباس کی قرأت ہے جو ان سے مروی ہے،۳- مروی ہے کہ ابن عباس اور عمر وبن العاص دونوں نے اس آیت کی قرأت میں آپس میں اختلاف کیا، اور اپنا معاملہ (فیصلہ کے لیے) کعب احبار کے پاس لے گئے۔ اگر ان کے پاس اس بارے میں نبی اکر م ﷺ سے کوئی روایت ہوتی تو وہ روایت ان کے لیے کافی ہوتی، اور کعب احبار کی طرف انہیں رجوع کی حاجت نہ رہتی ۔
وضاحت ۱؎ : یہی مشہورقراء ت ہے ، یعنی :'' حَمِئَةٍ '' حاء کے بعد بغیرالف کے ،جبکہ بعض قراء کی قراء ت ''حَامِئَةٍ '' یعنی حاء کے بعد الف غیرمہموزہ کے ساتھ ، بہرحال معنی ہے: اورسورج کوایک دلدل کے چشمے میں ڈوبتاپایا۔(الکہف : ۸۶)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
4-باب وَمِنْ سُورَةِ الرُّومِ
۴-باب: سورہ الروم کے شانِ نزول کابیان​


2935- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ الأَعْمَشِ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ظَهَرَتِ الرُّومُ عَلَى فَارِسَ؛ فَأَعْجَبَ ذَلِكَ الْمُؤْمِنِينَ؛ فَنَزَلَتْ: {الم غُلِبَتِ الرُّومُ-إِلَى قَوْلِهِ- يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ} [الروم: 4]، قَالَ: فَفَرِحَ الْمُؤْمِنُونَ بِظُهُورِ الرُّومِ عَلَى فَارِسَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَيُقْرَأُ غَلَبَتْ، وَ غُلِبَتْ يَقُولُ: كَانَتْ غُلِبَتْ، ثُمَّ غَلَبَتْ هَكَذَا قَرَأَ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ غَلَبَتْ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۴۲۰۸) (صحیح)
(عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
۲۹۳۵- ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر رومی (اہل کتاب نصاریٰ) اہل فارس (آتش پرست مجوسیوں) پر غالب آگئے ۔ تویہ چیز مسلمانوں کوبڑی پسندآئی اور اسی موقع پر (الم غُلِبَتِ الرُّومُ سے يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ) تک کی آیات نازل ہوئیں ۱؎ ۔چنانچہ مسلمان اہل روم کے اہل فارس پر غلبہ سے خوش ہوئے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث اس سندسے حسن غریب ہے،۲- غَلَبَتْ اور غُلِبَتْ دونوں پڑھاجاتا ہے۔ کہتے ہیں: اہل روم پہلے مغلوب ہوئے پھر غالب آگئے ، ایسے ہی نصر بن علی نے غَلَبَتْ پڑھاہے۔
وضاحت ۱؎ : الم ، رومی مغلوب ہوگئے ہیں نزدیک کی زمین پراوروہ مغلوب ہونے کے بعدعنقریب غالب آجائیں گے ، چندسال میں ہی ، اس سے پہلے اوراس کے بعدبھی اختیاراللہ تعالیٰ ہی کا ہے ، اس روزمسلمان خوش ہوں گے ۔(الروم : ۱-۴)
وضاحت ۲؎ : اس لیے کہ مسلمان اہل کتاب (قرآن والے) تھے اور رومی بھی اہل کتاب (انجیل والے)تھے، اور اہل فارس کافر ومشرک تھے جیسے اہل مکہ کافر ومشرک تھے۔ان کی خوشی ادنی موافقت کی بناپر تھی۔


2936- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا نُعَيْمُ بْنُ مَيْسَرَةَ النَّحْوِيُّ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى النَّبِيِّ ﷺ خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ فَقَالَ: مِنْ ضُعْفٍ.
* تخريج: د/الحروف (۳۹۷۸) (تحفۃ الأشراف: ۷۳۳۴) (حسن)
2936/م- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (حسن)
۲۹۳۶- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: انہوں نے نبی ﷺ کے سامنے'' خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ'' (ضاد کے فتحہ کے ساتھ) پڑھا تو آپ نے فرمایا:'' مِنْ ضَعْفٍ نہیں مِنْ ضُعْفٍ ۱؎ (ضاد کے ضمہ کے ساتھ ) پڑھو''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- ہم اسے صرف فضیل بن مرزوق کی روایت سے جانتے ہیں ۔
۲۹۳۶/م- ہم سے عبد بن حمید نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں: ہم سے بیان کیا یزید بن ہارون نے اوریزیدبن ہارون نے فضیل بن مرذوق سے کی حدیث روایت کی فضل بن مرذوق نے عطیہ سے اورعطیہ نے ابن عمرکے واسطہ سے نبی ﷺ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
وضاحت ۱؎ : یہی مشہورقراء ت ہے ، اورضاد کے فتحہ کے ساتھ عاصم اورحمزہ کی قراء ت ہے ،یعنی ہے: اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیداکیا۔(الروم : ۵۴)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
5-باب وَمِنْ سُورَةِ الْقَمَرِ
۵-باب: سورۃ القمر میں ''مدکر'' کو دال مہملہ سے پڑھنے کابیان​


2937- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ: {فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ }[القمر: 15]. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/احادیث الأنبیاء ۳ (۳۳۴۱)، وتسیر سورۃ القمر ۲ (۴۸۷۲-۴۸۷۴)، م/المسافرین ۵۰ (۸۲۳)، د/الحروف (۲۹۹۴) (تحفۃ الأشراف: ۹۱۷۹) (صحیح)
۲۹۳۷- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ۱؎ پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہی مشہورقراء ت ہے یعنی دال مہملہ کے ساتھ اس کی اصل ہے ''مُذْ تَکِر'' (بروزن ''مُجْتَنِب'' تاء کو دال مہملہ سے بدل دیا اورذال کودال میں مدغم کردیا تو''مُدَّکِر''ہوگیا، بعض قراء نے ''ُمُذَّکِر'' (ذال معجم کے ساتھ )پڑھا ہے بہرحال معنی ہے : پس کیا کوئی ہے نصیحت پکڑنے والا(القمر : ۴۰)۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
6-باب وَمِنْ سُورَةِ الْوَاقِعَةِ
۶-باب: سورہ واقعہ میں ''فروح' ' کو راء کے ضمہ کے ساتھ پڑھنے کابیان​


2938- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ هَارُونَ الأَعْوَرِ، عَنْ بُدَيْلِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَقْرَأُ: "فَرُوحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ هَارُونَ الأَعْوَرِ.
* تخريج: د/الحروف (۳۹۹۱) (تحفۃ الأشراف: ۱۶۲۰۴) (صحیح الإسناد)
۲۹۳۸- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ''فَرُوحٌ وَرَيْحَانٌ وَجَنَّةُ نَعِيمٍ '' ۱؎ پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،۲- اسے ہم صرف ہارون اعور کی روایت سے ہی جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مشہورقراء ت ''فَرَوحٌ'' (راء پر فتحہ کے ساتھ) ہے ، یعقوب کی قراء ت راء کے ضمہ کے ساتھ ہے ، فتحہ کی صورت میں معنی ہے اسے توراحت ہے اورغذائیں ہیں اورآرام والی جنت ہے ، اورضمہ کی صورت میں معنی ہوگا :اس کی روح پھولوں اورآرام والی جنت میں نکل کر جائیگی (الواقعہ : ۸۹)۔
 
Top