10-بَاب وَمِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ
۱۰-باب: سورہ توبہ سے بعض آیات کی تفسیر
3086- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَسَهْلُ بْنُ يُوسُفَ قَالُوا: حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ الْفَارِسِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ: قُلْتُ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: مَا حَمَلَكُمْ أَنْ عَمَدْتُمْ إِلَى الأَنْفَالِ وَهِيَ مِنَ الْمَثَانِي، وَإِلَى بَرَائَةٌ وَهِيَ مِنَ الْمِئِينَ؛ فَقَرَنْتُمْ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ تَكْتُبُوا بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَوَضَعْتُمُوهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ مَا حَمَلَكُمْ عَلَى ذَلِكَ فَقَالَ عُثْمَانُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِمَّا يَأْتِي عَلَيْهِ الزَّمَانُ وَهُوَ تَنْزِلُ عَلَيْهِ السُّوَرُ ذَوَاتُ الْعَدَدِ فَكَانَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الشَّيْئُ دَعَا بَعْضَ مَنْ كَانَ يَكْتُبُ؛ فَيَقُولُ: "ضَعُوا هَؤُلائِ الآيَاتِ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَإِذَا نَزَلَتْ عَلَيْهِ الآيَةَ فَيَقُولُ: "ضَعُوا هَذِهِ الآيَةَ فِي السُّورَةِ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا كَذَا وَكَذَا"، وَكَانَتِ الأَنْفَالُ مِنْ أَوَائِلِ مَا أُنْزِلَتْ بِالْمَدِينَةِ، وَكَانَتْ بَرَائَةٌ مِنْ آخِرِ الْقُرْآنِ، وَكَانَتْ قِصَّتُهَا شَبِيهَةً بِقِصَّتِهَا؛ فَظَنَنْتُ أَنَّهَا مِنْهَا؛ فَقُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ، وَلَمْ يُبَيِّنْ لَنَا أَنَّهَا مِنْهَا فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَرَنْتُ بَيْنَهُمَا، وَلَمْ أَكْتُبْ بَيْنَهُمَا سَطْرَ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ؛ فَوَضَعْتُهَا فِي السَّبْعِ الطُّوَلِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ عَوْفٍ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ هُوَ مِنْ التَّابِعِينَ قَدْ رَوَى عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرَ حَدِيثٍ، وَيُقَالُ: هُوَ يَزِيدُ بْنُ هُرْمُزَ، وَيَزِيدُ الرَّقَاشِيُّ هُوَ يَزِيدُ بْنُ أَبَانَ الرَّقَاشِيُّ وَهُوَ مِنَ التَّابِعِينَ، وَلَمْ يُدْرِكِ ابْنَ عَبَّاسٍ إِنَّمَا رَوَى عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَكِلاهُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، وَيَزِيدُ الْفَارِسِيُّ أَقْدَمُ مِنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ.
* تخريج: د/الصلاۃ ۱۲۵ (۷۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۹۸۱۹)، وحم (۱/۵۷، ۶۹) (ضعیف)
(سندمیں یزید الفارسی البصری مقبول راوی ہیں یعنی متابعت کے وقت اور متابعت موجود نہیں ہے اس لیے لین الحدیث ہیں)
۳۰۸۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کس چیز نے آپ کو آمادہ کیا کہ سورہ انفال کو جو مثانی میں سے ہے اور سورہ برأۃ کو جو مئین میں سے ہے دونوں کو ایک ساتھ ملادیا، اور ان دونوں سورتوں کے بیچ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی سطر بھی نہ لکھی۔ اور ان دونوں کو سبع طوال (سات لمبی سورتوں) میں شامل کردیا۔ کس سبب سے آپ نے ایسا کیا؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ پر زمانہ آتا جارہاتھا اور آپ پر متعدد سورتیں نازل ہورہی تھیں، تو جب آپ پرکوئی آیت نازل ہوتی تو وحی لکھنے والوں میں سے آپ کسی کو بلاتے اور کہتے کہ ان آ یات کو اس سورہ میں شامل کردو جس میں ایسا ایسا مذکور ہے۔ اور پھر جب آپ پر کوئی آیت اترتی تو آپ فرماتے اس آیت کو اس سورہ میں ر کھ دو جس میں اس اس طرح کا ذکر ہے۔ سورہ انفال ان سورتوں میں سے ہے جو مدینہ میں آنے کے بعد شروع شروع میں نازل ہوئی ہیں۔ اور سورہ برأت قرآن کے آخر میں نازل ہوئی ہے۔ اور دونوں کے قصوں میں ایک دوسرے سے مشابہت تھی تو ہمیں خیال ہواکہ یہ اس کا ایک حصہ (وتکملہ) ہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ بتائے بغیر کہ یہ سورہ اسی سورہ کا جزو حصہ ہے اس دنیاسے رحلت فرماگئے۔ اس سبب سے ہم نے ان دونوں سورتوں کو ایک ساتھ ملادیا اور ان دونوں سورتوں کے درمیان ہم نے ''بسم اللہ الرحمن الرحیم'' نہیں لکھا اور ہم نے اسے سبع طوال میں رکھ دیا(شامل کردیا)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اسے ہم صرف عوف کی روایت سے جانتے ہیں، جسے وہ یزید فارسی کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کرتے ہیں، اور یزید فارسی تابعین میں سے ہیں، انہوں نے ابن عباس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔ اور کہاجاتا ہے کہ وہ یزید بن ہرمز ہیں۔ اور یزید رقاشی یہ یزید بن اُبان رقاشی ہیں، یہ تابعین میں سے ہیں اور ان کی ملاقات ابن عباس سے نہیں ہے۔ انہوں نے صرف انس بن مالک سے روایت کی ہے، اور یہ دونوں ہی بصرہ والوں میں سے ہیں۔ اور یزید فارسی ، یزید رقاشی سے متقدم ہیں۔
3087- حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلاَّلُ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ شَبِيبِ ابْنِ غَرْقَدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الأَحْوَصِ، حَدَّثَنَا أَبِي أَنَّهُ شَهِدَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَّرَ، وَوَعَظَ، ثُمَّ قَالَ: "أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ أَيُّ يَوْمٍ أَحْرَمُ"، قَالَ: فَقَالَ النَّاسُ: يَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ يَارَسُولَ اللَّهِ! قَالَ: " فَإِنَّ دِمَائَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا أَلاَ لاَ يَجْنِي جَانٍ إِلا عَلَى نَفْسِهِ، وَلا يَجْنِي وَالِدٌ عَلَى وَلَدِهِ، وَلا وَلَدٌ عَلَى وَالِدِهِ أَلا إِنَّ الْمُسْلِمَ أَخُو الْمُسْلِمِ؛ فَلَيْسَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ مِنْ أَخِيهِ شَيْئٌ إِلا مَا أَحَلَّ مِنْ نَفْسِهِ أَلا وَإِنَّ كُلَّ رِبًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، لَكُمْ رُئُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاتَظْلِمُونَ، وَلا تُظْلَمُونَ غَيْرَ رِبَا الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ؛ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ أَلا، وَإِنَّ كُلَّ دَمٍ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ دَمٍ أَضَعَ مِنْ دِمَائِ الْجَاهِلِيَّةِ دَمُ الْحَارِثِ ابْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ كَانَ مُسْتَرْضَعًا فِي بَنِي لَيْثٍ؛ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ أَلاَ وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ خَيْرًا؛ فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٍ عِنْدَكُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا غَيْرَ ذَلِكَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ؛ فَإِنْ فَعَلْنَ فَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ؛ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلا أَلا إِنَّ لَكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِكُمْ عَلَيْكُمْ حَقًّا؛ فَأَمَّا حَقُّكُمْ عَلَى نِسَائِكُمْ فَلا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ مَنْ تَكْرَهُونَ، وَلا يَأْذَنَّ فِي بُيُوتِكُمْ لِمَنْ تَكْرَهُونَ أَلا وَإِنَّ حَقَّهُنَّ عَلَيْكُمْ أَنْ تُحْسِنُوا إِلَيْهِنَّ فِي كِسْوَتِهِنَّ وَطَعَامِهِنَّ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو الأَحْوَصِ عَنْ شَبِيبِ بْنِ غَرْقَدَةَ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۱۵۹ (حسن)
۳۰۸۷- سلیمان بن عمرو بن احوص کہتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھے، تو آپﷺ نے اللہ کی تعریف اور ثنا کی، اور وعظ ونصیحت فرمائی۔ پھر فرمایا:'' کون سادن سب سے زیادہ حرمت وتقدس والاہے ؟ کون سادن سب سے زیادہ حرمت وتقدس ہے؟کون سادن سب سے زیادہ حرمت وتقدس والاہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! حج اکبر کادن ہے۔ آپ نے فرمایا:'' تمہارا خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں سب تم پر حرام ہیں جیسے کہ تمہارے آج کے دن کی حرمت ہے، تمہارے اس شہر میں تمہارے اس مہینے میں، سن لو! کوئی انسان کوئی جرم نہیں کرے گا مگر اس کا وبال اسی پر آئے گا، کوئی باپ قصور نہیں کرے گا کہ جس کی سزا اس کے بیٹے کو ملے۔ اور نہ ہی کوئی بیٹا کوئی قصور کرے گاکہ اس کی سزا اس کے باپ کو ملے۔ آگاہ رہو! مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ کسی مسلمان کے لیے اپنے بھائی کی کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس چیز کے جو اسے اس کا بھائی خود سے دے دے۔ سن لو! جاہلیت کا ہرسود باطل ہے تم صرف اپنا اصل مال ( اصل پونجی) لے سکتے ہو، نہ تم کسی پر ظلم وزیادتی کروگے اور نہ تمہارے ساتھ ظلم وزیادتی کی جائے گی۔ سوائے عباس بن عبدالمطلب کے سود کے کہ اس کا سارا کا سارا معاف ہے۔ خبردار! جاہلیت کا ہر خون ختم کردیا گیا ہے ۱؎ اور جاہلیت میں ہوئے خونوں میں سے پہلا خون جسے میں معاف کرتاہوں وہ حارث بن عبدالمطلب کا خون ہے ، وہ قبیلہ نبی لیث میں دودھ پیتے تھے، تو انہیں قبیلہ ہذیل نے قتل کردیاتھا، سنو ! عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک (وبرتاؤ) کرو۔ کیوں کہ وہ تمہارے پاس بے کس ولاچاربن کرہیں اور تم اس کے سوا ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو، مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی ہوئی بدکاری کربیٹھیں، اگروہ کوئی قبیح گناہ کربیٹھیں تو ان کے بستر الگ کردو اور انہیں مارو مگرایسی مارنہ لگاؤ کہ ان کی ہڈی پسلی توڑ بیٹھو ، پھر اگر وہ تمہارے کہے میں آجائیں توان پر ظلم وزیادتی کے راستے نہ ڈھونڈو ، خبردار ہوجاؤ! تمہارے لیے تمہاری بیویوں پر حقوق ہیں، اور تمہاری بیویوں کے تم پر حقوق ہیں، تمہارا حق تمہاری بیویوں پر یہ ہے کہ جنہیں تم ناپسند کرتے ہو انہیں وہ تمہارے بستروں پرنہ آنے دیں ، اور نہ ہی ان لوگوں کو گھروں میں آنے کی اجازت دیں جنہیں تم برا جانتے ہو، اور ان کا حق تم پریہ ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرواور انہیں اچھا پہناؤاور اچھا کھلاؤ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اسے ابوالا ٔحوص نے شبیب بن غرقد ہ سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱ ؎ : یعنی معاف کردیا گیا ہے، اب جاہلیت کے کسی خون کا قصاص نہیں لیاجائے گا۔
3088- حَدَّثَنَا عَبْدُالْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِالْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَنْ يَوْمِ الْحَجِّ الأَكْبَرِ فَقَالَ: "يَوْمُ النَّحْرِ".
* تخريج: انظر حدیث رقم ۹۵۷ (صحیح)
۳۰۸۸- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: حج اکبر کادن کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا:'' نحر (قربانی)کادن ہے'' ۱؎ ۔
وضاحت ۱؎ : اس لیے کہ اکثر امور حج طواف، زیارت ،رمی اور ذبح وحلق وغیرہ اسی دن انجام پاتے ہیں۔(اوریہ حدیث اس آیت کی تفسیرمیں لائیں ہیں
{يَوْمَ الْحَجِّ الأَكْبَرِ}(التوبۃ :۳)۔
3089- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ يَوْمُ الْحَجِّ الأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ. قَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ لأَنَّهُ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا، وَلا نَعْلَمُ أَحَدًا رَفَعَهُ إِلا مَا رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، انظر حدیث رقم ۹۵۷ (صحیح)
۳۰۸۹- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حج اکبر کا دن یوم النحر ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ روایت محمد بن اسحاق کی روایت سے زیادہ صحیح ہے کیوں کہ یہ حدیث کئی سندوں سے ابواسحاق سے مروی ہے،اور ابواسحاق حارث کے واسطہ سے علی سے موقوفاً روایت کرتے ہیں۔ اور ہم کسی کو محمد بن اسحاق کے سوا نہیں جانتے کہ انہوں نے اسے مرفوع کیا ہو،۲- شعبہ نے اس حدیث کو ابواسحاق سے، ابواسحاق نے عبداللہ بن مرہ سے، اورعبداللہ نے حارث کے واسطہ سے علی سے موقوفا ً ہی روایت کی ہے۔
3090- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ؛ قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ بِبَرَائَةَ مَعَ أَبِي بَكْرٍ، ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ: "لا يَنْبَغِي لأَحَدٍ أَنْ يُبَلِّغَ هَذَا إِلا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِي، فَدَعَا عَلِيًّا فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۹۶) (حسن الإسناد)
۳۰۹۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : نبی اکرمﷺنے سورہ برأۃ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھیجی ۱؎ پھر آپ نے انہیں بلالیا،فرمایا:'' میرے خاندان کے کسی فرد کے سوا کسی اور کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ جاکر یہ پیغام وہاں پہنچائے (اس لیے تم اسے لے کر نہ جاؤ) پھر آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں سورہ برأۃ دے کر (مکہ) بھیجا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث انس بن مالک کی روایت سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : تاکہ مکہ میں جاکر اسے لوگوں کو سنادیں۔
3091- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ ﷺ أَبَا بَكْرٍ وَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ بِهَؤُلائِ الْكَلِمَاتِ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ عَلِيًّا فَبَيْنَا أَبُو بَكْرٍ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ إِذْ سَمِعَ رُغَائَ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الْقَصْوَائِ؛ فَخَرَجَ أَبُوبَكْرٍ فَزِعًا فَظَنَّ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَدَفَعَ إِلَيْهِ كِتَابَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يُنَادِيَ بِهَؤُلائِ الْكَلِمَاتِ؛ فَانْطَلَقَا فَحَجَّا فَقَامَ عَلِيٌّ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ؛ فَنَادَى ذِمَّةُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ بَرِيئَةٌ مِنْ كُلِّ مُشْرِكٍ فَسِيحُوا فِي الأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ، وَلا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلايَطُوفَنَّ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَلا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلا مُؤْمِنٌ، وَكَانَ عَلِيٌّ يُنَادِي فَإِذَا عَيِيَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَنَادَى بِهَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۴۷۶) (صحیح الإسناد)
۳۰۹۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: نبی اکرمﷺنے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو(مکہ) بھیجاکہ وہاں پہنچ کر لوگوں میں ان کلمات (سورہ توبہ کی ابتدائی آیات) کی منادی کردیں۔ پھر(ان کے بھیجنے کے فوراً بعد ہی) ان کے پیچھے آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ ابوبکر بھی کسی جگہ راستہ ہی میں تھے کہ انہوں نے اچانک رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی قصویٰ کی بلبلاہٹ سنی، گھبراکر (خیمہ) سے باہر آئے ، انہیں خیال ہوا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لارہے ہیں، لیکن وہ آپ کے بجائے علی رضی اللہ عنہ تھے۔علی رضی اللہ عنہ نے آپ (ﷺ) کا خط انہیں پکڑادیا، اور آپ نے) علی کو حکم دیا کہ وہ ان کلمات کا (بزبان خود) اعلان کردیں۔ پھر یہ دونوں حضرات ساتھ چلے، (دونوں نے حج کیا ، اور علی نے ایام تشریق میں کھڑے ہوکر اعلان کیا: اللہ اور اس کے رسول ہر مشرک وکافر سے بری الذمہ ہیں، صرف چار مہینے (سرزمین مکہ میں) گھوم پھر لو، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے،کوئی شخص بیت اللہ کا ننگا ہوکر طواف نہ کرے، جنت میں صرف مومن ہی جائے گا ، علی رضی اللہ عنہ اعلان کرتے رہے جب وہ تھک جاتے تو انہیں کلمات کا ابوبکر رضی اللہ عنہ اعلان کرنے لگتے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے ابن عباس کی روایت سے حسن غریب ہے۔
3092- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْئٍ بُعِثْتَ فِي الْحَجَّةِ؛ قَالَ بُعِثْتُ بِأَرْبَعٍ أَنْ لا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ ﷺ عَهْدٌ فَهُوَ إِلَى مُدَّتِهِ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ عَهْدٌ؛ فَأَجَلُهُ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ، وَلاَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلا نَفْسٌ مُؤْمِنَةٌ، وَلا يَجْتَمِعُ الْمُشْرِكُونَ وَالْمُسْلِمُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، وَرَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنْ عَلِيٍّ.
وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ .
* تخريج: انظر حدیث رقم ۸۷۱ (صحیح)
3092/م1- حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ يُثَيْعٍ، عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
3092/م2- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُثَيْعٍ، عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَهُ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ كِلْتَا الرِّوَايَتَيْنِ يُقَالُ عَنْهُ عَنِ ابْنِ أُثَيْعٍ، وَعَنِ ابْنِ يُثَيْعٍ، وَالصَّحِيحُ هُوَ زَيْدُ بْنُ يُثَيْعٍ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زَيْدٍ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ فَوَهِمَ فِيهِ، وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أُثَيْلٍ، وَلا يُتَابَعُ عَلَيْهِ.
۳۰۹۲- زید بن یثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : آپ حج میں کیا پیغام لے کر بھیجے گئے تھے؟ کہا: میں چار چیزوں کاا علان کرنے کے لیے بھیجا گیاتھا( ایک یہ کہ ) کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف (آئندہ) نہیں کرے گا۔ (دوسرے) یہ کہ جس کا فر اور نبی اکرمﷺکے درمیان کوئی معاہدہ ہے وہ معاہدہ مدت ختم ہونے تک قائم رہے گا اور جن کاکوئی معاہدہ نہیں ان کے لیے چار ماہ کی مدت ہوگی ۱؎ (تیسرے )یہ کہ جنت میں صرف ایمان والا(مسلمان) ہی داخل ہوسکے گا ۔ (چوتھے یہ کہ) اس سال کے بعد مسلم ومشرک دونوں حج نہ کرسکیں گے۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث سفیان بن عیینہ کی روایت سے جسے وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں حسن صحیح ہے،۲- اسے سفیان ثوری نے ابواسحاق کے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اورانہوں نے علی سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ سے بھی روایت ہے۔
۳۰۹۲/م۱- سفیان بن عیینہ نے بسند ابی اسحاق عن زید بن یثیع عن علی اسی طرح روایت کی ۔
۳۰۹۲/م۲- اس سندسے بھی ابواسحاق نے زید بن اثیع کے واسطہ سے علی سے اسی طرح روایت کی ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن عیینہ سے یہ دونوں روایتیں آئی ہیں، ۲- کہاجاتاہے کہ سفیان نے'' عن ابن اثیع ''اور ''عن ابن یثیع'' (''الف ''اور ''ی''کے فرق کے ساتھ دونوں ) روایت کیاہے ۔ اور صحیح زید بن یثیع ہے،۳- شعبہ نے ابواسحاق کے واسطہ سے زید سے اس حدیث کے علاوہ بھی روایت کی ہے جس میں انہیں وہم ہوگیا ہے۔ زید بن اثیل کہا ،اورایساکہنے میں ان کا کوئی متابع (موید) نہیں ہے،۴- اس باب میں ا بوہریرہ سے روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : مسلمان ہوجائیں یا وطن چھوڑ کر کہیں اورچلے جائیں،یاپھر مرنے کے لیے تیار ہوجائیں، حرم ان کے ناپاک وجود سے پاک کیاجائیگا۔
وضاحت ۲؎ : حج صرف مسلمان کریں گے۔
3093- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِذَا رَأَيْتُمْ الرَّجُلَ يَعْتَادُ الْمَسْجِدَ فَاشْهَدُوا لَهُ بِالإِيمَانِ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ}".
* تخريج: انظر حدیث رقم ۲۶۱۷ (ضعیف)
3093/م- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ نَحْوَهُ إِلا أَنَّهُ قَالَ: يَتَعَاهَدُ الْمَسْجِدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو الْهَيْثَمِ اسْمُهُ سُلَيْمَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدٍالْعُتْوَارِيُّ، وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (ضعیف)
۳۰۹۳- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:''جب تم کسی آدمی کو دیکھو کہ وہ مسجد کا عادی ہے(یعنی برابر مسجد میں صلاتیں پڑھنے جاتاہے) توا س کے مومن ہونے کی گواہی دو'' ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :
{إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ } ۱؎ ۔
۳۰۹۳/م- ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، اور عبداللہ نے عمر وبن حارث سے ، عمر و نے دراج سے، دراج نے ابوالہیثم سے اورابوالہیثم نے ابوسعید کے واسطہ سے نبی اکرمﷺ سے اسی طرح روایت کی ہے مگر انہوں نے
'' يعمر مساجد الله '' کی جگہ
''يتعاهد المسجد'' کہاکہ وہ مسجد کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتاہے،۲- یہ حدیث حسن غریب ہے اور ابوالھیثم کانام سلیمان بن عمرو بن عبدالعتواری ہے وہ یتیم تھے اور ان کی پرورش ابوسعید خدری کی گود یعنی سرپرستی میں ہوئی تھی۔
وضاحت ۱؎ : اللہ کی مسجدیں وہی لوگ آباد رکھتے ہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں(التوبہ : ۱۸)۔
3094- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ: {وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ}[التوبة: 34]، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ أُنْزِلَ فِي الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ مَا أُنْزِلَ لَوْ عَلِمْنَا أَيُّ الْمَالِ خَيْرٌ فَنَتَّخِذَهُ؟ فَقَالَ: "أَفْضَلُهُ لِسَانٌ ذَاكِرٌ وَقَلْبٌ شَاكِرٌ وَزَوْجَةٌ مُؤْمِنَةٌ تُعِينُهُ عَلَى إِيمَانِهِ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
سَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ فَقُلْتُ لَهُ: سَالِمُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ سَمِعَ مِنْ ثَوْبَانَ فَقَالَ: لا، فَقُلْتُ لَهُ: مِمَّنْ سَمِعَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: سَمِعَ مِنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَذَكَرَ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: ق/النکاح ۵ (۱۸۵۶) (تحفۃ الأشراف: ۲۰۸۴)، وحم (۵/۲۷۸، ۲۸۲) (صحیح)
۳۰۹۴- ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب آیت
{ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ } ۱؎ نازل ہوئی، اس وقت ہم نبی اکرمﷺکے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ کے بعض صحابہ نے کہا: سونے اور چاندی کے بارے میں جو اتراسواترا (یعنی اس کی مذمت آئی ) اگر ہم جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو اسی کو اپناتے۔ آپ نے فرمایا:'' بہترین مال یہ ہے کہ آدمی کے پاس اللہ کو یاد کرنے والی زبان ہو، شکرگزار دل ہو، اور اس کی بیوی ایسی مومنہ عورت ہوجو اس کے ایمان کو پختہ تربنانے میں مدد گارہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے ،۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا کہ کیاسالم بن ابی الجعد نے ثوبان سے سنا ہے؟ توانہوں نے کہا: نہیں، میں نے ان سے کہا: پھر انہوں نے کسی صحابی سے سنا ہے؟ کہا: انہوں نے جابر بن عبداللہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے سنا ہے اور انہوں نے ان کے علاوہ کئی اور صحابہ کا ذکر کیا۔
وضاحت ۱؎ : اور جولوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں ، اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے توآپ انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادیجئے (التوبہ: ۳۴)۔
3095- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ غُطَيْفِ بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَفِي عُنُقِي صَلِيبٌ مِنْ ذَهَبٍ فَقَالَ: يَا عَدِيُّ! اطْرَحْ عَنْكَ هَذَا الْوَثَنَ، وَسَمِعْتُهُ يَقْرَأُ فِي سُورَةِ بَرَائَةٌ {اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ} قَالَ: أَمَا إِنَّهُمْ لَمْ يَكُونُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَلَكِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا أَحَلُّوا لَهُمْ شَيْئًا اسْتَحَلُّوهُ، وَإِذَا حَرَّمُوا عَلَيْهِمْ شَيْئًا حَرَّمُوهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ السَّلامِ بْنِ حَرْبٍ، وَغُطَيْفُ بْنُ أَعْيَنَ لَيْسَ بِمَعْرُوفٍ فِي الْحَدِيثِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۸۷۷) (حسن)
( سندمیں غطیف ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے)
۳۰۹۵- عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا، میری گردن میں سونے کی صلیب لٹک رہی تھی، آپ نے فرمایا:'' عدی! اس بت کو نکال کر پھینک دو، میں نے آپ کو سورہ برأۃ کی آیت:
{ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ } ۱؎ پڑھتے ہوئے سنا ۔ آپ نے فرمایا:'' وہ لوگ ان کی عبادت نہ کرتے تھے، لیکن جب وہ لوگ کسی چیز کو حلال کہہ دیتے تھے تو وہ لوگ اسے حلال جان لیتے تھے، اور جب وہ لوگ ان کے لیے کسی چیز کو حرام ٹھہرادیتے تووہ لوگ اسے حرام جان لیتے تھے'' ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- ہم اسے صرف عبدالسلام بن حرب کی روایت ہی سے جانتے ہیں،۳- غطیف بن اعین حدیث میں معروف نہیں ہیں۔
وضاحت ۱؎ : انہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور راہبوں کو معبود بنالیا ہے(التوبۃ:۲۵)۔
وضاحت ۲؎ : اس طرح وہ احبارورہبان حلال وحرام ٹھہراکر اللہ کے اختیار میں شریک بن گئے، اور اس حلال وحرام کو ماننے والے لوگ مشرک اور ان احبارورہبان کے ''عبادت گزار'' ۔قراردیے گئے۔
3096- حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ حَدَّثَهُ قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ ﷺ وَنَحْنُ فِي الْغَارِ لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ يَنْظُرُ إِلَى قَدَمَيْهِ لأَبْصَرَنَا تَحْتَ قَدَمَيْهِ فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ! مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا؟.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ هَمَّامٍ تَفَرَّدَ بِهِ .
وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حَبَّانُ بْنُ هِلالٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ هَمَّامٍ نَحْوَ هَذَا.
* تخريج: خ/مناقب الصحابۃ ۲ (۳۶۵۳)، ومناقب الأنصار ۴۵ (۳۹۲۲)، وتفسیر التوبۃ ۹ (۴۶۶۳)، م/فضائل الصحابۃ ۱ (۲۳۸۱) (تحفۃ الأشراف: ۶۵۸۳) (صحیح)
۳۰۹۶- ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اورنبی اکرمﷺ دونوں جب غار میں تھے تومیں نے آپ ﷺ سے کہا: اگر ان ( کافروں)میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف نظر ڈالے تو ہمیں اپنے قدموں کے نیچے (غار میں)دیکھ لے گا۔ آپ نے فرمایا:'' ابوبکر! تمہارا ان دو کے بارے میں کیاخیال وگمان ہے جن کا تیسرا ساتھی اللہ ہو'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- ہمام کی حدیث مشہور ہے اور ہمام اس روایت میں منفرد ہیں،۳- اس حدیث کوحبان بن ہلال اورکئی لوگوں نے اسی کے مانند ہمام سے روایت کیا ہے۔
وضاحت ۱؎ : اللہ تعالیٰ کے قول
{ إن الله معنا}(التوبۃ:۴۰)کی طرف اشارہ ہے۔
3097- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَال: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يَقُولُ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ دُعِيَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ لِلصَّلاةِ عَلَيْهِ؛ فَقَامَ إِلَيْهِ فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ يُرِيدُ الصَّلاةَ تَحَوَّلْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي صَدْرِهِ فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! أَعَلَى عَدُوِّ اللَّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ الْقَائِلِ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا يَعُدُّ أَيَّامَهُ قَالَ: وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَتَبَسَّمُ حَتَّى إِذَا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ: "أَخِّرْ عَنِّي يَاعُمَرُ! إِنِّي خُيِّرْتُ؛ فَاخْتَرْتُ، قَدْ قِيلَ لِي: {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ }"[التوبة: 80] لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ قَالَ: ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهِ، وَمَشَى مَعَهُ فَقَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى فُرِغَ مِنْهُ قَالَ: فَعُجِبَ لِي وَجُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَوَاللَّهِ مَا كَانَ إِلا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ هَاتَانِ الآيَتَانِ، وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا، وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِلَى آخِرِ الآيَةِ قَالَ فَمَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَعْدَهُ عَلَى مُنَافِقٍ، وَلا قَامَ عَلَى قَبْرِهِ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۸۴ (۱۳۶۶)، وتفسیر التوبۃ ۱۲ (۴۶۷۱)، ن/الجنائز ۶۹ (۱۹۶۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۵۰۹)، وحم (۱/۱۶) (صحیح)
۳۰۹۷- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کوکہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن اُبی (منافقوں کا سردار) مرا تورسول اللہ ﷺ اس کی صلاۃ جنازہ پڑھنے کے لیے بلائے گئے، آپ کھڑے ہوکر اس کی طرف بڑھے اور اس کے سامنے کھڑے ہوکر صلاۃ پڑھا نے کا ارادہ کرہی رہے تھے کہ میں لپک کر آپ کے سینے کے سامنے جا کھڑا ہوا ، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی صلاۃ پڑھنے جارہے ہیں جس نے فلاں فلاں دن ایسا اور ایسا کہاتھا؟ وہ اس کے بے ادبی و بدتمیزی کے دن گن گن کر بیان کرنے لگے، رسول اللہ ﷺمسکراتے رہے یہاں تک کہ جب میں بہت کچھ کہہ گیا (حدسے تجاوز کرگیا) تو آپ نے فرمایا:'' (بس بس) مجھ سے ذراپرے جاؤ عمر! مجھے اختیار دیاگیا ہے تو میں نے اس کے لیے مغفرت طلبی کو ترجیح دی ہے۔کیوں کہ مجھ سے کہا گیاہے :
{اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللّهُ لَهُمْ} ۱؎ اگر میں جانتا کہ ستّر بار سے زیادہ مغفرت طلب کرنے سے وہ معاف کردیاجائے گا تو ستر بار سے بھی زیادہ میں اس کے لیے مغفرت مانگتا۔ پھر آپ نے عبداللہ بن ابی کی صلاۃ جنازہ پڑھی اور جنازہ کے ساتھ چلے اور اس کی قبر پر کھڑے رہے، یہاں تک کہ اس کے کفن دفن سے فارغ ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کی شان میں اپنی جرأت وجسارت پرمجھے حیرت ہوئی ۔ اللہ اوراس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں ۲؎ ، قسم اللہ کی! بس تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔
{وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ} ۳؎ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنے مرنے تک کبھی بھی کسی منافق کی صلاۃ ِ جنازہ نہیں پڑھی ، اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوکر دعا فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : ان (منافقوں) کے لیے مغفرت طلب کرویا نہ کرواگرتم ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت طلب کروگے تو بھی وہ انہیں معاف نہ کرے گا ۔(التوبۃ:۸۰)۔
وضاحت ۲؎ : یعنی کہ میری یہ جرأت حق کے خاطر تھی بے ادبی کے لیے نہیں۔
وضاحت ۳؎ : ان میں سے کسی (منافق) کی جو مرجائے صلاۃِ جنازہ کبھی بھی نہ پڑھو، اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو ۔(التوبہ : ۸۴)۔
3098- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: جَاءَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ حِينَ مَاتَ أَبُوهُ فَقَالَ: أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ، وَاسْتَغْفِرْ لَهُ فَأَعْطَاهُ قَمِيصَهُ، وَقَالَ: إِذَا فَرَغْتُمْ؛ فَآذِنُونِي فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ جَذَبَهُ عُمَرُ، وَقَالَ: أَلَيْسَ قَدْ نَهَى اللَّهُ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ؟ فَقَالَ: أَنَا بَيْنَ خِيرَتَيْنِ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ فَتَرَكَ الصَّلاةَ عَلَيْهِمْ}[التوبة: 84].
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/الجنائز ۲۲ (۱۲۶۹)، وتفسیر التوبۃ ۱۲ (۴۶۷۰)، و۱۳ (۴۶۷۲)، واللباس ۸ (۵۷۹۶)، م/فضائل الصحابۃ ۲ (۲۴۰۰)، والمنافقین (۲۷۷۴)، ق/الجنائز ۳۱ (۱۵۲۳) (تحفۃ الأشراف: ۸۱۳۹)، وحم (۲/۱۸) (صحیح)
۳۰۹۸- عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبداللہ بن اُبی کے باپ کا جب انتقال ہوا تو وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے ، اورکہاکہ آپ اپنی قمیص ہمیں عنایت فرمادیں، میں انہیں(عبداللہ بن ابی) اس میں کفن دوں گا۔ اور ان کی صلاۃ جنازہ پڑھ دیجئے اور ان کے لیے استغفار فرمادیجئے۔ تو آپ نے عبداللہ کو اپنی قمیص دے دی۔ اور فرمایا:''جب تم (غسل وغیرہ سے) فارغ ہوجاؤ تو مجھے خبردو۔ پھر جب آپ نے صلاۃ پڑھنے کا ارادہ کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو کھینچ لیا، اور کہا: کیا اللہ نے آپ کو منافقین کی صلاۃ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؟ آپ نے فرمایا:'' مجھے دو چیزوں
{اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ } (ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو) میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اخیتار دیاگیا ۔ چنانچہ آپ نے اس کی صلاۃ پڑھی۔ جس پر اللہ نے آیت
{وَلاَ تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ } نازل فرمائی ۔ تو آپ نے ان(منافقوں) پر صلاۃ جنازہ پڑھنی چھوڑدی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
3099- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّهُ قَالَ: تَمَارَى رَجُلانِ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ فَقَالَ رَجُلٌ: هُوَ مَسْجِدُ قُبَائَ وَقَالَ الآخَرُ هُوَ مَسْجِدُ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "هُوَ مَسْجِدِي هَذَا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَاهُ أُنَيْسُ بْنُ أَبِي يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
* تخريج: م/المناسک ۹۶ (۱۳۹۸) (تحفۃ الأشراف: ۴۱۱۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۰۹) (صحیح)
۳۰۹۹- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : دو آدمی اس مسجد کے بارے میں اختلاف کربیٹھے جس کی تاسیس وتعمیر پہلے دن سے تقویٰ پرہوئی ہے ۱؎ ( کہ وہ کونسی ہے؟) ایک شخص نے کہا: وہ مسجد قباء ہے اور دوسرے نے کہا : وہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد ہے۔ تب آپ نے فرمایا:'' وہ میری یہی مسجد(مسجد نبوی) ہے ۲؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمران بن ابی انس کی روایت سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،۲- یہ حدیث ابوسعید خدری سے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی مروی ہے،۳- اسے انیس بن ابی یحییٰ نے اپنے والد سے اور ان کے والدابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ ارشادباری
{لَّمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ}(التوبۃ:۱۰۸)کی طرف اشارہ ہے۔
وضاحت ۲؎ : اس مسجدکے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ مسجدنبوی ہے یا مسجدقباء اس حدیث میں ہے کہ وہ مسجدنبوی ہے ، جبکہ دوسری حدیث میں ہے کہ وہ مسجدقباء ہے، اورآیت کے سیاق وسباق سے بھی یہی واضح ہوتاہے کہ وہ مسجدقباء ہے ،تو اس حدیث میں فرمان رسول ﷺ ''وہ یہی مسجدنبوی ہے''کا کیا جواب ہے ؟ جواب یہ ہے کہ آپ کے جواب کا مطلب صرف اتناہے کہ میری اس مسجدکی بھی پہلے دن سے تقویٰ پربنیادپڑی ہے ، علماء کی توجیہات کا یہی خلاصہ ہے۔
3100- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاَئِ أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِي أَهْلِ قُبَائَ: {فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ} قَالَ: كَانُوا يَسْتَنْجُونَ بِالْمَائِ فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ فِيهِمْ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ.
* تخريج: د/الطھارۃ ۲۳ (۴۴)، ق/الطھارۃ ۲۸ (۳۵۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۳۰۹) (صحیح)
۳۱۰۰- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' آیت
{ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ } ۱؎ اہل قبا کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کی عادت تھی کہ وہ استنجا پانی سے کرتے تھے، تو ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی''۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،۲- اس باب میں ابوایوب ، انس بن مالک اور محمد بن عبداللہ بن سلام سے بھی روایت ہے۔
وضاحت ۱؎ : قبا میں وہ لوگ ہیں جو پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک رہیں اور اللہ پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے(التوبہ: ۱۰۸)۔
3101- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ كُوفِيٌّ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلا يَسْتَغْفِرُ لأَبَوَيْهِ وَهُمَا مُشْرِكَانِ؛ فَقُلْتُ لَهُ: أَتَسْتَغْفِرُ لأَبَوَيْكَ وَهُمَا مُشْرِكَانِ فَقَالَ: أَوَلَيْسَ اسْتَغْفَرَ إِبْرَاهِيمُ لأَبِيهِ وَهُوَ مُشْرِكٌ؛ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَنَزَلَتْ: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ}. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ.
* تخريج: ن/الجنائز ۱۰۲ (۲۰۳۸) (تحفۃ الأشراف: ۱۰۱۸۱)، وحم (۱/۱۳۰، ۱۳۱) (صحیح)
۳۱۰۱- علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ایک شخص کو اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہوئے سنا تو میں نے اس سے کہا: کیا اپنے مشرک ماں باپ کے لیے مغفرت طلب کرتے ہو؟ اس نے کہا: کیا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مشرک باپ کے لیے مغفرت طلب نہیں کی تھی؟ پھرمیں نے اس بات کا ذکر نبی اکرم ﷺ سے کیا تو آپ پر یہ آیت نازل ہوئی
{مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ} ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- اس باب میں سعید بن مسیب سے بھی روایت ہے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : نبی اکرم ﷺ اور مومنین کے لیے زیبا نہیں ہے کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت طلب کریں۔(التوبہ : ۱۱۳)۔
3102- حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ إِلا بَدْرًا، وَلَمْ يُعَاتِبِ النَّبِيُّ ﷺ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْ بَدْرٍ إِنَّمَا خَرَجَ يُرِيدُ الْعِيرَ؛ فَخَرَجَتْ قُرَيْشٌ مُغِيثِينَ لِعِيرِهِمْ؛ فَالْتَقَوْا عَنْ غَيْرِ مَوْعِدٍ كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَعَمْرِي إِنَّ أَشْرَفَ مَشَاهِدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي النَّاسِ لَبَدْرٌ، وَمَا أُحِبُّ أَنِّي كُنْتُ شَهِدْتُهَا مَكَانَ بَيْعَتِي لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حَيْثُ تَوَاثَقْنَا عَلَى الإِسْلامِ، ثُمَّ لَمْ أَتَخَلَّفْ بَعْدُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ حَتَّى كَانَتْ غَزْوَةُ تَبُوكَ وَهِيَ آخِرُ غَزْوَةٍ غَزَاهَا، وَآذَنَ النَّبِيُّ ﷺ النَّاسَ بِالرَّحِيلِ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ وَحَوْلَهُ الْمُسْلِمُونَ وَهُوَ يَسْتَنِيرُ كَاسْتِنَارَةِ الْقَمَرِ، وَكَانَ إِذَا سُرَّ بِالأَمْرِ اسْتَنَارَ؛ فَجِئْتُ؛ فَجَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَقَالَ: أَبْشِرْ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ بِخَيْرِ يَوْمٍ أَتَى عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ! أَمِنْ عِنْدِ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِكَ قَالَ: بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ، ثُمَّ تَلا هَؤُلائِ الآيَاتِ: {لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ حَتَّى بَلَغَ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ} قَالَ: وَفِينَا أُنْزِلَتْ أَيْضًا {اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ} قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لا أُحَدِّثَ إِلا صِدْقًا، وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي كُلِّهِ صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ، وَإِلَى رَسُولِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: " أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ"، فَقُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِيَ الَّذِي بِخَيْبَرَ، قَالَ: فَمَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ نِعْمَةً بَعْدَ الإِسْلامِ أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ ﷺ حِينَ صَدَقْتُهُ أَنَا وَصَاحِبَايَ، وَلانَكُونُ كَذَبْنَا فَهَلَكْنَا كَمَا هَلَكُوا، وَإِنِّي لأَرْجُو أَنْ لا يَكُونَ اللَّهُ أَبْلَى أَحَدًا فِي الصِّدْقِ مِثْلَ الَّذِي أَبْلانِي مَا تَعَمَّدْتُ لِكَذِبَةٍ بَعْدُ، وَإِنِّي لأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي اللَّهُ فِيمَا بَقِيَ قَالَ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثُ بِخِلافِ هَذَا الإِسْنَادِ، وَقَدْ قِيلَ: عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عَمِّهِ عُبَيْدِاللَّهِ، عَنْ كَعْبٍ، وَقَدْ قِيلَ: غَيْرُ هَذَا وَرَوَى يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف بھذا السیاق الطویل، وأخرجہ مختصرا ومتفرقا کل من: خ/الجھاد ۱۰۱ (۲۹۴۷، ۲۹۴۸)، والمغازي ۷۹ (۴۴۱۸)، ود/الجھاد ۱۰۱ (۲۶۳۷) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۱۵۳) (صحیح)
۳۱۰۲- کعب بن مالک کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہاہوں۔ رہابدر کا معاملہ سو بدر میں جولوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔کیوں کہ آپ کا ارادہ (شام سے آرہے) قافلے کو گھیر نے کاتھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جاٹکڑائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت:
{إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَى وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ وَلَوْ تَوَاعَدتَّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ وَلَكِن لِّيَقْضِيَ اللّهُ أَمْراً كَانَ مَفْعُولاً} (الأنفال:42) ۱؎ میں فرمایا ہے اور قسم اللہ کی ، رسول اللہﷺ کے غزوات میں سب سے بڑھ کر غزوہ بدر ہے۔ اور میں اس میں شرکت کو عقبہ کی رات میں اپنی بیعت کے مقابل میں قابل ترجیح نہیں سمجھتا۔ جب ہم نے اسلام پر عہدومیثاق لیاتھا۔ اس کے بعد نبی اکرم ﷺ کو چھوڑ کر میں کبھی پیچھے نہیں ہوا یہاں تک کہ غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آگیا۔ اوریہ آخری غزوہ تھا جس میں آپ ﷺ تشریف لے گئے تھے، نبی اکرمﷺ نے لوگوں میں کوچ کا اعلان کردیا۔ پھر انہوں نے لمبی حدیث بیان کی، کہا (رسول اللہ ﷺ کے غزوہ تبوک سے لوٹنے کے بعد)میں آ پ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ مسجد میں تشریف فرماتھے اور مسلمان آپ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے۔ اور چاند کی روشنی بکھرنے کی طرح آپ نور بکھیر رہے تھے۔ آپ جب کسی معاملے میں خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ انوردمکنے لگتاتھا، میں پہنچ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ نے فرمایا:'' کعب بن مالک! اس بہترین دن کی بدولت خوش ہوجاؤ جو تمہیں جب سے تمہاری ماں نے جنا ہے اس دن سے آج تک میں اب حاصل ہوا ہے۔میں نے کہا: اللہ کے نبی! یہ دن مجھے اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے یا آپ کی طرف سے؟ آپ نے فرمایا:'' نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے حاصل ہوا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں
{ لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ } یہاں تک کہ آپ تلاوت کرتے ہوئے
{ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ } ۱؎ تک پہنچے۔ آیت
{اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ}بھی ہمارے ہی متعلق نازل ہوئی ہے۔
میں نے کہا : اللہ کے نبی ! میری توبہ کی قبولیت کا تقاضہ ہے کہ میں جب بھی بولوں سچی بات ہی بولوں، اور میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ میں اپنا سارا مال اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کرکے خود خالی ہاتھ ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا:'' اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو۔ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ میں نے کہا: تو پھر میں اپنا وہ حصہ روک لیتاہوں جو خیبر میں ہے ، اسلام قبول کرنے کے بعد اللہ نے میری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی اور نعمت مجھے نہیں عطا کی کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سچ بولا اور جھوٹ نہ بولے کہ ہم ہلاک ہوجاتے جیسا کہ (جھوٹ بول کر) دوسرے ہلاک وبرباد ہوگئے۔ اور میرا گمان غالب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سچائی کے معاملے میں جتنا مجھے آزمایا ہے کسی اور کو نہ آزمایا ہوگا، اس کے بعدتو میں نے کبھی جھوٹ بولنے کا قصد و ارادہ ہی نہیں کیا۔ اور میں اللہ کی ذات سے امید رکھتاہوں کہ وہ باقی ماندہ زند گی میں بھی مجھے جھوٹ بولنے سے محفوظ رکھے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں :۱- یہ حدیث زہری سے اس اسنا دسے مختلف دوسری سندوں سے بھی آئی ہے،۲- یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ حدیث روایت کی گئی ہے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے چچا عبید اللہ سے اور وہ کعب سے، اور اس کے سوا اور بھی کچھ کہا گیا ہے،۳- یونس بن یزید نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے، اورزہری نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک سے کہ ان کے باپ نے کعب بن مالک سے سن کر بیان کیا۔
وضاحت ۱؎ : اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی اپنے نبی پر اور ان مہاجرین وانصار کی طرف جنہوں نے اس کی مدد کی کٹھن گھڑی میں جب کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں کے پلٹ جانے اور کج روی اختیار کرلینے کا ڈر موجود تھا، پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔ بے شک وہ ان پر نرمی والا اور مہر بان ہے(التوبۃ:۱۱۷)۔
3103- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ حَدَّثَهُ قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ أَبُوبَكْرٍ الصِّدِّيقُ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ؛ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عِنْدَهُ فَقَالَ: إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ أَتَانِي فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ بِقُرَّائِ الْقُرْآنِ يَوْمَ الْيَمَامَةِ، وَإِنِّي لأَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّائِ فِي الْمَوَاطِنِ كُلِّهَا؛ فَيَذْهَبَ قُرْآنٌ كَثِيرٌ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْمُرَ بِجَمْعِ الْقُرْآنِ قَالَ أَبُو بَكْرٍ لِعُمَرَ: كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ عُمَرُ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَ عُمَرَ، وَرَأَيْتُ فِيهِ الَّذِي رَأَى قَالَ زَيْدٌ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ شَابٌّ عَاقِلٌ لا نَتَّهِمُكَ قَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ الْوَحْيَ؛ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ قَالَ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفُونِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِنْ ذَلِكَ قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلُونَ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ؛ فَلَمْ يَزَلْ يُرَاجِعُنِي فِي ذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ لَهُ صَدْرَهُمَا صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ؛ فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنْ الرِّقَاعِ، وَالْعُسُبِ وَاللِّخَافِ يَعْنِي الْحِجَارَةَ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ؛ فَوَجَدْتُ آخِرَ سُورَةِ بَرَائَةٌ مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ: {لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَئُوفٌ رَحِيمٌ} فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/تفسیر التوبۃ ۲۰ (۴۶۷۹)، وفضائل القرآن ۳ (۴۹۸۶) (تحفۃ الأشراف: ۳۷۲۹) (صحیح)
۳۱۰۳- زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جنگ یمامہ کے موقع پر ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں بلابھیجا، اتفاق کی بات کہ عمربن خطاب بھی وہاں موجود تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے ہیں کہتے ہیں کہ جنگ یمامہ میں قرآن کے بہت سے قراء(حافظوں)کی ہلاکت ہوئی ہے ، اور میں ڈرتاہوں کہ اگر ان تمام جگہوں میں جہاں جنگیں چل رہی ہیں قرّاء قرآن کا قتل بڑھتا رہاتو بہت سارا قرآن ضائع ہوسکتا ہے، اس لیے میں مناسب سمجھتاہوں کہ آپ مکمل قرآن اکٹھا کرنے کا حکم فرمائیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: میں کوئی ایسی چیز کیسے کروں جسے رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیاہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ بہتر کام ہے۔ وہ مجھ سے یہ بات باربار کہتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے مجھے بھی اس کام کے لیے شرح صدر عطاکردیا جس کا م کے لیے اللہ نے عمر کو شرح صدر عطافرمایاتھا۔ اور میں نے بھی اس سلسلہ میں وہی بات مناسب سمجھی جو انہوں نے سمجھی۔ زید کہتے ہیں: ابوبکر نے (مجھ سے) کہا: تم جو ان ہو ، عقلمند ہو، ہم تمہیں (کسی معاملے میں بھی) متہم نہیں کرتے۔ اور تم رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی لکھتے بھی تھے، تو ایساکرو کہ پورا قرآن تلاش کر کے لکھ ڈالو، (یکجاکردو) زید کہتے ہیں: قسم اللہ کی!اگر مجھ سے پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے کہتے تو یہ کام مجھے اس کام سے زیادہ بھاری نہ لگتا، میں نے کہا: آپ لوگ کوئی ایسا کام جسے رسول اللہﷺ نے نہیں کیا ہے کیسے (کرنے کی جرأت) کرتے ہیں؟ ابوبکر نے کہا: اللہ کی قسم ! تمہارے لیے بہتر ہے۔ اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما دونوں مجھ سے بار بار یہی دہراتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرے سینے کو بھی اس حق کے لیے کھول دیا جس کے لیے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے سینے کواس نے کھولا تھا، تو میں نے پورے قرآن کی تلاش وجستجو شروع کردی، میں پرزوں، کھجور کے پتوں ، نرم پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے لے کر نقل کرکرکے یکجا کرنے لگا،تو سورہ برأۃ کی آخری آیات
{لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَئُوفٌ رَحِيمٌ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} ۱؎ ۔مجھے خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس ملیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے، اس پر تمہاری تکلیف شاق گزرتی ہے، وہ تمہاری بھلائی کا حریص ہے اور ایمان داروں کے حال پر نہایت درجہ شفیق اور مہربان ہے۔ پھر بھی اگر وہ منہ پھیر لیں تو اللہ مجھ کو کافی ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے اور وہی عرش عظیم کامالک ہے۔(التوبہ: ۱۲۸)۔
3104- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ أَنَّ حُذَيْفَةَ قَدِمَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَكَانَ يُغَازِي أَهْلَ الشَّامِ فِي فَتْحِ أَرْمِينِيَةَ، وَأَذْرَبِيجَانَ مَعَ أَهْلِ الْعِرَاقِ؛ فَرَأَى حُذَيْفَةُ اخْتِلافَهُمْ فِي الْقُرْآنِ؛ فَقَالَ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! أَدْرِكْ هَذِهِ الأُمَّةَ قَبْلَ أَنْ يَخْتَلِفُوا فِي الْكِتَابِ كَمَا اخْتَلَفَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى؛ فَأَرْسَلَ إِلَى حَفْصَةَ أَنْ أَرْسِلِي إِلَيْنَا بِالصُّحُفِ نَنْسَخُهَا فِي الْمَصَاحِفِ، ثُمَّ نَرُدُّهَا إِلَيْكِ؛ فَأَرْسَلَتْ حَفْصَةُ إِلَى عُثْمَانَ بِالصُّحُفِ؛ فَأَرْسَلَ عُثْمَانُ إِلَى زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَسَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ، وَعَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، وَعَبْدِاللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَنْ انْسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ لِلرَّهْطِ: الْقُرَشِيِّينَ الثَّلاثَةِ مَا اخْتَلَفْتُمْ أَنْتُمْ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ؛ فَاكْتُبُوهُ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ؛ فَإِنَّمَا نَزَلَ بِلِسَانِهِمْ حَتَّى نَسَخُوا الصُّحُفَ فِي الْمَصَاحِفِ بَعَثَ عُثْمَانُ إِلَى كُلِّ أُفُقٍ بِمُصْحَفٍ مِنْ تِلْكَ الْمَصَاحِفِ الَّتِي نَسَخُوا.
قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَحَدَّثَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ: فَقَدْتُ آيَةً مِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقْرَؤُهَا: {مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَاعَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ} فَالْتَمَسْتُهَا فَوَجَدْتُهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ فَأَلْحَقْتُهَا فِي سُورَتِهَا.
قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَاخْتَلَفُوا يَوْمَئِذٍ فِي التَّابُوتِ وَالتَّابُوهِ فَقَالَ الْقُرَشِيُّونَ: التَّابُوتُ، وَقَالَ زَيْدٌ: التَّابُوهُ فَرُفِعَ اخْتِلافُهُمْ إِلَى عُثْمَانَ فَقَالَ: اكْتُبُوهُ التَّابُوتُ؛ فَإِنَّهُ نَزَلَ بِلِسَانِ قُرَيْشٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ كَرِهَ لِزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ نَسْخَ الْمَصَاحِفِ، وَقَالَ: يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ! أُعْزَلُ عَنْ نَسْخِ كِتَابَةِ الْمُصْحَفِ، وَيَتَوَلاهَا رَجُلٌ وَاللَّهِ لَقَدْ أَسْلَمْتُ، وَإِنَّهُ لَفِي صُلْبِ رَجُلٍ كَافِرٍ يُرِيدُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، وَلِذَلِكَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ! اكْتُمُوا الْمَصَاحِفَ الَّتِي عِنْدَكُمْ، وَغُلُّوهَا فَإِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَالْقُوا اللَّهَ بِالْمَصَاحِفِ قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَبَلَغَنِي أَنَّ ذَلِكَ كَرِهَهُ مِنْ مَقَالَةِ ابْنِ مَسْعُودٍ رِجَالٌ مِنْ أَفَاضِلِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ.
قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَهُوَ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِهِ.
* تخريج: خ/لمناقب ۳ (۳۵۰۶)، وفضائل القرآن ۲ (۴۹۸۴)، و۳ (۴۹۸۷) (تحفۃ الأشراف: ۹۷۸۳) (صحیح)
۳۱۰۴- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ، ان دنوں آپ شام والوں کے ساتھ آرمینیہ کی فتح میں اورعراق والوں کے ساتھ آذر بائیجان کی فتح میں مشغول تھے، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا اختلاف دیکھ کر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا: امیر المومنین! اس امت کو سنبھالئے اس سے پہلے کہ یہ کتاب (قرآن مجید) کے معاملے میں اختلاف کا شکار ہوجائے (اورآپس میں لڑ نے لگے) جیسا کہ یہود ونصاریٰ اپنی کتابوں (تورات وانجیل اورزبور) کے بارے میں مختلف ہوگئے۔ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ (ابوبکر و عمر کے تیار کرائے ہوئے )صحیفے ہمارے پاس بھیج دیں ہم انہیں مصاحف میں لکھا کر آپ کے پاس واپس بھیج دیں گے، چنانچہ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس یہ صحیفے بھیج دیے ۔پھر عثمان نے زید بن ثابت اور سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے پاس ان صحیفوں کواس حکم کے ساتھ بھیجا کہ یہ لوگ ان کو مصاحف میں نقل کردیں۔ اور تینوں قریشی صحابہ سے کہاکہ جب تم میں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہوجائے تو قریش کی زبان (ولہجہ) میں لکھو کیوں کہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا ہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے صحیفے مصحف میں نقل کرلیے تو عثمان نے ان تیارمصاحف کو (مملکت اسلامیہ کے حدود اربعہ میں ) ہرجانب ایک ایک مصحف بھیج دیا ۔
زہری کہتے ہیں مجھ سے خارجہ بن زید نے بیان کیا کہ زید بن ثابت نے کہاکہ میں سورہ احزاب کی ایک آیت جسے میں رسول اللہ ﷺ کو پڑھتے ہوئے سنتا تھا اور مجھے یاد نہیں رہ گئی تھی اوروہ آیت یہ ہے
{ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ} ۱؎ تو میں نے اسے ڈھونڈا، بہت تلاش کے بعد میں اسے خزیمہ بن ثابت کے پاس پایا ۲؎ خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کہا یا ابو خزیمہ کہا ۔( راوی کو شک ہوگیا) تو میں نے اسے اس کی سورہ میں شامل کردیا۔
زہری کہتے ہیں : لوگ اس وقت (لفظ) تابوهاور تابوت میں مختلف ہوگئے، قریشیوں نے کہا '' التابوت '' اور زید نے ''التابوه'' کہا۔ ان کا اختلاف عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا:''التابوت '' لکھو کیوں کہ یہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ زہری کہتے ہیں: مجھے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بتایا ہے کہ عبداللہ بن مسعود نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کے مصاحف لکھنے کو ناپسند کیا اور کہا: اے گروہ مسلمانان! میں مصاحف کے لکھنے سے روک دیاگیا، اور اس کام کا والی وکارگزار وہ شخص ہوگیا جوقسم اللہ کی جس وقت میں ایمان لایا وہ شخص ایک کا فر شخص کی پیٹھ میں تھا(یعنی پیدا نہ ہواتھا) یہ کہہ کر انہوں نے زید بن ثابت کو مراد لیا۳؎ اور اسی وجہ سے عبداللہ بن مسعود نے کہا : عراق والو! جو مصاحف تمہارے پا س ہیں انہیں چھپالو، اور سنبھال کررکھو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: جوکوئی چیز چھپا رکھے گا قیامت کے دن اسے لے کر حاضر ہوگا تو تم قیامت میں اپنے مصاحف ساتھ میں لے کر اللہ سے ملاقات کرنا ۴؎ زہری کہتے ہیں: مجھے یہ اطلاع وخبر بھی ملی کہ کبار صحابہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ بات ناپسند فرمائی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور یہ زہری کی حدیث ہے، اور ہم اسے صرف انہیں کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : مومنوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیاتھا انہیں سچا کردکھا یا، بعض نے تو اپنا عہد پورا کردیا اور بعض (موقع کے) منتظر ہیں (الا ٔحزاب : ۲۳)۔
وضاحت ۲؎ : صرف اسی مناسبت سے مؤلف نے اس روایت کو اس باب میں ذکرکیاہے، ورنہ یہ آیت سورہ توبہ کی نہیں ہے جس کی تفسیرکاباب ہے۔
وضاحت ۳؎ : عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کام پرجوزیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کولگایا تھاتواس کی وجہ یہ تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وقت میں زیدبن ثابت ہی نے قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے کا کام انجام دیاتھا،نیزاس وقت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مدینہ سے دورکوفہ میں تھے، اورمعاملہ جلدی کا تھا، عفی اللہ عنہ وعنہم۔
وضاحت۴؎ : ایساہواتھاکہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کالکھواہوانسخہ کوفہ پہنچاتوابن مسعود رضی اللہ عنہ کے تلامذہ نے ان سے کہا کہ اب آپ اپنانسخہ ضائع کردیجئے، اس پرانہوں نے کہا کہ تمہارے پاس میرا جونسخہ ہے اسے چھپاکررکھ دو،اس کو قیامت کے دن لا کرظاہرکرنا، یہ بڑی شرف کی بات ہوگی۔