46-كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴۶- کتاب: فضائل و مناقب
1-بَاب فِي فَضْلِ النَّبِيِّ ﷺ
۱-باب: نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کابیان
3605- حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ أَسْلَمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيلَ وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الفضائل ۱ (۲۲۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۴۱)، حم (۴/۱۰۷) (صحیح)
(پہلا فقرہ إن الله اصطفى من ولد إبراهيم إسماعيل کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے ،اس سند میں محمد بن مصعب صدوق کثیر الغلط راوی ہیں، اور آگے آنے والی حدیث میں یہ پہلا فقرہ نہیں ہے، اس لیے یہ ضعیف ہے ، الصحیحۃ ۳۰۲)
۳۶۰۵- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا ۱؎ اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا، اور بنی کنانہ میں سے قریش کا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کا، اور بنی ہاشم میں سے میراانتخاب فرمایا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صحیح مسلم میں اگلی حدیث کی طرح یہ ٹکڑا نہیں ہے، یہ محمدبن مصعب کی روایت سے ہے جوکثیرالغلط ہیں،اس لیے یہ ضعیف ہے، معنی کے لحاظ سے بھی یہ ٹکڑاصحیح نہیں ہے،اس سے دوسرے ان انبیاء کی نسب کی تنقیص لازم آتی ہے، جواسحاق علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اس کے بعد والے اجزاء میں اس طرح کی کوئی بات نہیں اس حدیث سے نبی کریم محمدبن عبداللہ عبدالمطلب کے سلسلہ نسب کے شروع سے اخیرتک اشرف نسب ہونے پرروشنی پڑتی ہے ، نبی قوم کے اشرف نسب ہی میں مبعوث ہوتاہے، تاکہ کسی کے لیے کسی بھی مرحلے میں اس کی اعلیٰ نسبی اس نبی پر ایمان لانے میں رکاوٹ نہ بن سکے ، یہ بھی اللہ کی اپنے بندوں پرایک طرح کی مہربانی ہی ہے کہ اس کے اپنے وقت کے نبی پرایمان لانے میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ سی بات رکاوٹ نہ بن سکے، فالحمدللہ الرحمن الرحیم ۔
3606- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي وَاثِلَةُ بْنُ الأَسْقَعِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ وَاصْطَفَى هَاشِمًا مِنْ قُرَيْشٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح) (الصحیحۃ ۳۰۲)
۳۶۰۶- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کا انتخاب فرمایا اور کنانہ سے قریش کا اور قریش میں سے ہاشم کا اور بنی ہاشم میں سے میراانتخاب فرمایا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
3607- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ قُرَيْشًا جَلَسُوا فَتَذَاكَرُوا أَحْسَابَهُمْ بَيْنَهُمْ؛ فَجَعَلُوا مَثَلَكَ مَثَلَ نَخْلَةٍ فِي كَبْوَةٍ مِنَ الأَرْضِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ مِنْ خَيْرِ فِرَقِهِمْ، وَخَيْرِ الْفَرِيقَيْنِ، ثُمَّ تَخَيَّرَ الْقَبَائِلَ؛ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ قَبِيلَةٍ، ثُمَّ تَخَيَّرَ الْبُيُوتَ؛ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ بُيُوتِهِمْ؛ فَأَنَا خَيْرُهُمْ نَفْسًا وَخَيْرُهُمْ بَيْتًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ هُوَ ابْنُ نَوْفَلٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي (تحفۃ الأشراف: ۵۱۳۰) (ضعیف)
(سندمیں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہیں)
۳۶۰۷- عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! قریش کے لوگ بیٹھے اور انہوں نے قریش میں اپنے حسب کا ذکر کیا تو آپ کی مثال کھجور کے ایک ایسے درخت سے دی جو کسی کوڑے خانہ پر (اگا) ہوتو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا، اس نے اس میں سے دوگروہوں کو پسند کیا ، اور مجھے ان میں سب سے اچھے گروہ (یعنی اولاد اسماعیل) میں پیدا کیا ، پھر اس نے قبیلوں کو چنا اور مجھے بہتر قبیلے میں سے کیا، پھر گھروں کو چنا اور مجھے ان گھروں میں سب سے بہتر گھر میں کیا، تو میں ذاتی طورپر بھی ان میں سب سے بہتر ہوں اور گھرانے کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
3608- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَكَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: "مَنْ أَنَا؟" فَقَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْكَ السَّلامُ، قَالَ: "أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ؛ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ؛ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ؛ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا؛ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَفْسًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۵۳۲ (ضعیف)
۳۶۰۸- مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، گویا انہوں نے کوئی چیز سنی تھی، تو نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:'' میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں سلامتی ہو آپ پر، آپ نے فرمایا:'' میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں ، اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے ان کے سب سے بہتر مخلوق میں کیا، پھر ان کے دوگروہ کئے تو مجھے ان کے بہتر گروہ میں کیا،پھرانہیں قبیلوں میں بانٹا تو مجھے ان کے سب سے بہتر قبیلہ میں کیا، پھر ان کے کئی گھر کیے تو مجھے ان کے سب سے بہتر گھر میں کیا اور شخصی طورپر بھی مجھے ان میں سب سے بہتر بنایا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- جس طرح اسماعیل بن ابی خالد نے یزید بن ابی زیاد سے اور یزید بن ابی زیاد نے عبداللہ بن حارث کے واسطہ سے عباس بن عبدالمطلب سے روایت کی ہے اسی طرح سفیان ثوری نے بھی یزید بن ابی زیاد سے روایت کی ہے۔(وہ یہی روایت ہے)۔
3609- حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: "وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَاب عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۹۷) (صحیح)
۳۶۰۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا:'' جب آدم روح اورجسم کے درمیان تھے'' ۱؎ ۔( یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہورہی تھی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہی وہ مشہورحدیث ہے جس کی تشریح میں اہل بدعت حدسے زیادہ غلو کا شکارہوئے ہیں حتی کہ دیگرانبیاء علیہم السلام کی تنقیص تک بات جاپہنچی ہے، حالانکہ اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے میرے لیے نبوت کا فیصلہ (بطورتقدیر) کردیاگیا تھا، ظاہربات ہے کہ کسی کے لیے کسی بات کا فیصلہ روز ازل میں اللہ نے لکھ دیا تھا، اورروز ازل آدم علیہ السلام پیدائش سے پہلے، اس حدیث کے ثابت الفاظ یہی ہیں باقی دوسرے الفاظ ثابت نہیں ہیں جیسے
''کنت نبیا وآدم بین الماء والطین''(میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی اورمٹی کے درمیان تھے) اسی طرح
''کنت نبیاولاماء ولا طین''(میں اس وقت نبی تھاجب نہ پانی تھانہ مٹی، یعنی تخلیق کائنات سے پہلے ہی میں نبی تھا)ان الفاظ کے بارے میں علماء محدثین نے
''لا اصل لہ'' فرمایاہے، یعنی ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی کوئی صحیح کیا غلط سند تک نہیں اللہ غلو سے بچائے ۔
3610- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ خُرُوجًا إِذَا بُعِثُوا، وَأَنَا خَطِيبُهُمْ إِذَا وَفَدُوا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوا لِوَائُ الْحَمْدِ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي، وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي وَلا فَخْرَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۳۱) (ضعیف)
(سندمیں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں)
۳۶۱۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے تو میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی اور جب وہ دربار الٰہی میں آئیں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا، اور جب وہ مایوس اور ناامید ہوجائیں گے تو میں انہیں خوش خبری سنانے والا ہوں گا، حمد کا پرچم اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا، اور میں اپنے رب کے نزدیک اولاد آدم میں سب سے بہتر ہوں اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
3611- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ فَأُكْسَى حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ الْخَلاَئِقِ يَقُومُ ذَلِكَ الْمَقَامَ غَيْرِي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۵۶) (ضعیف)
(سند میں حسین بن یزیدکوفی، لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں )
۳۶۱۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کے داہنی جانب کھڑا ہوں گا، میرے علاوہ وہاں مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہوسکے گا''۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔
3612- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، حَدَّثَنِي كَعْبٌ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "سَلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا الْوَسِيلَةُ؟ قَالَ: "أَعْلَى دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ لا يَنَالُهَا إِلا رَجُلٌ وَاحِدٌ أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَكَعْبٌ لَيْسَ هُوَ بِمَعْرُوفٍ، وَلا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ غَيْرَ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۹۵) (صحیح)
(سندمیں لیث بن ابی سلیم ضعیف، اور کعب مدنی مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث نمبر ۳۶۱۴ سے تقویت پاکریہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۳۶۱۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ سے میرے لیے وسیلہ کا سوال کرو، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! وسیلہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا:'' یہ جنت کا سب سے اونچا درجہ ہے جسے صرف ایک ہی شخص پاسکتاہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، اس کی سندزیادہ قوی نہیں ہے،۲- کعب غیر معروف شخص ہیں، ہم لیث بن سلیم کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے ہیں جس نے ان سے روایت کی ہو۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں مذکورہ ''وسیلہ''سے وہی وسیلہ مرادہے ، جس کی دعاء ایک امتی نبی کریم ﷺکے لیے ہراذانکے بعدکرتاہے،
''اللہم آت محمد االوسیلۃ''(اے اللہ ! محمد ﷺکو وسیلہ عطافرمااس حدیث میں آپ نے جو امت کو اپنے لیے وسیلہ طلب کرنے کے لیے فرمایا خود ہی اس طلب کو اذان کی بعدوالی دعاء میں کردیا، اذان سے باہربھی آدمی نہ دعاء کرسکتاہے ، یہ دعاکرنے سے خود آدمی کو دعاء کا ثواب ملا کرے گا ، آپ کو تووسیلہ عطاکیا جانے والا ہی ہے، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس سے سرفرازہونے والا میں ہی ہوں گا تویقینا آپ ہی ہوں گے، اس حدیث سے آپ کی فضیلت واضح طورپر ظاہرہورہی ہے ۔
3613- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "مَثَلِي فِي النَّبِيِّينَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا؛ فَأَحْسَنَهَا، وَأَكْمَلَهَا، وَأَجْمَلَهَا، وَتَرَكَ مِنْهَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ؛ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِالْبِنَائِ، وَيَعْجَبُونَ مِنْهُ، وَيَقُولُونَ: لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ، وَأَنَا فِي النَّبِيِّينَ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۲)، وحم (۵/۱۳۷) (صحیح)
3613/أ- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ، وَخَطِيبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۱۳- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھابنایا، مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، لوگ اس میں پھرتے تھے اور ا س کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے، کا ش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہوجاتی، تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے''۔
۳۶۱۳/أ- اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا:'' جب قیامت کا دن ہوگا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور (اوراس پرمجھے) کوئی گھمنڈنہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث منجملہ ان احادیث کے ہے جن سے قطعی طورپر ثابت ہوتاہے کہ آپ ہی آخری نبی ہیں، آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے ، توفرمایاکہ ''میں وہ آخری اینٹ ہوں اب اس اینٹ کے جگہ پُرجانے کے بعد کسی اوراینٹ کی ضرورت ہی کیا رہ گئے شاعرنے اس حدیث کی کیا خوب ترجمانی کی ہے: قصرِ ہدیٰ کے آخری پتھرہیں مصطفی ۔
3614- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ أَخْبَرَنَا كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ سَمِعَ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "إِذَا سَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لا تَنْبَغِي إِلا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ وَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ مُحَمَّدٌ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ هَذَا قُرَشِيٌّ مِصْرِيٌّ مَدَنِيٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ شَامِيٌّ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۷ (۳۴۸)، د/الصلاۃ ۳۶ (۵۲۳)، ن/الأذان ۳۷ (۶۷۹) (تحفۃ الأشراف: ۸۸۷۱)، وحم (۲/۱۶۸) (صحیح)
۳۶۱۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''جب تم موذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو موذن کہتاہے ۱؎ پھر میرے اوپرصلاۃ( درود) بھیجوکیوں کہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیوں کہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتاہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اس سند میں مذکور عبدالرحمن بن جبیر قرشی ، مصری اور مدنی ہیں اور نفیر کے پوتے عبدالرحمن بن جبیر شامی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : سوائے''حي على الصلاة، حي على الفلاح''کے اس جواب میں کہا جائے گا، ''لا حول ولا قوة إلا بالله'' مطلب یہ ہے کہ مؤذن جو صلاۃ وفلاح کے لیے پکاررہاہے ، تواس پکارکا جواب ہم بندے بغیر اللہ کے عطاکردہ طاقت وتوفیق کے نہیں دے سکتے ، یعنی صلاۃ میں نہیں حاضرہوسکتے جب تک کہ اللہ کی مدداورتوفیق نہ ہو۔
3615- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَائُ الْحَمْدِ، وَلا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَلا فَخْرَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رُوِيَ بِهَذَا الإِسْنَادِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۱۴۸ (صحیح)
۳۶۱۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میرے ہاتھ میں حمد کا پرچم ہوگا اور اس پرمجھے گھمنڈنہیں ، اور آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی علیہم السلام ہوں گے سب میرے پرچم کے نیچے ہوں گے، اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کے لیے زمین شق ہوگی ، اور سب سے پہلے قبرسے میں اٹھوں گا اوراس پر مجھے گھمنڈنہیں'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے، ۲-اسے اسی سند سے ابونضرہ سے روایت ہے، وہ اسے ابن عباس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ تمام باتیں نبی اکرمﷺکی دیگرانبیاء پرفضیلت پردلالت کرتی ہیں۔گھمنڈ اس لیے نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ عزوجل کے خاص فضل وانعام سے ہوگا
3616- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَنْتَظِرُونَهُ قَالَ: فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ فَسَمِعَ حَدِيثَهُمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَجَبًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ: اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيلاً اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ كَلاَمِ مُوسَى؟ كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا وَقَالَ آخَرُ: فَعِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ، وَرُوحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ؛ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ؛ فَسَلَّمَ، وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ كَلامَكُمْ، وَعَجَبَكُمْ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ، وَمُوسَى نَجِيُّ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَعِيسَى رُوحُ اللَّهِ، وَكَلِمَتُهُ وَهُوَ كَذَلِكَ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ أَلاَ وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ، وَلاَ فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَائِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلاَ فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حِلَقَ الْجَنَّةِ؛ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لِي؛ فَيُدْخِلُنِيهَا، وَمَعِي فُقَرَائُ الْمُؤْمِنِينَ، وَلاَ فَخْرَ، وَأَنَا أَكْرَمُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ وَلاَ فَخْرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۹۵) (ضعیف)
(سندمیں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں)
۳۶۱۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ بیٹھے آپ کے حجرے سے نکلنے کا انتظار کررہے تھے، کہتے ہیں: پھر آپ نکلے یہاں تک کہ جب آپ ان کے قریب آئے تو انہیں آپس میں بحث کرتے سنا، آپ نے ان کی باتیں سنیں ، کوئی کہہ رہاتھا، تعجب ہے اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا ، دوسرے نے کہا: موسیٰ سے اس کا کلام کرنا کتنا زیادہ تعجب خیز معاملہ ہے، اور ایک نے کہا: عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، اور ایک دوسرے نے کہا: آدم کو اللہ نے توچن لیا ہے، تو آپ نکل کر ان کے سامنے آئے اور انہیں سلام کیا اور فرمایا:'' میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور ابراہیم علیہ السلام کے خلیل اللہ ہونے پر تعجب میں پڑنے کوبھی، واقعی وہ ایسے ہی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے اللہ کے نجی اللہ ہو نے پر ،اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے کلمۃ اللہ اورروح اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور آدم کے اللہ کا برگزیدہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں، سن لو! میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں، قیامت کے دن حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں اور قیامت کے دن میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو شفاعت( سفارش) کرے گا اور جس کی شفاعت( سفارش) سب سے پہلے قبول کی جائے گی اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو جنت کی کنڈی ہلائے گاتو اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا، پھر وہ مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں اور میں اگلوں اور پچھلوں میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
3617- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُومَوْدُودٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَصِفَةُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ؛ فَقَالَ أَبُومَوْدُودٍ: وَقَدْ بَقِيَ فِي الْبَيْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. هَكَذَا قَالَ: عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ: وَالْمَعْرُوفُ الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ الْمَدَنِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۳۶) (ضعیف)
(سندمیں عثمان بن ضحاک ضعیف راوی ہیں)
۳۶۱۷- عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تورات میں محمد ﷺ کے احوال لکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ عیسیٰ بن مریم انہیں کے ساتھ دفن کئے جائیں گے ۔ ابوقتیبہ کہتے ہیں کہ ابومودود نے کہا: حجرہ ٔ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، سند میں راوی نے عثمان بن ضحاک کہا اور مشہور ضحاک بن عثمان مدنی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس معنی کی کئی احادیث واردہیں، مگرسب پر کلام ہے ، اورمطلب یہ ہے کہ قرب قیامت میں جب عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے ، تو پینتالیس زندہ رہ کر جب وفات پائیں گے تو قبرنبوی کے پاس دفن ہوں گے ، واللہ اعلم۔
3618- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَدِينَةَ أَضَائَ مِنْهَا كُلُّ شَيْئٍ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْئٍ، وَلَمَّا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الأَيْدِي، وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الجنائز ۶۵ (۱۶۳۱) (تحفۃ الأشراف: ۲۶۸) (صحیح)
۳۶۱۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ ﷺ (پہلے پہل) مدینہ میں د اخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پر نور ہوگئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہرچیز تاریک ہوگئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل بدل گئے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان میں وہ نور ایمان باقی نہیں رہا جو آپ کی زندگی میں تھا۔