• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سنن الترمذی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
132-بَاب فِي حُسْنِ الظَّنِّ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
۱۳۲-باب: اللہ عزوجل کے ساتھ حسن ظن رکھنے کا بیان​


3603- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي وَأَنَا مَعَهُ حِينَ يَذْكُرُنِي؛ فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ اقْتَرَبَ إِلَيَّ شِبْرًا اقْتَرَبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا، وَإِنِ اقْتَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا اقْتَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَيُرْوَى عَنْ الأَعْمَشِ فِي تَفْسِيرِ هَذَا الْحَدِيثِ: "مَنْ تَقَرَّبَ مِنِّي شِبْرًا تَقَرَّبْتُ مِنْهُ ذِرَاعًا" يَعْنِي بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ، وَهَكَذَا فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ قَالُوا: إِنَّمَا مَعْنَاهُ يَقُولُ: إِذَا تَقَرَّبَ إِلَيَّ الْعَبْدُ بِطَاعَتِي وَمَا أَمَرْتُ أُسْرِعُ إِلَيْهِ بِمَغْفِرَتِي وَرَحْمَتِي.
* تخريج: خ/التوحید ۱۵ (۷۴۰۵)، و۳۵ (۷۵۰۵)، م/الذکر والدعاء ۶ (۲۶۷۵)، ق/الأدب ۵۸ (۳۸۲۲) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۵۰۵) (وراجع ماتقدم عند المؤلف في الزہد (برقم ۲۳۸۸) (صحیح)
3603/م- وَرُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَنَّهُ قَالَ فِي هَذِهِ الآيَةِ: {فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ}، قَالَ: اذْكُرُونِي بِطَاعَتِي أَذْكُرْكُمْ بِمَغْفِرَتِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى وَعَمْرُو بْنُ هَاشِمٍ الرَّمْلِيُّ، عَنْ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ بِهَذَا.
* تخريج: انظر ما قبلہ (صحیح)
۳۶۰۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کہتاہے :میں اپنے بندے کے میرے ساتھ گمان کے مطابق ہوتاہوں ۱؎ ، جب وہ مجھے یاد کرتاہے تو اس کے ساتھ ہوتاہوں، اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتاہے تو میں بھی اسے جی میں یاد کرتاہوں اور اگر وہ مجھے جماعت (لوگوں) میں یاد کرتاہے تو میں اسے اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتاہوں( یعنی فرشتوں میں) اگر کوئی مجھ سے قریب ہونے کے لیے ایک بالشت آگے بڑھتاہے تو اس سے قریب ہونے کے لیے میں ایک ہاتھ آگے بڑھتاہوں، اور اگر کوئی میری طرف ایک ہاتھ آگے بڑھتاہے تو میں اس کی طرف دو ہاتھ بڑھتا ہوں، اگر کوئی میری طرف چل کر آتاہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتاہوں''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- اس حدیث کی تفسیر میں اعمش سے مروی ہے کہ اللہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ جو شخص میری طرف ایک بالشت بڑھتاہے میں اس کی طرف ایک ہاتھ بڑھتاہوں، اس سے مراد یہ ہے کہ میں اپنی رحمت و مغفرت کامعاملہ اس کے ساتھ کرتاہوں،۳- اور اسی طرح بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر یہ کی ہے کہ اس سے مراد جب بندہ میری اطاعت اور میرے مامورات پر عمل کرکے میری قربت حاصل کرنا چاہتاہے تو میں اپنی رحمت و مغفرت لے کر اس کی طرف تیزی سے لپکتاہوں۔
۳۶۰۳/م- سعید بن جبیراس آیت: ''فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ'' کے بارے میں فرماتے ہیں : ''اذکرونی'' سے مراد یہ ہے کہ میری اطاعت کے ساتھ مجھے یاد کرو میں تمہاری مغفرت میں تجھے یاد کروں گا۔
وضاحت ۱؎ : یعنی: اگرمومن بندہ اپنے تئیں اللہ سے یہ حسن ظن رکھتاہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دیگا، میرے اوپررحمت کرے، مجھے دین ودنیا میں بھلائی سے بہرہ ورکریگا، تواللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس حسن ظن کے مطابق معاملہ کرتاہے،بعض شارحین کہتے ہیں:یہاں''ظن''گمان نہیں ''یقین''کے معنی میں ہے، یعنی: بندہ جیسا اللہ سے یقین رکھتاہے اللہ ویساہی اس کے ساتھ معاملہ کرتاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
133-بَاب فِي الاسْتِعَاذَةِ
۱۳۳-باب: اللہ کی پناہ چاہنے کابیان​


3604- حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ، وَاسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ اسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ وَاسْتَعِيذُوا بِاللَّهِ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ن/عمل الیوم واللیلۃ ۱۹۲ (۵۹۰)، وحم (۲/۲۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۲۷۵۳) (صحیح)
۳۶۰۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ سے پناہ مانگو جہنم کے عذاب سے، اللہ سے پناہ مانگو قبر کے عذاب سے، اللہ سے پناہ مانگومسیح دجال کے فتنے سے اور اللہ سے پناہ مانگو زندگی اور موت کے فتنے سے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3604/1- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ سُهَيْلِ ابْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ قَالَ: حِينَ يُمْسِي ثَلاَثَ مَرَّاتٍ أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ يَضُرَّهُ حُمَةٌ تِلْكَ اللَّيْلَةَ قَالَ سُهَيْلٌ: فَكَانَ أَهْلُنَا تَعَلَّمُوهَا فَكَانُوا يَقُولُونَهَا: كُلَّ لَيْلَةٍ فَلُدِغَتْ جَارِيَةٌ مِنْهُمْ فَلَمْ تَجِدْ لَهَا وَجَعًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ. وَرَوَى عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ سُهَيْلٍ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
* تخريج: ن/عمل الیوم والیلۃ ۱۹۲ (۵۹۰)، وحم (۲/۲۹۰) (تحفۃ الأشراف: ۱۷۵۳) (صحیح)
۳۶۰۴/۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:'' جس نے شام کے وقت تین مرتبہ ''أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ '' پڑھا، اسے اس رات کوئی بھی ڈنک مارنے والا جانور تکلیف نہیں پہنچا سکتا''۔سہیل کہتے ہیں: میرے گھر والوں نے اسے سیکھا اور ہررات اسے پڑھتے ، پھر میرے گھر والوں میں سے ایک لونڈی کو کسی جانور نے ڈنک مارا تو اس ڈنک سے اسے کچھ بھی تکلیف محسوس نہ ہوئی۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- مالک بن انس نے یہ سہیل بن ابی صالح سے، سہیل نے اپنے والد ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے،۳- عبید اللہ بن عمر اور دوسرے راویوں نے بھی یہ حدیث سہیل سے روایت کی ہے، لیکن اس میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
134-بَاب مِنْ أَدْعِيَةِ النَّبِيِّ ﷺ
۱۳۴-باب: نبی اکرم ﷺ کی بعض دعاؤں کا بیان​


3604/2- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو فَضَالَةَ الْفَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: دُعَائٌ حَفِظْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ لاأَدَعُهُ: "اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي أُعَظِّمُ شُكْرَكَ وَأُكْثِرُ ذِكْرَكَ وَأَتَّبِعُ نَصِيحَتَكَ وَأَحْفَظُ وَصِيَّتَكَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۹۳۷) (ضعیف)
(سندمیں ''فرج بن فضالۃ'' ضعیف ہیں)
۳۶۰۴/۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دعا جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے (سن کر) یاد کی ہے اسے میں برابر پڑھتا ہوں(وہ یہ ہے) : ''اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي أُعَظِّمُ شُكْرَكَ وَأُكْثِرُ ذِكْرَكَ وَأَتَّبِعُ نَصِيحَتَكَ وَأَحْفَظُ وَصِيَّتَكَ'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے اللہ مجھے ایسا بنادے کہ میں کثرت سے تیرا شکر اداکروں، زیادہ سے زیادہ تیرا ذکرکروں، تیری نصیحت کی اتباع کروں اور تیری نصیحت ہمیشہ یاد رکھوں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
135-بَاب اسْتِجَابَةِ الدُّعَاءِ فِي غَيْرِ قَطِيعَةِ رَحِمٍ
۱۳۵-باب: قطع رحمی کے علاوہ کی دعا مقبول ہوتی ہے​


3604/3- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ هُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْ رَجُلٍ يَدْعُو اللَّهَ بِدُعَائٍ إِلاَّ اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِمَّا أَنْ يُعَجَّلَ لَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِمَّا أَنْ يُدَّخَرَ لَهُ فِي الآخِرَةِ، وَإِمَّا أَنْ يُكَفَّرَ عَنْهُ مِنْ ذُنُوبِهِ بِقَدْرِ مَا دَعَا مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ أَوْ يَسْتَعْجِلْ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ يَسْتَعْجِلُ؟ قَالَ: "يَقُولُ: دَعَوْتُ رَبِّي فَمَا اسْتَجَابَ لِي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۲۹۰۶) (صحیح)
( سندمیں ''لیث بن أبی سلیم'' ضعیف اور ''زیاد'' مجہول ہیں، اس لیے '' وإما أن يكفر عنه من ذنوبه بقدر ما دعا '' کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے،لیکن بقیہ حدیث شواہد کی بنا پر صحیح ہے، الضعیفۃ ۴۴۸۳، وصحیح الجامع ۵۶۷۸، ۵۷۱۴)
۳۶۰۴/۳- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگتا ہے اللہ اس کی دعا قبول کرتاہے، یہ دعاء یا تودنیا ہی میں قبول ہوجاتی ہے یا یہ دعا اس کے نیک اعمال میں شامل ہوکر آخرت کے لیے ذخیرہ بن جاتی ہے، یا مانگی ہوئی دعا کے مطابق اس کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتاہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ مانگی گئی دعا کا تعلق کسی گناہ کے کام سے نہ ہو، نہ ہی قطع رحمی کے سلسلہ میں ہو اور نہ ہی جلد بازی سے کام لیاگیاہو، صحابہ نے پوچھا : اللہ کے رسول! جلدبازی سے کام لینے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا:'' وہ یہ کہنے لگے کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی لیکن اللہ نے میری دعا قبول نہیں کی '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : کسی بندے کی دعااللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے مطابق دنیاہی میں قبول کرتاہے یاآخرت میں اس کے لیے ذخیرہ بنادیتاہے، بندے کو حکم ہے کہ بس دعاکرتارہے ، باقی اللہ پرڈال دے۔


3604/4- حَدَّثَنَا يَحْيَى، أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "مَا مِنْ عَبْدٍ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يَبْدُوَ إِبِطُهُ يَسْأَلُ اللَّهَ مَسْأَلَةً إِلاَّ آتَاهَا إِيَّاهُ مَا لَمْ يَعْجَلْ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ عَجَلَتُهُ؟ قَالَ: "يَقُولُ: قَدْ سَأَلْتُ وَسَأَلْتُ وَلَمْ أُعْطَ شَيْئًا".
٭وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "يُسْتَجَابُ لأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ يَقُولُ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي" ۱؎ .
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۱۲۵) (صحیح)
(سندمیں ''یحییٰ بن عبید اللہ'' ضعیف راوی ہے، اور اس حدیث میں دونوں ہاتھ کے اٹھانے کا ذکر ہے ، جو صحیح نہیں ہے،اور اصل حدیث صحیح ہے، اگلے سیاق وسند سے یہ حدیث صحیح ہے، الضعیفۃ ۴۴۸۳)
۳۶۰۴/۴- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جو بندہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح اٹھاتا ہے کہ اس کے بغل کا حصہ ظاہر ہوجاتاہے پھر اللہ رب العالمین سے اپنی ضرورت مانگتاہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری کرتاہے، شرط یہ ہے کہ اس نے جلدبازی سے کام نہ لیاہو، صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول ! جلد بازی سے کام لینے کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا:'' وہ یہ کہنے لگے کہ میں نے مانگا اور بار بار مانگا لیکن مجھے کچھ نہ دیاگیا''۔
٭امام ترمذی کہتے ہیں: زہری نے یہ حدیث ابن ازہر کے آزاد غلام ابو عبید سے اور ابوعبید نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، (اس کے الفاظ یوں ہیں) آپ نے فرمایا:'' تم میں سے ہرایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلدبازی سے کام نہ لے۔ یعنی یہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی پھر بھی میری دعا قبول نہ ہوئی۔
وضاحت ۱؎ : اور مؤلف کی زہری کی روایت سے ابوہریرہ کی یہ حدیث متفق علیہ ہے۔


3604/5- حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ، عَنْ سُمَيْرِ بْنِ نَهَارٍ الْعَبْدِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ بِاللَّهِ مِنْ حُسْنِ عِبَادَةِ اللَّهِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۴۸۸) (ضعیف)
(سندمیں ''سمیر بن نھار'' میں بہت کلام ہے)
۳۶۰۴/۵- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن اللہ تعالیٰ کی بہترین عبادت ہے''۔امام ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے۔


3604/6- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لِيَنْظُرَنَّ أَحَدُكُمْ مَا الَّذِي يَتَمَنَّى فَإِنَّهُ لاَيَدْرِي مَا يُكْتَبُ لَهُ مِنْ أُمْنِيَّتِهِ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۹۵۷۷) (ضعیف)
(سندمیں ''عمر بن ابی سلمہ بن عبد الرحمن'' ضعیف ہیں، اور ابوسلمہ بن عبد الرحمن تابعی ہیں، مسند احمد (۲/۳۵۷، ۳۸۷) میں یہ حدیث گرچہ مرفوع متصل ہے، مگر عمر بن ابی سلمہ ہی کے واسطے سے ہے)
۳۶۰۴/۶- ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے ہر شخص یہ غور فکر کرلے کہ وہ کس چیز کی تمنا کررہاہے، کیوں کہ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کی آرزؤں میں سے کون سی آرزو وتمنا لکھ لی جائے گی (یامقدرکردی جائیگی) '' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی تمنا و آرزو کرنے سے پہلے انسان یہ سوچ لے کہ اسے ایسی چیز کی تمنا کرنی چاہیے جو اس کے لیے دنیا و آخرت دونوں جگہوں میں مفید اور کار آ مد ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
136-بَاب: اللهم مَتِّعْنِي بِسَمْعِي...إِلَخْ
۱۳۶-باب: یہ دعا کرنا کہ میرے دونوں کانوں سے مجھے فائدہ پہنچا​


3604/7- حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ نُوحٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَدْعُو فَيَقُولُ: "اللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِسَمْعِي وَبَصَرِي وَاجْعَلْهُمَا الْوَارِثَ مِنِّي وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ يَظْلِمُنِي وَخُذْ مِنْهُ بِثَأْرِي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۰۱۰) (حسن)
۳۶۰۴/م۷- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعا میں یہ کہتے تھے : '' اللَّهُمَّ مَتِّعْنِي بِسَمْعِي وَبَصَرِي وَاجْعَلْهُمَا الْوَارِثَ مِنِّي وَانْصُرْنِي عَلَى مَنْ يَظْلِمُنِي وَخُذْ مِنْهُ بِثَأْرِي'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : اے اللہ ! مجھے اپنے دونوں کانوں اور دونوں آنکھوں سے فائدہ پہنچا، اور ان دونوں کو میرے لیے باقی رکھ اور مجھ پر ظلم ڈھانے والوں کے خلاف میری مدد فرما، اور ظالم سے تو میرا بدلہ لے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
137-بَاب لِيَسْأَلْ الْحَاجَةَ مَهْمَا صَغُرَتْ
۱۳۷- باب: چھوٹی سے چھوٹی ضرورت بھی اللہ ہی سے مانگی جائے​


3604/8- حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ سُلَيْمَانُ بْنُ الأَشْعَثِ السِّجْزِيُّ، حَدَّثَنَا قَطَنٌ الْبَصْرِيُّ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ كُلَّهَا حَتَّى يَسْأَلَ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ أَنَسٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶) (ضعیف)
(اس روایت کا مرسل (بدون ذکر انس) ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس کے راوی ''قطن بن نسیر'' روایت میں غلطیاں کرجاتے تھے، یہ انہی کی غلطی ہے کہ مرفوعا روایت کردی ہے ملاحظہ ہو: الضعیفۃ رقم: ۱۳۶۲)
۳۶۰۴/۸- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے ہر ایک اپنی ساری حاجتیں اور ضرورتیں اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ اگر ٹوٹ جائے تو اسے بھی اللہ ہی سے مانگے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے،۲- کئی اور راویوں نے یہ حدیث جعفر بن سلیمان سے اور جعفر نے ثابت بنانی کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے، لیکن اس روایت میں انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ کا ذکر نہیں ہے (یعنی مرسلاً روایت کی ہے جوآگے آرہی ہے)۔


3604/ 9- حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: "لِيَسْأَلْ أَحَدُكُمْ رَبَّهُ حَاجَتَهُ حَتَّى يَسْأَلَهُ الْمِلْحَ، وَحَتَّى يَسْأَلَهُ شِسْعَ نَعْلِهِ إِذَا انْقَطَعَ" وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ قَطَنٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر ماقبلہ (تحفۃ الأشراف: ۲۷۶) (ضعیف)
۳۶۰۴/م۹- ثابت بنانی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' تم میں سے ہرایک اپنی ضرورت اپنے رب سے مانگے، یہاں تک کہ نمک اوراپنے جوتے کا ٹوٹا ہوا تسمہ بھی اسی سے طلب کرے''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ روایت قطن کی مذکورہ روایت سے جسے وہ جعفر بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے (یعنی: اس کا مرسل ہونا زیادہ صحیح ہے)۔

* * *​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207

46-كِتَاب الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ
۴۶- کتاب: فضائل و مناقب


1-بَاب فِي فَضْلِ النَّبِيِّ ﷺ
۱-باب: نبی اکرم ﷺ کی فضیلت کابیان​


3605- حَدَّثَنَا خَلاَّدُ بْنُ أَسْلَمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الأَسْقَعِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: "إِنَّ اللهَ اصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِبْرَاهِيمَ إِسْمَاعِيلَ وَاصْطَفَى مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ بَنِي كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ بَنِي كِنَانَةَ قُرَيْشًا، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: م/الفضائل ۱ (۲۲۷۶) (تحفۃ الأشراف: ۱۱۷۴۱)، حم (۴/۱۰۷) (صحیح)
(پہلا فقرہ إن الله اصطفى من ولد إبراهيم إسماعيل کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے ،اس سند میں محمد بن مصعب صدوق کثیر الغلط راوی ہیں، اور آگے آنے والی حدیث میں یہ پہلا فقرہ نہیں ہے، اس لیے یہ ضعیف ہے ، الصحیحۃ ۳۰۲)
۳۶۰۵- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا ۱؎ اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے بنی کنانہ کا، اور بنی کنانہ میں سے قریش کا، اور قریش میں سے بنی ہاشم کا، اور بنی ہاشم میں سے میراانتخاب فرمایا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : صحیح مسلم میں اگلی حدیث کی طرح یہ ٹکڑا نہیں ہے، یہ محمدبن مصعب کی روایت سے ہے جوکثیرالغلط ہیں،اس لیے یہ ضعیف ہے، معنی کے لحاظ سے بھی یہ ٹکڑاصحیح نہیں ہے،اس سے دوسرے ان انبیاء کی نسب کی تنقیص لازم آتی ہے، جواسحاق علیہ السلام کی نسل سے ہیں، اس کے بعد والے اجزاء میں اس طرح کی کوئی بات نہیں اس حدیث سے نبی کریم محمدبن عبداللہ عبدالمطلب کے سلسلہ نسب کے شروع سے اخیرتک اشرف نسب ہونے پرروشنی پڑتی ہے ، نبی قوم کے اشرف نسب ہی میں مبعوث ہوتاہے، تاکہ کسی کے لیے کسی بھی مرحلے میں اس کی اعلیٰ نسبی اس نبی پر ایمان لانے میں رکاوٹ نہ بن سکے ، یہ بھی اللہ کی اپنے بندوں پرایک طرح کی مہربانی ہی ہے کہ اس کے اپنے وقت کے نبی پرایمان لانے میں کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ سی بات رکاوٹ نہ بن سکے، فالحمدللہ الرحمن الرحیم ۔


3606- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنِي وَاثِلَةُ بْنُ الأَسْقَعِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ وَاصْطَفَى هَاشِمًا مِنْ قُرَيْشٍ وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح) (الصحیحۃ ۳۰۲)
۳۶۰۶- واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے کنانہ کا انتخاب فرمایا اور کنانہ سے قریش کا اور قریش میں سے ہاشم کا اور بنی ہاشم میں سے میراانتخاب فرمایا''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔


3607- حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُاللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ قَالَ: قُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنَّ قُرَيْشًا جَلَسُوا فَتَذَاكَرُوا أَحْسَابَهُمْ بَيْنَهُمْ؛ فَجَعَلُوا مَثَلَكَ مَثَلَ نَخْلَةٍ فِي كَبْوَةٍ مِنَ الأَرْضِ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِهِمْ مِنْ خَيْرِ فِرَقِهِمْ، وَخَيْرِ الْفَرِيقَيْنِ، ثُمَّ تَخَيَّرَ الْقَبَائِلَ؛ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ قَبِيلَةٍ، ثُمَّ تَخَيَّرَ الْبُيُوتَ؛ فَجَعَلَنِي مِنْ خَيْرِ بُيُوتِهِمْ؛ فَأَنَا خَيْرُهُمْ نَفْسًا وَخَيْرُهُمْ بَيْتًا".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ هُوَ ابْنُ نَوْفَلٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف، وانظر مایأتي (تحفۃ الأشراف: ۵۱۳۰) (ضعیف)
(سندمیں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہیں)
۳۶۰۷- عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! قریش کے لوگ بیٹھے اور انہوں نے قریش میں اپنے حسب کا ذکر کیا تو آپ کی مثال کھجور کے ایک ایسے درخت سے دی جو کسی کوڑے خانہ پر (اگا) ہوتو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:'' اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا، اس نے اس میں سے دوگروہوں کو پسند کیا ، اور مجھے ان میں سب سے اچھے گروہ (یعنی اولاد اسماعیل) میں پیدا کیا ، پھر اس نے قبیلوں کو چنا اور مجھے بہتر قبیلے میں سے کیا، پھر گھروں کو چنا اور مجھے ان گھروں میں سب سے بہتر گھر میں کیا، تو میں ذاتی طورپر بھی ان میں سب سے بہتر ہوں اور گھرانے کے اعتبار سے بھی بہتر ہوں''۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔


3608- حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَكَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ: "مَنْ أَنَا؟" فَقَالُوا: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْكَ السَّلامُ، قَالَ: "أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْخَلْقَ؛ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ؛ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ؛ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوتًا؛ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَفْسًا". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَرُوِي عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۵۳۲ (ضعیف)
۳۶۰۸- مطلب بن ابی وداعہ کہتے ہیں کہ عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے، گویا انہوں نے کوئی چیز سنی تھی، تو نبی اکرم ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا:'' میں کون ہوں؟ لوگوں نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں سلامتی ہو آپ پر، آپ نے فرمایا:'' میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں ، اللہ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے ان کے سب سے بہتر مخلوق میں کیا، پھر ان کے دوگروہ کئے تو مجھے ان کے بہتر گروہ میں کیا،پھرانہیں قبیلوں میں بانٹا تو مجھے ان کے سب سے بہتر قبیلہ میں کیا، پھر ان کے کئی گھر کیے تو مجھے ان کے سب سے بہتر گھر میں کیا اور شخصی طورپر بھی مجھے ان میں سب سے بہتر بنایا''۔امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے،۲- جس طرح اسماعیل بن ابی خالد نے یزید بن ابی زیاد سے اور یزید بن ابی زیاد نے عبداللہ بن حارث کے واسطہ سے عباس بن عبدالمطلب سے روایت کی ہے اسی طرح سفیان ثوری نے بھی یزید بن ابی زیاد سے روایت کی ہے۔(وہ یہی روایت ہے)۔


3609- حَدَّثَنَا أَبُو هَمَّامٍ الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: "وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي الْبَاب عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۵۳۹۷) (صحیح)
۳۶۰۹- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول ! نبوت آپ کے لیے کب واجب ہوئی؟ تو آپ نے فرمایا:'' جب آدم روح اورجسم کے درمیان تھے'' ۱؎ ۔( یعنی ان کی پیدائش کی تیاری ہورہی تھی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں،۲- اس باب میں میسرہ فجر سے بھی روایت آئی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہی وہ مشہورحدیث ہے جس کی تشریح میں اہل بدعت حدسے زیادہ غلو کا شکارہوئے ہیں حتی کہ دیگرانبیاء علیہم السلام کی تنقیص تک بات جاپہنچی ہے، حالانکہ اس میں صرف اتنی بات بیان ہوئی ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے میرے لیے نبوت کا فیصلہ (بطورتقدیر) کردیاگیا تھا، ظاہربات ہے کہ کسی کے لیے کسی بات کا فیصلہ روز ازل میں اللہ نے لکھ دیا تھا، اورروز ازل آدم علیہ السلام پیدائش سے پہلے، اس حدیث کے ثابت الفاظ یہی ہیں باقی دوسرے الفاظ ثابت نہیں ہیں جیسے ''کنت نبیا وآدم بین الماء والطین''(میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ابھی اورمٹی کے درمیان تھے) اسی طرح ''کنت نبیاولاماء ولا طین''(میں اس وقت نبی تھاجب نہ پانی تھانہ مٹی، یعنی تخلیق کائنات سے پہلے ہی میں نبی تھا)ان الفاظ کے بارے میں علماء محدثین نے ''لا اصل لہ'' فرمایاہے، یعنی ان الفاظ کے ساتھ اس حدیث کی کوئی صحیح کیا غلط سند تک نہیں اللہ غلو سے بچائے ۔


3610- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ خُرُوجًا إِذَا بُعِثُوا، وَأَنَا خَطِيبُهُمْ إِذَا وَفَدُوا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوا لِوَائُ الْحَمْدِ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي، وَأَنَا أَكْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَى رَبِّي وَلا فَخْرَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۸۳۱) (ضعیف)
(سندمیں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں)
۳۶۱۰- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جب لوگ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے تو میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی اور جب وہ دربار الٰہی میں آئیں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا، اور جب وہ مایوس اور ناامید ہوجائیں گے تو میں انہیں خوش خبری سنانے والا ہوں گا، حمد کا پرچم اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا، اور میں اپنے رب کے نزدیک اولاد آدم میں سب سے بہتر ہوں اور یہ کوئی فخر کی بات نہیں ''۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔


3611- حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَبْدُالسَّلاَمِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ فَأُكْسَى حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ الْخَلاَئِقِ يَقُومُ ذَلِكَ الْمَقَامَ غَيْرِي".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۳۵۵۶) (ضعیف)
(سند میں حسین بن یزیدکوفی، لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں )
۳۶۱۱- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہوگی پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کے داہنی جانب کھڑا ہوں گا، میرے علاوہ وہاں مخلوق میں سے کوئی اور کھڑا نہیں ہوسکے گا''۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔


3612- حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي سُلَيْمٍ، حَدَّثَنِي كَعْبٌ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "سَلُوا اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا الْوَسِيلَةُ؟ قَالَ: "أَعْلَى دَرَجَةٍ فِي الْجَنَّةِ لا يَنَالُهَا إِلا رَجُلٌ وَاحِدٌ أَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَكَعْبٌ لَيْسَ هُوَ بِمَعْرُوفٍ، وَلا نَعْلَمُ أَحَدًا رَوَى عَنْهُ غَيْرَ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۴۲۹۵) (صحیح)
(سندمیں لیث بن ابی سلیم ضعیف، اور کعب مدنی مجہول راوی ہیں، لیکن حدیث نمبر ۳۶۱۴ سے تقویت پاکریہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
۳۶۱۲- ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' اللہ سے میرے لیے وسیلہ کا سوال کرو، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! وسیلہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا:'' یہ جنت کا سب سے اونچا درجہ ہے جسے صرف ایک ہی شخص پاسکتاہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں گا '' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث غریب ہے، اس کی سندزیادہ قوی نہیں ہے،۲- کعب غیر معروف شخص ہیں، ہم لیث بن سلیم کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے ہیں جس نے ان سے روایت کی ہو۔
وضاحت ۱؎ : اس حدیث میں مذکورہ ''وسیلہ''سے وہی وسیلہ مرادہے ، جس کی دعاء ایک امتی نبی کریم ﷺکے لیے ہراذانکے بعدکرتاہے، ''اللہم آت محمد االوسیلۃ''(اے اللہ ! محمد ﷺکو وسیلہ عطافرمااس حدیث میں آپ نے جو امت کو اپنے لیے وسیلہ طلب کرنے کے لیے فرمایا خود ہی اس طلب کو اذان کی بعدوالی دعاء میں کردیا، اذان سے باہربھی آدمی نہ دعاء کرسکتاہے ، یہ دعاکرنے سے خود آدمی کو دعاء کا ثواب ملا کرے گا ، آپ کو تووسیلہ عطاکیا جانے والا ہی ہے، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ اس سے سرفرازہونے والا میں ہی ہوں گا تویقینا آپ ہی ہوں گے، اس حدیث سے آپ کی فضیلت واضح طورپر ظاہرہورہی ہے ۔


3613- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: "مَثَلِي فِي النَّبِيِّينَ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا؛ فَأَحْسَنَهَا، وَأَكْمَلَهَا، وَأَجْمَلَهَا، وَتَرَكَ مِنْهَا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ؛ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِالْبِنَائِ، وَيَعْجَبُونَ مِنْهُ، وَيَقُولُونَ: لَوْ تَمَّ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ، وَأَنَا فِي النَّبِيِّينَ مَوْضِعُ تِلْكَ اللَّبِنَةِ".
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۳۲)، وحم (۵/۱۳۷) (صحیح)
3613/أ- وَبِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ كُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّينَ، وَخَطِيبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: انظر ماقبلہ (صحیح)
۳۶۱۳- ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' انبیاء میں میری مثال ایک ایسے آدمی کی ہے جس نے ایک گھر بنایا اور اسے بہت اچھابنایا، مکمل اور نہایت خوبصورت بنایا، لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، لوگ اس میں پھرتے تھے اور ا س کی خوبصورتی کو دیکھ کر تعجب کرتے تھے اور کہتے تھے، کا ش اس اینٹ کی جگہ بھی پوری ہوجاتی، تو میں نبیوں میں ایسے ہی ہوں جیسی خالی جگہ کی یہ اینٹ ہے''۔
۳۶۱۳/أ- اور اسی سند سے نبی اکرم ﷺ سے مروی ہے آپ نے فرمایا:'' جب قیامت کا دن ہوگا تو میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب ہوں گا اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور (اوراس پرمجھے) کوئی گھمنڈنہیں'' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہ حدیث منجملہ ان احادیث کے ہے جن سے قطعی طورپر ثابت ہوتاہے کہ آپ ہی آخری نبی ہیں، آپ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہے ، توفرمایاکہ ''میں وہ آخری اینٹ ہوں اب اس اینٹ کے جگہ پُرجانے کے بعد کسی اوراینٹ کی ضرورت ہی کیا رہ گئے شاعرنے اس حدیث کی کیا خوب ترجمانی کی ہے: قصرِ ہدیٰ کے آخری پتھرہیں مصطفی ۔


3614- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ أَخْبَرَنَا كَعْبُ بْنُ عَلْقَمَةَ سَمِعَ عَبْدَالرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عَمْرٍو أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ ﷺ يَقُولُ: "إِذَا سَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا لِيَ الْوَسِيلَةَ فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لا تَنْبَغِي إِلا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ وَمَنْ سَأَلَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ مُحَمَّدٌ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرٍ هَذَا قُرَشِيٌّ مِصْرِيٌّ مَدَنِيٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ شَامِيٌّ.
* تخريج: م/الصلاۃ ۷ (۳۴۸)، د/الصلاۃ ۳۶ (۵۲۳)، ن/الأذان ۳۷ (۶۷۹) (تحفۃ الأشراف: ۸۸۷۱)، وحم (۲/۱۶۸) (صحیح)
۳۶۱۴- عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ''جب تم موذن کی آواز سنو تو وہی کہو جو موذن کہتاہے ۱؎ پھر میرے اوپرصلاۃ( درود) بھیجوکیوں کہ جس نے میرے اوپر ایک بار درود بھیجا تو اللہ اس پر دس بار اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا، پھر میرے لیے وسیلہ مانگو کیوں کہ وہ جنت میں ایک (ایسا بلند) درجہ ہے جس کے لائق اللہ کے بندوں میں سے صرف ایک بندہ ہے اور میں امید کرتاہوں کہ وہ بندہ میں ہی ہوں اور جس نے میرے لیے (اللہ سے) وسیلہ مانگا تو اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی''۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،۲- محمدبن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: اس سند میں مذکور عبدالرحمن بن جبیر قرشی ، مصری اور مدنی ہیں اور نفیر کے پوتے عبدالرحمن بن جبیر شامی ہیں۔
وضاحت ۱؎ : سوائے''حي على الصلاة، حي على الفلاح''کے اس جواب میں کہا جائے گا، ''لا حول ولا قوة إلا بالله'' مطلب یہ ہے کہ مؤذن جو صلاۃ وفلاح کے لیے پکاررہاہے ، تواس پکارکا جواب ہم بندے بغیر اللہ کے عطاکردہ طاقت وتوفیق کے نہیں دے سکتے ، یعنی صلاۃ میں نہیں حاضرہوسکتے جب تک کہ اللہ کی مدداورتوفیق نہ ہو۔


3615- حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: "أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَائُ الْحَمْدِ، وَلا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الأَرْضُ وَلا فَخْرَ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
وَقَدْ رُوِيَ بِهَذَا الإِسْنَادِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
* تخريج: انظر حدیث رقم ۳۱۴۸ (صحیح)
۳۶۱۵- ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور میرے ہاتھ میں حمد کا پرچم ہوگا اور اس پرمجھے گھمنڈنہیں ، اور آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی علیہم السلام ہوں گے سب میرے پرچم کے نیچے ہوں گے، اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جس کے لیے زمین شق ہوگی ، اور سب سے پہلے قبرسے میں اٹھوں گا اوراس پر مجھے گھمنڈنہیں'' ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں:۱- اس حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے، ۲-اسے اسی سند سے ابونضرہ سے روایت ہے، وہ اسے ابن عباس کے واسطہ سے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یہ تمام باتیں نبی اکرمﷺکی دیگرانبیاء پرفضیلت پردلالت کرتی ہیں۔گھمنڈ اس لیے نہیں کہ یہ سب کچھ اللہ عزوجل کے خاص فضل وانعام سے ہوگا


3616- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِالْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَنْتَظِرُونَهُ قَالَ: فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاكَرُونَ فَسَمِعَ حَدِيثَهُمْ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَجَبًا إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ: اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيلاً اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ كَلاَمِ مُوسَى؟ كَلَّمَهُ تَكْلِيمًا وَقَالَ آخَرُ: فَعِيسَى كَلِمَةُ اللَّهِ، وَرُوحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ؛ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ؛ فَسَلَّمَ، وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ كَلامَكُمْ، وَعَجَبَكُمْ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلُ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ، وَمُوسَى نَجِيُّ اللَّهِ وَهُوَ كَذَلِكَ وَعِيسَى رُوحُ اللَّهِ، وَكَلِمَتُهُ وَهُوَ كَذَلِكَ وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللَّهُ وَهُوَ كَذَلِكَ أَلاَ وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ، وَلاَ فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَائِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلاَ فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّكُ حِلَقَ الْجَنَّةِ؛ فَيَفْتَحُ اللَّهُ لِي؛ فَيُدْخِلُنِيهَا، وَمَعِي فُقَرَائُ الْمُؤْمِنِينَ، وَلاَ فَخْرَ، وَأَنَا أَكْرَمُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ وَلاَ فَخْرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۰۹۵) (ضعیف)
(سندمیں زمعہ بن صالح ضعیف راوی ہیں)
۳۶۱۶- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب میں سے کچھ لوگ بیٹھے آپ کے حجرے سے نکلنے کا انتظار کررہے تھے، کہتے ہیں: پھر آپ نکلے یہاں تک کہ جب آپ ان کے قریب آئے تو انہیں آپس میں بحث کرتے سنا، آپ نے ان کی باتیں سنیں ، کوئی کہہ رہاتھا، تعجب ہے اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا ، دوسرے نے کہا: موسیٰ سے اس کا کلام کرنا کتنا زیادہ تعجب خیز معاملہ ہے، اور ایک نے کہا: عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، اور ایک دوسرے نے کہا: آدم کو اللہ نے توچن لیا ہے، تو آپ نکل کر ان کے سامنے آئے اور انہیں سلام کیا اور فرمایا:'' میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور ابراہیم علیہ السلام کے خلیل اللہ ہونے پر تعجب میں پڑنے کوبھی، واقعی وہ ایسے ہی ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کے اللہ کے نجی اللہ ہو نے پر ،اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام کے کلمۃ اللہ اورروح اللہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں اور آدم کے اللہ کا برگزیدہ ہونے پر، اور وہ بھی واقعی ایسے ہی ہیں، سن لو! میں اللہ کا حبیب ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں، قیامت کے دن حمد کا پرچم میرے ہاتھ میں ہوگا اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں اور قیامت کے دن میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو شفاعت( سفارش) کرے گا اور جس کی شفاعت( سفارش) سب سے پہلے قبول کی جائے گی اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں اور میں پہلا وہ شخص ہوں گا جو جنت کی کنڈی ہلائے گاتو اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا، پھر وہ مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں اور میں اگلوں اور پچھلوں میں سب سے زیادہ معزز ہوں اور اس پر مجھے گھمنڈنہیں۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔


3617- حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ سَلْمُ بْنُ قُتَيْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبُومَوْدُودٍ الْمَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ سَلامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَصِفَةُ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ؛ فَقَالَ أَبُومَوْدُودٍ: وَقَدْ بَقِيَ فِي الْبَيْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ. هَكَذَا قَالَ: عُثْمَانُ بْنُ الضَّحَّاكِ: وَالْمَعْرُوفُ الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ الْمَدَنِيُّ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۵۳۳۶) (ضعیف)
(سندمیں عثمان بن ضحاک ضعیف راوی ہیں)
۳۶۱۷- عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تورات میں محمد ﷺ کے احوال لکھے ہوئے ہیں اور یہ بھی کہ عیسیٰ بن مریم انہیں کے ساتھ دفن کئے جائیں گے ۔ ابوقتیبہ کہتے ہیں کہ ابومودود نے کہا: حجرہ ٔ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے ۱؎ ۔امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، سند میں راوی نے عثمان بن ضحاک کہا اور مشہور ضحاک بن عثمان مدنی ہے۔
وضاحت ۱؎ : اس معنی کی کئی احادیث واردہیں، مگرسب پر کلام ہے ، اورمطلب یہ ہے کہ قرب قیامت میں جب عیسی علیہ السلام نازل ہوں گے ، تو پینتالیس زندہ رہ کر جب وفات پائیں گے تو قبرنبوی کے پاس دفن ہوں گے ، واللہ اعلم۔


3618- حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي دَخَلَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ الْمَدِينَةَ أَضَائَ مِنْهَا كُلُّ شَيْئٍ فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَظْلَمَ مِنْهَا كُلُّ شَيْئٍ، وَلَمَّا نَفَضْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ الأَيْدِي، وَإِنَّا لَفِي دَفْنِهِ حَتَّى أَنْكَرْنَا قُلُوبَنَا.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: ق/الجنائز ۶۵ (۱۶۳۱) (تحفۃ الأشراف: ۲۶۸) (صحیح)
۳۶۱۸- انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ ﷺ (پہلے پہل) مدینہ میں د اخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پر نور ہوگئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہرچیز تاریک ہوگئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل بدل گئے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : یعنی ان میں وہ نور ایمان باقی نہیں رہا جو آپ کی زندگی میں تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
2-بَاب مَا جَاءَ فِي مِيلاَدِ النَّبِيِّ ﷺ
۲-باب: نبی اکرم ﷺکی پیدائش کے وقت کابیان​


3619- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَامَ الْفِيلِ وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمَرَ بْنِ لَيْثٍ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: أَكْبَرُ مِنِّي وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيلاَدِ وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَامَ الْفِيلِ وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَى الْمَوْضِعِ قَالَ: وَرَأَيْتُ خَذْقَ الطَّيْرِ أَخْضَرَ مُحِيلاً.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَاحَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۱۱۰۶۴) (ضعیف الإسناد)
(سندمیں مطلب لین الحدیث راوی ہیں)
۳۶۱۹- قیس بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں واقعہ فیل ۱؎ کے سال پیداہوئے ، وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم ( جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں ) سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟ توانہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں، میں آپ سے پہلے ہوں ۱؎ ، رسول اللہﷺ ہاتھی والے سال میں پیداہوئے ، میری ماں مجھے اس جگہ پرلے گئیں (جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں) تومیں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لیدبدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہوگئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف محمد بن اسحاق کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت ۱؎ : یعنی جس سال ابرہہ اپنے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ ڈھانے آیا تھا۔
وضاحت ۲؎ : کیا ہی مہذب انداز ہے کہ بے ادبی کا لفظ بھی استعمال نہ ہو اور مدعابھی بیان ہوجائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
3-بَاب مَا جَاءَ فِي بَدْئِ نُبُوَّةِ النَّبِيِّ ﷺ
۳-باب: نبی اکرم ﷺ کی نبوت کی ابتداء بیان​


3620- حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ أَبُو الْعَبَّاسِ الأَعْرَجُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ غَزْوَانَ أَبُو نُوحٍ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: خَرَجَ أَبُو طَالِبٍ إِلَى الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ فَلَمَّا أَشْرَفُوا عَلَى الرَّاهِبِ هَبَطُوا فَحَلُّوا رِحَالَهُمْ؛ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ الرَّاهِبُ، وَكَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ يَمُرُّونَ بِهِ فَلاَ يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ، وَلاَ يَلْتَفِتُ قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّونَ رِحَالَهُمْ؛ فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمْ الرَّاهِبُ حَتَّى جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ قَالَ: هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِينَ هَذَا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَبْعَثُهُ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ فَقَالَ لَهُ: أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ مَا عِلْمُكَ فَقَالَ: إِنَّكُمْ حِينَ أَشْرَفْتُمْ مِنْ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ، وَلاَ حَجَرٌ إِلاَّ خَرَّ سَاجِدًا، وَلاَ يَسْجُدَانِ إِلاَّ لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوفِ كَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَّاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ؛ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَكَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الإِبِلِ قَالَ: أَرْسِلُوا إِلَيْهِ؛ فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ؛ فَلَمَّا دَنَا مِنْ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوهُ إِلَى فَيْئِ الشَّجَرَةِ؛ فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيْئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ فَقَالَ: انْظُرُوا إِلَى فَيْئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ قَائِمٌ عَلَيْهِمْ وَهُوَ يُنَاشِدُهُمْ أَنْ لا يَذْهَبُوا بِهِ إِلَى الرُّومِ؛ فَإِنَّ الرُّومَ إِذَا رَأَوْهُ عَرَفُوهُ بِالصِّفَةِ؛ فَيَقْتُلُونَهُ؛ فَالْتَفَتَ فَإِذَا بِسَبْعَةٍ قَدْ أَقْبَلُوا مِنْ الرُّومِ؛ فَاسْتَقْبَلَهُمْ فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكُمْ؟ قَالُوا: جِئْنَا إِنَّ هَذَا النَّبِيَّ خَارِجٌ فِي هَذَا الشَّهْرِ؛ فَلَمْ يَبْقَ طَرِيقٌ إِلاَّ بُعِثَ إِلَيْهِ بِأُنَاسٍ، وَإِنَّا قَدْ أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بُعِثْنَا إِلَى طَرِيقِكَ هَذَا فَقَالَ: هَلْ خَلْفَكُمْ أَحَدٌ هُوَ خَيْرٌ مِنْكُمْ قَالُوا: إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بِطَرِيقِكَ هَذَا قَالَ: أَفَرَأَيْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَقْضِيَهُ هَلْ يَسْتَطِيعُ أَحَدٌ مِنْ النَّاسِ رَدَّهُ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَبَايَعُوهُ، وَأَقَامُوا مَعَهُ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ أَيُّكُمْ وَلِيُّهُ قَالُوا: أَبُو طَالِبٍ فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّى رَدَّهُ أَبُو طَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوبَكْرٍ بِلاَلاً، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنْ الْكَعْكِ وَالزَّيْتِ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ؛ لاَ نَعْرِفُهُ إِلاَّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۹۱۴۱) (صحیح)
(لیکن اس واقعہ میں بلال کا تذکرہ صحیح نہیں ہے)
۳۶۲۰- ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوطالب شام کی طرف (تجارت کی غرض سے) نکلے، نبی اکرم ﷺبھی قریش کے بوڑھوں میں ان کے ساتھ نکلے،جب یہ لوگ بحیرہ راہب کے پاس پہنچے تو وہیں پڑاؤ ڈال دیا اور اپنی سواریوں کے کجاوے کھول دیے ،تو راہب اپنے گرجا گھر سے نکل کر ان کے پاس آیا حالاں کہ اس سے پہلے یہ لوگ اس کے پاس سے گزرتے تھے، لیکن وہ کبھی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتاتھا، اور نہ ان کے پاس آتاتھا، کہتے ہیں :تو یہ لوگ اپنی سواریاں ابھی کھول ہی رہے تھے کہ راہب نے ان کے بیچ سے گھستے ہوئے آکر رسول اللہ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا : یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے سردار ہیں، یہ سارے جہان کے رب کے رسول ہیں، اللہ انہیں سارے جہان کے لیے رحمت بناکر بھیجے گا، تواس سے قریش کے بوڑھوں نے پوچھا: تمہیں یہ کیسے معلوم ہوا؟ تو اس نے کہا: جب تم لوگ اس ٹیلے سے اترے تو کوئی درخت اور پتھر ایسا نہیں رہا جوسجدہ میں نہ گر پڑا ہو، اور یہ دونوں صرف نبی ہی کو سجدہ کیا کرتے ہیں، اور میں انہیں مہر نبوت سے پہچانتاہوں جو شانہ کی ہڈی کے سرے کے نیچے سیب کے مانند ہے، پھر وہ واپس گیا اور ان کے لیے کھانا تیار کیا ،جب وہ کھانا لے کر ان کے پاس آیا تو آپﷺ اونٹ چرانے گئے تھے تو اس نے کہا: کسی کو بھیج دوکہ ان کو بلا کر لائے، چنانچہ آپ آئے اور ایک بدلی آپ پر سایہ کئے ہوئے تھی، جب آپ لوگوں کے قریب ہوئے تو انہیں درخت کے سایہ میں پہلے ہی سے بیٹھے پایا، پھر جب آپ بیٹھ گئے تو درخت کا سایہ آپ پر جھک گیا اس پر راہب بول اٹھا: دیکھو! درخت کا سایہ آپ پرجھک گیا ہے، پھر راہب ان کے سامنے کھڑا رہا اور ان سے قسم دے کر کہہ رہاتھا کہ انہیں روم نہ لے جاؤ اس لیے کہ روم کے لوگ دیکھتے ہی انہیں ان کے اوصاف سے پہچان لیں گے اور انہیں قتل کرڈالیں گے، پھر وہ مڑا تو دیکھا کہ سات آدمی ہیں جو روم سے آئے ہوئے ہیں تو اس نے بڑھ کر ان سب کا استقبال کیا اور پوچھا آپ لوگ کیوں آئے ہیں؟ ان لوگوں نے کہا: ہم اس نبی کے لیے آئے ہیں جو اس مہینہ میں آنے والا ہے، اور کوئی راستہ ایسا باقی نہیں بچاہے جس کی طرف کچھ نہ کچھ لوگ نہ بھیجے گئے ہوں، اور جب ہمیں تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم تمہاری اس راہ پر بھیجے گئے ،تو اس نے پوچھا: کیا تمہارے پیچھے کوئی اورہے جو تم سے بہتر ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہمیں تو تمہارے اس راستہ پر اس کی خبر لگی تو ہم اس پر ہولیے اس نے کہا: اچھا یہ بتاؤ کہ اللہ جس امر کا فیصلہ فرمالے کیا لوگوں میں سے اسے کوئی ٹال سکتاہے؟ ان لوگوں نے کہا: نہیں ، اس نے کہا: پھر تم اس سے بیعت کرو، اور اس کے ساتھ رہو، پھر وہ عربوں کی طرف متوجہ ہوکر بولا: میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ تم میں سے اس کا ولی کون ہے؟ لوگوں نے کہا: ابوطالب ، تو وہ انہیں برابر قسم دلاتا رہا یہاں تک کہ ابوطالب نے انہیں واپس مکہ لوٹادیا اور ابوبکر نے آپ کے ساتھ بلال کو بھی بھیج دیا اور راہب نے آپ کو کیک اور زیتون کا توشہ دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
4-بَاب فِي مَبْعَثِ النَّبِيِّ ﷺ وَابْنُ كَمْ كَانَ حِينَ بُعِثَ
۴-باب: نبی اکرم ﷺ کی بعثت اور بعثت کے وقت آپ کی عمر کا بیان​


3621- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعِينَ فَأَقَامَ بِمَكَّةَ ثَلاَثَ عَشْرَةَ وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا، وَتُوُفِّيَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّينَ.
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/مناقب الأنصار ۲۸ (۳۸۵۱)، ۴۵ (۳۹۰۲، ۳۹۰۳) (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۷) (صحیح)
۳۶۲۱- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل کی گئی توآپ چالیس سال کے تھے، پھر آپ مکہ میں تیرہ سال تک رہے اور مدینہ میں دس سال تک، اور آپ کی وفات ہوئی تو آپ ترسٹھ (۶۳) سال کے تھے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


3622- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قُبِضَ النَّبِيُّ ﷺ وَهُوَ ابْنُ خَمْسٍ وَسِتِّينَ سَنَةً. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَرَوَى عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ مِثْلَ ذَلِكَ.
* تخريج: تفرد بہ المؤلف (تحفۃ الأشراف: ۶۲۲۷) (شاذ)
۳۶۲۲- عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ پینسٹھ (۶۵) سال کے تھے ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح سے ہم سے محمدبن بشار نے بیان کیاہے اوران سے محمد بن اسماعیل بخاری نے اسی کے مثل روایت کی ہے۔
وضاحت ۱؎ : یہی بات شاذہے، محفوظ بات یہ ہے کہ آپ ترسٹھ سال کے تھے جیساکہ پچھلی حدیث میں ہے ، ممکن ہے کسی نے پیدائش کے سال اوروفات کے سال کو پوراپورا ایک سال جوڑلیاہو، اوراس طرح پینسٹھ بتادیاہو؟۔


3623- حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ح و حَدَّثَنَا الأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أنَسًا يَقُولُ: لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلاَ بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَلاَ بِالأَبْيَضِ الأَمْهَقِ، وَلاَ بِالآدَمِ، وَلَيْسَ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ، وَلاَ بِالسَّبِطِ بَعَثَهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ أَرْبَعِينَ سَنَةً فَأَقَامَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرًا، وَتَوَفَّاهُ اللَّهُ عَلَى رَأْسِ سِتِّينَ سَنَةً، وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ، وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعْرَةً بَيْضَائَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: خ/المناقب ۲۳ (۳۵۴۷، و۳۵۴۸)، واللباس ۶۸ (۵۹۰۰)، م/الفضائل ۳۱ (۲۳۴۷) (تحفۃ الأشراف: ۸۳۳) (صحیح)
۳۶۲۳- انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نہ بہت لمبے قد والے تھے نہ بہت ناٹے اورنہ نہایت سفید ، نہ بالکل گندم گوں، آپ کے سر کے بال نہ گھنگرالے تھے نہ بالکل سیدھے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو چالیسویں سال کے شروع میں مبعوث فرمایا، پھر مکہ میں آپ دس برس رہے اور مدینہ میں دس برس اور ساٹھویں برس ۱؎ کے شروع میں اللہ نے آپ کو وفات دی اور آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہیں رہے ہوں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت ۱؎ : جن لوگوں نے یہ کہاہے کہ آپ ساتھ (۶۰) برس کے تھے ان لوگوں نے کسور عدد کو چھوڑ کر صرف دہائیوں کے شمار پر اکتفا کیا ہے، اور جن لوگوں نے یہ کہاہے کہ آپ پینسٹھ سال کے تھے تو ان لوگوں نے سن وفات اور سن پیدائش کوبھی شمارکرلیا ہے، لیکن سب سے صحیح قول ان لوگوں کا ہے جو ترسٹھ (۶۳) برس کے قائل ہیں، کیوں کہ ترسٹھ برس والی روایت زیادہ صحیح ہے ۔
 
Top