• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ، رفع یدین، جلسہ استراحت اور ایک گروہ کے حیلہ جات!!

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
مضمون نگار: محمد زبیر صادق آبادی
اصل مضمون: آپ خود فیصلہ کریں!
ماہنامہ الحدیث حضرو شمارہ نمبر 88

آپ خود فیصلہ کریں!

سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور اہل سنت کہلانے والے تمام فرقوں کا ان کے صحابی ہونے پر اتفاق ہے۔
انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز شروع کرتے وقت ، رکوع جاتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا بیان کیا ہے اور سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا عمل بھی اسی طرح تھا۔ (دیکھئے صحیح بخاری ج ۱ ص ۱۰۲ ، درسی نسخہ ، صحیح بخاری مترجم ظہور الباری ۱۷۴/۱)

آلِ دیوبند رکوع کے وقت رفع یدین نہیں کرتے اور اس رفع یدین کے متعلق کہتے ہیں کہ
یہ رفع یدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی دور میں کیا تھا
چنانچہ آل ِ دیوبند کے ’’شیخ‘‘ الیاس فیصل دیوبندی نے لکھا ہے:
’’رفع یدین کرنے کی روایات ابتدائی دور سے متعلق ہیں پھر ان سے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (نماز پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم ص ۱۷۴)
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ استراحت (یعنی طاق رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد تھوڑی دیر بیٹھنا) بھی بیان کیا ہے۔
اور سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل بھی اپنی بیان کردہ اسی حدیث کے مطابق تھا۔
(دیکھئے صحیح بخاری ۱/۱۱۳ درسی نسخہ ، صحیح بخاری مترجم ظہور الباری دیوبندی ۱/۴۱۰ اور خزائن السنن ۲/۱۱۴)

اور آل ِ دیوبند جلسہ استراحت بھی نہیں کرتے اور اس کے متعلق کہتے ہیں کہ
یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا
چنانچہ آلِ دیوبند کے ’’شیخ‘‘ الیاس فیصل دیوبندی نے لکھا ہے:
’’ذخیرہ احادیث میں جلسہ استراحت کرنا ایک ذاتی کیفیت بڑھاپے کی وجہ سے تھا‘‘ (نماز پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم ص ۱۹۴)
آل ِ دیوبند کا اس بات پر اتفاق ہے کہ
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ صرف بیس روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں
، چنانچہ آل ِ دیوبند کے ’’امام‘‘ سرفراز خان صفدر نے کہا:
’’مالک بن حویرث کل بیس روز تک نبی علیہ الصلاۃ و السلام کی خدمت میں رہے۔ (بخاری ج ۱ ص ۸۸) ‘‘ (خزائن السنن ص ۳۸۵)
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے متعلق امین اوکاڑوی دیوبندی نے لکھا ہے:
’’بلکہ صحیح بخاری ص ۸۸، ص ۹۵، ج۱ پر صراحت ہے کہ وہ صرف بیس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے۔‘‘ (تجلیات صفدر ۲/۲۷۵)
آلِ دیوبند کے مناظر اسماعیل جھنگوی دیوبندی نے لکھا ہے:
’’ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کل بیس دن ٹھہرے۔ بیس دن کے بعد وطن واپس چلے گئے اور پھر دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملا۔ ‘‘ (تحفہ اہل حدیث ص ۱۰۶ حصہ دوم)
ظہور الباری دیوبندی نے رفع یدین کی احادیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’دوسری حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی جن کے بارے میں خود صحیح بخاری ج ۱ ص ۸۸ پر صراحت ہے کہ وہ صرف بیس راتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔‘‘ (تفہیم البخاری ۱/۳۷۵ ب)
قارئین کرام! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ آلِ دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کل بیس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے ہیں اور انہی بیس دنوں میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین اور جلسہ استراحت کرتے ہوئے دیکھا۔ آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دور صرف بیس دنوں پر مشتمل ہے۔
اگر ایسا نہیں اور یقیناً نہیں تو آلِ دیوبند کو چاہئے کہ پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر غور کر لیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ابتدا ء سے تمام انبیاء کا جس بات پر اتفاق رہا ہے وہ یہ ہے کہ جب حیاء نہ ہو تو جو چاہو کرو۔‘‘ (صحیح بخاری مترجم ۳/۴۳۰ ترجمہ ظہور الباری دیوبندی)
بیس دنوں میں تو ایسا ممکن ہی نہیں اگر بیس دنوں کو بیس سال بھی بنا لیا جائے تب بھی آلِ دیوبند کی بات صحیح ثابت نہیں ہو سکتی، کیونکہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اپنی بیان کردہ دونوں احادیث پر عمل پیرا بھی تھے۔
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
اس لیے تو سب کو ماننا پڑیگا کہ حدٰیث کو من وعن ماننا چاھیے احناف کا بیڑہ ان تاویلات نے توغرق کیاھے کبھی بڑھاپے کا تاویل کبھ کیا کبھی کیا بس اپنی امام کا مسلک ان کو ثابت کرنا ضروری ھوتا ھے اللہ معاف کریں جب ھم حنفی تھے تو ھم بھی ایسی ھی اپنی اماموں کیلیے تاویلات کرتے تھےکہ امام کا مسلک خراب نا ھو بس نعوذ باللہ
 

محمد زاہد بن فیض

سینئر رکن
شمولیت
جون 01، 2011
پیغامات
1,957
ری ایکشن اسکور
5,787
پوائنٹ
354
جزاک اللہ خیرا بھائی شاکر
اللہ آپ کے علم وعمل میں برکت عطافرمائے۔آمین
اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔آمین
ان کے ایک بہت بڑے عالم حبیب الرحمٰن کاندھلوی نے ایک کتاب ۔۔۔مذہبی داستانیں اور اُن کی حقیقت۔۔۔میں بریلویوں کی ایک گھڑی ہوئی حدیث انامن نوراللہ کلھم من نوری۔ کی روایت میں ایک راوی کو بہت ہی جھوٹا قرار دیا اور بہت اچھے دلائل دیئے ۔لیکن جب انھوں نے اہل حدیثوں کے خلاف ایک چھوٹا پمفلٹ لکھا۔۔جو فاتحہ خلف الامام ۔۔کے خلاف تھا۔ تو اُسی راوی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے۔
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈھ خضر کا سودا بھی چھوڑدے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
آج دارالافتاء دیوبند کی سائٹ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ تو معلوم ہوا کہ درج بالا مضمون میں پیش کئے گئے سوال کا جواب بھی وہاں موجود ہے۔ پہلے یہ سوال و جواب ملاحظہ کریں:

لنک
سوال:
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع جاتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع یدین کرنا بیان کیا ہے ( صحیح بخاری)۔ ہم اپنے علماء سے سنتے آئے ہیں کہ یہ رفع یدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی دور میں کیا تھا۔ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ استراحت (یعنی طاق رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد تھوڑی دیر بیٹھنا) بھی بیان کیا ہے۔ ( صحیح بخاری) ہم نے اپنے علماء سے سنا ہے کہ یہ فعل(یعنی طاق رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد تھوڑی دیر بیٹھنا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا۔ مولانا سرفراز خان صفدر نے فرمایا ہے کہ مالک بن حویرث کل بیس روز تک نبی علیہ الصلاة و السلام کی خدمت میں رہے۔ (بخاری ج ص ) (خزائن السنن ص )۔سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کل بیس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے ہیں اور انہی بیس دنوں میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین اور جلسہ استراحت کرتے ہوئے دیکھا۔ہم ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے ؟
جواب:
فتوی(ل): 431=228-3/1433

یہ بات صحیح ہے کہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین ابتدائی دور میں کیا تھا، اس کی دلیل یہ ہے کہ احادیث کا جائزہ لینے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ شروع شروع میں سات جگہوں پر رفع یدین کیا جاتا تھا
(۱) صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ۔(۲) رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت (۳) سجدے میں جاتے وقت (۴) دونوں سجدوں کے درمیان (۵) دوسری رکعت کے شروع میں (۶) تیسری رکعت کے شروع میں (۷) ہراونچ نیچ پر، مذکورہ سات جگہوں میں سے پانچ جگہوں میں قائلین رفع بھی تسلیم کرتے ہیں کہ رفع یدین منسوخ ہوگیا، نیز روایات کا جائزہ لینے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پہلے نماز میں بہت سی چیزیں جائز تھیں جو بعد میں منسوخ کردی گئیں، پہلے نماز میں سلام کا جواب دینا بھی جائز تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نماز کے سکون کے منافی قرار دیا، دوسری طرف دوامِ رفع کی کوئی دلیل نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ہرنماز میں رفعِ یدین کیا ہو، اور ترک رفع کے بہت سے دلائل ہیں اسی وجہ سے خلفائے راشدین اور دیگر اکابر صحابہ بھی ترکِ رفع کے قائل تھے۔ کما في إعلاء السنن اور امام مالک رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تکبیر تحریمہ کے سوا نماز کی کسی تکبیر میں میں رفع یدین نہیں جانتا نہ کسی جھکنے کے موقع پر اور نہ کسی اٹھنے کے موقع پر (مدونہ کبری: ۱/۷۱) اور کوفہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عساکر اسلام کی چھاوٴنی تھا، جس میں دیڑھ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم فروکش ہوئے اس میں ہمیشہ تمام فقہاء وعلماء ترکِ رفیع دین پر عمل پیرا رہے، تفصیل کے لیے دیکھیں ”اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم“: ۳۲۰۔ اورجلسہٴ استراحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا، یہ بات بھی صحیح ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بڑھاپے سے پہلے جلسہٴ استراحت نہ کرنا تھا، چنانچہ حضرت ابن مسعود، حضرت علی، حضرت ابوہریرہ اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے پیروں کے بل کھڑے ہوتے تھے: عن أبي ہریرة وعن ابن مسعود: أنہ کان ینہض في الصلاة علی صدور قدمیہ ولم یجلس أخرجہ ابن أبي شیبہ وأخرج نحوہ عن علي وکذا عن ابن عمر وابن الزبیر، وفي فتح القدیر: فقد اتفق أکابر الصحابة الذین کانوا أقرب إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أشد اقتفاء لأثرہ من مالک بن الحویرث علی خلاف ما قال فوجب تقدیمہ فیحمل ما رواہ علی حالة الکبر․ ”فتح القدیر: ۱/۳۱۴-۳۱۵، زکریا“ مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رفع یدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتدائی دور کا عمل تھا، پھر بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اور جلسہٴ استراحت آخری دور کا عمل تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا۔

واللہ تعالیٰ اعلم
خلاصہ یہ نکلا کہ:
1۔ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فقط بیس دن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہے۔
2۔ ان بیس دنوں میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین کرتے بھی دیکھا اور جلسہ استراحت کرتے بھی دیکھا۔
3۔ اس کے باوجود، رفع یدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی دور میں کیا تھا اور جلسہ استراحت آخری دور کا عمل تھا۔ گویا اس استدلال کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور بیس دنوں پر مشتمل ہے۔ اللہ اکبر۔

مفتی صاحب غالباً سوال ہی نہیں سمجھ پائے۔ خیر، جمشید صاحب سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر اظہار خیال فرمائیں۔
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
’’شیخ‘‘ الیاس فیصل دیوبندی نے لکھا ہے:
’’ذخیرہ احادیث میں جلسہ استراحت کرنا ایک ذاتی کیفیت بڑھاپے کی وجہ سے تھا‘‘ (نماز پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم ص ۱۹۴)
انا للہ وانا الیہ راجعون
یعنی اس کا مطلب ہے کہ میرے نبی کریمﷺ پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس وقت میں آپﷺ سے فعل کا صدور امت کےلیے ناقابل عمل ٹھہرتا ہے۔نعوذباللہ

آخر یہ کیسا نبی تھا؟ (نعوذباللہ) کہ ایک وقت تک اسی نبی(ﷺ) کے افعال واقوال امت کے لیے حجت ہوتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسی نبی(ﷺ) سے ایسے فعل کا صدور ہوا کہ وہ فعل امت کےلیے حجت نہیں ۔ بلکہ بقول مقلدین اس پر بڑھاپے کی چھاپ تھی۔

انا للہ وانا الیہ راجعون
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
جمشید
تلمیذ
ماں کی دعا
عابدالرحمٰن

آپ احباب سے توجہ کی درخواست ہے۔
میں ایک اور پوسٹ میں کچھ لکھنا چاہ رہا تھا کہ شاکربھائی کے طرح سے بلاوا آیا تو سوچا پہلے یہاں سے ہوتا آوں
زبانی معلومات کی بنیاد پر کچھ لکھ رہا ہوں ۔اگر اعداد و شمار غلط ہو تو کوئی بھائی تصحیح فرمادیں
جب لیلہ الاسراء کا واقعہ ہوا اور نماز فرض ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 51 یا 52 سال تھی۔ اگر ہم مثال کے طور پر وہ عرصہ لیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 57 یا 58 برس تھی تو یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری حصہ کہلائے گا لیکن یہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور ہی کہلائے گا کیوں کہ نماز کی فرضیت کو ابھی صرف 6 برس کے قریب ہوئے ہیں
یہاں صاحب مضون کو غلط فہمی اس لئیے ہوئی وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ اور نماز کے دور کو اکٹھا شروع کرتا ہیں۔
تو اگر یہ کہا گيا ہے
یہ رفع یدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی دور میں کیا تھا
یعنی نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور
اور ساتھ میں یہ کہا گيا ہے کہ یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور
تو یہ کوئی متضاد بات نہیں۔ اور یہ دو عمل بیک وقت ممکن ہیں ۔ اگر چہ آپ بیس دن کی بھی قید نہ لگائیں
انا للہ وانا الیہ راجعون
یعنی اس کا مطلب ہے کہ میرے نبی کریمﷺ پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس وقت میں آپﷺ سے فعل کا صدور امت کےلیے ناقابل عمل ٹھہرتا ہے۔نعوذباللہ

آخر یہ کیسا نبی تھا؟ (نعوذباللہ) کہ ایک وقت تک اسی نبی(ﷺ) کے افعال واقوال امت کے لیے حجت ہوتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اسی نبی(ﷺ) سے ایسے فعل کا صدور ہوا کہ وہ فعل امت کےلیے حجت نہیں ۔ بلکہ بقول مقلدین اس پر بڑھاپے کی چھاپ تھی۔

انا للہ وانا الیہ راجعون
ماشاء اللہ آپ حضرت تو اپنے آپ کو اھل حدیث کہتے ہیں اور حدیث پر عمل پیرا ہونے کا دعوی بھی ہے اور یہاں بھی آپ نے یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو قابل عمل نہیں سمجھتے ذرا بتایا گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک وقت میں چار سے زائد نکاح کیے توکیا آپ بھی اس طریقہ پر عمل کے جواز کا فتوی دیتے ہیں
 
Top