• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ، رفع یدین، جلسہ استراحت اور ایک گروہ کے حیلہ جات!!

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
1۔ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں تشریف لائے۔
2۔ فقط بیس دنوں کے لئے تشریف لائے۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلسہ استراحت کرتے دیکھا۔
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا۔ گویا رفع الیدین 9 ہجری تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اور امید ہے کہ آپ اتفاق کریں گے کہ 9 ہجری کا زمانہ "نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور" نہیں کہلایا جا سکتا۔ فھو المطلوب۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(۱) یہ بر حق ہے کہ : آپ ﷺ نے رفع یدین فرمایا ہے
(۲) یہ بھی برحق ہے کہ آپ ﷺ نے جلسہ استراحت فرمایا ہے
(۳) لیکن یہ بھی برحق ہے کہ آپ ﷺ نے جلسہ استرا حت اپنی عمر مبارک کے آخری دور میں کیا ہے
(۴) اور یہ بھی برحق ہے کہ آپ ﷺ نےشروع میں جلسہ استراحت نہیں فرمایا
(۵) اور یہ بھی برحق ہے کہ آپ ﷺ پرکبر سنی اور ضعف بھی آیا ہے (اس میں کسی کو بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ ﷺ بشر تھے اور یہ عین بشری تقاضا ہے کہ بچپن بھی آتا ہے جوانی بھی آتی بڑھاپا بھی آتا ہے اور موت بھی آتی ہے)
(۶) اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اس کبر سنی کی وجہ سے زمین کا سہارا لیا
(۷) اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے انتقال سجدتین کے وقت رفع یدین کیا ہے
(۸) اور یہ بھی تقریبا طے ہے کہ جلسہ استراحت کی روایات زیادہ تر سیدنا الک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں
(۹) اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ خلفائے راشدین کبارصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کاعمل ترکِ رفع کا تھا
(۱۰) اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ خلفائے راشدین کبارصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین جلسہ استراحت نہیں فرماتے تھے( مگر ضعف کی وجہ سے)
تو شاکر بھائی اگر یہاں تک میری بات صحیح ہے تو آگے کی بات کروں نہیں تو اللہ حافظ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
سرفراز خان صفدر صاحب کا استدلال اس حدیث سے ہے
حدثنا عبيد العجلي ، ثنا الحسن بن علي الحلواني ، ثنا عمران بن أبان ، ثنا مالك بن الحسن بن مالك بن الحويرث ، عن أبيه ، عن جده ، قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لعلي : " أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى " .
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مالک بن حویرث غزوہ تبوک کے لشکر کی روانگي کے موقع پر موجود تھے ۔ لیکن یہ طریق محتلف فیہ ہے اس اور اس کی صحت پر اختلاف ہے ۔ میں نے یہ حدیث اس لیے پیش نہ کی کیوں کہ یہ حدیث آپ کے نذدیک غالبا عمران بن ابان کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ لیکن اگر اس حدیث کو صحیح مان لیاجائے تو واقعی میں بات منطقی انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ کیسے ؟ میں بتاتا ہوں
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ وہ بیس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے ۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک میں شریک ہوئے اور صرف بیس دن رہے یہ نا ممکن ہے ۔ کیوں کہ غزوہ تبوک بیس دن پر محیط نہ تھا اور ظاہر ہے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بھی غزوہ تبوک میں شرکت سے پہلے آئے ہوں گے ۔ اگر ان کے بیس دن غزوہ تبوک کے موقع پر مانیں جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ غزوہ تبوک کے لئیے گئے اور معاذاللہ آدھے راستے سے واپس آگئے ۔ یہ بھی نا ممکن ہے جو کچھ صحابہ غزوہ تبوک سے رہ گئے تھے ان کا حال آپ کو معلوم ہے ۔
یہاں معاملہ شروع سے آخر تک احناف کے موقف کا ہے۔ لہٰذا اہلحدیث کا موقف پوچھنے سے فائدہ نہیں۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک یہ حدیث ضعیف بھی ہو تو ہمیں حرج نہیں، کیونکہ ہمارا ان دونوں باتوں پر عمل ہے جو حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے ثابت ہیں۔ پہلے تو یہ حوالہ دیجئے کہ سرفراز صاحب نے واقعی اس حدیث سے ہی استدلال کیا ہے۔ پھر بشرط صحت عرض ہے کہ یہ حدیث آپ کے اصول پر صحیح ہوگی تب ہی سرفراز صاحب نے اس سے دلیل لی، یا پھر یہ مانیں کہ وہ ضعیف و مختلف فیہ احادیث سے ، احادیث کے ضعف پر تنبیہ کئے بغیر، استدلال کرتے تھے؟

ویسے بھی اس مختلف فیہ طرق کے مدمقابل آپ کے پاس فقط قیاس ہی ہے۔ اگر اس کے مقابلے میں کوئی مستند و صحیح حدیث ہوتی تو جائز تھا کہ مختلف فیہ کو چھوڑ کر آپ صحیح حدیث کو لیتے۔ لیکن جب ضعیف کے مقابل قیاس ہو تو آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ احناف (کم سے کم قولاً) قیاس کو رد کر کے ضعیف کو قبول کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ کے اصول پر اس حدیث سے چھٹکارا ممکن نہیں الا یہ کہ آپ کسی قوی حدیث سے اس کے مخالف ثابت کر دیں۔ ورنہ یہ ماننا ہی ہوگا کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری کے آس پاس ہی تشریف لائے تھے۔

مزید یہ کہ یہی تحقیق فتح الباری میں بھی مذکور ہے:
سیدنا مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ بنو لیث کے وفد میں غزوہ تبوک کی تیاری کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تھے۔ فتح الباری (ج2 ص 110 تحت ح 628)
رہی آپ کے بلادلیل قیاسات کی بات کہ وہ غزوہ تبوک ضرور گئے ہوں گے اور اس لئے زیادہ دن رکے ہوں گے اور اس لئے ایک سے زائد مرتبہ حاضر ہوئے ہوں گے۔ تو ایک سے زائد مرتبہ حاضری والی بات کا جواب تو آگے ملاحظہ کیجئے۔ باقی قیاسات کے بارے میں عرض ہے کہ 9 ہجری کے دوران بہت سے وفود مدینہ آئے تھے جن میں بنو لیث بھی تھے۔ اور یہ سب وفود دین سیکھنے آئے تھے ۔ جہاد میں انہیں ساتھ لے جانے کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس اپنی قوم جا کر دین سکھانے کو کہا۔ اور آپ کے برعکس یہ بات ہمارا قیاس نہیں، بلکہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حق میں تو صحیح بخاری سے ثابت ہے:

عن مالک بن الحویرث رضی اللہ تعالی عنہ قال : أتینا النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم و نحن شیبۃ متقاربون فأقمنا عندہ عشرین یوما ولیلۃ وکان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رحیما رفیقا ، فلما ظن أنا قد اشتھینا أہلنا أو قد اشتقنا سألنا عمن ترکنا بعد نا فأخبرنا ہ فقال : اِرْجِعُوا اِلیٰ أہْلِیکُمْ فَأقِمُوْا فِیہِمْ وَعَلِّمُوہُمْ وَمُرُوْہُمْ وَ ذَکَرَ أشْیائَ أحْفَظُہَا أوْلاَ أحْفَظُہَا ، وَصَلُّوا کَمَا رَأ یتُمُوْنِی اُصَلِّی ، فَاِذَا حَضَرَتِ الصَّلٰوۃُ فَلْیوَذِّنْ لَکُمْ أحَدُکُمْ وَلَیؤُ مُّکُمْ أکْبَرُکُمْ ۔
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور ہم کچھ نو عمر جوان تھے ۔ ہم بیس دن و رات آپ کے پاس قیام پذیر رہے ۔ آپ بے حد مہربان اور شفیق تھے ، جب آپنے دیکھا کہ ہم گھر جانے کے خواہشمند ہیں تو آپ نے ہم سے ان لوگوں کا حال پوچھا جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے ۔ہم نے آپ کو سب کچھ بتا یا پس آپ نے حکم فرمایا : تم واپس لوٹ جاؤ اور انہی لوگوں میں رہو اور انہیں تعلیم دو اور نیکی کا حکم دو۔ اور چند باتیں آپ نے ارشاد فرمائیں مجھے یاد ہیں یا یاد نہیں رہیں ۔ جس طرح تم نے مجھے نماز پڑ ھتے دیکھا اسی طرح نماز پڑ ھنا ۔ اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور تم میں سے بڑ ا امام بنے ۔
۶۳۳۔ الجامع الصحیح للبخاری، الاذان ۱/ ۸۸
اس صحیح و صریح حدیث سے ساری باتیں ثابت ہو گئیں۔ کہ یہ لوگ فقط بیس دن و رات کے لئے آئے تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لوٹ جانے کو اور اپنی قوم کے لوگوں کو نماز سکھانے کا کہا تھا۔ اور یہ تک کہا کہ ویسے ہی نماز پڑھنا جیسے مجھے پڑھتے دیکھا۔ اگر جلسہ استراحت ضعف کی بنا پر مجبوراً کیا جانے والا فعل ہوتا تو اس کا استثناء ضرور فرما دیتے۔

دوسری اہم بات اس حدیث سے یہ ثابت ہوئی کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سمیت حاضر ہونے والے ان کی قوم کے دیگر لوگ ابھی نو عمر تھے۔ جیسا کہ سرفراز صفدر صاحب نے لکھا ہے:

''حضرت مالک بن حویرث نو عمر تھے اور صرف ٢٠ دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔ وہ اپنی کم عمری کی وجہ سے اس جلسہ استراحت کو نماز کا ایک فعل سمجھے اور اسی پر وہ عمل پیرا تھے۔''(خزائن السنن : ٢/١١٤)
وہ تو انہیں اتنا کم عمر بتاتے ہیں کہ جسے سمجھ ہی نہیں تھی کہ جلسہ استراحت کو نماز کا فعل سمجھ بیٹھے۔ اور آپ انہیں جہاد میں بھیج رہے ہیں؟ یہ تو ہوئے ہمارے "دلائل"۔ اس کے بالمقابل آپ اپنے قیاسات کے بجائے "دلائل" سے ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ غزوہ تبوک میں شامل ہوئے تھے یا ایک سے زائد مرتبہ حاضر ہوئے تھے؟؟
ویسے آپ کے قیاس کے بالمقابل ایک قیاس ہم بھی پیش کر سکتے ہیں۔ ہو سکے تو اس کا بھی جواب دیجئے۔ غزوہ تبوک سے کچھ قبل آنا اور فقط بیس دن کے لئے آنا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جب حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ واپس جا چکے ہوں تب غزوہ تبوک کی جانب روانگی ہوئی ہو۔ آخر درج بالا حدیث سے یہ طے ہے کہ یہ لوگ اپنی روانگی سے قبل تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے اور ایسا نہیں ہوا کہ غزوہ تبوک کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جا چکے ہوں اور یہ حضرات بعد میں اپنے گھر چلے گئے ہوں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ موجود تھے، تو اس کا مطلب غزوہ تبوک کی روانگی اس کے بعد ہی ہوئی ہوگی۔ واللہ اعلم۔


آس روایت کو صحیح ماننے کا واضح مطلب ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کم از کم دو مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور یہ نا ممکن بھی نہیں
سجدہ کے رفع الیدین کا تذکرہ کرتے ہوئے ہوئے الحافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے کہا ہے
على تقدير أن يكون ذكر الرفع محفوظا، ولم يكن قد اشتبه بذكر التكبير بالرفع -بأن مالك بن الحويرث ووائل بن حجر لم يكونا من أهل المدينة وإنما كانا قد قدما إليها مرة أو مرتين، فلعلهما رأيا النبي - صلى الله عليه وسلم - فعل ذَلِكَ مرة، وقد عارض ذَلِكَ نفيُ ابن عمر، مع شدة ملازمته للنبي - صلى الله عليه وسلم - وشدة حرصه على حفظ أفعاله واقتدائه به فيها، فهذا يدل على أن أكثر أمر النبي - صلى الله عليه وسلم - كان ترك الرفع فيما عدا المواضع الثلاثة والقيام من الركعتين، وقد روي في الرفع عند السجود وغيره أحاديثُ معلولة.... "ثم ذكر هذه الأحاديث وبين عللها [فتح الباري لابن رجب (].

اس کا مطلب ہے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا دو مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہونا بعید از قیاس نہیں
اب اگر مذکورہ بالا حدیث صحیح مان لیا جائے تو سرفراز صفدر صاحب کا استدلال درست قرار پائے گا اور واقعی بات منطقی انجام تک پہنچ پائے گي کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کم از کم دو مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
مجھے شدید حیرت ہے کہ آپ کس قدر متفرق باتیں پیش کر رہے ہیں۔ گزشتہ پوسٹس میں آپ نے دو مرتبہ حاضری کی کوئی بات نہیں کی۔ اور میرے اشارے کے باوجود آپ نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ اب سرفراز صاحب کے استدلال کو آپ درست قرار دے رہے ہیں، تو سرفراز صاحب ہی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فقط بیس دن کے لئے تشریف لائے تھے۔ آپ سرفراز صفدر صاحب سے ثابت کر دیں کہ وہ ایک سے زائد مرتبہ حاضر ہوئے، تو بھی کوئی بات ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ آپ کو فقط احتمالات اور ممکنہ صورتیں ہی پیش کرنی ہیں، نا دلائل دینے ہیں نا حوالہ جات مہیا کرنے ہیں۔

محترم، دو مرتبہ حاضری والی بات ممکن ہی نہیں۔ اول خود صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ وہ بیس دن و رات کے لئے تشریف لائے تھے۔
دوم، جہاں تک میں جانتا ہوں علمائے احناف میں سے کسی کی یہ تحقیق نہیں کہ وہ دو مرتبہ حاضر ہوئے۔ ہے تو پیش کیجئے۔
سوم، کئی دیوبندی علمائے کرام کے حوالہ جات پہلی پوسٹ میں پیش کئے جا چکے ہیں کہ وہ فقط بیس دن کے لئے تشریف لائے تھے۔ بلکہ اسماعیل جھنگوی صاحب نے تو صراحت کے ساتھ دوبارہ واپسی کی نفی بھی کی ہے:

’’ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کل بیس دن ٹھہرے۔ بیس دن کے بعد وطن واپس چلے گئے اور پھر دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملا۔ ‘‘ (تحفہ اہل حدیث ص ۱۰۶ حصہ دوم)
آپ سے گزارش ہے کہ فقط احتمالات و قیاسات پیش نہ کیجئے۔ اگر دلائل ہیں تو پیش کر کے بات آگے بڑھائیں۔ ورنہ تسلیم کر لیجئے کہ علمائے احناف سے اس معاملے میں کہیں نہ کہیں سنگین غلطی ضرور ہوئی ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ بار بار ایک غلط فہمی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ سوال یہ تھا

آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟
ایک تو جن صاحب کا مضمون آپ نے شائع کیا ہے وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں اگر ایسی غلط فہمی کا شکار ہو کر کسی دیوبندی نے یہ مضمون تحریر کیا ہوتا تو فورا خیانت کا الزام آجاتا ۔

علماء دیوبند کے اقتباس یہ ہیں

یہ رفع یدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی دور میں کیا تھا
جلسہ استراحت
یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا
اور صاحب مضمون نے لکھ دیا

آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں ۔
آخری دور کا عمل نہیں آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے عمل کہا

آپ کا اعتراض یہ ہے کہ

کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟
آپ کو کوئی ایک صورت بھی ممکن نظر نہیں آرہی اور میں کہ رہا ہوں کہ کئی صورت ممکن کی ہیں ۔ اور آپ کو یہی ممکنہ صورتیں بتارہا ہوں ۔ اب اصل میں کون سی ہوئی یہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔ مجھے آپ پر حیرت ہے کہ آپ کو بھی ایک بھی صورت ممکن نظر نہ آئی

یہ احتملات آپ کو صرف ممکنہ صورت دکھانے کے لئیے ہیں ۔ ان احتملات کی بنیاد پر کسی صحیح حدیث کی مخالفت نہیء کی جارہی ۔ جہاں تک احناف کے جلسہ استراحت اور رفع الیدین نہ کرنے کا تعلق ہے تو اس کے دلائل الگ ہیں وہ ہمارا موضوع نہیں

ویسے بھی اس مختلف فیہ طرق کے مدمقابل آپ کے پاس فقط قیاس ہی ہے۔ اگر اس کے مقابلے میں کوئی مستند و صحیح حدیث ہوتی تو جائز تھا کہ مختلف فیہ کو چھوڑ کر آپ صحیح حدیث کو لیتے۔ لیکن جب ضعیف کے مقابل قیاس ہو تو آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ احناف (کم سے کم قولاً) قیاس کو رد کر کے ضعیف کو قبول کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لہٰذا آپ کے اصول پر اس حدیث سے چھٹکارا ممکن نہیں الا یہ کہ آپ کسی قوی حدیث سے اس کے مخالف ثابت کر دیں۔ ورنہ یہ ماننا ہی ہوگا کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری کے آس پاس ہی تشریف لائے تھے۔


رہی آپ کے بلادلیل قیاسات کی بات کہ وہ غزوہ تبوک ضرور گئے ہوں گے اور اس لئے زیادہ دن رکے ہوں گے اور اس لئے ایک سے زائد مرتبہ حاضر ہوئے ہوں گے۔ تو ایک سے زائد مرتبہ حاضری والی بات کا جواب تو آگے ملاحظہ کیجئے۔ باقی قیاسات کے بارے میں عرض ہے کہ 9 ہجری کے دوران بہت سے وفود مدینہ آئے تھے جن میں بنو لیث بھی تھے۔ اور یہ سب وفود دین سیکھنے آئے تھے ۔ جہاد میں انہیں ساتھ لے جانے کے برعکس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں واپس اپنی قوم جا کر دین سکھانے کو کہا۔ اور آپ کے برعکس یہ بات ہمارا قیاس نہیں، بلکہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حق میں تو صحیح بخاری سے ثابت ہے:


اس صحیح و صریح حدیث سے ساری باتیں ثابت ہو گئیں۔ کہ یہ لوگ فقط بیس دن و رات کے لئے آئے تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لوٹ جانے کو اور اپنی قوم کے لوگوں کو نماز سکھانے کا کہا تھا۔ اور یہ تک کہا کہ ویسے ہی نماز پڑھنا جیسے مجھے پڑھتے دیکھا۔ اگر جلسہ استراحت ضعف کی بنا پر مجبوراً کیا جانے والا فعل ہوتا تو اس کا استثناء ضرور فرما دیتے۔

دوسری اہم بات اس حدیث سے یہ ثابت ہوئی کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سمیت حاضر ہونے والے ان کی قوم کے دیگر لوگ ابھی نو عمر تھے۔ جیسا کہ سرفراز صفدر صاحب نے لکھا ہے:



وہ تو انہیں اتنا کم عمر بتاتے ہیں کہ جسے سمجھ ہی نہیں تھی کہ جلسہ استراحت کو نماز کا فعل سمجھ بیٹھے۔ اور آپ انہیں جہاد میں بھیج رہے ہیں؟ یہ تو ہوئے ہمارے "دلائل"۔ اس کے بالمقابل آپ اپنے قیاسات کے بجائے "دلائل" سے ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ غزوہ تبوک میں شامل ہوئے تھے یا ایک سے زائد مرتبہ حاضر ہوئے تھے؟؟
ویسے آپ کے قیاس کے بالمقابل ایک قیاس ہم بھی پیش کر سکتے ہیں۔ ہو سکے تو اس کا بھی جواب دیجئے۔ غزوہ تبوک سے کچھ قبل آنا اور فقط بیس دن کے لئے آنا۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جب حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ واپس جا چکے ہوں تب غزوہ تبوک کی جانب روانگی ہوئی ہو۔ آخر درج بالا حدیث سے یہ طے ہے کہ یہ لوگ اپنی روانگی سے قبل تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے اور ایسا نہیں ہوا کہ غزوہ تبوک کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جا چکے ہوں اور یہ حضرات بعد میں اپنے گھر چلے گئے ہوں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ موجود تھے، تو اس کا مطلب غزوہ تبوک کی روانگی اس کے بعد ہی ہوئی ہوگی۔ واللہ اعلم۔
۔
اگر اوپر والی حدیث پر کو صحیح مان کر کے نتیجہ اخذ کیا جائے تو بات کچھ یوں بنتی ہے

غزوہ خیبر کے موفع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جب حضرت علی کرم اللہ وجہ کو اپنے غیر موجوگی میں امیر مقرر کیا تھا ۔ لشکر کی روانگي کے موقع پر حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے دیکھا کہ مدینہ میں خواتین ، بچے اور معذور افراد کو دیکھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ بشارت سنائی

أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى

یہ بشارت اس وقت سنائی گئی جب لشکر تشکیل ہو چکا تھا اور مدینہ سے روانہ ہو رہا تھا ۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اس بشارت کے راوی ہیں تو کیا وہ لشکر کو چھوڑ کر اپنے مقام کی طرف روانہ ہوگے تو ان دس صحابہ اور خصوصا ان تین صحابہ رضی اللہ عنہ اجمعین ایک ماہ سے زائد تک کیوں کرب میں مبتلا رہے جو لشکر میں شامل بھی نہ ہوئے تھے
اور مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ لشکر میں شامل ہو کر نکل گئے ۔ یہ ناممکن ہے۔

اس کا صاف مطلب ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ دو مرتبہ مدینہ آئے ۔ ایک ابتدائی دور میں اور غزوہ تبوک کے موقع پر لشکر میں شامل ہوئے اور ان گروہ میں سے نہ تھے جو غزوہ تبوک کی لشکر کی روانگي سے پہلے مدینہ سے جاچکے تھے بلکہ اس غزوہ تبوک والے لشکر میں شامل تھے

مجھے شدید حیرت ہے کہ آپ کس قدر متفرق باتیں پیش کر رہے ہیں۔ گزشتہ پوسٹس میں آپ نے دو مرتبہ حاضری کی کوئی بات نہیں کی۔ اور میرے اشارے کے باوجود آپ نے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔ اب سرفراز صاحب کے استدلال کو آپ درست قرار دے رہے ہیں، تو سرفراز صاحب ہی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فقط بیس دن کے لئے تشریف لائے تھے۔ آپ سرفراز صفدر صاحب سے ثابت کر دیں کہ وہ ایک سے زائد مرتبہ حاضر ہوئے، تو بھی کوئی بات ہے۔
میں نے تو چاہا تھا کہ جو بنیادیں ہم دونوں کی درمیان مشترک ہیں صرف انہی کے حوالہ سے بات کر کے آپ کو بتائوں کہ وہ امر کیسے ممکن ہو سکتا ہے جو آپ کو نا ممکن نظر آرہا ہے ۔ اس لئیے پہلا والا احتمال بتا یاگیا ۔اس لئیے میں دو مرتبہ والی حاضری والی بات نہ کی ، کیوں کہ اوپر غزوہ تبوک والی جو حدیث پیش کی وہ آپ حضرات کے نذدیک غالبا ضعیف ہے ۔
باقی یہ بات تو بالکل سمجھ سے بالا تر ہے میں صرف فلاں عالم کی حوالہ سے فلاں ثابت کروں
اور میں بار بار کہ رہا ہوں کہ میری تمام گذرارشات کا مقصد آپ کو وہ ممکن دکھانا ہو جو آپ کو نا ممکن نظر آرہا ہے۔ ۔
جو احتملات میں بتارہا ہوں اگر وہ آپ کو شریعت یا عقل کے خلاف لگ رہا ہے تو ثابت کریں ۔ میں دلیل تو تب دوں جب میں کہوں کہ بعینہ یہ وجہ ہوئی تھی ۔
مجھے حیرت ہے تو صاحب مضمون پر اتنے سارے احتملات کے باوجود اس کو ایک امر نا ممکن نظر آرہا ہے اور میں جو احتملات پیش کیے ۔ کیا وہ شرعا یا عقلا ناممکن ہیں ؟؟؟؟؟؟
بلکہ اسماعیل جھنگوی صاحب نے تو صراحت کے ساتھ دوبارہ واپسی کی نفی بھی کی ہے:


’’ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ وہ صحابی ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کل بیس دن ٹھہرے۔ بیس دن کے بعد وطن واپس چلے گئے اور پھر دوبارہ آنے کا موقع نہیں ملا۔ ‘‘ (تحفہ اہل حدیث ص ۱۰۶ حصہ دوم)
آپ سے گزارش ہے کہ فقط احتمالات و قیاسات پیش نہ کیجئے۔ اگر دلائل ہیں تو پیش کر کے بات آگے بڑھائیں۔ ورنہ تسلیم کر لیجئے کہ علمائے احناف سے اس معاملے میں کہیں نہ کہیں سنگین غلطی ضرور ہوئی ہے
یہ تو پرانی غلط فہمی ہے ہم اپنے علماء کی ہر بات بلا چون چرا تسلیم کر لیتے ہیں ۔ کسی بھی مسلک کے عالم سے اجتھادی غلطی ہو سکتی ہے ۔ یہ بات آپ بھی مانتے ہیں اور ہم بھی ۔ ہم میں اور آپ میں یہ فرق ہے اس اجتھادی غلطی پر اگر کوئی اس عالم سے بد زبانی کرتا ہے تو آپ خاموش رہتے ہیں اور ہم اس بدزبانی کا جواب دیتے ہیں ۔ اس تمھید کے بعد عرض ہے کہ اسماعیل جھنگوی صاحب نے جو حضرت مالک بن حویرث کے دوبارہ واپسی کی بات نقل کی ہے وہ کہیں سے بھی ثابت نہیں ۔ لیکن اگر ان کی بات درست مان لی جائے تو حضرت مالک بن حویرث رضي اللہ عنہ نے اگر ایک دفعہ ہی آئے تھے تو پھر بھی ممکن ہے دونوں عمل ان سے روایت ہوں اس کی وضاحت میں پوسٹ نمبر سولہ میں کرچکا ہوں
بات پھر سمجھنے کی کوشش کریں
رفع الیدین ابتدائی دور کا عمل تھا اور جلسہ استراحت آخری عمر کا بڑھاپے کی وجہ سے عمل نا کہ آخری دور کا عمل
اور آپ کا اعتراض
کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟
یہ کئي طرح سے ممکن ہے ۔ اور میں اھبی تک صرف دو طرح سے بتایا ہے ۔ آپ ان کو شرعا یا عقلا غلط ثابت کردیں ۔ آپ حضرات کا دعوی ہے کہ ایسی کوئی بھی صورت ممکن نہیں ۔ اور جب میں وہ صورتیں ذکر کر رہا ہوں تو رد کے بجائے جواب آرہا ہے کہ دلائل دو۔ دلائل کی بات جب آتی ہے میں ایک حتمی بات کروں کہ یہ ہوا تھا ۔ میں تو ایسے احتملات بتا رہا ہوں جو شرعا و عقلا ممکن ہیں ۔ اگر یہ احتمالات عقلا و شرعا نا ممکن ہیں تو دلائل سے رد کریں اور دعوی آپ حضرات کی طرف سے ہے ۔ جو دعوی کرتا ہے وہ دلائل دیتا ہے میرا یہ نقطہ سامنے رکھیں تو تو بات سمجھ آجائے گي
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
اس کا صاف مطلب ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ دو مرتبہ مدینہ آئے ۔ ایک ابتدائی دور میں اور غزوہ تبوک کے موقع پر لشکر میں شامل ہوئے اور ان گروہ میں سے نہ تھے جو غزوہ تبوک کی لشکر کی روانگي سے پہلے مدینہ سے جاچکے تھے بلکہ اس غزوہ تبوک والے لشکر میں شامل تھے
تلمیذ صاحب بڑی عجیب بات کرتے ہو صرف اپنے امام کی بات کو ثابت کرنے کیلئے ایڈی چوٹی کا زور لگا رہے ہو پہلی دفعہ کب آئے اور غزوہ تبوک میں انکے شامل ہونے کا کوئی حوالہ عنائت فرماؤ
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(۱) یہ بر حق ہے کہ : آپ ﷺ نے رفع یدین فرمایا ہے
(۲) یہ بھی برحق ہے کہ آپ ﷺ نے جلسہ استراحت فرمایا ہے
(۳) لیکن یہ بھی برحق ہے کہ آپ ﷺ نے جلسہ استرا حت اپنی عمر مبارک کے آخری دور میں کیا ہے
(۴) اور یہ بھی برحق ہے کہ آپ ﷺ نےشروع میں جلسہ استراحت نہیں فرمایا
(۵) اور یہ بھی برحق ہے کہ آپ ﷺ پرکبر سنی اور ضعف بھی آیا ہے (اس میں کسی کو بحث کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ ﷺ بشر تھے اور یہ عین بشری تقاضا ہے کہ بچپن بھی آتا ہے جوانی بھی آتی بڑھاپا بھی آتا ہے اور موت بھی آتی ہے)
(۶) اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اس کبر سنی کی وجہ سے زمین کا سہارا لیا
(۷) اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے انتقال سجدتین کے وقت رفع یدین کیا ہے
(۸) اور یہ بھی تقریبا طے ہے کہ جلسہ استراحت کی روایات زیادہ تر سیدنا الک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں
(۹) اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ خلفائے راشدین کبارصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کاعمل ترکِ رفع کا تھا
(۱۰) اور یہ بھی طے شدہ ہے کہ خلفائے راشدین کبارصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین جلسہ استراحت نہیں فرماتے تھے( مگر ضعف کی وجہ سے)
تو شاکر بھائی اگر یہاں تک میری بات صحیح ہے تو آگے کی بات کروں نہیں تو اللہ حافظ۔
آپکے آخری 2 پوائنٹ (9 اور 10) اس سے بالکل اتفاق نہیں ہے کیونکہ ان کی کوئی دلیل ہی نہیں ملتی اگر کوئی ثبوت ہے تو پیش فرماؤ
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
تلمیذ صاحب بڑی عجیب بات کرتے ہو صرف اپنے امام کی بات کو ثابت کرنے کیلئے ایڈی چوٹی کا زور لگا رہے ہو پہلی دفعہ کب آئے اور غزوہ تبوک میں انکے شامل ہونے کا کوئی حوالہ عنائت فرماؤ
اور آپ کا بس چلے تو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر حنفی مسلک کے فقہی امام کو غلط ثابت کیا جائے چاہے اس سے امت میں افتراق پیدا ہو ، آپ کی بلا سے

موضوع میں ایک بات کے متعلق تحریر کیا گيا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے ؟
پہلے آپ یہ بتائيں کہ کیا آپ کو بھی وہ نا ممکن نظر آرہا ہے جو صاحب مضمون کو نظر آیا ۔
پھر میری پوسٹ نمبر سولہ میں جو ممکنہ صورت بتائی کئی وہ آپ کے نذدیک عقلا و شرعا نا ممکن ہے ؟
اس میں صرف ان بنیادوں پر بات کی تھی جو ہم میں آور آپ میں متفق ہیں
جب آپ نے دو امور کے متعلق ذکر دیں گے تو آپ کے ساتھ بھی بات آگے بڑھائی جاسکتی ہے ۔
جہاں تک غزوہ تبوک کے حوالہ سے آپ کے سوال ہیں تو شاکر صاحب کے ایک سوال کے جواب میں کچھ عرض کیا گيا ہے ۔ اگر آپ ان کے سوال سے اتفاق کرتے ہیں تو اس کے متعلق بھی ان شاء اللہ عرض کر دیا جائے گا
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
آپکے آخری 2 پوائنٹ (9 اور 10) اس سے بالکل اتفاق نہیں ہے کیونکہ ان کی کوئی دلیل ہی نہیں ملتی اگر کوئی ثبوت ہے تو پیش فرماؤ
اس کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے
اور دوسرے میں صرف شاکر صاحب سے شرف کلامی چاہتا ہوں
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
آخری دور یا آخری عمر:
آپ کو اس معاملے میں خیانت کے تذکرہ کی ضرورت نہیں۔ اول تو ہمارے نزدیک بھی آخری دور سے آخری عمر ہی مراد ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ "جلسہ استراحت آخری دور کا عمل ہے" سے آخری عمر کے علاوہ بھی کوئی معنی مراد لئے جا سکتے ہیں۔ پھر علمائے دیوبند نے بھی دونوں طرح کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ پوسٹ 7 میں ایک فتویٰ پیش کیا گیا تھا، جس میں یہ الفاظ تھے۔

مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رفع یدین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابتدائی دور کا عمل تھا، پھر بعد میں منسوخ ہوگیا۔ اور جلسہٴ استراحت آخری دور کا عمل تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا۔
لہٰذا اس پر بات کر کے طول دینے کا کچھ فائدہ نہیں۔

بیس دنوں میں ممکن ہے؟
ہمارا اصل اعتراض یہ ہے کہ اگر رفع الیدین ابتدائی دور کا عمل ہے اور جلسہ استراحت آخری دور کا، تو حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے فقط بیس روز کی صحبت میں دونوں اعمال ایک ساتھ کیسے ملاحظہ کر لئے۔ اس پر جو آپ نے جوابات دئے ہیں۔ وہ نکتہ وار یہ ہیں:

1۔ ابتدائی دور سے مراد نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور ہے۔ ہمیں اس سے اتفاق ہے۔
2۔ آخری دور سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور ہے۔ ہمیں اس سے بھی اتفاق ہے۔
3۔ اب آپ پہلی ممکنہ صورت یہ بتلاتے ہیں کہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور تھا (یا ہوسکتا ہے)۔ (گویا یہ دونوں ادوار overlap کرتے ہیں)۔ اس سے ہمیں اتفاق نہیں۔ اگر آپ کی اس بات سے اتفاق کیا جائے، تو اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ:
۔ رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری عمر میں منسوخ کیا۔
۔ جلسہ استراحت نماز کی فرضیت کے ابتدائی دور سے ہی شروع کر دیا۔
کیا آپ درج بالا دونوں باتوں سے اتفاق کرتے ہیں؟
4۔ آپ دوسری ممکنہ صورت یہ بتلاتے ہیں کہ وہ ایک سے زائد مرتبہ تشریف لائے ہوں گے۔ اس کا جواب آگے ملاحظہ کریں۔

دلیل اور احتمال:
محترم، ہمیں بھی معلوم ہے کہ یہاں جلسہ استراحت یا رفع الیدین کے سلسلے میں دلائل ذکر نہیں کئے جا رہے۔ نا آپ نے ایسا کیا ، نا ہم نے اور نا ہی اس دھاگے میں یہ مطلوب ہی ہے۔ لیکن آپ ابتدائی دور اور آخری عمر کو ملانے کے لئے جو ممکنہ صورتیں پیش کر رہے ہیں۔ وہ ممکنہ صورتیں خود دیگر دلائل سے ٹکرا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے آپ کے پیش کردہ ممکنہ صورتوں نہ شرعاً ممکنہ صورتیں قرار پاتی ہیں اور نہ عقلاً۔ تفصیل ملاحظہ کیجئے۔

مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ تشریف لائے یا دو مرتبہ
صحیح بخاری اور علمائے احناف کے حوالہ جات کے ساتھ بادلائل یہ بات آپ پر واضح کر دی گئی ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فقط ایک ہی دفعہ اور فقط بیس روز کے لئے تشریف لائے۔ اس کے بالمقابل آپ نے فقط احتمالات پیش کئے ہیں اور کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ اگر آپ کے پاس دلیل ہو تو پیش کیجئے ورنہ صحیح بخاری اور علمائے احناف کی تحقیق کو مان لیجئے کہ وہ فقط ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔

مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کب تشریف لائے
ہم نے علمائے احناف کے حوالہ جات کے ساتھ اور فتح الباری سے ثابت کیا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری کو بنو لیث کے وفد کے ساتھ تشریف لائے۔ آپ نے اس کے جواب میں احتمال پیش کیا کہ وہ غزوہ تبوک میں بھی شامل ہوئے ہوں گے، لہٰذا بیس روز سے زیادہ دن ٹھہرے ہوں گے اور دو مرتبہ تشریف لائے ہوں گے، وغیرہ۔ آپ نے یہ تمام احتمالات بغیر کسی دلیل کے پیش کئے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب ان کے نو ہجری میں آنے کے دلائل موجود ہیں۔اور فقط بیس دن کے لئے حاضر ہونے کے دلائل بھی موجود ہیں اور خود علمائے احناف کی یہی تحقیق ہے ، اس ضمن میں سرفراز صاحب اور اوکاڑوی صاحب کے حوالہ جات پیش کئے جا چکے ہیں۔ پھر آپ کے احتمال کے مقابلے میں ایک رائے ہم نے بھی پیش کی کہ جہاد میں شامل نہ ہونے کی ایک وجہ ان کی کم عمری بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ نو ہجری میں ابھی یہ صحابی نو عمر تھے اور خود سرفراز صاحب انہیں جلسہ استراحت دیکھنے کے وقت کم عمر تسلیم کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ غزوہ تبوک میں جانے سے وہ اپنی کم عمری کی وجہ سے رہ گئے ہوں۔ ہمارے اس احتمال کی سپورٹ کرنے کے لئے صحیح بخاری اور صفدر صاحب کا حوالہ موجود ہے۔ آپ کے احتمال کہ وہ غزوہ تبوک میں شریک ہوئے ہوں گے، کی کیا دلیل ہے؟

اگر درج بالا دونوں باتیں ، جو کہ دلائل سے ثابت ہیں، مان لی جائیں کہ:
1۔ حضرت مالک فقط ایک بار ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور بیس روز ٹھہرے۔
2۔ حضرت مالک 9 ہجری میں تشریف لائے۔

اس سے یہ بات خود بخود ثابت ہو جاتی ہے کہ:
1۔ 9 ہجری کا دور نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور نہیں کہلایا جا سکتا۔
2۔ 9 ہجری تک رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا تھا۔

اب تک دلائل کے ساتھ ہم نے جو باتیں ثابت کی ہیں۔ وہ تکرار کی کوفت کے باوجود سمجھنے کی نیت سے پیش ہیں۔

1۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ زندگی میں فقط ایک مرتبہ اور بیس دن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے۔ (صحیح بخاری ، علمائے احناف)
2۔ یہ ملاقات 9 ہجری کو غزوہ تبوک سے کچھ قبل ہوئی۔ (علمائے احناف، ایک مختلف فیہ حدیث، فتح الباری)
3۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا۔ (صحیح بخاری)
4۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلسہ استراحت کرتے ہوئے دیکھا۔ (صحیح بخاری)
5۔ وہ خود رفع الیدین اور جلسہ استراحت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی عامل رہے۔ (صحیح بخاری)

لہٰذا معلوم ہوا کہ رفع الیدین کو ابتدائی دور کا عمل قرار دینا غلط ہے، بلکہ اس پر 9 ہجری تک یعنی آخری عمر تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا۔

آپ نے اوپر کئی پوسٹس میں تسلیم کیا ہے اور احتمال بھی پیش کیا کہ حضرت مالک غزوہ تبوک میں شامل ہوئے ہوں گے۔ اب ان کی غزوہ تبوک میں شرکت کو ذہن میں رکھیں اور غور کریں:

1۔حضرت مالک 9 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے۔
2۔ شاید غزوہ تبوک میں شامل بھی ہوئے۔
3۔ اس کے باوجود وہ خود رفع الیدین پر عامل رہے۔ گویا 9 ہجری میں بھی اور غزوہ تبوک میں ساتھ رہنے کے باوجود، ان پر رفع الیدین کے نسخ کا راز نہ کھلا۔
4۔ معلوم ہوا کہ رفع الیدین 9 ہجری تک منسوخ نہیں ہوا تھا۔

لہٰذا چاہے آپ ہمارے طرز استدلال سے دیکھیں، یا اپنے احتمالات کی روشنی میں ملاحظہ کریں، دونوں طرح سے ہی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ 9 ہجری تک رفع الیدین منسوخ نہیں ہوا تھا۔


اب ہمارے استدلال کی تردید کے لئے آپ کے کرنے کے یہ کام ہیں:

1۔ یہ ثابت کیجئے کہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور، رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور ہو سکتا ہے۔ اور اس کے لئے اوپر پیش کردہ دو سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔
2۔ یہ ثابت کیجئے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ دو مرتبہ یا ایک سے زائد مرتبہ تشریف لائے۔
3۔ اور پھر یہ بھی بتائیے کہ دوسری مرتبہ تشریف لانے پر بھی انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے ہوئے کیونکر دیکھا؟ (کیونکہ ان کا اپنا عمل رفع الیدین کرنے کا تھا)۔
4۔ یہ ثابت کیجئے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری کو تشریف نہیں لائے۔
5۔ یا یہ ثابت کیجئے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ خود رفع الیدین پر عامل نہیں تھے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
فتح الباری سے ثابت کیا کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری کو بنو لیث کے وفد کے ساتھ تشریف لائے۔
فتح الباری کی اس عبارت کا متن پیس کردیں جس میں ہو کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری کو بنو لیث کے وفد کے ساتھ تشریف لائے اور اسی وفد کے ساتھ غزوہ تبوک سے پہلے لوٹ گئے ۔ ایسا نہ ہو کہ میں کسی اور عبارت کے پیش نظر کچھ عرض کروں اور آپ کی مراد کوئی اور عبارت ہو ۔ پھر ان شاء اللہ آپ کی باقی سوالات کے متعلق عرض کردیا جائے گآ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
فتح الباری کی اس عبارت کا متن پیس کردیں جس میں ہو کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری کو بنو لیث کے وفد کے ساتھ تشریف لائے اور اسی وفد کے ساتھ غزوہ تبوک سے پہلے لوٹ گئے ۔ ایسا نہ ہو کہ میں کسی اور عبارت کے پیش نظر کچھ عرض کروں اور آپ کی مراد کوئی اور عبارت ہو ۔ پھر ان شاء اللہ آپ کی باقی سوالات کے متعلق عرض کردیا جائے گآ
اصل عبارت حدیث 628 کے تحت دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ وہ مقام ہے کہ آپ سے میں مزید مشارکت سے معذرت کر لوں۔ ہم دونوں نے اپنا موقف تفصیلاً بیان کر دیا ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top