• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ، رفع یدین، جلسہ استراحت اور ایک گروہ کے حیلہ جات!!

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
میں ایک اور پوسٹ میں کچھ لکھنا چاہ رہا تھا کہ شاکربھائی کے طرح سے بلاوا آیا تو سوچا پہلے یہاں سے ہوتا آوں
زبانی معلومات کی بنیاد پر کچھ لکھ رہا ہوں ۔اگر اعداد و شمار غلط ہو تو کوئی بھائی تصحیح فرمادیں
جب لیلہ الاسراء کا واقعہ ہوا اور نماز فرض ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 51 یا 52 سال تھی۔ اگر ہم مثال کے طور پر وہ عرصہ لیں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 57 یا 58 برس تھی تو یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری حصہ کہلائے گا لیکن یہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور ہی کہلائے گا کیوں کہ نماز کی فرضیت کو ابھی صرف 6 برس کے قریب ہوئے ہیں
یہاں صاحب مضون کو غلط فہمی اس لئیے ہوئی وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات مبارکہ اور نماز کے دور کو اکٹھا شروع کرتا ہیں۔
جزاکم اللہ خیرا۔ مشکور ہوں کہ آپ نے کچھ وقت نکالا۔ مجھے واقعی سنجیدگی سے ٹیبل کے دوسری طرف کا موقف جاننے کی خواہش تھی۔ آپ کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی:
۔ رفع الیدین نماز فرض ہونے کے بعد ابتدائی دور میں جاری رہا اور بعد میں منسوخ ہوا۔
۔ جلسہ استراحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے آخری دور میں، بوجہ ضعف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کم و بیش تیرہ چودہ سال نمازیں ادا کی تھیں۔ ان میں سے نماز کی فرضیت کے بعد کے تین چار سال کو "ابتدائی دور" کہا جا سکتا ہے اور آخری تین چار سال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے لحاظ سے "آخری دور" کہا جا سکتا ہے۔ اب اسے ذہن میں رکھیں۔

تو یہ کوئی متضاد بات نہیں۔ اور یہ دو عمل بیک وقت ممکن ہیں ۔ اگر چہ آپ بیس دن کی بھی قید نہ لگائیں
یہ وہ مقام ہے جہاں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے اور اصل سوال سمجھ نہیں سکے۔ بیس دن کی قید ہم نے اپنی طرف سے نہیں لگائی۔ بلکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے فقط بیس روز کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا شرف پانے کی قوی و صریح دلیل کی بنیاد پر یہ قید عائد ہوئی ہے۔ اور یہی اہم نکتہ ہے۔ پہلی پوسٹ ازراہ کرم دوبارہ ملاحظہ کیجئے۔ مختصراً دوبارہ عرض ہے:

1۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے قبل و بعد رفع الیدین کیا۔ صحیح و صریح حدیث ہے، لہٰذا شک یا تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔
2۔ انہی حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے ہی صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کیا۔ صحیح و صریح حدیث، شک یا تاویل کے غبار سے بالکل پاک۔
3۔ یہ صحابی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فقط بیس دن کے لئے حاضر ہوئے۔ اور یہ بات بھی صحیح بخاری ہی سے ثابت ہے اور اس پر علمائے دیوبند کا بھی اتفاق ہے۔ حوالہ جات پہلی پوسٹ میں موجود ہیں۔

تلمیذ بھائی، اب اگر آپ درج بالا تین میں سے کسی ایک بھی شق سے متفق نہیں تو اس کی ازراہ کرم وضاحت کر دیجئے۔ اور اگر آپ متفق ہیں۔ تو سوال یہ ہے:

قارئین کرام! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ آلِ دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کل بیس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے ہیں اور انہی بیس دنوں میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین اور جلسہ استراحت کرتے ہوئے دیکھا۔ آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دور صرف بیس دنوں پر مشتمل ہے۔
رفع الیدین کو (نماز کی فرضیت کے) ابتدائی دور کا اور جلسہ استراحت کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے ) آخری دور کا عمل مانا جائے تو ذیل میں سے کوئی ایک شق ماننی لازم ہے:

1۔ دور نبوت فقط بیس روز پر محیط ہو۔ اور یہ امر محال ہے۔
2۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے منسوب رفع الیدین اور جلسہ استراحت کی احادیث ضعیف ہوں یا کوئی ایک حدیث ضعیف ہو۔ یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ دونوں صحیح بخاری کی احادیث ہیں۔
3۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیس روز کے لئے خدمت میں حاضر نہ ہوئے ہوں بلکہ طویل عرصہ قیام کیا ہو یا دو مختلف اوقات میں حاضر ہوئے ہوں۔ ایک ابتدائی دور میں اور ایک آخری دور میں۔ یہ بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ صحیح بخاری ہی سے ثابت ہے کہ وہ فقط بیس روز ہی کے لئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تھے اور علمائے دیوبند کی بھی یہی تحقیق ہے۔ اور دو مرتبہ علیحدہ اوقات میں حاضری کی کوئی ضعیف سے ضعیف دلیل بھی موجود نہیں۔

یا تو یہ کہئے کہ درج بالا نکات میں حصر نہیں اور مزید کوئی شق بتائیں جو ممکن ہو سکتی ہو۔ اور یا یوں کہئے کہ رفع الیدین کو (نماز کی فرضیت کے) ابتدائی دور کا اور جلسہ استراحت کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے ) آخری دور کا عمل ماننا بجائے خود غلط ہے۔

یہ اہم نکتہ ہے۔ اور شاید اس اختلافی مسئلہ کو ایک نئے زاویہ سے سلجھانے کا باعث بن سکتا ہے۔ انصاف شرط ہے۔
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
1۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے قبل و بعد رفع الیدین کیا۔ صحیح و صریح حدیث ہے، لہٰذا شک یا تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔
میں کوئی اختلاف نہیں کر رہا

2۔ انہی حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے ہی صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کیا۔ صحیح و صریح حدیث، شک یا تاویل کے غبار سے بالکل پاک۔
میں کوئی اختلاف نہیں کر رہا

3۔ یہ صحابی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فقط بیس دن کے لئے حاضر ہوئے۔ اور یہ بات بھی صحیح بخاری ہی سے ثابت ہے اور اس پر علمائے دیوبند کا بھی اتفاق ہے۔ حوالہ جات پہلی پوسٹ میں موجود ہیں۔
میں کوئی اختلاف نہیں کر رہا




جزاکم اللہ خیرا۔ مشکور ہوں کہ آپ نے کچھ وقت نکالا۔ مجھے واقعی سنجیدگی سے ٹیبل کے دوسری طرف کا موقف جاننے کی خواہش تھی۔ آپ کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ یعنی:
۔ رفع الیدین نماز فرض ہونے کے بعد ابتدائی دور میں جاری رہا اور بعد میں منسوخ ہوا۔
۔ جلسہ استراحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے آخری دور میں، بوجہ ضعف، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کم و بیش تیرہ چودہ سال نمازیں ادا کی تھیں۔ ان میں سے نماز کی فرضیت کے بعد کے تین چار سال کو "ابتدائی دور" کہا جا سکتا ہے اور آخری تین چار سال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے لحاظ سے "آخری دور" کہا جا سکتا ہے۔ اب اسے ذہن میں رکھیں۔


یہ وہ مقام ہے جہاں معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے اور اصل سوال سمجھ نہیں سکے۔ بیس دن کی قید ہم نے اپنی طرف سے نہیں لگائی۔ بلکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے فقط بیس روز کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا شرف پانے کی قوی و صریح دلیل کی بنیاد پر یہ قید عائد ہوئی ہے۔ اور یہی اہم نکتہ ہے۔ پہلی پوسٹ ازراہ کرم دوبارہ ملاحظہ کیجئے۔ مختصراً دوبارہ عرض ہے:

1۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے قبل و بعد رفع الیدین کیا۔ صحیح و صریح حدیث ہے، لہٰذا شک یا تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔
2۔ انہی حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے ہی صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کیا۔ صحیح و صریح حدیث، شک یا تاویل کے غبار سے بالکل پاک۔
3۔ یہ صحابی مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فقط بیس دن کے لئے حاضر ہوئے۔ اور یہ بات بھی صحیح بخاری ہی سے ثابت ہے اور اس پر علمائے دیوبند کا بھی اتفاق ہے۔ حوالہ جات پہلی پوسٹ میں موجود ہیں۔

تلمیذ بھائی، اب اگر آپ درج بالا تین میں سے کسی ایک بھی شق سے متفق نہیں تو اس کی ازراہ کرم وضاحت کر دیجئے۔ اور اگر آپ متفق ہیں۔ تو سوال یہ ہے:



رفع الیدین کو (نماز کی فرضیت کے) ابتدائی دور کا اور جلسہ استراحت کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے ) آخری دور کا عمل مانا جائے تو ذیل میں سے کوئی ایک شق ماننی لازم ہے:

1۔ دور نبوت فقط بیس روز پر محیط ہو۔ اور یہ امر محال ہے۔
2۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے منسوب رفع الیدین اور جلسہ استراحت کی احادیث ضعیف ہوں یا کوئی ایک حدیث ضعیف ہو۔ یہ بھی ممکن نہیں کیونکہ دونوں صحیح بخاری کی احادیث ہیں۔
3۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیس روز کے لئے خدمت میں حاضر نہ ہوئے ہوں بلکہ طویل عرصہ قیام کیا ہو یا دو مختلف اوقات میں حاضر ہوئے ہوں۔ ایک ابتدائی دور میں اور ایک آخری دور میں۔ یہ بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ صحیح بخاری ہی سے ثابت ہے کہ وہ فقط بیس روز ہی کے لئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تھے اور علمائے دیوبند کی بھی یہی تحقیق ہے۔ اور دو مرتبہ علیحدہ اوقات میں حاضری کی کوئی ضعیف سے ضعیف دلیل بھی موجود نہیں۔

یا تو یہ کہئے کہ درج بالا نکات میں حصر نہیں اور مزید کوئی شق بتائیں جو ممکن ہو سکتی ہو۔ اور یا یوں کہئے کہ رفع الیدین کو (نماز کی فرضیت کے) ابتدائی دور کا اور جلسہ استراحت کو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے ) آخری دور کا عمل ماننا بجائے خود غلط ہے۔

یہ اہم نکتہ ہے۔ اور شاید اس اختلافی مسئلہ کو ایک نئے زاویہ سے سلجھانے کا باعث بن سکتا ہے۔ انصاف شرط ہے۔
میں پہلے ایک مثال بیان کرتا ہوں





اس تصویر میں ایک لائن لال رنگ کی ہے اور دوسری نیلے رنگ کی ۔ ایک سبز لائن دونوں کو قطع کر رہی ہے ۔ جہاں پر یہ لائن دونوز کو قطع کر رہی ہے وہ لال رنگ کا آخری حصہ ہے اور نیلی لائن کا ابتدائی حصہ ۔
اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر مبارک کو لال لکیر سمجھا جائے اور نماز کی فرضیت کے دورانیے کو نیلی لکیر اور مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے بیس دن کو نقطع تقاطع سمجھا جائے تو بات واضح ہوجائے گي۔
اب آتے ہیں آپ کی پوسٹ کی طرف
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش والے سال کو پہلا سال مان کر آگے چلیں تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 51 یا 52 سال کے تھے تو نماز کی فرضیت نازل ہوئی۔ جب نماز کی فرضیت نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی حیات مبارکہ کے دو تہائی حصے گذار چکے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا ابتدائی حصہ وہ تھا جب ابھی وحی بھی نازل ہونا شروع نہیں ہوئی تھی۔ اور نماز کی فرضیت کا جب دور شروع ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپني حیات مبارکہ کے چوتھے حصہ میں تھے ۔ آپ نے اوپر جو علماء دیوبند کے حوالہ سے اقتباسات نقل کیے اس میں جلسہ استراحت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخر حصہ کا عمل بتایا گيا ہے نہ کہ فرضیت نماز کے دور کا آخری حصہ۔
میں یہاں ایک اور اعتراض کا بھی جواب لکھنا چاہ رہا تھا لیکن چوں کہ ابھی تک وہ اعتراض سامنے نہیں آیا اور بات مذید الجھ سکتی ہس اس لئیے جب وہ اعتراض آیا تو عرض کردیا جآئے گا ان شاء اللہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891

اس تصویر میں ایک لائن لال رنگ کی ہے اور دوسری نیلے رنگ کی ۔ ایک سبز لائن دونوں کو قطع کر رہی ہے ۔ جہاں پر یہ لائن دونوز کو قطع کر رہی ہے وہ لال رنگ کا آخری حصہ ہے اور نیلی لائن کا ابتدائی حصہ ۔
اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی عمر مبارک کو لال لکیر سمجھا جائے اور نماز کی فرضیت کے دورانیے کو نیلی لکیر اور مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے بیس دن کو نقطع تقاطع سمجھا جائے تو بات واضح ہوجائے گي۔
اب آتے ہیں آپ کی پوسٹ کی طرف
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش والے سال کو پہلا سال مان کر آگے چلیں تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 51 یا 52 سال کے تھے تو نماز کی فرضیت نازل ہوئی۔ جب نماز کی فرضیت نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی حیات مبارکہ کے دو تہائی حصے گذار چکے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا ابتدائی حصہ وہ تھا جب ابھی وحی بھی نازل ہونا شروع نہیں ہوئی تھی۔ اور نماز کی فرضیت کا جب دور شروع ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپني حیات مبارکہ کے چوتھے حصہ میں تھے ۔ آپ نے اوپر جو علماء دیوبند کے حوالہ سے اقتباسات نقل کیے اس میں جلسہ استراحت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخر حصہ کا عمل بتایا گيا ہے نہ کہ فرضیت نماز کے دور کا آخری حصہ۔
آپ کی پوسٹ سے مجھے یہ سمجھ آیا کہ:

حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب بیس راتیں گزارنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو دراصل انہی بیس دنوں میں دو کام سرانجام پائے:

1۔ رفع الیدین کو منسوخ کر دیا گیا۔ اور یہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور تھا، اس لئے احناف کہتے ہیں کہ رفع الیدین ابتدائی دور میں کیا جاتا تھا بعد میں منسوخ ہوا۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کرنا شروع کر دیا، کیونکہ ان کی عمر کا آخری دور تھا۔

امید ہے میں درست سمجھا ہوں گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ وضاحت کر دیجئے۔

اب آپ کی درج بالا بات پر مجھے کچھ اشکالات ہیں:

اول تو یہ کہ آپ کے درج بالا نکتہ کی کوئی دلیل ہے یا یہ فقط قیاس ہے؟ یقیناً آپ کے پاس کوئی دلیل موجود نہیں۔ اگر ہے تو پیش کیجئے۔ نہیں، تو کیا فقط قیاس کی بنیاد پر احناف کے ہاں صحیح احادیث کا انکار درست ہے؟


دوسری اہم بات یہ کہ آپ نے غور کیا کہ آپ کی بات سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ :
۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیس دنوں میں ابتدائی دنوں میں رفع الیدین کرتے دیکھا (جس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث ہے) اور جانے سے قبل اسے منسوخ ہوتے بھی دیکھا۔ (جس کی کوئی روایت کم سے کم ان صحابی سے منقول نہیں)
۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیس دنوں میں ابتدائی دنوں میں جلسہ استراحت کے بغیر نماز پڑھتے دیکھا ( جس کی کوئی روایت ان صحابی سے منقول نہیں) ، اور آخری دنوں میں جلسہ استراحت کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھا ( جس کی دلیل صحیح بخاری کی حدیث ہے)

اب دیکھئے، ایک تو آپ کا یہ نکتہ بجائے خود دلیل کا محتاج ہے کہ واقعی ایسا بیس دنوں میں ہی ہوا۔ اور دوسری مشکل یہ ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا اپنا عمل بھی رفع الیدین اور جلسہ استراحت کرنے کا تھا۔ حوالہ جات اس موضوع کی پہلی پوسٹ میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ بیس دنوں میں انہوں نے رفع الیدین منسوخ ہوتے بھی دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلسہ استراحت نہ کرتا دیکھ لینے کے بعد، بوجہ ضعف (نعوذباللہ) جلسہ استراحت کرتے بھی دیکھا، اور پھر بھی ان کا اپنا عمل اس کے خلاف رہا ہو؟ ان صحابی کو تو رفع الیدین کے منسوخ ہو جانے اور جلسہ استراحت نہ کرنے والی روایات کا راوی اور انہی پر عامل ہونا چاہئے تھا۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا۔ انصاف شرط ہے۔ ورنہ تو عقلی موشگافیوں کی بھلا کیا حد ہے۔
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
تو اگر یہ کہا گيا ہے

یعنی نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور

یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور
تو یہ کوئی متضاد بات نہیں۔ اور یہ دو عمل بیک وقت ممکن ہیں ۔ اگر چہ آپ بیس دن کی بھی قید نہ لگائیں
آپ بھی کمال کرتے ہو شاکر بھائی نے بھی تو یہی کہا تھا
جب آپ خود ہی نبی ﷺ کی عمر کا آخری دور تسلیم کر رہے ہو تو جھگڑا کس بات کا
یا پھر اس مثال پر عمل کیا جا رہا ہے
!!ساری دنیا جو بھی کہے میرا کوا تو سفید ہے!!
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
رفع الیدین کے ثبوت میں کس قدر روایات پیش کی گئی ہیں
نسخ کا دعوی کرنے والے تنسیخ کی کوئی صحیح روایت پیش فرما دیں
ہاں یہ بات یاد رہے کہ نسخ کے اصولوں کے مطابق ہو وہ روایت
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ کی پوسٹ سے مجھے یہ سمجھ آیا کہ:

حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب بیس راتیں گزارنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو دراصل انہی بیس دنوں میں دو کام سرانجام پائے:

1۔ رفع الیدین کو منسوخ کر دیا گیا۔ اور یہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور تھا، اس لئے احناف کہتے ہیں کہ رفع الیدین ابتدائی دور میں کیا جاتا تھا بعد میں منسوخ ہوا۔
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کرنا شروع کر دیا، کیونکہ ان کی عمر کا آخری دور تھا۔

امید ہے میں درست سمجھا ہوں گا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو آپ وضاحت کر دیجئے۔
میں یہاں نہ جلسہ استراحت کے راجح یا مرجوح کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں اور نہ رفع الیدین کے سنت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں

آپ کا اعتراض یہ تھا

قارئین کرام! اب آپ خود فیصلہ کریں کہ آلِ دیوبند کے اصولوں کی روشنی میں سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کل بیس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے ہیں اور انہی بیس دنوں میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع یدین اور جلسہ استراحت کرتے ہوئے دیکھا۔ آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا دور صرف بیس دنوں پر مشتمل ہے۔
اسی حوالہ سے میں یہاں کچھ پوسٹ کر رہا ہوں

آپ نے جو نتائج اخذ کیے وہ کچھ غلط فہمی کی وجہ سے ہیں اور میں سمجھ نہیں پایا کہ یہ غلط فہمی کہاں سے آئی ۔ بہرحال میں کچھ مذید وضاحت سے اپنا موقف بتاتا ہوں

حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب بیس راتیں گزارنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو دراصل انہی بیس دنوں میں دو کام سرانجام پائے

: 1

۔ رفع الیدین کو منسوخ کر دیا گیا۔ اور یہ نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور تھا، اس لئے احناف کہتے ہیں کہ رفع الیدین ابتدائی دور میں کیا جاتا تھا بعد میں منسوخ ہوا۔
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ عیلہ وسلم کو رفع الیدین کرتے ہوئے دیکھا ۔ ان کے بیس دن کے دوران ترک رفع الیدین نہیں ہوا
2

۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کرنا شروع کر دیا، کیونکہ ان کی عمر کا آخری دور تھا۔
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ عیلہ وسلم سے جلسہ استراحت نقل کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغیر جلسہ استراحت کے نماز نقل نہ کی ۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسے استراحت مالک بن حویرث کی موجودگی میں شروع نہ کی۔ یہ عین ممکن ہے 10 دن پہلے سے شروع ہوئی ہو ، یا ایک ماہ پہلے وغیرہ یا اس سے بھی پہلے



اس کا مطلب ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو اس وقت نبی اکرم صلی اللہ عیلہ وسلم رفع الیدین کرتے تھے اور جلسہ استراحت بھی

آپ نے پوچھا ہے کہ
آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟
بالکل ممکن ہے اور میں اس کے ممکن ہونے کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں ۔ یہ کئی طریقوں سے ممکن ہے۔ میں في الحال زمانی لحاظ سے ابتدائی اور آخری دورکی تشریح کر رہا ہوں۔
اس کو نمبر وار ذکر کرہا ہوں ۔ آپ بتائے گا کہ آپ متفق ہیں یا نہیں اور جہاں متفق نہ ہوں تو وجہ اختلاف ضرور بتائیے گا
جب لیلہ الاسراء کا واقعہ ہوا اور نماز فرض ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 51 یا 52 سال تھی۔
اب اگر ہم فرض کریں کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب بیس دن کے لئیے آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 55 برس تھی۔
(یہ میں نے فرض اس لئیے کیا مجھے آپ حضرات کو سمجھانے کا کوئی اور طریقہ سمجھ میں نہیں آیا )
1- نماز کی فرضیت کے اعتبار سے یہ ابتدائی دور کہلائے گا
آپ بتائيں کہ یہ ابتدائی دور کہلائے گا یا آخری دور ؟ .
2۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کل عمر مبارک 63 برس تھی تو اس وقت 87 فیصد کے قریب زندگی گذر چکی تھی ۔ اس عرصہ کو اگر عمر کا آخری حصہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ متفق یا نہیں
اس وقت کا عمل فرضیت نماز کے حوالہ سے ابتدائی دور کا کہلائے گا لیکن عمر کے اعتبار سے عمر کے آخری حصہ کا عمل


اب آتے ہیں علماء دیوبند کے اقتباسات کی طرف
یہ رفع یدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائی دور میں کیا تھا
یعنی نماز کا ابتدائی دور
یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے کیا تھا
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری حصہ
جب کہ جو نتیجہ نکالا گيا ہے وہ غلط ہے
آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔
دیوبند علماء نےایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل کہا ہے یعنی نماز کی فرضیت کے اعتبار سے اور دوسے دور کو آحری دور کا عمل نہیں کہا بلکہ آخری عمر کا عمل کہا گيا ہے
یہ ساری پوسٹ اس سوال کے جواب میں ہے کہ کیسے ممکن ہے ۔ میں نے صرف ایک ممکنہ صورت بتائی ہے
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اس کو نمبر وار ذکر کرہا ہوں ۔ آپ بتائے گا کہ آپ متفق ہیں یا نہیں اور جہاں متفق نہ ہوں تو وجہ اختلاف ضرور بتائیے گا
جب لیلہ الاسراء کا واقعہ ہوا اور نماز فرض ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 51 یا 52 سال تھی۔
اب اگر ہم فرض کریں کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ جب بیس دن کے لئیے آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 55 برس تھی۔
آپ کی لی گئی مثال میں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر: 55 سال: گویا کم و بیش سن دو ہجری کا زمانہ
اور اس وقت تک نماز فرض ہوئے ساڑھے تین یا چار سال گزر چکے تھے۔

1- نماز کی فرضیت کے اعتبار سے یہ ابتدائی دور کہلائے گا
آپ بتائيں کہ یہ ابتدائی دور کہلائے گا یا آخری دور ؟ .
اگر نماز کی فرضیت کے چار سال بعد کیا جانے والا عمل بھی ابھی ابتدائی دور میں ہے۔ تو نامعلوم اس ابتدائی دور کی ابتدا و انتہا کیا ہوگی۔ خیر، برسبیل تذکرہ مان لیتے ہیں کہ 55 برس کی عمر میں ، نماز کی فرضیت کے چار سال بعد کیا جانے والا رفع الیدین کا عمل ابھی "ابتدائی دور" سے گزر رہا ہے۔

2۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کل عمر مبارک 63 برس تھی تو اس وقت 87 فیصد کے قریب زندگی گذر چکی تھی ۔ اس عرصہ کو اگر عمر کا آخری حصہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ متفق یا نہیں
تو گویا نماز کی فرضیت کے ابتدائی دور ہی میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور شروع ہو چکا تھا۔
گویا ہجرت کرتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور شروع ہو چکا تھا؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد کی کل تئیس سالہ زندگی کے آخری اہم ترین آٹھ سال، اگر آپ ان کی عمر کا آخری دور مانیں تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔

پھر آپ اس مقام پر ایک اہم بات بھول رہے ہیں۔
ہم یہاں صرف عمر کے آخری دور کی ہی بات نہیں کر رہے۔ بلکہ بڑھاپے اور ضعف کی بات بھی کر رہے ہیں۔ اور بڑھاپے اور ضعف کو احناف ہی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 55 برس کی عمر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے اور ضعیف ہو چکے تھے کہ ان سے نماز میں بیٹھنا دشوار تھا؟

کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جلسہ استراحت بوجہ ضعف، ان کی عمر کے آخری چند دنوں یا چند ماہ کی بات نہیں، بلکہ نبوت ملنے کے بعد انہوں نے جتنی عمر گزاری، اس میں آدھی عمر ان کی ضعف میں گزر گئی؟
گویا ہجرت کے ایک دو سال یا تین چار سال بعد ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے ضعیف ہو گئے تھے کہ نماز میں بیٹھنا دشوار ہو گیا؟؟؟ کیا یہ ماننے والی بات ہے؟
وہ صحابہ کا آپس میں باتیں کرنا کیا ہوا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کی طاقت دی گئی ہے؟
وہ تمام غزوات کیا ہوئے جن میں انہوں نے شرکت کی؟
یاد رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے ایک سال قبل تک غزوات میں مصروف رہے۔

اس وقت کا عمل فرضیت نماز کے حوالہ سے ابتدائی دور کا کہلائے گا لیکن عمر کے اعتبار سے عمر کے آخری حصہ کا عمل
آپ جو نکتہ پیش کر رہے ہیں۔ اس کے مطابق:
نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور ، دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا آخری دور تھا۔

لہٰذا، مجھے بتائیں کیا اس نکتہ کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
1۔ رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں منسوخ کیا تھا؟
2۔ جلسہ استراحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی فرضیت کے ابتدائی دور سے ہی شروع کر دیا تھا؟


محترم، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ آپ رفع الیدین کی منسوخیت کے دور کو جتنا پیچھے کھینچیں گے، اسی قدر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جلد ضعیف ہو جانا بھی ثابت کر رہے ہوں گے۔ آپ سن ہجری میں اندازے سے وہ وقت بتانے کی کوشش کریں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ ضعف بیٹھنے کے قابل نہ رہے اور جلسہ استراحت شروع کیا اور جب رفع الیدین منسوخ ہوا۔ تو شاید آپ کو اس تضاد کا اندازہ ہو سکے گا جس کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ آپ نے گزشتہ پوسٹ میں اندازے سے یہ وقت دو ہجری بتایا ہے۔ اس پر امید ہے کہ آپ نظر ثانی کریں گے اور کوئی نئی ہجری تاریخ بتائیں گے، ہمیں فقط یہ متعین کرنا مقصود ہے کہ وہ کون سا سن ہے جسے بیک وقت نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا وہ دور قرار دیا جا سکے، جب ان سے نماز میں بیٹھنا دشوار ہو گیا۔

مجھے یہ بال کی کھال نکالنا بالکل اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ لیکن جب تک مجھے لگا کہ میرا وقت ضائع نہیں ہو رہا، تو میں مشارکت میں حصہ لیتا رہوں گا، ان شاء اللہ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
اس بحث کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اور آپ کی سہولت کے لئے عرض ہے کہ سرفراز خان صفدر صاحب فرماتے ہیں:

مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ تبوک کی تیاری کے وقت آپ کے پاس آئے تھے اور غزوہ تبوک 9 ہجری میں ہوا تھا۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً باسٹھ سال تھی اور بڑھاپے اور کمزوری کا زمانہ تھا۔
(خزائن السنن 2/114)

اگر آپ انہیں متبحر عالم مانتے ہیں اور ان کی تحقیق سے متفق ہیں۔ تو میرے خیال میں ہمیں مزید کسی بات چیت کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

1۔ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں تشریف لائے۔
2۔ فقط بیس دنوں کے لئے تشریف لائے۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلسہ استراحت کرتے دیکھا۔
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا۔ گویا رفع الیدین 9 ہجری تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اور امید ہے کہ آپ اتفاق کریں گے کہ 9 ہجری کا زمانہ "نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور" نہیں کہلایا جا سکتا۔ فھو المطلوب۔
 

عبد الوکیل

مبتدی
شمولیت
نومبر 04، 2012
پیغامات
142
ری ایکشن اسکور
604
پوائنٹ
0
شاکر بھائی اللہ تعالی آپ کی عمر دراز کرے آپ کی محنت دید کے قابل ہے
لیکن ایک بات سمجھ نہیں آئی ان احباب سے آپ مثالوں میں الجھنے کی بجائے نسخ کی دلیل کیوں نہیں مانگتے جو یہ کبھی بھی پیش نہیں کر سکتے
اس سے یہ فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا ویسے یہ لوگ ماننے والے کب ہیں
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
آپ کی پوسٹ کا جواب دینے سے پہلے میں دو باتیں مختصرا مکرر کہتا ہوں غالبا جس کی وجہ سے آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں خصوصا عبد الوکیل صاحب
میں یہاں نہ جلسہ استراحت کے راجح یا مرجوح کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں اور نہ رفع الیدین کے سنت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اور نہ یہ ہمارا موضوع ہے
ہمارا موضوع ہے
آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟
دوسری آپ اس غلط فہمی میں ہیں کہ میں بعض احتمالات کی وجہ سے جلسہ استراحت اور رفع الیدین کو موجوح قرار دے رہا ہوں نہیں ۔
جلسہ استراحت اور رفع الیدین نہ کرنے کے احناف کے پاس دلائل ہیں لیکن وہ ہمارا موضوع نہیں ۔
یہاں آپ کے اس اعتراض کا جوابات دینا مقصود ہے
آل ِ دیوبند ایک عمل کو ابتدائی دور کا عمل اور دوسرے عمل کو آخری دور کا عمل کہتے ہیں۔ کیا صرف بیس دنوں میں یہ ممکن ہے؟
اب آپ کی پوسٹ کی طرف

اس بحث کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے اور آپ کی سہولت کے لئے عرض ہے کہ سرفراز خان صفدر صاحب فرماتے ہیں:

(خزائن السنن 2/114)

اگر آپ انہیں متبحر عالم مانتے ہیں اور ان کی تحقیق سے متفق ہیں۔ تو میرے خیال میں ہمیں مزید کسی بات چیت کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔

1۔ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں تشریف لائے۔
2۔ فقط بیس دنوں کے لئے تشریف لائے۔
3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جلسہ استراحت کرتے دیکھا۔
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا۔ گویا رفع الیدین 9 ہجری تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ اور امید ہے کہ آپ اتفاق کریں گے کہ 9 ہجری کا زمانہ "نماز کی فرضیت کا ابتدائی دور" نہیں کہلایا جا سکتا۔ فھو المطلوب۔
سرفراز خان صفدر صاحب کا استدلال اس حدیث سے ہے
حدثنا عبيد العجلي ، ثنا الحسن بن علي الحلواني ، ثنا عمران بن أبان ، ثنا مالك بن الحسن بن مالك بن الحويرث ، عن أبيه ، عن جده ، قال : قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لعلي : " أما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى " .
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مالک بن حویرث غزوہ تبوک کے لشکر کی روانگي کے موقع پر موجود تھے ۔ لیکن یہ طریق محتلف فیہ ہے اس اور اس کی صحت پر اختلاف ہے ۔ میں نے یہ حدیث اس لیے پیش نہ کی کیوں کہ یہ حدیث آپ کے نذدیک غالبا عمران بن ابان کی وجہ سے ضعیف ہے ۔ لیکن اگر اس حدیث کو صحیح مان لیاجائے تو واقعی میں بات منطقی انجام تک پہنچ جاتی ہے۔ کیسے ؟ میں بتاتا ہوں
حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ وہ بیس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے ۔ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ غزوہ تبوک میں شریک ہوئے اور صرف بیس دن رہے یہ نا ممکن ہے ۔ کیوں کہ غزوہ تبوک بیس دن پر محیط نہ تھا اور ظاہر ہے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بھی غزوہ تبوک میں شرکت سے پہلے آئے ہوں گے ۔ اگر ان کے بیس دن غزوہ تبوک کے موقع پر مانیں جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ غزوہ تبوک کے لئیے گئے اور معاذاللہ آدھے راستے سے واپس آگئے ۔ یہ بھی نا ممکن ہے جو کچھ صحابہ غزوہ تبوک سے رہ گئے تھے ان کا حال آپ کو معلوم ہے ۔
آس روایت کو صحیح ماننے کا واضح مطلب ہے کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کم از کم دو مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اور یہ نا ممکن بھی نہیں
سجدہ کے رفع الیدین کا تذکرہ کرتے ہوئے ہوئے الحافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے کہا ہے
على تقدير أن يكون ذكر الرفع محفوظا، ولم يكن قد اشتبه بذكر التكبير بالرفع -بأن مالك بن الحويرث ووائل بن حجر لم يكونا من أهل المدينة وإنما كانا قد قدما إليها مرة أو مرتين، فلعلهما رأيا النبي - صلى الله عليه وسلم - فعل ذَلِكَ مرة، وقد عارض ذَلِكَ نفيُ ابن عمر، مع شدة ملازمته للنبي - صلى الله عليه وسلم - وشدة حرصه على حفظ أفعاله واقتدائه به فيها، فهذا يدل على أن أكثر أمر النبي - صلى الله عليه وسلم - كان ترك الرفع فيما عدا المواضع الثلاثة والقيام من الركعتين، وقد روي في الرفع عند السجود وغيره أحاديثُ معلولة.... "ثم ذكر هذه الأحاديث وبين عللها [فتح الباري لابن رجب (].

اس کا مطلب ہے حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کا دو مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہونا بعید از قیاس نہیں
اب اگر مذکورہ بالا حدیث صحیح مان لیا جائے تو سرفراز صفدر صاحب کا استدلال درست قرار پائے گا اور واقعی بات منطقی انجام تک پہنچ پائے گي کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کم از کم دو مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے
ویسے آپ کے ہاں اس حدیث کی کیا تحقیق ہے ؟


ہم یہاں صرف عمر کے آخری دور کی ہی بات نہیں کر رہے۔ بلکہ بڑھاپے اور ضعف کی بات بھی کر رہے ہیں۔ اور بڑھاپے اور ضعف کو احناف ہی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیا ہے۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 55 برس کی عمر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے اور ضعیف ہو چکے تھے کہ ان سے نماز میں بیٹھنا دشوار تھا؟

کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جلسہ استراحت بوجہ ضعف، ان کی عمر کے آخری چند دنوں یا چند ماہ کی بات نہیں، بلکہ نبوت ملنے کے بعد انہوں نے جتنی عمر گزاری، اس میں آدھی عمر ان کی ضعف میں گزر گئی؟
گویا ہجرت کے ایک دو سال یا تین چار سال بعد ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنے ضعیف ہو گئے تھے کہ نماز میں بیٹھنا دشوار ہو گیا؟؟؟ کیا یہ ماننے والی بات ہے؟
وہ صحابہ کا آپس میں باتیں کرنا کیا ہوا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کی طاقت دی گئی ہے؟
وہ تمام غزوات کیا ہوئے جن میں انہوں نے شرکت کی؟
یاد رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے ایک سال قبل تک غزوات میں مصروف رہے۔

۔
جو میں سمجھا ہوں کہ آپ کا مرکزی اعتراض اس پوسٹ میں ہے کہ یہ نا ممکن ہے کہ 55 سال میں بوڑھے اور ضعیف ہوگئے ؟
55 سال کی عمر بڑھاپے کی عمر کہلاتی ہے ۔ کیا آپ کو اختلاف ہے ؟ ۔ جہاں تک ضعف کا تعلق تو ہے تو اس عمر میں کوئی ایک آدھ ضعف آجائے تو وہ نا ممکن بھی نہیں ۔ اور ہم زندگي میں کئی افراد کو دیکتھے ہیں جو ضعف کی وجہ کرسے پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں لیکن باقی زندگي میں اور کوئی ضعف نہیں ہوتا
کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کب يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَاكَ قَدْ شِبْتَ کہا تھا اور کون سی بڑھاپے کی علامات دیکھ کر کہا تھا
اور آپ کا یہ کہنا
وہ صحابہ کا آپس میں باتیں کرنا کیا ہوا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کی طاقت دی گئی ہے
ایک آدھ ضعف اس مذکورہ بات کی منافی نہیں ۔ اگر آپ کے زاویہ سے سوچیں تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کرنماز پڑھنے آئے تھے تو کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاذاللہ یہ وصف ختم ہو گيا تھا کہ ان کو تیس مردوں کی طاقت ہے۔ کیوں کہ ہم کئی امتیوں کو دیکھتے ہیں کہ 63 سال کی عمر میں بھی وہ بغیر کسی سہارے کے نماز کے لئیے آتے ہیں !!!
 
Top