• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر اعتراضات کیوں ؟؟؟

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
سب سے کم عمر کی ماں ریکارڈڈ ہسٹری میں پانچ سال سات ماہ سترہ دن کی ہے
فلہذا اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کی نو سال کی عمر پر اعتراض ختم ہوا
مزید تفصیل کے لیے دیکھیں
List of youngest birth mothers - Wikipedia, the free encyclopedia
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
عبداللہ بھائی، آپ نے تو بات کا بتنگڑ بنا دیا، میرا م‏ؤقف صرف اتنا تھا کہ قرآن کریم شادی کے لیے ذہنی و جسمانی بلوغت کو ضروری قرار دیتا ہے اور "بنت" سے میری مراد لڑکی ہے، وہ لڑکی جسے ہم صحیح معنوں میں "لڑکی " کہتے ہیں۔ یعنی "سولہ سال سے کم عمر "فیمیل"۔ساری بحث کا ظلاصہ یہ ہے عائشہ کی جو عمر بخاری شریف میں لکھی ہے ، یعنی "چھ سال"بوقت نشادی اور "نو سال" بوقت "رخصتی"وہ غلط ہے۔کیونکہ سولہ سال تک کی عمر میں لڑکی کو "بنت" کہا جاتا ہے اور جوان عورت کو "امراۃ" کہا جاتا ہے۔ قران نے صرف رشتے گنواتے ہوئے بنت عم وغیرہ کہا ہے، ہیں تو وہ مکمل جوان عورتیں ہی۔ یہ عربی کا قاعدہ ہے کہ وہ رشتے "بنت" اور "ولد" سے شروع کرتے ہیں، ہماری طرح چچا ذاد بہن، پھوپھی ذاد، ماموں ذاد وغیرہ نہیں۔ لیکن جب صرف "بنت" یا "ولد" آئے گا تو اس کا مطلب "لڑکا " یا "لڑکی" ہی ہوتا ہے۔ اور لڑکا یا لڑکی کی شادی نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہ جسمانی و ذہنی طور پر "مکمل"یعنی بالغ نہیں ہوتے۔اس آیت میں صرف "چچاذاد"، "پھوپھی ذاد"وغیرہ خواتین کے بارے میں آیا ہے کہ ان خواتین سے شادی کرنا آپ کے لیے جائز ہے۔ اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ نعوذباللہ، اللہ نابالغ "لڑکیوں" سے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو شادی کرنے کا کہہ رہا ہے، انتہائی گمراہ کن "تشریح" ہے۔ دور کیوں جائیں، ایک جوان مرد آج بھی اپنے لیے ولد لکھتا ہے، یا جوان عورت اب بھی بنت لکھتی ہے، مثلاً عمران ولد سروردین، سماءعلی بنت عمران علی۔ اب ان تعارفی اسماء میں جو "ولد" اور "بنت" استعمال ہوئے ہیں وہ "رشتہ" ظاہر کرتے ہیں، "عمر "نہیں۔ممکن ہے عمران علی کی عمر پچاس سال ہو اور سماء علی کی عمر تیس سال ہو، لیکن لکھنے میں "ولد" اور "بنت" ہی آئے گا۔ لیکن جب ان دونوں کی عمر کے مطابق اس کو پکارا جائے گا یا اسکا تذکرہ کیا جائے تو بالترتیب، "رجل" اور "امراۃ" کہا جائے گا۔ امید ہے کہ اب آپ کی سمجھ میں آ گیا ہو گا۔ لیکن اب بھی اگر آپ ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو آپ کا اللہ ہی حافظ ہے، آپ اپنا "عقیدہ" بچائیے اور ہم اپنا "ایمان"۔ "لکم ولی الدین"
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
آپ نے جو لنک شیئر کرایا ہے، اسے شیئر کرانے سے پہلے آپ کو یہ تو سوچ لینا چاہیے تھا کہ "اماں عائشہ " کی عمر بوقت شادی درست ثابت کرنے کے چکر میں آپ نے "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیسے لوگوں سے جا ملایا ہے؟ یہ سب کے سب "ریپ" کے کیسز ہیں۔ آپ کے شیئر کرائے گئے لنک میں کوئی ایک بھی کم عمر "ماں" شادی کرکے "حاملہ" نہیں ہوئی ، بلکہ اسکے ساتھ "جنسی تشدد" کیا گیا تھا۔پتہ نہیں آپ لوگ اپنے غلط عقائد کو درست ثابت کرنے کے لیے کتنی گندی اور غلیظ حد تک اتر آتے ہیں۔یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس بات کا خاتم الانبیاء سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات اقدس پر کتنا برا اثر پڑے گا۔ "ایک تریپن سالہ " شخص کی "ایک چھ سالہ بچی" سے شادی چہ معنی دارد، جبکہ آپ یہ الزام "خاتم الانبیاء"، سرور کونین، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر لگا رہے ہیں۔

ان سب باتوں کو بھی چھوڑیے آپ یہ دیکھیے کہ ہم کس کتاب عظیم کے پیروکار ہیں، یہ انسانیت کے نام اللہ کی طرف سے آخری پیغام ہے ، جس کےلیے اللہ نے اپنے بندوں میں سب سے بہترین انسان کو چنا۔ایک عظیم الشّان شخصیت، جنکی زندگی ہر طرح کے عیوب سے پاک تھی، پھراس پر یہ عظیم الشّان کلام نازل کیا۔کیا اس کتاب عظیم سے کہیں بھی یہ ثابت ہے کہ "نابالغ بچوں کی شادی جائز ہے"؟ اگر یہ ثابت ہے تو بتلا دیجیے،ہم تو آپ کو ثابت کر دیا تھا کہ "شادی کے لیے "ذہنی و جسمانی بلوغت" شرط ہے۔آپ یہ دکھلا دیجیے کہ قرآن کریم میں "نابالغ بچوں" کی شادی جائز ہے، اور اگر آپ پھر بھی بضد ہیں تو خدا را اس سنت کو پورا کیجیے اور اپنی "چھ یا نوسالہ" نہیں تیرہ، چودہ سالہ بچی ہی کی شادی کر لیں۔ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں،؟ اور یہ بات تو میڈیکل سائنس بھی مانتی ہے کہ "تیرہ یا چودہ سالہ بچی " کو ماہواری آنا شروع ہوجاتی ہے۔ کیا ان پوسٹس کو "پسند"کرنے والے اپنی بہنوں ، بیٹیوں کی شادی "تیرہ یا چودہ " سال کی عمر میں کریں گے؟؟؟؟؟؟ یہ بہت بڑا کیوں ہے؟؟ ہمت ہے جواب دیجیے؟
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ نعوذباللہ، اللہ نابالغ "لڑکیوں" سے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو شادی کرنے کا کہہ رہا ہے، انتہائی گمراہ کن "تشریح" ہے۔[/ARB]
اس آیت کو چھوڑ کر نابالغ بچیوں سے نکاح نہ کرنے کی آپکے پاس کیا دلیل ہے ؟
اسی طرح آپ نابالغ کی امامت کو نہیں مانتے ہوں گے ؟
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
آپ نے جو لنک شیئر کرایا ہے، اسے شیئر کرانے سے پہلے آپ کو یہ تو سوچ لینا چاہیے تھا کہ "اماں عائشہ " کی عمر بوقت شادی درست ثابت کرنے کے چکر میں آپ نے "محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیسے لوگوں سے جا ملایا ہے؟ یہ سب کے سب "ریپ" کے کیسز ہیں۔ آپ کے شیئر کرائے گئے لنک میں کوئی ایک بھی کم عمر "ماں" شادی کرکے "حاملہ" نہیں ہوئی ، بلکہ اسکے ساتھ "جنسی تشدد" کیا گیا تھا۔پتہ نہیں آپ لوگ اپنے غلط عقائد کو درست ثابت کرنے کے لیے کتنی گندی اور غلیظ حد تک اتر آتے ہیں۔یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس بات کا خاتم الانبیاء سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات اقدس پر کتنا برا اثر پڑے گا۔ "ایک تریپن سالہ " شخص کی "ایک چھ سالہ بچی" سے شادی چہ معنی دارد، جبکہ آپ یہ الزام "خاتم الانبیاء"، سرور کونین، حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر لگا رہے ہیں۔
اوپر دیے گئے لنک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پچی بالغ کب ہوتی ہے - ظاہر ماہواری آئے گی تو حاملہ ہو گی اور ماہواری نشان ہے بلوغت کا
پس ثابت ہوا کہ پانچ سال کی بچی بھی بالغ ہو سکتی ہے
باقی نعوذ باللہ من ذلک کوئی ہمارے عالی شان نبی کو ان لوگوں سے نہیں ملا رہا وہ لنک صرف عورت کی بلوغت کی کم سے کم عمر کے ثبوت کے لیے پوسٹ کیا گیا تھا
اگر آپ پھر بھی بضد ہیں تو خدا را اس سنت کو پورا کیجیے اور اپنی "چھ یا نوسالہ" نہیں تیرہ، چودہ سالہ بچی ہی کی شادی کر لیں۔ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں،؟ اور یہ بات تو میڈیکل سائنس بھی مانتی ہے کہ "تیرہ یا چودہ سالہ بچی " کو ماہواری آنا شروع ہوجاتی ہے۔ کیا ان پوسٹس کو "پسند"کرنے والے اپنی بہنوں ، بیٹیوں کی شادی "تیرہ یا چودہ " سال کی عمر میں کریں گے؟؟؟؟؟؟ یہ بہت بڑا کیوں ہے؟؟ ہمت ہے جواب دیجیے؟
بالکل ان شاء اللہ مجھے جیسے ہی اپنی بیٹی کیلئے دیندار رشتہ ملا میں اسکی شادی کر دوں گا چاہے وہ نو سال کی ہی کیوں نہ ہو اگرچہ وہ بالغ نہ ہو لیکن جسمانی تعلق کو سہار سکتی ہو
ایک کام جو ہمارے نبی ﷺ نے کیا میں مغرب سے متاثر ہو کر اس سے کراہت نہیں کر سکتا ان شاء اللہ
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
عمران علی نے میرے جواب پر ، جو "بنات " پر تھا ، اعتراض کیا ہے ، اسکا جواب مندرجہ ذیل ہے ۔ وما توفیقی الا باللہ

١۔ عمران علی نے جو" بنت" کا معنی کیا ہے ، یعنی وہ "جسے صحیح معنوں میں لڑکی کہا جا سکتا ہو ، یعنی ١٦ سال سے کم فیمیل "، اسکو کسی مستند عربی لغت سے ثابت کریں ؟؟

٢۔ کیونکہ "بنت" عربی کا لفظ ہے ، عربی سے ہی اسکا معنی ہوگا ، انسان کی اپنی راے کی کوئ حیثیت نہیں ہے ۔

٣۔ عمران علی نے ، سورہ احزاب آیت # ٥٠ (( انا احللنا لک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وبنات عمک وبنات عماتک )) ، میں یہ تسلیم کیا ،کہ چچا کی لڑکیاں اور دیگر ، جنکے کے لیے ، قرآن میں" بنات " کا لفظ استعمال ہوا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال ہیں ، اور آپ انکے ساتھ نکاح فرماسکتے ہیں ۔ (الحمد للہ)

٤۔ عمران علی کا اعتراض صرف یہ ہے ، کہ الفاظ(( وبنات عمک وبنات عمتک )) میں جو "بنات" استعمال ہوا ہے ، وہ صرف رشتے ( چچا کی بیٹی ، پھوپھو کی بیٹی )کو ظاھر کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ یعنی بنات کا جو معنی عربی زبان میں ہوتا ہے ، یعنی " بچیاں " اسکو تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔ کیونکہ عمران علی کے نزدیک "بالغ " ہونا ضروری ہے ۔

٥۔ عمران علی ، "بنات" کا جو عربی معنی ہے یعنی " نابالغ بچیاں " اسوجہ سے نہیں مانتے ، کیونکہ انکے نزدیک یہ معنی قرآن کے خلاف ہے ۔

٦۔عمران علی ، "بنات" کے اس معنی کو نہ ماننے کی دلیل سورہ نسآء آیت #٦ کو بناتے ہیں ۔ آیت ملاحظہ کریں(( وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح))

٧۔ یعنی یتیموں کو آزماتے رہو ، یہاں تک کے وہ ( یتیم) "نکاح کی عمر" کو پہنچ جائیں ۔

٨۔ آیت کے الفاظ (( بلغوا النکاح)) کا لفظی ترجمہ ہے ، "بلغوا " وہ سب پہنچے ، (صیغہ فعل ماضی جمع مذکر غائب) ، "النکاح" نکاح کو ۔ یعنی جب وہ "نکاح" کو پہنچیں۔

٩۔ جبکہ عمران علی ترجمہ کیا ہے ، ((بلغوا النکاح)) "بلغوا" وہ سب بالغ ہوکر ، پہنچے ، " النکاح" نکاح کو ، یہ ترجمہ بالکل غلط ہے ۔

١٠۔ غالبا عمران علی ، عربی زبان کے " بلغوا ( پہنچنا ) " کو ، اردو زبان کے " بلوغ ( بالغ ہونا ، یعنی جوانی چڑھنا ) کے ساتھ ملارہے ہیں۔ جبکہ عربی اور اردو میں بہت فرق ہے ۔

١١۔ عربی کا لفظ " بلغوا " بلغ یبلغ سے ہے ، اور "بلغوا" کا مطلب ہے ( وہ سب پہنچے) مثلا ،" بلغوا البیت" ، بلغوا = وہ سب پہنچے ، البیت = گھر
جبکہ اردو میں" بلوغ" یا بلوغت کا مطلب ہے ( بالغ ہونا ، جوانی چڑھنا)

١٢۔ معلوم ہوا کہ عمران علی کا یہ دعوی ،کہ " بچیوں " سے شادی ، سورہ نسآء آیت# ٦ کے خلاف ہے ، باطل ہے ۔

١٣۔ جب سورہ نسآء کی آیت#٦ میں بلوغت کا تذکرہ ہی نہیں ، تو بچیوں کی شادی کو، قرآن کے خلاف کہنا جہالت ہے ۔

١٤۔ لیکن اگر عمران ، کو اس ترجمہ ( بلغوا النکاح) " وہ سب بالغ ہوکر نکاح کو پہنچے" ، پر اصرار ہے ، تو پھر وہ اس ترجمہ کو یقینا درست کہتے ہونگے ، (بلغوا البیت)
" وہ سب بالغ ہوکر گھر پہنچے " ۔

١٥۔ اگر عمران ( بلغوا البیت ) " وہ سب بالغ ہوکر گھر پہنچے " کو کسی مستند عربی لغت سے ثابت کردیں ، تو ہم اپنا دعوی ، کہ نابالغ بچیوں سے شادی جائز ہے ، چھوڑنے کو تیار ہیں ، ورنہ عمران ، حدیث سے رجوع کریں۔

١٦۔ معلوم ہوا کہ سورہ نسآء آیت #٦ کا ترجمہ ہی غلط کیا گیا ہے ، لہذا اس آیت کو حدیث کے خلاف کہنا ، خودبخود غلط ہوگیا ۔

١٧۔بفرض محال عمران ، کو پھر بھی اصرار ہو کہ ترجمہ درست ہے ، اور آیت ، حدیث کے خلاف ہے ، تو اسکا جواب درج ذیل ہے ۔

١٨۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر "بنت" یا "بنات" کو رشتہ بتانے کے لیے بھی کہا جاے ، جیسا کہ عمران نے کہا ہے ، جیساکہ آیت ہے (( و بنات عمک ۔۔))
تو پھر بھی "بنات" یا "بنت" سے نابالغ بچیاں ، باہر نہیں نکلتیں۔

١٩۔ مثلا اگر کہا جاے ، عائشہ بنت ابو بکر ، تو اس عائشہ میں تمام عمر کی عورتیں آتی ہیں۔ مثلا "عائشہ بنت ابوبکر" میں ، نومولود عائشہ کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، جوان یعنی بالغ عورت کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، اور بوڑھی کے لیے بھی۔

٢٠۔کیا بچی کے لیے ایسے کہا جاتا ہے ،"عائشہ چھوٹی بنت ابوبکر" ، یا جوان کے لیے" عائشہ بالغ بنت ابوبکر"، یا بوڑھی کے لیے "عائشہ بوڑھی بنت ابوبکر" معلوم ہوا بچی ہو ، یا بوڑھی ہو یا جوان ، سب کے لے " عائشہ بنت ابو بکر "کی کہا جاتا ہے ۔

٢١۔دوسری بات یہ ہے کہ ، اگر"عائشہ بنت ابو بکر" رشتے، ناتوں کو بتانے کے لیے بھی بولا جاے ، تب بھی عائشہ بنت ابوبکر میں ، تمام عمر کی عورتیں آتی ہیں ، مثلا کسی کاغذ پر عائشہ بنت ابو بکر لکھا ہوا ہو ، تو دیکھنے والا شخص اس "عائشہ" کو کسی بھی عمر کا سمجھ سکتا ہے ، مثلا بچی ، بوڑھی ، جوان ۔ جب تک کوئ جاننے والا نہ بتاے ،کہ یہ فلاں' "عائشہ" ہے ۔

٢٢۔ معلوم ہوا کہ اگر بنت یا بنات کو رشتے بتانے کے لیے بھی استعمال کیا جاے جسا کہ عمران نے کہا ہے ، تو بھی اس میں بچیاں شامل ہوتی ہیں ۔

٢٣۔ لہذا سورہ احزاب آیت #٥٠ (( و بنات عمک وبنات عمتک)) میں ، نا بالغ بچیاں بھی شامل ہیں ۔ اگر اس "بنت" یا "بنات "کو رشتوں کے لیے بولا جاے ، تو بھی اس میں تمام عمر کی عورتیں شامل ہیں، یعنی جوان ،بوڑھی، بچی ۔

٢٤۔ لہذا بنت یا بنات کو رشتوں کے یے بھی بولا جاے تو بھی اسمیں ، تینوں قسم کی عورتیں شامل ہیں ، یعنی بوڑھی ،جوان ،بچی۔

٢٥۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تینوں قسم کی "بنات" (بوڑھی ،بچی، جوان) حلال کی ہیں ۔آیت ملاحظہ ہو (( انا احللنا لک ۔۔۔ وبنات عمک وبنات عمتک)) سورہ احزاب آیت#٥٠۔

٢٦۔معلوم ہوا کہ عمران کا "بنات" کو رشتہ بتانے کے لیے کہنا فضول ہے ،اور اس سے بچیوں کے نکاح کا جائز ہونے پر کوئ فرق نہیں پڑتا۔

٢٧۔بفرض محال عمران کو اس دلیل پر اعتراض ہو کہ سورہ نسآء آیت#٦((اذا بلغوا النکاح)) میں، بلوغت ،نکاح کے لیے شرط ہے( عمران کے غلط ترجمہ کے مطا بق) ، یعنی "بنات "میں نابالغ بچیاں شامل نہیں ہیں، تو اسکا جواب درج ذیل ہے۔

٢٨۔ سورہ نسآء کی جو آیت# ٦ ،عمران نے بلوغت کی شرط کے لیے پیش کی ہے ، اسمیں خطاب ، ایمان والوں کو ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں ہے ۔ آیت ملاحظہ کریں (( وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح )) " (مسلمانو !) یتیموں کو آزماتے رہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ) معلوم ہوا کہ اس آیت میں خطاب مسلمانوں کو ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں ۔

٢٩۔ اور جس آیت میں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے "بنات" کو حلال کیا گیا ہے ، اسکا خطاب صرف آپ صلی اللہ علیہ سلم کو ہے ، اور وہ آیت ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے "خاص" ہے۔

٣٠۔آیت ملاحظہ ہو(( یآایھاالنبی انا احللنا لک ۔۔۔۔۔۔وبنات عمک وبنات عمتک۔۔۔۔۔۔۔خالصہ لک من دون المؤمنین)) " اے نبی! ہم نے تیرے حلال کیا۔۔۔۔۔۔۔ تیرے چچا کی لڑکیاں ، پھوپھیوں کی بیٹیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف تیرے لیے ہی ہے ، اور مؤمنوں کے لیے نہیں"۔

٣١۔معلوم ہوا کہ جس آیت میں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنات( بچی ، بوڑھی ، جوان) کو آپ کے لیے حلال کیا گیا ہے ، اسکا خطاب صرف آپ کو ہے ، اور یہ آیت صرف آپ کے لیے "خاص" ہے۔

٣٢۔ اور جو آیت عمران نے ، بنات ( بچیوں) اور نابالغ کے خلاف پیش کی ہے ( عمران کی مرضی کے ترجمہ کے مطابق) ، اسمیں بلوغت کی شرط ہے( بفرض محال) ، وہ عام مسلمانوں کے لیے ہے ۔ آیت ملاحظہ ہو (( وابتلوا االیتمی)) ( مسلمانو) یتیموں کو آزماتے رہو ۔۔۔۔۔) ۔

٣٣۔ معلوم ہوا کہ جس آیت سے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ، نابالغ بچیوں سے ، نکاح پر اعتراض کیا جا رہا ہے ، وہ تو مسلمانوں کے لیے ہے ، اور جس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ، نابالغ بچیوں سے نکاح حلال کیا گیا ہے ، وہ آیت تو آپ کے ساتھ "خاص" ہے۔

٣٤۔ لہذا ایک ایسی آیت ،جسکا خطاب مسلمانوں کو ہے ، اسکے ذریعے ایک ایسی آیت پر اعتراض کرنا ، جسکا خطاب صرف آپ کو ہے ، اور جو آپ کیلیے خاص ہے ، باکل غلط ہے ۔

٣٥۔ معلوم ہوا کہ جس آیت (سورہ نسآء آیت#٦) کو عمران نے ، نابالغ سے نکاح کے خلاف بیان کیا ہے ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے،نابالغ سے ،نکاح کے خلاف دلیل نہیں بنتی ، کیونکہ جس آیت میں، آپ کے لیے " بنات "کو حلال کیا گیا ہے وہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے "خاص" ہے ۔ (( خالصہ لک من دون المؤمنین))


؛؛؛؛وضاحت ؛؛؛؛ چونکہ اہل سنت والجماعت ،قرآن کریم کے ساتھ ساتھ ، احادیث پر بھی ایمان رکھتے ہیں ، لہذا اہل سنت کے مطابق "بنات" نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال ہیں بلکہ اس امت کے لیے بھی حلال ہیں۔

مذکورہ بالا جواب صرف عمران علی کی غلطی کو واضح کر نے کے لیے دیا گیا ہے۔

٣٦۔ چونکہ عمران علی، حدیث کو نہیں مانتے ہیں ، لہذا عمران کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم ،سے ایسی آیت پیش کریں جسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف " بالغ" عورتوں سے نکاح کا کہا گیا ہو ۔

٣٧۔ اگر عمران ، یہ ہی سوال مجھ سے کریں ، کہ آپ کوئ ایسی آیت پیش کریں ، کہ جسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نابالغ بچیوں سے نکاح کی اجازت دی گئ ہو تو یہ آیت ملاحظہ کریں (( انا احللنا لک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وبنت عمک وبنات عمتک )) سورہ احزاب آیت #٥٠

٣٨۔ اور یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ" بنات "کو اگر رشتہ بیان کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاے ، تو اسمیں تمام عمر کی عورتیں شامل ہوتی ہیں۔ یعنی بچی ،بوڑھی اور جوان۔

لہذا یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ، نابالغ بچیوں سے نکاح کرنا جائز ہے ۔ (الحمد للہ)

تمت
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
ھارون عبداللہ کے اعتراضات کا سیریل نمبر کے حساب سے جواب
عمران علی نے میرے جواب پر ، جو "بنات " پر تھا ، اعتراض کیا ہے ، اسکا جواب مندرجہ ذیل ہے ۔ وما توفیقی الا باللہ

١۔ عمران علی نے جو" بنت" کا معنی کیا ہے ، یعنی وہ "جسے صحیح معنوں میں لڑکی کہا جا سکتا ہو ، یعنی ١٦ سال سے کم فیمیل "، اسکو کسی مستند عربی لغت سے ثابت کریں ؟؟
محترم عبداللہ صاحب، عربی میں "بنت" کا ترجمہ دو چیزوں کو ظاہر کرتا ہے نمبر ایک "بیٹی کے رشتے کے لیے" نمبر دو "لڑکی" کے لیے۔ اس کا مادہ "ب ن ی" ہے۔ اور آپ کسی بھی عربی لغت میں "بنت" کا یہی ترجمہ دیکھیں گے۔ اردو میں لڑکی اور انگریزی میں Girl کسے کہتے ہیں، امید ہے یہ آپ جیسی عظیم ہستی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں۔
٢۔ کیونکہ "بنت" عربی کا لفظ ہے ، عربی سے ہی اسکا معنی ہوگا ، انسان کی اپنی راے کی کوئ حیثیت نہیں ہے ۔
بے مقصد سوال
٣۔ عمران علی نے ، سورہ احزاب آیت # ٥٠ (( انا احللنا لک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وبنات عمک وبنات عماتک )) ، میں یہ تسلیم کیا ،کہ چچا کی لڑکیاں اور دیگر ، جنکے کے لیے ، قرآن میں" بنات " کا لفظ استعمال ہوا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال ہیں ، اور آپ انکے ساتھ نکاح فرماسکتے ہیں ۔ (الحمد للہ)
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً
محترم عبداللہ صاحب، تحریف آیات آپ کرتے ہیں اور شکوہ بیچاے "قرآن کریم " کے پیروکاروں پر

حضرت اس آیت میں رشتوں کے لیے جہاں جہاں "و" استعمال ہوا ہے وہ "و عاطفہ" ہے اور ان سب رشتوں کو سمیٹ کر قرآن نے جہاں قرآن نے نکاح کی اجازت کا حکم دیا ہے وہاں جو "و" استعمال ہوا ہے وہ "و تفسیری" ہے، دوبارہ سے غور فرمائيے يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ [/ARB اس ٹکڑے میں بھی ایک وضاحت ہے "اے نبی ہم نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں جن کو تم نے ان کے مہر دے دیئے ہیں حلال کردی ہیں"
اب آگے بڑھیے، وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اس ٹکڑ میں وہ رشتے گنوائے گئے ہیں، عمر کا تعین نہیں کیا گيا۔ترجمہ"تمہاری لونڈیاں جو خدا نے تم کو (کفار سے بطور مال غنیمت) دلوائی ہیں اور تمہارے چچا کی بیٹیاں اور تمہاری پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تمہارے ماموؤں کی بیٹیاں اور تمہاری خالاؤں کی بیٹیاں"
اب اس آیت کے تیسرے اور اہم حصے کی طرف بڑھیے "اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً
آیت کے اس حصے میں مزید وصاحت کی جارہی کہ جو رشتے اس سے قبل بیان کیے گئے ان کی مزید کی صفات ہوں گی، پہلے ترجمہ دیکھیے،
"یعنی مومن عورتوں میں سے وہ جنہوں نے تمہارے ساتھ ہجرت کی"تو واضح ہوا کہ قرآن نے رشتے گنوانے کے بعد عمر اور انکے کردار کا بھی تعین کیا یہ وہ "امراۃ " ہو اور تمہارے ساتھ "مشقتیں " جھیل چکی ہوں، (ہجرت سے بڑی مشکل کسی قوم کے لیے کیا ہوسکتی ہے؟)
٤۔ عمران علی کا اعتراض صرف یہ ہے ، کہ الفاظ(( وبنات عمک وبنات عمتک )) میں جو "بنات" استعمال ہوا ہے ، وہ صرف رشتے ( چچا کی بیٹی ، پھوپھو کی بیٹی )کو ظاھر کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ یعنی بنات کا جو معنی عربی زبان میں ہوتا ہے ، یعنی " بچیاں " اسکو تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔ کیونکہ عمران علی کے نزدیک "بالغ " ہونا ضروری ہے ۔
اسکی وصاحت اوپر کے جواب میں ہوچکی ہے۔

٥۔ عمران علی ، "بنات" کا جو عربی معنی ہے یعنی " نابالغ بچیاں " اسوجہ سے نہیں مانتے ، کیونکہ انکے نزدیک یہ معنی قرآن کے خلاف ہے ۔
آپ عربی لغت سے "بنت " کا معنی "جوان عورت " ثابت کردیں، "لغات میں تو اس کا ترجمہ "لڑکی " ہی ہے۔

٦۔عمران علی ، "بنات" کے اس معنی کو نہ ماننے کی دلیل سورہ نسآء آیت #٦ کو بناتے ہیں ۔ آیت ملاحظہ کریں(( وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح))

٧۔ یعنی یتیموں کو آزماتے رہو ، یہاں تک کے وہ ( یتیم) "نکاح کی عمر" کو پہنچ جائیں ۔

٨۔ آیت کے الفاظ (( بلغوا النکاح)) کا لفظی ترجمہ ہے ، "بلغوا " وہ سب پہنچے ، (صیغہ فعل ماضی جمع مذکر غائب) ، "النکاح" نکاح کو ۔ یعنی جب وہ "نکاح" کو پہنچیں۔

٩۔ جبکہ عمران علی ترجمہ کیا ہے ، ((بلغوا النکاح)) "بلغوا" وہ سب بالغ ہوکر ، پہنچے ، " النکاح" نکاح کو ، یہ ترجمہ بالکل غلط ہے ۔

١٠۔ غالبا عمران علی ، عربی زبان کے " بلغوا ( پہنچنا ) " کو ، اردو زبان کے " بلوغ ( بالغ ہونا ، یعنی جوانی چڑھنا ) کے ساتھ ملارہے ہیں۔ جبکہ عربی اور اردو میں بہت فرق ہے ۔

١١۔ عربی کا لفظ " بلغوا " بلغ یبلغ سے ہے ، اور "بلغوا" کا مطلب ہے ( وہ سب پہنچے) مثلا ،" بلغوا البیت" ، بلغوا = وہ سب پہنچے ، البیت = گھر
جبکہ اردو میں" بلوغ" یا بلوغت کا مطلب ہے ( بالغ ہونا ، جوانی چڑھنا)

١٢۔ معلوم ہوا کہ عمران علی کا یہ دعوی ،کہ " بچیوں " سے شادی ، سورہ نسآء آیت# ٦ کے خلاف ہے ، باطل ہے ۔

١٣۔ جب سورہ نسآء کی آیت#٦ میں بلوغت کا تذکرہ ہی نہیں ، تو بچیوں کی شادی کو، قرآن کے خلاف کہنا جہالت ہے ۔

١٤۔ لیکن اگر عمران ، کو اس ترجمہ ( بلغوا النکاح) " وہ سب بالغ ہوکر نکاح کو پہنچے" ، پر اصرار ہے ، تو پھر وہ اس ترجمہ کو یقینا درست کہتے ہونگے ، (بلغوا البیت)
" وہ سب بالغ ہوکر گھر پہنچے " ۔

١٥۔ اگر عمران ( بلغوا البیت ) " وہ سب بالغ ہوکر گھر پہنچے " کو کسی مستند عربی لغت سے ثابت کردیں ، تو ہم اپنا دعوی ، کہ نابالغ بچیوں سے شادی جائز ہے ، چھوڑنے کو تیار ہیں ، ورنہ عمران ، حدیث سے رجوع کریں۔

١٦۔ معلوم ہوا کہ سورہ نسآء آیت #٦ کا ترجمہ ہی غلط کیا گیا ہے ، لہذا اس آیت کو حدیث کے خلاف کہنا ، خودبخود غلط ہوگیا ۔


لگتا ہے کہ آپ نے صرف پوائنٹ سکورنگ کے لیےاس ایک سوال کے دس سوال بنا دیے ہیں

میرے بھائی میں نےوابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح کے ترجمہ سے یہ استدلال پیش نہیں کیا کہ وہ "بالغ " ہو کر نکاح کی عمر کو پہنچیں، ٹھیک ہے کہ یہاں پر میں نے مفہوم کی وضاحت کے لیے لفظ "بالغ" کا اضافہ کیا تھا،اور میں اکیلا یہ مفہوم دینے والا نہیں بہت سے دوسرے مترجمین نے یہی ترجمہ کیا ہوا ہے۔اس سے قطع نظر میری دلیل یہ ہرگز نہیں تھی۔ میری دلیل اسی آیت کا اگلا ٹکڑا تھا، وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا یعنی فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا۔ ترجمہ: "اور یتمیوں کو شادی (لائق عمر ) پہنچنے تک پرکھتے رہو پھر اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو"دیکھیے کہ اس آیت میں اس بات کی وضاحت ہے کہ شادی لائق عمر کیا ہے، اور وہ عمر ہے "عقل کی پختگی" عقل و شعور کا بیدار ہونا، اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لائق ہوجانا۔اب مسئلہ یہ ہے کہ آپ حضرات اس آیت کا صرف ایک ہی مقصد سمجھتے ہیں یعنی "انتقال مال"، یعنی آپ کا بے تکا استدلال کہ اس آیت میں مال کی منتقلی کا طریقہ کار واضح کیا گیا ہے نہ کہ شادی کی عمر کا ، لیکن سوچنے کی بات کہ مال کی منتقلی کی عمر تو اسی آیت میں ہے، یعنی "جب وہ اپنے نفع نقصان " کو سمجھنے کے لائق ہو جائيں، اور قرآن نے اسی عمر کو تو شادی کی عمر کہا ہے اور نا صرف کہا ہے بلکہ آیت کا آغاز ہی یہی سے ہوا ہے۔

١٧۔بفرض محال عمران ، کو پھر بھی اصرار ہو کہ ترجمہ درست ہے ، اور آیت ، حدیث کے خلاف ہے ، تو اسکا جواب درج ذیل ہے ۔
فضول نکتہ
١٨۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر "بنت" یا "بنات" کو رشتہ بتانے کے لیے بھی کہا جاے ، جیسا کہ عمران نے کہا ہے ، جیساکہ آیت ہے (( و بنات عمک ۔۔))
تو پھر بھی "بنات" یا "بنت" سے نابالغ بچیاں ، باہر نہیں نکلتیں۔درست، نکلتی ہیں

١٩۔ مثلا اگر کہا جاے ، عائشہ بنت ابو بکر ، تو اس عائشہ میں تمام عمر کی عورتیں آتی ہیں۔ مثلا "عائشہ بنت ابوبکر" میں ، نومولود عائشہ کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، جوان یعنی بالغ عورت کے لیے بھی بولا جاتا ہے ، اور بوڑھی کے لیے بھی۔
یہ بھی درست

٢٠۔کیا بچی کے لیے ایسے کہا جاتا ہے ،"عائشہ چھوٹی بنت ابوبکر" ، یا جوان کے لیے" عائشہ بالغ بنت ابوبکر"، یا بوڑھی کے لیے "عائشہ بوڑھی بنت ابوبکر" معلوم ہوا بچی ہو ، یا بوڑھی ہو یا جوان ، سب کے لے " عائشہ بنت ابو بکر "کی کہا جاتا ہے ۔
بالکل درست

٢١۔دوسری بات یہ ہے کہ ، اگر"عائشہ بنت ابو بکر" رشتے، ناتوں کو بتانے کے لیے بھی بولا جاے ، تب بھی عائشہ بنت ابوبکر میں ، تمام عمر کی عورتیں آتی ہیں ، مثلا کسی کاغذ پر عائشہ بنت ابو بکر لکھا ہوا ہو ، تو دیکھنے والا شخص اس "عائشہ" کو کسی بھی عمر کا سمجھ سکتا ہے ، مثلا بچی ، بوڑھی ، جوان ۔ جب تک کوئ جاننے والا نہ بتاے ،کہ یہ فلاں' "عائشہ" ہے ۔
یہ بھی درست

٢٢۔ معلوم ہوا کہ اگر بنت یا بنات کو رشتے بتانے کے لیے بھی استعمال کیا جاے جیسا کہ عمران نے کہا ہے ، تو بھی اس میں بچیاں شامل ہوتی ہیں ۔

٢٣۔ لہذا سورہ احزاب آیت #٥٠ (( و بنات عمک وبنات عمتک)) میں ، نا بالغ بچیاں بھی شامل ہیں ۔ اگر اس "بنت" یا "بنات "کو رشتوں کے لیے بولا جاے ، تو بھی اس میں تمام عمر کی عورتیں شامل ہیں، یعنی جوان ،بوڑھی، بچی ۔

٢٤۔ لہذا بنت یا بنات کو رشتوں کے یے بھی بولا جاے تو بھی اسمیں ، تینوں قسم کی عورتیں شامل ہیں ، یعنی بوڑھی ،جوان ،بچی۔

٢٥۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تینوں قسم کی "بنات" (بوڑھی ،بچی، جوان) حلال کی ہیں ۔آیت ملاحظہ ہو (( انا احللنا لک ۔۔۔ وبنات عمک وبنات عمتک)) سورہ احزاب آیت#٥٠۔

٢٦۔معلوم ہوا کہ عمران کا "بنات" کو رشتہ بتانے کے لیے کہنا فضول ہے ،اور اس سے بچیوں کے نکاح کا جائز ہونے پر کوئ فرق نہیں پڑتا۔

آپکی پوائنٹ اسکورنگ کی عادت ہے کیا؟ ان سب پوائنٹس کا ایک ہی جواب
یہاں پر میں آپ سے اختلاف کروں گا، اگر کسی جملے سے اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ یہ رشتے کس عمر کے ہیں تو پھر چونکہ وصاحت ہو جاتی ہے لہذا، یہاں پر ہم "دانستہ" بچیاں یا لڑکیاں ترجمہ نہیں کریں گے، اور اگر ہم نے کیا تو ہم خیانت کے مرتکب ہوں گے۔اس کی وضاحت آپ کو اس سے ماقبل دیے گئے پوائنٹ نمبر چھ تا سولہ کی جا چکی ہے۔

٢٧۔بفرض محال عمران کو اس دلیل پر اعتراض ہو کہ سورہ نسآء آیت#٦((اذا بلغوا النکاح)) میں، بلوغت ،نکاح کے لیے شرط ہے( عمران کے غلط ترجمہ کے مطا بق) ، یعنی "بنات "میں نابالغ بچیاں شامل نہیں ہیں، تو اسکا جواب درج ذیل ہے۔

٢٨۔ سورہ نسآء کی جو آیت# ٦ ،عمران نے بلوغت کی شرط کے لیے پیش کی ہے ، اسمیں خطاب ، ایمان والوں کو ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں ہے ۔ آیت ملاحظہ کریں (( وابتلوا الیتمی حتی اذا بلغوا النکاح )) " (مسلمانو !) یتیموں کو آزماتے رہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ) معلوم ہوا کہ اس آیت میں خطاب مسلمانوں کو ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں ۔

کیا بات ہے جس بات کی اجازت مومنین کو نہیں "اسکی اجازت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو ، کیا کہنے آپکی اس تشریح کے، میرے بھائی قرآن کو جھٹلانے کے لیے آپ اس حد تک بھی اتر آئيں گے میں نے کبھی سوچا تک نہ تھا۔وہ ایک عمومی حکم تھا، جس کا اطلاق اس کے نافذ کرنے والے پر بھی ہوگا، عمومی حکم کا خاص پر اطلاق بشمول اس کے نافذ کرنے والے کے سب پر ضرور ہوتا ہے، جبکہ "خاص " حکم کا اطلاق "عوام" پر نہیں ہو سکتا، یہ کسی بھی قانون کا خاصہ ہوتا ہے۔پتہ نہیں آپ اپنی من گھڑت تاویلات کہاں سے لے آتے ہیں۔

٢٩۔ اور جس آیت میں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے "بنات" کو حلال کیا گیا ہے ، اسکا خطاب صرف آپ صلی اللہ علیہ سلم کو ہے ، اور وہ آیت ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے "خاص" ہے۔
میرے دوست آپ کی اس نکتہ آفرینی کی وضاحت آپ کے پوائنٹ اسکورنگ کے حصہ "چھ تا سولہ" میں کی جاچکی ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے "بنات" نہیں امراۃ "جائز قرار دیں گئیں تھیں۔"بنات" جیسا کہ واضح کیا جاچکا ہے "رشتوں " کی پہچان کے لیے تھا۔

٣٠۔آیت ملاحظہ ہو(( یآایھاالنبی انا احللنا لک ۔۔۔۔۔۔وبنات عمک وبنات عمتک۔۔۔۔۔۔۔خالصہ لک من دون المؤمنین)) " اے نبی! ہم نے تیرے حلال کیا۔۔۔۔۔۔۔ تیرے چچا کی لڑکیاں ، پھوپھیوں کی بیٹیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف تیرے لیے ہی ہے ، اور مؤمنوں کے لیے نہیں"۔

بالکل یہ حکم بالخصوص "سربراہ مملکت اور نبی" کے لیے ہی مختص تھا، یعنی وہ خواتین "جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنا گھر بار ، اپنے عزیز رشتہ دار اور اپنے مال و متاع کو چھوڑ کر آپ سے وفا کی وہ اسی سلوک کی مستحق تھیں۔اور اللہ نے ایسی خواتین کے لیے یہ بہترین انعام کیا کہ انہیں امہات المومنین بنا دیا۔کیا ان کے لیے یہ انعام کسی جنت سے کم ہے؟؟؟

٣١۔معلوم ہوا کہ جس آیت میں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنات( بچی ، بوڑھی ، جوان) کو آپ کے لیے حلال کیا گیا ہے ، اسکا خطاب صرف آپ کو ہے ، اور یہ آیت صرف آپ کے لیے "خاص" ہے۔
اب آپ اپنے مسلک کو ثابت کرنے کے آیت کو غلط رنگ دے رہے ہیں، کیا قرآن کریم کا بیان کردہ مفہوم درست مانا جائے یا آپ کی من مانی تاویلات؟؟؟؟ کہاں قرآن کا پیغام عظیم اور کہاں آپکی من مانی تاویلات؟؟؟

٣٢۔ اور جو آیت عمران نے ، بنات ( بچیوں) اور نابالغ کے خلاف پیش کی ہے ( عمران کی مرضی کے ترجمہ کے مطابق) ، اسمیں بلوغت کی شرط ہے( بفرض محال) ، وہ عام مسلمانوں کے لیے ہے ۔ آیت ملاحظہ ہو (( وابتلوا االیتمی)) ( مسلمانو) یتیموں کو آزماتے رہو ۔۔۔۔۔) ۔

پوائنٹ اسکورنگ کے لیے آپ نے دوبارہ سے وہی نکتہ آفرینی دھرائي ہے۔

٣٣۔ معلوم ہوا کہ جس آیت سے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ، نابالغ بچیوں سے ، نکاح پر اعتراض کیا جا رہا ہے ، وہ تو مسلمانوں کے لیے ہے ، اور جس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ، نابالغ بچیوں سے نکاح حلال کیا گیا ہے ، وہ آیت تو آپ کے ساتھ "خاص" ہے۔
کیا نتیجہ اخذ کیا ہے!!!! شاباش، جو یہی بات تو 'مستشرقین" کہتے ہیں، پھر آپ ان پر کفر کے فتوے کیوں لگا تے ہیں؟ کیا اللہ کا رسول خود اسی حکم کی نافرمانی کرے گا جو اللہ نے اسے دیا کہ "نکاح کے لیے رشد ضروری ہے"؟؟؟

٣٤۔ لہذا ایک ایسی آیت ،جسکا خطاب مسلمانوں کو ہے ، اسکے ذریعے ایک ایسی آیت پر اعتراض کرنا ، جسکا خطاب صرف آپ کو ہے ، اور جو آپ کیلیے خاص ہے ، باکل غلط ہے ۔

٣٥۔ معلوم ہوا کہ جس آیت (سورہ نسآء آیت#٦) کو عمران نے ، نابالغ سے نکاح کے خلاف بیان کیا ہے ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے،نابالغ سے ،نکاح کے خلاف دلیل نہیں بنتی ، کیونکہ جس آیت میں، آپ کے لیے " بنات "کو حلال کیا گیا ہے وہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے "خاص" ہے ۔ (( خالصہ لک من دون المؤمنین))


؛؛؛؛وضاحت ؛؛؛؛ چونکہ اہل سنت والجماعت ،قرآن کریم کے ساتھ ساتھ ، احادیث پر بھی ایمان رکھتے ہیں ، لہذا اہل سنت کے مطابق "بنات" نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال ہیں بلکہ اس امت کے لیے بھی حلال ہیں۔

مذکورہ بالا جواب صرف عمران علی کی غلطی کو واضح کر نے کے لیے دیا گیا ہے۔

٣٦۔ چونکہ عمران علی، حدیث کو نہیں مانتے ہیں ، لہذا عمران کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم ،سے ایسی آیت پیش کریں جسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف " بالغ" عورتوں سے نکاح کا کہا گیا ہو ۔

٣٧۔ اگر عمران ، یہ ہی سوال مجھ سے کریں ، کہ آپ کوئ ایسی آیت پیش کریں ، کہ جسمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نابالغ بچیوں سے نکاح کی اجازت دی گئ ہو تو یہ آیت ملاحظہ کریں (( انا احللنا لک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وبنت عمک وبنات عمتک )) سورہ احزاب آیت #٥٠

٣٨۔ اور یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ" بنات "کو اگر رشتہ بیان کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاے ، تو اسمیں تمام عمر کی عورتیں شامل ہوتی ہیں۔ یعنی بچی ،بوڑھی اور جوان۔

لہذا یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ، نابالغ بچیوں سے نکاح کرنا جائز ہے ۔ (الحمد للہ)

میرے محترم بھائی، عبداللہ صاحب، اپنے مسلک" اہل سنت والجماعت" کی عینک اتار کر قرآن کریم کی آیات کو خالص قرآن کریم سے سمجھنے کی کوشش کیجیے، کیونکہ وہ جہان ، جہاں ہم سب کو جانا ہے وہاں پر اللہ اپنی نازل کردہ کتاب "القرآن " سے ہم سے سوال پوچھے گا، "صحاح ستہ" سے نہیں۔ذرا سوچیئے کہ آپ وہاں کیا جواب دیں گے؟؟؟؟؟آپ نے محض پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ایک سوال کے دس دس سوال بنا ڈالے ہیں، اگرچہ اصل سوالات دو یا تین ہی ہیں اور میں نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں ان سوالات کا جواب دیا ہے۔
والسّلام،
عمران علی۔
 

عمران علی

مبتدی
شمولیت
اگست 25، 2012
پیغامات
71
ری ایکشن اسکور
38
پوائنٹ
21
لائق احترام ابوبکر صاحب،
بہت سے مومنین آپ کے اردگرد بھی پائے جاتے ہیں، حیرت ہے کہ آپ کو اپنی "نو سالہ بیٹی" کے لیے رشتہ نہیں مل رہا؟؟اسی پوسٹ کو پسند کرنے والے دوسرے احباب کیا اپنی "نوسالہ"بہنوں ، بیٹیوں" کی شادی کریں گے؟؟؟

اگرچہ آپ کو اس بات کا واضح ثبوت قرآن کریم کی آیت ہی سے دیا جاچکا ہے کہ شادی کے لیے "رشد"کی عمر کو پہنچنا ضروری ہے ، (سورۃ نساء آیت نمبر چھ اور سورۃ الاحزاب آیت نمبر پچاس "جہاں پر امراۃ کا لفظ لگا کر شادی لائق عمر کی مزید وضاحت کردی گئی ہے") اسکے باوجود آپ ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں، ماسوائے اسکے کہ آپ کے لیے "بارگاہ خداوندی میں رشد و ہدایت کی دعا کریں"۔ اللہ ہم سب کو قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
لائق احترام ابوبکر صاحب،
بہت سے مومنین آپ کے اردگرد بھی پائے جاتے ہیں، حیرت ہے کہ آپ کو اپنی "نو سالہ بیٹی" کے لیے رشتہ نہیں مل رہا؟؟اسی پوسٹ کو پسند کرنے والے دوسرے احباب کیا اپنی "نوسالہ"بہنوں ، بیٹیوں" کی شادی کریں گے؟؟؟
جی میری بیٹی کی ابھی اتنی عمر نہیں ہوئی، جیسے ہی ہو گی ان شاء اللہ میں رشتہ تلاش کرنا شروع کر دوں گا
باقی صرف اتنا عرض کروں گا کہ مغرب کے بنائے ہوئے معیارات پر پرکھیں گے تو اسلام میں اور بھی بڑی خامیاں مل جائیں گی لہذا اللہ کے لیے یا تو مغربی معیارات ترک کر دیں یا -------------(اس کا مشورہ میں آپکو نہیں دوں گا)
اگرچہ آپ کو اس بات کا واضح ثبوت قرآن کریم کی آیت ہی سے دیا جاچکا ہے کہ شادی کے لیے "رشد"کی عمر کو پہنچنا ضروری ہے ، (سورۃ نساء آیت نمبر چھ اور سورۃ الاحزاب آیت نمبر پچاس "جہاں پر امراۃ کا لفظ لگا کر شادی لائق عمر کی مزید وضاحت کردی گئی ہے") اسکے باوجود آپ ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں، ماسوائے اسکے کہ آپ کے لیے "بارگاہ خداوندی میں رشد و ہدایت کی دعا کریں"۔ اللہ ہم سب کو قرآن کریم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
ان آیات کی جو بھی آپ تاویلیں کر رہے ہیں وہ سلف صالحین سے ثابت نہیں
 
Top