• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شیخ القراء قاری اِظہار احمد تھانوی﷫

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ القراء قاری اِظہار احمد تھانوی﷫

قاری محمد فیاض​
شیخ المشایخ قاری اظہار احمد تھانوی﷫ وہ جلیل القدر شخصیت ہیں کہ بلا مبالغہ جن کی خدماتِ جلیلہ کی بدولت پاکستان میں علم تحوید و قراء ات کا سلسلہ جاری ہے۔ حضرت قاری صاحب کی شخصیت اس اعتبار سے انتہائی اعلیٰ مقام رکھتی ہے کہ آج پاکستان میں علم تجوید و قراء ات کے فروغ میں سطح اوّل کے تمام اساتذہ قراء آپ ہی کے تلامذۃ ہیں۔ قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ادارہ رُشد کے قراء ات نمبرز کی مجلس مشاورت میں شامل تمام مکاتب ِفکر (اہل حدیث، دیوبندی، بریلوی حضرات) کے اساتذہ علمی طور پر آپ سے فیض یاب ہیں۔ اگرچہ ہم نے اہل تشیع میں سے کوئی نمایاں شخصیت مجلس مشاورت میں شامل نہیں کی لیکن اندرون لاہور میں شیعہ حضرات کے ’قراء ات کالج‘ کے ذمہ داران بھی حضرت قاری صاحب سے ہی سند یافتہ ہیں۔
آپ کے ہم عصر اساتذہ میں شیخ القراء قاری محمد شریف اور شیخ القراء قاری حسن شاہ صاحب رحمہما اللہ وغیرہ شامل ہیں لیکن درس و تدریس میں جس طرح آپ کا سلسلہ جاری و ساری ہے شائد ہی کوئی اور شخصیت اس میں آپ کی مماثل ہو۔ اساتذہ کرام اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ قاری صاحب﷫ اگرچہ مسلک کے اعتبار سے ’دیوبندی‘ تھے لیکن دیگر مکاتب ِفکر سے آپ نے کبھی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا۔ شیخ القراء قاری محمد ادریس﷾ کے بقول جب کبھی سفر میں اہل حدیث مسجد آجاتی تو حضرت قاری صاحب فرماتے کہ لو بھئی! اپنی مسجد آگئی ہے، آؤ نماز پڑھیں۔
قاری اظہار احمد تھانوی﷫ جہاں ایک ماہر فن قاری تھے وہیں جلیل القدر عالم دین بھی تھے۔ علم قراء ات کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے سے قبل آپ جامعہ اشرفیہ میں جامع ترمذی کا درس دیا کرتے تھے۔ شیخ القراء قاری محمد یحییٰ رسولنگری﷾ فرماتے ہیں کہ بسا اوقات شیخ فرماتے کہ میں پختہ عالم تھا، لیکن سب کچھ چھوڑ کر قرآن اور علوم قرآن سے اپنے آپ کو مختص کرلیا، تو ہم کہتے کہ جناب شیخ! پھر لوگ کبھی قاری اظہار احمد سے واقف نہ ہوتے، جبکہ فقہ وحدیث کے پڑھانے والے تو سینکڑوں ہیں۔
قراء ات نمبر کے آخری شمارہ میں ہم نے اس احساس کے تحت کہ عرب و عجم میں ایسی شخصیت کے حالات کو قارئین کے سامنے پیش کریں جن کے فیض کی بدولت مجلہ رُشد کی قراء ات کے حوالے سے متعدد اشاعتیں منظر عام پر آئی ہیں، اس غرض سے برصغیر پاک و ہند میں جس شخصیت کا ہم نے انتخاب کیا وہ حضرت شیخ﷫ کی ذاتِ گرامی ہے۔ قاری صاحب﷫ کے تفصیلی حالات جاننے کیلئے قارئین کو قراء ات اکیڈمی لاہور سے مطبوع کتاب سوانح قاری اظہار صاحب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تھانہ بھون کا مختصر تعارف
حالات و واقعات قلم بند کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس قصبے کا ذکر کیا جائے جہاں حضرت قاری اظہار احمد تھانوی صاحب پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش تھانہ بھون ہے، جو کہ ایک ہندو راجے کے نام سے موسوم ہے۔ اس قصبے میں بہت سے رؤساء اور صلحاء ِ وقت پیدا ہوئے، جن میں نواب عنایت علی خان، حاجی امداد اللہ، حضرت حافظ ضامن علی شہید، حضرت مولانا شیخ محمد، حضرت مولانا فتح محمد خان تھانوی اور مولانا اشرف علی تھانوی شامل ہیں۔ علماء میں ملا محمد صابر تھانوی اور مولانا شیخ محمد تھانوی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ امام القراء حضرت قاری عبد المالک صاحب کا بھی تھانہ بھون میں قیام رہا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خاندانی پس منظر
حضرت کے آباؤ اجداد اصلا عرب اور خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق﷜ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کاسلسلۂ نسب اٹھائیس واسطوں سے حضرت عبد اللہ بن ابی بکر﷫ کے ذریعے سے حضرت ابو بکر صدیق﷜ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد گرامی کا نام حافظ اعجاز احمد تھانوی﷫، اور دادا کا نام منشی ابراہیم تھانوی تھا۔ آپ کی والدہ محترمہ کا نام محمودہ بیگم ہے،جو اب بھی حیات ہیں۔ان کے علاوہ رضیہ بیگم ان کی بہن تھی۔ حضرت قاری صاحب﷫ کی ایک بڑی بہن قمر النساء ہیں۔ قاری صاحب کا دوسرے نمبر پر نام ہے اس کے بعد چھوٹی بہن زیب النساء پھر چھوٹے بھائی قاری سرفراز احمد تھانوی تلمیذ خاص حضرت مولانا قاری عبد المالک صاحب ہیں۔ حضرت کی جائے سکونت تھانہ بھون تھی جہاں مسجد پیر محمد والی میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف تھانوی کا قیام تھا اور اسے ہی مدرسہ امدادیہ کہتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ننھے اظہار سے اُستاذ القراء تک
تھانہ بھون ضلع مظفر نگر یوپی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جو ہندوستان کے دیگر مشہور مقامات کے مقابلے میں کم مشہور ہے لیکن جب تحریک جہاد کا نعرہ بلند ہوا تو اس غیر معروف قصبے کا نام سرخیل آزادی کے متوالوں میں سب سے بلند رہا۔ اسی قصبے میں ۹ ذوالقعدہ ۱۳۴۵ھ بروز منگل بمطابق سن عیسوی ۱۹۳۵ء دن گیارہ بجے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام ’’اظہار ‘‘ رکھا گیا۔
بچپن میں ننھا اظہار نہایت صحت مند اور موٹا تازہ تھا اور اکثر جب گھر سے دور نکل جاتا تو گھر والے بہت پریشان ہو جاتے اور پھر ڈھونڈ کر واپس لاتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابتدائی تعلیم
آپ چار سال کی عمر میں ناظرہ قرآن پڑھنے کی لیے حکیم الامت کی خانقاہ میں قائم کردہ مدرسہ امداد العلوم میں بٹھائے گئے۔ اس کے بعد یہیں سے آپ نے حفظ بھی کیا۔
جب لڑکوںمیں اس بات کی شرط لگتی کہ کون مدرسہ میں پہلے آئے گا تو سب سے پہلے قاری صاحب پہنچتے اور مسجد کا دروزاہ کھلنے تک دائیں بائیں بنی سہروردی پر بیٹھ جاتے استاد صاحب یہ ذوق وشوق دیکھ کر آپ کو دعائیں دیتے۔
حکیم الامت بچوں سے بہت محبت کرتے تھے اس لیے انہوں نے مدرسہ کے اساتذہ کو ہدایت کی ہوئی تھی کہ بچوں کو میرے سامنے بالکل سزا مت دیا کریں۔
قاری صاحب ایک دفعہ دوستوں کے ساتھ ایک ویران گھر میں امرود توڑنے گئے‘ جہاں انہوں نے کالے رنگ کی کھلے بالوں والی عورتیں دیکھیں جو گالیاں دے رہی تھیں‘ قاری صاحب گھر بھاگ آئے اور تیز بخار ہو گیا۔ قاری اظہار صاحب نے جب پہلی مرتبہ قرآن پاک سنانا چاہا تو رمضان المبارک کے ۱۵ روزے گذر چکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک دن میں۲ ،۲پارے سنا کر قرآن مکمل کر دیا۔ اور جب قاری صاحب نے پہلی دفعہ قرآن سنایا تو بہت زیادہ مٹھائی تقسیم کی گئی۔
حفظ قرآن کرنے کے بعد ابتدائی تعلیم خانقاہ میں قائم امداد العلوم سے حاصل کی۔ فارسی کا مروجہ نصاب تین سالوں میں مکمل کیا۔ تیسرے سال میں مولانا شریف سے فارسی کی بڑی کتابوں کے ساتھ ساتھ تاریخ، سیرت مبارکہ اور حساب پڑھا، اس دوران خوش خطی بھی سیکھی۔ علاوہ ازیں ابتدائی عربی ہدایۃ الحرۃ، ادب منطق اور فقہ کی ابتدائی کتب کے علاوہ شرح جامی ، اصول الشاشی متعدی اور شرح تہذیب وغیرہ مولانا محمد شریف سے مکمل کیں۔ حضرت قاری صاحب نے حکیم الامت سے بھی درس لیا یا کوئی کتاب پڑھی تھی، جو کہ اعزاز کی بات ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَساتذہ کا احترام اور ان کی خدمت
قاری صاحب اپنے اساتذہ کی بے حد عزت کرتے تھے۔ ایک دفعہ ابتدائی استاد میر احمد میرٹھی آئے تو قاری صاحب کمرکی تکلیف کے باوجود دو زانو ہو کر بیٹھے۔ مولانا محی الدین بنگالی کو رہائش کا مسئلہ ہوا تو قاری صاحب نے انہیں اپنے گھر میں رہنے کے لئے جگہ دی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مظاہر العلوم کے شب و روز
قاری اظہار صاحب کو حصول علم کا بہت زیادہ شوق تھا،مگر ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال تھا کہ گھر والوں پر بوجھ نہ بنیں۔ چنانچہ مظاہر العلوم کو وظیفہ کی بناء پر ترجیح دی اور داخلہ لے لیا۔ قاری صاحب نے مظاہر العلوم میں پہلے سال شرح وقایہ ، نور الأنوار، تعلیم المتعلم، مختصر معانی اور سلم العلوم پڑھیں۔ جبکہ دوسرے دور میں شرح عقائد ، مشکوٰۃ، شرح نخبۃ الفکر اور امور عامہ کے علاوہ صحاح ستہ اور فقہ وحدیث کی تمام کتب پڑھیں۔ یہاں قاری صاحب کو بہت سے اساتذہ سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا جن میں نمایاں مولاناسرفراز احمد تھانوی، مولانا خلیق الرحمن کاندھلوی، عبد الشکور کامہوری اور حضرت مولانا صدیق (نحو ومعانی اور منطق کے مشہور استاد) شامل ہیں۔
قاری اظہار صاحب حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ میرے لیے عظمت کا مینار تھے۔ قاری صاحب علم کے اس قدر حریص تھے کہ اکثر قولنج کی درد کے باوجود کبھی حضرت شیخ الحدیث کا درس نہ چھوڑتے۔
اس کے علاوہ قاری صاحب کو فن کتابت میں بھی مہارت حاصل تھی جب آپ کوئی چار ٹ لکھتے تو لوگ بے حد تعریف کرتے۔
قاری صاحبڈ کو برص کی بیمار ی لاحق تھی اس کے بارے میں وہ کہا کرتے تھے کہ شاید انہیں برص اس وجہ سے ہوا ہے کہ وہ بچپن میں بہت کھٹی چیزیں کھاتے تھے۔
قاری صاحب حصول پاکستان کی جدو جہد میں پیش پیش رہے اور اس دوران بہت سے معرکے سر انجام دیئے۔ پھر جب پاکستان بن گیا توتھانوی صاحب نے یہاں آنے کیلئے جناب مظاہر علی سے جھوٹ بولا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس جھوٹ کا ساری عمر پچھتاوا رہے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَزداوجی زندگی
جب قاری صاحب کے گھر والے لاہور منتقل ہوئے تو ان کی شادی مظفر نگر کی ایک مہاجر خاندان کی لڑکی سے ہو گئی ان کا نکاح حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے پڑھایا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَولاد
۱۹۵۶ء میں آپ کے ہاں پہلے بچے کی ولادت ہوئی۔ جس کا نام احمد ندیم رکھا گیا۔ لیکن وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکا اور چودہویں دن وفات پاگیا۔ ۱۹۵۷ء میں دوسرے صاحبزادے بختیار احمد پیدا ہوئے۔ جبکہ ۱۹۵۹ء میں عمار احمد، ۱۹۶۱ء میں عمیر احمد، ۱۹۶۳ میں عزیر احمد اور ۱۹۶۶ء میں نجم الصبیح پیدا ہوئے۔ پھر ۱۹۶۸ء میں پہلی بیٹی اور ۱۹۷۴ میں دوسری بیٹی کی ولادت ہوئی۔ اس طرح حضرت کے چھ صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں پیدا ہوئیں۔ جن میں سے ماشاء اللہ پانچ صاحبزادے اور دونوں بیٹیاں بقید حیات ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
متفرق واقعات
۱۹۵۹ء میں شہید ملت خان لیاقت علی خان ( جو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے) کو شہید کر دیا گیا۔ اس زمانہ میں قاری اظہار صاحب روزنامہ انقلاب میں کام کرتے تھے۔ قاری صاحب فرماتے ہیں :
کہ جب مجھے شہادت کی خبر ہوئی، تو یہ بھی پتہ چلا کہ ۱۰ اکتوبر کی شام کو جالندھر سے چلنے والی ٹرین ۱۳ اکتوبر کی شام کو لاہور پہنچے گی۔لہٰذا اس پر سوار ہوئے اور یہ بڑے مشکل حالات میں ایک بہن کو ساتھ لے کر لاہور پہنچے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن سے دھولی منڈی انار کلی آئے، وہاں بیس روپے ماہانہ کرائے پر ایک عمارت کے باورچی خانہ میں رہائش ملی ۔کھانا بازار سے کھانا پڑتا جس کی وجہ سے بڑی مشکل سے گزارا ہوتا۔ پھر اس عمارت کے مالک کے گھر ٹیوشن پڑھانا شروع کر دی۔ ۴۰ روپے فیس مقرر ہوئی۔ ۲۰ روپے کرائے کے کاٹ لیے جاتے۔ اس طرح ۲۰ روپے کی آمدن سے بمشکل گذر بسر ہونے لگی۔
ایک دن حضرت قاری صاحب جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد میں مفتی محمد حسن کے پاس گئے۔ انہیں اپنے حالات سے آگاہ کیا اور حضرت مفتی صاحب نے شفقت فرماتے ہوئے مقدس مسجد دھولی منڈی کے نزدیک ایک بلڈنگ کی چابی حضرت قاری صاحب کوعنایت فرما دی۔ قاری صاحب نے بہن کو ساتھ لیا اور وہاں پہنچ گئے۔ عمارت کافی عرصہ سے خالی تھی اسی لیے گردو غبار سے اَٹی ہوئی تھی۔ بہن نے پورے گھر کی صفائی کی اور میرے لئے ایک بیٹھک اور دار المطالعہ کے لئے دوسری منزل پر ایک کمرہ صاف کر دیا۔ یہاں پر خوب محفلیں جمتیں لوگوں کی خوب آمد ورفت رہتی چائے شربت اور دیگر لوازمات سے خاطر تواضع ہوتی رہتی۔
 
Top