• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۱۰۔ وہ راوی جو بظاہر کسی شے کی طرف منسوب ہوئے مگر درحقیقت وہ نہیں تھے:
جیسے: خالد الحذاء۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ وہ جوتیاں بناتے یا بیچتے تھے مگر ایسا نہیں تھا بلکہ وہ ان موچیوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تو یہ صحبت انہیں حذاء متعارف کراگئی۔یا عقبۃ بن عمرو البدری یہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ وہاں رہتے تھے۔یزید الفقیر بھی ایک راوی ہیں۔ یہ فقیر نہیں تھے بلکہ ان کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے میں جسے فقار کہتے ہیں چوٹ لگ گئی تھے جس کی وجہ سے فقیر کہلائے۔یہ وضاحتیں اس لئے کی گئیں تاکہ راوی کے بارے میں کوئی وہم نہ ہو۔اس موضوع پرامام سمعانی کی کتاب الانساب اور ابن الاثیر کی اللباب فی تھذیب الانساب دونوں مطبوع ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۱۱۔ المفردات:
اس سے مراد کسی راوی کا ایسا نام، کنیت یا لقب جو کسی اور کا نہیں۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ ان اسماء ،کنی اور القاب میں انسان سے تصحیف وتحریف واقع نہیں ہوتی کیونکہ ایسے نام وکنی اور القاب بہت کم رکھے یا بولے جاتے ہیں۔ جیسے: ناموں میں صُدَیّ بن عَجْلان، سَنْدَر الخَصِیّ، شَکْل بن حُمَید العَبْسِی، یہ صحابہ کرام میں سے ہیں اور غیر صحابہ میں سے : الدُّجَین بن ثابت اور نُفَیْر بن نُقَیر کی طرح کُنٰی میں: ابو العُشْرَاء الدارمی، ان کا نام اسامہ بن مالک تھا۔ اور أبو المُدِلّ ان کا نام معلوم نہیں اور أبو الحمراء جو رسول اللہ ﷺ کے مولی تھے ان کا نام ہلال بن حارث تھا۔

اور القاب میں:
سفینہ جو رسول اللہ ﷺ کے مولی تھے ان کے نام وکنیت میں اختلاف ہے ۔ سَحْنُون جومشہور کتاب المُدَوَّنَہ کے مؤلف ہیں ان کا نام عبد السلام بن سعید تھا اور مَنْدَل جن کا نام عمرو بن علی تھا۔ایک کتاب الاسماء المفردۃ اس موضوع پر لکھی گئی جس کے مؤلف احمد بن ہارون بردیجی ہیں۔

٭٭٭٭٭​


وَإِنْ تَجِدْ عَیْبًا فَسُدَّ الْخَلَلَا جَلَّ مَنْ لَا عَیْبَ فِیْہِ وَعَلَا
اگر تم کوئی عیب پاؤ تو یہ خلا پر کردو ذات تو وہی ہے جو بے عیب ہے اور بلند وبالا ہے​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
باب ۷
تحمل حدیث اور اداء حدیث

سماع حدیث:
شیوخ سے سماع حدیث کے خواہشمندطالب علم کے لئے کیا اور کون سی شرائط وآداب ہیں اور اس کے لئے کیا مناسب ہے کہ وہ روایت کا سماع کرے اور کس طرح اسے شیخ سے حاصل کرے تاکہ بعد میں دوسروں کو وہ حدیث روایت کرسکے۔ یہ سب سماع حدیث کا لازمہ ہیں۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ:

سماع حدیث کی ابتداء کب ہو؟ ایک طالب علم حدیث کا سماع کب کرے؟ س بارے علماء کے مختلف اقوال ہیں:

…تیس سال کی عمر میں۔ اہل شام اسی کے قائل ہیں۔
…بیس سال کی عمر میں۔ اہل کوفہ کی یہی رائے ہے۔
…دس سال کی عمر میں ۔ یہ اہل بصرہ کا کہنا ہے۔
متاخر زمانہ میں مناسب یہی ہے کہ طالب علم کوسماع حدیث اسی وقت شروع کردینا چاہئے جب اس کا سننا صحیح ہو۔ کیونکہ احادیث کتب میں ضبط شدہ ہیں جنہیں کوئی خطرہ نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کیا صغر سنی میں سماع ہو سکتا ہے؟

کچھ علماء نے سماع کی حد پانچ سال عمر مقرر کی ہے جس پر عمل بھی رہا ہے جب کہ بعض نے عمرمیں تمیز کو مشروط کرتے ہیں کیونکہ شیخ کی بات یا خطاب کوسمجھنا اور پھراس کا جواب دینا ہی صحیح سماع ہے جواس کی حدامتیازہے۔ورنہ نہیں۔نیز وہ دو اشخاص کے مابین تمیز بھی کرسکے کہ فلاں نے یہ بات کہی تھی اور فلاں نے یہ۔ مزید یہ کہ اسے طہارت ونجاست کے مابین فرق بھی معلوم ہو۔یہ پہلی شرط ہے جو طالب حدیث کی صلاحیت پرکھنے کے لئے رکھی گئی ہے۔ بعض علماء کے نزدیک سات سال عمر مکمل ہونے پر بچہ ممیز ہوجاتا ہے مگرکیا ایسے بچے کا سماع درست ہوگا؟ اس بارے میں علماء کے دو قول ہیں۔

پہلا قول یہ ہے کہ سماع صغیر درست ہے اور جائز بھی۔ یہ رائے جمہور کی ہے ۔ان کا کہنا یہ ہے کہ گو وہ مکلف نہیں مگراس کے لئے سماع فرض بھی نہیں۔ صرف جواز کی حد تک صحیح کہا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ وہ صغیر ممیز ہو۔

دوسرا قول علماء کا یہ ہے کہ سماع صغیر ناجائز ہے۔اس لئے کہ وہ مکلف نہیں ہوتاخواہ ممیز ہی کیوں نہ ہو۔

ان آراء میں پہلی رائے کو محدثین کی اکثریت تسلیم کرتی ہے۔
ان کے دلائل یہ ہیں:محمود ؓبن الربیع کہتے ہیں:
عَقَلْتُ مِنَ النَّبیِّ ﷺ مَجَّةً مَجَّھَا فِی وَجْھِیْ وَأَنَا ابْنُ خَمْسَ سِنِیْنَ مِنْ دَلْوٍ۔ مجھے یاد ہے کہ نبی کریم ﷺ نے میرے منہ پر ایک بار کلی کی تھی اور میں پانچ سال کا تھا۔(صحیح بخاری ح:۷۷)

اسی طرح ابن عباسؓ کی حدیث بھی تحمل صغیر کو جواز فراہم کرتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
أَقْبَلْتُ رَاکِبًا عَلَی حِمَارٍ أَتَانٍ، وَأَنَا یَومَئِذٍ قَدْ نَاھَزْتُ الاِحْتِلَامَ، وَرَسولُ اللہِ ﷺ یُصَلِّی بِمَنًی إِلٰی غَیرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَینَ یَدَیْ بَعْضِ الصَّفِّ، وَأَرْسَلْتُ الاَتَانَ تَرْتَعُ، فَدَخَلْتُ فِی الصَّفِّ، فَلَمْ یُنْکَرْ ذَلِكَ عَلَیَّ۔ میں ایک بار گدھی پر سوار ہوتا آیا ان دنوں میں بالغ ہونے کے قریب تھا۔ رسول اکرم ﷺ منی میں نماز پڑھا رہے تھے اور آپ ﷺ کے آگے کوئی دیوار نہیں تھی۔ میں کچھ صف کے آگے سے گذرا اور پھر گدھی کو چرنے کے لئے وہیں چھوڑ دیا۔ پھرصف میں شامل ہوگیا۔ کسی نے بھی میری اس حرکت پر مجھے نہیں ٹوکا۔

ان دلائل کے ہوتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جس بچے میں تمیز کا ملکہ نہیں اس کا تحمل بھی درست نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی بزرگ اپنی بزرگی کی وجہ سے تمیز کھوبیٹھے تو اس کا تحمل بھی درست نہ ہوگا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
تحمل حدیث:
عربی میں کسی معاملہ کا بوجھ اٹھانا اور ذمہ لینا اسے تحمل کہتے ہیں۔ اصطلاح میں: شیخ واستاذسے حدیث ، اخذ کرنے اور لینے کو تحمل حدیث کہتے ہیں۔اور

اداء:
عربی میں کسی شے کو پہنچانا اور اسے مکمل کرنا۔
اصطلاح میں: تحمل حدیث کے بعد اسے روایت کرنا اداء کہلاتا ہے۔

شرائط:
محدثین نے حدیث سیکھنے اورپڑھنے والے کے لئے تین شرائط کا ہونا لازمی قرار دیا ہے۔
۱۔ تمییز:
کہ راوی خطاب کو سمجھ سکے اور اس کا جواب بھی درست دے سکے۔
۲۔ عقل:
دوسری شرط طالب علم کا عاقل ہونا ہے۔ مجنون اور غنودگی والے کا تحمل درست نہیں ہوگا اس لئے کہ وہ عاقل نہیں۔
۳۔ موانع سے محفوظ ہو:
وہ چیز جو طالب علم کو تحمل حدیث سے روکتی ہو جیسے: اونگھ، بڑبڑانے کی عادت یا مصروف شخص۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس تحمل حدیث کی آٹھ اقسام ہیں ۔جن میں پہلے دوزیادہ مقبول ہیں۔:
۱۔ سماع: (Reading by the teacher) یہ پہلا طریقہ ہے کہ شیخ حدیث پڑھے اور طالب علم سنے۔اس طریقہ میں :
…شیخ ، اپنی مرویات کو اپنے حفظ ویادداشت سے پڑھتے جس کی دوسری صدی ہجری میں عام ریت تھی مگر طالب علم کو اپنے شیخ کے ساتھ بہت عرصہ رہنا پڑتا تھا۔
…یا شیخ اپنی کتاب سے احادیث پڑھتے یا کسی ذہین طالب علم کی منقول کتاب سے پڑھتے جو اس نے اپنے شیخ کی کتاب سے کی یا شیخ کی کتب سے انتخاب کیا ہوتا۔
…یا طالب علم، شیخ سے علمی نشست کے دوران حدیث سے متعلق سوالات کرتے اور شیخ اس کے جوابات دیتے۔یا طالب علم حدیث کا ابتدائی حصہ شیخ کو سنا تا اور باقی حصہ شیخ خود مکمل کردیتے۔
…یا شیخ اپنی احادیث کو املاء کرادیتے۔سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ پہلے صحابی ہیں جو احادیث رسول کو املاء کرایا کرتے۔ابتداء میں اس طریقہ کار کو بہت سہل سمجھ کر چھوڑ دیا گیا مگر امام زہریؒ نے اسی طریقہ کو ہی اپنایاجو طالب علم حدیث لکھتا اسے احادیث املاء کراتے ۔ املاء عموماً حافظے سے ہوا کرتی۔ ایک اچھا کاتب منتخب کیا جاتا جو شیخ کی ادائیگی کی رفتار سے احادیث لکھ سکتا۔دوسرے طلبہ اس کی کتابت کی غلطیوں کو پکڑتے بھی تھے۔اس طرح یہ لکھی ہوئی کتاب طلبہ حدیث مستعار لے کر اس سے اپنی اپنی نقول تیار کرتے۔یہ نقول بعد میں طلبہ آپس میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے مقابلہ کرکے دہراتے بھی یا شیخ کو سنا کر درست کرلیا کرتے تھے۔

سماع کے ان طریقوں کا مقصد یہی ہوتا کہ شیخ کے منہ سے نکلے الفاظ سن کر انہیں لکھ لیا جائے تاکہ شیخ کی سند سے انہیں روایت کیا جاسکے۔ مشایخ سے تحمل حدیث کی یہ اعلی ترین نوع ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لفظ اداء:
جب طالب علم سماع کے بعد اپنے شیخ کی ان احادیث کو روایت کرتا تو اس کے الفاظ کی ادائیگی یہ ہوتی: سَمِعْتُ، حَدَّثَنَا، أَخْبَرَنَا، أَنْبَأَنَا یا حَدَّثَنِی، أَخْبَرَنِی، أَنْبَأَنِی وغیرہ۔ جمع کے صیغے کا مطلب ہے: طالب علم نے اپنے شیخ سے حدیث دیگر طلبہ وحاضرین کی موجودگی میں سنی تو حَدَّثَنَا، أَخْبَرَنَا، أَنْبَأَنَا کے کلمات کہے۔ اوراگر اکیلے میں سنی توزیادہ محتاط لفظ سمعتُ ہی ہے ورنہ حَدَّثَنِی، أَخْبَرَنِی، أَنْبَأَنِی کے الفاظ کہے۔ امام صالح بن ابراہیم سے دریافت کیا گیا: حَدَّثَنَا، أَخْبَرَنَا اور أَنْبَأَنَا میں کسے استعمال کیا جائے؟ انہوں نے جواب میں کہا: حَدَّثَنَا کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔ ابن رجب کہتے ہیں:

وَکَانَ أَحْمَدُ یَسْتَنْکِرُ دُخُولَ التَّحْدِیثِ فِی کَثِیرٍ مِنَ الأسَانِیْدِ وَیَقولَ: ہُوَ خَطَأ یَعْنِی ذِکْرَ السَّمَاعِ۔ امام احمد بہت سی اسانید میں حدثنا حدثنا کے لفظ کے دخول کو ناپسند فرماتے۔ اور فرمایا کرتے: یہ غلط ہے یعنی سماع کا ذکر کرنا راوی کی غلطی ہے۔

ابن رجب نے اس موضوع پرمزید یہ لکھا ہے:
مناسب یہی ہے کہ ان امور پر اہل علم غور کریں محض اسانیدمیں یا حدیث بیان کرتے وقت حَدَّثَنا جیسی سماعی وضاحت سے دھوکہ نہ کھائیں۔امام ابن المدینیؒ نے کہا ہے: امام شعبہ بن الحجاج کی روایات میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں وہ اپنے شیوخ سے روایت کرتے ہیں مگر وہ منقطع ہوسکتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۲۔ قِرَاءَةً عَلَی الشَّیْخِ:
(Reading by the students) استاذ سے علم حدیث حاصل کرنے کا یہ دوسرا طریقہ ہے جسے عرض بھی کہتے ہیں۔طالب علم یا کوئی اور شیخ کی مرویات پڑھے اور شیخ سنیں۔خواہ یہ پڑھنا حفظ سے ہو یا کتاب سے۔ یا خواہ شیخ پڑھنے والے کی متابعت اپنے حفظ سے کرے یا اپنی کتاب کو خود تھام لے ۔جب کہ دوسرے طلبہ کمال ہوشیاری سے ان احادیث پر گوش بر آواز ہوتے اور اپنے نسخے کے ساتھ ان کا مقابلہ کئے جاتے۔دوسری صدی ہجری کی ابتداء میں یہ طریقہ خاصا مقبول ہوا۔ بیشترمشایخ ، طلبہ کو اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا نسخہ دیتے جسے وہ اپنے لئے لکھ بھی لیتے۔ بصورت دیگر شیخ کی اصل کتاب کے پہلے سے نقل شدہ صحیح نسخے سے ہی پڑھ لیتے۔ کتاب کا جتنا حصہ وہ روزانہ پڑھتے یہ ایک مجلس کہلاتی اور اس جگہ وہ قلم سے گول دائرہ بنادیتے تاکہ یاد رہے کہ اگلی مجلس میں یہاں سے پڑھنا ہے۔اس طرح کتاب کے اختتام تک اندازہ بھی ہوجاتا کہ شیخ کے ساتھ اس کتاب کو پڑھنے میں کل کتنی مجالس ہوئیں؟اگر ایک طالب علم ان احادیث کو کتب میں پاتا توبھی اسے یہ اجازت نہ تھی کہ وہ شیخ کے نام سے ان احادیث کو روایت کرے جب تک وہ انہیں شیخ پر پڑھ کر ان کی روایت کرنے کی اجازت نہ لے لیتا۔ورنہ اسے سارِقُ الحدیث کہہ دیا جاتا۔کاپی رائٹ کے قوانین اس زمانہ میں یہی ہوا کرتے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
لفظ اداء:
شیخ سے جب طالب علم اس طریقہ سے روایت کرے تو پھر وہ یوں کہے: أَخْبَرَنِی أَوْقَرَأْتُ عَلَی فُلَانٍ، مجھے فلاں نے خبر دی یامیں نے فلاں شیخ پر یہ احادیث یا کتاب پڑھی۔اور اگر کسی اور نے کتاب یا حدیث پڑھی ہوتی اور یہ طالب علم خود سنتا تو پھر یوں کہتا: قُرِئَ عَلَی فُلَانٍ وَأَنَا أَسْمَعُ فلاں شیخ پر یہ احادیث یا کتاب پڑھی گئی اور میں سن رہا تھا۔یا پھر حَدَّثَنَا أَوْ أَخْبَرَنَا قِرَاءَۃ عَلَیْہِ۔ کہے۔ بیشتر محدثین أَخْبَرَناَ یا أَخْبَرَنِی سے یہی مراد لیتے ہیں۔

نوٹ: طالب علم کے لئے یہ ضروری ہوگا کہ وہ حدیث کو ویسے ہی ادا کرے جیسے اس نے شیخ سے سنا۔ یہ بالکل نامناسب بات ہوگی کہ ادائیگی کے صیغوں میں رد وبدل کردیا جائے۔یعنی حَدَّثَنِی کو أَخْبَرَنِی میں یا سَمِعْتُ میں بدلنے کی کوئی کوشش نہ کرے۔ وجہ یہ ہے کہ محدثین کے نزدیک ہر اصطلاح کے الگ الگ معانی ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے: اتَّبِعْ لَفْظَ الشَّیْخِ فِی قَولِہِ حَدَّثَنِی وَحَدَّثَنَا وَسَمِعْتُ وَأَخْبَرَنَا ولَا تَعُدْہُ۔ تم لفظ شیخ کو اسی کے قول میں ادا کرو۔ مثلاً اس نے حَدَّثَنِی، حَدَّثَنا، سَمِعْتُ یا أَخْبَرَنَا کہا تو تم بھی وہی کچھ کہو اس سے تجاوز نہ کرو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
۳ ۔ اجازہ:
(Permission to transmit)یہ روایت حدیث کا ایک سرٹیفیکیٹ ہے جو شیخ اپنے اہل شاگرد کو یا شاگردوں کو اپنی کتب کی یااپنی بعض مرویات کی روایت کی اجازت کے طور پر دیتا ۔یہ سرٹیفیکیٹ کبھی شیخ خود لکھتا یا کبھی صرف منہ سے کہہ دیتا کہ أَجَزْتُ لَكَ أَنْ تَرْوِیَ عَنِّیْ مَرْوِیَّاتِیْ أَوْ مُؤَلَّفَاتِیْ۔ میں تمہیں اپنی کتب یا مرویات کی روایت کی اجازت دیتا ہوں۔اس میں یہ بھی ضروری نہیں کہ شاگرد نے وہ کتاب شیخ کو پڑھ کر سنائی ہویا شیخ سے سنی ہو۔

اجازہ کا یہ سلسلہ اس لئے قائم ہوا تاکہ حدیث یا اصل کتاب محفوظ رہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ آنے پائے۔جمہور محدثین کے نزدیک روایت حدیث، اجازہ کے ساتھ جائز ہے کیونکہ اس کی ضرورت پڑتی ہے۔مگر ابنؒ حزم اسے بدعت کہتے ہیں۔

لفظ اداء:
بہتر یہی ہے کہ مجاز لہ اداء حدیث کے وقت یوں کہے: أَجَازَ لِیْ فُلانٌ۔ مجھے فلاں نے اجازت دی۔یوں کہنا بھی معیوب نہیں: حَدَّثَنِی أَو أَخْبَرَنِی فُلانٌ إِجَازَةً۔ مجھے فلاں نے حدیث بیان کی یا خبر دی اجازت سے۔یا متاخرین کی اصطلاح کے مطابق یوں کہے: أَنْبَأَنَا یا أَنْبَأَنِی۔ ہمیں خبر دی یا مجھے خبر دی۔ ایسی اجازت کی صحت کے لئے تین شرطوں کا ہونا ضرور ی ہے۔

۱۔ جس چیز کی اجازت دی جا رہی ہے وہ یا تو متعین صورت میں معلوم ہو جیسے: میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم مجھ سے صحیح بخاری روایت کرو۔یا عمومی صورت میں ہو جیسے: میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم میری تمام مرویات روایت کرو۔ اس لئے وہ طالب علم جس کے پاس اپنے شیخ کی ثابت شدہ مرویات ہوں وہ ان کی روایت کرسکتا ہے۔

اگر مجاز بہ مبہم ہے تو پھرروایت کرنا جائز نہیں ہوگامثلاً: میں تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ تم صحیح بخاری کے کچھ حصے مجھ سے روایت کرسکتے ہو۔یا میری کچھ مرویات روایت کرسکتے ہو۔

۲۔ جسے اجازت دی جارہی ہے وہ موجود ہو۔ معدوم کی اجازت تبعاً یا مستقلاً درست نہیں ہوگی ۔ مثلاً اگر شیخ یوں کہے : میں تمہیں اجازت دیتا ہوں اور تیرے ہونے والے بچوں کو بھی یا میں فلاں کے ہونے والے بچوں کو بھی اجازت دیتا ہوں۔

۳۔ جسے اجازت دی جار ہی ہے مجاز لہ کہلاتا ہے۔ ایسا بندہ یا تو معین شخص ہو یا اس کی صفت معین ہو جیسے: میں تمہیں اور فلاں کو اپنی مرویات کی روایت کی اجازت دیتا ہوں۔ یا میں اپنے طلبہ حدیث کو اپنی مرویات کی روایت کی اجازت دیتا ہوں۔ اگر یہ اجازت عام ہوئی تو پھر درست نہیں ہوگی جیسے: میں تمام اہل اسلام کو اپنی مرویات کی اجازت دیتا ہوں۔
 
Top