• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تضعیف وتصحیح حدیث میں اختلاف اور وجوہات

یہ سوال عام کیا جاتا ہے کہ احادیث کی تصحیح وتضعیف میں بھی تو اختلاف ہے۔اگر اجتہاد کا اس میں دخل نہیں تو پھر احادیث کی تصحیح وتضعیف میں یا رواۃ کی توثیق وتضعیف میں محدثین کیوں مختلف ہیں؟ جواب یہ ہے کہ جب محدث کسی حدیث کو صحیح ،ضعیف یا موضوع کہے تو یہ اجتہادی نہیں بلکہ تحقیقی اور تخریجی مسئلہ ہے۔ یہ اختلاف مجتہدین کے اختلاف کی نسبت اجتہادی نہیں بلکہ تحقیقی اور تخریجی ہے۔ مثلاً:
۱۔ ایک حدیث کی دو سندیں ہیں جن میں ایک صحیح ہے اور دوسری ضعیف۔ دو محدثین میں سے ایک کو یہی حدیث ضعیف سند کے ساتھ ملی اور دوسرے کو صحیح سند کے ساتھ۔ ایک نے اسے ضعیف کہہ دیا اور دوسرے نے صحیح۔
۲۔ دونوں کو حدیث ، ضعیف سند سے ہی ملی۔ایک محدث نے کوشش کرکے اس کے مزید شواہد اکٹھے کر لئے۔اس لئے اس نے کہا: یہ حدیث صحیح ہے دوسرے کو یہ شواہد نہ مل سکے وہ اسے ضعیف کہنے پر ہی مصر رہا۔ محدثین کی اصطلاح میں حسن لذاتہ اور حسن لغیرہ کے یہی معنی ہیں۔
۳۔ دونوں محدثین کو شواہد مل گئے لیکن تضعیف کرنے والے نے اس کی تضعیف ایک خاص سند یا خاص متن کے اعتبار سے کی جیسے سنن ترمذی میں متنی غرابت کا اظہار یوں کیا گیا ہے: غَریبٌ بِھٰذَا اللَّفْظِ۔ اس لفظ یعنی اس مخصوص متن کے ساتھ یہ حدیث غریب ہے۔
۴۔ کسی امام ناقد نے راوی پر جرح کی۔ دوسرے محدث نے اس جرح کو دیکھ کر اس حدیث کی تضعیف کرڈالی جبکہ جارح امام نے تحقیق کے بعد اس جرح سے رجوع کرلیا تھاجس کی اطلاع تضعیف کرنے والے محدث کو نہ ہو سکی۔
۵۔ رواۃ پر جرح وتعدیل بھی اسی طرح ہوئی۔ مثلاً کسی امام نے کسی راوی کے حالات کا پتہ لگایا تو اسے کوئی قابل جرح چیز نظر نہ آئی۔بعد میں راوی نے اپنی عادات وحالات بدل دئیے۔ اسی امام نے اب اسے مجروح قرار دے دیا۔ تلامذہ میں کچھ نے اپنے امام کے دونوں قول سنے ۔ کچھ نے تعدیل سنی اور اسے عادل قرار دیا اور کچھ تلامذہ نے اس کی جرح اپنے شیخ سے سنی انہوں نے اس پر تنقید کی حالانکہ تعدیل وجرح کے دو الگ الگ اوقات تھے۔
۶۔ کبھی کسی راوی کے مفصل حالات نہیں ملتے مگر جو معلوم ہوا اس کی بناء پر اسے ایک امام نے عادل قرار دے دیا۔ جبکہ دوسرے امام نے اس کے حالات کو بخوبی جانا اور اس میں وہ باتیں پائیں جو قابل جرح تھیں۔ اس نے اس پر جرح کردی۔
۷۔اسی طرح حدیث کے ناسخ ومنسوخ اصولوں میں دیگر وجوہات دیکھی جاسکتی ہیں مگر یہ خیال رہے کہ تضعیف وتوثیق کا میدان مجتہد کا نہیں محدث کا ہے اور مجتہد کی نظر امڈتے مسائل کی تحقیق پرہوتی ہے۔ فقہاء کرام کے مابین جائز وناجائزکے استنباطی مسائل سبھی اجتہادی ہیں جن میں اختلاف بھی ہے۔(ملخص از سیرۃ البخاری ۲۷۷)

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب۶
روایت کی خصوصیات واوصاف کے لحاظ سے احادیث کی تقسیم

علماء نے اس کی پانچ اقسام بتائی ہیں۔جو درج ذیل ہیں:
۱۔ روایت اقران:
قرین کی جمع ہے قریبی ساتھی کو کہتے ہیں۔ اصطلاح میں وہ دو ساتھی جو عمر اوراسناد میں ایک دوسرے کے قریب ہوں۔ عمر میں قربت سے مراد یہ ہے دونوں کی تاریخ پیدائش ایک دوسرے کے قریب ہو۔ اور اسناد میں قربت سے مراد دونوں ایک دوسرے کے شیوخ سے روایت کریں۔جیسے: سلیمان التیمی ، مسعر بن کدام سے روایت کرتے ہیں۔ دونوں قرین ہیں۔ مگر مسعر کی کوئی روایت سلیمان سے نہیں ملتی۔امام ابن حجرؒ نے اس موضوع پر الافنان فی روایة الاقران نامی کتاب لکھی۔
۲۔ مُدَبَّج:
لغت میں یہ بمعنی تزیین ہے جو دِیْبَاجَتَیِ الْوَجْہِ سے مأخوذ ہے ۔ چہرے کے گال کو کہتے ہیں۔اصطلاح میں مدبَّج اسے کہتے ہیں کہ دو قرین ایک دوسرے سے روایت کریں۔ جیسے ام المؤمنین سیدہ عائشہ اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما دونوں ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں۔یا امام احمد، امام علی بن المدینی ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں۔یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ دونوں راوی ایک دوسرے کے برابر ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مقابل بھی۔امام دار قطنی ؒنے المدبَّج کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے اور امام ابن حجرؒ کی کتاب التعریج علی التدبیج لکھی ہے۔
۳۔روایۃ الاکابر عن الاصاغر:
اس سے مراد ایک آدمی جو عمر یا مرتبے میں بڑا ہو یا دو میں بڑا ہواور وہ اپنے سے کم عمر والے سے روایت کرے۔ یہی تین صورتیں ہی اس میں ہوتی ہیں۔
مثلاً: امام زہری ؒ اور یحییٰ ؒ بن سعید انصاری کا امام مالکؒ سے روایت کرنا۔ جبکہ دونوں امام مالکؒ سے عمر میں بڑے ہیں۔ یا عبادلہ کا کعبؓ بن مالک سے روایت کرنا۔ جبکہ عبادلہ ، علم اور حفظ کے اعتبار سے کعب سے بڑے ہیں۔یاامام برقانیؒ کا امام خطیب بغدادیؒ سے روایت کرنا ۔ جبکہ امام برقانیؒ عمر اور مرتبہ کے اعتبار سے بڑے ہیں۔ابو یعقوب اسحق الوراق کی اس موضوع پر کتاب ہے جس کا نام مَا رَوَاہُ الْکِبَارُ عَنِ الصِّغَارِ وَالآبَاءُ عَنِ الاَبْنَاءِ ہے۔
۴۔ روایۃ الآباء عن الابناء:
سند حدیث میں والد کا نام ہو جو اپنے بیٹے سے روایت کرے۔مثلاً: وائلُ بنُ دَاوٗدَ عَنِ ابْنِہِ بَکْرِ بْنِ وَائِلٍ عَنِ الزُّھْرِیِّ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ أَوْلَمَ عَلَی صَفِیَّةَ بِسَوِیْقٍ وَتَمْرٍ۔ اس موضوع پر امام خطیب بغدادی کی کتاب روایة الآباء عن الابناء ہے۔
۵۔ روایۃ الابناء عن الآباء:
سند میں ایسا راوی ہو جو اپنے والد سے یا اپنے دادا سے روایت کرے۔مثلاً: سالم بن عبد اللہ عن أبیہ۔ یا اپنے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرے جیسے: بھز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ۔ یا عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ۔ ابو نصر وائلی کی اس موضوع پر ایک کتاب ہے: روایة الابناء عن الآباء۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
راوی حدیث کی خصوصیت ووصف کے لحاظ سے حدیث کی تقسیم

۱۔ سابق ولاحق:
لغت میں متقدم کو سابق اورمتأخر کولاحق کہتے ہیں۔ یعنی ایک راوی متقد م الوفات ہوتاہے اور دوسرا متأخر الوفاۃ۔
اصطلاح میں:کسی شیخ سے روایت میں دو شاگرد مشترک ہیں۔ ان میں سے ایک کی موت دوسرے سے پہلے ہوجاتی ہے۔ اور دونوں کی وفات کے درمیان ایک لمبا عرصہ گذر جاتا ہے۔جیسے: امام زہری سے ایک روایت میں امام مالک اور احمد بن اسماعیل السہمی باہم شریک ہوئے۔ امام زہری سن ۱۲۴ھ میں فوت ہوئے اورامام مالک ۱۷۹ھ میں جبکہ احمد السہمی ۲۵۹ھ میں فوت ہوئے۔ان میں سابق امام مالک ہوئے اور لاحق احمد السہمی۔دونوں کی وفات میں اسی سال کا فرق ہے۔ یہی حال امام بخاری(۲۵۶ ھ) اور احمد بن محمد الخفاف(۳۹۵ھ) کا ہے یہ دونوں محمد بن اسحق السراج(۲۵۶ھ) کے شاگرد ہیں مگر دونوں کی وفات میں ایک سو انتالیس سال کا فرق ہے۔خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے السابق واللاحق نامی ایک کتاب لکھی ہے۔

۲۔معرفۃ الاخوۃ والاخوات:
یہ معلومات اس لئے کہ کہیں طالب علم یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ چونکہ دونوں کے والد کا نام ایک ہی ہے لہٰذا یہ دونوں بھائی ہیں۔مثلاً: عبد اللہ بن دینار اور عمرو بن دینار ۔ جو انہیں نہیں جانتا وہ شاید یہ سمجھ بیٹھے کہ چونکہ دونوں کے والد کا نام ایک ہی ہے لہٰذا یہ دونوں بھائی ہیں جبکہ ایسا نہیں ۔۔اسی طرح محمد بن سیرین اپنے بھائی یحییٰ سے اور وہ اپنے تیسرے بھائی انس سے روایت کرتے ہیں جو ایک نادر روایت ہے۔اس لئے صحیح بہن بھائیوں کے ناموں سے واقفیت ایک طالب علم کے لئے ضروری ہے۔
 
Last edited:

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوبھائیوں کی مثالیں:
صحابہ میں عمرو بن العاص اور ہشام بن العاص یا عمر بن خطاب اور زید بن خطاب۔
دو تابعین کی مثال:
عمر بن شرحبیل اور ارقم بن شرحبیل۔
تین بھائیوں کی مثال:
علی ، جعفر اور عقیل جو ابو طالب کے بیٹے ہیں۔
چار بھائیوں کی مثال:
سہیل بن صالح السمان الزیات اور ان کے یہ بھائی: عبد اللہ ، محمد اور صالح۔
پانچ کی مثال:
آدم، عمران، محمد، سفیان اور ابراہیم یہ سب عیینہ کے بیٹے ہیں۔
چھ کی مثال:
محمد، انس، یحیی، معبد، حفصہ اور کریمہ یہ سب سیرین کے بچے ہیں۔
سات کی مثال:
نعمان، معقل، عقیل، سُوَید، سنَّان، عبد الرحمن، اور عبد اللہ، مقرن کے بیٹے ہیں۔

تصنیفات:
کتاب ا لاخوة از ابو العباس السرَّاج، ابو المطرف اندلسی کی بھی اس نام کی کتاب ہے اور ابن المدینی، مسلم، ابوداؤد ونسائی جیسے ائمہ نے اس موضوع پر کتب لکھی ہیں۔

۳۔معرفۃ المُہْمَل:
أَھْمَلَ سے ہے جس کا معنی ہے اس نے چھوڑ دیا یا اس نے اس کا استعمال نہ کیا۔ اصطلاح میں اس سے مراد یہ کہ کہ دو ایسے راوی جو اپنے نام میں یا اپنے اور والد کے نام میں یا اپنے ، والد اور دادا کے نام میں متفق تھے یا نسبت میں متفق تھے مگر راوی ان میں امتیاز نہ کرسکا۔

کیا ایسا اہمال حدیث کی صحت کو متأثر کرتا ہے؟ جب دونوں راوی ثقہ ہو تب تو حدیث کی صحت پرکچھ فرق نہیں پڑتا لیکن اگر ان میں ایک ثقہ ہو اور دوسرا ضعیف تو اس سے صحت حدیث پر فرق پڑتا ہے کیونکہ راوی نے صحیح حدیث کو ضعیف یا ضعیف کو صحیح بنادیا ہوتا ہے۔مثلاً:

دونوں راوی جب ثقہ ہوں:
قَالَ الْبُخَارِیُّ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ وَھْبٍ۔ اس میں راوی احمد مہمل ہے مگر یا تو وہ احمد بن صالح ہیں یا احمد بن عیسیٰ ہیں اور دونوں ثقہ ہیں۔ یا امام بخاری کا یہ کہنا: حدثنا محمد ۔ یہ محمد یا تو محمد سلام بیکندی ہیں یا محمد بن یحییٰ ذہلی ہیں اور دونوں ثقہ ہیں۔

دونوں میں ایک ثقہ اور دوسرا ضعیف ہو:
جیسے: راوی کا یہ کہنا: حدثنا سلیمان بن داؤد۔ یہ یا تو خولانی ہیں جو ثقہ ہیں یا پھر یمامی ہیں جو ضعیف ہیں۔

اس موضوع پر امام خطیب بغدادی کی ایک کتاب المُکَمَّل فِی بَیَانِ الْمُھْمَل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۴۔مسلسل:
ایک شے کا دوسری شے سے ملاتے چلے جانا۔ مسلسل کہلاتا ہے۔اصطلاح میں اسناد کے راویوں کی ایک ہی صفت یا ایک ہی حالت کا تسلسل سے بیان ہونا۔ مسلسل کہلاتا ہے ۔ اور ایسی حدیث مسلسل ہوتی ہے۔اس سے تدلیس وانقطاع ختم اور حفظ وضبط حدیث کا زیادہ اہتمام ہوجاتا ہے۔
اقسام:
أ۔راویوں کے قول یا فعل میں تسلسل: جیسے:
آپ ﷺ نے کچھ ارشاد فرمایا یا کوئی فعل کیا تو صحابی رسول بھی جب اس حدیث کو بیان کرے وہی کہے اور کرے اور یوں یہ سلسلہ نیچے تک چلتا جائے۔جیسے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی یہ مرفوع حدیث:
لَا یَجِدُ الْعَبْدُ حَلَاوَةَ الإِیْمَانِ حَتّٰی یُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ وَحُلُوِّہِ وَمُرِّہِ۔ قَالَ: وَقَبَضَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ عَلَی لِحْیَتِہِ وَقَالَ: آمَنْتُ بِالْقَدْرِ۔ أخرجہ الحاکم۔
یہ حدیث مسلسل ہے کیونکہ اس حدیث کے ہر راوی نے حدیث بیان کرنے کے بعدیہی فعل کیا اور پھرکہا: آمَنْتُ بِالْقَدْر۔
ب۔روایت کی صفت میں تسلسل:
جسے روایت کرتے ہوئے ہر راوی سَمِعْتُ، حَدَّثَنَایا عَنْ یا أخبرنا کہے۔ مثلاً: سَمِعْتُ فُلَانًا پھر اگلا بھی سَمِعْتُ فُلَانًا یہ تسلسل آخر سند تک رہے۔یعنی سند میں سب راوی ایک ہی لفظ میں متفق ہوجاتے ہیں۔

اس موضوع پر کچھ کتب علماء نے لکھیں جن میں المسلسلات :
از اسماعیل تیمی کی ہے۔ ایک اور کتاب الاحادیث المسلسلة از محمد بن عبد الواحد المقدسی کی اور المُسَلسلات الکبری از حافظ سیوطی کی اور جِیاد المسلسلات از خطیب بغدادی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۵۔متفق ومفترق:
راویوں کے اپنے اور والد کے نام، کنیت اور نسبت یا اوپر تک سبھی خط اور لفظ یعنی لکھنے اور بولنے میں متفقہ ہوں ۔ مگر لوگ مختلف ہوں۔ مثلاً: خلیل بن احمد چھ راویوں کے نام ہیں۔ خلیل بن احمد بصری نحوی، خلیل بن احمدمزنی ، خلیل بن احمد اصفہانی، خلیل بن احمد سجزی، خلیل بن احمد بَستی مَہلبی، اور خلیل بن احمد شافعی۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ مشترک نام میں دو کو ایک ہی فرد نہ سمجھ لیا جائے۔ثقہ اور ضعیف اگر کوئی ہو تو ان میں امتیاز ہوجاتا ہے۔ورنہ ثقہ کو ضعیف یا ضعیف کو ثقہ کہہ کر کئی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔یہ علم اس وقت بہت مفید ہے جب ایسے مشترک راوی ہم زمانہ ہوں اور ان کے اساتذہ ومشایخ بھی مشترک ہوں۔
مہمل اور متفق ومفترق میں فرق: متفق اور مفترق میں یہ خدشہ رہتا ہے کہ کہیں طالب علم دونوں کو ایک نہ سمجھے۔ اور مہمل میں یہ کہ کہیں طالب علم ایک کو دو نہ سمجھے۔
اس موضوع پر امام خطیب بغدادی نے ایک کتاب المتفق والمفترق لکھی جو مطبوع ہے۔ اور دوسری محمد بن طاہر مقدسی کی الانساب المتفقہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۶۔مؤتلف ومختلف:
أل ف اس کا مادہ ہے مانوس ہونا یا جمع ہونا اس کا مطلب ہے۔ اور مختلف متفق کی ضد ہے۔محدثین کی اصطلاح میں اس سے مراد: رواۃ کے نام، القاب، کنی یا انساب خط(لکھنے) میں ایک جیسے ہوں مگرتلفظ ( پڑھنے) میں مختلف ہوں۔چونکہ ابتداء میں تحریر بغیر نقطے کے ہوا کرتی تھی تو اس لئے اس میں اندازہ نہیں چلتا تھا بلکہ سماع پر ہی اعتماد کیا جاتا ۔جیسے: سَلَام وسَلاَّم، البَزَّازُ اور البَزَّار وغیرہ۔اس میں غلطی اگر حروف کی مثلاً جیم کو حاء سے بدل دیا ہو تو تصحیف اور اگر اعراب کی ہو مثلاً زبر کو زیر سے بدل دیا ہو تو تحریف کہلاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء حدیث نے اس فن کو مزید نکھارا اور کتب میں تحریری طور پر اعرابی اور حرفی وضاحت کی۔قدیم مخطوطات کو پڑھنے یا پڑھانے میں اس علم کی ضرورت پیش آئی تھی۔امام علی بن المدینی فرماتے ہیں:

أَشَدُّ التَّصْحِیْفِ مَا یَقَعُ فِی الاَسْمَاءِ وَوَجَّھَہُ بَعْضُھُمْ بِأَنَّہُ شَیءٌلَا یُدْخِلُہُ الْقِیَاسُ، وَلَا قَبْلَہُ شَیءٌ یَدُلُّ عَلَیْہِ وَلَا بَعْدَہُ، وَلِأنَّہُ یُخْشٰی أَنْ یَظُنَّ الشَّخْصَانِ شَخْصًا وَاحِدًا، إِذَا اتَّفَقَتِ الاَسْمَاءُ، وَفِی ذَلِكَ مَا فِیْہِ خَلَطٌ مِنَ الرُّوَاةِ۔ بدترین تصحیف جو اسماء رواۃ میں واقع ہوتی ہے اور جسے بعض علماء نے قابل توجیہ بھی سمجھا ہے کہ یہ ایسی شے ہے جس میں قیاس داخل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس سے قبل یا بعد کوئی شے ہے کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ جب نام متفقہ ہوں تو کوئی دو شخصوں کو ایک نہ بنا لے۔اور پھر اس میں رواۃ کی طرف سے اختلاط بھی ہے۔

اس فن کوصرف سماع سے سمجھا جاسکتا ہے۔ قیاس کی صورت میں غلطی کا امکان باقی رہتا ہے۔اس موضوع پر عمدہ کتاب امام دار قطنی رحمہ اللہ کی ہے جس کا نام المؤتلف والمختلف ہی ہے۔ اسی طرح عبد الغنی بن سعید کی کتاب بھی اسی نام سے ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۷۔ متشابہ:
راویوں کے نام خط یعنی تحریر میں متشابہ ہوں مگر تلفظ میں مختلف ہوں۔جیسے: محمد بن عَقیل اور محمد بن عُقَیل۔ پہلے نیسابوری ہیں اور دوسرے فِریابی۔ اسی طرح راوی کا اور اس کے والد کا نام لفظ و خط میں متفقہ ہوتا ہے مگر نسبت میں مختلف۔ جیسے: محمد بن عبد اللہ المخرمی اور محمد بن عبد اللہ المخرمی۔ پہلے کی نسبت بغداد کے ایک محلے کی طرف ہے اور دوسرے کی نسبت مخرمہ کی طرف۔اس تشابہ کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً:

أ۔ ایک ہی راوی، مختلف ناموں اور مخصوص صفات سے بیان کیا گیا ہو:
جیسے: محمد بن السائب کلبی۔ ان کا نام کچھ علماء نے حماد بن السائب بھی بیان کیا ہے اور ان کی کنیت کچھ نے ابو النضر، کچھ نے ابو سعید اور کچھ نے ابوہشام بتائی ہے اسی طرح بعض نے انہیں ان کے دادا محمد بن جعفر کی طرف منسوب بھی کیا ہے۔عبد الغنی بن سعید نے إیضاحُ الإشْکالِ نام سے یہ کتاب اسی موضوع پر لکھی ہے اور خطیب بغداد ی رحمہ اللہ کی کتاب مُوَضِّحُ أوھامِ الجَمْعِ وَالتَّفْرِیقِ بھی ہے۔

ب۔ جو راوی کنیت سے مشہور ہیں:
کنیت والد ین ہی رکھتے ہیں۔ اس نوع کو جاننے سے مراد یہ ہے کہ راویوں کی ہمیں صحیح ناموں کی معرفت ہو جو اپنی کنیت میں زیادہ مشہور ہیں ۔کبھی راوی اپنی کنیت سے مشہور ہوتا ہے اسے اس سے اور اس کے غیر معروف نام سے لوگ یاد کرلیتے ہیں۔ جسے یہ علم نہیں اس پر اس راوی کا معاملہ مشتبہ ہوجاتا ہے وہ انہیں دو الگ الگ راوی سمجھتا ہے جب کہ ہوتا وہ ایک ہے۔

خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی بہت معروف کتاب تلخیص المتشابہ فی الرسم۔ مطبوع ہے۔

جو اپنے نام سے معروف ہیں مگر کنیت ان کی ایک ہے:
جیسے: سوائے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تینوں ائمہ کے نام مختلف ہیں مگر سب کی ایک ہی کنیت ابوعبد اللہ ہے۔

جوکنیت سے زیادہ معروف ہیں :
جیسے ابوبکر رضی اللہ عنہ جن کا نام عبد اللہ، ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ جن کا نام عبد الرحمن ، یا ابو ادریس الخولانی جن کا نام عائذاللہ بن عبد اللہ ہے۔

جن کا نام ہی ان کی کنیت ہے۔ یہ دو قسم کے ہیں:

جس کی کنیت سوائے اس کے نام کے اور کچھ نہیں جیسے:
ابو بلال اشعری ان کا نام ان کی کنیت ہی ہے۔

جن کی کنیت ہے مگروہ نہیں جس سے کنیت والا نام ہے:
جیسے ابوبکر بن عبد الرحمن کا نام ابوبکر ہے مگر کنیت ابوعبد الرحمن ہے۔

وہ راوی جس کے نام یا کنیت میں اختلاف ہے:
مثلاً اسامہ بن زید ان کے نام میں کوئی اختلاف نہیں مگر ان کی کنیت میں اختلاف ہے۔کچھ ابوزید کہتے ہیں اور کچھ ابو خارجہ۔ اسی طرح ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جنکی کنیت میں کوئی اختلاف نہیں مگر نام کیا ہے اس میں بہت سے اقوال ہیں۔ صحیح ترین قول یہی ہے کہ ان کا نام عبد الرحمن تھا۔

وہ راوی جس کے نام اور کنیت میں اختلاف ہے:
مثلاً: سفینہ جو آپ ﷺ کے مولی ہیں ان کے نام میں اختلاف ہے، کوئی عمیر، تو کوئی صالح اور کوئی مہران کہتا ہے اسی طرح ان کی کنیت کوئی ابوعبد الرحمن تو کوئی البختری کہتا ہے۔

جس کے نام اور کنیت میں اختلاف نہیں۔ جیسے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کا نام عبد اللہ۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ اسی طرح احمد بن حنبل جن کی کنیت ابوعبد اللہ ہے ان میں بھی کوئی اختلاف نہیں۔

جس کی کنیتیں بہت سی ہوں۔ جیسے ابن جریج ان کی دو کنیتیں ہیں: ابو الولید اور ابوخالد۔اسی طرح کنیت تو معلوم ہو مگر یہ معلوم نہ ہوسکے کہ ان کا نام بھی ہے یا نہیں۔جیسے ابو اناس صحابی رسول ﷺ۔

جس کا نام اپنے والد کی کنیت جیسا ہو۔ جیسے: اسحاق بن ابی اسحاق سبیعی۔یا جس کی کنیت اپنے والد کے نام جیسی ہو۔ جیسے: ابو اسحاق ابراہیم بن اسحاق مدنی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۸۔ القاب:
لقب کی جمع ہے۔ہر وہ صفت جو بندے کو بلند کردے یا گرا دے یا اس میں تعریف و مذمت کا پہلو ہو لقب کہلاتا ہے۔محدثین لقب میں مذمت اور غیبت کے پہلو کو ذکر کرنا ناجائز سمجھتے ہیں اور ایسے لقب کو جسے وہ شخص خود پسند کرتا ہو اور اس کا تعارف مقصود ہو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے۔ نیز اس لقب کی حقیقی وجہ معلوم ہوتی ہے جو اکثر وبیشتر اپنے ظاہری معنی سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔جیسے: الضال: یہ معاویہ بن عبد الکریم ثقفی کا لقب ہے انہیں اس لئے یہ لقب دیا گیا کہ وہ مکہ کے راستے میں کھو گئے تھے۔اسی طرح ضعیف: عبد اللہ بن محمد طرسوسی کا لقب ہے جسمانی طور پر وہ بہت کمزور تھے مگر اپنی حدیث میں نہیں۔ یا غِنجار: عیسیٰ بن موسیٰ تیمی کو یہ لقب اس لئے دیا گیا کہ ان کے گال بہت سرخ تھے۔یا بندار: یہ ائمہ ستہ کے شیخ محمد بن بشار کا لقب ہے۔ خرید وفروخت خوب کرتے تھے۔ ان کا یہ عمل انہیں یہ لقب دے گیا۔غندر: محمد بن جعفر بصری کا یہ لقب اس طرح مشہور ہوا کہ اپنے استاذ عبد الملک بن جریج سے کسی سند پربحث کی اور زیادہ بول رہے تھے تو اس پر انہوں نے کہا: أسکت یاغندر۔ شور مت مچاؤ ، خاموش رہو۔وغیرہ

فائدہ:اس طرح کے القاب کا فائدہ یہ ہوا کہ راوی اگر نام سے نہیں تو کم از کم لقب کے ذریعے پہچان لیا گیا۔اور دو الگ شخص بھی نہ رہے۔بلکہ وہ تو ایک ہی شخصیت ہوتی ہے۔مگر جو شخص اپنے آپ کو کبھی ایک نام سے اور کبھی ایک لقب سے دو شخص باور کراتا ہے جبکہ ہے وہ ایک ہی شخص۔محدثین اس پر اعتماد نہیں کرتے۔امام ابن حجر عسقلانی کی ایک کتاب نزہة الالباب فی الالقاب اس موضوع پر ہے۔ ابن الجوزی نے بھی کشف النقاب۔ کے نام سے کتاب لکھی ہے۔یہ دونوں چھپ گئی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۹۔ وہ راوی جو اپنے آباء کی بجائے کسی اور کی طرف منسوب ہوگئے:
کچھ راوی ایسے بھی ہیں جو اپنے آباء کی بجائے دوسروں کی طرف منسوب ہوگئے۔ان کی معرفت بھی علم حدیث میں بہت اہم ہے۔ تاکہ ان کی نسبت میں کوئی اشتباہ نہ رہے۔ جیسے: مقداد بن اسود۔ اسود ان کے والد نہیں بلکہ اسود نے انہیں متبنی بنایا تھا ورنہ ان کے والد کا نام عمرو ہے۔ اسی طرح کچھ راوی ایسے بھی ہیں جو بجائے والدکے اپنی والدہ کی طرف منسوب ہوئے۔ جیسے: ابن علیہ ۔ یہ امام اسماعیل بن ابراہیم بن مقسم ہیں انتہائی ثقہ عالم ومحدث۔ مگر منسوب اپنی والدہ کی طرف ہوئے۔ اسی طرح عبد اللہ بن مالک ابن بحینہ بھی ہیں۔جو ابن بحینہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔صحابہ کرام میں بھی معوذ ومعاذ ابنی عفراء کے نام سے معروف تھے۔کچھ اپنے دادا یا دادی کی طرف منسوب ہوئے مثلاً محمد بن سائب بن بشر کلبی۔ یہ محمد اپنے داد کی نسبت سے زیادہ معروف ہیں۔آپ ﷺ نے بھی غزوہ حنین میں اپنی نسبت اگر اپنے دادا محترم کی طرف کی تھی۔دادی کی طرف یعلی ابن منیۃ اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ منسوب ہوئے۔ ان ناموں کے لکھنے کا اصول یہ ہے کہ اگر والد کے علاوہ کسی اور طرف نسبت ہو تو منسوب الیہ میں ابن کوالف کے ساتھ لکھنا ہوگا۔
 
Top