• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
غیر محدثانہ اصول اور مہلک نتائج

بعض غیر محدث حضرات نے ایسے اصول وضع کرڈالے ہیں جن سے ضعیف حدیث پر عمل آسان وعام ہوجائے۔ امت میں عمل وعقیدہ کی خرابی کا باعث یہی اصول بنے ہیں۔اور بھانت بھانت کی بولیاں لوگوں کو سننے میں ملی ہیں۔ ضعیف وموضوع فقہی مسائل اور فضائل کتب، وعظ اور دروس میں عام ہوگئے ۔کیا ایسے اصول دیگر علوم اسلامیہ کے لئے بھی ہیں؟

اصول ۱۔
جس ضعیف حدیث کو امت شرف قبولیت بخشے وہ صحیح ہوگی:
اس اصول کو قبول عام حاصل ہے۔جس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ امت کبھی ضلالت پر مجتمع نہیں ہوسکتی اس لئے جس حدیث کو امت شرف قبولیت سے نوازدے وہ صحیح ہوگی۔مثلاًامام زرکشیؒ جو قرآنی علوم کے ماہر ہیں۔ کہتے ہیں:
ضعیف حدیث کو جب امت شرف قبولیت بخشے تو صحیح یہ ہے کہ اس پر عمل کرلیا جائے۔یہ تو بمنزل متواتر ہوجاتی ہے اور مقطوع کو بھی منسوخ کردیتی ہے۔ اس لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے حدیث: لَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ کے بارے میں فرمایا ہے: اس حدیث کو محدثین ثابت نہیں کرتے مگر عوام نے اسے قبولیت کا شرف بخشا اور اس پر عمل بھی کیا حتی کہ انہوں نے اسے آیت{كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ۔۔}کا ناسخ بھی کہہ دیا۔(النکت علی ابن الصلاح ۲؍۴۹۷)

حدیث لَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ۔ کتب سنن اور مسانید میں بروایت إسماعیلُ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ شُرَحْبِیْلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبی أُمَامَةَ رضی اللہ عنہُ مروی ہے اس کے راوی اسماعیل پر بعض محدثین کرام نے جرح کی ہے۔مگر امام بخاریؒ ، امام احمدؒ اور دیگر متأخر محدثین میں امام ذہبی اور امام البانی رحمہم اللہ نے اسماعیل کے بارے میں یہ قاعدہ بتایا ہے کہ اگر وہ حجازی رواۃ سے حدیث بیان کریں تو ان کی روایت ضعیف ہوگی اور شامی رواۃ سے روایت کریں تو ان کی روایت صحیح وثابت ہوگی۔ چنانچہ اس روایت میں وہ شرحبیل بن مسلم سے جو شامی اور ثقہ راوی ہیں روایت کررہے ہیں اس لئے ان کی یہ روایت صحیح ہے نہ کہ ضعیف۔ یہی وجہ ہے جو امام شافعی ؒ کومذکورہ بات کہنا پڑی کیونکہ ان کے دور میں حدیث صحیح یا ضعیف ہوا کرتی تھی ۔اور ضعیف حدیث کی ادنی قسم وہ مراد لیتے ہیں جسے بعد میں حسن کہا گیا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھا ہے : وفِی الْبَابِ عَنْ عَمروِ بْنِ خَارِجَةَ وَأَنَسٍ، وَھُوَ حَدیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔ اس لئے ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی سندحدیث حسن لذاتہ کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ ہے وہ اصل بات جو ماہرین علم کی ہے۔ (نصب الرایۃ ۴؍۴۰۳، إرواء الغلیل ۶؍۸۸، سیر اعلام النبلاء ۸؍۳۲۱)۔

اس لئے جو حدیث حسن حدیث سے بھی کم درجہ کی ہو وہ ضعیف ہوگی ۔ اور اپنی شاہد نہ ہونے کی وجہ سے کبھی تقویت نہیں پکڑ سکتی خواہ امت اسے شرف قبولیت ہی کیوں نہ بخشے۔یہ حدیث تو آیت {وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ} کا آئینہ ہے۔ کیونکہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں۔ ان کا علم سے کیا تعلق؟کیا بداعمالی کی کثرت بھی امت کے لئے شرف قبولیت کی بات ہے؟ اسی اصول پر عمل کرکے کتنے علوم کو زخمی کردیا گیا ہے؟ کتنی موضوع احادیث ہیں جنہیں شرف قبولیت بخشا گیا ہے اور جن میں سوائے ضلالت کے کچھ نہیں۔ اس لئے جو حدیث صحت کی شرائط ہی پوری نہ کرتی ہو اس کے لئے یہ اصول ہی غلط ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
غیر محدثانہ اصول اور مہلک نتائج

بعض غیر محدث حضرات نے ایسے اصول وضع کرڈالے ہیں جن سے ضعیف حدیث پر عمل آسان وعام ہوجائے۔ امت میں عمل وعقیدہ کی خرابی کا باعث یہی اصول بنے ہیں۔اور بھانت بھانت کی بولیاں لوگوں کو سننے میں ملی ہیں۔ ضعیف وموضوع فقہی مسائل اور فضائل کتب، وعظ اور دروس میں عام ہوگئے ۔کیا ایسے اصول دیگر علوم اسلامیہ کے لئے بھی ہیں؟

اصول ۱۔
جس ضعیف حدیث کو امت شرف قبولیت بخشے وہ صحیح ہوگی:
اس اصول کو قبول عام حاصل ہے۔جس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ امت کبھی ضلالت پر مجتمع نہیں ہوسکتی اس لئے جس حدیث کو امت شرف قبولیت سے نوازدے وہ صحیح ہوگی۔مثلاًامام زرکشیؒ جو قرآنی علوم کے ماہر ہیں۔ کہتے ہیں:
ضعیف حدیث کو جب امت شرف قبولیت بخشے تو صحیح یہ ہے کہ اس پر عمل کرلیا جائے۔یہ تو بمنزل متواتر ہوجاتی ہے اور مقطوع کو بھی منسوخ کردیتی ہے۔ اس لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے حدیث: لَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ کے بارے میں فرمایا ہے: اس حدیث کو محدثین ثابت نہیں کرتے مگر عوام نے اسے قبولیت کا شرف بخشا اور اس پر عمل بھی کیا حتی کہ انہوں نے اسے آیت{كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ۔۔}کا ناسخ بھی کہہ دیا۔(النکت علی ابن الصلاح ۲؍۴۹۷)

حدیث لَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ۔ کتب سنن اور مسانید میں بروایت إسماعیلُ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ شُرَحْبِیْلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبی أُمَامَةَ رضی اللہ عنہُ مروی ہے اس کے راوی اسماعیل پر بعض محدثین کرام نے جرح کی ہے۔مگر امام بخاریؒ ، امام احمدؒ اور دیگر متأخر محدثین میں امام ذہبی اور امام البانی رحمہم اللہ نے اسماعیل کے بارے میں یہ قاعدہ بتایا ہے کہ اگر وہ حجازی رواۃ سے حدیث بیان کریں تو ان کی روایت ضعیف ہوگی اور شامی رواۃ سے روایت کریں تو ان کی روایت صحیح وثابت ہوگی۔ چنانچہ اس روایت میں وہ شرحبیل بن مسلم سے جو شامی اور ثقہ راوی ہیں روایت کررہے ہیں اس لئے ان کی یہ روایت صحیح ہے نہ کہ ضعیف۔ یہی وجہ ہے جو امام شافعی ؒ کومذکورہ بات کہنا پڑی کیونکہ ان کے دور میں حدیث صحیح یا ضعیف ہوا کرتی تھی ۔اور ضعیف حدیث کی ادنی قسم وہ مراد لیتے ہیں جسے بعد میں حسن کہا گیا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھا ہے : وفِی الْبَابِ عَنْ عَمروِ بْنِ خَارِجَةَ وَأَنَسٍ، وَھُوَ حَدیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔ اس لئے ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی سندحدیث حسن لذاتہ کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ ہے وہ اصل بات جو ماہرین علم کی ہے۔ (نصب الرایۃ ۴؍۴۰۳، إرواء الغلیل ۶؍۸۸، سیر اعلام النبلاء ۸؍۳۲۱)۔

اس لئے جو حدیث حسن حدیث سے بھی کم درجہ کی ہو وہ ضعیف ہوگی ۔ اور اپنی شاہد نہ ہونے کی وجہ سے کبھی تقویت نہیں پکڑ سکتی خواہ امت اسے شرف قبولیت ہی کیوں نہ بخشے۔یہ حدیث تو آیت {وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ} کا آئینہ ہے۔ کیونکہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں۔ ان کا علم سے کیا تعلق؟کیا بداعمالی کی کثرت بھی امت کے لئے شرف قبولیت کی بات ہے؟ اسی اصول پر عمل کرکے کتنے علوم کو زخمی کردیا گیا ہے؟ کتنی موضوع احادیث ہیں جنہیں شرف قبولیت بخشا گیا ہے اور جن میں سوائے ضلالت کے کچھ نہیں۔ اس لئے جو حدیث صحت کی شرائط ہی پوری نہ کرتی ہو اس کے لئے یہ اصول ہی غلط ہے۔
بہت عمدہ مضامین ہیں۔
لیکن یہ آخری والا کس "عقلمند" نے لکھا ہے جس کو یہ بھی نہیں پتا تلقی امت سے مراد تلقی علماء ہوتا ہے عوام نہیں؟ اور امام شافعی کا "عامۃ" سے مطلب عوام نہیں جمہور محدثین ہیں؟

اگر ہم اس حدیث مذکور کو حسن سے بھی آگے بڑھ کر صحیح مان لیں تب بھی یہ نص قرآنی کے لیے ناسخ نہیں ہو سکتی کیوں کہ نص قرآنی تواتر سے ثابت ہوتی ہے جب کہ یہ خبر واحد ہے۔ جب ایک روایت صرف اپنے سے زیادہ ثقات کے مقابلے میں آنے پر مردود ہو جاتی ہے تو بھلا نص متواتر کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت ہوگی؟
دوسری بات اسی روایت کو ان سے کہیں زیادہ ثقہ روات موقوفا بیان کرتے ہیں۔
أخبرنا "سفيان" عن "سليمان الأحول" عن "مجاهد"، أن رسول الله قال: " لا وصية لوارث "
الرسالۃ للشافعی

تو اس کے وقف اور رفع میں کچھ نہ کچھ شک پیدا ہو گیا۔ کیا ایسی حدیث بھی قرآن کی آیت کے لیے ناسخ بن سکتی ہے؟ آخر قرآن کلام اللہ ہے یا کچھ اور؟

مزید اس کی ہیڈنگ یہ ڈالی ہے کہ "غیر محدثانہ اصول"۔ حالاں کہ یہ اصول خود محدثین کا ہے۔
اس لنک پر محدثین کے اقوال دیکھیے:۔
http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/ghair-muqallidyiat/2154-usool-muhaddiseen
امام ترمذی بہت سی جگہوں پر و علیہ العمل کا نعرہ آخر کیوں لگاتے ہیں؟

پھر یہ ٹھیک ہے کہ اگر محدثین کے کسی اصول سے آپ متفق نہیں ہیں تو اس کا مکمل عقلی رد بھی کیجیے۔ کیوں کہ یہ اصول عموما عقل سے بنے ہوتے ہیں۔
جب اس مضمون میں نہ تو محدثین کے دلائل کا ذکر کیا، نہ نقل سے کوئی رد کیا اور نہ عقل سے کوئی رد۔
تو یہ طرز تو مناسب نہیں ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
غیر محدثانہ اصول اور مہلک نتائج

بعض غیر محدث حضرات نے ایسے اصول وضع کرڈالے ہیں جن سے ضعیف حدیث پر عمل آسان وعام ہوجائے۔ امت میں عمل وعقیدہ کی خرابی کا باعث یہی اصول بنے ہیں۔اور بھانت بھانت کی بولیاں لوگوں کو سننے میں ملی ہیں۔ ضعیف وموضوع فقہی مسائل اور فضائل کتب، وعظ اور دروس میں عام ہوگئے ۔کیا ایسے اصول دیگر علوم اسلامیہ کے لئے بھی ہیں؟

اصول ۱۔
جس ضعیف حدیث کو امت شرف قبولیت بخشے وہ صحیح ہوگی:
اس اصول کو قبول عام حاصل ہے۔جس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ امت کبھی ضلالت پر مجتمع نہیں ہوسکتی اس لئے جس حدیث کو امت شرف قبولیت سے نوازدے وہ صحیح ہوگی۔مثلاًامام زرکشیؒ جو قرآنی علوم کے ماہر ہیں۔ کہتے ہیں:
ضعیف حدیث کو جب امت شرف قبولیت بخشے تو صحیح یہ ہے کہ اس پر عمل کرلیا جائے۔یہ تو بمنزل متواتر ہوجاتی ہے اور مقطوع کو بھی منسوخ کردیتی ہے۔ اس لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے حدیث: لَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ کے بارے میں فرمایا ہے: اس حدیث کو محدثین ثابت نہیں کرتے مگر عوام نے اسے قبولیت کا شرف بخشا اور اس پر عمل بھی کیا حتی کہ انہوں نے اسے آیت{كُتِبَ عَلَيْكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ۔۔}کا ناسخ بھی کہہ دیا۔(النکت علی ابن الصلاح ۲؍۴۹۷)

حدیث لَا وَصِیَّةَ لِوَارِثٍ۔ کتب سنن اور مسانید میں بروایت إسماعیلُ بْنُ عَیَّاشٍ عَنْ شُرَحْبِیْلَ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ أَبی أُمَامَةَ رضی اللہ عنہُ مروی ہے اس کے راوی اسماعیل پر بعض محدثین کرام نے جرح کی ہے۔مگر امام بخاریؒ ، امام احمدؒ اور دیگر متأخر محدثین میں امام ذہبی اور امام البانی رحمہم اللہ نے اسماعیل کے بارے میں یہ قاعدہ بتایا ہے کہ اگر وہ حجازی رواۃ سے حدیث بیان کریں تو ان کی روایت ضعیف ہوگی اور شامی رواۃ سے روایت کریں تو ان کی روایت صحیح وثابت ہوگی۔ چنانچہ اس روایت میں وہ شرحبیل بن مسلم سے جو شامی اور ثقہ راوی ہیں روایت کررہے ہیں اس لئے ان کی یہ روایت صحیح ہے نہ کہ ضعیف۔ یہی وجہ ہے جو امام شافعی ؒ کومذکورہ بات کہنا پڑی کیونکہ ان کے دور میں حدیث صحیح یا ضعیف ہوا کرتی تھی ۔اور ضعیف حدیث کی ادنی قسم وہ مراد لیتے ہیں جسے بعد میں حسن کہا گیا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھا ہے : وفِی الْبَابِ عَنْ عَمروِ بْنِ خَارِجَةَ وَأَنَسٍ، وَھُوَ حَدیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔ اس لئے ابوامامہ رضی اللہ عنہ کی سندحدیث حسن لذاتہ کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ ہے وہ اصل بات جو ماہرین علم کی ہے۔ (نصب الرایۃ ۴؍۴۰۳، إرواء الغلیل ۶؍۸۸، سیر اعلام النبلاء ۸؍۳۲۱)۔

اس لئے جو حدیث حسن حدیث سے بھی کم درجہ کی ہو وہ ضعیف ہوگی ۔ اور اپنی شاہد نہ ہونے کی وجہ سے کبھی تقویت نہیں پکڑ سکتی خواہ امت اسے شرف قبولیت ہی کیوں نہ بخشے۔یہ حدیث تو آیت {وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ} کا آئینہ ہے۔ کیونکہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں۔ ان کا علم سے کیا تعلق؟کیا بداعمالی کی کثرت بھی امت کے لئے شرف قبولیت کی بات ہے؟ اسی اصول پر عمل کرکے کتنے علوم کو زخمی کردیا گیا ہے؟ کتنی موضوع احادیث ہیں جنہیں شرف قبولیت بخشا گیا ہے اور جن میں سوائے ضلالت کے کچھ نہیں۔ اس لئے جو حدیث صحت کی شرائط ہی پوری نہ کرتی ہو اس کے لئے یہ اصول ہی غلط ہے۔
بہت عمدہ مضامین ہیں۔
لیکن یہ آخری والا کس "عقلمند" نے لکھا ہے جس کو یہ بھی نہیں پتا تلقی امت سے مراد تلقی علماء ہوتا ہے عوام نہیں؟ اور امام شافعی کا "عامۃ" سے مطلب عوام نہیں جمہور محدثین ہیں؟

اگر ہم اس حدیث مذکور کو حسن سے بھی آگے بڑھ کر صحیح مان لیں تب بھی یہ نص قرآنی کے لیے ناسخ نہیں ہو سکتی کیوں کہ نص قرآنی تواتر سے ثابت ہوتی ہے جب کہ یہ خبر واحد ہے۔ جب ایک روایت صرف اپنے سے زیادہ ثقات کے مقابلے میں آنے پر مردود ہو جاتی ہے تو بھلا نص متواتر کے مقابلے میں اس کی کیا حیثیت ہوگی؟
دوسری بات اسی روایت کو ان سے کہیں زیادہ ثقہ روات موقوفا بیان کرتے ہیں۔
أخبرنا "سفيان" عن "سليمان الأحول" عن "مجاهد"، أن رسول الله قال: " لا وصية لوارث "
الرسالۃ للشافعی

تو اس کے وقف اور رفع میں کچھ نہ کچھ شک پیدا ہو گیا۔ کیا ایسی حدیث بھی قرآن کی آیت کے لیے ناسخ بن سکتی ہے؟ آخر قرآن کلام اللہ ہے یا کچھ اور؟

مزید اس کی ہیڈنگ یہ ڈالی ہے کہ "غیر محدثانہ اصول"۔ حالاں کہ یہ اصول خود محدثین کا ہے۔
اس لنک پر محدثین کے اقوال دیکھیے:۔
http://www.ownislam.com/articles/urdu-articles/ghair-muqallidyiat/2154-usool-muhaddiseen
امام ترمذی بہت سی جگہوں پر و علیہ العمل کا نعرہ آخر کیوں لگاتے ہیں؟

پھر یہ ٹھیک ہے کہ اگر محدثین کے کسی اصول سے آپ متفق نہیں ہیں تو اس کا مکمل عقلی رد بھی کیجیے۔ کیوں کہ یہ اصول عموما عقل سے بنے ہوتے ہیں۔
جب اس مضمون میں نہ تو محدثین کے دلائل کا ذکر کیا، نہ نقل سے کوئی رد کیا اور نہ عقل سے کوئی رد۔
تو یہ طرز تو مناسب نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۲۔ضعیف حدیث ظاہر قرآن کے موافق ہو تو صحیح ہوگی:
یہ ایک اور اصول ہے جو بعض فقہاء کرام نے بیان کیا ہے ۔اس اصول کے مطابق صحیح حدیث ہونے کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ ظاہر قرآن کے موافق ہو۔۔امام زرکشیؒ لکھتے ہیں: ابو الحسن بن الحصار نے (تَقْرِیْبُ الْمَدَارِكِ عَلَی مُوَطَّأِ مَالِكٍ) میں لکھا ہے:
محدثین نے جو اصول بنائے ہیں ان کے بے شمار مقاصد ہیں جن میں وہ مبالغہ کی حد تک احتیاط برتتے ہیں۔فقہاء کے لئے ان اصولوں پر چلنا ضروری نہیں۔مثلاً وہ حدیث مرفوع کو اس وقت معلول قرار دیتے ہیں جب وہ موقوف یا مرسل مروی ہو۔یا راوی پر جرح کردیتے ہیں جب وہ منفرد ہویا اس نے اپنی روایت میں کچھ اضافہ کردیا ہو۔یا اس نے اپنے سے بڑے عادل وحافظ کی مخالفت کی ہو۔
مزید یہ بھی لکھا:
کبھی فقیہ کو یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ حدیث اصول فقہ کے موافق ہے لہٰذا یہ صحیح ہے۔یا کسی حدیث کے آیت قرآن کے موافق ہونے پر فقیہ اسے اعتقاداً صحیح قرار دیتا ہے اور قابل عمل سمجھتا ہے۔ حدیث کی سند میں اگر کوئی کذاب راوی نہیں تو پھر وہ اگر کتاب اللہ کے موافق ہے اور اصول شریعت سے متصادم نہیں تو اسے صحیح قرار دینے میں کوئی حرج نہیں۔(النکت علی ابن الصلاح ۲؍۱۲۸)
معلوم نہیں ان بعض فقہاء کو کب اور کیسے یہ باور ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم کے موافق یہ ضعیف حدیث ہے ۔ ظاہرپرستی تو دین میں غور وفکر اور استدلال سے خالی چیز کا نام ہے۔پھر یہ اصول امت کو کیوں بخشا جارہا ہے؟ کیا صرف محدود اور محبوب مسائل میں یہ اصول کام آئیں گے یا دیگر خرافات کا دروازہ بھی کھول دیں گے؟ ان اصولوں کا مطلب یہ بھی ہوا کہ متروک یا اسی درجہ کا راوی جسے انتہائی ضعیف قرار دیا جاچکا ہے اس کی روایات کو اس لئے صحیح قرار دیا جائے گاکہ وہ کتاب اللہ یا اصول شریعہ کے موافق ہیں اورجو صحیح روایات ہیں مگر بظاہر مخالف قرآن ہیں انہیں چھوڑ دیا جائے۔جیسا کہ ہوچکا ہے۔معتدل علماء وفقہاء نے ایسے فقہاء کویہی مشورہ دیا ہے کہ ان محدود آراء کی بجائے اپنے اصولوں کو بدلا جائے تاکہ قرآن وحدیث کے مابین بعد کی بجائے قرب پیدا ہو۔
محدثین کرام ایسے اصولوں کے قائل نہیں ۔ اور ان ضعیف ، متروک اور موضوع احادیث کو وہ ظاہر قرآن کیا دین اسلام کی روح کے منافی سمجھتے ہیں ۔ ان موضوع احادیث کو دیکھ کر کوئی طالب علم بھی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ظاہر قرآن کے موافق ہیں۔
جیسے:
دعائے آدم : یَا رَبِّ أَسْئَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ، یا انہوں نے یہ کہا: الّٰلھُمَّ إِنِّی أَسْئَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ عَلَیْكَ۔ یا ایک بدو نے آپ ﷺ کی قبر مبارک پر خود کو پھینکا اور سر پر مٹی ڈال دی اور کہنے لگا: اللہ تعالی نے آپ کے بارے میں فرمایا ہے: {ولو أنھم إذ ظلموا أنفسھم} تو میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور آپ کے پاس آگیا ہوں تاکہ آپ میرے لئے استغفار کریں تو قبر سے آواز آئی : جا تجھے معاف کیا۔یا إذَا أَعْیَتْکُمُ الاُمورُ فَعَلَیْکُمْ بِأَصْحَابِ الْقُبُورِ۔ کیا ان جیسی موضوع ، من گھڑت وضاع اور کذاب لوگوں کی روایات کوبھی آیت {وابتغوا إلیہ الوسیلة} کے موافق پاکر صحیح سمجھا جائے گا اور صحیح حدیث لَا صَلَاةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ کو ظاہر قرآن {فاقرؤوا ما تیسر منہ} کے خلاف سمجھ کر ترک کردیا جائے گا؟اصول بدلئے۔ دین نہیں بدل سکتا۔۔ دیکھئے : تذکرۃ الحفاظ، اقتضاء الصراط المستقیم، المدخل از امام حاکم اور تلخیص مستدرک ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۳۔ مجتہد جب ضعیف حدیث سے استدلال لے تو وہ صحیح ہوجائے گی:
یہ نرالا اصول ابن الہمامؒ نے اپنی التحریر میں لکھا ہے:
الْمُجْتَھِدُ إِذَا اسْتَدَلَّ بِحَدِیثٍ کَانَ تَصْحِیحًا لَہُ کمَا فِی التَّحْرِیرِ لِابْنِ الْھَمَّامِ وَغَیرِہِ (إنھاء السکن من یطالع إعلاء السنن: ۱۶)۔ جب کسی حدیث سے مجتہد استدلال لے تو وہ اس حدیث کا صحیح ہونا ہوتا ہے۔
کتب علوم الحدیث میں صاف لکھا ہے کہ عالم کا عمل یا حدیث کے مطابق اس کا فتوی یہ معنی قطعاً نہیں رکھتا کہ ایک ضعیف حدیث صحیح ہوگئی۔ اسی طرح مجتہد کی حدیث سے عملی مخالفت کا یہ معنی بھی نہیں کہ وہ صحیح حدیث کو یا اس کے راوی کو کمزور کررہا ہے۔ (مقدمہ ابن الصلاح مع التقیید والإیضاح:۱۲۰،کتاب إرشاد طلاب الحقائق از امام نووی ؒ۱؍۲۹۱)۔ یہی بات امام عراقی ؒاور زکریا انصاریؒ نے فتح الباقی میں اور سخاویؒ نے بھی لکھی ہے۔امام ابن الجوزی ؒ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے:
أَنَّ جمَاعَةً مِنَ الفُقَھَاءِ یَبْنُونَ عَلَی الْعُلُومِ الْمَوضُوعَةِ (الموضوعات ۱؍۳) فقہاء کی ایک جماعت اپنے استنباط ومسائل کی بنیاد موضوع حدیث پر رکھتی ہے۔
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
رَأیْتُ بِضَاعَةَ أَکْثَرِ الْفُقَھَاءِ فِی الْحَدیثِ مُزْجَاةً، یَعولُ أَکْثَرُھُمْ عَلَی الاَحَادِیثِ لَا تَصِحُّ وَیَعْرِضُ عَلَی الصِّحَاحِ وَیُقَلِّدُ بَعْضُھُم بَعْضًا فِیْمَا یَنْقُلُ۔ (التحقیق فی اختلاف الحدیث ۱؍۳) میں نے اکثر فقہاء کو علم حدیث میں معمولی علم والا پایاان کی اکثریت ایسی احادیث کو پیش کرتی ہے جو صحیح نہیں ہوتیں مگر انہیں صحیح بناکر پیش کردیتے ہیں پھر ان کے بعد بھی ہر ایک انہی کو ویسے ہی بے سوچے سمجھے نقل کردیتا ہے۔
سچی بات بھی یہی ہے کہ فقہ کی بعض کتب میں وارد مسائل کا استنباط ایسی ہی احادیث سے کیا گیا ہے۔یہی شکایت امام بدر الدین العینیؒ اور شاہ ولی اللہ محدثؒ دہلوی کوبھی ہے۔امام نوویؒ فرماتے ہیں:
بہر حال ائمہ حدیث، ضعفاء سے ایسی احادیث احکام روایت نہیں کرتے جس میں وہ منفرد ہوں۔ ائمہ حدیث میں کوئی بھی ایسی غلطی نہیں کرتا۔اور نہ ہی غیر محدث محقق یہ پسند کرے گا۔ فقہاء کرام کی اکثریت ایسی احادیث پر اعتماد اگر کرتی بھی ہے تو اولاًیہ درست نہیں اور علمی اعتبار سے بہت ہی بری حرکت ہے۔اس لئے کہ وہ فقیہ، حدیث کے ضعف کو جانتے تھے تو ان کے لئے اس سے استخراج واستنباط کرنا ہی ناجائز تھا کیونکہ فقہاء کرام بھی متفق ہیں کہ احکام میں ضعیف حدیث قابل حجت نہیں۔پھر بھی فقیہ کو اہل علم سے اس کے بارے میں سوال کرلینا چاہئے تھا۔ (شرح صحیح مسلم ۱؍۱۲۶)
اس لئے یہ اصول ،ماہرین حدیث کا نہیں۔حقائق شاہد ہیں کہ بے شمار ضعیف احادیث سے مجتہدین کرام نے استدلال لئے ہیں۔تو کیا ضعیف احادیث کی بنیاد پر فقہ اسلامی کی عمارت کھڑی کی جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ نیز ہر مجتہدکو اگر یہ چھوٹ دی جائے تو کیا سبھی کی یہ تصحیح قبول کرلی جائے گی؟اگر ایسا ہے تومالکی، حنفی، شافعی اور حنبلی مذاہب میں اختلافات کی ایک بنیاد کیا ضعیف حدیث کو قبول کرلینے پر نہیں؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۴۔ کیاضعیف حدیث صحیح ہوگی جب کسی صوفی پر اس کا کشف ہوجائے؟
کشف، علم غیب کے جاننے کا ایک خدائی دعوی ہے جو قرآن اور رسول پر ایمان رکھنے کے بعد کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ دین اسلام کے مختلف اہم پہلوؤں کو صوفیانہ کلام نے ایسا رنگ دیا ہے جس میں حلال وحرام کی کوئی تمیز نہیں رہی۔ذومعنی لفظ اور نئی اصطلاحات متعارف کرانے میں تصوف کو کمال حاصل ہے۔یہی نام ہیں جن کی بناء پر وہ احادیث کی تصحیح وتضعیف کرتے ہیں۔ مثلاً: لفظ کشف کو ہی لیجئے اس کا معنی پردہ اٹھنے کا کرتے ہیں۔یعنی ایک صوفی پر غیبی چیزوں اور حقیقی امور کا پردہ اٹھ جاتا ہے اور وہ ان کی حقیقت سے مطلع ہوجاتا ہے۔یہی تصوف کی وہ بنیاد ہے جس سے ہر صوفی آشنا ہے کہ ذرا گردن جھکائی تصویر دیکھ لی۔گویامراقبہ کرکے ہر غیبی شے سے مطلع ہواجاسکتا ہے۔ اسے کیا ضرورت ہے کہ قرآن کریم پرر غور کرے یا اسے سمجھے یا احادیث رسول اور ان کے اصولوں کو جانے جو محدثین کرام نے ایک حدیث کی تحقیق کے لئے بنائے ہیں۔
مثلاًیہ حدیث:
أَصْحَابِی کَالنُّجُومِ بِأَیِّھِمْ اقْتَدَیْتُم اھْتَدَیْتُمْ۔ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتداء کروگے ہدایت پالوگے۔

شیخ شعرانی (المیزان الکبری ۱؍۳۰) میں لکھتے ہیں: وھَذَا الْحَدیثُ وَإِنْ کَانَ فِیہِ مَقَالٌ عِندَ الْمُحَدِّثیِنَ فَھُوَ صَحیحٌ عِندَ أَھْلِ الْکَشْفِ۔ اس حدیث میں اگرچہ محدثین کرام کو خاصا اعتراض ہے مگر اہل کشف کے ہاں یہ صحیح ہے۔اس طرح تو بہت سی باطل وموضوع احادیث کو بھی جب اور جہاں چاہیں صحیح کیا جاسکتا ہے۔اور حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دیا جاسکتا ہے۔بالفرض یہ کشف اگر احسن حالات میں صحیح بھی ہو اور ہوائے نفس سے مبرا بھی، تو بھی اس کی حیثیت ایک رائے کی ہے اور رائے میں انسان خطا بھی کرتا ہے اور مصیب بھی ہوتا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: درجہ بالا حدیث کی مجموعی طور پر نو اسانید ہیں۔ جن میں پانچ اسانید تو ایسی ہیں جن میں یا تو کذاب راوی ہے یا وہ ہے جو جھوٹ سے متہم ہے۔ تین اور اسانید میں ایسے راوی ہیں جنہیں متروک کہا گیا ہے۔اور نویں سند وہ ہے جس میں دو مجہول راوی ہیں جن کی وجہ سے یہ حدیث بہت ہی ضعیف ہے۔
کشف سے محبت رکھنے والے العِلْمُ حِجَابُ الاَکْبَرُ علم شریعت ہی دین طریقت یا مشاہدہ حق میں سب سے بڑا حجاب۔رکاوٹ ہے۔کہہ کر شرعی علوم کو کہاں ہضم کرسکتے ہیں۔ اور جو الجَھْلُ أَحَبُّ إَلَیَّ مِنَ الْعِلْمِ جہالت مجھے علم سے زیادہ عزیز ہے۔جو تَرْوُوْنَ عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ وَنَحْنُ نَرْوِیْ مِنَ الرَّزَّاقِ کے قائل ہوں انہیں ضعیف حدیث کی تحقیق کی ضرورت ہی کیا ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۵۔ رسول اکرم ﷺ کو خواب میں دیکھنے سے ضعیف حدیث کے صحیح ہونے کا دعوی:
علی بن مسہر رحمہ اللہ کہتے ہیں: میں اور حمزہ الزیات نے ابان سے تقریباً ایک ہزار احادیث سنیں۔ علی کہتے ہیں کچھ عرصہ بعد میں حمزہ کو ملا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ خواب میں مجھے رسول اکرم ﷺ ملے تو میں نے انہیں ابان کی احادیث سنائیں تو آپ نے ان میں سے صرف پانچ یا چھ احادیث کو پہچانا ۔امام نوویؒ لکھتے ہیں:
محدثین کے ہاں ایسے خواب کوئی حیثیت نہیں رکھتے جن کی بنیاد پرکسی بھی حدیث کو صحیح یا ضعیف قراردیا جاسکے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ابان خود ضعیف ہے ورنہ حمزہ کا خواب ابان کو قطعی طور پر ضعیف قرار نہیں دے سکتا۔نہ اس خواب سے کوئی ثابت شدہ سنت باطل ہوسکتی ہے اور نہ ہی غیر ثابت شدہ سنت اس سے صحیح ہوسکتی ہے۔ اہل علم کا اس پراجماع ہے۔ (شرح صحیح مسلم ۱؍۱۱۵)۔نیز اصول یہی ہے شرعاً جو کچھ طے ہوچکا ہے اسے خواب تبدیل نہیں کرسکتا۔
کچھ لوگوں نے حدیث کی تصحیح یا تضعیف کا ایسا دعوی بھی کیاہے کہ ان کی خواب میں آپ ﷺ سے ملاقات ہوئی جس میں بعض احادیث کے بارے میں آپ ﷺ سے پوچھا ۔مثلاًشعرانی نے ابو المواہب الشاذلی کا یہ قول لکھا ہے:میں رسول اللہ ﷺ کو خواب میں ملا اور آپ ﷺ سے اس مشہور حدیث (اُذْکُرُوا اللہَ حَتّٰی یَقُولُوا مَجْنُونٌ) اللہ کا ذکر اتنا کرو کہ لوگ کہہ اٹھیں کہ یہ پاگل ہو گیا ہے۔کے بارے میں سوال کیا۔اور صحیح ابن حبان میں ہے: (أَکْثِرُوا مِنْ ذِکْرِ اللہ حتّٰی یَقولُوا مَجْنُونٌ) اللہ کا ذکر اتنا زیادہ کرو کہ لوگ پکار اٹھیں کہ یہ پاگل ہوگیا ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابن حبان اپنی روایت میں بالکل سچے اور صادق ہیں اور راوی نے بھی جو اُذْکُروا اللہ کہا ہے وہ بھی سچ ہے۔ اس لئے کہ میں نے ان دونوں کو بیک وقت کہا تھا۔ ایک بار اذکروا اور دوسری بار أَکْثِرُوا۔ (الطبقات الکبری ۲؍۶۸)۔ کیا ایسے دعوے ادیان باطلہ میں نہیں پائے جاتے؟ یہ بھی ایک جھوٹ ہے جسے شاید ہی کوئی مسلمان سچ مان سکے۔جوبزرگ صوفی یہ کہیں: إذَا رَأَیْتَ الصُّوفِیَّ یَشْتَغِلُ بُحَدِّثُنَا فَاغْسِلْ یَدَكَ مِنْہُ۔ جب تم کسی صوفی کو دیکھو کہ وہ حَدَّثَنا یا أَخْبَرَنا کے چکر میں پڑگیا ہے تو بس اس سے ہاتھ دھولو۔ کیا وہ صحیح یا ضعیف وموضوع میں تمیز کریں گے یاکشف اور خواب پرچلیں گے؟۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۶۔ کسی حدیث کو جدیدسائنسی نکتہ نظر سے صحیح یا ضعیف قرار دینا :
ہمارے بعض معاصرین اکثروبیشترسائنس دان کی تحقیقات کا موازنہ آیات قرآنیہ یا احادیث رسول ﷺ سے کرتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے اگر مادہ، پودہ، حیوان یا خلاء کے بارے میں کچھ کہہ دیا تو احادیث نبویہ کے بارے میں ان کا نقطہ نظر یہ ہوجاتا ہے کہ جوحدیث ان تحقیقات کے مطابق ہے وہ سرآنکھوں پرخواہ وہ ضعیف یا موضوع ہی کیوں نہ ہو اور جو نہیں وہ حدیث ہی نہیں ہوسکتی۔یہ اصول درست نہیں کیونکہ سائنس جو کچھ بتاتی ہے وہ اس زمانے کی ایک امکانی کوشش ہوتی ہے نہ کہ حقیقتاً ایسا ہوتا ہے ۔ ماضی میں سائنسدان یہ کہا کرتے کہ سورج ایک ثابت وساکن سیارہ ہے۔ اس دور میں یہ یقینی بات سمجھی گئی مگر کچھ عرصہ بعد انہی سائنسدانوں نے مزید تحقیق کی تو کہا کہ سورج بھی بہت تیزی کے ساتھ اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ہاں جو صحیح حدیث کے مطابق سائنسی تحقیق ہے اس کے انکار کی گنجائش نہیں بلکہ اس میں نبی امی کے رسول اللہ ﷺ ہونے کی شہادت ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۷۔ عقلی تک بندیوں سے کسی حدیث کو ضعیف یا صحیح قرار دینا:
بعض لوگ کہتے ہیں اگرچہ روایات صحیح بھی ہوں مگر عقل میں نہیں آتیں!ان سے گزارش ہے کہ چند روایات تو یقیناً صحیح نہیں لیکن یہ اصول بھی کب صحیح ہے کہ جو واقعہ آپ کی عقل میں نہ آئے وہ یکسر غلط اور موضوع ہے؟ آپ بلا تامل پوچھئے کہ یہ واقعات وروایات اصول فن روایت کی بنا پر کہاں تک صحیح اور قابل قبول ہیں؟ اتنا پوچھ لینا ہی کافی ہے لیکن یہ کہاں کا اصول تحقیق اور معیار تمیز حق وباطل ہے کہ واقعے یا روایت کی صحت کے لئے پہلی شرط آپ کی عقل کی تصدیق ہے؟ یہ جملہ تو خطرناک قسم کی سوفسطائیت ہے جو اس طر ح واضح ہوتی ہے۔
تبصرہ:
ہر واقعے وروایت کے صحیح یا غلط ہونے کے لئے اہم شے ان پانچ شرائط کا ہونایانہ ہونا ہے ۔چند ضعیف وموضوع روایات اگر نا اہل لوگوں نے بیان کردی ہیں تو کیا اس بناء پر احادیث کا ذخیرہ ہی رد کردیا جائے؟ نیز یہ بھی کون سی دین داری ہے کہ ضعیف وموضوع روایات پر صحیح دین اور اس کے خالص جذبے کو قربان کیا جارہا ہے۔کچھ لوگ اپنے عقلی معیار کو تدبر نام دینے پر مفتخر ہیں اور تطبیق منقول ومعقول کے مرعوب کن لفظ کا استعمال کرتے ہیں اور علانیہ تمسخر اڑاتے بھی نہیں شرماتے۔یہ سب ایسی تیز قینچی ہے جسے اٹھایا اور اندھا دھند قطع وبرید کردی۔اسے اس علم وفن سے مس کا نام دیا جائے یا اصول وقواعد کے مطابق ماہرانہ رائے کہا جائے؟ کتابوں پرگہری نظرکا اعزاز دیا جائے یا عربی زبان کا جاحظ وقت انہیں قرار دیا جائے۔جب باوثوق ارباب علم وفن کی اس فن پر نقدموجود ہے۔جو اپنی درایت وشہادات کی بنا پر ثابت کرسکتے ہیں کہ یہ روایات پایہ اعتبار سے گری ہوئی ہیں۔اور فن اصول حدیث کے اعتبار سے لائق احتجاج نہیں تو پھر کیا ضرورت ہے اان تکلفات کی؟
انسانی عقل اکثر وبیشتر قلابازیاں بھی کھاتی ہے اور پلٹے بھی۔ عام دین دار اور کم پڑھا لکھا جوشیلا نوجوان اس قلابازکی فصاحت وخطابت سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ وہ حرام ومنکر کو بھی بیک وقت ایک ہی شے بنا دیتا ہے اور گانے بجانے ، رقص وسرود کی محفلوں کے لئے یہ دلیل بھی لاتا ہے کہ جاہلی دور کی یہ تفریحات تو عام تھیں اور بت پرستی بھی۔ اگر یہ تفریحات حرام ہوتیں تو قرآن میں جس طرح شرک وبت پرستی سے روکا گیا ہے اس سے بھی روکا جاتا جب کہ ایسا نہیں۔یا الائِمَّةُ مِنْ قُرُیْشٍ حدیث نہیں بلکہ قریش کا شعار تھا اور قریشی سیاسی برتری کے لئے اسے محض دباؤ کے لئے اپنایا گیا تھا ۔یہی پسندیدہ معیار وہ احادیث رسول کے اسباب کا بنالیتا ہے ۔ اکابرین وبزرگوں کے تجربات اور معقولات کو حدیث صحیح سے بڑھ کر ترجیح دینے کا رجحان ، عام پبلک کو کیا رسول اللہ ﷺ سے جوڑ رہا ہے؟
٭…امام مسلمؒ مقدمہ میں فرماتے ہیں:
وَاللہِ مَا حَدَّثَنا الْحَسَنُ عَن بَدَرِیٍّ مُشَافَھَةً وَلَا حَدَّثَنا سَعیدُ بْنُ المُسَیَّبِ عَنْ بَدَرِیِّ مُشَافَھَةً إِلا عَنْ سَعْدٍ ْبنِ مَالِك۔ بخدا ہمیں حسن بصری نے کسی بدری سے بالمشافہہ حدیث بیان کی ہے اور نہ ہی سعید بن المسیب نے کسی بدری سے بالمشافہہ حدیث بیان کی ہے ہاں اگر کی ہے تو صرف سعد بن مالک سے۔یہ تردید امام محترم نے اس لئے کی ہے کہ حسن بصری سے صوفیہ نے اپنے سلسلہ ہائے طریقت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ۔پھر بلاسند ایسے سلسلوں کا کیا جواز؟ صوفیاء کا شجرہ طریقت سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کے واسطے سے ہی آپ ﷺ تک پہنچتا ہے جو بلاسند ہے۔ ملا علی القاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: صوفیاء جو اپنی نسبت امام حسن بصری عن علی ؓ سے ملاتے ہیں ۔ محدثین کے نزدیک ان کی ملاقات ہی ثابت نہیں، تحصیل علم تو بڑی بات ہے۔پھر بھی اگر کوئی یہ کہے کہ صوفیاء اپنے شجرہ نسب ملانے کے لئے ظاہری صحبت کے محتاج نہیں تو جواب یہی ہے کہ نسخہ اویسیہ ہی اگر آپ کی پہنچ ہے تو پھر ظاہری معلومات یا صحبت کا ثبوت تو واقعی تکلف ہے۔دلائل السلوک از مولانا اللہ یارص: ۲۰۳۔
ضعیف حدیث کن کتب میں ہوگی؟ امام شوکانی ؒنے تحفۃ الذاکرین (ص ۱۱) میں اس کی تفصیل دی ہے جو انہوں نے الجامع الکبیر کے مقدمہ میں امام سیوطی رحمہ اللہ سے منسوب کی ہے۔ وہ حدیث جسے تیسرے درجے کی کتب روایت کریں یا جسے عقیلی، ابن عدی، خطیب بغدادی ، اپنی کتب میں ، ابن عساکر اپنی تاریخ میں ، دیلمی اپنی مسند الفردوس میں، ترمذی الحکیم اپنی نوادر الاصول میں یا الحاکم اور ابن الجارود اپنی اپنی تاریخ میں روایت کرنے میں منفرد ہوں۔
مہلک نتائج:
جب صحیح، حسن اور ضعیف کی روایت میں تساہل آیا تو نتیجتاً ضعیف وموضوع احادیث قبول عام ہوگئیں اور بدعات بھی خوب پھیل گئیں۔شخصیت پرستی عام ہوگئی۔ظاہر ہے رسول اللہ ﷺ کے حوالے سے بلاتحقیق بات آپ ﷺ کی تعظیم کی کمی کی شہادت ہے۔مقام نبوت کا انکار ہے۔دین کی توہین ہے۔ اور اپنی شخصیات کو مقام نبوت پر بٹھانا ہے۔شرائط روایت سے جان چھڑا کر محض یہ کہہ دینا کافی نہیں ہے کہ فلاں کتاب میں یہ حدیث لکھی ہے۔بہتر یہ ہے کہ حدیث کی شرائط صحت اور کتب کا مرتبہ بھی دیکھ لیا جائے۔واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرٰی: أَنْ یَّدَّعِیَ الرَّجُلُ إِلٰی غَیرِ أَبِیہِ، أَو یُرِی عَینَہُ مَا لم تَرَ، أو یقولَ عَلَی رسولِ اللہِ ﷺ مَا لَمْ یَقُلْ۔ (فتح الباری ۶؍۵۴۰) ایک بڑا بہتان یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے باپ کی بجائے کسی اور کے باپ ہونے کا دعوی کرے۔یا وہ اپنی آنکھ کو وہ دکھائے جو وہ نہ دیکھتی ہو یا وہ رسول اللہ ﷺ پر وہ کچھ کہے جو آپ ﷺ نے نہ کہا ہو۔
امام سیوطیؒ اسے کبیرہ گناہ کہتے ہیں جو انجانے میں غلط روایت ہوجائے۔ اور عمداً ایسا کرنے والا خارج ازملت ہے۔وہ کہتے ہیں: علماء کا اتفاق ہے کہ موضوع وضعیف روایت کو بیان کرکے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ یہ حدیث موضوع یا ضعیف ہے۔امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں: آپ ﷺ کی یہ وعید اس ارشاد حَدِّثُوا عَنِّیْ وَلَا حَرَجَ کے متصل بعد تھی۔اس میں یہ دلیل ہے کہ آپ ﷺ کی طرف سے صحیح حدیث کی تبلیغ واشاعت کی جائے نہ کہ ضعیف کی۔ اور حق کی کی جائے نہ کہ باطل کی۔بغیر تحقیق کے ہر سنی سنائی بات کی تبلیغ واشاعت کرنا یہی انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے۔(تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص: ۱۲۵) انجانی سی غیر حدیثی کتب پڑھنا اوران کی ضعیف وموضوع روایات کو پھیلانا گویا کذاب لوگوں کی صف میں شامل ہونا ہے۔

شاید انہی ضعیف احادیث کے بداثرات تھے جن پربعض فقہاء نے بھرپور اعتماد کیا اور ان سے فقہی مسائل کشید کرکے نہ صرف کتب لکھیں بلکہ مسائل بھی اختلافی بنادئیے۔ذیل کے چندایسے مشہور مسائل ہیں جن میں انتہائی ضعیف روایات پر اعتماد کیا گیا ہے۔ اور خوب کھینچا تانی بھی کی گئی ہے۔وجوہات غالباً یہی تھیں کہ ائمہ عراق کے ہاں یہ روایات قیاس کے خلاف تھیں۔
مثلاً:
قہقہہ سے وضو کاٹوٹنا۔جبکہ قیاس یہی چاہتا ہے کہ قہقہہ نواقض وضوسے نہیں۔پھر بھی جس حدیث پر اعتماد کیا گیا ہے وہ انتہائی ضعیف ہے۔
کھجور کے شیرہ سے وضو کا جواز ، یہ بھی قیاس کے خلاف ہے۔ اور جس حدیث سے مسئلہ کشید کیا گیا ہے وہ بے حد ضعیف ہے۔
دس درہم سے کم قیمت کی چیز چرانے پرہاتھ نہیں کٹتا۔ یہ حدیث بالکل ضعیف ہے۔
اقامت جمعہ کے لئے شہر ہونے کی شرط ضروری ہے ۔ ورنہ قصبہ اور ٹاؤن میں جمعہ کا ہوناصحیح نہیں۔جس روایت سے اخذ کی گئی ہے وہ بے حد ضعیف ہے۔
پانی کی طہارت کے متعلق جن آثار پر اعتماد کیا گیا وہ نہ قیاس پر مبنی ہیں اور نہ ہی کسی صحیح حدیث پر۔
مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:جس ذخیرہ کا یہ حال ہو اسے آپ سرکاری سطح پر لا کر لوگوں کو اس کے قبول کرنے پر کیوں مجبور کرانے کی کوشش فرماتے ہیں؟ ائمہ عراق اور فقہائے حنفیہ کی علمی خدمات اور ان کے فقہی کارناموں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن بہت سی خوبیوں کے باوجود یہ قطعی نامناسب ہے کہ اسے خوامخواہ لوگوں پر مسلط کیا جائے۔(مجموعہ رسائل: ۶۱)
 
Top