• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
طبقات محدثین

تعداد طبقات:
یہ بارہ طبقات ہیں جن کا ذکر امام ابن حجر عسقلانی نے اپنی معروف کتاب تقریب التھذیب میں کیا ہے۔ کیونکہ ان کی روایات صحاح ستہ میں ہیں اور یہی زیادہ مشہور تقسیم ہے اور جن کی تاریخ وفات کا قاعدہ بھی انہوں نے مرتب متعین کردیا ہے۔:

پہلا طبقہ:
صحابہ کرام کا ہے ۔مختلف مراتب کے باوجود درجہ صحابیت ہی اس طبقہ کی اصل ہے ۔

دوسرا طبقہ:
یہ صحابہ کرام سے نچلا طبقہ ہے۔ کبار تابعین اس میں شامل ہیں جیسے سعید بن المسیب وغیرہ۔

تاریخ وفات: ان دونوں طبقات کی وفات پہلے سو سال کے دوران ہوئی ہے۔

تیسرا طبقہ:
تابعین کرام کا درمیانہ طبقہ ہے جن میں الحسن بصری اور ابن سیرین جیسے علماء ہیں۔

چوتھا طبقہ:
یہ طبقہ روایت حدیث میں کبار تابعین سے ملتا جلتا ہے جیسے امام زہری اور قتادۃ وغیرہ۔

پانچواں طبقہ:
صغار تابعین اس میں شامل ہیں جنہوں نے ایک یا دو صحابہ کرام کو دیکھا ہوتا ہے۔

چھٹا طبقہ:
یہ طبقہ پانچویں طبقہ کا معاصر ہے مگر ان میں سے کسی کی ملاقات کسی صحابی سے ثابت نہیں۔جیسے: ابن جریج وغیرہ۔

ساتواں طبقہ:
کبار اتباع تابعین کا ہے جن میں امام مالکؒ اور امام سفیان ثوری شامل ہیں۔

آٹھواں طبقہ:
اتباع تابعین میں درمیانہ طبقہ جن میں امام ابن عیینہ اور اسماعیل ابن علیہ شامل ہیں۔

تاریخ وفات: ان سبھی طبقات کی وفات پہلی صدی ہجری کے بعد سے لے کر دوسری صدی کے اختتام تک۔

نواں طبقہ:
اتباع تابعین کا طبقہ صغری ہے جیسے: یزید ؒبن ہارون ، امام شافعیؒ، امام طیالسیؒ اور امام عبد الرزاقؒ صنعانی وغیرہ۔

دسواں طبقہ:
تبع تابعین سے اخذ حدیث لینے والوں میں کبار لوگ جو کسی کبیر تبع تابعی کو نہیں ملے۔جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ۔

گیارہواں طبقہ:
وہ علماء جو اسی طبقہ کے درمیانہ درجہ کے ہیں اور جنہوں نے درمیانہ درجہ کے صغار تبع تابعین سے اخذ حدیث کیا ہے۔جیسے امام ذہلیؒ اور امام بخاریؒ وغیرہ۔

بارہواں طبقہ:
تبع تابعین سے اخذ حدیث کرنے والے صغار علماء کا طبقہ ہے۔جن میں مولفین صحاح ستہ کے وہ مشایخ بھی شامل ہیں جن کی وفات تاخیر سے ہوئی۔جیسے امام ترمذی رحمہ اللہ۔اور امام نسائی رحمہ اللہ کے شیوخ وغیرہ۔

تاریخ وفات: ان سب کی وفات تیسری صدی ہجری کے آغاز سے تا انتہائے عمر۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتبار، متابعت اور شاہد

اعتبار :
لغت میں اعْتَبَرَ سے مصدر ہے۔مراد کہ معاملہ میں غوروفکر کرنا کہ اسی کی جنس کی کوئی شے معلوم ہوجائے۔
اصطلاحاً:
اس کی تعریف یہ کی گئی ہے:
تَتَبُّعُ طُرُقِ حَدِیْثٍ انْفَرَدَ بِرِوَایَتِہِ رَاوٍ، لِیُعْرَفَ ہَلْ شَارَکَہُ فِیْ رِوَایَتِہِ غَیْرُہُ أَوْ لَا۔
ایک ایسی حدیث کی اسانید کو تلاش کرنا جسے ایک ہی راوی نے روایت کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کیا اس کی روایت میں کوئی اور بھی شریک ہے یا نہیں۔
جب کسی روایت کا راوی اکیلاہو تو محدثین ذخائرحدیث میں کسی اور راوی کو بھی تلاش کرتے ہیں جس نے یہی حدیث روایت کی ہو۔۔اس طرح یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ منفرد راوی ہے یا اس کے ساتھ کوئی اور بھی شریک ہے یا کسی نے اس کی متابعت کی ہے یااس کا کوئی شاہد بھی ہے۔محدث کی یہ بحث وتفتیش اعتبار کہلاتی ہے۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ:
… اس حدیث کا راوی منفرد ثقہ ہے اور کوئی بھی اسے روایت نہیں کررہا۔ تو اسے فرد مطلق یا غریب مطلق کہہ دیتے ہیں۔

…اگر کوئی اور راوی مل جائے تو اس سند کو متابعت کہتے ہیں۔

… اور اگر یہ علم ہوجائے کہ حدیث کسی دوسرے صحابی سے بھی مروی ہے تو ایسی حدیث شاہد کہلاتی ہے۔

اسی لئے محدثین کا یہ کہنا:
اعْتَبَرْنَا ھَذَا الْحَدِیثَ۔ اس حدیث کو ہم نے اعتبار کیا۔ یہ اعتبار ہے۔ پھر اعتبار کا نتیجہ بیان کیا جاتا ہے۔مثلاً: ابوبکر الخطیبؒ فرمایا کرتے: میں نے عبد اللہ بن خیران کی بہت سی احادیث کا اعتبار کیا تو میں نے انہیں مستقیم پایا۔یہ احادیث ان کی ثقاہت کی شاہد بن گئیں۔

متابعت:
لغت میں : تَابَعَ سے اسم فاعل ہے اور وَافَقَ کے معنی میں آتا ہے۔اسے تَابِعٌ بھی کہتے ہیں۔

اصطلاحاً:

حَدِیْثٌ شَارَك. فِیْہِ رُوَاتُہُ رُوَاةَ الْحَدِیْثِ الْفَرْدِ لَفْظاً وَمَعْنیً أَو مَعْنًی فَقَطْ، مَعَ الاِتِّحَادِ فِی الصَّحَابِیِّ۔ ایک حدیث جس کے راوی حدیث فرد کے راویوں سے لفظی ومعنوی اعتبار سے یا صرف معنوی اعتبار سے شریک ہوجائیںاور اوپر صحابی میں متفق ہوں۔

جب راوی ایک ہی حدیث کی روایت میں کسی دوسرے راوی کے ساتھ شریک ہوجائے تویہ شراکت دو طریقوں سے ہوتی ہے:

أ۔ تامہ: شروع اسناد میں راوی کو دوسرے راوی کی مشارکت مل جائے تو اسے متابعت تامہ کہہ دیتے ہیں۔نیچے دی گئی مثال دیکھئے۔

ب۔قاصرہ: اثناء سند میں راوی کو دوسرے راوی کی مشارکت مل جائے تو اسے متابعت قاصرہ کہتے ہیں۔مثلاً:

حَدَّثَنا أَبو أُسامةَ عَن عُبَیدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَن نافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے۔ مگراس کے آخری الفاظ یوں ہیں: فَإِنْ أُغْمِیَ عَلَیْکُم فَاقْدُرُوا لَہُ ثَلاثِینَ۔ یہ حدیث امام ابن خزیمۃ نے عَنْ عَاصِمٍ بْنِ مُحَمدِ بْنِ زَیدٍ عَن أبِیہِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنھُمَا سے روایت کی ہے جس کے آخری الفاظ یہ ہیں: فَإنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَکَمِّلُوا ثَلَاثِیْنَ۔ اس حدیث میں راوی کو متابعت جا کر سیدنا ابن عمر ؓسے ملی ہے اور آخری لفظ حدیث بھی مختلف ہیں اس لئے اسے متابعہ قاصرہ کہتے ہیں۔ (النکت: ۳؍۶۸۴)

شاہد:
اسم فاعل ہے شہادۃ سے۔ کیونکہ وہ گواہی دیتا ہے کہ اس حدیث فرد کی کوئی اصل وبنیاد ہے جس سے حدیث قوی ہوجاتی ہے۔جیسے ایک گواہ مدعی کی بات کو گواہی دے کر قوی کردیتا ہے۔

اصطلاحاً:
حَدِیْثٌ یُشَارِكُ فِیْہِ رُوَاتُہُ رُوَاةَ الْحَدِیْثِ الْفَرْدِ لَفْظاً وَمَعْنًی أَوْ مَعْنًی فَقَطْ، مَعَ الاِخْتِلَافِ فِی الصَّحَابِیِّ

ساری کوشش کے باوجود حدیث فرد ہی رہی۔ پھر کوئی اور ایسی حدیث ملی جواسی حدیث کا معنی پیش کررہی تھی تو دوسری حدیث پہلی حدیث کی شاہد کہلائے گی۔ شاہددراصل صحابی ہوتے ہیں جو اصل حدیث کی روایت میں لفظاً شریک نہیں ہوتے بلکہ مفہوم حدیث کی تائید ان سے مل جاتی ہے۔مثلاً امام ترمذی رحمہ اللہ کا یہ قول: وَفِی الْباَبِ عَنْ فُلَان وَفلَانٍ۔ اسی کی طرف اشارہ ہے۔ محدثین اس قول پر یوں تبصرہ کرتے ہیں: اس سے مراد اصل حدیث ہے نہ کہ بعینہ یہ حدیث۔ علماء نے امام ترمذی رحمہ اللہ کے اس قول پر احادیث کو ڈھونڈا اور ان کی تخریج کی ہے۔اور کتب لکھی ہیں۔

ایک جامع مثال:
جس میں اعتبار ، متابعت اور شاہد کو بخوبی سمجھا جاسکے: امام شافعی رحمہ اللہ کتاب الام میں ایک حدیث بہ سند: امام شافعی ؒ عن مالک عن عبد اللہ بن دینار عن عمر سے روایت کرتے ہیں:

الشَّھْرُ تِسْعٌ وَّعِشْرُونَ، فَلَا تَصُوموا حَتّٰی تَرَوُا الْھِلالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتّٰی تَرَوْہُ، فَإِنْ غُمَّ علَیکمْ فَأَکْمِلُوا الْعِدّةَۃ ثَلاثِینَ۔ (الام: ۲؍۹۴) مہینہ انتیس کا ہوتا ہے جب تک چاند نہ دیکھو روزہ نہ رکھو اور افطار بھی نہ کرو۔ اگر بادل تم پر چھائے ہوئے ہوں تو گنتی تیس پوری کرو۔

امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں موطا کے تمام نسخوں میں امام مالکؒ سے یہ حدیث فَإنْ غُمَّ عَلَیْکُمْ فَاقْدُرُوا لَہُ کے الفاظ سے ہے۔مگر متن کے ایک جملے فإِنْ غُمَّ عَلَیکُم فَأَکْمِلُوا الْعِدَّةَ ثَلاثِینَ۔میں امام شافعیؒ اپنے دیگر ساتھیوں سے فَاقْدُرُوا لَہُ روایت کرکے منفرد ہوجاتے ہیں جب کہ سب کے شیخ امام مالکؒ تھے۔

اس کی مزید اسانید تلاش کی گئیں توصحیح بخاری میں یہ حدیث اس سند سے ملی: حَدَّثَنا عَبدُ اللہِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِیُّ، ثَنَا مَالِكٌ ۔ آگے اسناد اور لفظ بھی وہی ہیں جو امام شافعیؒ نے اپنی روایت میں ذکر کئے ہیں۔ اس طرح امام شافعیؒ کی متابعت ، عبد اللہ بن مسلمۃ القعنبیؒ سے ہوگئی جوصحیح ترین حدیث کی علامت ہے۔اسے متابعت تامہ کہتے ہیں۔

مزید تحقیق کی تو یہی حدیث صحیح ابن خزیمہ میں بہ روایت عاصمُ بْنُ مُحمدٍ عَن أَبیہِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضی اللہ عَنھُمَا بہ لفظ فأَکْمِلُوا ثَلاثِینَ کی ملی۔ یہ متابعت قاصرہ ہوئی۔اور صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث بروایت حَدَّثَنَا أَبو أُسامَةَ عَنْ عُبَیدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ بہ الفاظ فَاقْدُرُوا ثَلَاثینَ ملی۔یہ بھی متابعت قاصرہ ہوئی۔ اسی حدیث کی ایک شاہد حدیث بروایت محمدُ بنُ حُنَینٍ عَنِ ابْنِ عَباسٍ عَنِ النبِیِّ ﷺ سنن نسائی میں ملی۔ انہوں نے بھی اسے عبدُ اللہِ بْنُ دِینارٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ والی حدیث کی مانند بعینہ انہی الفاظ میں بیان کیا ہے۔امام بخاری ؒ نے بھی بروایت محمدُ بْنُ زِیادٍ عَن اَبِی ھُریرةَ سے ان الفاظ میں یہ حدیث بیان کی ہے: فَإنُ غُمِّیَ عَلَیْکُم فَأَکْمِلُوا عِدّةَۃَ شَعْبَانَ ثَلاثِینَ۔ یہ حدیث بھی معناً شاہد کی حیثیت رکھتی ہے۔

امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
متابعت اور شاہد کے انکشاف کی جو صورت و ہیئت بنتی ہے اسے اعتبار کہتے ہیں۔انہوں نے امام ابن الصلاحؒ کی اس تقسیم کا تعاقب کیا ہے جس میں انہوں نے اعتبار کو متابعت اور شاہد کی ایک قسم قرار دیا ۔

اعتبار کے درج ذیل مقاصد ہیں:۔

٭…راوی اگر ثقہ ہے تو اس پر تفرد کا الزام دور کیا جاسکے۔

٭… اگر ایک راوی ضعیف ہے تواس عمل سے حدیث کو تقویت مل سکے۔

٭… اسے دیگر احادیث پر ترجیح دی جاسکے۔

٭… جوامع، معاجم اور مسانید جیسی کتب میں اسی حدیث کی مزید اسانید وغیرہ تلاش کی جاسکیں ۔

متابعت کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ کسی راوی کی حدیث کی مزید تحقیق ہوجائے۔ مثلاً: حماد بن سلمۃ ایک حدیث کو عَنْ أَیُّوبَ عَنِ ابْنِ سِیْرِیْنَ عَنْ أَبِی ہُرَیرَةَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ روایت کرتے ہیں۔ محدثین اس حدیث کی تحقیق مزید کے لئے یہ دیکھتے ہیں کہ کیا کسی اور ثقہ نے یہی حدیث ایوب سے روایت کی ہے؟ اگر ایسی روایت مل جائے تو وہ اسے متابعت تامہ کہہ دیتے ہیں۔ اور اگر نہ ملے تو پھر یہ تلاش کرتے ہیں کہ ایوب کے سوا کسی اور ثقہ نے یہی حدیث ابن سیرین سے روایت کی ہے اگر وہ مل جائے تو اسے متابعت قاصرہ کہہ دیتے ہیں اور اگر یہ بھی نہ ملے تو پھر اس تلاش میں لگ جاتے ہیں کہ ابن سیرین کے سوا کسی اور ثقہ نے یہی حدیث ابوہریرہ سے روایت کی ہے۔ اگر وہ مل جائے تو بھی اسے متابعت قاصرہ کا نام دیتے ہیں اور اگر نہ ملے تو پھر کوشش کرتے ہیں کہ کوئی ایسی حدیث مل جائے جسے ابوہریرہ کے علاوہ کسی اور صحابی نے آپ ﷺ سے یہی حدیث روایت کی ہو۔اگر ایسی روایت مل جائے تو یہ بھی متابعت قاصرہ کہلاتی ہے ورنہ ایسی حدیث فرد یا غریب ہوگی۔جیسے یہ حدیث: أَحْبِبْ حَبِیبَكَ هَوْنًا مَّا۔۔۔اسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے بہ سند سابق حماد بن سلمۃ روایت کرکے کہا ہے: غَریبٌ لَا نَعْرِفُهَ بِھٰذَا الإِسْنَادِ إِلَّا مِنْ ھذَا الْوَجْہِ۔ یہ حدیث غریب ہے جسے ہم سوائے اسی اسناد کے کہیں اور نہیں جانتے۔امام سیوطی تدریب میں اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: أیْ مِنْ وَجْہ یَثْبُتُ وَإِلَّا فَقَدْ رَوَاہُ الْحَسنُ بْنُ دِینارٍ عَنِ ابنِ سِیرینَ، وَالْحَسَنُ مَتْرُوكُ الْحَدیثِ لَا یَصْلُحُ لِلْمُتَابَعَاتِ۔ یعنی ایسی سند سے جو ثابت ہے۔ورنہ اس حدیث کو حسن بن دینار نے ابن سیرین سے روایت کیا ہے ۔ یہی حسن متروک ہے جو متابعات کے لائق نہیں۔

شاہد کو پیش کرنے کا مقصد: یہ ہوتا ہے کہ:

٭… صحابہ کرام کے بارے میں یہ علم ہو تا ہے کہ وہ بھی اسی معنی کی حدیث کو تواتر کے ساتھ روایت کرتے رہے ہیں۔

٭…کبھی متن میں موجوداضافہ کو ثابت کرنا ہوتا ہے۔

٭…کبھی حدیث کو تقویت مل جاتی ہے جب اس میں معمولی ضعف کا احتمال ہو ۔ ضعف شدید کی صورت میں توایسی حدیث سے استشہاد نہیں لیا جاسکتا۔ مثلاً راوی متہم ومتروک ہو۔

٭…کبھی متن میں ابہام کو دور کرنے اور اس کی وضاحت کے لئے شاہد کی ضرورت پڑتی ہے۔

٭…کبھی زمان ومکان کی وضاحت کے لئے بھی ضرورت پڑتی ہے۔

قدیم محدثین، متابع وشاہد کا استعمال ایک دوسرے کے لئے کیا کرتے۔ وَالاَمْرُ فِیہِ یُسْرٌ۔ بقول امام ابن حجرؒاس معاملہ میں آسانی ہے۔ اصطلاحا ت کے استقرار کے بعد زیادہ مناسب یہی ہے کہ ان کا مفہوم وہی لیا جائے جو متعین ہوچکا ہے۔

چنداصول:
متابعت اور شاہد میں یہ شرط نہیں کہ اس کا راوی ثقہ ہو بلکہ ثقہ سے کم تر بھی ہوسکتا ہے اس لئے اس کی حدیث معتبر ہوگی۔ یعنی اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ محدثین کے اس قول: لَا یُعْتبََرُ بِہِ، اس سے اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔کا یہی مطلب ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس کے بڑے ماہرتھے جیسا کہ سنن میں دیکھا جاسکتا ہے۔

٭…کبار ائمہ محدثین کو متابع کی ضرورت نہیں ہوتی۔الزعفرانی کہتے ہیں: میں نے امام احمدؒ بن حنبل سے عرض کی: اس حدیث میں عفان کی کس نے متابعت کی؟ مجھے فرمانے لگے: کیا عفان کو کسی متابع کی ضرورت ہے؟(سیر اعلام النبلاء ۱۰؍۲۴۷)

٭…اگر ایک راوی ثقات کی متابعت کرتا ہے تو یہ اس کی تقویت کا باعث ہے۔عفانؒ کہتے ہیں: یحییؒ بن سعید، ہمام کی بیشتر احادیث پر اعتراض کیا کرتے۔ جب معاذ ؒبن ہشام تشریف لائے اور ہم نے ان کتب کو بغور دیکھا تو وہ بہت سی احادیث میں ہمام کی روایات کے موافقت کررہے ہیں۔ اس کے بعد یحییٰ بھی اعتراض سے رک گئے۔

اہمیت متابعات:
اختلاف رواۃ کے وقت راجح کا متابعات سے پتہ چل جاتا ہے۔عباسؒ دوری کہتے ہیں میں نے یحییؒ بن معین سے پوچھا: اعمشؒ کی وہ حدیث جس میں وکیعؒ اور ابومعاویہؒ اختلاف کریں تو؟ فرمانے لگے: توقف کرو یہاں تک کہ ان میں سے کسی کا متابع مل جائے۔ مثالیں اوپر گذر چکیں ہیں۔

…ایسے رواۃ جن کا حدیثی اعتبار تو کیا جاتا ہے مگر احتجاج نہیں۔جیسے امام احمدؒ ، عمرو بن شعیب کی روایت میں بہت سی مناکیرپاتے ہیں مگرانہیں صرف اعتبار کے لئے لکھنے کا فرماتے ہیں باقی وہ حجت ہوں ایسا نہیں۔

…سیدنا انسؒ بن مالک کے وہ شاگرد جو ثقہ ہیں ۱۵۰ھ تک باقی رہے۔ ان کا اعتبار کیا جاتا ہے۔جو۱۹۰ھ تک زندہ رہے وہ ضعیف ٹھہرے ۔ اس لئے ان کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ کچھ اور بھی رہے جو ناقابل اعتماد اور غیر مقبول ٹھہرے۔جیسے ابراہیم بن ہدبۃ، ابومیس دینار، خراش بن عبد اللہ، موسیٰ الطویل، وغیرہ۔ یہ لوگ دو سو ہجری کے بعد تک کچھ عرصہ رہے مگر ان کی روایت کا اعتبار بھی نہیں کیا جاسکتا۔


٭٭٭٭٭​


حیران کن رویے


ختم المرسلین ہی کے ذریعے رب کریم نے یہ الجھن دور کرکے امتیاز قائم کیا کہ:

ایمان کیا ہے اور کفر کیا؟ نفع کیا ہے اور نقصان کیا؟۔ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا؟۔نجات کیا ہے اور عذاب کیا؟ سرکشی کیا ہے اور رشد کیا؟ راہ راست کیا ہے اور ٹیڑھ پن کیا؟ جنتی کون ہیں اور جہنمی کون؟ متقی کون ہیں اور فاجر کون؟ اور وہ کون ہیں جنہوں نے انعام یافتہ : انبیاء، صدیق، شہداء اورصالحین کے راستوں پر چلنے میں ہر اس راہ کوچھوڑا جو غضب الٰہی کا یا گمراہی وضلالت کا موجب تھی۔

جسم انسانی جس طرح کھانے پینے کا محتاج ہے اس سے کہیں زیادہ جو رسول محترم لائے وہ اس کی معرفت اور اطاعت کا محتاج ہے۔ کیونکہ اگر کھانا پینا اسے نہ مل سکا تو زیادہ سے زیادہ اسے موت آجائے گی مگر یہ معرفت اور اطاعت نصیب نہ ہوئی تو عذاب رب کو بھگتنا پڑے گا۔اس لئے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنی بساط بھر کوشش وہمت کرکے رسول محترم کے عطا کردہ دین کی اور اس کی اطاعت کی معرفت حاصل کرے کیونکہ عذاب الیم سے بچنے اور آخرت میں نعمتوں بھری زندگی کی یہی کنجی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
رد وقول کے اعتبار سے خبر واحد کی دوسری قسم


مردود احادیث اور ان کی اقسام

۱۔ حدیث ضعیف

ھُوَ مَا لَمْ یَجْمَعْ صِفَاتِ الصَّحیحِ وَالْحَسَنِ، بِفَقْدِ شَرْطٍ مِنْ شُرُوطِہِ۔ ایسی حدیث جس میں صحیح یا حسن کی صفات میں کوئی صفت موجود نہ ہو یا اس میں کوئی صفت مفقود ہو۔

اس کی مختلف صورتیں ہیں:

۱۔ اس حدیث کی سند ہی نہ ہو۔ایسی صورت میں اللہ کے رسول یا صحابہ یا تابعین یا ائمہ کرام کی طرف منسوب قول ، فعل یا فتوی سب بے سند ثابت ہوئے اور ضعیف بھی۔

۲۔ سند ہو مگر متصل نہ ہو تو یہ روایت منقطع، مرسل وغیرہ ہوگی اور ضعیف بھی۔

۳۔ اس کاراوی عادل نہ ہو یا غیر ضابط ہو۔ عدالت نہ ہونے کی صورت میں وہ حدیث متروک ہوگی اور اگر ضبط نہ ہو تو ضعیف یا موضوع۔

۴۔ اگر چوتھی شرط عدم شذوذاس میں نہ ہو تو پھر وہ حدیث شاذ یا منکر کہلائے ہوگی۔

۵۔اور اگر پانچویں شرط عدم علت اس میں مفقود ہو تو حدیث معلل ہوجائے گی۔

اس ضعف کے کچھ اسباب و وجوہات ایسی ہیں جنہیں ایک محقق کبھی نظر اندار نہیں کرسکتا۔ محدثین کرام نے جب روایات کو جانچا، پرکھا توانہیں حدیث میں ضعف کے درج ذیل مختلف اسباب ودرجات نظر آئے جن کی بنیاد بھی دو اہم سبب ہیں۔ ذیل کا خاکہ شاید ان اسباب کو زیادہ واضح کرسکے۔اس طرح ضعیف حدیث کی اقسام دو چندہوگئیں۔

۱۔ راوی میں طعن کے اسباب

اس طعن کی دو وجوہات ہوتی ہیں۔ یا طعن اس راوی کی عدالت پر ہوتا ہے یا ضبط پر۔

أ۔ عدالت راوی پر طعن : راوی پریہ نقدو طعن چار اسباب کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں:

۱۔ جھوٹ بولنا اسے محدثین وضع کہتے ہیں۔اس کی تعریف پھر یہ کی گئی ہے:

اصطلاحاً: اس حدیث کو کہتے ہیں:

ھُوَ مَا نُسِبَ إِلَی الرَّسولِ ﷺ اخْتِلاقًا وَکَذِبًا مِمَّا لَمْ یَقُلْہُ أو یَفْعَلْہُ أو یُقِرَّہُ، وَ کَانَ مَتْنُہُ مُخَالِفًا لِلْقَوَاعِدِ الثَّابِتَةِ فِی الْکِتَابِ وَالسُّننَّةِ۔ موضوع اسے کہتے ہیں جس کا راوی جھوٹا ہو اور وہ اپنی طرف سے ایک بات گھڑ کر رسول اکرم ﷺ کی طرف منسوب کردے۔ جو آپ ﷺ نے نہ کہی ، نہ کی اور نہ ہی اسے برقرار رکھا۔اور یہ قول، فعل وتقریر کتاب وسنت کے ثابت شدہ قواعد کے بھی خلاف ہو۔

مثال: تاریخ بغداد میں (۵/۲۹۷) بہ سند:

مُحَمَّدُ بْنُ سُلَیْمَانَ بْنِ ہِشَامٍ، حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ، عَنِ ابْنِ أَبی ذِئْبٍ، عَن نافِعٍ، عَن عَبدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ۔رضی اللہ عنھما ۔قَال: قَال رسولُ اللہِ ﷺ: لَمَّا أُسْرِیَ بِی إِلَی السَّمَاءِ، فَصُرْتُ إلَی السَماءِ الرابِعةِ سَقَطَ فِی حِجْرِی تُفَّاَحَةٌ، فَأَخَذْتُھَا بِیَدِیْ، فَانْفَلَقَتْ، فَخَرَجَ مِنْھَا حُورَاءُ تُقَھْقَہْ۔ فَقُلْتُ لَھَا: تَکَلَّمِی، لِمَنْ أَنْتِ؟ قَالت: لِلْمَقْتُولِ شَھِیدًا عُثْمَانَ۔

یہ حدیث محمد بن سلیمان بن ہشام کی وجہ سے موضوع ہے۔ خطیب بغدادیؒ لکھتے ہیں: یہ حدیث وضع کیاکرتا۔ امام ذہبیؒ نے بھی میزان الاعتدال (۳/۵۷) میں اسے جھوٹا قرار دیا ہے۔ ابنؒ عدی کہتے ہیں: یہ حدیث متصل بناتا اور چوری کرتا تھا۔

اس کا رتبہ:آپ ﷺ کی طرف منسوب شدہ یہ روایت بدترین کوشش ہے ۔اسی کے مرتبہ سے ملتی جلتی روایت متروک کی بھی ہے۔پھر منکر کی، اس کے بعد معلل کی اور پھر مدرج، مقلوب اور مضطرب کی۔

وضاع لوگ:

…زنادقہ:
یہ سیکولر اور دین دشمن لوگ(Heretics) ہیں جوہر وقت دین دشمنی میں تپتے اور جلتے رہتے اور اہل دین کو بدنام کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ان کا کام دین دشمنوں کے ہاتھوں کھیلنا ہوتا۔ اسلام کے خلاف بکتے مگرساتھ ہی اسلام کا نام بھی لیتے۔ قرآن کریم کو نہیں چھیڑتے تھے کیونکہ اس میں کسی ترمیم وتحریف کا بس نہیں چلتا مگر حدیث رسول میں شک پیدا کرتے۔ اضافے کرتے اور پھیلا دیتے تھے۔

…قصاص:
(Story-Teller) یہ قصہ گو واعظ تھے جومحفل آباد رکھنے کے لئے قصوں اور حکایات سے کام لیتے۔طلب شہرت ، پیسہ اور حب جاہ کے حریص یہ لوگ پر کشش اور دلفریب خطابت کا ملکہ رکھتے ۔احادیث میں اضافہ اور حاشیہ نگاری سے اپنی مجالس کو آباد کرنا ان کے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔جس سے یہ مرض متعدی ہوااور امت اس کے اثرات اب بھی دیکھتی ہے۔اسی طبقے نے موضوع احادیث کے انبار لگائے ۔

معلوم یہی ہوتا ہے کہ عوام کے نزدیک زیادہ اہمیت ہمیشہ انہی پر جوش واعظین کی رہی ہے نہ کہ اہل علم کی۔ وہ انہیں ہی سب سے بڑا عالم سمجھتے ہیں۔جاہل عوام کے شوق کو بلیک میل کرنا، قرآن وسنت سے دور کرکے معاشرے میں دینی روح کو ختم کرنا انہیں واعظ حضرات کا کام ہے جو دین کے لئے بڑے نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔دین کی اہم بات کو غیر اہم اور غیر اہم بات کو اہم دین بنادیتے ہیں۔جس نے نتیجۃً بیشمار خرافات و بدعات کو بھی جنم دیا ہے۔

عابدوں اورزاہدوں کا ایک گروہ(Ascetics) ۔
ان کے زہد وعبادت کے باوجود ان میں کیا بگاڑتھا اور ہے ؟ وہ ان کے اثرات سے نمایاں ہے۔انہیں یہ سوجھا کہ لوگوں کو دین کے قریب کم مگر اپنے قریب زیادہ کیسے لایا جائے؟ چنانچہ سورتوں کے فضائل ، مختلف اذکار ، ان کی معین تعداد، اوقات اور حرکات وحالات پر اپنے تجربوں کو انہوں نے حدیث بناکر پیش کیا۔اعمال کی فضیلت پر غیر معمولی اجروثواب بتاکر حرام وحلال کی تمیز ختم کی اور معمولی سے گناہ کی سخت ترین سزا سنا کر اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس کیا۔معاشرے میں اپنی حالت ایسی بنائی کہ نہ کمانے کی فکر اور نہ ذمہ داری اٹھانے کے مکلف۔ جس سے غیروں نے یہی نتیجے نکالے کہ اگراسے دین کہتے ہیں تو میں اس سے بھلا۔

ان میں غلام خلیل نے شہرت پائی جس کی وفات پر بغداد کے بازار بند ہوگئے۔لیکن بلاخوف وہ احادیث گھڑتا ۔ اس سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ احادیث کیوں گھڑیں؟ جواب یہی تھا: لِنُرَقِّقَ قُلُوْبَ النَّاسِ۔ تاکہ ہم لوگوں کے دلوں کو نرم کریں۔ یہی جذبہ فضائل اعمال میں کارفرما ہوتا ہے جس کی نمائندگی خلیل جیسے افراد نے کی اور اپنے زعم میں لوگوں کو دین کی دعوت موضوعہ احادیث سے دینا مناسب سمجھی۔جب ایسے افراد کو احادیث گھڑنے کی وعید سنائی جاتی تو کہتے: نَحْنُ نَکْذِبُ لَہُ لَا عَلَیْہِ۔ ہم آپ ﷺ کے لئے جھوٹ گھڑتے ہیں نہ کہ آپ کے خلاف۔

آج بھی یہ افراد موجودہیں جو صحیح احادیث کی موجودگی کے باوجودان موضوع احادیث پر عمل کرنے میں بڑے متشددStubbornہیں۔کتنی بدقسمتی ہے کہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ شہرت جن بیانات کی ہے وہی علمی اعتبار سے سب سے زیادہ غیر معتبر اور ناقابل تسلیم ہیں۔ یہی حال ہر علم وفن کا ہے۔

… متعصب لوگ:
مذہبی عناصر نے بھی محض اپنے فقہی مسلک کی تائید وتوثیق کے لئے وضع حدیث میں اپنا حصہ ڈالا ۔ شیخ عبد الحی لکھنویؒ لکھتے ہیں:

قَوْمٌ حَمَلَھُمْ عَلَی الْوَضْعِ التَّعَصُّبَ الْمَذْھَبِیّ، وَالتَّجَمُّدَ التَّقْلِیْدِیّ، کَمَا وَضَعَ مَأْمُونُ الْھَرَوِیُّ حَدِیْثَ مَنْ رَفَعَ یَدَیْہِ فَلَا صَلٰوةَ لَہُ، وَوَضَعَ حَدِیْثَ مَنْ قَرَأَ خَلْفَ الِإمَامِ فَلَا صَلٰوۃَ لَہُ۔ (الآثار المرفوعۃ:۱۲) ایک گروہ ایسا بھی ہے جنہیں حدیث سازی کے لئے مذہبی تعصب اور تقلیدی جمود نے ابھارا۔ جس طرح مامون ہروی نے یہ روایت وضع کی : جو نماز میں رفع یدین کرے گا اس کی نماز نہیں۔ یا یہ روایت اس نے وضع کی: جو امام کے پیچھے قرائت کرتا ہے اس کی نمار نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ محدثین کرام ہی تھے جو تحقیق وتفتیش کی زحمت اٹھاتے اور ایسا رجحان نہیں رکھتے تھے کہ ضعیف، بے اصل اور موضوع چیز کو بھی قبول کرلیں۔ ہمارے معاصر عظیم مفسر ، فقیہ اور شیخ الحدیث لکھتے ہیں:

ایسے لوگوں کو علم ہونا چاہئے کہ عربی زبان میں اگر یہ کہا جائے: کَذَبَ عَلَی فُلَانٍ: اس نے فلاں پر جھوٹ بولا ۔ اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ اس نے اس پر جھوٹ گھڑا۔ اور ایسی بات اس کی طرف منسوب کی جو اس نے نہیں کہی۔ خواہ یہ اس کے حق میں ہو یا اس کے خلاف ہو۔کسی بادشاہ کو اگر کوئی کہے کہ فلاں نے آپ کی بڑی تعریف کی اورہر موقعے پر آپ کے حق میں اچھے کلمات کہے ۔بادشاہ خوش ہوکر حکم دے: اسے ہزار دینار ، ایک گھوڑا اور ایک گھر وغیرہ دے دو۔ کیایہ اس پر جھوٹ ہے یا نہیں؟ کیا یہ سوال کرنا درست ہوگا: آدمی نے بادشاہ پر جھوٹ بولا یا نہیں؟ ظاہر ہے اس نے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔ باقی اس شخص کی طرف جو بات اس نے منسوب کی وہ تو یقیناً جھوٹ ہے۔اس لئے جتنی بھی انسان تاویلات کرلے آپﷺ پر بولا ہوا جھوٹ جھوٹ ہی ہے خواہ نیت کتنی ہی اچھی ہو۔آیات اور احادیث صحیحہ ایک مسلمان کے لئے کافی ہیں اسے اس جھوٹے سہارے کی ضرورت نہیں۔وہ صحیح حدیث بتائے جو سبھی کو ضعیف اور موضوع سے پرے کردے گی۔(شرح نزہۃ النظر از محمد بن صالح)

۲۔جھوٹ کی تہمت :
جب کسی قاعدے اور اصول کی مخالفت کسی حدیث سے ہو رہی ہو اورجسے صرف ایک راوی روایت کررہا ہوتو اس راوی پر جھوٹ کی تہمت آجاتی ہے مگر اسے جھوٹا قرارنہیں دیا جاتا۔کیونکہ وہ ایسی روایت کررہا ہوتاہے جو معلوم شرعی قاعدے کے مخالف ہے اور جو بطور جھوٹ منتشر ہوسکتی ہے۔مثلاً ایک خطیب کی کسی بات کو سینکڑوں لوگوں نے سنا مگراس کی یہ بات صرف ایک ہی صاحب روایت کریں اور باقی خاموش رہیں یا لاعلمی کا اظہار کریں تو ایسی بات پر جھوٹ کی تہمت لگ سکتی ہے۔اس کی حدیث متروک کہلاتی ہے۔

یا جھوٹ سے وہ راوی متہم ہوسکتا ہے جو بدعت کا داعی ہو اورحدیث رسول کو اپنی بدعت کی تقویت کے لئے پیش کررہا ہو۔بدعتی یہ کام کرلے گا مگراپنی بدعت کونہیں چھوڑ ے گا کیونکہ وہ اسے قابل ثواب شے سمجھتا ہے۔

کبھی راوی اور مروی دونوں میں کوتاہی و تقصیر ہوتی ہے جس کی بنا پر جھوٹ کا اتہام لگتا ہے ۔مثلاً راوی ایسی بات حدیث میں روایت کردے جس کا کہنا رسول اکرم ﷺ سے محال ہو اور عام قاعدے کے بھی خلاف ہو۔ ایسی صورت میں یہ نہیں کہا جاتا کہ اس نے عمداً جھوٹ بولا ہے مگر راوی پر جھوٹ کی تہمت لگ جاتی ہے۔اسے طعن کہتے ہیں۔ اب ان دونوں میں سے کس کا کردار زیادہ بھیانک ہے؟ جھوٹے کا یا جھوٹ سے متہم ہونے والے کا؟ جواب یہی ہے :جھوٹا راوی زیادہ خطرناک ہے۔ ایسے راوی کی روایت عموماً ترک کردی جاتی ہے اور اسے یا اس کی روایت کو متروک کہہ دیتے ہیں۔

متروک:
ھُوَ الْحَدیثُ الَّذِیْ یَکونُ أَحَدُ رُوَاتِہِ مُتَّھَمًا بِالْکَذِب و لا یُعْرَفُ الحدیثُ إلا مِنْ جِھَتِہ ِِمُخَالِفًا لِلْقَوَاعِدِ المَعْلُومَةِ۔۔ ہر وہ حدیث جس کا کوئی راوی جھوٹ سے متہم ہو۔ اور ایسی حدیث صرف اسی راوی ہی کی طرف سے پہچانی جاتی ہے کیونکہ وہ عام معلوم قاعدوں کے مخالف ہوتی ہے۔

اگر ایک امام جرح وتعدیل کسی راوی کی احادیث کھنگالنے کے بعد بطور ثبوت یہ کہہ دے کہ یہ اس روایت میں جھوٹ بولتا ہے۔ایسا راوی جھوٹا ہونے کی وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے۔ اور اس اتہام کی وجہ سے اس کی حدیث متروک کہلاتی ہے۔

محدثین کی یہ شرط کہ اس کا روایت کردہ متن معلوم قواعد کے مخالف ہو۔ متروک وموضوع دونوں میں ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر جب یہ متہم راوی اپنی روایت میں منفرد ہو اور کسی نے اس کی متابعت نہ کی ہو۔مثلاً:

جُوَیْبِرُ بْنُ سعیدِ الَازْدِیُّ، عَنِ الضحَّاكِ، عَنِ ابْنِ عَباسٍ عَنِ النبیِّ ﷺ قَالَ: عَلَیْکُمْ بِاصْطِنَاعِ الْمَعْرُوفِ، فَإنَّہُ یَمْنَعُ مَصَارِعَ السُّوءِ، وَعَلَیکُم بِصَدقَةِ السِّرِّ فَإِنَّھَا تُطْفِئُ غَضَبَ اللہِ عَزَّوَجَلَّ۔ (قضَاءُ الحوَائِجِ: ۶)

اس سند میں جویبر راوی کے بارے میں امام نسائی ودارقطنی کا کہنا ہے: مَتْرُوکُ الْحَدیثِ۔ہے۔ امام ابن معینؒ کہتے ہیں: لَیْسَ بِشَیءٍ جس کا مطلب ان کے ہاں متروكُ الحَدیثِ کا ہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تنبیہ:
بعض علماء حدیث اس قسم کی حدیث کے راویوں کو متروک کہنے کی بجائے ذرا وسعت سے کام لیتے ہوئے انہیں یا ان کی حدیث کو مطروح کہہ دیتے ہیں یا کچھ ایسی حدیث کو واہٍ کہتے ہیں۔ چونکہ اس کی (Cradibility) ختم ہوچکی ہوتی ہے اس لئے ایسے شخص کی روایت رد آتی ہے جسے کوئی تائیدی یاشاہدی حدیث بھی قابل قبول نہیں بنوا سکتی۔ بہرحال ایسے متروک رواۃ کی حدیث اس ضعیف حدیث سے کم تر درجہ رکھتی ہے جس کا کوئی مثیل آکر اسے مُنْجَبِر کر دیتا ہے مگر موضوع حدیث سے ادنی درجے کی ہوا کرتی ہے۔واللہ اعلم۔

۳۔ فسق :
فسق عربی میں نکلنے کو کہتے ہیں۔ چوہیا کواس بنا پر فاسقہ کہتے ہیں کہ بل سے نکل کر وہ خرابیاں کرتی ہے۔ شرعاً جو شخص قول وفعل میں اللہ کی اطاعت سے نکل کر اتنا آگے چلا جائے کہ کفر تک جا پہنچے۔ فاسق کہلاتا ہے۔محدثین کرام جو تارک نماز ہوتا اس سے حدیث روایت کرنا مناسب ہی نہ سمجھتے۔ اور جس کی معصیت ظاہر ہوتی علماء اس کی روایت سے کوئی حجت بھی نہ لیتے۔خلافت عباسیہ کا بڑاشاعرابونواس تھا۔ اس کا فسق اس کی عریاں شاعری تھی۔ اس لئے اسے روایت کااہل نہیں سمجھا گیا۔(المیزان ۴؍۵۸۱)

غیبت کرناقولی فسق ہے اور جھوٹ سے متہم ہونا فعلی فسق ہے۔حرام وحلال یا واجب ومباح کو جانتے ہوئے پھر بھی راوی صغیرہ وکبیرہ گناہوں پر ڈٹا رہے مگر توبہ نہ کرے وہ فاسق ہے اور جو صغیرہ پر جما رہے اور باز نہ آئے وہ بھی فاسق ہے۔مثلاً راوی جھوٹ بولتا ہے مگر حدیث میں نہیں۔ یہ فاسق ہے۔ اسی طرح ڈاڑھی شیو کرنے والا مرد یا بھنویں بنانے والی خاتون بھی فاسق ہے۔ فاسق کی خبر بالکل رد نہیں کی جاتی اور نہ ہی بالکل قبول کی جاتی ہے۔لہٰذا وہ پہلے دو کے مقابلے میں درجے میں کم ہوگا۔ اللہ تعالی کاارشاد ہے: {۔۔اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا۔۔} اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ اس لئے اس کی خبر کی تحقیق ہوگی پھر اسے رد یا قبول کیا جائے گا۔اس فسق کا تعلق عدالت سے ہے۔

۴۔ جہالت:
اس کا تعلق عدالت اور ضبط دونوں سے ہے۔ایسا راوی دینی اعتبار سے بھی مجہول ہوتا ہے یعنی اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ عادل ہے یا نہیں؟اسی طرح ضبط کے اعتبار سے بھی اس کی لاعلمی رہتی ہے کہ وہ ضابط بھی ہے یا نہیں؟ یہ راوی آخری مرتبہ کا ہوتا ہے کیونکہ اس میں احتمال ہے کہ وہ ضابط یا عادل ہو۔بطور خاص جب وہ حدیث رسول بیان کرے تو کیا اس کی حدیث قبول کی جائے یا رد کی جائے؟ ایسے مختلف درجات کے رواۃ کی تمام احادیث محدثین رد کردیتے ہیں جب تک کہ ان کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا۔اسی طرح جہالت کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاً:

أ۔جب راوی کی بے شمار صفات ہوں مثلاً: نام، کنیت، لقب، یا کوئی صفت یا نسب وغیرہ۔ مگر راوی ان میں کسی ایک سے مشہور ہو۔مگر دوسرا راوی اپنی کسی خاص غرض کے لئے اسے غیر معروف نام سے ذکر کردے ۔ اور سامع اسے کوئی اور سمجھے۔ یہی راوی کی جہالت ہے۔

ب۔ جب راوی روایت حدیث میں مقل ہو۔ یعنی اس کی روایات کم ہوں۔

ج۔ اس کا نام غیر واضح ہو۔

أ۔ مجہول راوی:
اسے کہتے ہیں جو علمائے حدیث کے ہاں طلب علم میں محنت اور اس کی خاطر رحلہ کرنے میں غیر معروف ہو۔راوی کی جہالت کی وجہ سے اس کی روایت رد کردی جاتی ہے۔ یہ جہالت دو قسم کی ہوتی ہے:

ب۔ مجہول العین:
ظاہری اور باطنی طور پر اس کی عدالت کے بارے میں کچھ علم نہیں ہوتا اس لئے اسے مجہول العین کہتے ہیں۔ یہ جہالت اس راوی کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے جو طلب علم میں مشہور ہو اور نہ ہی علماء حدیث اسے جانتے ہوں۔ جس سے سوائے ایک شخص کے کسی اور نے روایت نہ کی ہو۔اسی طرح علماء حدیث میں سے کسی نے نہ اس پر جرح کی ہو اور نہ ہی تعدیل۔جیسے شداد الطائی، جبار، مالک بن الاغر اور قیس بن کریم احدب۔ ان میں ہر ایک سے سوائے ابو اسحق السبیعی کے اور کسی نے روایت نہیں کی۔ جہالت کی وجہ سے محقق علماء حدیث کے ہاں اس کی روایت ناقابل قبول ہے کیونکہ صحت حدیث کے لئے ان کی یہ شرط ہے کہ راوی ثقہ اور ضابط ہو۔ مگر جس سے صرف ایک ہی راوی روایت کرے اور ثقات میں سے کسی نے اس کی توثیق نہ کی ہو تو وہ ثقہ و ضابط کیسے ہو سکتا ہے؟

اس قسم کی جہالت سے جو راوی موصوف ہوئے ہیں ان میں حفص بن ہاشم بن عتبۃ ہے جس سے سوائے عبد اللہ بن لہیعہ کے کوئی اور روایت نہیں کرتا۔ اور نہ ہی کسی نے اس کی جرح وتعدیل کی ہے۔مثلاً:

حَدَّثَنَا قُتَیبَةُ بْنُ سَعِیْدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَھِیْعَةَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ ہَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزیْدَ، عَنْ أَبِیہِ یَزیدَ بْنِ سَعِیدٍ الْکِنْدِیِّ أَنَّ النبیَّ ﷺ کَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ یَدَیْہِ مَسَحَ وَجْھَہُ بِیَدَیْہِ۔ رسول اکرم ﷺجب دعا کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اور انہیں چہرہ مبارک پر ملتے۔

حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:

لَیْسَ لَہُ ذِکْرٌ فِی شَئٍ مِنْ کُتُبِ التَّوَاِریْخِ، وَلَا ذَکَرَ أَحَدٌ أَنَّ لِابْنِ عُتْبَةَ ابْنًا یُسَمّٰی حَفْصًا۔ نہ تو کتب تواریخ میں ان صاحب کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی کسی نے یہ ذکر کیا ہے کہ ابن عتبہ کا کوئی بیٹا حفص نامی تھا۔

اس طرح یہ راوی مجہول العین ہیں۔ امام ابنؒ حبان اس رائے سے متفق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف ایک راوی نے اس سے روایت کی لیکن اس پر کسی کی جرح بھی تو نہیں لہٰذا وہ ثقہ ہے۔اس لئے ایسے شخص کو انہوں نے اپنی کتاب الثقات میں لکھا ہے اور ابن الہیثمی نے بھی مجمع الزوائد میں اسی پر اعتماد کیا ہے۔

ب۔ مجہول الحال:
یہ راوی بظاہر جانا بوجھا مگر باطنی طور پر اس کی عدالت کا علم نہیں ہوتا۔ اسے مجہول العدالۃ بھی کہتے ہیں۔مگر اس کی جہالت اندرونی ہوتی ہے بیرونی نہیں۔اسے مستور بھی کہتے ہیں۔جس سے طلب حدیث میں مشہور ایک سے زائد افراد روایت کرتے ہیںمگر کسی ناقدنے اس کی توثیق نہیں کی ہوتی۔خطیبؒ بغدادی فرماتے ہیں:

وَأَقَلُّ مَا تَرْتَفِعُ بِہِ جِہَالَةُ الْعَینِ أَنْ یَرْوِیَ عَنِ الرَّجُلِ اثْنَانِ فَصَاعِدًا، إِلَّا أَنَّہُ لَا یَثْبُتُ لَہُ حَکْمُ الْعَدَالَةِ بِرِوَایَتِھِمَا۔ کم ازکم جہالت عین جس چیز سے دور ہوتی ہے وہ اس سے دو یا دو سے زائد راویوں کا روایت کرنا ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ دو راویوں کی روایت سے اس کی عدالت ثابت نہیں ہوسکتی۔

علماء حدیث خواہ قدیم ہوں یا جدید ان کا موقف یہی ہے۔ اس نوع کی جہالت سے یزید بن مذکور ہی موصوف ہوئے ہیں۔ جن سے وہب بن عقبۃ، ان کا اپنا بیٹا مسلم اور القاسم بن الولید روایت کرتے ہیں۔ مگر ان کی توثیق کسی نے بھی نہیں کی۔مثلاً: امام بیہقی ؒ (۳) بہ سند :

القَاسِمُ بْنُ الْوَلیدِعَنْ یَزِیْدَ۔۔ ۔۔أُرَاہُ ابْنُ مَذْکورٍ۔۔۔۔ أَنَّ عَلِیًا رَضِیَ اللہُ عَنہُ رَجَمَ لُوطِیًا ۔

روایت کی ہے۔ اس سند میں یزید مجہول الحال ہے۔

٭… امام ابن ابی حاتم مجہول اسے کہتے ہیں جسے وہ خود نہیں جانتے۔اس لئے وہ اس پر ضعیف یا ثقہ ہونے کا حکم نہیں لگاتے۔ ورنہ ثقات محدثین اس سے روایت کرتے ہیں۔جیسے داؤد بن یزیدثقفی۔(المیزان ۳؍۶۷۴)

٭… امام احمد بن حنبل جب یہ کہہ دیں: ما أعرفہ۔ میں اسے نہیں جانتا۔ان کی مراد مجہول ہوتی ہے۔

ج۔مبہم :
یہ بھی جہالت کی ایک قسم ہے۔ جس کی تعریف علماء نے یہ لکھی ہے:

تعریف:
ھُوَا مَعْرِفَةُ مَنْ أُبْھِمَ ذِکْرُہُ فِی الإِسْناَدِ ، وَالْمَتْنِ۔ ایسا راوی یا شخص جس کا سند یا متن میں نام نہ لیا گیا ہو۔

٭… راوی کایہ کہہ دینا: حدَّثَنِی الثِّقَةُ مجھے ایک ثقہ نے حدیث بیان کی۔ یا حَدَّثَنِی مَنْ أَثِقُ بِہِ مجھے ایک ایسے شخص نے حدیث بیان کی جس پر میں اعتماد کرتا ہوں۔ یا حَدَّثنِی مَنْ لَا أَتَّھِمُ مجھے ایسے شخص نے حدیث بیان کی جسے میں جھوٹا نہیں کہہ سکتا۔۔یا رجل یا امرأۃ یا فلان بن فلان یا زوج فلانة یا زوجة فلان وغیرہ کے الفاظ ہوں۔ گو راوی اس کی تعدیل کررہا ہوتا ہے پھر بھی یہ ابہام ناقابل قبول ہے۔کیونکہ جس کی ذات غیر معلوم ہے اس کی عدالت کیسے معلوم ہوگی؟ چونکہ یہ راوی غیرواضح ہوتاہے اس لئے اس سند میں علماء حدیث طعن کرتے ہیں۔ مثلاً: مسند احمد میں ہے:

قال الإمامُ أحمدُ بنُ حنبلٍ: ثنَا أبو کامِلٍ حَمَّادٌ عن عمران الجُوبِیِّ عن رجلٍ عَنْ أبی ھُرَیرۃ مرفوعًا: إِنْ أَرَدتَّ تَلْیِیْنَ قَلْبِكَ فَأَطْعِمِ المِسْکِیْنَ وَامْسَحْ رَأسَ الیَتِیْمِ۔

اس سند میں عن رجل مبہم نام ہے اس سے مراد کون ہے؟ اس ابہام کی وجہ سے حدیث میں ضعف آگیا ہے۔بعض محدثین اسے مجہول بھی کہہ دیتے ہیں۔

٭…کبھی کبھار سند میں راوی کی نسبت کی وجہ سے دیگر رواۃاس کا نام نہیں لیتے۔ خواہ نسبت کسی شہریاحرفت کی طرف ہو یا راوی میں عاہۃ یعنی گفتگو کی کمزوری یاجسمانی عیب ہو۔ مثلاً: سنن ابی داؤد (۱) میں بہ سند:

محمدُ بْنُ مُھاجِرٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ رُوَیْمٍ، قَالَ حَدَّثَنِی الانْصاریُّ: أَنَّ رسولَ اللہِ ﷺ قَال: لِجَعْفَرٍ۔۔۔فَذَکَرَ حَدیثَ صَلَاةِ التَّسَابِیْحِ۔

اس سند میں انصاری کون ہیں؟ اصل نام ذکر نہیں کیا۔یہ ایک عیب ہے جو ابہام کرکے پیش کیا گیا ہے۔

٭…یہ بھی ایک رائے ہے کہ معدل عالم ہو اور امین بھی، وہ اگر حَدَّثَنِیْ مَنْ أَثِقُ بِہِ کہہ دے تو یہ ابہام قبول کرلیا جائے گا۔کیونکہ معدل عالم، توثیق کے ساتھ اسے مقبول بھی کہہ رہا ہے۔جیسے عبد اللہ بن احمد بن حنبل کا کہنا ہے:

کُلُّ شَئٍ فِی کِتَابِ الشَّافِعِیِّ: أَنَا الثِّقَۃُ فَہُوَ عَنْ أَبِی۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب میں ہر وہ حدیث جو أنا الثقة سے ہے وہ میرے والد کی طرف سے ہے۔

٭…امام مسلمؒ اکثر وبیشتر اسانید میں صرف نام کو ذکر کرکے اس کی نسبی وضاحت کردیتے ہیں تاکہ ابہام نہ رہے اور قاری نام کی طرف متوجہ ہو۔ مثلاً: حَدَّثَنِی مُحَمَّدٌ أَی ابْنَ إِبراھِیمَ الْخَلِیلِیَّ۔

٭… محدثین جس پر تنقیدکرتے اسے مجہول کہنا درست نہ سمجھتے۔محمدبن الفضل راوی پر بڑے بڑے محدثین نے نقد کی ہے۔مگر اس کے بارے میں یہ نہیں کہا : لَا یُدْرٰی مَنْ ھُوَ؟ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کون ہے؟ جن میں امام احمد، ابن ابی شیبہ، الفلاس اور ابن حبان وغیرہ ہیں۔ مگر ابن حزم نے کہا ہے: مجھول۔ وہ مجہول ہے۔ جبکہ وہ ترمذی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں۔اور اپنے زہد اور عبادت کے باوجود بالاتفاق متروک وضعیف ہیں۔

مبہم روایت کا حکم:
حدیث مبہم مجہول العین جیسی حدیث ہوتی ہے کیونکہ اس میں راوی کی شخصیت اور حالت معلوم نہیں ہوتی تاکہ حدیث دلیل بنے اور قبول کی جائے۔ ہاں اگر معلوم ہو کہ راوی کون ہے تو اس پر وہی قاعدہ لاگو ہوگا جس کا وہ متقاضی ہوگا۔ اور اگر مبہم صحابی ہو تو اس کا یہ ابہام حدیث کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اس لئے کہ الصَّحَابَةُ کُلُّھُم عَدُولٌ۔

مبہم متن:
متن حدیث میں بھی کبھی مبہم نام آتے ہیں جیسے رَجُلٌ، یا امْرَأَةٌ وغیرہ ۔ ایسا ابہام عموماًصحت حدیث کے لئے مضر نہیں ہوا کرتا کیونکہ اصل غرض رواۃ حدیث سے ہے نہ کہ ان سے جو متن میں آگئے ہیں۔ لیکن اگرمتنی گفتگو کا انحصار کسی مبہم پر ہو تو وہاں محدثین کو وضاحت مطلوب ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اس حدیث کے متن پر ابہام کا قاعدہ نافذ ہوگا۔

کتب:
امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی اس موضوع پر بہت عمدہ کتاب مُوَضِّحُ أَوْھَام ہے۔ابن بشکوال کی الغوامض والمبھمات، امام نووی کی الإشارات إلی المبھمات، ولی الدین العراقی کی المستفاد من مبھمات المتن وغیرہ۔

۴۔ بدعت:
راوی میں جرح کا ایک سبب بدعت کاہونا بھی ہے۔ لغت میںبدعت نئی شے کے آغاز کرنے کو کہتے ہیں۔ جس کی سابق میں مثال نہ ملتی ہو۔ جیسے سیدنا عمر ؓ نے قیام رمضان کے بارے میں فرمایا: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ ھَذِہِ۔ یعنی یہ نئی چیز ہے جو پہلے نہیں تھی اگرچہ ماضی میں اس کی کوئی تردید نہیں ملتی بلکہ اس کا ناطہ اس سنت سے ہے جو آپ ﷺ نے تین رات باجماعت تراویح پڑھائی اور پھر اسے فرض ہونے کے خوف سے چھوڑ دیا۔

اصطلاح محدثین میں:
الحَدَثُ فِی الدِّیْنِ بَعْدَ الإکْمَالِ: بدعت دین مکمل ہونے کے بعد اس میں نئی چیز دین بنا کر داخل کر دینا ہے۔ یعنی ہر وہ کام بدعت ہے جو بطور ثواب وعبادت کیا جائے اور رسول اکرم ﷺ جس ثواب وعبادت پر تھے اس کے مخالف ہو۔بدعت بھی حدیث کو ضعیف بنا دیتی ہے۔اس کا تعلق عدالت سے ہوتا ہے اور راوی دین سے عدل نہیں کررہا ہوتا۔

اقسام:
دین میں ایسی محدثات کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ بدعت کبری:
اسے بدعت مکفرہ بھی کہتے ہیں۔ایسی بدعت کے مرتکب چونکہ کفر کی حد تک جاچکے ہوتے ہیں اس لئے ان کی احادیث کو لینے یا سننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔جیسے کوئی قدری، انکار تقدیر کے لئے کسی حدیث کو سنائے یا روایت کرے۔ یا کوئی رافضی اپنا یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالی، سیدنا علیؓ میں حلول کرگیا ہے۔اور اپنے اس عقیدے کے ثبوت کے لئے آیات واحادیث کو غلط معنی پہنا دے ۔امام نوویؒ فرماتے ہیں:

الْمُبْتَدِعُ الَّذِیْ یُکَفَّرُ بِبِدْعَتِہِ لَا تُقْبَلُ رِوَایَتُہُ بِالاتِّفَاقِ۔جو بدعت مکفرہ کا مرتکب ہے اس کی روایت تو بالکل قبول نہیں کی جاسکتی۔

۲۔بدعت صغری:
یہ بدعت مفسقہ بھی ہے۔جیسے صحابہ کرام پر تبرا کرنا۔ اس کی روایت لینے میں علماء کی پانچ آراء ہیں:

۱۔ اسے بالکل رد کردیا جائے۔۲۔ قبول کرلی جائے۔۳۔اگر وہ حدیث اپنے اعتقاد کو پیش کرنے کے لئے روایت نہیں کررہا تو لے لی جائے ورنہ نہیں۔ یہ قول امام شافعیؒ، سفیان ثوریؒ، ابویوسفؒ القاضی کا بیان کیا گیا ہے۔امام رازی ؒکہتے ہیں: یہی بات حق ہے۔ابنؒ دقیق العید نے بھی اقوال میں اسے ہی ترجیح دی ہے۔۴۔ جو داعی نہ ہو اس کی روایت قبول کرلی جائے ورنہ نہیں۔یہ امام احمد ؒ، ابن ؒمہدی، ابنؒ المبارک، ابن معین ؒ، ابنؒ الصلاح اور امام نووی رحمہم اللہ کا ہے۔۵۔ ہر وہ روایت رد کردی جائے جو اس کی بدعت کو تقویت دے۔ یہ قول امام ابو اسحق ؒجوزجانی کا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مبتدع کے بارے میں محدثین کا نکتہ نظر

محدثین کرام کا موقف ان بدعتیوں کے بارے میں زیادہ سخت نہیں ۔ جس کے بارے میں یہ ثابت ہوا کہ وہ اپنے اوپر جھوٹ کو حرام سمجھتا اور وہ اپنی بدعت کا داعی نہیں اس کی روایت کو قبول کرلیا۔ورنہ نہیں۔
٭… جھوٹ بولنا اور گھڑنا ان کا مذہب وایمان تھا ۔ اس لئے محدثین ان سے مجتنب رہے۔اور جو معتدل تھے مگر تبرا، تکفیرصحابہ سے مجتنب نیز سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو منصب خلافت میں اول نمبر پر رکھتے کہ وہ آپ ﷺ کے داماد ، اور آپ ﷺ ہی کے خاندان سے تھے مگر سیدنا ابوبکر اور عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کو بالترتیب بعد میں خلافت کا مستحق کہتے۔ ایسے حضرات محدثین کے نزدیک شیعہ کہلائے۔

امام ذہبیؒ لکھتے ہیں:
زمانہ سلف میں ایک غالی شیعہ اسے سمجھا جاتا تھا جو سیدنا عثمان، زبیر، طلحہ، اور معاویہ رضی اللہ عنہم یا ان صحابہ کی شان میں گستاخی وسب وشتم کرے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے لڑے تھے۔مگر ہمارے زمانہ میں اب رافضی وہ ہے جو ان سادات کی تکفیر کرے اور شیخین پربھی تبرا کرے۔یہ ضال ہے اور مفتری ہے۔ مگر ابان بن تغلب شیعہ راوی بالکل شیخین کی توہین نہیں کرتا تھا بلکہ اس کا اعتقاد یہ تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ شیخین سے افضل ہیں۔(المیزان۱؍۵)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
روافض کی روایت کیا حجت ہے؟

علماء کی تین آراء ہیں:
۱۔ بالکل نہیں۔
۲۔ ہاں رخصت ہے جب تک وہ جھوٹ نہ بولے یا حدیث وضع نہ کرے۔
۳۔اس میں تفصیل ہے۔جو صادق رافضی ہے اور جو حدیث بیان کررہا ہے اسے وہ جانتا بھی ہے اس کی روایت قبول کرلی جائے اور جو اپنی بدعت کا داعی ہے خواہ وہ کتنا ہی سچا کیوں نہ ہو اس کی روایت رد کردی جائے۔
اہم نوٹ: جن ثقات رواۃ میں ادنی سی بدعت یا معمولی اوہام کا ذکر محدثین اگر کرتے ہیں تو اس کے فوائد ہیں۔ مثلاً:
۱۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ ان کے علاوہ اور اوثق وارجح راوی ہے جو ان سے معارض ہے یا مخالف ہے تو اس کی حدیث ترجیح پا جائے گی۔کیونکہ اشیاء کو خدا خوفی اور انصاف سے تولنا چاہئے۔
۲۔ ان محدثین کا مسلک معلوم ہوتا ہے کہ وہ بے جا تعصب یا گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ ان میں فکری توسع ہوتا تھا اور برداشت تھی۔ (المیزان ۳؍۱۴۱)
إِنِ اشْتَمَلَتْ رِوایَةُ غَیْرِ الدَّاعِیةِ عَلَی مَا یُشَیِّدُ بِدْعَتَہُ وَیُزَیِّنُہُ وَیُحَسِّنُہُ ظَاھِرًا، فلَا تُقْبَلُ، وَإِنْ لَمْ تَشْمَلْ فَتُقْبَلْ۔ اگر غیر داعیہ کی روایت بھی اس کی بدعت کو تقویت دیتی یا مزین کرتی یا اسے خوبصورت بناتی ہے تو اس کی روایت بھی قبول نہیں کی جاتی اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر قبول کرلی جاتی ہے۔(ہدی الساری: ۳۸۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ضبط راوی میں طعن کے اسباب

راوی کے ضبط میں طعن کی متعدد وجوہات ہوتی ہیں جن سے اس کی حدیث ضعیف ہوجاتی ہے۔مثلاً:
۱۔فاحش الغلط ہو:
یعنی راوی اداء حدیث کے وقت بکثرت غلطیاں کرتا ہو خواہ وہ دیکھ کر کرے یا اپنے حافظے سے۔عربی میں فحش بمعنی بکثرت یا بڑاہونے کے بھی ہے اور غلط کا مطلب صواب سے ہٹا ہوا۔

۲۔مغفَّل:
جو مجلس حدیث میں چوکنا ہو کرنہ بیٹھے۔بلکہ غفلت کا شکارہو۔مثلاً شیخ حدیث بیان کررہا ہے اور اس طالب علم کو گھمیری آرہی ہے۔کوئی اسے اگرہلا ئے تو فوراً پوچھتا ہے:کیا کہا شیخ نے ؟جب وہ غفلت سے متہم ہوگیاتو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کا ضبط کس قسم کا ہوگا؟ ان دونوں کی حدیث منکر کہلاتی ہے۔

۳۔ راوی وہمی ہو:
وہم غلطی تو نہیں مگر اس میں غلطی کی طرح کا یقین نہیں ہوتا بلکہ وہم ہوتا ہے۔ایسا راوی گمان غالب پر حدیث بیان کردیتا ہے ۔مگر دوسرا محدث دیکھتا ہے کہ نہ وہ کثیر الخطاء ہے اور نہ ہی عمداً وہ غلطی کا مرتکب ہورہا ہے۔بلکہ اپنی سمجھ کی حد تک وہ درست ہے مگر ہوتا اسے وہم ہے۔ وہم سوء حفظ اور غفلت کے قریب قریب کی چیز ہے۔اگر ایسا راوی کثیر الوہم ہو تو یہ اس کے ضبط کی کمی ہے جس سے اس کی روایت رد ہوجاتی ہے۔

۴۔ مخالفت:
یعنی یہ راوی ثقات کی مخالفت کرے۔ وہ اس طرح کہ اپنی روایت میں وہ ہمیشہ ثقات کی روایت کے مقابلے میں اپنی روایت میں کچھ گھٹائے یا بڑھائے یا الفاظ حدیث کو آگے پیچھے کردے۔اس مخالفت کی درج ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں::

۱۔ مدرج:
اس کی دو قسمیں ہیں:

أ۔مدرج الإسناد:
سیاق روایت کو بدل دینا ۔
ب۔ مدرج المتن:
موقوف کو مرفوع میں داخل کردینا

۲۔ مقلوب:
روایت میں تقدیم وتاخیر کردینا
۳۔ مزید فی متصل الاسانید:
راوی کا سند میں اضافہ

۴۔ مضطرب:
راوی کو راوی سے بدل دینا ۔
۵۔محرف:
حرف کی شکل بدل دینا۔

۶۔ مصحف:
نقطوں کو بدل دینا۔

جن کی تفاصیل درج ذیل ہیں:
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۔ ُمدرَج:
یہ لفظ أَدرَجَ سے اسم مفعول ہے۔ لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کوئی شے لپیٹی جائے۔جیسے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا آپ ﷺ کے کفن کے بارے میں یہ قول:
کُفِّنَ فِی ثَلَاثَۃِ أَثْوابٍ سَحُولِیَّةٍ لَیْسَ فِیْھَا عِمَامَةٌ وَلَا قَمِیصٌ، أُدْرِجَ فِیھا إِدْرَاجًا۔ آپ ﷺ کو سحولی مقام کے تین کپڑوں میں کفنایا گیا۔ اس میں نہ عمامہ تھا اور نہ ہی کوئی قمیص۔ بس انہی تینوں میں آپ لپیٹ دئے گئے تھے۔
اصطلاحاً اس کی تعریف یہ ہے۔
ھِیَ أَلْفاظٌ تَقَعُ مِنْ بَعْضِ الرُّوَاةِ، مُتَّصِلَةٌ بِالْمَتْنِ، لَا یُبَیَّنُ لِلسَّامِعِ إِلَّا أَنَّھَا مِنْ صُلْبِ الْمَتْنِ۔ یہ بعض رواۃ کی طرف سے ایسے زائد الفاظ ہوتے ہیں جو متن میں داخل ہوجاتے ہیں۔سامع پر بھی واضح نہیں ہوتے۔مگر وہ الفاظ صلب حدیث سے ہی بتائے جاتے ہیں۔
اقسام:
مدرج کی دو قسمیں ہیں:
۱۔ مدرج ِسند
۲۔مدرج ِمتن

مدرج سند:
اس کی چندصورتیں ہیں مثلاً:
۱۔ ایک ہی حدیث، محدثین مختلف اسانید سے روایت کریں ۔پھر ان سب سے ایک اور راوی روایت کرے اور ان تمام اسانید کو ایک سند بنالے مگراختلاف کا ذکرہی نہ کرے۔
۲۔ متن حدیث، ایک راوی کے پاس ہو ۔مگراس کا آخری حصہ اس کے پاس کسی اور سند سے ہو۔ راوی اسے مکمل حدیث بنا کرپہلی سندسے پیش کردے۔ یا راوی اپنے شیخ سے حدیث سنے۔ مگر اس کاآخری حصہ اس نے اپنے شیخ سے بالواسطہ سنا۔ راوی اسے مکمل حدیث کا حصہ بنا کر روایت کرے اور واسطے کا ذکر ہی نہ کرے۔
۳۔ راوی کے پاس دو مختلف متن حدیث اور دو مختلف اسانید ہوں۔لیکں راوی ان میں ایک سند پر اکتفاء کرکے روایت کردے۔ یا ان میں سے ایک متن کو اسی کی سند سے روایت کرے مگر دوسری حدیث کے متن کو بھی اس کا آخری حصہ بنالے ۔
۴۔ راوی سند روایت کرے ۔ اس دوران کوئی مشکل پیش آئے تو اپنی بات کر دے ۔ سامع یہ سمجھے کہ شاید یہ الفاظ بھی اس اسناد کا یا متن کا حصہ ہیں اور پھر وہ بھی آگے اسی طرح روایت کردے۔

مدرجِ متن:
اسے کہتے ہیں :
أَنْ یُدْخِلَ أَحَدُ الرُّواةِ فِی الْحَدِیْثِ کَلَامًا مِنْ عِندِہِ بِدونِ بَیانٍ، إِمَّا تَفسیراً لِکَلِمَةٍ أَوِ اسْتِنباطًا لِحُکْمٍ أَو بیانًا لِحِکْمَةٍ۔ راوی اپنی طرف سے کوئی کلام حدیث میں بغیر کسی وضاحت کے داخل کردے۔ یہ کلام کسی لفظ کی تفسیر بھی ہوسکتا ہے یا کسی حکم کا استنباط بھی یا کسی حکمت کو بیان کرنے کا سبب بھی۔(شرح النخبۃ: ۳۴۷، الباعث الحثیث: ۱۰۴)

اس کی آگے تین اقسام ہیں:
۱۔ حدیث مرفوع کے ابتداء متن میں ہی راوی چند الفاظ داخل کردے جب کہ ایسے الفاظ صحابی رسول کااستدلال ہوتے ہیں جو اس نے حدیث رسول سے لیا ہوتا ہے مگر سامع یہ سمجھتا ہے کہ یہ بھی متن کا حصہ ہے لیکن ہوتا نہیں ۔
مثال:
خطیب بغدادی نے تاریخ ۶؍۳ میں بہ سند صحیح مسلم یہ حدیث روایت کی ہے:
أبوقَطَنٍ، وَشَبَابَۃُ عَن شُعبَةَ، عَن مُحمدِ بنِ زِیادٍ، عَن أبی ہریرۃ قال: قال رَسُولُ اللہِ ﷺ: أَسْبِغُوا الْوُضُوءَ، وَیْلٌ لِلاعقابِ مِنَ النَّارِ۔

اس حدیث میں لفظ:
أَسْبِغُوا الْوُضوءَ یہ سیدنا ابوہریرہؓ کے الفاظ ہیں جسے بعد کے راوی نے حدیث کا حصہ بنا کر پیش کردیا جس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے جو بہ سند:
عَنْ آدَمَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زیادٍ، عَن أبِی ھُرَیْرَةَ، قَال: أَسْبِغُوا الوُضُوءَ، فَإِنَّ أبَا القَاسِمِ قَال: وَیْلٌ لِلاعقابِ مِنَ النَّارِ۔ (صحیح بخاری: ۱۶۵، صحیح مسلم : ۲۴۲ )
علماء کا یہ کہنا ہے کہ یہ الفاظ أَسْبِغُوا الوُضوءَ، دراصل سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت اور طرز استدلال ہے کہ انہوں نے ایک فرعی مسئلے کا استنباط نص حدیث سے پیش کیاہے۔

۲۔ متن کے درمیان ہو۔ متن کے وسط میں یہ ادراج ہوتا ہے جو عموماً کسی لفظ حدیث کی تفسیر ہوتا ہے۔

مثال:
امام بخاری نے صحیح (۳) میں بہ سند سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کی ہے جس میں یہ :

فَکَانَ یَخْلُو بِغَارِ حِرَاءَ، فَیَتَحَنَّثُ فِیہِ۔۔وَھُوُ التَّعَبُّدُ۔۔اللَّیاَلِی ذَوَاتِ الْعَدَدِ۔۔۔ (الحدیث)۔
اس میں ۔۔وَھُوَ التَّعَبُّدُ۔۔ تفسیری جملہ ہے مدرج ہے اور جواسی حدیث کے راوی امام زہری رحمہ اللہ کی طرف سے ہے۔مراد یہ کہ گناہ سے بچنے اور علیحدہ رہنے کے لئے غار حرا میں خلوت کو آپ نے اختیار کیا۔

۳۔ متن کے آخر میں ادراج ہوتا ہے۔مثال:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت:
إنَّ أُمَّتِی یُدْعَونَ غُرًّا مَحَجَّلِینَ مِنْ آثارِ الوُضوءِ ۔فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُم أَنْ یُطِیْلَ غُرَّتَہُ فَلْیَفْعَلْ۔ میری امت روز قیامت پکاری جائے گی تو ان کے اعضاء وضو چمکتے ہوں گے۔جو اپنے اعضاء چمکا سکتا ہے وہ ضرور ایسا کرے۔(متفق علیہ)

یہاں بھی محدثین یہی کہتے ہیں کہ فمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُم۔۔۔ سے آخر تک کے الفاظ دراصل سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی فقاہت اور ان کا طرز استدلال ہے کہ انہوں نے ایک فرعی مسئلے کا استنباط نص حدیث سے پیش کیاہے۔

مدرَج کی پہچان کیسے ہو؟
مذکورہ بالا طریقوں سے ہم ادراج کو پہچان سکتے ہیں۔ مثلاً:
۱۔ کسی اور سند سے یہی حدیث روایت ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا اضافہ وادراج وہاں نہیں۔
۲۔ راوی خود اقرار کرلے کہ میں نے اضافہ کیا ہے۔
۳۔ اس علم کے ماہر ائمہ اس ادراج کے بارے میں مطلع کردیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔ مقلوب:
ھُوَ مَا خَالَفَ فِیْہِ الرَّاوِیُّ مَنْ ھُوَ أَوثَقُ مِنہُ فَأَبْدَلَ فِیہِ شَیئًا بِآخَرَ فِی سَنَدٍ أَو مَتْنٍ سَھْوًا أو عَمَدًا۔ وہ حدیث جس میں راوی اپنے سے بڑے ثقہ کی مخالفت یوں کرے کہ سند یا متن میں سہواً یا عمداً کچھ بدل دے۔
تقدیم وتاخیر کی یہ تبدیلی متعدد صورتیں رکھتی ہے۔ مثلاً:
… سند کے راویوں میں سے کسی کا نام الٹ دے۔ جیسے نام تھا مرۃ بن کعب اور اسے کعب بن مرۃ بنادیا۔کیونکہ ان میں ایک کا نام دوسرے کے والد کا ہے۔ یا
… متن میں ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ بدل دے جیسے حدیث ابن عمر میں وہ یوں کہہ دے: فَإِذا أَنَا بِالنَّبِیِّ ﷺ جالِسًا عَلَی مَقْعَدَتِہِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ مُسْتَدْبِرَ الشَّامِ۔ جب کہ الفاظ یوں ہیں: مُسْتَقْبِلَ الشامِ مُسْتَدْبِرَ الْقِبلَةِ۔ یا حدیث ابوہریرہؓ کو وہ یوں پڑھ لے: حَتّٰی لَا تَعلم یَمِینُہُ مَا تُنْفِقَ َ شِمَالُہُ۔ جب کہ حدیث کے الفاظ یوں ہوں: حَتی لا تعلمَ شِمالُہُ ما تُنْفِقَ یَمینُہُ۔
پہچان: اس تبدیلی کو دوسری درست اور راجح روایت کے ذریعے ہی پہچانا جاسکتا ہے۔یا خودمعنی پر غور کرکے جانا جاسکتا ہے کہ یہ معنی درست نہیں ۔امام ابن القیم رحمہ اللہ زاد المعاد میں مقلوب کی مثال یوں سمجھاتے ہیں:
إِذَا سَجَدَ أَحَدُکُمْ فَلَا یَبْرُكُ کَمَا یَبْرُكُ الْبَعیرُ وَلْیَضَعْ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکبْتَیَہِ۔ فرماتے ہیں: یہ حدیث راوی سے تبدیل ہوگئی ہے اور درست یوں ہے: فَلْیَضَعْ رُکْبَتَیہِ قَبْلَ یَدَیْہِ۔ کیونکہ اونٹ جب بیٹھتا ہے تو پہلے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو آگے رکھتا ہے۔اگر ہم یہ مان لیں کہ درست عبارت یہی ہے: فَلْیَضَعْ یَدَیْہِ قَبلَ رُکْبَتَیہِ تو حدیث کا آخری حصہ پہلے حصہ کے مخالف ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس کا پہلا حصہ اگر ایک قاعدہ مان لیں تو آخری حصہ بھی مانا جاسکتا ہے۔جیسے: الاصْلُ رَدُّ الْمِثَالِ إِلَی الْقَاعِدَةِ۔ اصول یہ ہے کہ مثال کو قاعدہ پر لوٹا لے جائیں۔اس لئے یہ عبارت درست یوں ہی ہوگی: وَلْیَضَعْ رُکْبَتَیہِ قَبْلَ یَدَیہِ۔ مگر راوی پر یہ عبارت ذرا تبدیل ہوکر آگے پیچھے ہوگئی اور اس نے اسے اور طرح سے پڑھ دیا۔ایسی تبدیلی سے حدیث میں ضعف آجاتا ہے کیونکہ حدیث کے الفاظ آگے پیچھے ہوئے تو معنی ہی بدل گیا۔اور جب معنی ہی بدل گیا تو حدیث، حدیث نہ رہی۔ یا
… راوی ، اسنادحدیث ہی پلٹ دے اور کسی اور متن کی بنادے۔
ایسی خطاً کا درجہ متعین ہونے کے بعد ہی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آیا راوی سے وہم ہوا ہے یا اس نے عمداً یہ حرکت کی ہے۔جو بہت بڑی خیانت اور جھوٹ ہے۔بہرحال ایسا شخص جو کسی سند کو دوسرے متن کے ساتھ لگادے اسے سارق حدیث یعنی حدیث کا چور بھی کہتے ہیں جو اس کی عدالت کے لئے بہت ہی بدنما چیز ہے اور اس کی حدیث رد ہوجاتی ہے۔
 
Top