• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم حدیث-مصطلحات اور اصول

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔ تدلیس الشیوخ:
وَھُوَ أَنْ یُسَمِّیَ الرَّاوِیْ شَیْخَہُ أَو یُکَنِّیْہِ أَو یُنْسِبُہُ أَو یَصِفُہُ بِمَا لَا یُعْرَفُ فَیُوھِمُ أَنَّہُ غَیرُہُ، إِمَّا لِکَونِہِ أَصْغَرُ مِنہُ فَلَا یُحِبُّ أَنْ یُظْھِرَ رِوَایَتَہُ عَمَّنْ دُوْنَہُ وَإِمَّا لِیَظُنَّ النَّاسُ کَثْرَةَ شُیُوخِہِ وإِمَّا لِغَیرِھِمَا مِنَ الْمَقَاصِدِ۔ اسے کہتے ہیں جس میں راوی حدیث روایت کرتے وقت اپنے شیخ کا ایسا نام ، کنیت، نسبت یا صفت لے جس میں وہ مشہور نہ ہو۔جو سامع کو وہم میں ڈال دے کہ یہ کوئی اور راوی یا شیخ ہے۔ وہ یہ اس لئے کرتا ہے کہ یا تو اس کا شیخ اس سے عمر میں چھوٹا ہے اور اسے یہ پسند نہیں کہ اپنی روایت اس سے بیان کرے جو عمر میں اس سے کم ہو۔ یاوہ اس لئے کرتا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں کہ اس کے شیوخ بکثرت ہیں یا ان کے علاوہ اور مقاصد بھی اس کے پیش نظر ہوسکتے ہیں۔
مثال: امام ابوداؤد نے سنن(۲۱۹۶) میں بہ سند:
ابْنُ جُرَیْجٍ أَخْبَرَنِی بَعْضُ بَنِی أَبِی رَافِعٍ مَولَی النَّبِیِّ ﷺ، عَنْ عِکْرِمَةَ مَولَی ابْنِ عَباسٍ، عَنِ ابْنِ عَباسٍ، قَالَ: طَلَّقَ عَبدُ یَزِیْدَ ۔۔۔أبُورُ کَانَة وَإِخْوَتُہُ۔۔۔۔۔۔أُمَّ رُکَانَةَ وَنَکَحَ امْرَأَءَ مِنْ مُزَیْنَةَ۔۔۔ وَ ذَکرَ حَدیثًا فِی طَلاقِ الثَّلاثِ جُمْلَةً وَاحِدَةً۔
اس حدیث کے راوی ابن جریج کا نام عبد الملک بن عبد العزیز بن جریج ہے جو ایک ثقہ راوی ہیں مگر تدلیس کے ساتھ بھی موصوف ہیں۔اگرچہ وہ اپنے شیخ کا نام بھی صراحتاً لیتے ہیں مگر ایک آدھ بار انہوں نے اپنے شیخ کے نام پر پردہ ڈالنے کے لئے ایسا کیااور یوں کہا: أَخْبَرَنِی بَعْضُ بَنِی أَبِی رَاِفعٍ۔ علماء کے ہاں اس راوی کی تعیین میں اختلاف ہے۔
اس شیخ کو امام حاکمؒ مستدرک(۲/۴۹۱) کی ایک روایت میں یوں ذکر کرتے ہیں: عَنْ مُحمدِ بْنِ عُبَیدِ اللہِ بنِ أَبِی رَاِفعٍ، عَنْ عِکْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۔۔۔ جب یہ سند موجود ہے اور وہ بھی صراحت کے ساتھ۔تو پھر تدلیس کیسی؟
یہ محمد بن عبید اللہ متروک راوی ہیں۔ امام بخاریؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: مُنْکَرُ الْحَدِیثِ۔ ابن معینؒ کہتے ہیں: لَیْسَ بِشَئٍ۔ اور ابوحاتم ؒکہتے ہیں: مُنْکَرُ الْحَدیثِ جِدًّا ذَاھِبٌ۔
نوٹ: رکانہؓ کی یہ حدیث امام احمد بن حنبل(۱/۲۶۵) بھی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں جسے امام ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں صحیح قرار دیا ہے۔کہ رکانہؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دی تھیں لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں ایک قرار دے کر رجوع کا اختیار دے دیا تھا چنانچہ رکانہؓ نے رجوع کرلیا تھا۔
٭…رواۃ کے نام یاکنی والقاب متشابہ ہوں تو راوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شیخ یا راوی کا مکمل نام ضرور واضح کرے ورنہ یہ تدلیس ہوگی۔فقیہ مدینہ عبد اللہ بن نافع الصائغ کی بڑی عمدہ تقریظ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے ترتیب المدارک کے شروع میں لکھی اورکہا: سحنون نے محمد بن رزین کو کچھ لکھ بھیجا۔ انہیں یہ بھی علم تھا کہ سحنون ، عبد اللہ بن نافع سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا:کیا تم نے عبد اللہ بن نافع سے سنا ہے؟ سحنون نے کہا: اللہ تعالی آپ کی اصلاح کرے میں نے جس نافع سے سنا ہے وہ الزبیر ی ہیں نہ کہ الصائغ۔ پھر وہ کہنے لگے: تم نے پھر تدلیس کیوں کی؟ سحنون نے کہا: مَاذَا یَخْرُجُ بَعْدِیْ مِنَ الْعَقَارِبِ؟ میرے بعد بچھوؤں سے پھر کیا نکلے گا؟ مراد یہ کہ میں نے تو تدلیس نہیں کی اگر کوئی الزام دیتا ہے تو میں اس الزام کا کیا جواب دے سکتا ہوں؟ اگرچہ دونوں ثقہ محدثین ہیں مگر سحنون نے ان دونوں کو واضح کرنا ضروری سمجھا۔ تاکہ ان دونوں کی روایت آپس میں خلط ملط نہ ہو۔ کیونکہ الصائغ قدیم بزرگ تھے اورامام مالکؒ کے اقدم واثبت شاگردوں میں سے تھے اور انہیں امام مالکؒ کی طویل صحبت حاصل تھی۔ یہ وہی ہیں جنہیں ابن کنانہ کے بعد امام مالکؒ نے اپنی مجلس کی جگہ دی۔اوریہ وہی ہیں جن کا ذکر یحییٰ بن یحییٰ اور سحنون کرتے ہیں اور ان سے روایت بھی۔ مگر سحنون نے ان سے سماع نہیں کیا بلکہ اشہب سے انہوں نے سنا تھا۔ (سیر اعلام النبلاء: ۱۰؍۳۷۱)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تدلیس بلاد:
یہ تدلیس کی ایک اور قسم ہے جس کی تعریف یہ ہے:
أَنْ یَقولَ الْمُحَدِّثُ: حَدَّثَنا البخاریُّ، وَیَقْصُدُ مَنْ یُبَخِّرُ النَّاسَ، أَو حَدَّثَنِی بِمَاوَرَاءَ النَّھْر، یُرِیدُ بِہِ نَھْرَ دَجْلَةَ، أَوْ یَقولُ الْمِصْرِیُّ: حَدَّثَنِی بِالاَنْدَلُسِ، وَیُرِیْدُ بِہِ مَوضِعًا بِالقِرَافَةِ۔ جس کی یہ صورت ہے کہ راوی یوں کہے: حدثنی البخاری جس سے اس کی مراد وہ شخص ہو جو لوگوں کے لئے چقماق جلاتا ہے نہ کہ امام بخاری۔ یا حدثنی بماوراء النھر۔ مراد نہر دجلہ کے پار نہ کہ ماورء النہرکا علاقہ۔۔یا کوئی مصری یوں کہے: اس نے مجھے اندلس میں حدیث بیان کی۔اندلس سے اس کی مراد قرافہ کا علاقہ ہو۔
یہ تدلیس خطرناک بھی ہوسکتی ہے اوربرائے امتحان بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تدلیس عطف:
وَھُوَ أَن یَقولَ الْمُحدِّثُ: حَدَّثَنِی فُلانٌ وَفُلانٌ، وَیَکُونُ سَمِعَہُ مِنَ الاَوَّلِ وَلَمْ یَسْمَعْہُ مِنَ الثَّانِیْ۔ راوی حدیث روایت کرتے وقت یوں کہے: حَدَّثَنِی فُلَانٌ وَفُلَانٌ جب کہ اس کا پہلے فلان سے تو سماع ثابت ہو اور دوسرے فلاں سے اس نے نہ سنا ہو۔
مثال: جسے امام حاکمؒ نے معرفۃ علوم الحدیث(۱۳۱) میں لکھا ہے۔ اوپر ہشیم والی مثال دیکھئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تدلیس سکوت:
اس میں راوی کہتا ہے: حَدَّثَنا یا سَمِعْتُ اور پھر رک جاتا ہے اس کی نیت سند کو کاٹنے کی ہوتی ہے اس لئے وہ سکوت اختیار کرتا ہے پھر کہتا ہے: ھِشَامُ بْنُ عُرْوَہَ عَنْ أَبِیہِ عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنھا۔ یعنی اپنا شیخ ہشام بن عروہ کو بناتا ہے جب کہ اس نے ان سے یہ حدیث سنی ہی نہیں۔دیکھئے الکامل از ابن عدی میں یہ مثال:
عَنْ عُمَرَ بْنِ عُبَیدِ الطَّنَافِسِیِّ، أَنّہُ کَانَ یقولُ: حَدَّثَنا، ثُمَّ یَسْکُتُ یَنْوِی الْقَطْعَ، ثُم یقولُ: ھِشامُ بْنُ عُرْوَةَ عَن أبیہِ عَنْ عَائِشةَ رضی اللہُ عَنْھَا۔ عمر بن عبید طنافسی جب کہتے: حدثنا۔ تو خاموش ہوجاتے ۔ مقصد سند میں Pauseدینا ہوتا تاکہ و ہ اسے توڑ سکیں۔اور پھر کہتے: ھشام بن عروۃ عن ابیہ عن عائشة رضی اللہ عنھا
یہ انداز تدلیس بھی تسویہ سند والی بات ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تدلیس تسویۃ:
جس کی صورت یہ ہے کہ راوی اپنے شیخ کا نام اس کے ضعف کی وجہ سے یا عمر میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے سند سے گرا دیتا ہے اس طرح وہ اپنی حدیث کو شروع سے آخر تک برابر کرکے ثِقَةٌ عَنْ ثِقَةٍ کہہ کرثابت کردیتا ہے۔ تدلیس کی یہ مذموم قسم ہے اور جو خیانت اور سند کے عیب کو چھپانے والی ہے۔ اس قسم کی تدلیس سے موصوف ولید بن مسلم اور بقیہ بن الولید تھے۔ ابن معینؒ نے ان کے بارے میں کہا تھا: أحادیثُ بَقِیَّةَ لَیْسَتْ نَقِیَّةً فَکُنْ مِنْھا عَلَی تَقِیّةَ۔ (مزید تفصیل کے لئے ان چھ اقسام کو (الکفایة: ۵۱۸، جامع التحصیل: ۱۱۴، شرح العراقی لالفیتہ ۱؍۱۹۰) میں دیکھئے۔
نوٹ: تدلیس کی ان تمام اقسام میں جو واقعی تدلیس لگتی ہے اور جسے تدلیس قرار دینا چاہئے وہ یہی تدلیس ہے۔ باقی کا نام تدلیس رکھنا بظاہر تو درست لگتاہے مگر مثالوں سے یہی واضح ہوتا ہے کہ انہیں تدلیس نہیں کہا جاسکتا۔
اصول:
۱۔جو مدلس ہو اور بکثرت تدلیس کرتا ہو یعنی سَمِعْتُ کی بجائے عَنْعَنَہُ زیادہ کرتا ہو تو اس کی روایت رد کردی جائے گی کیونکہ وہ سماع کی صراحت نہیں کررہا۔ورنہ سمعتُ یا حَدَّثَنِی جیسی صراحت سے اس کی روایت قبول کرلی جائے گی۔
۲۔ مدلس مقل اگر ثقہ سے عنعنہ کی تدلیس کرے تواس کا عنعنہ سماع پرہی محمول کیا جائے گا۔ ہاں اگر دیگر احادیث کے طرق یہ واضح کردیں کہ اس نے اس حدیث میں تدلیس کی ہے تو پھر وہ روایت رد کردی جائے گی۔
۳۔ثقہ خواہ سماع کی صراحت کرے یا عنعنہ کرے اسے تدلیس نہیں کہیں گے۔ جیسے صحیحین میں صیغہ تدلیس کے ساتھ جو روایات آئی ہیں وہ ثقات سے ہیں ۔ علماء نے انہیں قبول کیاہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مدلسین کے طبقات:
تدلیس کرنا ضعیف راوی کا کام ہوتا ہے۔ ثقہ محض تشحیذ الاذہان کے لئے عنعنہ کرتا ہے ورنہ وہ مدلس نہیں ہوتا۔ ثقہ علماء حدیث حسن بصری، حمید الطویل، الاعمش، محمد بن اسحق، عنعنہ کا استعمال کرتے جسے تدلیس کہا گیا۔ جن کے بارے میں اصول یہی ہے کہ ان کا عنعنہ ، سماع پر محمول ہوتا ہے۔ مگر ضعیف جیسے الولید بن مسلم وغیرہ کا عنعنہ تدلیس ہوگا۔ اس لئے کثرت وقلت اور حفظ واتقان کی رو سے مدلسین کو علماء نے پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ وہ محدثین جو تدلیس سے بالکل محفوظ ہیں۔نادر ہی ان سے یہ کام ہوا ہو۔ جیسے امام یحییٰ بن سعید انصاری۔
۲۔ جنہوں نے تد لیس کی مگر ثقہ سے یا پھر اپنے طلبہ کی ذہنی استعداد اور بیدار مغزی کا امتحان لینے کے لئے۔ ان کی احادیث کو ان کی امامت کی وجہ سے صحیح تسلیم کیا گیا ۔ جیسے سفیانؒ ثوری یا تدلیس ثقہ سے کرتے۔جیسے سفیانؒ بن عیینہ۔
۳۔ اس طبقہ کی تدلیس پر علماء نے توقف کیا اور ان کے عنعنہ کو قبول نہیں کیا۔ ان کی اس روایت سے صرف احتجاج کیا جس میں انہوں نے صراحت کے ساتھ سماع کا ذکر کیا۔ان میں سے کچھ کا عنعنہ وہاں بھی قبول کرلیا جہاں واقعی ان کی کوئی تدلیس ثابت نہیں ہوسکی۔جیسے قتادۃ بن دعامۃ سدوسی اور ابواسحق السبیعی۔
۴۔اس طبقہ کے بارے میں اہل علم کا اتفاق ہے کہ غلبہ تدلیس یا بکثرت ضعفاء اور مجاہیل سے روایت کی بنا پر ان کی روایت ناقابل احتجاج ہوگی جب تک یہ حضرات صریح سماع ذکر نہ کریں۔ جیسے محمد بن اسحق ، عبد الملک ابن جریج۔ یہ جب صیغہ عَنْ سے روایت کریں تو وہاں ضرور علت قادحہ ہوگی مگر جب حَدَّثَنِی کہیں تو وہ صحیح اور حجت ہوگی۔
۵۔وہ رواۃجن کے کچھ عیوب کی وجہ سے ان پر جرح ہوئی اور انہیں ضعیف قرار دیا گیا۔تدلیس وجہ نہیں تھی۔اس طبقہ کی احادیث ویسے ہی رد ہوں گی خواہ وہ صراحتاً سماع کاکہہ دیں جیسے ابوجناب کلبی اور ابوسعید بقال جیسے فضائلی ۔ (تعریف اھل التقدیس لابن حجر: ۲۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مُعَنْعِن :
علماء نے حَوقَلَہْ، حَیَّعَلْ، یا سَبَّحَلْ جیسی تعبیرات بنائی ہیں۔یہ مصطلح بھی اسی طرز پر ہے۔یہ وہ روایت ہوتی ہے جس میں راوی عَنْ فُلانٍ عَنْ فُلانٍ عَنْ فُلانٍ جیسے الفاظ استعمال کرے۔گویا یہ اصطلاح اسی کا اختصار ہے۔یہ لفظ اسناد کا حصہ ہے مگر اس کا مراد راوی ہی بہترجانتا ہے ۔اگر راوی اپنے شیخ سے ملا ہے اور اس سے سنا ہے خود بھی ثقہ ہے پھر وہ عن عن کا استعمال کرتا ہے تواس کا یہ عن اتصال کے معنی میں ہی ہوگا ورنہ عدم اتصال ہی اس سے مراد ہوگاجسے وہ تدلیس نام دیتے ہیں۔معنعن کی روایت کو تین شرطوں کے ساتھ علماء حدیث قبول کرتے ہیں:۱۔ محدث عادل ہو۔ ۲۔ محدث کی ملاقات اپنے شیخ سے ہوچکی ہو خواہ وہ مجلس میں ہوئی ہو یا براہ راسست۔۳۔ راوی تدلیس سے اجتناب کرتا ہو۔
اسی بنا پر محدثین اس عن عن کو تدلیس نہیں کہتے جس میں اتصال ہو اور تدلیس سے راوی خود بچتا ہو۔امام مسلم رحمہ اللہ کا کہنا ہے: جو لوگ معنعن روایت کو حجت تسلیم نہیں کرتے اور ملاقات کی شرط لگاتے ہیں خواہ ایک بار کی بھی ہو۔ غلط اور من گھڑت اصول ہے۔ اسلاف میں کسی نے ایسا نہیں کہا۔الا یہ کہ اس روایت میں واضح دلیل یہ ہو کہ راوی اپنے شیخ سے نہیں ملا یا اس سے نہیں سنا۔امام بخاریؒ، امام علی ؒبن المدینی وغیرہ نے معاصرین کے لئے ملاقات کی شرط اس لئے لگائی کہ انہیں ایسے شواہد مل گئے تھے کہ کچھ معاصرین نے اپنے شیوخ سے روایت کی مگر انہوں نے وہ احادیث ان سے نہیں سنی تھیں اور عن عن کا استعمال کیا۔۔ اس لئے ملاقات اور سماع کی شرط لگا دی تاکہ جو شیخ سے روایت کرے وہ عنعنہ کو سماع واتصال پر محمول کرکے ہی کرے۔ امام نوویؒ ، خطیبؒ بغدادی امام ذہبیؒ اور دیگر نے تدلیس سے بچاؤ کی شرط امام بخاریؒ کو زیادہ مناسب اور قوی قرار دی ہے۔
مگر امام مسلم ؒکا نقطہ نظر بھی قوی ہے کہ ثقہ عادل غیر مدلس اگر اپنے اس معاصرشیخ سے روایت کرے خواہ اس کی ملاقات اس سے نہ ہوئی ہو تو اس کا عنعنہ سماع پر محمول کیا جائے۔ کیونکہ قبول نہ کرنے کی صورت میں احادیث کا خاصا ذخیرہ نظر انداز ہوجائے گا۔اس لئے امام مسلم معنعن روایات لا کر ملاقات کے ثبوت کے لئے معاً بعد أخبرنا اور حدثنا سے تحمل حدیث ثابت کرتے ہیں جو ان کے نزدیک سماع پر محمول ہیں۔ مزید یہ کہ ہر ثقہ غیر مدلس راوی کے اپنے اس شیخ سے امکان لقاء کو ثابت کرنا بھی اتنا آسان نہیں جس سے وہ عنعنہ کے ساتھ روایت کررہا ہے۔
مُؤَنَّن:
جس روایت میں راوی أنَّ فُلانًا قَالَ أَنَّ فُلانًا قَال جیسے الفاظ استعمال کرے۔ اس کے اصول مُعَنْعِن کے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۲۔مرسل خفی:
میں راوی اپنے شیخ کا معاصر تو ہے لیکن کیا وہ اپنے شیخ سے مل چکا ہے ؟ اس کے بارے میں سبھی لاعلم ہیں۔اسے خفی اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی شیخ سے ملاقات کا علم مخفی رہتا ہے اور قاری اس کے صیغہ عن سے یہ سمجھتا ہے کہ حدیث متصل ہے اس لئے کہ یہ اس کا معاصر ہے مگر وہ غیر متصل ہوتی ہے۔ اس لئے یہ ارسال خفی کہلاتی ہے۔
فرق مابین تدلیس وارسال خفی:
ان دونوں میں بڑا باریک فرق ہے ۔ امام ابن حجرؒ نے اس باریک فرق کو واضح کیا ہے کہ اگر راوی اپنے شیخ سے ملا ہو مگر اس سے وہ روایت کرے جو اس نے اس سے نہیں سنی یا محتمل لفظ استعمال کرے اسے تدلیس کہیں گے اور اگر معاصر ہے مگر ان کی ملاقات ثابت نہیں پھر وہ اس سے محتمل لفظ سے روایت کرے یہ ارسال خفی ہے۔مثلاً: سلیمان بن مہران الاعمش کی سیدنا انس بن مالک سے روایت ہے انہوں نے صرف سیدنا انسؓ کو دیکھا تھا سنا نہیں تھا۔امام علی بن المدینیؒ کہتے ہیں: اعمشؒ نے سیدنا انسؓ سے کوئی حدیث نہیں سنی بس انہیں دیکھا تھا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ہاں انہوں نے سیدنا انس کی احادیث یزید الرقاشی سے اور ابان بن عیاش سے بھی سنیں ۔اس لئے اعمش کی، سیدنا انس سے روایت مرسل خفی ہوگی نہ کہ تدلیس ہوگی۔ اگرچہ اعمشؒ جب اپنے شیوخ سے سنی ہوئی احادیث کو روایت کرتے تو اس وقت بھی تدلیس کیا کرتے۔ایسی صورت میں انہیں تدلیس سے موصوف کیا گیا ہے۔گو وہ یہ عمل بطور امتحان یا اختصار کرتے۔
اسی طرح حسن بصریؒ نے سیدنا عثمانؓ کو ۔جیسا کہ روایت کیا گیا ہے۔دیکھا تھا اور ان کا کبوتر وکتوں کے قتل کے بارہ میں خطبہ بھی سنا تھا۔ مگر انہوں نے ان سے کوئی مسند حدیث نہیں سنی تھی۔ اس بناء پر ان کی سیدنا عثمانؓ سے روایت مرسل ہوگی۔
٭… ابو حاتمؒ لکھتے ہیں: ابوقلابہ کی کوئی تدلیس معلوم نہیں ہوسکی۔امام ذہبیؒ اس کا مفہوم یہ لکھتے ہیں: جب ابوقلابہ کوئی حدیث سیدنا عمر یا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مثلاً مرسل روایت کریں تو معلوم نہیں ہوتا کہ کس سے انہوں نے حدیث سنی ہے؟ بخلاف حسن بصری کی تدلیس کے کہ وہ ہر قسم کے افراد سے حدیث لے لیا کرتے پھر ان کا نام گرادیتے۔ جیسے علی بن زید کا نام جو ان کا ہی شاگرد ہے۔ پہلی مثال ارسال خفی کی ہے اور دوسری تدلیس کی۔
٭… رہے مخضرم (وہ جنہوں نے حیات رسول ہی میں زمانہ جاہلیت کو تو پایا ۔آپ ﷺ پر ایمان بھی لائے مگر آپ ﷺ سے مل نہ سکے)تابعین جیسے ابوعثمان نہدی، قیس بن ابی حازم جو نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔ان کی روایت مرسل کے زمرے میں آئے گی نہ کہ مرسل خفی یا تدلیس کے۔ کیونکہ محض معاصرت کی شرط تدلیس کے لئے کافی ہوتی تو پھر یہ سب مدلس ہوتے کیونکہ یہ بزرگ آپ ﷺ کے معاصر تو ہیں مگر ان کی ملاقات آپ ﷺ سے ثابت نہیں۔
٭…انقطاع کی اب تین اقسام ہوئیں:
۱۔جس روایت میں انقطاع ظاہر وباہر ہوگیا۔یہ راوی اپنے شیخ کا معاصر نہیں ہوتا۔
۲۔جو اپنے شیخ کا معاصر تو تھا مگر اس سے ملاقات غیر معلوم سی ہے۔مرسل خفی کہلائی۔
۳۔ معاصرراوی کی شیخ سے ملاقات بھی ہوئی۔مگر روایت اس سے وہ کی جو شیخ سے سنی ہی نہیں۔ اسے تدلیس کہتے ہیں۔
مگرجو معاصر تھا اور اس نے اپنے شیخ سے احادیث سنیں۔یہ متصل ہوگی۔
چونکہ یہ دونوں (مدلس اور مرسل خفی) اپنے شیخ سے عدم سماع میں باہم متشابہ ہیں اس لئے اکثر وبیشتر طالب علم ان کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھ پاتے۔یہ فرق جاننے کا فائدہ یہ ہے کہ:
قواعد:
جو مدلس ہوگا اور عنعنہ بھی کرے تو اس کی روایت لا محالہ رد ہوگی خواہ وہ اپنے شیخ سے اپنی تمام روایات کا سماع ہی کیوں نہ ثابت کرے۔ طبقات مدلسین میں اس کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔
… رہا وہ جو اپنے شیخ سے ان سنی احادیث روایت کرتا ہے یہ ارسال خفی ہے اس کا عنعنہ بھی رد کردیا جائے گا جب تک کہ وہ اپنے اس شیخ سے سماع کو ثابت نہ کردے خواہ ایک مرتبہ ہی اس نے کیوں نہ کیا ہو۔ مزید تفاصیل کے لئے مدلسین کے طبقات یا ان کی وضاحت پر مطبوعہ کتب دیکھی جاسکتی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ساقط ومنقطع اسانید کا حکم:
منقطع روایت کی تمام اقسام ضعیف اور ناقابل احتجاج ہونگی کیونکہ راوی محذوف ومجہول ہے۔سوائے درج ذیل کے:
۱۔ مرسل صحابی کی روایت۔ قابل حجت ہوگی کیونکہ سب صحابہ عادل ہیں(الکفایۃ: ۱۰۵، مقدمہ علوم الحدیث: ۵۰)
۲۔ کبار تابعین کی مرسل روایت بھی اکثر اہل علم کے ہاں اس وقت قابل حجت ہے بشرطیکہ اسے کوئی دوسری مرسل آکر مضبوط کردے یا کسی صحابی کا عمل یا کوئی قیاس تقویت پہنچادے۔جیسے مراسیل سعید بن المسیب،عروۃ بن الزبیر یا مسروق الصنابحی کی مراسیل۔ اس لئے کہ ان کی بیشتر روایات براہ راست صحابہ رسول سے منقول ہیں۔ (الموقظۃ: ۱۶) رہے صغار اور متاخرین کی مرویات مثلاًامام مالک، امام شافعی اور امام اوزاعی وغیرہ کی مراسیل قبول کرنا ہوتیں تو پھر یہی اصول بنتاکہ دیگر کی مراسیل بھی سرآنکھوں پر رکھی جائیں۔امام ابن عبد البرؒ التمھید (۱؍۳۸) میں لکھتے ہیں:
وصِغَارُ التابِعِینَ وَمَنْ بَعْدَھُم تُعَدُّ مَرَاسِیلُھُم کَھُبُوبِ الرِّیْحِ أَو شِبْہِ رِیْحٍ، وَ ھِیَ إِمَّا مُنْقَطِعاتٌ أَو مُعْضَلاتٌ لِمَا بَیْنَھُم وَبَینَ النبیِّ ﷺ مِنْ رَجُلَینِ فَأَکْثَرُ۔ صغار تابعین اور ان کے بعد کے علماء کی مراسیل چلتی ہوا یا ہوا کی طرح سمجھی جاتی ہیں یہ یا تو منقطعات ہیں یا معضلات کیونکہ ان کے اور رسول اللہ کے درمیان کم ازکم دو افراد کا سقوط ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ضعیف حدیث پر عمل

علماء حدیث نے احکام وعقائد میں ضعیف حدیث کو قابل اعتناء نہیں سمجھا، ہاں فضائل اعمال میں اگر حدیث ضعیف ہو تو اس پر عمل ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے تین جواب دیے ہیں۔
۱۔ بالکل عمل نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ ضعیف حدیث مسلمان کا علم نہیں۔ امام بخاریؒ امام مسلمؒ، امام یحییٰ بن معینؒ اور ابن حزمؒ کا یہ نقطہ نظر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے قبولیت حدیث کی جو شرائط رکھی ہیں ان کے مطابق سوائے صحیح حدیث کے کچھ اور قبول کیا ہی نہیں جاسکتا۔ مثلاً:
۱۔ مُعَنعِن کی روایت کے لئے ان کی شرط صرف معاصرت کا ثبوت نہیں بلکہ ملاقات کا ہونا بھی ہے۔یہ شرط حدیث کی صحت اور پختگی کے لئے اس دور میں انتہائی مفید ثابت ہوئی۔
۲۔ جو راوی متساہل ہو اس کی روایت متابعت کے بغیر معتبر نہیں یعنی جب تک دوسری سند اس متساہل کی روایت کو تقویت نہ دے وہ قابل اعتبار نہیں ہوسکتی۔ ایسے راویوں میں سے کسی کی روایت صحیح بخاری میں بالکل نہیں۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے مقدمہ صحیح مسلم میں ضعیف حدیث کو قبول نہ کرنے کے بارے میں یہ دلائل دئے:
وإنَّما أَلْزَمُوا أَنْفُسَھُمْ ، الْکَشْفَ عَنْ مَعَایِبِ رُوَاةِ الْحَدیثِ وَنَاقِلِی الاخبارِ، وَأَفْتَوا بِذَلِكَ حِینَ سُئِلُوا، لِمَا فِیہِ مِنْ خَطَرٍ عَظِیمٍ، إِذِ الاخْبارُ فِی أَمْرِ الدِّیْنِ إِنَّما تَأْتِی بِتَحْلِیلٍ أَو بِتَحْریمِ أَو أَمْرٍ أَو نَھْیٍ أَو تَرْغِیبٍ أَو تَرْھِیبٍ، فَإِذا کَانَ الرَّاوِیْ لَھَا لَیْسَ بِمَعْدِنٍ لِلصِّدْقِ وَالاَمَانَۃِ، ثُمَّ أَقْدَمَ عَلَی الرِّوایَةِ عَنہُ مَنْ قَد عَرَفَہُ، وَلَمْ یُبَیِّنْ مَا فِیہِ لِغَیرِہِ مِمَّنْ جَھِلَ مَعْرِفَتَہُ، کَانَ آثِمًا بِفِعْلِہِ ذَلِكَ، غَاشًا لِعَوَامِ الْمُسلمینَ، إِذَ لَا یُؤْمَنُ عَلی مَنْ سَمِعَ تِلْكَ الاَخْبارَ أَن یَسْتَعمِلَھَا أَو یَستَعْمِلَ بَعْضَھَا، وَلَعَلَّھَا أَو أَکْثَرُھَا أَکَاذِیْبُ لَا أَصْلَ لَھَا۔محدثین نے اپنی یہ ذمہ داری سمجھی کہ وہ رواۃ حدیث اور اخبار کے ناقلین کے معائب کھول کر رکھیں گے۔ اس لئے جب بھی ان سے ان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے واشگاف الفاظ میں جواب دئے۔اس لئے کہ ان کا ضرر بڑا خطرناک تھا جب کہ احادیث کا معاملہ دین کا ہے جن میں حلال وحرام یا امر ونہی اور ترغیب وترہیب ہی ہے۔لہٰذا راوی حدیث جب خود مقام صدق وامانت سے کم تر ہوپھر اس سے وہ روایت کرے جو اس کی کم تری کو جانتا بھی ہواور دوسرے ناواقف کو اس بارے میں آگاہ بھی نہ کرے تو ایسا راوی خود بھی گناہ گار ہوگا اور عام مسلمانوں کے ساتھ دغا کامرتکب بھی۔اسلئے کہ جو ایسی اخبار واحادیث سن لے وہ تو ان پر عمل کربیٹھے گا یا کچھ پر بھی۔ جب کہ ایسی کچھ یا اکثر روایات جھوٹی ہوں گی جن کی کوئی اصل ہی نہیں۔
٭…امام ابنؒ رجب فرماتے ہیں: امام مسلم رحمہ اللہ کی اس گفتگو سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ احادیث ترغیب بھی صحت کے اسی معیار پر ہوں جن سے احکام مروی ہوتے ہیں۔امام ابن العربی، خطابی ، ابن حزم اور ابوشامہ وغیرہ رحمہم اللہ اسی کے قائل ہیں:
لَا یُعمَلُ بِالحدیثِ الضعیفِ فِی فَضَائِلِ الاَعْمالِ۔ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔
۲۔ بالکل اس پر عمل ہوسکتا ہے۔ جمہور علماء اس طرف گئے ہیں۔ جن میں امام احمد ؒبن حنبل کا ایک قول بھی ہے۔نیز امام سفیانؒ الثوری ،عبد اللہؒ بن المبارک اور عبد الرحمنؒ بن مہدی کی طرف بھی یہ بات منسوب ہے۔ ابنؒ عبد البر بھی یہی کہتے ہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
اتَّفَقَ الْعُلماءُ عَلَی جَوازِ الْعَمَلِ بِالحَدیثِ الضَّعیفِ فِی فَضَائِلِ الاعْمَالِ۔ (مقدمہ اربعین) علماء فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے جواز پر متفق ہیں۔
اتفاق کی بات قابل غور ہے اس لئے کہ اوپر ہم سخت موقف بھی پڑھ آئے ہیں۔
یاد رکھئے ! جمہور علماء کے دور میں احادیث کی دواقسام تھیں۔ صحیح یا ضعیف۔ حسن نام کی مصطلح نہیں تھی بلکہ یہ بعد میں متعارف ہوئی۔اس لئے جس دور مین علماء نے یہ کہا: فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل ہوسکتا ہے۔ ان کی مراد وہ ضعیف حدیث ہے جو حسن درجے کی ہو۔ورنہ ضعیف حدیث کی قبولیت کی شرائط علماء حدیث نے بیان کردی ہیں۔امام نوویؒ کے اس قول کی شاید وجہ یہ ہے کہ فضائل کی ضعیف حدیث میں کون سے تحلیل وتحریم کے مسائل ہوتے ہیں کہ وہ احکام میں خرابی پیدا کریں ۔ جس چیز میں دوسرے کو تکلیف یا نقصان نہ ہو تو یہ خیر کا اضافہ ہی ہے جونفس کو ثواب پر ابھارتا ہے۔
۳۔یہ تیسرا قول ہے کہ فضائل کی احادیث پر عمل ہوسکتا ہے مگر چند شروط کے ساتھ:
پہلی شرط:پہلے فضائل کی صحیح احادیث پر عمل کرلیا جائے۔
دوسری شرط: حدیث شدید ضعیف نہ ہو۔اس کاوہ راوی نہ ہو جوکذاب یا متہم بالکذب ہے یا جس میں روایت حدیث کی اندھا دھند غلطیاں ہیں۔امام العلائی لکھتے ہیں کہ اس شرط پر محدثین متفق ہیں۔ یہ شرط پہلے قول کو مقید کررہی ہے۔
تیسری شرط: یہ ضعیف حدیث اپنی اصل حدیث صحیح کے تحت آتی ہو اور جس پر پہلے سے عمل بھی ہو رہا ہو۔
چوتھی شرط: ضعیف حدیث پر عمل کے وقت یہ اعتقاد نہ ہوکہ یہ حدیث آپ ﷺ سے یہ ثابت ہے یا آپ ﷺ نے فرمایا ہے اس لئے کہ جو آپ ﷺ نے کہا ہی نہیں وہ آپ کی طرف کیوں منسوب ہو اور نہ ہی اسے پھیلانے کی کوشش کی جائے۔ بقول امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ(الفتاوی ۱۸؍۶۷) ان شروط کا بھی خیال کرے:
فَإِذَا تَضَمَّنَتْ أَحادیثُ الفَضَائلِ الضَّعیفةِ تَقْدیرًا وتَحْدیدًا، مِثْلَ صَلاةٍ فِی وَقْتٍ مُعَینٍ بِقِرَائَةٍ مُعَیَّنَةٍ أو عَلَی صِفَةٍ مُعَیَّنَةٍ، لَمْ یَجُزْ ذَلِكَ۔ مگر جب فضائل کی ضعیف احادیث تقدیر وتحدید پر مشتمل ہوں جیسے: کوئی نماز وقت معین پر معین قراءت کے ساتھ پڑھنا یا معین طریقے اور صفت سے پڑھنا تو پھر ضعیف حدیث پر عمل ناجائز ہوگا۔
کون سی رائے راجح ہے؟ پہلی رائے ہی زیادہ صحیح ہے۔اس لئے کہ صحیح احادیث میں جو فضائل بتائے گئے ہیں حفظ مراتب کا تقاضا ہے کہ پہلے ان پر تو عمل کرلیا جائے۔یہ نفس انسانی کی کمزوری ہے کہ نئی نئی عملیات کی طرف زیادہ مائل ہوتا ہے اور اصل سے بیگانہ ۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
بعض علماء ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہیں جس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ وہ مستحب عمل کو ایسی حدیث سے ثابت کررہے ہیں جو ناقابل احتجاج ہے کیونکہ استحباب تو ایک شرعی حکم ہے جو صرف دلیل شرعی سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ جوعالم بھی اللہ تعالی کی طرف سے کسی عمل کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ اللہ اس عمل کو پسند فرماتے ہیںمگر اس کی کوئی دلیل شرعی نہیں تو وہ واقعۃً اس دین میں شریعت سازی کررہا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔
وہ مزید فرماتے ہیں:
بلکہ ان علماء کی مراد ایسا عمل جو نص سے یا اجماع سے ثابت ہوتو اسے اللہ تعالی پسندیا ناپسند فرماتے ہیں۔جیسے تلاوت قرآن، تسبیح و دعاء کرنا، صدقہ کرنااور گردنوں کا آزادکرانا وغیرہ۔اس لئے جب کوئی حدیث بعض مستحب اعمال کے فضائل میں ہو جس کا ثواب بھی مروی ہو یا بعض اعمال کے ناپسند ہونے یا ان کی سزا کی مقدار کے بارے میں ہو اس سے بھی آگاہ کرے کہ کیا یہ ضعیف ہے یا حسن ۔ مگرجس کے موضوع ہونے کے بارے میں ہم لاعلم ہوں تو ایسی حدیث کی روایت وعمل تب جائز ہوگا کہ دل میں ثواب کی کوئی امید نہ ہو بلکہ اس پر عمل سے سزا کا خوف ہو۔(الفتاوی ۱۸/۶۵)
یہ یاد رکھئے! ضعیف حدیث کے راوی میں کمزوری اگر عدالت کی وجہ سے ہے تو یہ حدیث کسی بھی صورت میں قوی نہیں ہوسکتی خواہ اس کی متعدد اسانید ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اگر یہ ضعف حفظ وضبط کی وجہ سے ہے تو پھر یہ حدیث دیگر طرق کی وجہ سے تقویت پالے گی اور اس پر عمل بھی جائز ہوگا۔( الرسالۃ: ۵۶۱، فتح المغیث۱/۴۲، ۱۲۰)
ضعیف حدیث کی روایت کیسے کی جائے؟ صیغہ جزم کی بجائے اسے صیغہ تمریض سے روایت کیا جائے تاکہ حدیث کی صحت شک ڈال دے جیسے: رُوِیَ، نُقِلَ، فِیمَا یُرْوٰی، جَاءَ وغیرہ سے۔کیونکہ اس کے بارے میں اصول یہ ہے کہ ضعیف حدیث ظن کا فائدہ دیتی ہے نہ عمل کا۔ اسے دلیل بھی نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی اسے بغیر ضعیف کہے بیان کیا جاسکتا ہے۔ہاں ترغیب وترہیب پر عمل بقول بعض ہوسکتا ہے۔
تبصرہ: ضعیف حدیث پر عمل کے جواز کے یہ سب ایسے اصول ہیں جن سے کوئی حدیث قوی ہوتی ہے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ کی طرف اس کی نسبت درست ہوسکتی ہے۔نیز دیگر لا متناہی اصولوں اور فتنوں کے دروازے بھی کھلتے ہیں۔جن سے نہ صرف اصول حدیث متأثر ہوتاہے بلکہ قرآن کریم وعلوم القرآن اور فقہ واصول فقہ جیسے فنون بھی اس آوارگی کی زد میں آجاتے ہیں۔اس لئے ضعیف حدیث کی یہ تمام اقسام اپنی ان تعریفات سمیت ناقابل قبول اور مردود ہیں۔
 
Top