رسم مصحف توقیفی ہے یا اجتہادی؟اس بارے علماء کی دو آراء ہیں۔ ایک گروہ کے مطابق رسم مصحف اجتہادی ہے جبکہ دوسرے گروہ کا کہناہے کہ یہ رسم مصحف توقیفی ہے۔پہلے گروہ میں علامہ زمخشری، علامہ ابن خلدون اور عمر بن عبد السلام وغیرہ شامل ہیں۔ ابنؒ خلدون اس ضمن میں لکھتے ہیں:
"یہ ایک اجتہادی عمل ہے۔ اس میں اختلاف ہو سکتا ہے، عام لوگوں کا اس بارے میں رائے دینا مناسب نہیں بلکہ ایک مجتہد کے مقابلے میں دوسرا مجتہد ہی کوئی رائے دے سکتا ہے"۔(مقدمہ ابن خلدون: ۱۶۵)
امام احمدؒ الباقلانی کا خیال ہے:
"رسم مصحف میں ایسی تبدیلی ہو سکتی ہے جو معنی میں تبدیلی کا باعث نہ بنے۔ان آراء کے مطابق علماء کے ایک گروہ کا یہ خیال ہے کہ یہ رائے قرآن کی کتابت میں ترقی اور عمدگی کی طرف لے جانے میں مدد گار ثابت ہو گی اور اگر رسم عثمانی میں کچھ تبدیلی کی جائے تو اس سے عام قاری کو قرآن پڑھنے میں آسانی ہو گی"۔
لیکن مندرجہ بالا آراء کے برخلاف جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ رسم مصحف توقیفی ہے اور اس کی مخالفت کرنا یا اسے ترک کر کے دوسرا رسم الخط اختیار کرنا درست نہیں۔ علامہ شیخ محمد بخیتؒ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
قرآن کا رسم الخط کیونکہ نبی اکرمﷺ کی ہدایت کے مطابق ہے۔ لہذا توقیفی ہے۔(تاریخ افکار وعلوم اسلامی:۱۲۳)
اس کی دلیل ایک اور واقعہ سے بھی ملتی ہے۔ ایک وفعہ امام مالکؒ سے پوچھا گیا کہ مصحف میں جس طرح کتابت کی جاتی ہے اس کو بدل کر دوسرے طریقے سے لکھا جائے یا نہیں؟تو آپؒ نے جواب دیا: نہیں۔(احسن البیان فی علوم القرآن: ۴۵)
اس رائے کو مزید تقویت امام احمد بن حنبلؒ کے ایک قول سے ملتی ہے: رسم عثمانی کی مخالفت کرنا جرم ہے۔ (مناہل العرفان ۱؍۳۷۰)۔ عبدالعزیز لداخ کا کہنا ہے:
اصحاب رسولؓ یا کسی بھی شخص کے لئے قرآن میں ذرہ برابر غلطی کرنا جائز نہیں۔ وقتِ کتابت ِقرآن رسول اللہﷺ نے جن حروف میں کسی بھی لفظ کا اضافہ اگر کیاتو وہ ان مختلف اسرار کی وجہ سے تھا جو آپﷺہی جانتے تھے۔ جس طرح قرآن کا نظم ایک معجزہ ہے اسی طرح قرآن کا رسم الخط بھی ایک معجزہ ہے۔(ایضاً)
ایک رائے یہ بھی ہے کہ رسم عثمانی کو دیگر آثار قدیمہ کی طرح محفوظ کر لیا جائے تاکہ ضرورت کے وقت اس سے استفادہ کیا جا سکے اور عام لوگوں کی آسانی کے لئے قرآن کو ان کے معروف رسم الخط میں لکھا جائے۔ اس رائے کے مطابق کچھ عملی کوششیں کی گئیں۔ مثلاً: بچوں کے لئے ایسے سپارے چھاپے گئے جن میں ہر آیت رسم عثمانی کے ساتھ ساتھ عام رسم الخط میں بھی لکھی گئی تھی۔ بظاہر بات فائدہ مند لگ رہی تھی مگر حقیقتاًالٹا بوجھ بن گئی اور زیادہ غلطیاں ہونے لگیں۔ لہذا اس رائے کو ترک کر دیا گیااور رسم عثمانی ہی مسلمانوں میں معروف رہا اور ہے۔