• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم نزول ِقرآن

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قرآن کے منجماً نزول کی حکمتیں :
قرآن کریم کا تدریجی نزول بے شمار فوائد و اسرار پر مشتمل ہے۔ اگر اس تدریجی نزول میں کوئی حکمت و مصلحت نہ ہوتی تو دیگر کتب مقدسہ کی طرح اس کو بھی دفعۃً نازل کر دیا جاتا مگر حکمت ربانی یہ چاہتی تھی کہ قرآن کریم ، دیگر کتب سے ممتاز رہے اس لئے قرآن کو اولاً پہلے آسمان پر دفعۃً نازل کیا اور پھر وہاں سے بالأقساط تدریجاً اتارا گیا۔ اس طرح قرآن مجید کو دونوں اوصاف ( دفعتاً اور تدریجاً) سے متصف کر کے اسے دیگر کتب مقدسہ کے مقابلہ میں اعلیٰ و اولیٰ مقام عطا کر دیا۔مزید حکمتیں درج ذیل ہیں۔

اطمینانِ قلب: نبی اکرم ﷺ کو تبلیغ کے دوران انتہائی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ۔جبرائیل علیہ السلام کا بار بار قرآن لے کر آنا ان اذیتوں کو آسان بنا دیتا تھا جو آپ ﷺ تبلیغ دین کی راہ میں سہ رہے تھے۔ان کی آمد ورفت آپﷺ کے لئے تقویت قلب کا باعث بنتی۔آپ ﷺ کے چچا ابوطالب سے اہل مکہ نے شکوہ کیا تو ابوطالب نے آپ ﷺ سے کہا: بھتیجے!تمہارے چچا زاد شکوہ کناں ہیں کہ تم ان کی مجالس ومعبدوں میں آآکر انہیں اذیت دیتے ہو؟ اب اس سے باز آجاؤ۔ آپ ﷺ نے یہ سنتے ہی آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا:
مَا أَنَا بِأَقْدَرٍ عَلَی أَنْ أَدَعَ لَکُمْ ذَلِکَ عَلَی أَنْ تُشْعِلُوْا لِیْ مِنْہَا شُعْلَۃً۔
میں اتنی بھی جرات نہیں کر سکتا کہ تمہارے لئے اس مشن کو اس شرط پرترک کردوں کہ تم میرے لئے سورج سے ایک جگمگاتا شعلہ لے آؤ۔(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۹۲)

سورج ہاتھ پر رکھنے والی حدیث شیخ البانی ؒنے سنداً غیر ثابت بتائی ہے۔اگر قرآن لکھا ہوا ایک کتاب کی صورت میں نبی اکرم ﷺ کو دے دیا جاتا تو مشکل حالات میں صرف اسے پڑھ لینے سے کبھی تسکین نہ ہوتی جو اس وقت نزول وحی سے ہوتی تھی۔ اس حکمت کو قرآن کریم میں یوں فرمایا گیا۔
{وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاً } (الفرقان: ۳۲)
جن لوگوں نے کفر کیا کہا: کیوں نہ قرآن کو ایک ہی دفعہ نازل کر دیا گیا اسی طرح اس لئے تا کہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو مضبوط کر دیں۔

بشر ہونے کے ناطے انبیاء کے پہلو میں بھی دل دھڑکتا ہے۔ انہیں بھی دوسرے انسانوں کے طرح خوف و حزن اور رنج وملال سے یا فرحت وسرور سے اور ہنسنے اور رونے کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ انہیں بھی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ان کا ہمدرد ہو جو انہیں تسلی دے اور ثابت قدم رہنے کی نصیحت کرے۔ اس لئے جو اذیت وتکلیف آپ ﷺ کو پہنچتی تو سابقہ انبیاء کی مثالیں دے کر اس سخت اذیت وتکلیف میں آپ ﷺ کا حوصلہ بڑھایا جاتا اور آپ ﷺ کو تسلی دی جاتی کہ اس راہ کے مسافر صرف آپ نہیں بلکہ اور بھی تھے۔ صبر ورضا کا پیکر جس طرح وہ بنے آپ ﷺ بھی بنئے۔بدخواہوں کے مکرو فریب اور حزن وتنگ دلی سے نکالا اور کہا کہ ہم ان کی چالیں الٹی انہی پر پھیر دیں گے۔تثبیت قلب میں یہ بشارت بھی کم نہیں تھی کہ ہم آپ کو ان کی سازشوں اور مکاریوں سے بچائیں گے۔

اس کے ذرائع :
وقوع حادثہ کے وقت قرآن کا نازل ہونا آپﷺکے دل کی تقویت کا موجب بنتا۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس ہستی پر قرآن اتارا جا رہا ہے اللہ کے یہاں اس کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ پھر بار بار فرشتے کا آنا اور عہد بہ عہد تازہ قرآن کا نزول اس حد تک موجب مسرت ہے کہ الفاظ اس کی ادائیگی سے قاصر ہیں۔ آپ ﷺ کی تقویت قلب کے لئے جو ذرائع قرآن کے نزول کے لئے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۱۔ آیات کا دو بار نزول:
تثبیت ِقلب ِرسول ﷺ کا ایک منفردذریعہ یہ بھی تھا کہ پہلے سے نازل شدہ آیات کو دوبارہ دہرایا جاتا تھا او ران کے ذریعے سے نبی اکرم ﷺ کے دل کو مضبوط کیا جاتا تھا۔ مثلاً: معوذتین کے بارے میں ایک رائے یہ ہے کہ یہ سورتیں مکی ہیں جبکہ دوسری رائے کے مطابق مدنی ہیں۔ درست بات یہ ہے کہ یہ سورتیں ابتدائً مکہ میں اس وقت نازل ہوئیں جب وہاں مخالفت خوب زور پکڑ چکی تھی۔ بعد میں جب مدینہ میں مخالفت کے ہوشربا طوفان اٹھے تو پھر آپﷺ کو یہ سورتیں دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ پھر جب آپﷺ پر جادو ہوا تو حکم الٰہی سے جبرئیل ؑ نے آپ ﷺ کو دونوں سورتیں پڑھنے کی تلقین کی۔کیونکہ نبی اکرم ﷺ کو معلوم ہوتا کہ یہ آیات لکھوائی جاچکی ہیں تو انہیں دوبارہ نہ لکھوایا جاتا۔

۲۔ بدخواہوں کا علاج:
کبھی دشمن کی ناکامی، ان کے برے انجام کی خبر وغیرہ دے کر نبی اکرم ﷺ کی ڈھارس بندھائی جاتی تھی۔ اس لئے آپﷺ دشمن کی دھمکیوں اور وقتی نقصانات کو خاطر میں نہ لاتے۔مثلاً: جب آپﷺ کے صاحبزادوں کا انتقال ہوا تو کفار مکہ میں عاص بن وائل اور ابولہب نے انتہائی جلی کٹی باتیں کیں کہ (نعوذ باللہ) آپﷺ کی جڑ کٹ گئی ہے۔ یہ صورت حال نبی اکرم ﷺ کے لئے بہت تکلیف دہ تھی کیونکہ ایک طرف تو آپ ﷺپر بیٹوں کی وفات کی وجہ سے غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا جبکہ آپ ﷺ کے چند مٹھی بھر ساتھی بھی بے یارومدگار تھے اور دوسری طرف آپﷺ کو یہ خوشخبری دی گئی:
{إنَّ شَانِئَکَ ھُوَالأبْتَرْ¡}(الکوثر:۳)
بے شک آپ کا دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔

ایک اور جگہ پر یہ خبر آپ ﷺ کو ان الفاظ میں دی گئی:
{وَلَوْ قَاتَلَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوَلَّوُا الأدْبَارَ ثُمَّ لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَلَا نَصِیْراً¡}
اور اگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تم سے لڑیں گے تو یقیناً پشت پھیر لیں گے پھروہ کوئی دوست اور مدد گار نہ پائیں گے۔

۳۔ دفاع رسولﷺ:
کفار اور قریش اکثر نبی اکرم ﷺ پر الزامات لگاتے ؛ شاعر، مجنون، جادو گر او ر کاہن کہہ کر پکارتے تھے۔ ان حالات میں وحی کے ذریعے آپﷺ کا دفاع کیا جاتا اور آپﷺ کو ان الزامات سے بری قرار دیا جاتا۔مثلاً:
{إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیْمٍ ¢ وَمَا ہُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِیْلاً مَا تُؤْمِنُونَ ¢ وَلَا بِقَوْلِ کَاہِنٍ قَلِیْلاً مَا تَذَکَّرُونَ ¢ تَنزِیْلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ ¢} (الحاقۃ: ۴۰۔۴۳)
یقینایہ ایک معز ز رسول کا قول ہے، یہ کسی شاعر کا قول نہیں ہے کم ہی ہو جوتم ایمان لاتے ہو، اور نہ ہی کسی کاہن کی بات ہے تھوڑے ہو جو تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔ یہ تو رب العالمین کی طرف سے بتدریج نازل شدہ ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۴۔ حفاظت رسولﷺ:
اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی حفاظت کا جو ذمہ لیا تھا وقتا فوقتا اس کی یا ددہانی کرائی جاتی تا کہ آپﷺ کے اندر استقلال وبہادری اور جرأت وہمت کا جذبہ مزید ابھرے۔ مثلاً:
{وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ¢} (المائدہ: ۶۷)
اور اللہ تعالیٰ آپؐ کو لوگوں سے بچائے گا۔
{وَإِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ لِیُثْبِتُوکَ أَوْ یَقْتُلُوکَ أَوْ یُخْرِجُوکَ وَیَمْکُرُونَ وَیَمْکُرُ اللّہُ۔۔۔} (الانفال: ۳۰)
جب آپ کے بارے کفار یہ تدبیر سوچ رہے تھے کہ آپؐ کو قید کر لیں یا آپؐ کو قتل کر ڈالیں یا آپ کو خارج از وطن کر دیں۔ وہ اپنی تدبیر کر رہے تھے اوراللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا۔

۵۔ وعدہ نصرت :
رسول ﷺ اور اصحاب رسول ؓ کو تسلی دینے کی غرض سے درپیش مسائل میں مدد اورغلبہ دئیے جانے کا وعدہ کیا جاتا اور ساتھ ہی آئندہ فتح کا یقین بھی دلایا جاتا تھا۔ مثلاً:
{وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ¢ إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ ¢ وَإِنَّ جُنْدَنَا لَہُمُ الْغَالِبُونَ¢} (الصٓفٓت:۱۷۱۔۱۷۳)
اور یقینا ہمارا وعدہ پہلے ہی اپنے رسولوں کے لئے صادر ہو چکا ہے کہ یقینا وہ مدد کئے جائیں گے اور ہمارا ہی لشکر غالب و برتر ہو کررہے گا۔
{وَکَانَ حَقّاً عَلَیْْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ¢} (الروم: ۴۷)
مؤمنوں کی مدد کرنا ہمارے ذمہ حق ہے۔
{إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِیْناً ¢ ۔۔۔۔ نَصْراً عَزِیْزاً¢} (الفتح: ۱۔۳)
یقینا اے نبی! ہم نے آپؐ کوایک کھلم کھلا فتح دی ہے… اور اللہ آپؐ کو ایک زبردست مدد دے گا۔

درجہ بالا آیات آپ ﷺ کو مستقبل کے الٰہی منصوبے پر کس قدر حوصلہ دلاتی ہوں گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۶۔ گذشتہ انبیاء کے حالات:
گذشتہ انبیاء نے دعوت و تبلیغ کی راہ میں جو مشکلات اٹھائیں ان کے واقعات بیان کرکے بھی نبی اکرم ﷺ کے دل کو مضبوط کیا جاتا: {فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُل۔۔۔} (الأحقاف:۳۵)
آپؐ اس طرح ثابت قدم رہئے جس طرح کہ اولو العزم پیغمبر ثابت قدم رہے۔

ان اقوام کا انجام بھی یاد دلایاجاتا جو اپنے انبیاء کو جھٹلانے کے بعد قہر الٰہی کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہو گئیں اور یہ بھی بتایا جاتا کہ سنت اللہ یہی رہی ہے۔
{کُلاًّ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أنْبَائِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہِ فُؤادَکَ¢} ( ہود: ۱۲۰)
اور (اے نبیؐ) یہ پیغمبروں کے قصے جو آپ کو سناتے ہیں ان کے ذریعے ہم آپﷺ کے دل کو مضبوط کرتے ہیں۔

۷۔حفظ ِ قرآن پر قادر ہونا:
قرآن کو منجماً نازل کرنے کی ایک حکمت حفظ قرآن میں آسانی پیدا کرنا تھی کیوں کہ آپﷺ امی تھے اس لئے آپ ﷺ کے لئے یہ آسانی پیدا کردی گئی کہ نزول قرآن بتدریج ہوا تا کہ اس کے حفظ وفہم میں اور تعلیم وتبلیغ میں آسانی ہو۔اور مختلف اوقات میں نازل ہونے والے چھوٹے چھوٹے حصوں کو یاد کرنا بہت آسان ہو۔ اگر سارا قرآن اکٹھا نازل کر دیا جاتا تو یقیناً اس کے حفظ میں دشواری ہوتی۔
{لَاتُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ ِ¢ إِنَّ عَلَیْْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہ¢} (القیامہ:۱۶،۱۷)
اس وحی کو جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیجئے اس کو یاد کرانا اور اس کو پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔
{ سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسَیٰ¢} (الاعلیٰ:۶)
عنقریب ہم پڑھا دیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے۔

بعض علماء کے ہاں اطمینان قلب سے مراد آپﷺ کے سینہ میں قرآن کو محفوظ کر دینا ہے کیونکہ آپﷺ امی ہونے کے باعث لکھنے پڑھنے سے واقف نہ تھے اس لئے قرآن کو تدریجاً نازل کیا تا کہ دل میں بٹھانے کے بعد اس پر عمل اور دعوت عمل دونوںآسان ہوجائیں۔ جبکہ دیگر انبیاء پڑھے لکھے ہوتے تھے، اس لئے بیک وقت ان کے لئے کتاب نازل کردی گئی۔ محدث ابن فورکؒ لکھتے ہیں:
تورات بیک وقت اس لئے اتاری گئی کہ وہ سیدنا موسیٰ پر نازل ہوئی تھی جو پڑھے لکھے تھے اور قرآن کو تدریجی طور پر غیر مکتوب صورت میں اس لئے نازل کیا گیا کہ آپ ﷺنبی امی تھے۔(الاتقان ۱؍۷۱)

۸۔احکام شریعت میں تدریج:
عرب اپنی بری عادات واخلاق اور غیر انسانی کاموں میں اتنا آگے بڑھ چکے تھے اور اس قدر پختہ ہوچکے تھے کہ انہیں ایک دم سے روکنا ممکن نہ تھا۔ شرک جیسی عظیم گمراہی میں اہل عرب مبتلا تھے آخرت کے بارے میں ان کا عقیدہ انتہائی گمراہ کن تھا۔ ان کا خیال تھا اگر اللہ تعالی نے بالفرض ان کے اعمال کے بارے میں ان سے جواب دہی طلب کی تو ان کے بنائے ہوئے شریک سزا سے بچا لیں گے۔انہی باطل تصورات کی بیخ کنی کے لئے سب سے پہلے بنیادی عقائد یعنی عقیدہ توحید وآخرت پر زور دیا گیا پھر احکامات نازل ہوئے۔ اس حکمت کا اندازہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے ہوتا ہے ۔

سب سے پہلے جنت و جہنم کی آیات نازل ہوئیں جب لوگ اسلام میں داخل ہوئے توحلال و حرام کے مسائل و احکام نازل ہوئے۔ اگر چھوٹتے ہی یہ حکم نازل کر دیا جاتا کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم تو کبھی شراب نہ چھوڑیں ۔ اور اگر حکم ہوتا کہ زنا نہ کرو تو کہتے کہ ہم سے زنا ترک نہیں ہو سکتا۔(صحیح بخاری ۱/۱۸۵)

علامہ مکی بن أبی طالب قیسی (م ۴۳۷ھ) کہتے ہیں:
اگر قرآن بیک وقت نازل ہوتا تو اس میں بہت سے احکام و مناہی ہوتے جس کانتیجہ یہ ہوتا کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے۔(الاتقان ۱؍۷۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بذریعہ وحی ایک حکم آتا ۔ جب لوگ اس حکم پر عمل کے لئے تیار ہو جاتے تو پھر دوسرا حکم نازل کردیا جاتا ۔ اسے تدریج کہتے ہیں۔
تدریج کی مثال:
احکام شریعت میں تدریج کی سب سے اہم مثال شراب کی حرمت ہے جو تین مراحل میں ہوئی۔ لیکن ان سے قبل غیر محسوس طریقے سے شراب سے متنفر کرنے کی کوشش کی گئی۔ مثلاً:
{وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِیْلِ وَالأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْہُ سَکَراً وَرِزْقاً حَسَناً۔} (النحل: ۶۷)
اور کھجور و انگور کے درختوں کے پھلوں سے تم شراب بنا لیتے ہو اور عمدہ روزی بھی۔

سب سے پہلے ارشاد ہوا:
{یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِرِ قُلْ فِیْہِمَا إِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا۔۔۔} (البقرہ: ۲۱۹)
وہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دیجئے کہ ان میں بڑا گناہ ہے اور منافع ہے لوگوں کے لئے اور ان دونوں کا گناہ ان دونوں کے نفع سے زیادہ بڑا ہے۔
دوسرے مرحلے میں جزوی حرمت ہوئی اور ارشاد ہوا:
{یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لاَ تَقْرَبُواالصَّلٰوۃَ وَأَنتُمْ سُکٰرٰی حَتیّٰ تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ۔۔۔} (النساء:۴۳)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ جاننے لگ جاؤ جو تم کہتے ہو۔

سب سے آخری مرحلے میں قطعی حرمت کے ضمن میں ارشاد ہوا:
{ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْاإِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْْسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ¢} (المائدہ: ۹۰)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہوبے شک شراب اور جوا ، بت اور پانسے گندگی ہیں، شیطان کے اعمال میں سے ہیں۔ پس ان سے بچو تا کہ تم فلاح پاؤ۔

تدریج میں وحی جہاں رسول اللہ ﷺ کے احوال سے مطابقت کرتی رہی وہاں وحی مسلمانوں کے حالات کے ساتھ بھی ہم آہنگ رہی اور یوں اس کی پوشیدہ حکمتیں عیاں ہوئیں۔ مزیدمرحلہ تدریج کو بھی تربیت فرد وقوم کا ایک آفاقی اصول مان لیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
۹۔ رسول اکرم ؐ پر رحمت و شفقت:
قرآن کا تدریجی نزول اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اکرم ﷺ پرخاص رحمت و شفقت کی علامت ہے کیونکہ اگر ایک دم سب کچھ بتا دیا جاتا کہ یہ چیزیں حلال ہیں اور یہ حرام۔ قوم سے یہ کام کروانے ہیں۔ فلاں وقت آپﷺ کو یہ مشکلات پیش آئیں گی۔ یہ سوالات آپﷺ سے پوچھے جائیں گے ۔وغیرہ۔تو آپ ﷺ خود مشکل میں پڑ جاتے لہذا قرآن کو تدریجاً نازل کیا گیا تا کہ آپﷺ پر رحمت و شفقت ہو۔اللہ تعالی فرماتے ہیں:
{طٰٰہٰ¢مَا أَنزَلْنَا عَلَیْْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَیٰ ¢} (طہٰ:۱۔۲)
ہم نے یہ قرآن آپؐ پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ آپ مشکل میں پڑجائیں۔

۱۰۔ مشکلات اور ان کا حل:
قرآن رفتہ رفتہ نازل ہو کررسول اکرم ﷺ اور اہل ایمان کی تعلیم و تربیت اور مشکلات میں رہنمائی کرتا رہا۔ مثلاً: غزوہ بدر کے موقع پر قیدیوں کے بارے میں ہدایات دی گئیں:
{مَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَّکُونَ لَہُ أَسْرَی حَتّٰی یُثْخِنَ فِیْ الأَرْضِ تُرِیْدُونَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّہُ یُرِیْدُ الآخِرَۃَ وَاللّہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم¢} (الأنفال: ۶۷)
کسی نبی کے لئے یہ روا نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ خوب زمین میں خون بہائے ۔ تم دنیا کا مال چاہتے ہو اوراللہ آخرت چاہتا ہے۔ اللہ غالب حکمت والا ہے۔

غزوہ حنین کے موقع پر مسلمانوں کو اپنی کثرت تعداد پر بہت ناز تھا اور ان کا خیال تھا کہ وہ طاقت او رتعداد کے بل بوتے پر فتح حاصل کر لیں گے لیکن انہیں وقتی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
{لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّّٰہُ فِیْ مَوَاطِنَ کَثِیْرَۃٍ وَّیَوْمَ حُنَیْْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنکُمْ شَیْْئاً وَضَاقَتْ عَلَیْْکُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْْتُم مُّدْبِرِیْنَ¢} (التوبہ:۲۵)
اللہ تمہاری بہت سے مواقع پر مدد کر چکا ہے اورحنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہورہا تھا مگر وہ تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی اور زمین باوجود کشادگی کے تم پر تنگ ہو گئی تھی۔ پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔

عہد نبویﷺ میں ایک منافق نے زرّہ چوری کر کے ایک یہودی کے گھر چھپا دی اور اس پر چوری کا الزام لگادیا۔ قریب تھا کہ نبی اکرم ﷺ یہودی کے خلاف فیصلہ دے دیتے لیکن بروقت اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی رہنمائی کی اور حقیقت حال سے آگاہ کردیا۔
{وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْْکَ وَرَحْمَتُہُ لَہَمَّتْ طَّآئِفَۃٌ مُّنْہُمْ أَنْ یُّضِلُّوکَ ط وَمَا یُضِلُّونَ إِلاُّ أَنفُسَہُمْ وَمَا یَضُرُّونَکَ مِن شَیْْء ٍ وَّأَنْزَلَ اللّہُ عَلَیْْکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُط وَکَانَ فَضْلُ اللّہِ عَلَیْْکَ عَظِیْماً¢} (النساء:۱۱۳)
اے نبی! اگر آپ پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گرو ہ نے آپ کو گمراہ کرنے کا ارادہ کر لیا تھاحالانکہ وہ اپنے آپ کو گمراہ کر رہے تھے اور وہ آپ ؐ کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکتے تھے ۔ اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی اور آپ کو وہ سکھایا جو آپ نہ جانتے تھے۔ اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
نبی اکرمﷺ بہترین صفات کے حامل ہونے کے باوجود بشر تھے۔ کچھ دنیاوی معاملات میں آپ ﷺ سے غلطی ہو جانے کا امکان بہرحال موجود تھا۔ آپﷺ کے اعلیٰ و ارفع مقام کی وجہ سے چھوٹے سے چھوٹے قصور کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہذا فوراً آپﷺ کو تنبیہ کر دی جاتی تھی۔ مثلاً:
٭ …نبی اکرم ﷺ نے اپنے اوپر شہد حرام کر لیا تھا۔ جس پر ارشاد باری تعالیٰ ہوا :

{ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّہُ لَکَ ۔۔۔} (التحریم: ۱)
اے نبیؐ آپ نے وہ حرام کیوں کیا جو اللہ نے آپؐ کے لئے حلال کیا تھا۔

٭ … ایک دفعہ نبی اکرمﷺ سرداران قریش کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے کہ صحابی ابن مکتومؓ تشریف لائے جو نابینا تھے۔ نبیﷺ کو اس موقع پر ان کی مداخلت پسند نہ آئی۔ اس پر فوراً ارشاد باری ہوا:
{عَبَسَ وَتَوَلَّیٰ¢ أنْ جَائَ ہُ الأعْمَیٰ¢}(عبس ۱۔۲)
ناراض ہوا اور اس نے منہ موڑا کہ اس کے پاس اندھا آیا۔

٭… کفار ویہود نبی اکرم ﷺ کی رسالت کے سچ ہونے کا امتحان لینے کی غرض سے آپؐ سے وقتاً فوقتاً سوالات پوچھتے رہتے تھے۔ جن کا تعلق کبھی ماضی، کبھی حال اور کبھی مستقبل سے ہوتا تھا۔جن کا جواب دینا وحی کے بغیر ممکن نہ تھا۔ مثلاً انہوں نے دریافت کیا:

٭ … روح کے بارے میں بتائیے کہ وہ کیا ہے؟ چند نوجوانوں کا کیا ہوا جو کچھ عرصہ کے لئے گم ہوگئے تھے؟ وہ کون تھا جو زمین کے مشرق ومغرب پہنچ گیا تھا؟ خاندان یعقوب کس طرح مصر پہنچا؟ وغیرہ ۔ ان کا جواب مختلف سورتوں میں دے دیا گیا۔ یہ قصے بنی اسرائیل کی تاریخ سے متعلق تھے اور عربوں میں غیر معروف تھے۔ ان قصوں کا انتخاب اس لئے کیا گیا تھا کہ واضح ہو جائے کہ نبی ؐ کے پاس کوئی غیبی ذریعہ علم ہے یا نہیں۔اس لئے سورہ یوسف وکہف نازل ہوئیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
٭… لوگ آپ ﷺ کے پاس آکر موجودات اور مشاہدات سے متعلق سوالات کرتے جن کا جواب سوال ذکر کرکے دیا جاتا:
{یَسْأَلُونَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْْسِر۔۔}(البقرۃ:۲۱۹) {یَسْأَلُونَکَ مَاذَا یُنفِقُونَ۔۔} (البقرۃ:۲۱۵) {وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیْض۔۔۔}(البقرۃ:۲۲۲){یَسْأَلُونَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہ۔۔} (البقرۃ:۲۱۷){یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأہِلَّۃِ۔۔۔ }(البقرۃ:۱۸۹) وغیرہ ۔
وحی میں مسلمانوں کو آگاہ کیا جاتا کہ کفار کے مکر وشر سے ہوشیار رہیں اور اپنا بچاؤ بھی کرتے رہیں۔اہل کتاب یا لادین لوگ جو اسلام، قرآن اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں اپنے مکروفریب اور شبہات کے جال پھیلاتے ان سے بھی آگاہ کیا جاتا اوران کی تردید بھی اس عرصے میں ہوجاتی۔ بعض اوقات کوئی ایسی مشکل پیش آتی جس کا فوری حل نبی اکرمؐ کے پاس نہ ہوتا ۔ ایسی صورت میں بذریعہ وحی اس مشکل کا ازالہ کر دیاجاتا ۔ مثلًاظہار اورلعان وغیرہ کے احکام ایسے ہی حالات میں نازل ہوئے۔

مقدارنزول:
مختلف حالات و واقعات کے پیش نظر قرآن کریم نازل ہوا۔ کبھی پوری سورت نازل ہوئی تو کبھی چند آیات اور کبھی آیات کا بھی کچھ حصہ۔ جنہیں علماء نے اس طرح تقسیم کیا ہے:

۱۔ آیات ۲۔ قصار سورتیں ۳۔ طوال سورتیں

…آیات بھی ضرورت کے مطابق کبھی پانچ یا اس سے زیادہ نازل ہوتیں۔ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں ہمیں صبح کے وقت آپ ﷺ پانچ آیات سکھاتے اور پانچ آیات شام کے وقت اور ہم سے آپ ﷺ ارشاد فرماتے کہ جبریلؑ پانچ پانچ آیات لے کر نازل ہوئے۔

…ایک وقت میں مکمل نازل ہونے والی سورتوں میں سورۃ الضحیٰ، الکوثر، الفلق، الا خلاص، الفاتحہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان چھوٹی (قصار)سورتوں کے علاوہ بڑی (طوال) سورتوں میں سے سورۃ الأنعام ایک وقت میں بغیر کسی وقفے کے نازل ہوئی۔

…متفرق آیات میں سے سورہ علق کی پہلی پانچ آیات، سورہ نور کی دس آیات اور سورہ مؤمنون کی پہلی گیارہ آیات ایک دفعہ میں نازل ہوئی۔

…بعض اوقات ایک آیت کا نزول ہوا۔ مثلاً:
{ ۔۔۔وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ إِن شَاء۔۔} (التوبہ: ۲۸)
اگر تمہیں مفلسی کا ڈر ہے تو اللہ نے چاہا تو اپنے فضل سے تمہیں دولتمند کر دیگا۔

… بعض اوقات ایک آیت کا کچھ حصہ بھی نازل ہوا۔ مثلاً:
{مِنَ الْفَجْرِ } کے الفاظ اس آیت میں {۔۔۔وَکُلُواْ وَاشْرَبُواْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْْطُ الأَبْیَضُ مِنَ الْخَیْْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۔۔۔} (البقرۃ:۱۸۷)(متفق علیہ)
یا
{ لاَّ یَسْتَوِیْ الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْْرُ أُوْلِیْ الضَّرَرِ وَالْمُجَاہِدُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ ۔۔۔} (النساء:۹۵) مؤمنوں میں سے بیٹھ رہنے والے سوائے ان کے جو معذور ہیں اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔

اس آیت میں صرف {غَیْْرُ أُوْلِیْ الضَّرَرِ}کے الفاظ ایک دفعہ نازل ہوئے ۔

آخری آیات کون سی نازل ہوئی تھیں؟ اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ علماء نے جو کچھ بھی اس سلسلے میں کہا ہے یا لکھا ہے یہ سب ان کے اپنے اپنے علم کی بنا پر ہے ۔ ان میں سے کوئی قول بھی رسول اکرم ﷺ سے مرفوعاً ثابت نہیں۔ بلکہ ہر ایک کی ایک اجتہادی کوشش ہے۔یا ۔۔بقول ابن العربی۔۔ یہ بھی احتمال ہے کہ روز وفات اس نے نبی کریم ﷺ سے وہی آیت سنی ہو جسے وہ آخری کہہ رہا ہے۔یا جو آیات آپ پرنازل ہوئیں انہیں آپ نے تلاوت فرمایا ہو اور اس نے یہ سمجھا ہو کہ آپ ﷺ کی تلاوت شدہ آخری آیت ہی آخری آیت ہے جو نازل ہوئی۔(الاتقان ۱؍۳۷)

٭٭٭٭٭
قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
 
Top