- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
قرآن کے منجماً نزول کی حکمتیں :
قرآن کریم کا تدریجی نزول بے شمار فوائد و اسرار پر مشتمل ہے۔ اگر اس تدریجی نزول میں کوئی حکمت و مصلحت نہ ہوتی تو دیگر کتب مقدسہ کی طرح اس کو بھی دفعۃً نازل کر دیا جاتا مگر حکمت ربانی یہ چاہتی تھی کہ قرآن کریم ، دیگر کتب سے ممتاز رہے اس لئے قرآن کو اولاً پہلے آسمان پر دفعۃً نازل کیا اور پھر وہاں سے بالأقساط تدریجاً اتارا گیا۔ اس طرح قرآن مجید کو دونوں اوصاف ( دفعتاً اور تدریجاً) سے متصف کر کے اسے دیگر کتب مقدسہ کے مقابلہ میں اعلیٰ و اولیٰ مقام عطا کر دیا۔مزید حکمتیں درج ذیل ہیں۔
اطمینانِ قلب: نبی اکرم ﷺ کو تبلیغ کے دوران انتہائی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ۔جبرائیل علیہ السلام کا بار بار قرآن لے کر آنا ان اذیتوں کو آسان بنا دیتا تھا جو آپ ﷺ تبلیغ دین کی راہ میں سہ رہے تھے۔ان کی آمد ورفت آپﷺ کے لئے تقویت قلب کا باعث بنتی۔آپ ﷺ کے چچا ابوطالب سے اہل مکہ نے شکوہ کیا تو ابوطالب نے آپ ﷺ سے کہا: بھتیجے!تمہارے چچا زاد شکوہ کناں ہیں کہ تم ان کی مجالس ومعبدوں میں آآکر انہیں اذیت دیتے ہو؟ اب اس سے باز آجاؤ۔ آپ ﷺ نے یہ سنتے ہی آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا:
مَا أَنَا بِأَقْدَرٍ عَلَی أَنْ أَدَعَ لَکُمْ ذَلِکَ عَلَی أَنْ تُشْعِلُوْا لِیْ مِنْہَا شُعْلَۃً۔
میں اتنی بھی جرات نہیں کر سکتا کہ تمہارے لئے اس مشن کو اس شرط پرترک کردوں کہ تم میرے لئے سورج سے ایک جگمگاتا شعلہ لے آؤ۔(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۹۲)
سورج ہاتھ پر رکھنے والی حدیث شیخ البانی ؒنے سنداً غیر ثابت بتائی ہے۔اگر قرآن لکھا ہوا ایک کتاب کی صورت میں نبی اکرم ﷺ کو دے دیا جاتا تو مشکل حالات میں صرف اسے پڑھ لینے سے کبھی تسکین نہ ہوتی جو اس وقت نزول وحی سے ہوتی تھی۔ اس حکمت کو قرآن کریم میں یوں فرمایا گیا۔
{وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاً } (الفرقان: ۳۲)
جن لوگوں نے کفر کیا کہا: کیوں نہ قرآن کو ایک ہی دفعہ نازل کر دیا گیا اسی طرح اس لئے تا کہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو مضبوط کر دیں۔
بشر ہونے کے ناطے انبیاء کے پہلو میں بھی دل دھڑکتا ہے۔ انہیں بھی دوسرے انسانوں کے طرح خوف و حزن اور رنج وملال سے یا فرحت وسرور سے اور ہنسنے اور رونے کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ انہیں بھی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ان کا ہمدرد ہو جو انہیں تسلی دے اور ثابت قدم رہنے کی نصیحت کرے۔ اس لئے جو اذیت وتکلیف آپ ﷺ کو پہنچتی تو سابقہ انبیاء کی مثالیں دے کر اس سخت اذیت وتکلیف میں آپ ﷺ کا حوصلہ بڑھایا جاتا اور آپ ﷺ کو تسلی دی جاتی کہ اس راہ کے مسافر صرف آپ نہیں بلکہ اور بھی تھے۔ صبر ورضا کا پیکر جس طرح وہ بنے آپ ﷺ بھی بنئے۔بدخواہوں کے مکرو فریب اور حزن وتنگ دلی سے نکالا اور کہا کہ ہم ان کی چالیں الٹی انہی پر پھیر دیں گے۔تثبیت قلب میں یہ بشارت بھی کم نہیں تھی کہ ہم آپ کو ان کی سازشوں اور مکاریوں سے بچائیں گے۔
اس کے ذرائع :
وقوع حادثہ کے وقت قرآن کا نازل ہونا آپﷺکے دل کی تقویت کا موجب بنتا۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس ہستی پر قرآن اتارا جا رہا ہے اللہ کے یہاں اس کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ پھر بار بار فرشتے کا آنا اور عہد بہ عہد تازہ قرآن کا نزول اس حد تک موجب مسرت ہے کہ الفاظ اس کی ادائیگی سے قاصر ہیں۔ آپ ﷺ کی تقویت قلب کے لئے جو ذرائع قرآن کے نزول کے لئے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
قرآن کریم کا تدریجی نزول بے شمار فوائد و اسرار پر مشتمل ہے۔ اگر اس تدریجی نزول میں کوئی حکمت و مصلحت نہ ہوتی تو دیگر کتب مقدسہ کی طرح اس کو بھی دفعۃً نازل کر دیا جاتا مگر حکمت ربانی یہ چاہتی تھی کہ قرآن کریم ، دیگر کتب سے ممتاز رہے اس لئے قرآن کو اولاً پہلے آسمان پر دفعۃً نازل کیا اور پھر وہاں سے بالأقساط تدریجاً اتارا گیا۔ اس طرح قرآن مجید کو دونوں اوصاف ( دفعتاً اور تدریجاً) سے متصف کر کے اسے دیگر کتب مقدسہ کے مقابلہ میں اعلیٰ و اولیٰ مقام عطا کر دیا۔مزید حکمتیں درج ذیل ہیں۔
اطمینانِ قلب: نبی اکرم ﷺ کو تبلیغ کے دوران انتہائی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ۔جبرائیل علیہ السلام کا بار بار قرآن لے کر آنا ان اذیتوں کو آسان بنا دیتا تھا جو آپ ﷺ تبلیغ دین کی راہ میں سہ رہے تھے۔ان کی آمد ورفت آپﷺ کے لئے تقویت قلب کا باعث بنتی۔آپ ﷺ کے چچا ابوطالب سے اہل مکہ نے شکوہ کیا تو ابوطالب نے آپ ﷺ سے کہا: بھتیجے!تمہارے چچا زاد شکوہ کناں ہیں کہ تم ان کی مجالس ومعبدوں میں آآکر انہیں اذیت دیتے ہو؟ اب اس سے باز آجاؤ۔ آپ ﷺ نے یہ سنتے ہی آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا:
مَا أَنَا بِأَقْدَرٍ عَلَی أَنْ أَدَعَ لَکُمْ ذَلِکَ عَلَی أَنْ تُشْعِلُوْا لِیْ مِنْہَا شُعْلَۃً۔
میں اتنی بھی جرات نہیں کر سکتا کہ تمہارے لئے اس مشن کو اس شرط پرترک کردوں کہ تم میرے لئے سورج سے ایک جگمگاتا شعلہ لے آؤ۔(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۹۲)
سورج ہاتھ پر رکھنے والی حدیث شیخ البانی ؒنے سنداً غیر ثابت بتائی ہے۔اگر قرآن لکھا ہوا ایک کتاب کی صورت میں نبی اکرم ﷺ کو دے دیا جاتا تو مشکل حالات میں صرف اسے پڑھ لینے سے کبھی تسکین نہ ہوتی جو اس وقت نزول وحی سے ہوتی تھی۔ اس حکمت کو قرآن کریم میں یوں فرمایا گیا۔
{وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیْلاً } (الفرقان: ۳۲)
جن لوگوں نے کفر کیا کہا: کیوں نہ قرآن کو ایک ہی دفعہ نازل کر دیا گیا اسی طرح اس لئے تا کہ ہم اس کے ذریعے تمہارے دل کو مضبوط کر دیں۔
بشر ہونے کے ناطے انبیاء کے پہلو میں بھی دل دھڑکتا ہے۔ انہیں بھی دوسرے انسانوں کے طرح خوف و حزن اور رنج وملال سے یا فرحت وسرور سے اور ہنسنے اور رونے کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ انہیں بھی ضرورت ہوتی ہے کہ کوئی ان کا ہمدرد ہو جو انہیں تسلی دے اور ثابت قدم رہنے کی نصیحت کرے۔ اس لئے جو اذیت وتکلیف آپ ﷺ کو پہنچتی تو سابقہ انبیاء کی مثالیں دے کر اس سخت اذیت وتکلیف میں آپ ﷺ کا حوصلہ بڑھایا جاتا اور آپ ﷺ کو تسلی دی جاتی کہ اس راہ کے مسافر صرف آپ نہیں بلکہ اور بھی تھے۔ صبر ورضا کا پیکر جس طرح وہ بنے آپ ﷺ بھی بنئے۔بدخواہوں کے مکرو فریب اور حزن وتنگ دلی سے نکالا اور کہا کہ ہم ان کی چالیں الٹی انہی پر پھیر دیں گے۔تثبیت قلب میں یہ بشارت بھی کم نہیں تھی کہ ہم آپ کو ان کی سازشوں اور مکاریوں سے بچائیں گے۔
اس کے ذرائع :
وقوع حادثہ کے وقت قرآن کا نازل ہونا آپﷺکے دل کی تقویت کا موجب بنتا۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس ہستی پر قرآن اتارا جا رہا ہے اللہ کے یہاں اس کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ پھر بار بار فرشتے کا آنا اور عہد بہ عہد تازہ قرآن کا نزول اس حد تک موجب مسرت ہے کہ الفاظ اس کی ادائیگی سے قاصر ہیں۔ آپ ﷺ کی تقویت قلب کے لئے جو ذرائع قرآن کے نزول کے لئے ثابت ہیں وہ درج ذیل ہیں۔