• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن خوانی کی شرعی حیثیت

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ
اس تعریف کے تحت فرض کے علاوہ کوئی بھی نماز نہ پڑھنا باعث گناہ نہیں ۔ ایک حدیث کے مطابق جس کی نمازیں کم ہوں گی کہا جائے کہ نفل میں سے پوری کرلو۔ اس روایت میں بھی سنت نماز کا ذکر نہیں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس تعریف کے تحت فرض کے علاوہ کوئی بھی نماز نہ پڑھنا باعث گناہ نہیں ۔
درست، لیکن اوپر بیان کردہ حدیث کی کے مصداق ہونے سے بچتے ہوئے! جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ''جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں!''
ایک حدیث کے مطابق جس کی نمازیں کم ہوں گی کہا جائے کہ نفل میں سے پوری کرلو۔ اس روایت میں بھی سنت نماز کا ذکر نہیں۔
یہاں نوافل سے مراد فقہی سنت مؤکدہ ، غیر مؤکدہ اور نوافل کی تقسیم والے نوافل نہیں، بلکہ صلاة مكتوبہ اور غیر مكتوبہ والے یعنی کہ وہ نمازیں جو فرض نہیں ، وہ نوافل کا ذکر ہے، اور نوافل کے اس معنی میں سنت مؤكدہ و سنت غیر مؤکدہ بھی شامل ہیں!
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اہل علم سے ایک گذارش اور هے کہ کیا اجتماعی طور پر قرآن کریم پڑهنا، سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم هے یا صحابہ الکرام رضی اللہ عنہم کے اعمال سے ثابت هے؟ جس طرح کے آج کل عموما برصغیر میں اس کا مشاہدہ عام هے ، مثلا هر شخص ایک ہی جگہ پر اجتماعی طور پر پڑهتا هے؟
موضوع کی مناسبت سے اس پر علمی باتیں ان شاء اللہ میری طرح عام قارئین کے لیئے مفید هونگی ۔
 

umaribnalkhitab

مبتدی
شمولیت
مارچ 26، 2017
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
18
جزاکم اللہ خیرا احسن الجزاء

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 

umaribnalkhitab

مبتدی
شمولیت
مارچ 26، 2017
پیغامات
75
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
18
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری
قریب الموت، میت اور قبرپر قرآن پڑھنا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی زندگیوں میں اس کا ہرگز ثبوت نہیں ملتا۔ تیجہ، قل، جمعرات کا ختم اور چہلم وغیرہ بدعات وغیر اسلامی رسومات ہیں۔
واضح رہے کہ قرآن و حدیث اور اجماع سے ایصال ثواب کی جو صورتیں ثابت ہیں، مثلا دعا، صدقہ وغیرہ، ہم ان کے قائل وفاعل ہیں۔ قرآن خوانی کے ثبوت پرکوئی دلیل شرعی نہیں، لہذا یہ بدعت ہے۔ اہل بدعت نے اسے شکم پروری کا بہترین ذریعہ بنا کر اپنے دین کا حصہ بنا لیا ہے۔
مبتدعین کے مزعومہ دلائل کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر۱:
نبی اکرمﷺکا گزر دو قبروں سے ہوا، ان کو عذاب ہو رہا تھا، ان میں سے ایک اپنے پیشاب کی چھینٹوں سے اجتناب نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا۔
ثمّ أخذ جریدۃ رطبۃ، فشقّھا بنصفین، ثّمّ غرز فی کلّ قبرواحدۃ، قالوا: یا رسول اللہ! لم صنعت ھذا؟ فقال لعلّہ أن یخفّف عنھما ما لم ییبسا۔۔۔
‘‘پھر آپﷺ نے ایک کھجور کی ایک تازہ ٹہنی لی، اسے دو حصوں میں تقسیم کیا، پھر ہر قبر پر ایک کو گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا ہےِ؟ فرمایا، شاید کہ جب تک یہ دونوں خشک نہ ہوں، اللہ تعالی ان دونوں کے عذاب میں تخفیف کر دے۔’’
(صحیح بخاری:۱۸۲/۱،ح:۱۳٦۱، صحیح مسلم:۱٤۱/۱، ح:۲۹۲)
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
استحبّ العلماء قراءۃ القرآن لھذا الحدیث، لأنّہ إذا کان یرجی التّخفیف بتسبیح الجرید، فتلاوتہ أولیٰ،واللہ أعلم!
‘‘اس حدیث میں علماء کرام نےقرآن کریم کی تلاوت کومستحب سمجھاہے،کیونکہ جب ٹہنی کی تسبیح کی وجہ سےعذاب میں تخفیف کی امید کی جاتی ہےتوقرآن کریم کی تلاوت بالاولٰی ایسےہوگی۔
واللہ اعلم!’’
(شرح صحیح مسلم للنووی:۱٤۱/۱)

تبصرہ:
اس حدیث سے قرآن خوانی کے ثبوت پر استدلال جائز نہیں، کیونکہ خیرالقرون میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں، نیز اس میں کہیں ذکر نہیں کہ عذاب میں تخفیف ان ٹہنیوں کی تسبیح کی وجہ سے ہوئی، لہٰذایہ قیاس مع الفارق ہے، نیزیہ نبی اکرم ﷺ کا خاصہ تھا۔ عذاب میں یہ تخفیف نبی اکرمﷺ کی دعا و شفاعت کی وجہ سے ہوئی، جیسا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إنّی مررت بقبرین یعذّبان، فأحببت بشفاعتی أن یرفّّہ ذاک عنھما، مادام الغصنان رطبین۔
‘‘ میں دو ایسی قبروں کے پاس سے گزرا، جن (کے مردوں)کو عذاب دیا جارہا تھا۔ میں نے شفاعت کی وجہ سے چاہا کہ یہ عذاب ان سے ہلکا ہو جائے، جب تک دونوں ٹہنیاں تَررہیں۔’’
(صحیح مسلم: ٤۱۸/۲، ح:۳۰۱۲)
ان دو مختلف واقعات میں علت ایک ہی ہے۔ اسی طرح ایک تیسرا واقعہ سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
( صحیح ابن حبان:۸۲٤، وسندہ حسنٌ)

نیز دیکھیں: (مصنف ابن ابی شیبہ:۳ /۳٧٦، مسندالامام احمد:٤٤۱/۲ عذاب القبر اللبیھقی:۱۲۳، وسندہ حسنٌ)
فائدہ: مورّق العجلی کہتے ہیں:
أوصیٰ بریدہ الأسلمّی أن توضع فی قبرہ جریدتان، فکان مات بأذنی خراسان، فلم توجہ إلّا فی جوالق حمار۔
‘‘سیدنا بریدہ الاسلمی رضی اللہ عنہ نےوصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں رکھی جائیں، آپ رضی اللہ عنہ خراسان کے علاقے میں فوت ہوئے، وہاں یہ ٹہنیاں صرف گدھوں کے چھٹوں میں ملیں۔’’
(الطبقات لابن سعد:۸/۷، وسندہ صحیحٌ ان صحٌ سماع مورق عن بریدۃ)
بشرطِ صحت یہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی اپنی ذاتی رائے معلوم ہوتی ہے۔ انہوں نے قبر پر دو ٹہنیاں رکھنے کا حکم دیا تھا، نبی اکرمﷺ کی طرح عذاب سے تحفیف کی غرض سے گاڑنے کا حکم نہیں دیا۔
فائدہ:
سیدنا ابوبرزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ والی روایت (تاریخ بغداد ١٨٢/١-١٨٣) ‘‘ضعیف’’ ہے۔ اس کے دوراویوں الشاہ بن عمار اور النضر بن المنذر بن ثعلبہ العبدی کے حالات نہیں مل سکے، دوسری بات یہ کہ قتادہ رحمہ اللہ ‘‘مدلس’’ ہیں۔ ان کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی صحابی سے سماع ثابت نہیں۔ (جامع التحصیل فی احکام المراسیل:۲۵۵)

دلیل نمبر ۲:
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اقرأوا علی موتاکم یٰسین۔
‘‘اپنے قریب المرگ لوگوں پر سورہ یٰسٓ کی قرائت کرو۔’’
(مسند الامام احمد:٥/٢٦ ،سنن ابی داؤد:۳۱۲۱، السنن للنسائی:۱۰۹۱٤، سنن ابن ماجہ: ۱٤٤۸)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان(۳۰۰۲)اور امام حاکم(اتحاف المھرۃ لابن حجر)رحمۃ اللہ علیھما نے ‘‘صحیح’’ کہا ہے۔
یہ امام ابن حبان اور امام حاکم کا تساہل ہے، جبکہ اس کی سند ‘‘ضعیف’’ ہے۔ اس کی سند میں ابو عثمان کے والد، جو کہ ‘‘مجہول’’ ہیں، ان کی زیادت موجود ہے۔ یہ ‘‘المزید فی متصل الاسانید’’ ہے۔ ابو عثمان نے سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے سماع کی تصریح نہیں کی، لہذا سند‘‘ضعیف’’ ہوئی۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أراد بہ من حضرتہ المنیّۃ لا أنّ المیّت یقرأ علیہ، وکذلک قولہ صلّی اللہ علیہ و سلّم: ((لقّّّّنوا موتاکم: لا إلہ إلّا اللہ))۔
‘‘اس حدیث سےآپﷺ نے قریب الموت شخص مراد لیا ہے، نہ کہ میت پر قرآن پڑھا جانا، اسی طرح آپﷺ کا فرمان کہ اپنے مردوں کو لاالہ الااللہ کی تلقین کرو(یہ بھی قریب المرگ کے لیے ہے، میت کے لیے نہیں)۔’’
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے۔
(الروح لابن القیم:ص۱۱)

فائدہ نمبر ۱:
قال صفوان(بن عمرو): حدّثنی المشیخۃ أنّھم حضروا غضیف بن الحارث الثّّمالی، قال: فکان المشیخۃ یقولون:إذا قرأت عند المیّت(یعنی یٰسٓ) خفّف عنہ بھا۔
‘‘صفوان بن عمرو نے کہا، مجھے بوڑھوں نے خبردی کہ وہ غضیف بن حارث ثمالی کے پاس حاضر ہوئے، وہ بوڑھے کہتے تھے کہ جب تو میت کے پاس سورہ یٰس کی قرائت کرے گا تواس کی وجہ سے میت کے عذاب میں تخفیف ہوگی۔’’
(مسندلامام احمد:٤/١٠٥)
یہ بوڑھے نامعلوم ہیں لہذا سند‘‘مجہول’’ ہونے کی وجہ سے ‘‘ضعیف’’ ہے۔
اس لیے حافظ ابن حجررحمہ اللہ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ٣/١٨٤) کا اس سند کو ‘‘حسن’’ قرار دینا صحیح نہیں۔
فائدہ نمبر ۲:
سیدنا ابوالدرداء اور سیدنا ابوذرغفاری رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا:
ما من میّت، فیقرأعندہ یٰسٓ إلّا ھونّ اللہ عزّوجلّ علیہ۔
‘‘جو میت مرتی ہے اور اس پر سورہ یٰس کی قرائت کی جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر آسانی کر دیتے ہیں۔’’
(مسند الفردوس:٦۰۹۹، التلخیص الحبیر لابن حجر:٢/١٠٤)

اس کی سند ‘‘موضوع’’ (من گھڑت) ہے۔ اس میں مروان بن سالم الغفاری‘‘متروک ووضاع’’ ہے۔
دلیل نمبر ۳:
سیدنا علی ضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘جو کوئی قبرستان سے گزرے اور سورہ اخلاص اکیس مرتبہ پڑھ کر اس کا ثواب مردوں کو بخش دے تواس کوتمام مردوں کی گنتی کے برابر ثواب دیا جائے گا۔’’
(تاریخ قزوین: ۲۹۷/۲)
تبصرہ:
یہ سخت ترین‘‘ ضعیف’’ راویت ہے، اس کے راوی داؤد بن سلیمان الغازی کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں۔
اس بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کذّبہ یحیی بن معین، ولم یعرفہ أبو حاتم، وبکلّ حال فھو شیخ کذّاب، لہ نسخۃ موضوعۃ عن علی بن موسیٰ الرّضا، رواھا علیّ بن محمّد بن مھرویہ القزوینّی الصدوق عنہ۔
‘‘ اسے امام یحیٰی بن معین نے کذاب کہاہے، امام ابوحاتم نے ان کو نہیں پہچانا۔ بہر حال وہ جھوٹا شیخ ہے۔ اس کے پاس علی بن موسیٰ الرضا کا ایک نسخہ تھا، جسے علی بن محمد مہرویہ صدوق نے اس سے بیان کیاہے۔’’
(میزان الاعتدال للذھبی:۸/۲ )
اس درجہ کے راویوں کی روایت سے حجت پکڑنا اہل بدعت ہی کی شان ہے!
دلیل نمبر ٤:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘جوکوئی قبرستان میں داخل ہو اور سورہ یٰسٓ تلاوت کرے تو ان قبرستان والوں سے اللہ تعالی عذاب میں تخفیف فرماتا ہے اور پڑھنے والے کو مردوں کی تعداد کے مطابق نیکیاں ملیں گی۔
(شرح الصدور للسیوطی: ص٤۰٤)
تبصرہ:
یہ روایت جھوٹ کا پلندہ ہے۔ محدث البانی رحمہ اللہ نے اس کی یہ سند ذکر کی ہے:
أخرجہ الثّعلبّی فی تفسیرہ (۲/۱٦۱/۳) من طریق محمد بن أحمد الرّیاحی، حدّثنا أبی، حدّثنا أیّوب بن مدرک عن أبی عبیدہ عن الحسن عن أنس بن مالک۔۔۔۔
(السلسلۃ الضعیفۃ:۱۲٤٦)
۱۔ اس کے راوی ایوب بن مدرک کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ‘‘کذاب’’ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ ، امام نسائی رحمہ اللہ اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ‘‘متروک’’، امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ ، امام یعقوب بن سفیان جوزجانی رحمہ اللہ ، امام صالح بن محمد جزرہ اور امام ابن عدی رحمہ اللہ وغیر ہم نے ‘‘ضعیف’’ کہاہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روی أیوب بن مدرک عن مکحول نسخۃ موضوعۃ و لم یرہ۔
‘‘ایوب بن مدرک نے امام مکحول سےایک من گھڑت نسخہ روایت کیا ہے، ان کو دیکھا نہیں۔’’
(لسان المیزان لابن حجر:٤۸۸/۱)
اس کے حق میں ادنیٰ کلمہ توثیق ثابت نہیں۔
۲۔ احمد بن ابی العوام الریاحی اور ابو عبیدہ کی توثیق مطلوب ہے۔
۳۔ امام حسن بصری ‘‘مدلس’’ ہیں اور‘‘عن’’ سے روایت کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح نہیں ہے۔
دلیل نمبر۵:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
‘‘جو کوئی قبرستان میں گیا اور پھر سورہ فاتحہ، سورہ اخلاص اور سورۃ التکاثر پڑھے، پھر یوں کہے، اے اللہ! جو میں نے تیرے کلام میں سے پڑھا، اس کا ثواب اس قبرستان والے مؤمن مردوں، مؤمن عورتوں کو پہنچا تو وہ تمام اس کی سفارش اللہ تعالیٰ کے ہاں کریں گے۔’’
(فوائد لابی القاسم بن علی الزنجی، بحوالہ شرح الصدور للسیوطی:ص ٤۰٤)
تبصرہ:
یہ بے سند ہونے کی وجہ سے مردود و باطل ہے۔
دلیل نمبر٦:
حماد مکی نے کہا کہ ایک رات کو میں مکہ شریف کے قبرستان میں گیا اور ایک قبر پر سر رکھ کر سو گیا، میں نے دیکھا کہ قبروں والے حلقوں میں تقسیم ہو کر کھڑے ہیں۔ میں نے کہا، کیا قیامت قائم ہوگئی ہے؟ تو انہوں نے کہا، نہیں، لیکن ایک آدمی نے ہمارے بھائیوں میں سے سورہ اخلاص پڑھ کر اس کا ثواب ہمیں بخش دیا۔ ہم ایک سال سے اس کو تقسیم کر رہے ہیں۔
(شرح الصدورللسیوطی: ص٤۰٤)
تبصرہ:
یہ بے سند ہونے کی وجہ سے موضوع(من گھڑت)اورباطل ہے۔ حماد نامعلوم ہے۔ نامعلوم آدمی کا بے سند خواب اہل بدعت کی دلیل بن گیا ہے!
دلیل نمبر۷:
الحسن بن الہیثم کہتے ہیں کہ خطاب (نامی شخص) میرے پاس آیا اور مجھے کہا کہ جب تو قبرستان جائے تو سورۃ اخلاص پڑھ اور اس کا ثواب قبرستان والوں کو بخش دے۔
(الامر بالمعروف و النھی عن المنکر للخلال:۲۵۲)
تبصرہ:
یہ سخت‘‘ضعیف’’ قول ہے۔ اس کے راوی الحسن بن الہیثم کی توثیق مطلوب ہے۔ خطاب نامی شخص کے حالات اور توثیق و عدالت کا ثبوت فراہم کیا جائے۔
دلیل نمبر ۸:
ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ قبرستان میں قرآن پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
(الامر بالمعروف و النھی عن المنکر للخلال:۲٤۵)
تبصرہ:
یہ قول سخت ترین ‘‘ضعیف’’ ہے، کیونکہ
۱۔ اس میں شریک بن عبداللہ القاص‘‘مدلس’’ ہیں اور‘‘عن’’ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہں ہے۔
۲۔ الری نامی راوی کی تعیین و توثیق مطلوب ہے۔
۳۔ یہ لوگ ابراہیم نخعی کے مقلد ہیں یا۔۔۔۔۔۔۔ انہیں چاہیے کہ اپنے امام سے باسندِ ‘‘صحیح’’ اس کا جواز پیش کریں۔
نامعلوم لوگوں کے بے سند خواب پیش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
دلیل نمبر۹:
الحسن (بن عبد العزیز) الجروی کہتے ہیں کہ میں اپنی ہمشیرہ کی قبر پر گیا اور وہاں میں نے سورہ تبارک الذی پڑھی۔ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ میں نے تمہاری ہمشیرہ کو خواب میں دیکھا ہے، وہ کہہ رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ میری طرف سے میرے بھائی کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ جو اس نے پڑھا تھا، میں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔
(الامر بالمعروف ولنھی عن المنکر للخلال:ص ۲٤٦)
تبصرہ:
اس خواب کے راوی ابویحییٰ الناقد کی توثیق چاہیے۔ نیز امتی کے خواب شرعی حجت نہیں ہوتے۔
دلیل نمبر۱۰:
الحسن بن الصباح کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ قبرستان میں قبروں پر قرآن پڑھنا کیسا ہے؟ تو فرمایا، کوئی حرج نہیں۔
تبصرہ:
اس میں ایصالِ ثواب کا ذکر تک نہیں ہے۔ اگرچہ قبر پر قرآن کریم کی تلاوت کے جواز پر بھی کوئی دلیل شرعی نہیں ہے۔
دلیل نمبر۱۱:
خثیم نے وصیت کی کہ ان کو قبرستان میں دفن کیا جائے توان کی قوم ان پر قرآن پڑھے۔
(الزھد للامام احمد:۲۱۲۲)
تبصرہ:
اس کی سند ‘‘ضعیف’’ ہے، کیونکہ:
۱۔ اس میں سفیان ثوری ‘‘مدلس’’ ہیں، جو کہ ‘‘عن’’ کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا سند‘‘ضعیف’’ ہے۔
۲۔ اس میں رجل مبہم موجود ہے۔
دلیل نمبر ۱۲:
سلمہ بن شبیب کہتے ہیں کہ میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس آیا، وہ نابینا امام، جوکہ قبرستان میں قرآن پڑھتاتھا، کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔’’
(الامربالمعروف والنھی عن لمنکر للخلال: ص ۲٤۷)
تبصرہ:
یہ قول ثابت نہیں۔ اس کے راوی العباس بن محمد بن احمد بن عبدالعزیز کی توثیق نہیں مل سکی۔
الحاصل:
قرآن خوانی شرعی دلائل سے ثابت نہیں ہے۔ سلف صالحین میں سے اس کا کوئی بھی قائل نہیں، بلکہ یہ بعد کے بدعتیوں کی ایجاد ہے، جو انہوں نے شکم پروری کے لیے جاری کی ہے۔
جزاکم اللہ خیرا احسن الجزاء

Sent from my SM-J500F using Tapatalk
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
عدیل بھائی
میں نے پہلے بھی ایک مثال دی تھی لیکن آپ لوگ اسے تسلیم نہیں کر رہے ۔ اگر میں لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان سے قران کی تلاوت کر واتا ہوں تو مجھے اس کا ثواب تو ملے گا۔
میرے والد نے میری تربیت ایسی کرکے گئے ہیں جن سے مجھے اس کام کی توفیق ہوتی ہے تو ان کو اس کا ثواب کیوں نہیں ملے گا۔
اور اگر آپ کے یہ کہتے ہیں کہ اولا کی دعا سے ہی مرنے والے کو فائدہ ہوتا ہے ۔ تو پھر رب جعلنی والی دعا تو سب مومنوں کیلئے ہے اس میں والدین کی کیا تخصیص ہے ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
میں نے پہلے بھی ایک مثال دی تھی لیکن آپ لوگ اسے تسلیم نہیں کر رہے ۔ اگر میں لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان سے قران کی تلاوت کر واتا ہوں تو مجھے اس کا ثواب تو ملے گا۔
بھائی جان بدعت من عمل عملا فلیس علیہ امرنا کے تحت اسکو کہتے ہیں کہ جب کسی عمل کو کسی خاص لحاظ سے فکس (متعین) کر دیا جائے مگر اس خاص لحاظ سے فکس کرنے (متعین کرنے) کا حکم شریعت میں موجود نہ ہو پس یہ مندرجہ ذیل قسم کی ہو سکتی ہے
۱۔ جو کام ثواب کی نیت سے کیا جائے مگر اس کام کے کرنے کا شریعت میں ڈائریکٹ حکم ہو نہ بالوسطہ حکم ہو مثلا عرس وغیرہ
۲۔ اس کام کا حکم تو ہو مگر جس ہیت (شکل) کو فکس کیا گیا ہو وہ ہیت شریعت میں فکس نہ ہو مثلا نوافل پڑھنے کا حکم تو ہے مگر کوئی سو نوافل ایک ہی سلام سے پڑھنا متعین کر لیتا ہے تو یہ ھیت (شکل) چونکہ شریعت میں متعین نہیں پس بدعت شمار ہو گا
۳۔ اس کام کا حکم تو موجود ہو اور اسکی ہیت یعنی شکل بھی شریعت میں متعین ہو مگر اس کے وقت کا تعین شریعت میں نہ کیا گیا ہو اس وقت اگر کوئی اس حکم کی اس شکل کے لئے وقت کو متعین کرنے کی کوشش کرے گا تو وہ بدعت ہو گی مثلا دو رکعت عام نفل پڑھنے کا حکم اور ھیت توشریعت میں متعین ہے مگر اسکا وقت فکس نہیں کیا گیا (ہاں بعض خاص نوافل کے لئے وقت متعین ہے جیسے اشراق وغیرہ) اب اگر کوئی عام نوافل کا وقت تین بجے فکس کر دے تو یہ بدعت ہو گا البتہ یہ یاد رکھ لیں کہ یہ وقت بعض صورتوں میں خود سے فکس کیا جا سکتا ہے جب فکس کرنے کا مقصد ثواب کی کمی زیادتی وغیرہ نہ ہو بلکہ کوئی اور مجبوری یا مصلحت ہو مثلا عمومی درس دینے کا حکم متعین ہے لیکن اگر کوئی خطیب اسکا وقت فجر کے بعد اس لئے فکس کر دیتا ہے کہ فجر کے بعد لوگ زیادہ ہوتے ہیں تو فائدہ زیادہ ہو گا یا پھر خطیب کے پاس اس وقت فراغت ہوتی ہے یا کوئی اور وجہ ہوتی ہے تو اسکو بدعت نہیں کہیں گے
پس اصل اعتراض یہ ہوتا ہے کہ جس حکم یا ھہیت یا وقت وغیرہ کو شریعت نے فکس نہیں کیا اسکو فکس کیے بغیر عمل کرنا ممنوع نہیں امید ہے کچھ سمجھا سکا ہوں گا

میرے والد نے میری تربیت ایسی کرکے گئے ہیں جن سے مجھے اس کام کی توفیق ہوتی ہے تو ان کو اس کا ثواب کیوں نہیں ملے گا۔
بھائی جان اس کام سے مراد سنت کام ہے تو بالکل آپ کے والد کو ضرور ثواب ملے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ
إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثَةٍ : إِلا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ (رواه مسلم)
اور اگر آپ کے یہ کہتے ہیں کہ اولاد کی دعا سے ہی مرنے والے کو فائدہ ہوتا ہے ۔ تو پھر رب جعلنی والی دعا تو سب مومنوں کیلئے ہے اس میں والدین کی کیا تخصیص ہے ۔
پیارے بھائی جان آپ کو بہت بڑی غلط فہمی لگی ہے ہم میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ صرف اولاد کی دعا سے ہی والدین کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ دعا تو کوئی بھی کسی کے لئے بھی کر سکتا ہے
ہاں جو اعمال کا ثواب ہے وہ صرف اولاد کے اعمال کا ثواب والدین کو ملتا ہے کسی اور کے اعمال کا ثواب والدین کو نہیں مل سکتا کیونکہ لیس للانسان الا ما سعی کے تحت والدین نے اولاد پہ کوشش کی ہوتی ہے اوروں پہ نہیں کی ہوتی ہاں اگر والدین نے اولاد کے علاوہ اپنے بھتیجوں یا کسی غیر پہ بھی کسی عمل میں کوشش کی ہو گی تو اس عمل کا ثواب بھی انکو ملے گا جیسا کہ ہم سب مسلمانوں کا ثواب رسول اللہ ﷺ کو ملتا ہے بھائی یہ ہمارا عقیدہ ہے آپ دعا اور اعمال کے ثواب کو مکس نہ کریں
اعمال کے ثواب کے لئے اوپر حدیث بیان کی ہے

دعا اور اعمال کے ثواب میں یہ فرق کیوں کیا جاتا ہے اسکو سمجھیں

اعمال کا ثواب جب کسی مرنے والے کو پہنچنے کی بات کی جاتی ہے تو اس وقت سمجھیں کہ ہم یہ کہ رہے ہوتے ہیں کہ اب اللہ کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس مرنے والے کو ان اعمال کی جزا دے اور ظاہر ہے اللہ کے لئے لازمی بات وہی ہو گی جس کا اللہ نے اقرار کیا ہو گا
البتہ دعا جب کسی کے لئے کی جاتی ہے تو اس وقت اللہ کے لازمی نہیں ہوتا کہ اس دعا کو قبول کرے یا نہ کرے پس اس میں اللہ پہ کوئی بات لازم ہونا نہیں آتی مزید تفصیل بعد میں
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلام علیکم
محترم عبدہ بھائی
آپ کی جانب سے مزید تفصیل آئے گی تو ذہن میں اشکالات ہیں ان کا ذکر کروں گا۔
 
Top