السلام علیکم!السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم محمد فیضان اکبر بھائی! یہاں سوال کیجیے۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہالسلام علیکم!
میرا تو سوال ہے ہی نہیں۔
میرا ایمان ہے کہ قرآن و حدیث دونوں ہوں گے تو دین مکمل ہے۔
میرا تو سوال ہے کہ قرآن مجید کا معنی و مفہوم روایات کو سامنے رکھ کر کریں گے تو قرآن مجید حاکم کیسے؟ اور پھر قرآن مجید لاریب کیسے؟
میرا تو ایمان ہے یہ عربی زبان میں اس لئے عرب پر نازل ہوا کہ ان کی بول چال بھی اسی طرح کی تھی اور وہ باآسانی اس کو سمجھ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کیوں یہ احکمات نازل کئے اور کیا نازل فرمائے۔
اب سوال یہ آتا ہے کہ ہمارے پاس صحیح بخاری ہے یا اور بہت سے کتابیں ہیں جن میں قول تلاش کرکے لگائے گئے اور ان کو صحین میں شامل کیا گیا جس میں نبی کریم ﷺ کے قول درج ہیں۔
اب ایک کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے قول باتیں احکمات ہدایات شامل ہیں قیامت کے دن تک لوگوں کے لئے رہنمائ۔
اب قرآن کے علاوہ کوئی کتاب لاریب کا درجہ نہیں رکھتی یہ تو سب مانتے ہیں اور جانتے بھی ہیں اور اقرار کرتے ہیں زبان سے لیکن
لیکن
جب اس پر عمل کی باری آتی ہے کہ یہ حاکم اور لاریب ہے تو اسی وقت روایات کی کتابیں سامنے رکھتے ہیں جن کا کوئی یہ اقرار نہیں کرتا کہ صحیح بخاری لاریب ہے صرف یہ کہا جاتا ہے صحین ہے۔
اس کو سامنے رکھ کر ترجمے اور معنی اور مفہوم نکالئے جاتے ہیں کیا یہ منافقت نہیں؟کہاں گئی قرآن مجید کی حاکمیت اور کہاں گئی لاریبیت؟
میرا صرف ایک مقصد یہ کہ قرآن کی شان کو پہچاننے کے لئے قرآن مجید کی آیات کا ہی سہارا لیا جائے جہاں تک ممکن ہو اگرقرآن مجید واضح واضح جواب دے اورکوئی روایت اس کے متن معنی و مفہوم کے مخالف ہو اسے رد کیا جائے یہ ہے شان قرآن مجید کی۔
شکریہ
آپ کا سوال نہیں ہے تو آپ ہماری بات اور موقف کیسے سمجھیں گے؟میرا تو سوال ہے ہی نہیں۔
نبی کریم ﷺ کے بارے میں اللہ تعالی نے جو صفات قرآن کریم میں بیان کی ہیں ان میں یہ ہیں "ربنا و ابعث فيهم رسولا منهم يتلو عليهم آياتك و يعلهم الكتاب و الحكمة و يزكيهم"۔ یہ سورہ بقرہ کی آیت 129 ہے اور اس میں حضرت ابراہیمؑ کی دعا مذکور ہے:میرا صرف ایک مقصد یہ کہ قرآن کی شان کو پہچاننے کے لئے قرآن مجید کی آیات کا ہی سہارا لیا جائے جہاں تک ممکن ہو اگرقرآن مجید واضح واضح جواب دے اورکوئی روایت اس کے متن معنی و مفہوم کے مخالف ہو اسے رد کیا جائے یہ ہے شان قرآن مجید کی۔
السلام علیکم!وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
آپ کا سوال نہیں ہے تو آپ ہماری بات اور موقف کیسے سمجھیں گے؟
چلیں میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں۔ ہم بات آپس میں گفتگو کے انداز میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کریں گے۔
آپ کہتے ہیں کہ قرآن مجید لاریب ہے۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں اور اس کے علاوہ ہر کتاب میں کچھ نہ کچھ شک ہے۔ اتنی بات تو درست ہے۔ لیکن کیا اس کے "لاریب" ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کا معنی و مفہوم بھی صرف اسی سے سمجھا جائے گا؟
میں مثال سے اپنی بات کو واضح کرتا ہوں: "ذلک الکتاب لاریب فیہ"۔ یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ ان لوگوں کی بات چھوڑیے جن کے زمانے میں قرآن کریم اترا تھا، وہ گزر گئے۔ آج آپ کو اور مجھے اگر صرف اس ایک آیت کا معنی سمجھنا ہو اور ہمارے پاس نہ کوئی ترجمہ قرآن ہو اور نہ ہی کوئی لغت (یعنی ڈکشنری) اور عربی گرائمر کی کتاب، تو کیا ہم اس کا ترجمہ کر سکتے ہیں؟؟ ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ ہماری کیا آج کے عرب کی بھی زبان نہیں ہے۔
اب اگر ہم کسی کے کیے ہوئے ترجمے یا کسی ڈکشنری اور گرائمر کی کتاب کا سہارا لے کر اس سے اس کو سمجھتے ہیں تو لاریب کتاب تو صرف قرآن ہے۔ لوگوں کا کیا ہوا ترجمہ اور ڈکشنریاں تو شک سے بالکل بھی خالی نہیں۔ تو کیا ہم یہ ترجمہ دیکھنے والا کام غلط کریں گے؟
اور اگر ہم ترجمہ یا ڈکشنری اور گرائمر کو شک کی وجہ سے نہیں دیکھتے تو پھر ہمارے پلے تو صرف عربی کے الفاظ رہ جائیں گے۔ ان سے ہم کیا سمجھیں گے؟
اتنی بات کا جواب دیجیے گا۔
نبی کریم ﷺ کے بارے میں اللہ تعالی نے جو صفات قرآن کریم میں بیان کی ہیں ان میں یہ ہیں "ربنا و ابعث فيهم رسولا منهم يتلو عليهم آياتك و يعلهم الكتاب و الحكمة و يزكيهم"۔ یہ سورہ بقرہ کی آیت 129 ہے اور اس میں حضرت ابراہیمؑ کی دعا مذکور ہے:
"اے ہمارے رب ان میں ایک ایسا رسول بھیجیے جو ان پر آپ کی آیات تلاوت کرے اور انہیں کتاب سکھائے اور حکمت اور ان کی صفائی (تزکیہ) کرے۔"
یہ دعا حضرت نبی کریم ﷺ کی صورت میں پوری ہوئی۔
دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ اس میں پہلے آیات کی تلاوت کا ذکر ہے تو یہ تو ہوگئیں قرآن کریم کی آیات۔ پھر اس کے بعد کتاب کو سکھانے کا ذکر ہے۔ یہ بھلا کیا ہے؟ جب قرآن عرب کی اسی زمانے کی زبان میں تھا تو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے نا کہ نبی کریم ﷺ انہیں الف باء تاء سے قرآن کریم سکھاتے تھے۔ وہ تو ان کو ویسے ہی سمجھ آ جاتا ہوگا۔ تو پھر کتاب کو سکھانا کیا چیز ہے؟
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب کو سکھانا اس کا اصل معنی اور مفہوم سمجھانا ہے۔ ورنہ متن والا معنی تو سب کو ویسے ہی سمجھ میں آ جاتا تھا۔ اس کو سکھانے کی کیا ضرورت تھی؟
تو ہمیں پتا یہ چلا کہ قرآن کریم کے سمجھنے میں دو چیزیں ہیں: ایک آیات قرآن اور دوسری اس کا معنی اور مفہوم جو نبی کریم ﷺ نے تعلیم فرمایا۔
اب یہاں ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تو معنی اور مفہوم سمجھا دیا تھا لیکن ہو سکتا ہے کہ بعد والوں سے غلط فہمی اور بھول چوک ہو گئی ہو اور اسی لیے روایات اور اقوال میں اختلافات ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ آیات قرآن ہم تک کیسے پہنچیں؟ ہم میں سے کتنوں نے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ کا تحریر کردہ قرآن کریم دیکھا ہے؟ ظاہر ہے کسی نے بھی نہیں۔ آپ تو کرواتے ہی املاء تھے یعنی آپ بتاتے اور دوسرے لکھتے تھے۔ وہ لکھوایا ہوا بھی کتنوں نے دیکھا ہے؟ وہ بھی کسی نے نہیں دیکھا۔
تو ہم تک قرآن پہنچا کیسے؟؟؟ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ نبی کریم ﷺ سے سیکھنے والوں اور ان سے ان کے بعد والوں کے ذریعے۔ تو مجھے بتائیے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ بعد والے جب قرآن کی آیات ہم تک پہنچائیں تو ان میں تو کوئی شک نہ ہو اور جب اس کی تعلیم پہنچائیں تو اس میں اتنا شک ہو کہ ہم اسے شک کی وجہ سے چھوڑ دیں؟؟
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تو بہت کم احکامات ہیں۔ اکثر واقعات ہیں۔ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رض کو آیات قرآنی بھی سکھاتے تھے اور وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق انہیں اس کا مفہوم بھی سمجھاتے تھے۔ چونکہ قرآن کریم کا تو معجزہ ہی یہ ہے کہ یہ انتہائی بلاغت والی کتاب ہے اور عرب کی بلاغت میں ایک خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ وہ کم بات کر کے زیادہ سے زیادہ مفہوم نکالا کرتے تھے۔ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی بھی ایک ایک آیت سے کئی مسائل حل ہوتے ہیں جو نبی کریم ﷺ موقع کی مناسبت سے صحابہ کرام رض کو سمجھاتے رہتے تھے۔ سارے صحابہ تو ہر وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتے تھے۔ وہ دنیا کے کام بھی کرتے تھے۔ جس صحابی رض کو آپ ﷺ جو سمجھاتے تھے وہ اسے محفوظ کر لیتے تھے۔
جب نبی کریم ﷺ دنیا سے رحلت فرما گئے تو ان صحابہ کرام رض نے اپنا اپنا سمجھا ہوا مفہوم آگے والوں کو صاف صاف سمجھا دیا اور یہ نہیں سوچا کہ فلاں بڑا آدمی تو اس مفہوم کو اس طرح بیان کر رہا ہے اور میں یہ کر رہا ہوں۔ انہوں نے امانت کا حق ادا کر دیا۔
اس لیے تفسیر کی روایات میں اختلاف ہو گیا۔ حقیقت اکثر یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی آیت کے تمام مفہوم صحیح ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر آیت قرآنی "ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکہ" کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ آپ نے خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے بارے میں یہ فرمایا، یا ایک جماعت جو خود کو جلا رہی تھی ان کے بارے میں یہ فرمایا یا مال کو ہلاک کرنے کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس آیت سے یہ کام منع ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ہر قسم کی ہلاکت کے بارے میں یہ آیت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تو اس وقت موجود حالت کے حساب سے صحابہ کرام رض کو یہ بتایا کہ اللہ پاک نے یہ فرمایا ہے اور اس میں یہ مخصوص ہلاکت بھی شامل ہے اس لیے یہ کام نہیں کرو۔ اب جس نے جس موقع پر آپ کی بات سنی اس نے اسی کو نقل کر دیا۔
آپ فورم کو دیا جانے والا ’ مکمل ٹائم ‘ اسی تھریڈ میں صرف کریں ۔ تاکہ آپ کی خلش دور ہو ، پورے فورم پر الجھتے پھرنے سے بہتر ایک جگہ ہی کھل کر بول لیں ۔لیکن اس میں بے شمار اعتراض کرنے والی باتیں ہیں جو میں آپ سے تفصیل کے ساتھ بیان کروں گا ٹائم نکال کر ان شائ اللہ اگر اللہ نے موقع دیا ۔
وعلیکم السلامالسلام علیکم!
آپ کے تمام جوابات
کتاب کا نام۔ جمعُ القرآن میں واضح ہیں۔
مصنف۔علامہ تمنا عمادی مجیبی پھلوروی ۔
الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ(رجسٹرڈ)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ہر شخص ہو ہدایت دے جو ہدایت حاصل کرنا چہتا ہو۔
اس کتاب میں دلیلوں سے واضح کیا گیا ہے اور تبصرہ کیا گیا ہے قرآن مجید کو جمع کرنے والی روایت کے بارے میں۔
شکریہ