• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم بھائی میرا مقصد آپ سے بحث کرنا نہیں بلکہ صرف سمجھانا تھا۔ بہرحال اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس موضوع پر بات کر لیتے ہیں۔
آپ نے جو یہ کہا کہ

اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں خود دو احکام موجود ہیں:
و ما آتاکم الرسول فخذوہ و ما نہاکم عنہ فانتہوا
ترجمہ: "جو تمہیں رسول دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جاؤ۔"
یعنی قرآن کریم نے خود یہ بتایا ہے کہ قرآن کا حکم ہو سکتا ہے ہمیں صحیح سمجھ نہ آرہا ہو ہماری ناقص فہم کی وجہ سے تو ہم یہ دیکھیں کہ نبی کریم ﷺ نے کس کام کا حکم دیا ہے اور کس سے روکا ہے اور اس کے مطابق عمل کر لیں۔

دوسرا حکم یہ ہے:
و ما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی
"وہ خواہش سے نہیں بولتے۔ یہ تو وحی ہوتی ہے جو کی جاتی ہے۔"
یعنی قرآن کریم ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ روایات اور احادیث میں جو کچھ ہے وہ بھی وحی ہے اس لیے قرآن کریم جو خود وحی ہے اس کی تشریح اور توضیح کے لیے روایات میں موجود وحی کو دیکھا جائے۔

نبی کریم ﷺ کی صفت بھی قرآن کریم میں حضرت ابراہیمؑ کی دعا کے ضمن میں یہ مذکور ہے:
و یعلمہم الکتاب
"اور وہ انہیں کتاب سکھائے۔"
کتاب یعنی قرآن کریم کے الفاظ سکھانے کا ذکر اس سے پہلے "یتلو علیہم آیاتہ" میں کر دیا تھا۔ پھر الگ سے کتاب سکھانے کا ذکر کیا۔ کیوں؟ یہی بتانے کے لیے کہ کتاب یعنی قرآن پاک کو سکھانا نبی کریم ﷺ کا کام ہے۔ اب آپ ﷺ کی قرآن کریم کی تعلیم ہم تک کیسے پہنچی ہے تو وہ ظاہر ہے کہ روایات اور آثار کی صورت میں پہنچی ہے۔


جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ قرآن کریم نے تو خود حکم دیا ہے نبی ﷺ کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنے کا تو پھر بھلا یہ غلط کیوں ہے؟


اس سوال کا جواب تو ہاں میں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لفظاً بھی دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ خود قرآن کریم میں کئی جگہ ظاہری طور پر لفظوں میں اختلاف موجود ہے۔ ایک جگہ ذکر ہے کہ زمین کو آسمان کے بعد بچھایا (النازعات) اور کئی جگہ ذکر ہے کہ زمین کو پہلے پیدا کیا۔
ایک جگہ ذکر ہے کہ ابلیس جن تھا اور کئی جگہ ذکر ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم ہوا تو ابلیس نے نہیں کیا۔ تو اس کا کیا قصور؟ وہ تو فرشتہ تھا ہی نہیں۔ وہ تو جن تھا۔

ایسی جگہوں پر آپ جانتے ہیں کیا کیا جاتا ہے؟ ایسی جگہوں پر تطبیق دی جاتی ہے اور اس ظاہری اختلاف کو دور کیا جاتا ہے۔
اسی طرح احادیث اور قرآن کریم کے اختلاف میں بھی ہوتا ہے کہ ظاہراً تو اختلاف ہوتا ہے لیکن تطبیق دے کر اسے دور کیا جاتا ہے۔

تو آپ کے اس سوال کا جواب ہاں میں ہے کہ کوئی بھی صحیح حدیث قرآن کریم کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ لفظی اختلاف میں تطبیق یا ترجیح کا عمل ہو کر قرآن کریم کے خلاف نہیں رہتی۔
السلام علیکم!
بہت اچھا جواب دیا آپ نے بہت خوب۔ شکریہ۔۔۔
قرآن مجید میں جہاں جہاں اختلاف پایا جاتا ہے اگر جواب قرآن سے ملے تو پہلے قرآن کی طرف رجوع ہونا حق ہے نہ کہ روایات اور احادیث کی طرف کیونکہ احادیث کی کوئی کتاب بھی لاریب نہیں شک سے پاک نہیں قرآن مجید کی آیات ایک آیت دوسری آیت کی تشریح و تفسیر بھی ہیں۔۔۔جن سے ہم مدد طلب کرتے ہیں۔
٭جیسا کہ آپ نے بیان کیا۔ابلیس فرشتہ نہیں شیطان تھا۔۔یہ بات ہمیں قرآن کی آیات ہی بتا رہی ہیں ایک آیت کی تشریح و تفسیر اگلی آیات میں اگلی سورتوں میں ہمیں مل جاتی۔
٭ہاروت ماروت کا مسئلہ بھی اسی طرح بہت آسانی سے حل ہو جاتا ہے ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر ہے ۔
تفسیر و تشریح کے لئے اگر ہم پہلے قرآن مجید کی آیات کا سہارا لیں تو یہ حق اور یقین ہے کہ ہم گمراہ نہیں ہوں گے لیکن اگر ہم تفسیر و تشریح کے لئے پہلے ان کتابوں،صحیح بخاری،ترمزی،مشکاۃ،مسلم کی طرف رجوع ہوں تو ہو سکتا گمراہ ہو جائیں۔کیونکہ شک ان میں ہے قرآن میں نہیں۔

اگر جواب قرآن مجید سے نہ ملے تو ہم پر لازم ہے کے نبی کریم ﷺ کی کہی ہوئی بات تعلیم کی طرف رجوع لیکن حق پہلے قرآن کا ہی ہے۔
اب ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت تو نظر آتی ہے کہ جو کچھ نبی دیں وہ لے لو۔۔۔۔میرے پیارے بھائی۔۔۔میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔
اگر آپ اور میں نبی کریم ﷺ کے دور میں موجود ہوتے اور ہم دونوں میں اختلاف ہو جاتا تو ہم کیا کرتے؟
بے شک نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاظر ہوتے اور مسئلہ بیان کرتے اور نبی کریم ﷺ اس وقت جو کچھ کہتے ہمیں وہ سر جھکا کر تسلیم کرنا پڑتا کیونکہ نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتے ۔۔۔۔۔لیکن جیسے جیسے وقت بڑھتا گیا ہمارے دشمن بھی بڑھتے گئے اور نبی کریم ﷺ کی اصل اور درست باتوں میں اپنی مرضی سے ردو بدل کرتے رہے(یعنی نبی کریم ﷺ کا نام لے کر جھوٹ ملاتے رہے) جس سے ہمارے دین کو بہت نقصان پہنچا جس کی مثال آج 2017 واضح ہے۔
ہمارے علمائ نے محنت کی اور ان باتوں کو مختلف طریقوں سے باہر نکالا اور ایک درجہ بندی کردی کہ یہ فلاں قول درست نہیں فلاں شک میں ہے فلاں کی تحقیق درکار ہے فلاں بات فلاں نے دماغ کی کمزوری کی وجہ سے کردی ، فلاں بات بھول گیا وغیرہ وغیرہ
اگر میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ جو کچھ نبی آپ کی دیں وہ لے لو۔۔۔۔۔۔میرے پیارے بھائی یہ بات جب تھی جب نبی کریم ﷺ اپنی زندگی میں ہمارے سامنے تھے کیونکہ ان کی بات میں ردوبدل نہیں کیا گیا ہم سامنے ان کی بات سن رہے ہوتے ۔لیکن آج 2017 میں یہ کہا جائے تو میرے پیارے بھائی اس طرح تو نبی کریمﷺ کا نام لے کر بہت سی اسی باتیں کی گئیں جو ہمارے اکثر علمائ انکار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہ نبی کی کہی ہوئی نہیں۔
٭پھر کہا جاتا ہے کہ یہ احادیث تمام صحیح ہیں اور درست ہیں کوئی قرآن مجید کے خلاف نہیں میرے پیارے بھائی۔قرآن کے معنی و مفہوم پہلے ہی ان روایات اور احادیث کو سامنے رکھ کر کردئے گئے تو اختلاف کیسا رہا؟؟؟؟؟عربی پر توجہ دیں اور پھر دیکھیں کون سی روایات اور سی حدیث کس درجہ پر کھٹری ہے۔۔۔۔
ہمارے لوگ روایات اور احادیث جو قرآن کے خلاف ہیں ان پر پہلے ایمان لا کر گمراہ ہو چکی ہے اور فرقہ فرقہ ہوتی جا رہی ہے ۔ ہمیں آج بھی ان روایات اور احادیث کی تحقیق کرنی چاہے جس کا سب سے اچھا اورا اہم طریقہ قرآن مجید ہے سب روایات اور احادیث کو قرآن مجید پر رکھ کر دیکھیں ایک آیت سے پھر دوسری آیت سے آپ دیکھیں گے کہ روزِ روشن کی طرح واضح جواب آپ کا نصیب ہو گا۔
میرے کچھ پوائنٹ ہیں۔
1)جادو کی کوئی حقیقت نہیں جادو صرف ایک فریب،دھوکہ،ذہن کی چلاکی،پوشیدہ عمل،پوشیدہ ترکیب،پوشیدہ مکاری،وغیرہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ہاروت ماروت فرشتے نہیں انسان تھے اور شیطان ان کو ان کے برے کاموں کی وجہ سے کہا گیا۔
2)عیسیٰ علیہ السلام اور باقی تمام پیغمبر جو آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ تک پیدا ہوئے سب وفات پا چکے ہیں۔
3)نظر بد کی کوئی بھی قسم نہیں سب صرف باطل باتیں ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔
4)نبی کریم ﷺ بشر تھے انسان تھے یہی نہیں تمام پیغمبر بشر تھے۔
5)غیر اللہ کی نظر و نیاز حرام ہے، شرک ہے۔
6)کسی بھی گزرے ،وفات پا چکے پیغمبر،پیر،مولوی،نیک انسان کو کوئی بھی کسی بھی مدد کے لئے نہیں پکار سکتا یہ شرک اکبر ہے۔یعنی ہر قسم کی غیب سے مدد صرف اللہ تعالیٰ ہی فرما سکتا یہ کسی بشر کا کام نہیں ، کسی فرشتے کا نہیں کسی جِن کا نہیں،یعنی اللہ کی پیدا کی گئی مخلوق سے غیب کی مدد طلب کرنا شرک اکبر ہے۔
7)عید ہمارے لئے صرف دو ہیں عید الفطر،عیدالاضح۔
اور بھی ٹائم نکال کر اور تفصیل سے بات کرتا ۔۔شکریہ قیمتی وقت دینے کا ۔۔۔۔میرا موقف آپ بھی تک نہیں جان سکے میرے بھائی۔
اصل دین یہی ہے ۔ قرآن و حدیث۔
لیکن جو بات میں کر رہا ہوں اس کو سمجھنے کی کوشش کریں اللہ ہر اس شخص کو ہدایت دے جو ہدایت حاصل کرنا چاہے۔ شکریہ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم!
بہت اچھا جواب دیا آپ نے بہت خوب۔ شکریہ۔۔۔
قرآن مجید میں جہاں جہاں اختلاف پایا جاتا ہے اگر جواب قرآن سے ملے تو پہلے قرآن کی طرف رجوع ہونا حق ہے نہ کہ روایات اور احادیث کی طرف کیونکہ احادیث کی کوئی کتاب بھی لاریب نہیں شک سے پاک نہیں قرآن مجید کی آیات ایک آیت دوسری آیت کی تشریح و تفسیر بھی ہیں۔۔۔جن سے ہم مدد طلب کرتے ہیں۔
٭جیسا کہ آپ نے بیان کیا۔ابلیس فرشتہ نہیں شیطان تھا۔۔یہ بات ہمیں قرآن کی آیات ہی بتا رہی ہیں ایک آیت کی تشریح و تفسیر اگلی آیات میں اگلی سورتوں میں ہمیں مل جاتی۔
٭ہاروت ماروت کا مسئلہ بھی اسی طرح بہت آسانی سے حل ہو جاتا ہے ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر ہے ۔
تفسیر و تشریح کے لئے اگر ہم پہلے قرآن مجید کی آیات کا سہارا لیں تو یہ حق اور یقین ہے کہ ہم گمراہ نہیں ہوں گے لیکن اگر ہم تفسیر و تشریح کے لئے پہلے ان کتابوں،صحیح بخاری،ترمزی،مشکاۃ،مسلم کی طرف رجوع ہوں تو ہو سکتا گمراہ ہو جائیں۔کیونکہ شک ان میں ہے قرآن میں نہیں۔

اگر جواب قرآن مجید سے نہ ملے تو ہم پر لازم ہے کے نبی کریم ﷺ کی کہی ہوئی بات تعلیم کی طرف رجوع لیکن حق پہلے قرآن کا ہی ہے۔
اب ہمیں قرآن مجید کی یہ آیت تو نظر آتی ہے کہ جو کچھ نبی دیں وہ لے لو۔۔۔۔میرے پیارے بھائی۔۔۔میری بات سمجھنے کی کوشش کریں۔
اگر آپ اور میں نبی کریم ﷺ کے دور میں موجود ہوتے اور ہم دونوں میں اختلاف ہو جاتا تو ہم کیا کرتے؟
بے شک نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاظر ہوتے اور مسئلہ بیان کرتے اور نبی کریم ﷺ اس وقت جو کچھ کہتے ہمیں وہ سر جھکا کر تسلیم کرنا پڑتا کیونکہ نبی اپنی خواہش سے نہیں بولتے ۔۔۔۔۔لیکن جیسے جیسے وقت بڑھتا گیا ہمارے دشمن بھی بڑھتے گئے اور نبی کریم ﷺ کی اصل اور درست باتوں میں اپنی مرضی سے ردو بدل کرتے رہے(یعنی نبی کریم ﷺ کا نام لے کر جھوٹ ملاتے رہے) جس سے ہمارے دین کو بہت نقصان پہنچا جس کی مثال آج 2017 واضح ہے۔
ہمارے علمائ نے محنت کی اور ان باتوں کو مختلف طریقوں سے باہر نکالا اور ایک درجہ بندی کردی کہ یہ فلاں قول درست نہیں فلاں شک میں ہے فلاں کی تحقیق درکار ہے فلاں بات فلاں نے دماغ کی کمزوری کی وجہ سے کردی ، فلاں بات بھول گیا وغیرہ وغیرہ
اگر میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ جو کچھ نبی آپ کی دیں وہ لے لو۔۔۔۔۔۔میرے پیارے بھائی یہ بات جب تھی جب نبی کریم ﷺ اپنی زندگی میں ہمارے سامنے تھے کیونکہ ان کی بات میں ردوبدل نہیں کیا گیا ہم سامنے ان کی بات سن رہے ہوتے ۔لیکن آج 2017 میں یہ کہا جائے تو میرے پیارے بھائی اس طرح تو نبی کریمﷺ کا نام لے کر بہت سی اسی باتیں کی گئیں جو ہمارے اکثر علمائ انکار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔کیونکہ وہ نبی کی کہی ہوئی نہیں۔
٭پھر کہا جاتا ہے کہ یہ احادیث تمام صحیح ہیں اور درست ہیں کوئی قرآن مجید کے خلاف نہیں میرے پیارے بھائی۔قرآن کے معنی و مفہوم پہلے ہی ان روایات اور احادیث کو سامنے رکھ کر کردئے گئے تو اختلاف کیسا رہا؟؟؟؟؟عربی پر توجہ دیں اور پھر دیکھیں کون سی روایات اور سی حدیث کس درجہ پر کھٹری ہے۔۔۔۔
ہمارے لوگ روایات اور احادیث جو قرآن کے خلاف ہیں ان پر پہلے ایمان لا کر گمراہ ہو چکی ہے اور فرقہ فرقہ ہوتی جا رہی ہے ۔ ہمیں آج بھی ان روایات اور احادیث کی تحقیق کرنی چاہے جس کا سب سے اچھا اورا اہم طریقہ قرآن مجید ہے سب روایات اور احادیث کو قرآن مجید پر رکھ کر دیکھیں ایک آیت سے پھر دوسری آیت سے آپ دیکھیں گے کہ روزِ روشن کی طرح واضح جواب آپ کا نصیب ہو گا۔
میرے کچھ پوائنٹ ہیں۔
1)جادو کی کوئی حقیقت نہیں جادو صرف ایک فریب،دھوکہ،ذہن کی چلاکی،پوشیدہ عمل،پوشیدہ ترکیب،پوشیدہ مکاری،وغیرہ کے علاوہ کچھ نہیں۔ہاروت ماروت فرشتے نہیں انسان تھے اور شیطان ان کو ان کے برے کاموں کی وجہ سے کہا گیا۔
2)عیسیٰ علیہ السلام اور باقی تمام پیغمبر جو آدم علیہ السلام سے لے کر ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ تک پیدا ہوئے سب وفات پا چکے ہیں۔
3)نظر بد کی کوئی بھی قسم نہیں سب صرف باطل باتیں ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔
4)نبی کریم ﷺ بشر تھے انسان تھے یہی نہیں تمام پیغمبر بشر تھے۔
5)غیر اللہ کی نظر و نیاز حرام ہے، شرک ہے۔
6)کسی بھی گزرے ،وفات پا چکے پیغمبر،پیر،مولوی،نیک انسان کو کوئی بھی کسی بھی مدد کے لئے نہیں پکار سکتا یہ شرک اکبر ہے۔یعنی ہر قسم کی غیب سے مدد صرف اللہ تعالیٰ ہی فرما سکتا یہ کسی بشر کا کام نہیں ، کسی فرشتے کا نہیں کسی جِن کا نہیں،یعنی اللہ کی پیدا کی گئی مخلوق سے غیب کی مدد طلب کرنا شرک اکبر ہے۔
7)عید ہمارے لئے صرف دو ہیں عید الفطر،عیدالاضح۔
اور بھی ٹائم نکال کر اور تفصیل سے بات کرتا ۔۔شکریہ قیمتی وقت دینے کا ۔۔۔۔میرا موقف آپ بھی تک نہیں جان سکے میرے بھائی۔
اصل دین یہی ہے ۔ قرآن و حدیث۔
لیکن جو بات میں کر رہا ہوں اس کو سمجھنے کی کوشش کریں اللہ ہر اس شخص کو ہدایت دے جو ہدایت حاصل کرنا چاہے۔ شکریہ۔
بھائی جان اگر آپ مجھے اپنا موقف سمجھانا چاہتے ہیں تو وہ تو میں سمجھا ہوا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ موقف صحیح بھی ہے یا نہیں؟

آپ نے فرمایا:
قرآن مجید میں جہاں جہاں اختلاف پایا جاتا ہے اگر جواب قرآن سے ملے تو پہلے قرآن کی طرف رجوع ہونا حق ہے نہ کہ روایات اور احادیث کی طرف کیونکہ احادیث کی کوئی کتاب بھی لاریب نہیں شک سے پاک نہیں قرآن مجید کی آیات ایک آیت دوسری آیت کی تشریح و تفسیر بھی ہیں
میں ایک سیدھا سا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم لاریب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں؟
آپ کے پاس اس بارے میں کیا دلیل ہے؟ قرآن کریم میں خود موجود ہے کہ "ذلک الکتاب لا ریب فیہ" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ آیت خود غلط ہو۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا؟
قرآن کریم میں ہے کہ "ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بعد میں کسی نے اس میں ڈال دیا ہو تاکہ کسی کو قرآن پر شک نہ ہو!
آپ کے پاس کیا دلیل ہے آخر کہ قرآن کریم شک سے پاک ہے اور ہمارے پاس ویسے ہی موجود ہے جیسے نازل ہوا تھا؟ ہو سکتا ہے نافع، ورش، حفص، قالون، کسائی وغیرہ قراء س بھول ہو گئی ہو اور انہوں نے اس میں بہت کچھ مکس کر دیا ہو۔
ذرا اس سوال کا جواب دیجیے گا۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
بھائی جان اگر آپ مجھے اپنا موقف سمجھانا چاہتے ہیں تو وہ تو میں سمجھا ہوا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ موقف صحیح بھی ہے یا نہیں؟

آپ نے فرمایا:

میں ایک سیدھا سا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم لاریب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں؟
آپ کے پاس اس بارے میں کیا دلیل ہے؟ قرآن کریم میں خود موجود ہے کہ "ذلک الکتاب لا ریب فیہ" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ آیت خود غلط ہو۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا؟
قرآن کریم میں ہے کہ "ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بعد میں کسی نے اس میں ڈال دیا ہو تاکہ کسی کو قرآن پر شک نہ ہو!
آپ کے پاس کیا دلیل ہے آخر کہ قرآن کریم شک سے پاک ہے اور ہمارے پاس ویسے ہی موجود ہے جیسے نازل ہوا تھا؟ ہو سکتا ہے نافع، ورش، حفص، قالون، کسائی وغیرہ قراء س بھول ہو گئی ہو اور انہوں نے اس میں بہت کچھ مکس کر دیا ہو۔
ذرا اس سوال کا جواب دیجیے گا۔
السلام علیکم!
٭آپ کے پاس اس بارے میں کیا دلیل ہے؟ قرآن کریم میں خود موجود ہے کہ "ذلک الکتاب لا ریب فیہ" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ آیت خود غلط ہو۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا؟

٭"ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بعد میں کسی نے اس میں ڈال دیا ہو تاکہ کسی کو قرآن پر شک نہ ہو!

٭آپ کے پاس کیا دلیل ہے آخر کہ قرآن کریم شک سے پاک ہے اور ہمارے پاس ویسے ہی موجود ہے جیسے نازل ہوا تھا؟

٭ہو سکتا ہے نافع، ورش، حفص، قالون، کسائی وغیرہ قراء س بھول ہو گئی ہو اور انہوں نے اس میں بہت کچھ مکس کر دیا ہو۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔
اس کا جواب آپ کا تفصیل کے ساتھ ارسال کرتا ۔
انشائ اللہ​
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
میرے خیال سے اس کا جواب ہی آپ کے هر شبہ کا خود ازالہ ثابت هوگا ، إن شاء الله
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام علیکم!
٭آپ کے پاس اس بارے میں کیا دلیل ہے؟ قرآن کریم میں خود موجود ہے کہ "ذلک الکتاب لا ریب فیہ" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ آیت خود غلط ہو۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا؟

٭"ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بعد میں کسی نے اس میں ڈال دیا ہو تاکہ کسی کو قرآن پر شک نہ ہو!

٭آپ کے پاس کیا دلیل ہے آخر کہ قرآن کریم شک سے پاک ہے اور ہمارے پاس ویسے ہی موجود ہے جیسے نازل ہوا تھا؟

٭ہو سکتا ہے نافع، ورش، حفص، قالون، کسائی وغیرہ قراء س بھول ہو گئی ہو اور انہوں نے اس میں بہت کچھ مکس کر دیا ہو۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۔
اس کا جواب آپ کا تفصیل کے ساتھ ارسال کرتا ۔
انشائ اللہ
السلام علیکم ور حمتہ اللہ و برا کاتہ !
محترمی و مکرمی !
کیا کوئی چیز محض لکھی ہوئی ہونے سے مستند ہو سکتی ہے ؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
میرے پیارے بھائیو!
یہ سوال آج کا نہیں ہے ۔۔۔اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان نہیں لائو گے اسے لاریب تسلیم نہیں کرو گے ۔ اس کی آیات سے فیصلہ نہیں لو گے ۔ اس کی آیات پر کسی قسم کا شک کرو گو تو ہمارے پلے ہے ہی کچھ نہیں۔!!!!!!!!
اس کا جواب تفصیل اور واضح دیا جائے گا انشائ اللہ۔۔۔انتظار کریں اور حوصلہ رکھیں۔
قرآن لاریب ہے ،اللہ نے محفوظ فرمایا، اس کی دلیل آپ کو اردگرد کے مشاہدہ سے مل جائے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی مشاہدہ کرنے کا فرماتا ہے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
بھائی جان اگر آپ مجھے اپنا موقف سمجھانا چاہتے ہیں تو وہ تو میں سمجھا ہوا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ موقف صحیح بھی ہے یا نہیں؟

آپ نے فرمایا:

میں ایک سیدھا سا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم لاریب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں؟
آپ کے پاس اس بارے میں کیا دلیل ہے؟ قرآن کریم میں خود موجود ہے کہ "ذلک الکتاب لا ریب فیہ" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ آیت خود غلط ہو۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا؟
قرآن کریم میں ہے کہ "ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بعد میں کسی نے اس میں ڈال دیا ہو تاکہ کسی کو قرآن پر شک نہ ہو!
آپ کے پاس کیا دلیل ہے آخر کہ قرآن کریم شک سے پاک ہے اور ہمارے پاس ویسے ہی موجود ہے جیسے نازل ہوا تھا؟ ہو سکتا ہے نافع، ورش، حفص، قالون، کسائی وغیرہ قراء س بھول ہو گئی ہو اور انہوں نے اس میں بہت کچھ مکس کر دیا ہو۔
ذرا اس سوال کا جواب دیجیے گا۔
السلام علیکم!
آپ کے سیدھے سوال کا سیدھا جواب۔
سوال نمبر 1۔
میں ایک سیدھا سا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم لاریب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں؟
جواب۔
میں قرآن مجید کو لاریب اس کا مشاہدہ کر کے کہتا ہوں آج 2017 میں تمام قرآن مجید دیکھتا ہوں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ لاریب ہے اور اس کو پڑھ کر سمجھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ واقع یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہی ہے ۔

یہ وہ کتاب ہے جیسے کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔
اور اس میں کوئی شک نہیں ۔۔۔۔یہ میں کیسے کہہ سکتا ہوں اس کو پڑھ کر اس پر غور و فکر کر کے کسی کے کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ لاریب اور شک سے پاک ہے ۔۔۔
قرآن مجید کیا کوئی ضعیف قرآن مجید ہے؟کیا کوئی اسی آیت ہے جو شک کی بنیاد پر نکال دی گئی ہو؟کیا کوئی کلمہ پڑھنے والا ایسا ہے جو آیت پر تبصرہ کر کے ان کو جھوٹا ثابت کرتا ہو،کیا کسی آیت میں یہ فلاں ہوگا!یا تھا!یا معلوم نہیں یہ کہا تھا یہ فلاں بات تھی جیسے شک والے کلمات ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ ہے میری دلیل مشاہدہ ۔۔اس سے ثابت ہوا قرآن لاریب شک سے پاک ہے ۔ اللہ کی طرف سے ہے ۔۔ ۔ صحیح بخاری میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں شک والے الفاظ استعمال کئے گئے اور بہت سے علمائ نے تنقید کی ۔ یہاں تک بخاری صاحب نے بہت سی احادیث کو ضعیف کہہ کر نکال بھی دیا جبکہ ان میں بھی نبی کریم ﷺ کا نام لیا گیا تھا کیا ان کو معلوم نہیں تھا کہ نبی کریم ﷺ جھوٹ نہیں بولتے ، وہ تو صرف حق بات کرتے انہوں نے غور وفکر کیا تقلید نہیں کی جیسے آپ کرتے ہیں انہوں نے نبی کریم ﷺ کا نام لے کر جو جو بات کی اس کی تحقیق کی جتنی کر سکتے تھے ۔ لیکن ابھی بھی اس صحیح بخاری میں بہت سی احادیث و روایات قرآن کے خلاف ہیں متن کے خلاف ہیں عربی پر غور کریں تب معلوم ہوتا ہے ۔ ۔ ۔

اب میں نبی کریم ﷺ کے دور سے شروع کرتا ہوں۔ اور اپنے دلائل دینا شروع کرتا ہوں کہ صحیح بخاری اور قرآن مجید میں کیا فرق ہے کہ ہم صحیح بخاری کی ہر حدیث کو نبی کی حدیث نہیں کہہ سکتے لیکن قرآن کی ہر آیت کو اللہ کی طرف سے مانتے ہیں بلکہ اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ لاریب ہی نہیں بلکہ ہر طرح سے محفوط کتاب ہے ۔

٭قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا ۔۔۔۔۔
ہمیں کیسے معلوم ہوتا ہے قرآن پڑھ کر۔۔۔۔۔

نبی کریم ﷺ پڑھے لکھے نہیں تھے ہمیں کیسے معلوم ہوا۔۔
قرآن پڑھ کر۔۔۔
وحی نازل ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ پڑھ بھی سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے۔

کیسے معلوم ہوا قرآن پڑھ کر۔

سورۃ البینہ98آیت نمبر 2تا3۔
رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةًفِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ
(یعنی ) اللہ کی طرف سے ایک رسول (محمد ؐ) ، جو پاک صحیفے (اوراق)پڑھ کر سنائے، (2) جن میں ، بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہیں۔(جس میں ، صاف احکام لکھے ہوئے ہوں)(3)

نبی کریم ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو اپنے پاس لکھ لیا کرتے تھے ساتھ ساتھ اس کو یاد بھی کر لیا کرتے تھے ۔ اگر صرف یاد کر لیا جاتا اور لکھا نہ جاتا تو یہ زیادہ محکم نہیں تھا زیادہ پائیدار نہیں تھا اس یعنی قرآن مجید جیسے احکمات کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنا لازم تھا کیونکہ بہت احکم احکامات تھے اس کی وضاحت سورۃ البقرہ کی آیت نمبر282
میں اللہ کا فرمان ہے ۔


اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جس کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور اِملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے ( یعنی قرض لینے والا) ، اور اسے اللہ ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املاء نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املاء کرائے۔ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(282)

اب کہا جاتا ہے کہ قرآن کو لکھا نہیں جاتا تھا ٹائم نہیں ہوتا تھا یا کاغذ نہیں ہوتا تھا فلاں فلاں بھائی یہ سب قیاس ہے آپ کا کیونکہ آپ آنکھ بند کر کے صرف تقلید کرنا پسند کرتے ہیں آپ کے علمائ جو کچھ کہہ گئے اگر آج کوئی دلیل سے واضح کر دے تو بھی اس کا انکار کر دیتے ہیں کیونکہ آپ کے بڑے غلط ثابت ہو جاتے ہیں اگر آپ حق تسلیم کر لیں تو۔
یہ عام لین دین کا کام لکھا جاتا رہا اور اللہ کا فرمان ہے کہ لین دین کے کام میں لکھ لیا کرو اس سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے ۔
اور اتنا اہم کام قرآن مجید کا معاملہ نبی کریم ﷺ اس طرح چھوڑ گئے کہ اصحاب اکرام اس کی آیات کو تلاش کر رہے ہیں ۔ وہ قرآن مجید جو نبی کریم ﷺ پر 23 سال میں نازل ہوا اور ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو لکھتے بھی رہے وہ آخر گیا کہاں پھر کاتب وحی جو قرآن مجید لکھتے تھے کیا وہ کوئی مٹھائی تھی،کوئی چیچی تھی ،جو وہ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے مانگنے والے کو دے دیتے تھے!!!!!نہیں ایسا نہیں ہوا کاتب وحی کے پاس جو کوئی سورۃ آیت لینے آتا تھا اس کی نقل کی جاتی تھی جو ان کے پاس محفوظ ہوتی لکھی ہوئی ہوتی تھی اس سے نقل کر کے دی جاتی تھی۔
اب کہا جاتا ہے کہ قرآن مکمل تو تھا لیکن ایک جگہ نہیں تھا یہ بھی قرآن کی حاکمیت کی کم کرنے کی سازش ہے جو شیعہ نے کی اور ہمارے یہ پیارے کلمہ پڑھنے والے بھی اس میں مبتلہ ہو چکے ۔۔۔۔

سورۃ الطور میں ہے ۔ 52 آیت نمبر 3۔
ترجمہ نمبر 1۔جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے،(3)
ترجمہ نمبر 2۔اورلکھی ہوئی کتاب کی۔کشادہ ورق میں۔
ترجمہ نمبر 3۔اور اس کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔کشادہ ورق میں۔

سورۃ الفرقان آیت نمبر 5
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا۔
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)

واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ نقل کراتے تھے یعنی کاتب وحی کا لکھا ہوا لوگوں کو نقل کراتے تھے اور پھر اس لکھے ہوئے اور یاد کئے ہوئے دونوں طریقوں سے تلاوت کی جاتی تھی۔اس کی دلیل
سورۃ البینہ98آیت نمبر 2تا3۔
یہ ہے۔
اب کہا جاتا ہے کہ نبی کریم۔ مکمل قرآن ہمیں دے کر گئے یہ بھی تہمت ہے ۔ کاتب وحی لکھتے تھے نبی کریم ﷺ کو 23 سال ملے اس کام کے لئے پھر بھی یہ کہا جاتا ہے صرف اپنے اپنے آباواجداد کو بچانے کے لئے کہ وہ یہ کہہ گئے ۔
جبکہ نبی کریم ﷺ مکمل قرآن ہمیں دے کر گئے ۔۔۔۔اس کی دلیل

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2096 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ فَبَلَغَ ذَلِکَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ فَجَائَتْ فَقَالَتْ إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْکَ أَنَّکَ لَعَنْتَ کَيْتَ وَکَيْتَ فَقَالَ وَمَا لِي أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِي کِتَابِ اللَّهِ فَقَالَتْ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ قَالَ لَئِنْ کُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا قَالَتْ بَلَی قَالَ فَإِنَّهُ قَدْ نَهَی عَنْهُ قَالَتْ فَإِنِّي أَرَی أَهْلَکَ يَفْعَلُونَهُ قَالَ فَاذْهَبِي فَانْظُرِي فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا فَقَالَ لَوْ کَانَتْ کَذَلِکَ مَا جَامَعْتُهَا
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2096 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11
(آیت) اور رسول جو تمہیں دیں تو وہ لے لو۔ محمد بن یوسف، سفیان، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت کی جو بدن کو گودتی ہیں اور گودواتی ہیں اور چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں حسن کے لئے دانتوں کو کشادہ کراتی ہیں اللہ تعالیٰ

کی بنائی ہوئی صورت کو بدلنے والی ہیں بنی اسد کی ایک عورت کو جس کا نام ام یعقوب تھا یہ خبر ملی تو وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو نے اس طرح لعنت کی ہے تو انہوں نے کہا میں کیوں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ

میں بھی ہے اس عورت نے کہا کہ میں نے اس کو پڑھ لیا ہے جو دو لوحوں کے درمیان ہے -لیکن جو تم کہتے ہو وہ میں نے اس میں نہیں پایا تو انہوں نے کہا کہ اگر تو پڑھتی تو ضرور اس میں پاتی کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ رسول جو کچھ تمہیں دے اس کو لے لو اور جس

سے روکے باز آ جاؤ،
اس نے کہا ہاں! عبداللہ نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے اس عورت نے کہا کہ تمہاری بیوی ایسا کرتی ہے انہوں نے کہا جا کر دیکھ آ، چنانچہ وہ گئی اور دیکھا تو کچھ نہ پایا عبداللہ نے کہا کہ اگر وہ ایسا کرتی تو میرے ساتھ نہ رہتی۔

دو لوحوں یا گتوں کے درمیان کیا تھا؟
واضح کہا گیا کہ اس کو پڑھو جو کتاب اللہ کے نام سے ہے ۔
اب آپ بتائیں کتاب اللہ کے نام سے کیا تھا؟ اب اس میں جس آیت کا ذکر ہے وہ کس میں درج ہے کیا قرآن مجید میں درج نہیں؟
اب کہا جاتا ہے کہ یہ مکمل نہیں تھا کچھ حصہ تھا۔
اللہ اکبر۔
تم وہ باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم نہیں ۔
جب نبی کریم ﷺ کے دور میں قرآن مجید مکمل ہو گیا تھا ۔ جب کاتب وحی لکھا بھی کرتے تھے ، تو یہ کیوں نہیں تسلیم کرتے کہ اس جلد میں مکمل قرآن ہی تھا کیونکہ آپ کے بڑے یہ فرما گئے کہ قرآن ایک جلد میں نہیں تھا بعد میں اس کو مکمل ایک جلد میں کیا گیا۔ تمہت ہے ،جھوٹ ہے ، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 777 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11
محمد بن عیسی، عثمان بن ابی شیبہ ، جریر، منصور، ابراہیم، علقمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے جسم گودنے والی اور گدوانے والی عورتوں پر۔ محمد بن عیسیٰ نے اپنی روایت میں "سر کے بالوں میں دوسرے بال جوڑنے والی پر بھی لعنت کرے" کا اضافہ کیا ہے۔ اوعثمان بن ابراہیم نے اپنی روایت میں بال اکھیڑنے والی بھی بیان کی ہیں پھر آگے دونوں متفق ہیں کہ فرمایا کہ اللہ لعنت فرمائے ان عورتوں پر جو اپنے دانتوں کو کشیدہ کرتی ہیں خوبصورتی کیلئے۔ جو اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرتی ہیں راوی کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) کے اس فرمان کی اطلاع بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچ گئی جسے ام یعقوب کہا جاتا تھا عثمان بن ابراہیم نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا کہ وہ قرآن کریم پڑھا کرتی تھی پھر آگے دونوں متفق ہیں تو وہ ابن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے آپ کے حوالے سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ جسم گودنے والی، گدوانے والی، سر کے بالوں میں دوسرے کے بال کو جوڑنے والی اور بالوں کو اکھیڑ نے والی اور دانتوں کو خوبصورتی کے لئے کشیدہ کرنے والی عورتیں اور جو اللہ کی تخلیق میں تبدیل وترمیم کرتی ہیں لعنت کی ہے ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ مجھے کیا مانع ہے کہ میں اسے لعنت نہ کروں جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی اور وہ اللہ کی کتاب میں بھی ہے وہ عورت کہنے لگی کہ بیشک میں نے قرآن کے دونوں گتوں کے درمیان (یعنی پورا قرآن) پڑھا ہے لیکن مجھے تو یہ کہیں بھی نہ ملی۔ ابن مسعود (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم اگر تو صحیح معنوں میں اسے پڑھتی تو ضرور پالیتی پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (سورۃ الحشر59آیت نمبر7۔)
(اور جو تمہیں رسول دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس سے روک دیں اس سے رک جایا کرو) وہ کہنے لگی کہ میں نے ان میں بعض باتیں آپ کی اہلیہ کی بھی دیکھی ہیں آپ نے فرمایا کہ اچھا جاؤ اور دیکھو پس وہ گھر میں داخل ہوئی پھر باہر نکلی تو کہا کہ میں نے نہیں دیکھا ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ نہ ہوتی۔




صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 432 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا وَکِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَطَبَنَا عَلِيٌّ فَقَالَ مَا عِنْدَنَا کِتَابٌ نَقْرَؤُهُ إِلَّا کِتَابَ اللَّهِ تَعَالَی وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَقَالَ فِيهَا الْجِرَاحَاتُ وَأَسْنَانُ الْإِبِلِ وَالْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَی کَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَی فِيهَا مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ وَمَنْ تَوَلَّی غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ مِثْلُ ذَلِکَ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ مِثْلُ ذَلِکَ


صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 432 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13
محمد وکیع اعمش ابراہیم تمیمی و اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ہمارے پاس صرف قرآن کریم ہے جس کو ہم پڑھتے ہیں اس صحیفہ ربانی میں زخمیوں کے احکام اور اونٹوں کی دیت اور مقام عیر سے فلاں مقام تک مدینہ منورہ کے حرم ہونے کا بیان ہے یہاں جو کوئی ظلم کرے یا کسی نئی بات کرنے والے کو جگہ دے تو اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اور ایسے شخص سے اس کی کوئی نفلی عبادت اور فرضی عبادت منظور نہیں کی جاتی اور جو کوئی اپنے مالک و آقا کی اجازت و مرضی کے خلاف کسی دوسرے سے دلار اور دوستی کرے گا تو ایسے شخص پر بھی لعنت ہوتی ہے اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری واحد ذمہ داری ہے اور جو کوئی کسی مسلمان کی بےعزتی کرے گا تو اس پر بھی اسی طرح لعنت ہوتی ہے۔



سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 269 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا کَتَبْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْقُرْآنَ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرَ إِلَی ثَوْرٍ فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَی مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَی بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ وَمَنْ وَالَی قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ

سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 269 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13
محمد بن کثیر، سفیان، اعمش، ابراہیم، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن اور اس صحیفہ کے علاوہ کچھ نہیں لکھا صحیفہ سے مراد دیت کے وہ احکام ہیں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو لکھوائے تھے اور وہ ان کی تلوار کے نیام میں رہتے تھے حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مدینہ عائر سے لے کر ثور تک حرم ہے جو کوئی دین میں نئی بات نکالے یا ایسے شخص کو پناہ دے اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا اور نہ نفل اور تمام مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جب ان میں سے کسی ادنیٰ شخص نے کسی کافر کو پناہ دی اور کسی مسلمان نے اس کی پناہ کو توڑا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل اور جو شخص ولا (دوستی کرے) کسی قوم سے بغیر اپنے دوستوں کی اجازت کے اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا اور نہ نفل۔


چنانچہ حضرت علی (رض) خود وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قرآن کریم اور صحیفہ مذکورہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لکھی ہے۔ آخر میں ایک بات یہ بھی جان لیجئے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ علم کی باتوں کو لکھنا اور مرتب کرنا

مستحب ہے، جو ایک عظیم الشان خدمت بھی ہے اور اجر و ثواب کا باعث بھی۔





 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
بھائی جان اگر آپ مجھے اپنا موقف سمجھانا چاہتے ہیں تو وہ تو میں سمجھا ہوا ہوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ موقف صحیح بھی ہے یا نہیں؟

آپ نے فرمایا:

میں ایک سیدھا سا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم لاریب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں؟
آپ کے پاس اس بارے میں کیا دلیل ہے؟ قرآن کریم میں خود موجود ہے کہ "ذلک الکتاب لا ریب فیہ" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ آیت خود غلط ہو۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا؟
قرآن کریم میں ہے کہ "ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں" لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بعد میں کسی نے اس میں ڈال دیا ہو تاکہ کسی کو قرآن پر شک نہ ہو!
آپ کے پاس کیا دلیل ہے آخر کہ قرآن کریم شک سے پاک ہے اور ہمارے پاس ویسے ہی موجود ہے جیسے نازل ہوا تھا؟ ہو سکتا ہے نافع، ورش، حفص، قالون، کسائی وغیرہ قراء س بھول ہو گئی ہو اور انہوں نے اس میں بہت کچھ مکس کر دیا ہو۔
ذرا اس سوال کا جواب دیجیے گا۔
آپ کے تمام سوالات صرف قیاس پر مشتمل تھے پھر بھی جواب دینے کی کوشش کی۔
آپ اپنے اردگر دیکھیں قرآن پر غور کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔
"ذلک الکتاب لا ریب فیہ"
اس کا جواب آپ کو خود مل جائے گا تلاش کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔
"ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں" ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ بعد میں کسی نے ڈال دیا ہو۔؟؟؟؟؟اس کا جواب بھی اس کو پڑھ کر مل جائے گا۔۔۔۔۔یعنی قرآن پر غور کرنے پر۔۔۔۔یہ قرآن کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
اب آپ کہتے ہیں کہ قرآن اور حدیث دونوں کی حفاظت کا ذمہ لیا آپ اور آپ کے علمائ اکرام غلط ہیں ایسا بلکل نہیں ہے۔

صرف قرآن کی حفاظت ہے مشاہدہ کر لیں پڑھ لیں صحیح بخاری اور قرآن مجید ۔۔۔اگر پھر بھی آپ کا یہی کہنا ہے تو بھائی میرا کوئی قصور نہیں اللہ ظالموں ، بے دین ، کفر ، شرک کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا شکریہ۔

قرآن مجید کی قدر کرنا سیکھ لو اپنی اپنی موت سے پہلے۔۔
لیکن آپ کہتے ہو اگر تم صحیح بخاری پر انگلی اٹھائو گے تو ہم قرآن پر اٹھائیں گے ۔۔۔اگر تم کہتے ہو صرف قرآن لاریب ہے صحیح بخاری بھی تو انہی لوگوں نے اکٹھی کی تو آپ غلط ہیں ، آپ کے پاس یہ صرف قیاس کے سوا کچھ نہیں ۔۔۔
قرآن مجید کی یہ شان ہے کہ جبرائل علیہ السلام نے خود نبی کریم ﷺ کو سمجھایا کہ کیسے ترتیب دینا ہے ۔ نبی کریم ﷺ اور جبرائیل علیہ السلام کی نگرانی میں ہی یہ مرتب ،ترتیب دیا گیا۔۔۔۔۔صحیح بخاری کے ساتھ ایسا کچھ بھی معاملہ نہیں۔
شکریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم!
آپ کے سیدھے سوال کا سیدھا جواب۔
سوال نمبر 1۔
میں ایک سیدھا سا سوال کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم لاریب ہے اور اس میں کوئی شک نہیں؟
جواب۔
میں قرآن مجید کو لاریب اس کا مشاہدہ کر کے کہتا ہوں آج 2017 میں تمام قرآن مجید دیکھتا ہوں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ لاریب ہے اور اس کو پڑھ کر سمجھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ واقع یہ کتاب اللہ کی طرف سے ہی ہے ۔

یہ وہ کتاب ہے جیسے کسی تعارف کی ضرورت نہیں۔
اور اس میں کوئی شک نہیں ۔۔۔۔یہ میں کیسے کہہ سکتا ہوں اس کو پڑھ کر اس پر غور و فکر کر کے کسی کے کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ لاریب اور شک سے پاک ہے ۔۔۔
قرآن مجید کیا کوئی ضعیف قرآن مجید ہے؟کیا کوئی اسی آیت ہے جو شک کی بنیاد پر نکال دی گئی ہو؟کیا کوئی کلمہ پڑھنے والا ایسا ہے جو آیت پر تبصرہ کر کے ان کو جھوٹا ثابت کرتا ہو،کیا کسی آیت میں یہ فلاں ہوگا!یا تھا!یا معلوم نہیں یہ کہا تھا یہ فلاں بات تھی جیسے شک والے کلمات ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ ہے میری دلیل مشاہدہ ۔۔اس سے ثابت ہوا قرآن لاریب شک سے پاک ہے ۔ اللہ کی طرف سے ہے ۔۔ ۔ صحیح بخاری میں بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں شک والے الفاظ استعمال کئے گئے اور بہت سے علمائ نے تنقید کی ۔ یہاں تک بخاری صاحب نے بہت سی احادیث کو ضعیف کہہ کر نکال بھی دیا جبکہ ان میں بھی نبی کریم ﷺ کا نام لیا گیا تھا کیا ان کو معلوم نہیں تھا کہ نبی کریم ﷺ جھوٹ نہیں بولتے ، وہ تو صرف حق بات کرتے انہوں نے غور وفکر کیا تقلید نہیں کی جیسے آپ کرتے ہیں انہوں نے نبی کریم ﷺ کا نام لے کر جو جو بات کی اس کی تحقیق کی جتنی کر سکتے تھے ۔ لیکن ابھی بھی اس صحیح بخاری میں بہت سی احادیث و روایات قرآن کے خلاف ہیں متن کے خلاف ہیں عربی پر غور کریں تب معلوم ہوتا ہے ۔ ۔ ۔

اب میں نبی کریم ﷺ کے دور سے شروع کرتا ہوں۔ اور اپنے دلائل دینا شروع کرتا ہوں کہ صحیح بخاری اور قرآن مجید میں کیا فرق ہے کہ ہم صحیح بخاری کی ہر حدیث کو نبی کی حدیث نہیں کہہ سکتے لیکن قرآن کی ہر آیت کو اللہ کی طرف سے مانتے ہیں بلکہ اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ لاریب ہی نہیں بلکہ ہر طرح سے محفوط کتاب ہے ۔

٭قرآن مجید اللہ تعالیٰ کے نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا ۔۔۔۔۔
ہمیں کیسے معلوم ہوتا ہے قرآن پڑھ کر۔۔۔۔۔

نبی کریم ﷺ پڑھے لکھے نہیں تھے ہمیں کیسے معلوم ہوا۔۔
قرآن پڑھ کر۔۔۔
وحی نازل ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ پڑھ بھی سکتے تھے اور لکھ بھی سکتے تھے۔

کیسے معلوم ہوا قرآن پڑھ کر۔

سورۃ البینہ98آیت نمبر 2تا3۔
رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةًفِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ
(یعنی ) اللہ کی طرف سے ایک رسول (محمد ؐ) ، جو پاک صحیفے (اوراق)پڑھ کر سنائے، (2) جن میں ، بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہیں۔(جس میں ، صاف احکام لکھے ہوئے ہوں)(3)

نبی کریم ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو اپنے پاس لکھ لیا کرتے تھے ساتھ ساتھ اس کو یاد بھی کر لیا کرتے تھے ۔ اگر صرف یاد کر لیا جاتا اور لکھا نہ جاتا تو یہ زیادہ محکم نہیں تھا زیادہ پائیدار نہیں تھا اس یعنی قرآن مجید جیسے احکمات کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنا لازم تھا کیونکہ بہت احکم احکامات تھے اس کی وضاحت سورۃ البقرہ کی آیت نمبر282
میں اللہ کا فرمان ہے ۔


اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جس کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور اِملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے ( یعنی قرض لینے والا) ، اور اسے اللہ ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املاء نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املاء کرائے۔ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(282)

اب کہا جاتا ہے کہ قرآن کو لکھا نہیں جاتا تھا ٹائم نہیں ہوتا تھا یا کاغذ نہیں ہوتا تھا فلاں فلاں بھائی یہ سب قیاس ہے آپ کا کیونکہ آپ آنکھ بند کر کے صرف تقلید کرنا پسند کرتے ہیں آپ کے علمائ جو کچھ کہہ گئے اگر آج کوئی دلیل سے واضح کر دے تو بھی اس کا انکار کر دیتے ہیں کیونکہ آپ کے بڑے غلط ثابت ہو جاتے ہیں اگر آپ حق تسلیم کر لیں تو۔
یہ عام لین دین کا کام لکھا جاتا رہا اور اللہ کا فرمان ہے کہ لین دین کے کام میں لکھ لیا کرو اس سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے ۔
اور اتنا اہم کام قرآن مجید کا معاملہ نبی کریم ﷺ اس طرح چھوڑ گئے کہ اصحاب اکرام اس کی آیات کو تلاش کر رہے ہیں ۔ وہ قرآن مجید جو نبی کریم ﷺ پر 23 سال میں نازل ہوا اور ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو لکھتے بھی رہے وہ آخر گیا کہاں پھر کاتب وحی جو قرآن مجید لکھتے تھے کیا وہ کوئی مٹھائی تھی،کوئی چیچی تھی ،جو وہ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے مانگنے والے کو دے دیتے تھے!!!!!نہیں ایسا نہیں ہوا کاتب وحی کے پاس جو کوئی سورۃ آیت لینے آتا تھا اس کی نقل کی جاتی تھی جو ان کے پاس محفوظ ہوتی لکھی ہوئی ہوتی تھی اس سے نقل کر کے دی جاتی تھی۔
اب کہا جاتا ہے کہ قرآن مکمل تو تھا لیکن ایک جگہ نہیں تھا یہ بھی قرآن کی حاکمیت کی کم کرنے کی سازش ہے جو شیعہ نے کی اور ہمارے یہ پیارے کلمہ پڑھنے والے بھی اس میں مبتلہ ہو چکے ۔۔۔۔

سورۃ الطور میں ہے ۔ 52 آیت نمبر 3۔
ترجمہ نمبر 1۔جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے،(3)
ترجمہ نمبر 2۔اورلکھی ہوئی کتاب کی۔کشادہ ورق میں۔
ترجمہ نمبر 3۔اور اس کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔کشادہ ورق میں۔

سورۃ الفرقان آیت نمبر 5
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا۔
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)

واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ نقل کراتے تھے یعنی کاتب وحی کا لکھا ہوا لوگوں کو نقل کراتے تھے اور پھر اس لکھے ہوئے اور یاد کئے ہوئے دونوں طریقوں سے تلاوت کی جاتی تھی۔اس کی دلیل
سورۃ البینہ98آیت نمبر 2تا3۔
یہ ہے۔
اب کہا جاتا ہے کہ نبی کریم۔ مکمل قرآن ہمیں دے کر گئے یہ بھی تہمت ہے ۔ کاتب وحی لکھتے تھے نبی کریم ﷺ کو 23 سال ملے اس کام کے لئے پھر بھی یہ کہا جاتا ہے صرف اپنے اپنے آباواجداد کو بچانے کے لئے کہ وہ یہ کہہ گئے ۔
جبکہ نبی کریم ﷺ مکمل قرآن ہمیں دے کر گئے ۔۔۔۔اس کی دلیل

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2096 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ فَبَلَغَ ذَلِکَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ فَجَائَتْ فَقَالَتْ إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْکَ أَنَّکَ لَعَنْتَ کَيْتَ وَکَيْتَ فَقَالَ وَمَا لِي أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِي کِتَابِ اللَّهِ فَقَالَتْ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ قَالَ لَئِنْ کُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا قَالَتْ بَلَی قَالَ فَإِنَّهُ قَدْ نَهَی عَنْهُ قَالَتْ فَإِنِّي أَرَی أَهْلَکَ يَفْعَلُونَهُ قَالَ فَاذْهَبِي فَانْظُرِي فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا فَقَالَ لَوْ کَانَتْ کَذَلِکَ مَا جَامَعْتُهَا
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2096 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11
(آیت) اور رسول جو تمہیں دیں تو وہ لے لو۔ محمد بن یوسف، سفیان، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت کی جو بدن کو گودتی ہیں اور گودواتی ہیں اور چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں حسن کے لئے دانتوں کو کشادہ کراتی ہیں اللہ تعالیٰ

کی بنائی ہوئی صورت کو بدلنے والی ہیں بنی اسد کی ایک عورت کو جس کا نام ام یعقوب تھا یہ خبر ملی تو وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو نے اس طرح لعنت کی ہے تو انہوں نے کہا میں کیوں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ

میں بھی ہے اس عورت نے کہا کہ میں نے اس کو پڑھ لیا ہے جو دو لوحوں کے درمیان ہے -لیکن جو تم کہتے ہو وہ میں نے اس میں نہیں پایا تو انہوں نے کہا کہ اگر تو پڑھتی تو ضرور اس میں پاتی کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ رسول جو کچھ تمہیں دے اس کو لے لو اور جس

سے روکے باز آ جاؤ،
اس نے کہا ہاں! عبداللہ نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے اس عورت نے کہا کہ تمہاری بیوی ایسا کرتی ہے انہوں نے کہا جا کر دیکھ آ، چنانچہ وہ گئی اور دیکھا تو کچھ نہ پایا عبداللہ نے کہا کہ اگر وہ ایسا کرتی تو میرے ساتھ نہ رہتی۔

دو لوحوں یا گتوں کے درمیان کیا تھا؟
واضح کہا گیا کہ اس کو پڑھو جو کتاب اللہ کے نام سے ہے ۔
اب آپ بتائیں کتاب اللہ کے نام سے کیا تھا؟ اب اس میں جس آیت کا ذکر ہے وہ کس میں درج ہے کیا قرآن مجید میں درج نہیں؟
اب کہا جاتا ہے کہ یہ مکمل نہیں تھا کچھ حصہ تھا۔
اللہ اکبر۔
تم وہ باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم نہیں ۔
جب نبی کریم ﷺ کے دور میں قرآن مجید مکمل ہو گیا تھا ۔ جب کاتب وحی لکھا بھی کرتے تھے ، تو یہ کیوں نہیں تسلیم کرتے کہ اس جلد میں مکمل قرآن ہی تھا کیونکہ آپ کے بڑے یہ فرما گئے کہ قرآن ایک جلد میں نہیں تھا بعد میں اس کو مکمل ایک جلد میں کیا گیا۔ تمہت ہے ،جھوٹ ہے ، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 777 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11
محمد بن عیسی، عثمان بن ابی شیبہ ، جریر، منصور، ابراہیم، علقمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے جسم گودنے والی اور گدوانے والی عورتوں پر۔ محمد بن عیسیٰ نے اپنی روایت میں "سر کے بالوں میں دوسرے بال جوڑنے والی پر بھی لعنت کرے" کا اضافہ کیا ہے۔ اوعثمان بن ابراہیم نے اپنی روایت میں بال اکھیڑنے والی بھی بیان کی ہیں پھر آگے دونوں متفق ہیں کہ فرمایا کہ اللہ لعنت فرمائے ان عورتوں پر جو اپنے دانتوں کو کشیدہ کرتی ہیں خوبصورتی کیلئے۔ جو اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرتی ہیں راوی کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) کے اس فرمان کی اطلاع بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچ گئی جسے ام یعقوب کہا جاتا تھا عثمان بن ابراہیم نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا کہ وہ قرآن کریم پڑھا کرتی تھی پھر آگے دونوں متفق ہیں تو وہ ابن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے آپ کے حوالے سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ جسم گودنے والی، گدوانے والی، سر کے بالوں میں دوسرے کے بال کو جوڑنے والی اور بالوں کو اکھیڑ نے والی اور دانتوں کو خوبصورتی کے لئے کشیدہ کرنے والی عورتیں اور جو اللہ کی تخلیق میں تبدیل وترمیم کرتی ہیں لعنت کی ہے ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ مجھے کیا مانع ہے کہ میں اسے لعنت نہ کروں جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی اور وہ اللہ کی کتاب میں بھی ہے وہ عورت کہنے لگی کہ بیشک میں نے قرآن کے دونوں گتوں کے درمیان (یعنی پورا قرآن) پڑھا ہے لیکن مجھے تو یہ کہیں بھی نہ ملی۔ ابن مسعود (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم اگر تو صحیح معنوں میں اسے پڑھتی تو ضرور پالیتی پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (سورۃ الحشر59آیت نمبر7۔)
(اور جو تمہیں رسول دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس سے روک دیں اس سے رک جایا کرو) وہ کہنے لگی کہ میں نے ان میں بعض باتیں آپ کی اہلیہ کی بھی دیکھی ہیں آپ نے فرمایا کہ اچھا جاؤ اور دیکھو پس وہ گھر میں داخل ہوئی پھر باہر نکلی تو کہا کہ میں نے نہیں دیکھا ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ نہ ہوتی۔




صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 432 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا وَکِيعٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ خَطَبَنَا عَلِيٌّ فَقَالَ مَا عِنْدَنَا کِتَابٌ نَقْرَؤُهُ إِلَّا کِتَابَ اللَّهِ تَعَالَی وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ فَقَالَ فِيهَا الْجِرَاحَاتُ وَأَسْنَانُ الْإِبِلِ وَالْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَی کَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا أَوْ آوَی فِيهَا مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ وَمَنْ تَوَلَّی غَيْرَ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ مِثْلُ ذَلِکَ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ مِثْلُ ذَلِکَ


صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 432 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13
محمد وکیع اعمش ابراہیم تمیمی و اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (رض) نے ہم سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ ہمارے پاس صرف قرآن کریم ہے جس کو ہم پڑھتے ہیں اس صحیفہ ربانی میں زخمیوں کے احکام اور اونٹوں کی دیت اور مقام عیر سے فلاں مقام تک مدینہ منورہ کے حرم ہونے کا بیان ہے یہاں جو کوئی ظلم کرے یا کسی نئی بات کرنے والے کو جگہ دے تو اس پر اللہ تعالیٰ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اور ایسے شخص سے اس کی کوئی نفلی عبادت اور فرضی عبادت منظور نہیں کی جاتی اور جو کوئی اپنے مالک و آقا کی اجازت و مرضی کے خلاف کسی دوسرے سے دلار اور دوستی کرے گا تو ایسے شخص پر بھی لعنت ہوتی ہے اور تمام مسلمانوں کی ذمہ داری واحد ذمہ داری ہے اور جو کوئی کسی مسلمان کی بےعزتی کرے گا تو اس پر بھی اسی طرح لعنت ہوتی ہے۔



سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 269 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا کَتَبْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْقُرْآنَ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرَ إِلَی ثَوْرٍ فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَی مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَی بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ وَمَنْ وَالَی قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ

سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 269 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13
محمد بن کثیر، سفیان، اعمش، ابراہیم، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن اور اس صحیفہ کے علاوہ کچھ نہیں لکھا صحیفہ سے مراد دیت کے وہ احکام ہیں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو لکھوائے تھے اور وہ ان کی تلوار کے نیام میں رہتے تھے حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مدینہ عائر سے لے کر ثور تک حرم ہے جو کوئی دین میں نئی بات نکالے یا ایسے شخص کو پناہ دے اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا اور نہ نفل اور تمام مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جب ان میں سے کسی ادنیٰ شخص نے کسی کافر کو پناہ دی اور کسی مسلمان نے اس کی پناہ کو توڑا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل اور جو شخص ولا (دوستی کرے) کسی قوم سے بغیر اپنے دوستوں کی اجازت کے اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا اور نہ نفل۔


چنانچہ حضرت علی (رض) خود وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قرآن کریم اور صحیفہ مذکورہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لکھی ہے۔ آخر میں ایک بات یہ بھی جان لیجئے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ علم کی باتوں کو لکھنا اور مرتب کرنا

مستحب ہے، جو ایک عظیم الشان خدمت بھی ہے اور اجر و ثواب کا باعث بھی۔





کمال ہے یار! ایک تو اتنے دن لگائے۔۔۔ دوسرا۔۔۔۔۔
سب دلائل دیے ہیں قرآن کریم سے حالانکہ اسی کے بارے میں تو بات ہو رہی ہے۔ ذرا ایک منٹ کے لیے فرض کر لیں کہ میں مسلمان یا کلمہ گو نہیں ہوں اور میں کہتا ہوں کہ یہ قرآن (نعوذ باللہ) جھوٹ ہے۔ یہ کسی شخص نے ایجاد کر کے ایک کہانی بنائی ہے اسلام اور مسلمانوں کی اور اس میں اس کو ڈال دیا ہے۔ پھر آپ کے پاس کیا جواب ہوگا میری بات کا؟
آپ مجھے اس کے سچ ہونے پر کیا دلیل دیں گے؟ میں نے وہ دلیل پوچھی ہے۔
 
Top