• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث میں تحریف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
4- امام طبرانی بھی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں:
2wdwvo8.png

امام طبرانی نے اس حدیث کو علی بن عبدالعزیز سے انہوں نے ابو نعیم سے اور وہ اسے موسیٰ بن عمیر سے روایت کرتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
5-امام البیہقی بھی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں:
2nh46sn.png

امام البیہقی نے اس حدیث کو تین واسطوں سے ابونعیم سے اور انہوں نے اسے موسیٰ بن عمیر سے روایت کیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
صحیح مسلم میں سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہم کی روایت

ان تمام محدثین رحمھم اللہ نے سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہم کی حدیث کو اپنی اپنی کتابوں میں تحت السرۃ کے اضافہ کے بغیر بیان کیا ہے اور کوئی ایک محدث بھی اس من گھڑت اضافے کا ذکر نہیں کرتا۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہم کی یہ حدیث موسیٰ بن عمیر عن علقمہ کی سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی ذکر کی گئی ہے۔ اس سلسلہ کی صحیح مسلم والی روایت ملاحظہ فرمائیں:
t8u26v.png

uwrux.png


(ترجمہ) ''سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (نماز پڑھنے ہوئے) دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین کیا تو اللہ اکبر کہا اور نماز میں داخل ہوئے۔ اس حدیث کے راوی ہمام کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے پھر چادر اوڑھ لی اور اس کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کا اراد کیا تو دونوں ہاتھ چادر سے نکالے اور رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو رفع الیدین کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہتھیلیوں کے درمیان سجدہ کیا''۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
یہ حدیث ابوداو'د (۷۲۶) اور ابن ماجہ (۸۱۰)میں بھی ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں:
ثم اخذ شمالہ بیمینہ
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑا۔
اور سنن نسائی کی طویل حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
ثم وضع یدہ الیمنی علی ظھرکفہ الیسری و الرسغ والساعد
(سنن النسائی۸۸۹) (سنن ابی داو'د (۷۲۷) (صحیح ابن خزیمہ ج۱۔ص۴۸۰)
''پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر اور جوڑ پر اور بازو پر رکھا''۔
ابوداو'د اور ابن خزیمہ میں کفہ سے پہلے ظہر کا لفظ بھی ہے۔ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہم کی حدیث کے مطابق اگر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے پورے بازو پر رکھا جائے تو اس طرح دونوں ہاتھ باآسانی سینہ تک آجاتے ہیں۔ اور صحیح بخاری میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہم کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے:
عن سھل بن سعد قال کان الناس یؤمرون ان یضع الرجل یدہ الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلاۃ (صحیح بخاری:۷۴۰ کتاب الاذان باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوۃ)
جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ ''لوگوں (صحابہ کرام) کو حکم دیا جاتا تھا کہ مرد نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی ذراع (بازو) پر رکھیں''۔
ذراع کلائی کو کہتے ہیں جو ہاتھ سمیت کہنی تک کا حصہ ہوتا ہے۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کی کہنی تک پھیلا دیا جائے تو ہاتھ کسی صورت بھی ناف کے نیچے نہیں جا سکتے بلکہ ناف تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہم کی ایک روایت میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کے الفاظ بھی مروی ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جناب وائل بن حجر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:
صلیت مع رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم و وضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری علی صدرہ (صحیح ابن خزیمیہ ۱/۲۴۳(۴۷۹)
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر اپنے سینہ پر رکھا ہوا تھا''۔
اس حدیث کے ایک راوی مومل بن اسماعیل پر اعتراض کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مومل ثقہ ہے۔ کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے صحیح بخاری (حدیث نمبر۷۰۸۳) میں معلق حدیث بیان کی ہے لہٰذا وہ ان کے نزدیک صحیح الحدیث (ثقہ و صدوق) ہے۔ اور اس حدیث کی تائید مسند احمد (۵/۲۲۶) میں ھلب طائی کی حدیث سے بھی ہوتی ہے لہٰذا یہ حدیث حسن درجہ سے کسی طرح بھی کم نہیں ہے۔ نیز ابوداو'د (۷۵۹) میں طاؤس رحمہ اللہ کی مرسل روایت بھی موجود ہے جس کی سند صحیح ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دیوبندیوں کے مناظر مولوی امین اوکاڑوی کے نزدیک مرسل روایت صحیح ہوتی ہے بلکہ وہ لکھتے ہیں: ''جب غلبہ خیر کے ان تینوں ادوار میں ارسال، تدلیس اورجہالت کوئی جرح ہی نہیں''۔ آگے لکھتا ہے: صدوق سیئ الحفظ صدوق یھم صدوق لہ اوھام ...... ان بارہ طبقات میں سے پہلے نو طبقات تو وہ ہیں جن پر جرح مفسر ہے ہی نہیں اس لئے یہ راوی ہمارے ہاں مجروح نہیں ہیں'' (تجلیات ج۲ ص۹۵،۹۷،۹۸) نیز دیکھئے (تجلیات ج۴ ص۱۹،۲۰)۔ دیوبندیوں کے مناظر کے نزدیک جرح کے ان الفاظ کے باوجود بھی ایسی جرح سے کوئی راوی مجروح نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا دیوبندی حضرات ایسے راویان حدیث پر خواہ مخواہ جرح کر کے اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
الاستاذ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے مومل بن اسماعیل رحمہ اللہ کے متعلق ایک انتہائی علمی و تحقیقی مضمون بعنوان ''اثبات التعدیل فی توثیق مؤمل بن اسماعیل'' سپرد قلم کیا ہے اور جرح و تعدیل کے تمام اقول کو اکٹھا کر کے زبردست دلائل کے ساتھ ان کی توثیق ثابت کی ہے اور انہیں ثقہ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ''الحدیث شمارہ نمبر۲۱''۔
اسی طرح انہوں نے سماک بن حرب رحمہ اللہ کے متعلق بھی اسی طرح کا ایک علمی مضمون بعنوان نصر الرب فی توثیق سماک بن حرب بھی لکھا ہے اور سماک بن حرب کو بھی ثقہ ثابت کیا ہے تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں: ماہنامہ ''الحدیث حضرو شمارہ نمبر۲۲''۔
اس تفصیلی بحث سے ثابت ہوا کہ تحت السرہ کا اضافہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہم کی کسی حدیث میں بھی ثابت نہیں ہے اور جن لوگوں نے یہ اضافہ کر کے لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے انہیں اپنے اس مذموم فعل سے رجوع کر لیا چاہیئے۔ وہ بلا شبہ خود حنفی بنیں لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حنفی بنانے کی کوشش نہ کریں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سنن ابی داو'د کی ایک روایت میں تحریف

دیوبندی حضرات نے سنن ابی داو'د کی ایک روایت میں بھی اپنے مذموم مقصد کے لئے تحریف کر ڈالی جس کا علمی و تحقیقی جواب استاذ العلماء و شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ آف جلال پورپیر والا نے ''نعم الشہود علی تحریف الغالین فی سنن ابی داو'د'' میں دیا ہے۔ سنن ابوداو'د کی جس روایت میں تحریف کی گئی ہے پہلے اس روایت کا مطالعہ کرتے ہیں:
nwzp55.png

2vv9sh4.png


(ترجمہ) ''جناب حسن بصری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جناب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہم نے لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کی امامت میں جمع کیا تاکہ وہ لوگوں کو تراویح پڑھائیں۔ پس ابی بن کعب رضی اللہ عنہم انہیں بیس راتوں تک نماز پڑھاتے اور وہ قنوت صرف رمضان کے باقی نصف میں پڑھتے (یعنی جب نصف رمضان گزر جاتا تو قنوت پڑھنا شروع کر دیتے) اور جب آخری عشرہ ہوتا تو آپ رضی اللہ عنہم گھر چلے جاتے اور اپنے گھر میں نماز پڑھتے اور لوگ یہ کہتے کہ ابی رضی اللہ عنہم بھاگ گئے''
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ ''ابی بن کعب رضی اللہ عنہم لوگوں کو بیس راتوں تک نماز تراویح پڑھاتے اور جب آخری عشرہ آتا تو وہ گھر چلے جاتے اور اپنے گھر میں نمازِ تراویح ادا فرماتے۔ اس روایت میں ''عشرین لیلۃ'' یعنی ''بیس راتوں'' کا ذکر آیا ہے لیکن دیوبندی حضرات نے عشرین لیلۃ کو عشرین رکعۃ یعنی بیس رکعتیں کر دیا ہے۔ حالانکہ حدیث کا سیاق اس کا متحمل نہیں ہے۔ جناب الشیخ سلطان محمود رحمہ اللہ اس روایت کی وضاحت ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
چوتھی شہادت:
روایت مذکورہ کے چوتھے جملے یعنی واذا کانت العشر الاواخر تخلف کا آغاز فائے تفریع و ترتیب سے ہے اور ظاہر ہے کہ یہ جملہ دوسرے جملے یعنی فکان یصلی بھم عشرین لیلۃ پر مرتب ہے اور یہ ترتیب اس وقت صحیح ہو سکتی ہے جب اس جملہ میں لفظ لیلۃ ہی ہو اگر اس جملے میں لفظ رکعۃ ہو تو پھر ترتیب اور تفریع صحیح نہیں رہتے اور باوجود فائے تفریعیہ کے یہ عبارت بے جوڑ سی بن جاتی ہے۔
کما لا یخفی علی من لہ ادنی مما رسۃ بالعربیۃ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
پانچویں شہادت
مولانا خلیل احمد صاحب حنفی سہارن پوری نے اپنی مشہور کتاب بذل المجہود فی حل ابی داو'د میں اس حدیث کو جب بغرض شرح لکھا ہے تو لفظ لیلۃ ہی کو ذکر کیا ہے اور اس پر اپنی شرح کی بنیا رکھی ہے۔ ان کی عبارت یہ ہے:
پس تھا ابی نماز پڑھاتا تھا ان کو بیس راتیں اور نہیں قنوت پڑھتا تھا مگر نصف باقی میں۔ ظاہر یہ ہے کہ نصف باقی سے مراد درمیانی عشرہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہلے عشرہ میں قنوت نہ پڑھتا تھا اور دوسرے عشرے میں قنوت پڑھتا تھا۔ رہا تیسرا عشرہ تو اس میں مسجد میں آنے سے رک جاتا اور لوگوں سے الگ اپنے گھر ہی میں رہتا اور جب یہ عشرہ آتا تو مسجد میں نہ آتا اور گھر ہی میں نماز پڑھتا۔ تب لوگ کہتے تھے کہ ابی رضی اللہ عنہم بھاگ گیا۔
اس عبارت سے واضح ہے کہ مولانا نے دوسرے علماء کے خلاف نصف باقی سے بیس راتوں کا آخری نصف یعنی درمیانہ عشرہ مراد لیا ہے حالانکہ باقی علماء نے بالخصوص شوافع نے النصف الباقی سے رمضان کا آخری عشرہ مراد لیا ہے اور مولانا کا یہ مراد لینا تب صحیح ہو سکتا ہے جب لفظ عشرین لیلۃ کا ہو اگر لفظ عشرین رکعۃ کا ہو تو پھر اس کا نصف باقی تو آخری دس رکعتیں ہو گی نہ کہ رمضان کا درمیانہ عشرہ اور غالباً مولانا نے یہ توجیہ اس لئے کی ہے کہ شوافع کا مذہب ہے کہ قنوت الوتر رمضان کے نصف آخر کے ساتھ خاص ہے اور وہ لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ اب اس توجیہ سے یہ حدیث ان کا مستدل نہیں بن سکے گی۔ بہرحال اس کی توجیہ کچھ بھی ہو۔
 
Top