• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات قرآنیہ کی اَساس…تلقّی وسماع

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح امام بخاری﷫ اپنی صحیح بخاری، جلد نمبر ۲ ص ۷۴۷ پر حدیث نمبر ۴۹۹۲ اور ۵۰۴۱ میں، امام مسلم﷫ حدیث نمبر ۸۱۸ میں، اسی طرح امام مالک، ابوداؤد،نسائی ،ترمذی﷭ نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ابن الاثیر﷫ نے جامع الاصول جلد نمبر ۲ ص ۴۷۹ پراس چیزکی صراحت کی ہے کہ اس حدیث کو تواتر کادرجہ حاصل ہے، نیز علامہ خطابی﷫ نے نظم المتناثر فی الحدیث المتواتر کے ص ۱۱۱ پرتواتر کی تصریح کی ہے اوروہ حدیث یہ ہے:
عن عمر بن الخطاب سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اﷲﷺ فاستمعت لقرأتہ فإذا ہو یقرأ علی حروف کثیرۃ لم یقرأنیہا رسول اﷲﷺ فکدت أساورہ فی الصلوۃ فتصبرت حتی سلّم فلببتہ برداء ہ فقلت من أقرأ ک ہذہ السورۃ التی سمعتـک تقـرأہا قال اقرأنیہا رسول اﷲﷺ فقلت کـذبت فإن رسول اﷲﷺ قد اقرأنیہا علی غیر ما قراء ت فانطلقت بہ أقودہ إلی رسول اﷲﷺ فقلت یا رسول اﷲﷺ إنی سمعت ہذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف لم تقرأ نیہا فقال رسول اﷲﷺ اقرأ یا ہشام فقرأ علیہ القراء ۃ التی کنت سمعتہ یقرأ فقال رسول اﷲﷺ ہکذا أنزلت ثم قال النبی اقرأ یا عمر فقرأت قراء ۃ التی اقرأنی فقال رسول اﷲﷺ ہکذا أنزلت إن ہذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرؤا ما تیسرمنہ‘‘
یہ حدیث اس چیز کی واضح اور صریح دلیل ہے کہ قراء ات تلقی وسماع پر مبنی ہیں ،کیونکہ آپﷺنے خود صحابہ کرام﷢کو سکھلائیں۔اسی لیے دونوں صحابہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں رسول اللہﷺنے پڑھایا ہے۔
اورسب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپﷺکا بذات خود اقرار کرنا کہ ہاں ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اگر اپنے پاس سے ہوتا تو کبھی ہکذا أنزلت نہ کہتے۔اس حدیث میں لفظ الاقراء کا تکرار اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قراء ت توقیف ،تلقین ،تلقی ،اخذ،مشافہہ ، نقل ،سماع عن رسو ل اﷲﷺ پر مبنی ہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر﷜نے حضرت ہشام﷜ کی قراء ت کا انکار اس لئے نہیں کیا تھا کہ ان کی لغت میں نہیں تھابلکہ اس لئے کیا تھاکہ انہوں نے اس کے خلاف سنا تھا جوانہوں نے خود رسالت مآبﷺسے سیکھا تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح طبرانی میں ایک روایت ہے کہ
’’ أن عمر سمع رجلا یقرأ فخالفت قراء تہ قراء ۃ عمر فاختصما عند النبیﷺ فقال الرجل الم تقرأ نی یارسو ل اﷲﷺ قال بلی فوقع فی صدر عمر شیء عرفہ النبی وجہہ فضرب الرسو لﷺ فی صدر عمر وقال اللہم ابعد عنہ الشیطان ثم قال انزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلہا شاف کاف
حضرت عمر﷜ کا جس آدمی سے جھگڑا ہوا تواس نے کس طرح ببانگ دہل کہا کہ الم تقرأنی یارسو ل اﷲﷺ ’’ کہ یا رسول اللہﷺ !کیا یہ آپﷺ نے مجھے نہیں پڑھائی؟ توآپﷺنے جواب دیا: کیوں نہیں، میں نے ہی پڑھائی ہیں۔ اگر آپﷺنے پڑھائی نہ ہوتی اور صحابی نے پڑھی نہ ہوتی توصحابی اتنی جرات نہیں کرسکتاتھا کہ ایسے الفاظ منہ سے کہتا اور آپﷺاس کی تصدیق نہ فرماتے۔
اسی طرح امام احمد﷫ اپنی مسند میں ابوقیس مولی عمرو بن العاص﷜سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’أن رجلا قرأ آیۃ من القرآن فقال لہ عمر وإنما ہی کذا وکذا بغیر ما قرأ الرجل فقال الرجل ہکذا اقرأ نیہا رسو ل اﷲﷺ فخرجا إلی رسو ل اﷲﷺ حتی أتیاہ فذکرا ذلک لہ فقال إن ہذا القرآن نزل علی سبعۃ أحرف فأی ذلک قراء تم أصبتم فلا تماروا فی القرآن فان المراء فیہ کفر‘‘
اس حدیث میں بھی وہی سابقہ حدیث کامعمہ سامنے آیا ہے کہ لڑائی میں صحابی نے اپنے آپ کوسچاثابت کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت کے طور پر فورا ہکذا أقرأنیہا رسول اﷲﷺ کہہ ڈالا جس کی بعد ازاں آپﷺنے تصدیق وتوثیق کردی کہ ہا ں میں نے پڑھائی ہے۔اور اس لئے پڑھائی ہیں کہ قرآن اتراہی سات حروف میں ہے ۔
ابن حبان﷫اپنی مسند میں اور امام حاکم﷫ مستدرک میں ابن مسعود﷜سے روایت کرتے ہیں کہ :
’’اقرأنی رسول اﷲﷺ سورۃ من آ ل حم فرحت إلی المسجد فقلت لرجل اقرأہا فاذا ہو یقرأ حروفا ما أقرأہا فقال أقرأنیہا رسو ل اﷲﷺ فانطلقنا إلی رسو ل اﷲﷺ فأخبرناہ فتغیر وجہہ وقال إنما ہلک من کان قبلکم الاختلاف ثم أسر إلی علی شیئًا فقال علی إن رسو ل اﷲﷺ یأمرکم أن یقرأ کل منکم کما علم قال فانطلقنا وکل رجل منا یقرأ حروفا لا یقرأ صاحبہ ‘‘
اس حدیث میں بھی سابقہ نزاع ہوا او ررفع نزاع کے لئے وہی نکتہ سامنے آیاکہ أقرأنیہا رسو ل اﷲﷺ جوکہ تلقی وسماع کا بین ثبوت ہے اورپھر آپ کا قول ’’أن یقرأ کل منکم کما علم‘‘ سے یہ بات مترشح ہوئی کہ آپﷺکے دور تعلیم وتعلم کا سلسلہ بھی اعلی سطح پرہوتاتھا۔ اسی طرح طبرانی تفسیر معجم میں اورطبری تفسیرزید بن ارقم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:
’’جاء رجل إلی رسو ل اﷲﷺ فقا ل أقرأنی ابن مسعود سورۃ اقرانیہا زید،وأقرأنیہا أبی بن کعب فاختلف قراء تہم فبقراء ۃ أیہم آخذ؟ فسکت رسو ل اﷲﷺ وعلی إلی جنبہ فقال علی لتقراء کل إنسان منکم کما علّم فإنہ حسن جمیل ‘‘
اس حدیث میں ایک نئی چیز یہ سامنے آئی کہ آپﷺ کی طرح صحابہ کرام﷢بھی اسی منہج کے ساتھ لوگوں کو قراء ات سکھلاتے تھے ۔گویا صحابہ کرام﷢بھی سماع وتلقی کا پورا لحاظ کرتے تھے،جوکہ اقرأ نی ابن مسعود، اقراء نیہا زید، اقراء نیہا أبی بن کعب سے سمجھ آتا ہے اور اسی طرح لیقراء کل إنسان منکم کما علم سے بھی یہی کلیہ اخذہوتاہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اوراسی طرح امام احمد﷫اپنی مسند میں حضرت حذیفہ﷜سے روایت نقل کرتے ہیں کہ
’’لقی رسو ل اﷲﷺ جبریل وہوعند أحجار المری فقال إن أمتک یقرؤن علی سبعۃ أحرف فمن قراء منہم علی حرف فلیقرأ کما علم ولا یرجع عنہ‘‘
اس حدیث میں بھی فلیقراء کما علم ہمیں بتلاتاہے کہ صحابہ نے سماعا قراء ات حاصل کی تھیں کیونکہ بغیر سماع او رتلقی کے صرف مصاحف کے اوپر اعتماد کرنے سے قراء ت کی صحت کا تحقق نہیں ہوسکتا ،جیساکہ علی السبیل المثال لفظ ’’لٰکِنَّا ہُوَ اﷲ رَبِّیْ‘‘ جوکہ سورۃ کہف میں ہے، اسی طرح لفظ انا جہا ں بھی آئے اور لفظ الظنونا ، الرسولا،السبیلا ،قواریرا پہلا جوکہ سورہ دہر میں ہے،ان کووصل کرکے پڑھیں توالف کونہیں پڑھیں گے ، اگرچہ کتابت اس بات کا تقاضاکرتی ہے کہ الف پڑھا جائے، کیونکہ لکھا ہوا ہے ،لیکن سماع وتلقی یوں نہیں ۔اوروقف کریں توپھر الف کو پڑھیں گے جبکہ قواریرا دوسرا جوکہ (سورۃ دہرمیں ہی ہے اور اسی شکل کا ہے ) وہاں وصلا وقفا الف حذف ہوگا اسی طرح ’’وَثَمُوْدَا وَقَدْ تَبَیَّنَ لَکُمْ ‘‘(العنکبوت) ’’وَثموَدُاْ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ‘‘(الفرقان) اس میں وصلاً وقفا ًبغیر الف کے پڑھیں گے، کیونکہ سماع یوں ہی ہے، جبکہ کتابت الف کی ادائیگی کا تقاضا کرتی ہے ۔ اسی طرح ’’اُوْلٰئِکَ‘‘ میں اگرچہ کتابت ورسم اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ واوجو الف کے بعد ہے پڑھی جائے، لیکن اسے دنیامیں سوائے جہلاء کے اور کوئی نہیں پڑھتا ہوگا۔ اسی طرح لا إلی الجحیم،لا أنتم أشد رہبۃ،اولأذبحنہ میں لام کے بعد الف نہیں پڑھا جائے گا ،اگرچہ رسم میں ہے ۔آپ نے خود سکھلانے کے بعد یہ حکم بھی دیا کہ آگے پہنچاؤ۔ جیسا کہ بخاری کتاب الانبیاء حدیث نمبر ۳۴۶۲ اور ترمذی کتاب العلم حدیث نمبر ۲۶۷۱ عبداللہ بن عمر وبن العاصt سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:
’’أن رسو ل اﷲ ﷺقال: بلغوا عنی ولوآیۃ‘‘
’’یعنی میری طرف سے لوگوں کوپہنچادو خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن کثیر﷫فضائل قرآن کے صفحہ نمبر ۱۹ پر لکھتے ہیں کہ :
’’فأدوا القرآن قرآنا والسنۃ سنۃ لم یلبسوا ہذا بہذا‘‘
یعنی انہوں نے قرآن کوسنت کوالگ لوگوں تک پہنچایا اور التباس نہیں کیا ـ۔
پھرفرماتے ہیں کہ
فلہذا نعلم بالضرورۃ أنہ لم یبق من القرآن مما أداہ الرسول إلیہم إلا وقد بلغوہ إلینا وﷲ الحمد والمنۃ
کہ ہم بالیقین جانتے ہیں کہ قرآن کی ہروہ چیز جو صحابہ کو آپ نے سکھلائی انہوں نے ہم تک پہنچائی ہے۔
چنانچہ صحابہ میں سے جو لوگ قراء ت پڑھاتے تھے ان کو اس وقت قراء کہاجاتا تھا ،جیسا کہ بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر ۴۰۹۰ میں نقل کرتے ہیں
عن أنس أن رعلا وذکوان وعصیۃ وبنی لحیان استمدوا لی رسول اﷲﷺ علی عدو فامدہم بسبعین من الانصار کنا نسمیہم القرائ…الخ۔
یعنی انصار کے ۷۰ آدمی لوگوں کو پڑھاتے تھے ان کوقراء کہاجاتاتھا۔ اسی طرح صحیح مسلم ،کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ حدیث نمبر ۶۷۷ پر حضرت انس﷜سے روایت نقل کرتے ہیں جاء ناس إلی النبی فقالوا ابعث معنا رجالا یعلمونا القرآن والسنۃ فبعث إلیہم سبعین رجلا من الانصار یقال لہم القراء …الخ۔
’’آپﷺکے پاس چند لوگ آئے اور کہنے لگے کہ ہمارے ساتھ چند لوگ بھیجئے جوہمیں قرآن وسنت کی تعلیم دیں توآپﷺنے انصار میں سے ۷۰ صحابہ کوبھیج دیا جن کوقراء کہاجاتاتھا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور مسلم﷫ الجامع الصحیح اورالذہبی﷫ سیر أعلام النبلاء کے ص ۲۸۱ پر اور ترمذی کے حوالے سے دکتور ذہبی﷫ التفسیر والمفسرون:۱؍۹۲ پر نقل کرتے ہیں کہ عن أنس بن مالک قال قال رسو ل اﷲﷺ لابی إن اﷲ أمرنی أن أقرأ علیک القرآن قال اﷲ سمانی لک ؟ قال نعم فجعل یبکی…الخ۔
یعنی آپﷺنے ابی بن کعب﷜کوفرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ تجھ پر قرآن پڑھوں توانہوں نے سوال کیا کہ اللہ نے میرا نام لیاہے توفرمایا ہاں :تووہ رونے لگ گئے۔
اور خود آپﷺنے ابی بن کعب﷜ کے بارے میں یوں فرمایا جیساکہ ذہبی سیر أعلام النبلاء میں اورالدکتور الذہبی التفسیروالمفسرون : ۱؍ ۹۱،۹۲ پر لکھتے ہیں :
أقرأ امتی أبی ’’یعنی میری امت کے سب سے بڑے قاری ابی بن کعب﷜ ہیں‘‘
اوریہ بعید نہیں کہ افضلیت کا سبب یہ ہوکہ خود آپﷺنے ان کو قرا ء ت سکھلائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح ابن ہشام﷜ اپنی کتاب سیرۃ النبی : ا؍ ۲۰۵ پر لکھتے ہیں کہ
’’کتب النبی لعمرو بن حزم حین وجہہ إلی الیمن کتابا أمرہ فیہ بأشیاء منہا أن یعلم الناس القرآن ویفقہم فیہ‘‘
’’آپﷺنے جب عمروبن حزم﷜ کو یمن کی طرف بھیجا توایک خط لکھا جس میں چند چیزوں کاحکم دیا ان میں ایک یہ بھی تھی کہ لوگوں کوقرآنی کی تعلیم دے ۔‘‘
اورابن سعد﷫ الطبقات الکبری : ۸؍ ۱۱۷،۱۱۸ اور علامہ زرقانی﷫ اپنی کتاب شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃکی :۱ ؍ ۳۷۹ اور ابن سعد﷫ الطبقات الکبری : ۱۴ ؍ ۲۰۶ طبع بیروت پر لکھتے ہیں :
’’روی البخاری عن أبی إسحاق عن البراء قال أول من قدم علینا من أصحاب النبی مصعب بن عمیر وابن مکتوم فجعلا یقرئنا القرآن وکان مصعب یسمی المقری ‘‘
’’براء ابن عازب﷜ روایت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمارے پاس مصعب بن عمیر﷜ وعبد اللہ بن ام مکتوم﷜آئے جوہمیں قرآن پڑھاتے تھے اورمصعب بن عمیر﷜ کولوگ مقری کہتے تھے ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح ابوعلی القالی﷫ شرح العقیلۃ کے ص ۲۳ پر لکھتے ہیں کہ
’’وکان الرجل من المسلمین إذا ہاجر إلی المدینۃ دفعہ النبیﷺ إلی رجل من الحفظۃ لیعلمہ القرآن‘‘
’’جب کوئی مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کرتا تو آ پﷺاس کوحفاظ میں سے کسی ایک کی طرف بھیجتے کہ اس کوقرآن کی تعلیم دے ۔‘‘
اوراسی کتاب میں ابوالقالی﷫ فرماتے ہیں کہ
’’ولما فتح النبی مکۃ خلف علیہا معاذ بن جبل یقرئیہم القرآن ویفقہم ‘‘
’’جب آپﷺنے مکہ فتح کیا تو معاذ بن جبل﷜ کوقرآن کی تعلیم اورتفقہ کرنے کے لئے اپنا نائب مقرر کیاـ۔‘‘
اسی طرح امام نووی﷫ تہذیب الاسماء واللغات القسم الاوّل کے ص ۳۵۷ پر لکھتے ہیں کہ عبادہبن صامتt اہل صفہ کوقرآن سکھلاتے تھے اور جب شام کا علاقہ فتح ہوا توحضرت عمر﷜ نے عبادہ، معاذ اور ابوالدرداء﷢ کوبھیجا کہ لوگوں کو وہاں جاکر قرآن سکھلائیں۔
اسی طرح ابن الجزری﷫ النشرفی القراء ات العشر جلد نمبر ۱ ص ۳ اور ابونعیم﷫ نے حلیۃ الاولیاء:۴ ؍ ۱۹۴ پر نقل کیا ہے کہ ابوعبدالرحمن السلمی﷫ ۴۰ سال کوفہ کی جامع مسجد میں لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیتے رہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اورامام بخاری﷫ کتاب نمبر ۶۵ باب نمبر ۵ اورکتاب نمبر ۹۶ اور باب نمبر ۲ میں نقل کرتے ہیں کہ
’’وکان یقرأ اصحاب مجلس عمر بن الخطاب واصحاب مشورۃ ‘‘
’’ حضرت عمر﷜ کی مجلس کے آدمی اوراصحاب مشورہ قراء ہوتے تھے ۔ ‘‘
صحابہ کے بعد یہی کام تابعین میں رائج ہوا ،چنانچہ ابن مسعود﷜کے بعد ان کے شاگرد سعید بن جبیر﷫ المتوفی ۹۵ھ کے بارے میں ابن الجزری﷫ غایۃ النہایۃ جلد نمبر ۱ ص ۳۰۵،۳۰۶ ،وفیات الاعیان جلد نمبر۱ ص ۳۶۵ ، اور دکتور الذہبی التفیسروالمفسرون جلد نمبر ۱ ص ۱۰۲ پر نقل کرتے ہیں کہ
’’کان سعید بن جبیر یوم الناس فی شہر رمضان فیقرأ لیلۃ بقراء ۃ عبد اﷲ بن مسعود ولیلۃ بقراء ۃ زید بن ثابت ولیلۃ بقراء ۃغیرہ وہکذا ابدا‘‘
’’ سعید بن جبیر﷫ رمضان المبارک میں لوگوں کوتراویح پڑھاتے توایک رات قراء ت ابن مسعود﷜ میں پڑھتے اورایک رات زید بن ثابت﷜ کی قراء ت پڑھتے اورتیسری رات کسی اورصحابی کی قراء ت پڑھتے جوکہ مستند إلی النبی ہوتی تھیں اورہمیشہ ایسا کرتے۔‘‘
یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا جوکہ اتنا لمباہے کہ اس مضمون میں پوریسلسلہ کا احصار ممکن نہیں، اس لئے ہم صرف مشہورقراء کا تذکرہ کرتے ہیں۔
تابعین نے صحابہ کرام﷢ سے سیکھا جیسا کہ صحابہ کرام﷢نے آپﷺسے سیکھا تھا اورتابعین اپنے اپنے علاقہ میں بھیجے گئے مصاحف کے مطابق پڑھتے ،کیونکہ حضرت عثمان﷜ نے جب مصاحف لکھوائے تومصاحف کے ساتھ قراء بھی بھیجے جوکہ تلقی وسماع کی حکمت کومدنظررکھتے ہوئے بھیجے تھے ،جیسا کہ جعبری﷫ ابوعلی﷫ سے تاریخ رسم المصحف جزء الثانی۸۳ ص۲۰۳،۲۰۶ پرلکھتے ہیں کہ
’’ولما أرسل عثمان مصاحفہ الائمۃ الخمسۃ إلی الأمصار لم یکتف بہا وإنما أرسل مع کل مصحف عالما لاقراء الناس بما یحتملہ رسمہ فأمرزید بن ثابت أن یقرأ بالمدینۃ وبعث عبد اﷲ بن السائب إلی مکۃ والمغیرۃ بن شہاب إلی الشام وعامر بن عبد قیس إلی البصرۃ وأباعبدالر حمن السلمی إلی الکوفہ‘‘
’’جب حضرت عثمان ﷜نے مصاحف بھیجے توصرف مصاحف بھیجنے پر اکتفا ء نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ قراء کوبھیجا جوان مصاحف کے مطابق لوگوں کوپڑھائیں۔ چنانچہ زید بن ثابت﷜ کومدینہ والوں کو پڑھانے کے لئے کہا اور مکہ والوں کے لئے عبداللہ بن سائب﷜کوبھیجا اورمغیرہ بن شہاب﷜کوشام کی طرف بھیجا اورعامربن قیس﷜ کوبصرہ اورابوعبدالرحمن السلمی﷜ کوکوفہ کی طرف بھیجا ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ تابعین﷭نے پھروہ منہج اختیار کیا جوصحابہ﷢نے دورِنبوت کے بعد اختیارکیا تھاجیساکہ ابن جزر ی﷫ النشر جلد نمبر ۱ ص ۸ پر اورعلامہ سخاوی﷫ جمال القراء وکمال الاقراء کی جلد نمبر ۲ ص ۴۲۵ پر کتاب القراء ات لابی عبید کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ تابعین پھر مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ چنانچہ مدینہ میں سعید بن مسیب (المتوفی بعد ستین) عروۃ ابن الزبیر( المتوفی اوائل خلافہ عثمان) سالم بن عبداللہ(م ۱۰۶ ھ) ابن شہاب الزہری (م ۱۲۴ ھ) ، عبدالرحمن ہرمز الاعرج (م ۱۱۷ ھ)اور مکہ میں عبید اللہ بن عمیر اللیثی (م ۱۱۳ ھ) ،عطاء بن ابی رباح (۱۱۴ ھ)، طاؤس (م ۱۰۶ ھ)، عکرمہ مولی ابن عباس (م ۱۰۵ ھ) ، عبداللہ بن ابی ملیکہ( م۱۱۷ ھ) ، اورکوفہ میں علقمہ بن قیس (المتوفی بعد ستین) ،اسود بن یزید (م ۷۵ ھ)، مسروق بن الاجدع (م ۶۳ ھ) ، عبیدہ السلمانی (م ۷۰ ھ)، عمرو بن شرحبیل(م ۶۳۰ ھ) ، اوربصرہ میں عامربن عبداللہ ،ابوالعالیہ الریاضی (م ۹۳ ھ) ، ابورجاء العطاردی (م ۱۰۵ ھ) ، نصربن عاصم اللیثی (م ۹۰ ھ) ، یحییٰ بن یعمر(المتوفی قبل تسعین) ۔اور شام میں مغیرہ بن ابی شہاب المخزومی (م ۹۱ ھ) اور خلید بن سعد﷭ قرآن کی تعلیم دیتے رہے ۔
تابعین کے بعد پھریہی سلسلہ چلتارہا چنانچہ علامہ سخاوی﷫ جمال القراء وکمال الاقراء :۲؍ ۳۲۸ پر کتاب القراء ات لابی عبید کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابوعبید قاسم بن سلام﷫ کہتے ہیں کہ تابعین کے بعد وہ لوگ اس میدان میں اترے جنہوں نے اپنے آپ کو اس قرآنی خدمت کے لئے وقف کردیا تھا،جن سے لوگ پڑھتے تھے۔لوگوں نے ان کواس دور میں امام مانا اورخود اقتداء کرنے لگے، چنانچہ مدینہ میں ابوجعفر یزید بن القعقاع﷫ (م ۱۳۰ ھ) اس سلسلہ میں معروف ہوئے، جن کو عبد اللہ بن عمرو ﷜ نے مسجد نبوی میں امامت کے لئے آگے کیا اور تقریبا ۵۰ سال تک نمازیں پڑھاتے رہے۔خود عبداللہ بن عمرو﷜ ان کے پیچھے نمازیں پڑھتے رہے اوریہ قراء عشرہ کے آٹھویں قاری ہیں۔ دوسرے شخص شیبہ ابن نصاح ﷫(م ۱۳۰ ھ) ہیں، جنہوں نے ابی بن کعب ﷜ اور ابن عباس﷜ سے پڑھا ۔ تیسرے شخص نافع ابن ابی نعیم﷫( المتوفی ۱۶۹ ھ ) ہیں، جنہوں نے ۷۰ تابعین کرام سے سماعاقراء ت پڑھی اوریہ قراء ت عشرہ کے پہلے قاری ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مکہ مکرمہ میں نمایاں امام عبداللہ بن کثیر﷫( المتوفی ۱۲۰ ھ) تھے،جنہوں نے عبداللہ بن سائب المخزومی ﷫پرپڑھا اوریہ قراء ات عشرہ کے دوسرے قاری ہیں۔ ابن سائب﷫نے حضرت علی﷜ اورحضرت ابی بن کعب﷜سے قراء ات اخذ کی تھیں۔ اسی طرح مکہ میں نمایاں افراد میں حمید بن قیس الاعرج﷫ (م ۱۲۰ ھ) اورمحمد بن محیصن ﷫(م ۱۲۳ ھ ) شامل تھے۔
کوفہ میں یحییٰ بن وثاب﷫ (م ۱۰۳ ھ ) اور عاصم بن ابی النجود معروف ہوئے، جنہوں نے عبداللہ بن حبیب السُّلمی﷫ اور زربن حبیش﷫سے پڑھا۔ امام عاصم ﷫ کی قراء ت کو بعد ازاں امت میں یہ قبولیت بھی حاصل ہوئی کہ آپ قراء ات عشرہ کے پانچویں امام ٹھہرے۔ کوفہ کے دیگر نمایاں شخصیات میں سلیمان بن مہران الاعمش﷫ (م ۱۴۸ ھ) ، حمزہ الزیات﷫(م ۱۵۷ ھ) وغیرہ شامل ہیں۔ امام حمزہ﷫نے امام جعفرصادق ﷫ سے اور انہوں نے چند واسطوں سے حضرت علی﷜ سے قرآن اخذ کیااور یہ قراء ات عشرہ کے چھٹے قاری ہیں۔ کوفہ کے قراء میں ایک اور نمایاں نام امام کسائی ﷫ (م ۱۸۹ ھ) کا ہے۔ان کی سند عیسی بن عمر﷫ کے واسطے سے ابن مسعود ﷜ تک پہنچتی ہے۔ یہ قراء ات عشرہ کے ساتویں قاری ہیں۔
 
Top