• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مبینہ تحریف ِقرآن کا قائل کون ؟

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
میں دو حوالہ جات نقل کر رہا ہوں

باب 4: قرآن میں زیادتی کے متعلق سنی روایات
اس باب میں ہم اہل ِسنت کی کتابوں سے معتبر و صحیح روایات پیش کرینگے جو کو واضح طور پر اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن مجید میں تحریف واقع ہوئی ہے۔ شیعہ و اہل سنت اس قسم کی روایات کو تسلیم نہیں کرتے اور تاویل و توجیہ پر محمول کرتے ہیں لیکن یہ باب اُن نجس ناصبیوں کے لئے ہے جو کہ اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ شیعان ِ علی (ع) کافر ہیں صرف اس وجہ سے کے ان کی کتب میں بعض روایات ہیں جو تحریف ِ قرآن پر دلالت کرتی ہیں۔ اگر ایسی روایات ہونا کسی کو کافر بنادیتا ہے تو اس قسم کی روایات ناصبیوں کی اُن کتابوں میں بھی ہیں جو صحیح ترین سمجھی جاتیں ہیں۔
جناب ابن عباس کی تحقیق کے مطابق اس قرآن میں 50 آیات زیادہ ہیں
امام ِاہل سنت حافظ جلالالدین سیوطی نے حضرت ابن عباس (ر)سے روایت نقل کی ہے کہ:
قرآن میں آیات کی تعداد 6616 ہے
الاتقان فی علوم القرآن ، ج 1 ص 84
ذرا دیکھئے کہ ناصبی قرآن کے ساتھ کس طرح کھیلتے ہیں۔ جناب ابن عباس (ر) نے ایک نظریہ دیا، پھر ناصبیوں کے سردار ابن کثیر نے ایک نظریہ پیش کیا جبکہ آج کے دور کے ناصبی علماء کسی اور ہی خواب میں زندہ ہیں۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن 6666 آیات ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ پیش کردہ سُنی حوالہ کے مطابق حضرت ابن عباس (ر) قرآن کی 50 آیات کے منکر تھے ؟
ناصبیوں کے چہیتے امام ابن کثیر کے مطابق 6000 آیات معتبر اور باقی مشکوک ہیں
ہم نے ان معتبر سُنی کُتب پر انحصارکیا ہے
1۔ تفسیر ابن کثیر، ج 1 ص 7
2۔ تفسیر قرطبی، ج 1 ص 65
تفسیر ابن کثیر کی عبارت:
قرآن کی کل آیات 6000 ہیں جبکہ باقی آیات میں اختلاف ہے اور ان کے بارے میں کئی آراء ہیں ۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ 6204 آیات ہیں
وہ لوگ جنہوں نے شیعہ دشمنی کو اپنا فرض بنا لیا ہے انہیں پہلے اُن کی اپنی کتب کے متعلق وضاحت دینی چاہئے ۔ سُنی کتب میں ہم کہیں تو یہ پڑھتے ہیں کہ "معضتین" اور "سم اللہ الرحمان الرحیم" قرآن کا حصہ نہیں یعنی اہل سنت نے انہیں اپنے قرآن میں شامل کر کے زیادتی کی ہے اور کہیں یہ لکھا ہے کہ ایک پورا سورہ جس کی تعداد سورہ بقرہ کی آیات کے برابر تھی کھو گیا ہے اور کہیں لکھا ہے کہ قرآن کی 6000 آیات معتبر اور باقی مشکوک ہیں۔ اگر کسی مسلک کی کتاب میں ایسی احادیث کا ہونا کفر ہے جن سے قرآن میں تحریف ہونا ثابت ہوتا ہو تو ناصبی حضرات کا اپنے علماء کے بارے میں فتویٰ کیا ہے ؟
میرے بھائی! اسی بات کا جواب میں نے تقریباً ڈیڑھ سال پہلے اسی فورم پر دیا تھا۔ اسے ملاحظہ فرمائیے:
http://forum.mohaddis.com/threads/شیعہ-اور-منکرین-حدیث-کا-اھلسنت-احادیث-پر-تحریف-قرآن-کا-الزام-علما-سے-مدلل-جواب-کا-طلبگار۔۔۔۔۔۔.5418/#post-36228

اگر پھر بھی اشکال ہو تو بتائیے۔
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
جزاک اللہ خیر گنتی والا معا ملہ تو واضح ہو گیا لیکن ادھر بھی پورے مضمون کا جواب نہیں دیا گیا میں نے بھی اس مضمون کے آس پاس وقت میں ہی یے والی پوسٹ کی تھی
چلیں میں اب اگلے اعتراضات لکھتا ہوں۔
حضرت عثمان کا قرآن کے متعلق اپنی لاعلمی کا اقرار

ہم مندرجہ ذیل سُنی کتب میں پڑھتے ہیں:
1۔ تفسیر غرائب القرآن، ج 2 ص 57
2۔ تفسیر کبیر، ج 4 ص 294
3۔ تفسیر ابن کثیر، ج 3 ص 331
4۔ تفسیر مظہری، ج 4 ص 32
5۔ تفسیر معالم التنزیل، ج 3 ص 410
6۔ تفسیر خازن، ج 3 ص 46
7۔ تفسیر روح المعانی، ج 9 ص 41
8۔ صحیح ترمذی، ج 2 ص 368 ، کتاب التفسیر
ترمذی:
رسول اللہ (ص) انتقال کر گئے لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا کہ سورہ براءت سورہ انفعال کا حصہ ہے کہ نہیں
امام مالک فرماتے ہیں کہ سورہ براءت (یعنی سورہ توبہ) میں بسم اللہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ جب سورہ براءت کا پہلا حصہ کھو گیا تو اس کا بسم اللہ بھی اس کے ساتھ کھو گیا جب کہ یہاں اہل سنت کے خلیفہ سوم فرما رہے ہیں کہ انہیں یہی نہیں معلوم تھا کہ سورہ براءت کس سورہ کا حصہ ہے۔ اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کی تالیف کرتے وقت سورہ براءت کو بس اپنے قیاس کی بنا پر ایک جگہ رکھ دیا جبکہ اُن کو اس کے درست مقام کا علم ہی نہ تھا۔ جب سپاہ یزید کے عقائد کی کتابیں قرآن میں شکوک و شبہات سے بھری ہوئی ہیں تو انہیں کس نے حق دیا کے وہ اپنے گھر کو درست کرنے کے بجائے دوسروں پر اپنے اذہان کی پلیدگی تھوپیں ؟
 
شمولیت
اگست 13، 2011
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
172
پوائنٹ
82
قرآن کے بارے میں شیعہ عقائد
(۱)۔ ہمارے پاس مصحف فاطمہ ہے وہ تمہارے (اہل سنت) قرآن سے تین گنا زائد ہے ۔ قسم ہے خدا ئے قدوس کی اس میں تمہارے قرآن میں سے ایک حرف بھی نہیں ۔ (اصول کافی کتاب الحجہ ص ۱۴۶)

(۲)۔قرآن کا دو تہائی حصہ غائب کردیاگیا ۔ (اصول کافی ص ۶۷۱) یعنی وہ قرآن جو جبرائیل علیہ السلام محمدﷺ پر لے کر نازل ہوئے تھے ۔ اس میں سترہ ہزار (۱۷۰۰۰) آیتیں تھیں جبکہ موجودہ قرآن میں ۶۶۶۶ آیات ہیں ۔

(۳)۔ اصلی قرآن وہ تھا جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتب فرمایا تھا وہ امام غائب کے پاس ہے اور موجودہ قرآن سے مختلف ہے ۔ جو آدمی یہ دعویٰ کرے کہ اس کے پاس پورا قرآن ہے جس طرح کہ نازل ہوا تھا وہ کذاب ہے ۔ (اصول کافی ص ۱۳۹)

(۴)۔ قرآن میں تورات اور انجیل کی طرح تحریف ہوئی ہے ۔ (فصل الخطاب ص ۷۰ از علامہ نوری طبرسی)

(۵)۔موجودہ قرآن سے آل محمد کو نکال دیا اور قرآن سے بہت سی آیتیں نکال دیں ۔ (مجلسی حیات القلوب ج ۳ ص ۱۲۳)

(۶)۔ہمارے معصوم اماموں کی تعلیمات ، قرآن کی تعلیمات کے مثل ہیں وہ کسی خاص طبقے اور خاص دور کے لوگوں کے لئے مخصوص نہیں ۔ وہ ہر زمانے اورہر علاقے کے تمام انسانوں کے لئے ہیں اور قیامت تک ان کا نافذ کرنا اور اتباع کرنا واجب ہے ۔ (خمینی '' الحکو مۃ السلامیہ ص ۱۱۳)

(۷)۔شراب خور خلفاء کی خاطر قرآن کے معنی تبدیل کئے گئے ہیں (ترجمہ مقبول ص ۲۷۹)

(۸)۔ سنت کے انحراف کی بناء پر مسلمانوں نے قرآن مجید کی اپنی اغراض کے مطابق تاویلیں اور تحریفیں کیں ۔ (بیت علی مؤلف وضی خان ص ۱۰)

الغرض شیعہ مذہب کی اہم ترین کتاب '' اصول کافی '' وغیرہ کی رو سے :۔
(۱) ۔اصل قرآن امام غائب کے پاس ہے ۔
(۲)۔ اصل قرآن موجودہ قرآن سے تین گنا ہے اور
(۳)۔ موجودہ قرآن تحریف شدہ ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
جزاک اللہ خیرا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
8۔ صحیح ترمذی، ج 2 ص 368 ، کتاب التفسیر
ترمذی:
رسول اللہ (ص) انتقال کر گئے لیکن ہمیں یہ نہیں بتایا کہ سورہ براءت سورہ انفعال کا حصہ ہے کہ نہیں
امام مالک فرماتے ہیں کہ سورہ براءت (یعنی سورہ توبہ) میں بسم اللہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ جب سورہ براءت کا پہلا حصہ کھو گیا تو اس کا بسم اللہ بھی اس کے ساتھ کھو گیا جب کہ یہاں اہل سنت کے خلیفہ سوم فرما رہے ہیں کہ انہیں یہی نہیں معلوم تھا کہ سورہ براءت کس سورہ کا حصہ ہے۔ اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کی تالیف کرتے وقت سورہ براءت کو بس اپنے قیاس کی بنا پر ایک جگہ رکھ دیا جبکہ اُن کو اس کے درست مقام کا علم ہی نہ تھا۔ جب سپاہ یزید کے عقائد کی کتابیں قرآن میں شکوک و شبہات سے بھری ہوئی ہیں تو انہیں کس نے حق دیا کے وہ اپنے گھر کو درست کرنے کے بجائے دوسروں پر اپنے اذہان کی پلیدگی تھوپیں ؟
قرآن کریم کی آیات کی ترتیب توقیقی (من جانب اللہ) ہے۔ البتہ سورتوں کی ترتیب کے بارے میں علماء کے مابین اختلاف ہے کہ وہ توقیفی ہے یا نہیں؟ سورۃ التوبۃ سورۃ الانفال کے بعد آئیگی یا نہیں، یا وہ سورۃ الانفال کا حصہ ہے یا نہیں؟ اس کا تعلق سورتوں کی ترتیب سے ہے، نہ کہ کسی قرآنی آیت کی کمی بیشی اور تحریف سے! لہٰذا اس پر اعتراض بے جا ہے۔

سورتوں کی ترتیب کے متعلّق یہ آرٹیکل ملاحظہ کریں!
http://forum.mohaddis.com/threads/جمع-عثمانی-رِوایات-کے-آئینے-میں.5826/page-5#post-36164
 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
صحابی عبداللہ ابن مسعود کے عقیدہ میں سورہ فاتحہ قرآن کا حصہ نہیں

ہم مندرجہ ذیل سُنی کتابوں میں پڑھتے ہیں:
1۔ تفسیر قرطبی ، ج 1 ص 15 اور ج 19 ص 151
2۔ تفسیر درالمنثور، ج 1 ص 2
3۔ تفسیر کبیر ، ص 196
4۔ الاتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 80
تفسیر قرطبی کی عبارت:
جب ابن مسعود سے یہ دریافت کیا گیا کہ وہ سورہ فاتحہ کو قرآن میں کیوں نہیں لکھتے تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر انہوں نے اسے قرآن میں لکھا تو انہیں ہر سورہ کے ساتھ لکھنا پڑے گا
اہلِ سنت کے امام حافظ ابن حجر عسقلانی صحیح بخاری کی شرح "فتح الباری" میں لکھتے ہیں:
مسلمانوں میں سورہ الفاتحہ اور معوذتین کے قرآن کا حصہ ہونے پر اجماع ہے اور جو کوئی اسے رد کرے وہ کافر ہے
فتح الباری، ج 8 ص 743 اور ج 9 ص 51
صحابی عبداللہ ابن مسعود کا قرآن کی ایک اہم سورہ الفاتحہ کو اپنے مصحف یعنی اپنی قرآن کی کاپی میں سے خارج کرنا ثابت ہے اور ساتھ ہی یہ امر بھی کہ قرآن کے ایک لفظ کو رد کرنے والا کافر ہے جبکہ صحابی عبد اللہ ابن مسعود قرآن کے اہم سورہ کے منکر تھے۔ سپاہ یزید کے تکفیری عناصر جو شیعہ علماء پر تحریف ِ قرآن کے عقیدہ رکھنے کا الزام دھرتے ہوئے کافر کہتے آئے ہیں ذرا سوچیں کے اُنہی کی نگاہ میں ایک صحابی کا رتبہ ہر عام مسلمان سے بلند ہے تو جس عمل کے لئے وہ ایک عام شیعہ عالم کو کافر ٹھہرا تے ہیں بالکل اُسی عمل کا ارتکاب اگر ایک صحابی کرے تو اُس کے بارے میں سپاہ صحابہ کا کیا کہنا ہے ؟ فیصلہ سپاہ صحابہ پر۔
سپاہ صحابہ کے لئے ایک اور خوراک: علما ِاہل سنت کی گواہی کہ ابن مسعود سورہ فاتحہ کے منکر تھے

ہم اہل ِسنت کی مندجہ ذیل معتبر کتب سے نقل کر رہے ہیں:
1۔ اتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 99
2۔ تفسیر ابن کثیر، ج 1 ص 9
3۔ تفسیر فتح القدیر، ج 1 ص 6
4۔ تفسیر الکبیر، ج 1 ص 219


امام فخرالدین الرازی اپنی کتاب 'تفسیر الکبیر' میں لکھتے ہیں:
نقل في الكتب القديمة أن ابن مسعود كان ينكر كون سورة الفاتحة من القرآن وكان ينكر كون المعوذتين من القرآن
قدیم کتابوں میں رقم ہے کہ ابن مسعود فاتحہ اور معوذتین کو قرآن کا حصہ ماننے سے انکار کرتے تھے


ہم انصاف کے طلبگار ہیں! ہم شیعہ خیرالبریہ سپاہ صحابہ اور وہابی مسلک میں موجود نواصب کی جانب سے اس وجہ سے کافر کہے جاتے ہیں کہ ہماری احادیث کی کتابوں میں بعض احادیث ہیں جن سے تحریف ِ قرآن کا گمان ہوتا ہے لیکن جب ان کے اپنے امام "بسم اللہ رحمان الرحیم" کو قرآن کا حصہ نہ مانتے ہوئے 114 آیات کا انکار کریں اور صحابی ِ رسول (ص) قرآن کی ایک اہم سورہ الفاتحہ کا انکار کریں تو وہ ان لوگوں کے چہیتے ہی رہتے ہیں۔ واہ رے واہ منافقت ! تو نے بھی کیا سہی جگہ ڈیرہ ڈالا!
سپاہ صحابہ کےعقیدہ ِتحریف ِقرآن کا مزید انکشاف! عبداللہ ابن مسعود معوذتین کے بھی منکر تھے

معوذتین قرآن کے آخری دو سورتیں یعنی سورہ والناس اور سورہ فلق کو کہتے ہیں اور صحابی عبد اللہ ابن مسعود ان دو سورتوں کا قرآن کا حصہ ہونے کے بھی منکر تھے۔ اس کا ثبوت مندرجہ ذیل معتبر سُنی کتابوں سے:
1۔ صحیح بخاری (اردو) ، ج 2 ص 1088 کتاب التفسیر
2۔ فتح الباری، ج 8 ص 743 ، کتاب التفسیر
3 تفسیر دُرالمنثور، ج 6 ص 41 6
4۔ تفسیر ابن کثیر، ج 4 ص 571
5۔ تفسیر قرطبی، ج 2 ص 251
6۔ تفسیر روح المعانی، ج 1 ص 279
7۔ شرح موافق، ص 679


صحیح بخاری کی روایت ملاحضہ ہو:
زر بن حبیش سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے ابی بن کعب سے پوچھا: اے ابوالمنذر (یہ ابی بن کعب کی کنیت ہے) تمہارے بھائی عبد اللہ ابن مسعود (ر) ایسا کہتے ہیں (کہ معوذتین قرآن میں داخل نہیں ہیں) انہوں نے کہا میں نے آنحضرت (ص) سے پوچھا انہوں نے فرمایا(جبرائیل کی زبان پر) یوں کہا گیا ایسا کہہ میں نے کہا تو ہم وہی کہتے ہیں جو آنحضرت (ص) کہتے تھے


صحیح بخاری ، کتاب التفسیر، ج 2 ص 1088 حدیث 2080(مکتبہ رحمانیہ لاہور)


ابن حجر عسقلانی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں:
ابن مسعود معوذتین کو اپنے مصحف میں لکھتے اور مٹادیتے تھے اور کہتے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے


محترم قارئین! سورہ فاتحہ قرآن شروعات جبکہ سورہ والناس قرآن کا اختتام ہے اور ہمیں معلوم ہوا کہ سپاہ صحابہ اور انکے اماموں کے نظر میں قرآن کی شروعات بھی مشکوک ہے اور قرآن کا اختتام بھی۔ یزید ِ پلید کے ہمنوائوں کو اپنی صحیح کتابیں کیوں نظر نہیں آتیں اور کیوں وہ بس مسلسل شیعان ِعلی (ع) کے خلاف تکفیر کرتے رہتے ہیں؟
امام قرطبی اپنی تفسیر کی جلد 1 صفحہ 53 پر لکھتے ہیں:
جو کوئی معوذتین کو قرآن کا حصہ نہ مانیں وہ کافر ہے
سپاہ صحابہ جن کا منشور یہ تھا کہ تمام صحابہ عادل ہیں اور سب کا احترام لازمی ہے (چاہے وہ کچھ بھی کریں) اور اُن میں سے کسی کی بھی پیروی کی جائے تو فلاح پائی جاسکتی ہے، اور صحابی عبداللہ ابن مسعود کا معوذتین کو رد کرنا ناصبیت کے گلے میں پھنسی وہ ہڈی ہے جس کو نکالنے کی جتنی کوشش ان لوگوں نے یزیدی ہسپتال کے سرجنوں سے کروائی وہ اُتنی ہی اندر جاتی گئی۔
صحابی عبد اللہ ابن مسعود نے اپنے مصحف میں سورہ فاتحہ اور معوذتین شامل نہیں کی تھی
علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی معروف کتاب "الاتقان فی علوم القرآن" میں صحابی عبد اللہ ابن مسعود کے مصحف (قرآن)میں موجود سورتوں کی ترتیب نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے مصحف میں سورہ فاتحہ اور معوذتین (یا معوذتان)شامل نہیں تھے۔ ابن اشتح سے روایت ہے:
عبداللہ ابن مسعود کے مصحف کی ترتیب یوں تھی:
الاطوال، البقرہ، النساء، آلِ عمران، ۔۔۔۔۔ الکوثر، کُل یا ایھاالکافرون، تبت، قل ھو اللہ ھواحد، اور، الم نشرح، اور اس میں الحمد اور معوذتان نہیں تھیں
الاتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 173 (اردو ایڈیشن، ادارہ اسلامیہ لاہور)
آج سپاہ یزید جسے ناصبی حضرات گلی کوچوں میں شیعہ کافر شیعہ کافر کی رٹ لگائے ملتے ہیں صرف اس لئے کہ شیعہ کتب میں بعض احادیث سے تحریف ِ قرآن کا گمان ہو سکتا ہے لیکن اُس شخص کے متعلق اس یزیدی سپاہ کی کیا رائے ہے جو اپنے قرآن سے سورہ الحمد اور معوذتین کو خارج کردے؟
ابن مسعود کا معوذتین کا منکر ہونا صحیح روایات سے ثابت ہے
1۔ فتح الباری، ج 8 ص 74
2۔ اتقان فی علوم القرآن، ج 1 ص 212
ان دونوں کتابوں کے مطابق حضرت عبد اللہ ابن مسعود کا معوذتین کا رد کرنا "صحیح" روایات سے ثابت ہے۔ یہاں ہم علامہ جلال الدین کا نظریہ پیش کرتے ہیں جو اپنی کتاب اتقان (اردو ایدیشن، ادارہ ِ اسلامیہ لاہور) میں تحریر کرتے ہیں:
عبد اللہ ابن احمد اپنی کتاب 'زیارت المسند' اور طبرانی اور ابن مرجح نے اعمش، ابی اسحاق، عبدالرحمٰن بن یزید نخعی سے روایت کی ہے: عبد اللہ ابن مسعود معوذتین کو مصحف سے مٹاتے اور کہتے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے"۔ اور بزار اور تبرانی نے اسی راوی سے روایت کی ہے: "عبداللہ ابن مسعود معوذتین کو مصحف میں لکھتے اور مٹاتے اور کہتے کہ رسول اللہ(ص) نے ان سورتوں کو صرف تعویز کے لئے استعمال کرنے کا حکم دیا تھا اور ابن مسعود نے یہ سورتیں نہیں لکھیں"۔ اس روایت کے تمام اسناد صحیح ہیں
تو صحابی عبد اللہ ابن مسعود کی تعلیمات کے مطابق حضرت عثمان نے موجودہ قرآن کی تالیف کرتے وقت سورہ فاتحہ اور ان دو سورتوں کو قرآن میں لکھ کرجو کہ قرآن کا حصہ "نہیں" تھے قرآن میں زیادتی کی ہے جبکہ باقی صحابہ کے عقیدہ کے مطابق صحابی عبداللہ ابن مسعود نے سورہ فاتحہ اور معوذتین کو قرآن سے نکال کر جو کہ قرآن کا حصہ تھے قرآن میں کمی کی ہے ۔ اب ان دونوں میں سے کافر کون ہے اس کا فیصلہ سپاہ صحابہ اور وہابی و سلفی تحریک کے مُلا پر ہے لیکن دونوں میں سی کوئی ایک ہی درست ہو سکتا ہے۔ اور اگر تحریف ِ قرآن کا عندیہ دینے والے صحابہ کے یہ دونوں گروہ صحیح ہیں تو پھر شیعہ جو کہ قرآن کے کامل ہونے کی شہادت دیتے ہیں وہ کافر کس اصول کے تحت ہو گئے؟
اگر کوئی ناصبی پریشان ہوجائے اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بہانہ بنا بھی دے کہ یہ روایت معتبر نہیں تو ان کا اپنے امام جلال الدین سیوطی کے متعلق کیا فتویٰ ہے جو تحریف کو ثابت کرنے والی اس آیت کو صحیح تسلیم کرتے تھے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
پہلی بات:
اگر یہ سب روایات سنداً صحیح مان بھی لی جائیں اور ان کا مفہوم بھی وہی مان لیا جائے جو اعدائے قرآن کریم بیان کرتے ہیں تو بھی ان سے تحریف قرآن کا نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ قرآن قطعی و یقینی متواتر کی قسم اعلیٰ و ارفع ہے اور یہ ایک غیر معصوم کے قول سے اور وہ بھی غیر متواتر قول سے محرف نہیں ہو سکتا۔ جب کہ کتب شیعہ میں موجود تحریف قرآن کی روایات معصومین کی ہیں اور وہ بھی ایسی روایات ہیں جو خود بتصریح محدثین شیعہ حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔

دوسری بات:
بالفرض ان روایات کی صحت کسی درجہ میں مان بھی لی جائے تو ان کا وہ مطلب کسی طرح نہیں ہو سکتا جو دشمنان قرآن بیان کرتے ہیں، بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کے مصحف میں لکھنے کو منع کرتے تھے، نہ اس لئے کہ وہ کلام الٰہی نہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ رقیہ (یعنی جھاڑ پھونک) کے لئے نازل ہوئی ہیں اور ان کا یہ قول کہ یہ سورتیں کتاب اللہ سے نہیں ہیں، کتاب اللہ سے مراد مصحف مکتوب ہے نہ کہ مطلق کلام الٰہی۔ یہ مطلب اہل سنت کے اکابر محدثین نے بھی بیان کیا ہے۔ علامہ سیوطی اتقان کی اکیسویں نوع میں لکھا ہے اور بحوالہ حافظ ابن حجر بھی درج بالا مفہوم کی تائید کی ہے۔

یہ مفہوم لینے کی دلیل قطعی یہ ہے کہ خود حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول خدا ﷺ سے معذتین کا منزل من اللہ ہونا روایت کیا ہے۔ اسی کتاب درمنثور کی اسی جلد ششم ( جس کا حوالہ اس شیعہ نے اپنے مضمون میں دیا ہے) میں یہ روایت بھی موجود ہے:

واخرج الطبرانی فی الاوسط بسند حسن عن ابن مسعود عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لقد انزل علیٰ اٰیات لم ینزل مثلھن المعوذتین
طبرانی نے اپنی کتاب معجم اوسط میں عمدہ سند کے ساتھ ابن مسعود سے نقل کیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میرے اوپر کچھ آیتیں نازل ہوئی ہیں ، جن کے مثل کبھی بھی نازل نہ ہوئی تھیں۔ یعنی معوذتین۔

پس جب ابن مسعود رضی اللہ عنہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معوذتین کا منزل من اللہ ہونا روایت کر رہے ہیں تو ان کے اس قول کا (اگر بالفرض انہوں نے کہا ہو کہ معوذتین کتاب اللہ سے نہیں ہیں) اس کے سوا کوئی مطلب مراد لینا قطعاً درست نہیں کہ وہ معوذتین کے داخل مصحف ہونے سے انکار کرتے تھے اور بس۔

تیسری بات:
یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے انکار معوذتین کی روایتت قطعاً و یقیناً موضوع اور جعلی ہے۔ روایت و درایت دونوں قسم کے دلائل اس روایت کے جھوٹے ہونے کی شہادت دیتے ہیں:

دلیل اول:
یہ کہ اکابر ائمہ علم حدیث و تفسیر نے اس روایت کا جھوٹا ہونا بیان کیا ہے۔

(1) سب سے پہلے تو امام فخر الدین رازی جن کی تفسیر کبیر سے یہ روایت نقل کی گئی ہے، منقولہ عبارت کے بعد بلا فصل تفصیل بیان کر کے بطور نتیجہ لکھا ہے کہ :

ان نقل ھذ المذھب عن ابن مسعود نقل کاذب باطل
بہت زیادہ غالب ظن یہ ہے کہ اس قول کا ابن مسعود سے نقل کرنا جھوٹ اور غلط ہے۔

(2) امام نووی شارح صحیح مسلم اپنی کتاب شرح المہذب میں لکھتے ہیں۔

اجمع المسلمون علی ان المعوذتین و الفاتحۃ من القرآن وان من حجد منھا شیئا کفرو ما نقل عن ابن مسعود غیر صحیح (اتقان)
مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ معوذتین اور سورہ فاتحہ قرآن سے ہیں اور اس بات پر بھی اجماع ہے کہ جو شخص سورہ فاتحہ یا معوذتین کا انکار کرے وہ کافر ہے اور ابن مسعود سے (اس کے خلاف) جو کچھ منقول ہے وہ صحیح نہیں ہے۔

(3) علامہ ابن حزم اپنی کتاب محلیٰ میں لکھتے ہیں جیسا کہ ان سے صاحب اتقان نے نقل کیا ہے کہ:

ھذا کذب علی ابن مسعود و موضوع قائما یصح عند قراءۃ عاصم عن زرّعنہ وفیھا المعوذتان والفاتحۃ
انکار معوذین ابن مسعود پر افترا و جعل ہے۔ ابن مسعود سے یہ چیز صحت کے ساتھ منقول ہے وہ عاصم کی قراءت ہے عاصم زرابن جیش سے وہ ابن مسعود سے روایت کرتے ہیں اور قراءت میں معوذتین بھی ہیں اور سورۃ فاتحہ بھی۔

نیز یہی علامہ ابن حزم اپنی کتاب الفصل فی الملل و النحل میں لکھتے ہیں کہ:

"باقی رہا لوگوں کا یہ کہنا کہ عبداللہ ابن مسعود کا مصحف ہمارے مصحف کے خلاف تھا تو یہ بالکل غلط، جھوٹ اور بہتان ہے۔ عبداللہ بن مسعود کا مصحف بلاشبہ وہی ہے جس میں ان کی قراءت تھی اور ان کی قراءت وہی عاصم کی قراءت ہے جو تمام مسلمانوں میں مشہور ہے۔ دنیا کے مشرق و مغرب میں لوگ اس کو اب بھی پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا۔"

(4) علامہ بحر العلوم فرنگی محلی شرح مسلم الثبوت میں لکھتے ہیں کہ:

"ابن مسعود کی طرف اس کے قرآن ہونے کا انکار منسوب کرنا صریح غلطی ہے اور جس نے یہ انکار ابن مسعود کی طرف منسوب کیا ہے اس کی سند لائق توجہ نہیں۔ جب کہ اس کے خلاف یہ صحیح سندیں موجود ہیں جن پر اجماع ہے اور جن کو علمائے کرام نے بلکہ تمام امت نے قبول کیا ہے۔ پس صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ ابن مسعود کی طرف انکار کو منسوب کرنا بالکل غلط ہے"۔

یہ چار اقوال علمائے کرام کے اس مقام پر کافی ہیں۔ جن میں دو روایت میں اعلیٰ پایہ رکھتے ہیں اور دو درایت میں۔

دلیل دوم:
قرآن مجید کی متواتر سندیں مسلمانوں کے پاس موجود ہیں۔ جن کا سلسلہ بواسطہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ جن میں متعدد سندیں بواسطہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے ہیں، اور متعدد سندیں بواسطہ حضرت عثمان ذی النورین و حضرت علی مرتضیٰ کے ہیں اور متعدد سندیں بواسطہ حضرت ابی بن کعب کے ہیں اور ان تمام سندوں میں بے کم و کاست بلا اختلاف یہی قرآن مجید منقول ہے جو خدا کے انعام سے ہمارے سینوں اور سفینوں میں نسلاً بعد نسل متوارث چلا آ رہا ہے۔ اس میں سورہ فاتحہ بھی ہے، معوذتین بھی ہیں۔ لہٰذا قطعاً و یقیناً معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کو سورہ فاتحہ یا معوذتین کے نہ قرآن ہونے سے انکار تھا، نہ مصحف میں ان کی کتابت کو منع کرتے تھے، بلکہ وہ ہمیشہ اسی قرآن شریف کا درس دیتے رہے۔

قراءت عشرہ میں سے حضرت عاصم کی قراءت حضرت ابو عبدالرحمٰن سلمی، حضرت زربن حبیش اور حضرت ابو عمرو الشیبانی سے منقول ہے اور یہ تینوں حضرات اسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
اسی طرح حضرت حمزہ کی قراءت علقمہ، اسود، ابن وہب، مسروق، عاصم بن ضمرہ اور حارث رحمہم اللہ اجمعین سے منقول ہے اور یہ تمام حضرات اسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ قراءت عشرہ میں سے کسائی، اور خلف کی قراءتیں بھی بالآخر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پر ختم ہوتی ہیں، کیونکہ کسائی، حمزہ کے شاگرد ہیں اور خلف ان کے شاگرد کے شاگرد ہیں اور اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ قراءت عشرہ کی ساری اسانید ساری دنیا میں سب سے زیادہ قوی اور صحیح اسانید ہیں اور نسلاً بعد نسل تواتر سے نقل ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ اس لئے اگر کوئی خبر واحد ان متواتر قراءتوں کے خلاف ہو تو وہ یقیناً واجب الرد ہے اور اسے قبول نہیں کیا جا سکتا۔

جاری ہے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ان روایات کو غیر صحیح قرار دئے جانے پر اہل تشیع یہ شبہ بھی پیش کرتے ہیں کہ جب حافظ ابن حجر اور علامہ نور الدین ہیثمی رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ ان روایتوں کے تمام راوی ثقہ ہیں، پھر ان روایتوں کو غیر صحیح کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن جو حضرات علم حدیث سے واقف ہیں، ان پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ صرف راویوں کا ثقہ ہونا کسی روایت کے صحیح ہونے کے لئے کافی نہیں ہے ، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس میں کوئی علّت یا شذوذ نہ پایا جائے، تمام محدثین نے "حدیث صحیح" کی تعریف میں یہ بات لکھی ہے کہ وہ روایت ہر قسم کی علت اور شذوذ سے خالی ہو، چنانچہ اگر کسی روایت میں کوئی علت یا شذوذ پایا جاتا ہو تو راویوں کے ثقہ ہونے کے باوجود اس کو صحیح قرار نہیں دیا جاتا۔

حدیث کی ایک قسم "شاذ" ہے۔ اس کے راوی بھی ثقہ ہی ہوتے ہیں، لیکن چونکہ وہ اپنے سے زیادہ ثقہ راویوں کی مخالفت کرتے ہیں، اس لئے ان کی حدیث قبول نہیں کی جاتی، لہٰذا جن روایتوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے کہ وہ معوذتین کو قرآن کریم کا جزو نہیں مانتے تھے۔ علامہ نووی اور ابن حزم وغیرہ نے ان کو راویوں کے ثقہ ہونے کے باوجود مندرجہ ذیل تین وجوہ سے قابل قبول نہیں سمجھا ۔

1۔ یہ روایتیں معلول ہیں اور ان کی سب سے بڑی علت یہ ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ان قراءتوں کے خلاف ہیں جو ان سے بہ طریق تواتر منقول ہیں۔
2۔ مسند احمد کی وہ روایت جس میں حضرت ابن مسعود کا یہ صریح قول نقل کیا گیا ہے انھما لیسنا من کتاب اللہ (معوذتین اللہ کی کتاب کا جزو نہیں ہیں) ، صرف عبدالرحمٰن بن یزید نخعی سے منقول ہے، اور کسی نے صراحتہً ان کا یہ جملہ نقل نہیں کیا، اور متواترات کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ جملہ یقیناً شاذ ہے اور محدثین کے اصول کے مطابق "حدیث شاذ" مقبول نہیں ہوتی۔
3۔ اگر بالفرض ان روایتوں کو صحیح بھی مان لیا جائے، تب بھی بہرحال یہ اخبارِ احاد ہیں اور اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ جو خبر واحد متواترات اور قطعیات کے خلاف ہو وہ مقبول نہیں ہوتی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو قراءتیں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، ان کی صحت قطعی ہے لہٰذا ان کے مقابلے میں یہ اخبار آحاد یقیناً واجب الرد ہیں۔

اب صرف ایک سوال رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر یہ روایتیں صحیح نہیں ہیں تو ان ثقہ راویوں نے ایسی بے اصل بات کیونکر روایت کر دی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ان روایتوں کی حقیقت یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قرآن کریم کا جز مانتے ہیں۔ لیکن کسی وجہ سے انہوں نے اپنے مصحف میں ان کو لکھا نہ ہو، اس واقعہ کو روایت کرتے ہوئے کسی راوی کو وہم ہوا، اور اس نے اسے اس طرح روایت کر دیا ، گویا وہ انہیں سرے سے جزو قرآن ہی نہ مانتے تھے، حالانکہ حقیقت صرف اتنی تھی کہ معوذتین کو جزو قرآن ماننے کے باوجود انہوں نے اپنے مصحف میں ان کو نہیں لکھا تھا اور نہ لکھنے کی بہت سی وجوہ ہو سکتی ہیں۔

اس کے ساتھ اس پر بھی غور کیجئے کہ صرف کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ایک ہی وقت میں چار ہزار شاگرد تھے۔ ان کے سوا کسی صحابی کے شاگرد اس قدر نامور لوگ نہیں ہوئے۔ ان کی اس جلالت شان کو دیکھ کر عقل سلیم یہ باور نہیں کر سکتی کہ وہ معوذتین یا سورۃ فاتحہ کے قرآن ہونے سے یا مصحف میں لکھنے سے انکار کرتے اور ان کا انکار ان کے ہزاروں شاگردوں میں سے صرف تین شاگرد (علقمہ، زرین حُبَیش، ابو عبدالرحمٰن سلمیٰ ) روایت کریں اور کسی چوتھے کو اس کی خبر نہ ہوئی؟ اور یہ تین شاگرد بھی وہ ، جن سے متواتر سندوں کے ساتھ اس انکار کے خلاف کی روایت بھی نقل کی گئی ہے اور پھر وہ انکار اس طرح گمنامی اور کسمپرسی کی حالت میں پڑا رہتا امت میں سے ایک متنفس بھی ان کا ہم خیال نہ بنتا؟ اور نہ معوذتین اور سورہ فاتحہ کی قرآنیت میں کسی کو شک پیدا ہوتا؟ اور نہ دین کی اتنی بڑی اصل عظیم یعنی قرآن کے انکار کی وجہ سے ابن مسعود پر کوئی بدنامی آتی؟

یقیناً اگر ابن مسعود منکر ہوتے تو ان دو باتوں میں سے ایک بات ضرور ہوتی۔
یا تو ان سورتوں کی قرآنیت مختلف فیہ ہو جاتی اور صحابہ سے لے کر فی زمانہ ایک بڑی جماعت ان سورتوں کی قرآنیت کی منکر رہتی، ابن مسعود کے ہزاروں شاگرد ان کے انکار کو روایت کرتے اور وہ محدثین کی تمام یا اکثر ملتزم الصحت کتابوں میں ملتیں اور

یا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اس انکار کی وجہ سے اس قدر بدنام ہوتے کہ نہ صرف ان کی تفسیق بلکہ تکفیر تک نوبت پہنچتی اور صحابہ و تابعین کی زبانوں پر ان کی عظمت اور جلالت کا ایک لفظ بھی نہ آتا۔



اور جب کہ ان دونوں باتوں میں سے ایک بات بھی نہ ہوئی تو بالیقین معلوم ہوا کہا نکار معوذتین کی روایت جعلی ہے یعنی روایت کو اصطلاح محدثین میں معلول کہتے ہیں۔

 

GuJrAnWaLiAn

رکن
شمولیت
مارچ 13، 2011
پیغامات
139
ری ایکشن اسکور
298
پوائنٹ
82
جزاک اللہ خیر شاکر بھائی
اب میں اگلے سوال نقل کرتا ہوں۔

صحابہ کا عقیدہ کہ موجودہ قرآن کی سورہ ولیل میں زیادتی کی گئی ہے اور اس پر امام بخاری کی تصدیق

1۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 2 ص 1068 کتاب التفسیر
2۔ تفسیر دُد المنثور، ج 6 ص 358، سورہ والیل
صحیح بخاری کی روایت ملاحظہ ہو:
ابراہیم نخعی سے روایت ہے انہوں نے کہا عبد اللہ ابن مسعود (ر) کے شاگرد (شام کے ملک میں) ابو الدرداء صحابی کے پاس گئے ، ابو الدرداء ڈھونڈ کر ان سے ملے اور ان سے پوچھا عبد اللہ ابن مسعود کی طرح تم میں کون سا شخص قرآن پڑھتا ہے۔ انہوں نے کہا ہم سب اسی طرح پڑھتے ہیں ۔ ابو الدرداء نے کہا کس کو زیادہ یاد ہے ؟۔ انہوں نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا۔ ابو الدرداء نے علقمہ سے پوچھا اچھا حضرت عبدللہ ابن مسعود سورہ واللیل کو کس طرح پڑھتے تھے۔ علقمہ نے کہا یوں پڑھتے تھے (والذكر والأنثى‏) ۔ ابو الدرداء کہنے لگے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو اسی طرح پڑھتے سُنا ہے۔ مگر یہ شام کے ملک والے چاہتے ہیں کہ میں یوں پڑھوں (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى) ۔ میں تو خدا کی قسم کبھی اس طرح نہیں پڑھنے کا
صحیح بخاری، کتاب التفسیر، ج 2 ص 1068 حدیث 2049(مکتبہ رحمانیہ لاہور)
عبداللہ ابن مسعود اور ان کے صحابہ کے برخلاف آج تمام مسلمان سورہ الیل کی اس آیت کو اس طرح پرھتے ہیں "وما خلق والذكر والأنثى" جبکہ علقمہ اور صحابی ابو الدرداء کے مطابق یہ آیت اس طرح ہونی چاہئے تھی " والذكر والأنثى" اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ صحابی ابو الدرداء کی گواہی کے مطابق رسول اللہ (ص) نے بھی یہ آیت " والذكر والأنثى" کے الفاظ کے ساتھ ہی پڑھی تھی جس کا مطلب تو یہ ہوا کہ موجودہ قرآن میں " وما خلق" کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اب یہاں اگر ہم سپاہ ِیزید کی زبان استعمال کریں تو آیا وہ صحابہ کافر جن کے عقیدہ کے مطابق "وما خلق" قرآن کا حصہ نہیں اور انہوں نے رسول اللہ(ص) سے جھوٹ منسوب کیا (اور یہ ایک الگ گناہ) یا پھر سب مسلمان کافرجو کہ صحابہ اور رسول اللہ (ص) کے برخلاف آج ان الفاط کو قرآن کا حصہ سمجھ کر پڑھتے ہیں ؟ فیصلہ پھر نواصب پر۔
اور ناصبی پالیسی کو استعمال کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری نے اپنی 'صحیح' احادیث کی کتاب میں اس روایت کو شامل کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھی قرآن میں تحریف کے قائل تھے۔ یہ دیکھ کر نواصب کہیں شیعہ علماء پر یہی الزام نہ دھریں کیونکہ کسی شیعہ عالم نے دعوٰی نہیں کیا اور نہ ہی کسی شیعہ نے کے ہمارے مذہب کی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ سو فیصد 'صحیح' ہے جبکہ امام بخاری نے کئی ہزار احادیث پر عبور حاصل کیا لیکن اپنی کتاب میں صرف وہی احادیث شامل کیں جو "صحیح" کے درجے کو پہنچیں اور یہی وجہ ہے کہ اہل ِ سنت صحیح بخاری کو قرآن کے بعد صحیح تریں کتاب مانتے ہیں جبکہ ہم شیعان ِعلی (ع) کے عقیدہ کے مطابق قرآن کے علاوہ کوئی کتاب سو فیصد صحیح نہیں۔
صحابی ابی بن کعب کے مصحف میں وہ لفظ نہیں تھا جو موجودہ قرآن میں شامل ہے

سورہ انساء کی آیت نمبر 101 ہے:
‏ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا‏‏
علامہ جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ابی بن کعب اس آیت میں 'إن خفتم' نہیں پڑھتے تھے جبکہ مصحف ِعثمان میں یہ اس طرح ہے ‏{‏إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا‏} ‏‏
تفسیر در المنثور انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے اور قارئین کی سہولت کے لئے اس حوالہ کے لنک درج ذیل ہے
http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=248&CID=117#s4
اس روایت سے واضح ہے کہ صحابی ابی بن کعب کی نگاہ میں'إن خفتم' قرآن کا حصہ نہیں یعنی حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں نے موجودہ قرآن میں زیادتی کی ۔ اب سپاہ یزید کی زبان میں یا تو صحابی ابی بن کعب کافر کہ وہ اُن الفاظ کو رد کرتے تھے جو کہ قرآن کا حصہ ہیں یا پھر حضرت عثمان اور اُن کی وجہ سے سب مسلمان کافر جو کے ایسے الفاظ کو قرآن کا حصہ مانتے ہیں جو کہ دراصل صحابی ابی بن کعب کے مطابق قرآن کا حصہ ہیں ہی نہیں۔ فیصلہ ناصبی عدالت میں۔
اس باب کے آخر میں ہم سپاہ یزید اوران کی دیگر ناصبی برادری جو کے شیعہ دشمن عقیدہ رکھتے ہیں یہ کہنا چاہیں گے کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات کی موجودگی کی بنا پر شیعہ کافر شیعہ کافر چیخنے سے قبل پہلے وہ اپنی کتابیں ٹٹولیں جو کہ صحیح کا درجہ رکھتی ہیں اور پہلے قرآن پر اپنا تو ایمان ثابت کریں اور جب وہ اُن تمام صحابہ و تابعین جنہوں نے تحریف ِقرآن کو ثابت کرنے والی احادیث روایت کیں بشمول اُن علماء کے جنہوں نے ان روایات کو نقل کیا اور صحیح کا درجہ دیا، کافر قرار نہیں دیتے تب تک انہیں شیعوں پر اپنی نجس انگلیاں اُٹھانے کا کوئی حق نہیں۔
الحمداللہ شیعان ِعلی (ع) موجودہ قرآن پر مکمل ایمان رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح اصل اہل سنت حضرات رکھتے ہیں جبکہ یہ صرف یزیدی ٹولہ ہے جو کہ مسلمانوں کے درمیان قرآن میں تحریف کے مئسلہ کو اُٹھا کر توہین ِ قرآن کا مرتکب ہوتا ہے جس کا مسلمانوں کو نقصان اور فائدہ دشمانان ِاسلام کو حاصل ہوتا ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
جزاک اللہ خیر شاکر بھائی
اب میں اگلے سوال نقل کرتا ہوں۔

صحابہ کا عقیدہ کہ موجودہ قرآن کی سورہ ولیل میں زیادتی کی گئی ہے اور اس پر امام بخاری کی تصدیق

1۔ صحیح بخاری (اردو)، ج 2 ص 1068 کتاب التفسیر
2۔ تفسیر دُد المنثور، ج 6 ص 358، سورہ والیل
صحیح بخاری کی روایت ملاحظہ ہو:
ابراہیم نخعی سے روایت ہے انہوں نے کہا عبد اللہ ابن مسعود (ر) کے شاگرد (شام کے ملک میں) ابو الدرداء صحابی کے پاس گئے ، ابو الدرداء ڈھونڈ کر ان سے ملے اور ان سے پوچھا عبد اللہ ابن مسعود کی طرح تم میں کون سا شخص قرآن پڑھتا ہے۔ انہوں نے کہا ہم سب اسی طرح پڑھتے ہیں ۔ ابو الدرداء نے کہا کس کو زیادہ یاد ہے ؟۔ انہوں نے علقمہ کی طرف اشارہ کیا۔ ابو الدرداء نے علقمہ سے پوچھا اچھا حضرت عبدللہ ابن مسعود سورہ واللیل کو کس طرح پڑھتے تھے۔ علقمہ نے کہا یوں پڑھتے تھے (والذكر والأنثى‏) ۔ ابو الدرداء کہنے لگے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو اسی طرح پڑھتے سُنا ہے۔ مگر یہ شام کے ملک والے چاہتے ہیں کہ میں یوں پڑھوں (وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنثَى) ۔ میں تو خدا کی قسم کبھی اس طرح نہیں پڑھنے کا
صحیح بخاری، کتاب التفسیر، ج 2 ص 1068 حدیث 2049(مکتبہ رحمانیہ لاہور)
عبداللہ ابن مسعود اور ان کے صحابہ کے برخلاف آج تمام مسلمان سورہ الیل کی اس آیت کو اس طرح پرھتے ہیں "وما خلق والذكر والأنثى" جبکہ علقمہ اور صحابی ابو الدرداء کے مطابق یہ آیت اس طرح ہونی چاہئے تھی " والذكر والأنثى" اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ صحابی ابو الدرداء کی گواہی کے مطابق رسول اللہ (ص) نے بھی یہ آیت " والذكر والأنثى" کے الفاظ کے ساتھ ہی پڑھی تھی جس کا مطلب تو یہ ہوا کہ موجودہ قرآن میں " وما خلق" کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اب یہاں اگر ہم سپاہ ِیزید کی زبان استعمال کریں تو آیا وہ صحابہ کافر جن کے عقیدہ کے مطابق "وما خلق" قرآن کا حصہ نہیں اور انہوں نے رسول اللہ(ص) سے جھوٹ منسوب کیا (اور یہ ایک الگ گناہ) یا پھر سب مسلمان کافرجو کہ صحابہ اور رسول اللہ (ص) کے برخلاف آج ان الفاط کو قرآن کا حصہ سمجھ کر پڑھتے ہیں ؟ فیصلہ پھر نواصب پر۔
اور ناصبی پالیسی کو استعمال کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ امام بخاری نے اپنی 'صحیح' احادیث کی کتاب میں اس روایت کو شامل کیا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھی قرآن میں تحریف کے قائل تھے۔ یہ دیکھ کر نواصب کہیں شیعہ علماء پر یہی الزام نہ دھریں کیونکہ کسی شیعہ عالم نے دعوٰی نہیں کیا اور نہ ہی کسی شیعہ نے کے ہمارے مذہب کی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ سو فیصد 'صحیح' ہے جبکہ امام بخاری نے کئی ہزار احادیث پر عبور حاصل کیا لیکن اپنی کتاب میں صرف وہی احادیث شامل کیں جو "صحیح" کے درجے کو پہنچیں اور یہی وجہ ہے کہ اہل ِ سنت صحیح بخاری کو قرآن کے بعد صحیح تریں کتاب مانتے ہیں جبکہ ہم شیعان ِعلی (ع) کے عقیدہ کے مطابق قرآن کے علاوہ کوئی کتاب سو فیصد صحیح نہیں۔
صحابی ابی بن کعب کے مصحف میں وہ لفظ نہیں تھا جو موجودہ قرآن میں شامل ہے

سورہ انساء کی آیت نمبر 101 ہے:
‏ليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا‏‏
علامہ جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ابی بن کعب اس آیت میں 'إن خفتم' نہیں پڑھتے تھے جبکہ مصحف ِعثمان میں یہ اس طرح ہے ‏{‏إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا‏} ‏‏
تفسیر در المنثور انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے اور قارئین کی سہولت کے لئے اس حوالہ کے لنک درج ذیل ہے
http://www.al-eman.com/Islamlib/viewchp.asp?BID=248&CID=117#s4
اس روایت سے واضح ہے کہ صحابی ابی بن کعب کی نگاہ میں'إن خفتم' قرآن کا حصہ نہیں یعنی حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں نے موجودہ قرآن میں زیادتی کی ۔ اب سپاہ یزید کی زبان میں یا تو صحابی ابی بن کعب کافر کہ وہ اُن الفاظ کو رد کرتے تھے جو کہ قرآن کا حصہ ہیں یا پھر حضرت عثمان اور اُن کی وجہ سے سب مسلمان کافر جو کے ایسے الفاظ کو قرآن کا حصہ مانتے ہیں جو کہ دراصل صحابی ابی بن کعب کے مطابق قرآن کا حصہ ہیں ہی نہیں۔ فیصلہ ناصبی عدالت میں۔
اس باب کے آخر میں ہم سپاہ یزید اوران کی دیگر ناصبی برادری جو کے شیعہ دشمن عقیدہ رکھتے ہیں یہ کہنا چاہیں گے کہ تحریف ِ قرآن کو ثابت کرنے والی روایات کی موجودگی کی بنا پر شیعہ کافر شیعہ کافر چیخنے سے قبل پہلے وہ اپنی کتابیں ٹٹولیں جو کہ صحیح کا درجہ رکھتی ہیں اور پہلے قرآن پر اپنا تو ایمان ثابت کریں اور جب وہ اُن تمام صحابہ و تابعین جنہوں نے تحریف ِقرآن کو ثابت کرنے والی احادیث روایت کیں بشمول اُن علماء کے جنہوں نے ان روایات کو نقل کیا اور صحیح کا درجہ دیا، کافر قرار نہیں دیتے تب تک انہیں شیعوں پر اپنی نجس انگلیاں اُٹھانے کا کوئی حق نہیں۔
الحمداللہ شیعان ِعلی (ع) موجودہ قرآن پر مکمل ایمان رکھتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح اصل اہل سنت حضرات رکھتے ہیں جبکہ یہ صرف یزیدی ٹولہ ہے جو کہ مسلمانوں کے درمیان قرآن میں تحریف کے مئسلہ کو اُٹھا کر توہین ِ قرآن کا مرتکب ہوتا ہے جس کا مسلمانوں کو نقصان اور فائدہ دشمانان ِاسلام کو حاصل ہوتا ہے۔
http://forum.mohaddis.com/threads/صحیح-بخاری-کی-کتاب-التفسیر-کی-ایک-حدیث-پر-منکرین-حدیث-کی-تنقید-علماء-سے-مدلل-جواب-کا-طلب-گار۔۔۔.14788/#post-106038
 
Top