• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
خاتم کے معنی نبیوں کو ختم کرنے والا مگر صرف صاحب شریعت نبیوں کو تمام کو نہیں:
'' ہم خاتم النبیین کے معنے صاحب شریعت نبیوں کو ختم کرنے والا مانتے ہیں۔''(۷۰)
الجواب:
اس آیت (خاتم النبیین) اور حدیث (لا نبی بعدی) میں ہر قسم کی نبوت جدیدہ کی بندش ہے جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں خود مرزا صاحب کی زبان سے مزید سننا چاہو تو سن لو :
۱۔ لَا نَبِی بعدی میں (لا) نفی عام ہے۔ (۷۱)
۲۔ اَلا تعلم ان رب الرحیم المتفضل سمی نبینا ﷺ خاتم الانبیاء بغیر استثناء وفسرہٗ نبینا ﷺ فی قولہ لا نبی بَعْدِیْ۔(۷۲)
'' کیا تم نہیں جانتے کہ خدا رحیم و کریم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی استثناء کے خاتم الانبیاء قرار دیا ہے اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم النبیین کی تفسیر لا نبی بعدی کے ساتھ فرمائی ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔''
۳۔ خدا نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا۔(۷۳)
۴۔ '' وحی رسالت ختم ہوگئی مگر ولایت و امامت و خلافت کبھی ختم نہ ہوگی۔'' (۷۴)
تحقیقی جواب:
اگر آیت خاتم النبیین میں تمام انبیاء علیہم السلام مراد نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء تشریعی کے خاتم ہیں تو کیا مرزائی دوست آیۂ کریمہ:
۱۔ وَلکن الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمٰلَئِکَۃِ والکتاب والنبیین(سورۂ بقرہ) لیکن نیک وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں اور قیامت کے دن اور ملائکہ اور تمام آسمانی کتابوں پر اور تمام انبیاء پر۔ (۷۵)
میں بھی یہی فرمائیں گے کہ تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری نہیں؟
۲۔ فبَعَثَ اللّٰہُ مبشرین ومنذرین (پس اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا) کیا یہ معنی صحیح ہو جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض انبیاء کو بشیر و نذیر بنایا اور بعض کو نہیں؟
۳۔ وَلَا یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَتَّخِذُو الْمَلَائِکَۃَ وَالنَّبِیِّیْنَ اَرْبَابًا (اٰل عمران) (اللہ تعالیٰ تم کو اس کا حکم نہیں کرتا کہ ملائکہ اور انبیاء کو اپنا رب بنالو) کیا یہی مطلب ہوگا کہ اللہ تعالیٰ بعض انبیاء کے رب بنانے کا حکم نہیں کرتا اور بعض کا کرتا ہے؟ (۷۷)
۴۔ وَاِذْا اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ (الایۃ)اور جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے عہد لیا۔ کیا اس کا یہ مطلب ہوگا کہ بعض سے عہد لیا اور بعض سے نہیں؟(۷۸)
۵۔ اَنَا قائد المرسلین(حدیث) میں مرسلین کا قائد ہوں کیا اس سے یہ مراد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض کے قائد ہیں اور بعض کے نہیں؟ (۷۹)
الحاصل یہاں تمام انبیاء مراد ہیں۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء علیہم السلام کے ختم کرنے والے ہیں۔
-------------------------------------------
(۷۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۲۵، طبعہ ۱۹۳۲ء
(۷۱) ایام الصلح ص۱۴۶ و روحانی ۳۹۳،ج۱۴
(۷۲) حمامۃ البشرٰی ص۲۰ و روحانی ص۲۰۰،ج۷ و تفسیر مرزا ص۵۶ ج۷
(۷۳) مکتوب مرزا مورخہ ۷؍ اگست ۱۸۹۹ء بنام نواب محمد علی خاں مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷؍اگست ۱۸۹۹ء ص۶ و مکتوبات احمدیہ ص۱۰۳، ج۵ نمبر ۴ ومجدد اعظم ص۸۰۲،ج۲ والنبوۃ فی الاسلام ص۳۴۳
(۷۴) مکتوب مرزا مندرجہ بدر جلد ۲ نمبر ۲۴ مورخہ ۱۴؍جون ۱۹۰۶ء بحوالہ قمر الھدٰی ص۱۷۲
(۷۵) پ۲ البقرہ آیت نمبر ۱۷۷
(۷۶) البقرہ آیت نمبر ۲۱۳
(۷۷) اٰل عمران آیت نمبر ۸۰
(۷۸) اٰل عمران آیت نمبر ۸۱
(۷۹) سنن دارمی ص۲۷،ج۱ (المقدمۃ) باب ما اعطی النبی ﷺ امام بغوی نے مصابیح السنہ ص۴۰،ج۴ میں اور خطیب نے مشکوٰۃ ص۵۱۴ میں بیان کی ہے، (باب فضائل سید المرسلین)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
صرف بعض کے خاتم ماننے کی صورت میں خاتم النبیین ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خاص فضیلت نہیں رہتی پھر تو آدم علیہ السلام کے بعد ہر نبی اپنے سے پہلے انبیاء کا بقول مرزائیاں خاتم ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم نبوت کو باعث فضیلت علی الانبیاء گردانا ہے اب اگر بعض نبیوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم ہوں تو یہ فضیلت نہ رہی کیونکہ اس طرح ہر نبی کو اپنے سے سابق کا خاتم و ناسخ کہا جاسکتا ہے۔
اعتراض:
آیت یَقْتَلُوْنَ النَّبِیِّیْنَ میں بعض انبیاء کیوں مراد لیے جاتے ہیں۔
الجواب:
اگر یہاں تمام انبیاء مراد لیں تو اس میں قرآن کریم کی تکذیب ہوگی اور آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ بنی اسرائیل تمام انبیاء کو قتل کرتے تھے حالانکہ یہ کسی طرح درست نہیں ہوسکتی بلکہ کذب محض ہوگی۔ کیونکہ اول تو بنی اسرائیل کے زمانہ میں تمام انبیاء موجود نہ تھے۔ بہت سے ان سے پہلے گزر چکے تھے اور بعض ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ پھر ان کا تمام انبیاء کو قتل کرنا کیا معنے رکھتا ہے۔ دوم یہ بھی ثابت نہیں کہ بنی اسرائیل نے اپنے زمانہ کے تمام انبیاء موجودین کو بلا استثناء قتل ہی کر ڈالا ہو۔ بلکہ قرآنِ عزیز ناطق ہے فریقاً کَذَّبْتُمْ وَفَرِیقًا تَقْتلُوْنَ جس نے صاف طور سے اعلان کردیا کہ بنی اسرائیل نے تمام انبیاء موجودین کو بھی قتل نہیں کیا۔
لہٰذا ہم مجبور ہیں کہ یہاں بعض انبیاء مراد لیں مگر خاتم النبیین میں کونسی مجبوری حائل ہے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا عذر:
خاتم کا لفظ ہمیشہ افضل کے معنوں میں آتا ہے جیسے خاتم الشعراء وغیرہ وغیرہ۔(۸۰)
الجواب:
کیا خوب! کہاں تو خاتم کے معنی مہر کے کئے تھے پھر کہاں خاتم کے معنی بعض نبیوں کو بند کرنے والا اور کہاں یہ کہ ''ہمیشہ افضل کے معنوں میں آتا ہے'' آہ! اذا لم تستحی فاصنع ماشئت۔ (۸۱)
اس پر دلیل یہ دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو خاتم المہاجرین فرمایا اور علی رضی اللہ عنہ کو خاتم الاولیاء۔ حالانکہ عباس رضی اللہ عنہ کے بعد آج تک ہجرت جاری ہے اسی طرح ولایت بھی۔
آیات قرآن و احادیث صحیحہ واضح کے خلاف ایسی ویسی رطب ویابس سے بھری ہوئی کتابوں کی روایات پیش کرنا مرزائی ''دیانت'' کابین ثبوت ہے۔ پہلی روایت کنز العمال کی ہے جس کو سلسلہ سند حذف کرکے نقل کیا ہے۔ یہ روایت متصل سند ہی نہیں ہے مرسل ہے:
عَنْ شَھَابٍ مُرْسَلاً قَالَ قَالَ رَسولُ اللّٰہِ ﷺ اطمئن یاعم فَانِّکَ خَاتِمَ المُھاجرین الخ۔ (۸۲)
دوسری روایت تفسیر صافی کی ہے جو سرے سے بے سند ہے لہٰذا حجت نہیں۔
پہلی روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو ہمارے خلاف نہیں، بلکہ موید ہے۔
اب حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ہجرت والی حدیث کا جواب سنئے کہ فتح مکہ سے پیشتر ہجرت الی المدینہ فرض تھی تاکہ مسلمان مرکز اسلام یعنی مدینہ شریف میں جمع ہو کر قوت بھی پکڑ جائیں اور کفار کے مظالم سے بھی بچے رہیں۔ لیکن جب رمضان ۸؍ ہجری میں مکہ شریف فتح ہوگیا تو اسلام غالب و قوی ہوگیا اور کفر کا زور ٹوٹ گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا حکم یعنی فرضیت ہجرت منسوخ کردیا اور فرما دیا لا ھِجْرۃ بَعْدَ فتح مکۃ(۱) ۔
۱۔ اس کا قصہ یوں ہے کہ فتح مکہ پر حضرت مجاشع بن مسعود سلمی اپنے بھائی مجالد کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا کہ میرا یہ بھائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر ہجرت کی بیعت کرنا چاہتا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں لیکن میں اسلام پر اس کی بیعت لے لیتا ہوں۔ اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۳۳،ج۱ کتاب الجھاد باب
------------------------------------------------------
(۸۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۷
(۸۱) صحیح بخاری ص۹۰۴،۲ و الادب المفرد ص۲۳۶ رقم ۱۳۱۶
(۸۲) کنز العمال ص۶۹۹،ج۱۱ رقم الحدیث ۳۳۳۸۷، نوٹ: امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق ص۹۱۴ ج۸ (مخطوطہ) میں اس کی تین اسناد بیان کی ہیں لیکن ان تینوں میں ابو مصعب اسماعیل بن قیس راوی ہے اسی طرح یہ روایت مسند ابو یعلی اور طبرانی میں آتی ہے مگر ان کی اسناد میں بھی یہی ابو مصعب راوی ہے، مجمع الزوائد ص۲۷۲،ج۹ باب ماجاء فی العباس۔ امام ابن عدی نے ابو مصعب کے ترجمہ میں نقل روایت کے بعد لکھا ہے ابی حازم سے ابو مصعب اسماعیل بن قیس بیان کرنے میں منفرد ہے الکامل فی ضعفاء الرجال ص۲۹۷، ج۱ ، اسے امام بخاری امام دارقطنی امام نسائی امام ابن حبان نے منکر الحدیث اور ضعیف کہا اور امام ابن عدی کا کہنا ہے یہ جو بھی بیان کرتا ہے وہ منکر ہے، میزان ص۲۴۵، ج۱ ، والمجروحین ص۱۲۷، ج۱ ، وغیرہ ۔ ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یعنی فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ سے قدرے ہی پیشتر ہجرت کی تھی۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اصابہ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھتے ہیں:
ھَاجَرَ قَبْلَ الْفَتْحِ بِقلَیْلٍ وَشَھِدَ الفتح۔(۸۳)
یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ سے قدرے پیشتر ہجرت کی اور آپ فتح مکہ میں حاضر تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ کے ہجرت کرنے کے بعد کسی دیگر شخص کی ہجرت ثابت نہیں ہے پس حضرت عباس رضی اللہ عنہ آخری مہاجر ہوئے۔ اس سے بھی ثابت ہوا کہ خاتم کے معنی آخری ہیں اور خاتم بمعنی افضل غلط ٹھہرے۔
تنبیہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو جو خاتم المہاجرین فرمایا تو اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دلداری اور تسلی خاطر تھی کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے خیال کیا کہ مجھ سے سابقیت ہجرت فوت ہوگئی ہے۔ کیونکہ وہ ہجرت کے بہت پیچھے ایمان لائے تھے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تسلی فرمائی کہ چچا جان! سابقیت کے فوت ہو جانے کا غم نہ کریں کیونکہ جس طرح سابقیت وجہ فضیلت ہوسکتی ہے اسی طرح خاتمیت بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ میں خاتم الانبیاء ہوں اور آپ خاتم المہاجرین ہیں۔ چنانچہ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اِطْمَئِنَّ یَاعَمِّ سے ظاہر ہے یعنی چچا جان آپ تسلی رکھیں۔
(ب) ابو تمام طائی مؤلف دیوان حماسہ کی وفات پر حسن بن وہب عربی شاعر کے مرثیہ کے شعر میں جو اسے خاتم الشعراء کہا گیا ہے تو وہ شاعر کے ظن کی بنا پر ہے کہ اس کے نقطہ خیال میں ابو تمام اس کمال کا آخری شخص تھا۔ پس اگر کوئی دیگر شخص ابو تمام کے برابر بلکہ اس سے بڑھ کر بھی ثابت ہو جائے تو ہوسکتا ہے کیونکہ حسن بن وہب شاعر عالم الغیب نہیں تھا کہ اس کا قول غلط نہ نکلے لیکن جناب والا یہاں تو خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرما رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تفسیر آخر الانبیاء سے کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں (خدا تعالیٰ اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم ) میں کسی کو حسن بن وہب جیسا گمان کرسکتے ہیں کہ ان کا علم ناقص و قاصر ہے اور انہیں حسن بن وہب کی طرح غیب پر اطلاع نہیں ہے؟
--------------------------
(۸۳) اصابہ فی تمییز الصحابہ ص۳۰،ج۳ طبعہ دارالکتب العلمیۃ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
الزامی جواب:
(۱) مَا کَان مَحَمَّدٌ ... وَخَاتَمَُ النَّبِیِّیْنَ ختم کرنے والا نبیوں کا۔(۸۴) یہ آیت صاف دلالت کررہی ہے کہ بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول دنیا میں نہ آئے گا۔
کیا یہاں افضل کے معنوں میں ہے یا بند کرنے کے معنوں میں؟
(۲) اسی طرح پر میری پیدائش ہوئی یعنی جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی اور بعد اس کے میں نکلا تھا اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکا یا لڑکی نہیں ہوا اور میں ان کے خاتم الاولاد تھا۔(۸۵)
اب مرزائی بتائیں کہ مرزا صاحب نے اپنی اس عبارت میں بند کرنے کے معنوں میں استعمال کیا ہے یا افضل کے معنوں میں؟
(۳) بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء کا نام جو عیسیٰ ہے۔(۸۶)
بتاؤ کہ مرزا صاحب نے یہاں کن معنوں میں خاتم استعمال کیا ہے اگر مرزائی کہیں کہ یہاں خاتم کے معنی افضل کے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ:
'' موسیٰ علیہ السلام کے بعد سب کے سب نبی شریعت موسوی کے حامی اور خادم وغیرہ تھے۔'' (۸۷)
(۴) خدا کی کتابوں میں مسیح موعود کے کئی نام ہیں ایک نام اس کا خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا خلیفہ جو سب کے آخر آنے والا ہے۔'' (۸۸)
یہاں بھی مرزا جی نے خاتم بمعنی آخر لکھ ہے بمعنی افضل نہیں۔
(۵) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔'' (۸۹)
یہاں بھی افضل مراد نہیں بلکہ بند کرنے والی شریعت مراد ہے۔
(۶) چونکہ ہمارے سید و رسول صلی اللہ علیہ وسلم الانبیاء ہیں اور بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نبی نہیں آسکتا اس لیے اس شریعت میں نبی کے قائم مقام محدث رکھے کئے ہیں۔ (۹۰)
یہاں بھی مرزا جی کو اعتراف ہے کہ خاتم بمعنی ختم کرنے والا ہے اور مرزائیوں کے من گھڑت معنی افضل کے غلط اور بے دلیل ہیں۔
-------------------------------------
(۸۴) ازالہ اوہام ص۶۱۴ و روحانی ص۴۳۱، ج۳ تفسیر مرزا ص۵۳، ج۷
(۸۵) تریاق القلوب ص۱۵۷ و روحانی ص۴۷۹،ج۱۵
(۸۶) خاتم براھین احمدیہ ص، ج۵ و روحانی ص۴۱۲،ج۲۱
(۸۷) شھادۃ القرآن ص۴۶ و روحانی ص۲۴۲،ج۶
(۸۸) چشمہ معرفت ص۳۱۸،ج۲۳ و روحانی ص۳۳۳
(۸۹) ایضًا ص۳۲۴ و روحانی ص۳۴۰،ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۷۰،ج۷
(۹۰) شھادۃ القران ص۲۸ و روحانی ص۳۲۴،ج۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۷) قرآن کریم؟ بعد خاتم النبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں خواہ وہ نیا ہو یا پرانا ہو۔(۹۱)
اس جگہ بھی مرزا صاحب خاتم کے معنی بند کرنے والا مراد لیتے ہیں۔
وان رسولنا خاتم النبیین وعلیہ انقطعت سلسلۃ المرسلین۔(۹۳)
ناظرین! مندرجہ بالا حوالہ جات میں الفاظ خاتم النبیین خاتم الاولاد خاتم الخلفاء، خاتم الشرائع، خاتم الانبیاء وغیرہ ختم کرنے کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں نہ کہ افضل کے معنوں میں۔
نوٹ: جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تفسیر کردی کہ خاتم النبیین کے معنی لا نبی بعدی ہے۔ اور مرزا صاحب اس پر صاد کرتے ہیں تو پھر دور دراز کی تاویلیں کرنا اور کبھی لوگوں کے اقوال پر ازراہِ شرارت تکیہ لگانا بے ایمانی نہیں تو اور کیا ہے۔ مرزا صاحب خود فرماتے ہیں:
'' ملہم کے بیان کردہ معنوں پر کسی اور کی تشریح اور تفسیر ہرگز معتبر نہیں۔'' (۹۳)
اصطلاحی امور میں لغت کی طرف رجوع کرنا حماقت ہے۔ (۹۴)
لہٰذا یہ کسی کو سزاوار نہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ معنوں کے آگے چوں چرا کرے اور خود ساختہ تاویلیں کرے۔
نکتہ: یاد رہے کہ خاتم کا استعمال سب سے پہلے قرآن مجید نے کیا ہے۔ اس سے پہلے کلام عرب میں یہ استعمال موجود نہیں۔ اور قرآن مجید کا یہ استعمال اپنے حقیقی معنوں میں ہے کیونکہ حقیقت پہلے ہے اور مجاز بعد میں۔
--------------------------
(۹۱) ازالہ اوہام ص۷۶۱ و روحانی ص۵۱۱،ج۳ و تفسیر مرزا ص۵۲،ج۷
(۹۲) الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۶۴ و روحانی ص۶۸۹،ج۲۲ و تفسیر مرزا ص۷۳، ج۷
(۹۳) اشتہار مرزا مورخہ ۷؍ اگست ۱۸۸۷ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۱۴۲،ج۱ و تبلیغ رسالت ص۱۲۱، ج۱
(۹۴) ازالہ اوہام ص۵۳۸ و روحانی ص۳۸۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
خاتم القوم کا کوئی محاورہ نہیں۔ (۹۵)
الجواب:
یہ محاورہ ہو یا نہ ہو۔ خدا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قرار دیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر لا نبی بعدی کی ہے اور مرزا نے اس کے معنی نبیوں کو ختم کرنے والا لکھے ہیں لہٰذا یہ عذر بھی بے دینی کی دلیل ہے۔
مرزائی عذر:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے کہ خاتم النبیین تو کہو، مگر لا نبی بعد نہ کہو۔ (۹۶)
الجواب:
یہ روایت بھی بے سند محض ہے پھر بھی ہمارے خلاف نہیں جن معنوں میں یہ کہا گیا ہے ان معنوں میں ہم بھی لا نبی بعدی نہیں کہتے بلکہ ان معنوں سے ہم خاتم النبیین بھی نہیں کہتے۔ ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ مسیح علیہ السلام گزشتہ نبی ہیں۔ جن کی آمد قرآن و حدیث میں مذکور ہے جس پر جمیع اہل اسلام متفق ہیں۔ خاتم النبیین نے پیدا ہونے والے نبیوں کے بارے میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی پیدا نہ ہوگا چنانچہ علامہ زمخشری آیت خاتم النبیین کے ذیل میں خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود اس کا جواب دیتے ہیں (فان قلت) کیف کان اخر الانبیاء وعیسی ینزل فی اخر الزمان (قلت) معنی کونہ اخر الانبیاء انہ لاینبا احد بعدہ وعیسٰی ممن نبی قبلہ۔(۹۷) اگر تو کہے کہ آپ کس طرح آخری نبی ہوسکتے ہیں حالانکہ عیسیٰ علیہ السلام آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ تو اس کے جواب میں میں یہ کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبی بنایا نہیں جانے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان میں سے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی بن چکے ہیں۔
مزید برآں کسی صحابی کا قول حدیث نبوی کے سامنے حجت نہیں ہے بلکہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت فرماتی ہیں:
(۱) عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ اَنَّہٗ قَالَ لَا یَبْقٰی بَعْدَہٗ مِنَ النَّبوۃ اِلاَّ المُبَشِّراتُ قالوا یا رسول اللہ وما المبشرات قال الرُّوْیَاء الصَّالِحَۃُ یراھا الْمُسُلمُ اَوْ یُرٰی لَہٗ۔(۹۸)
'' حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد نبوت میں سے کوئی جزو باقی نہیں رہے گا سوائے مبشرات کے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبشرات کیا چیز ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھی خواب جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے لیے کوئی اور دیکھے۔''
(۲) اَنَا خَاتِمُ الْاَنَبِیَاء وَمَسْجِدِیْ خَاتِمُ مَسَاجِدِ الْاَنبیاء۔(۹۹)
''یعنی میں خاتم الانبیاء ہوں اور میری مسجد انبیاء کی مساجد میں سے آخری مسجد ہے۔''
کیا اس کے بعد بھی کسی مسلمان بلکہ منصف انسان کے لیے جائز ہوسکتا ہے کہ وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر یہ افترا باندھے کہ آپ رضی اللہ عنہا ختم نبوت کا انکار کرتی تھیں۔ ان حادیث صحیحہ کے بعد بھی ایک غیر مستند قول پیش کرنا ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟
------------------------------------------
(۹۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۰۷ طبعہ ۹۴۵ء
(۹۶) ایضاً ص۵۰۸، نوٹ: مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے مذکورہ روایت کو، درمنثور ص۲۰۴،ج۵ کے حوالے سے ابن ابی شیبہ سے نقل کی ہے، سو واضح ہو کہ یہ روایت مصنف ابن ابی شیبہ ص۱۰۰، ج۹ کتاب الادب باب من کرہ ان یقول لا نبی بعد النبیﷺ میں، حسین محمد قال حدثنا جریر بن حازم عن عائشۃ کی سند سے مروی ہے، اس پر دو وجہ سے کلام ہے (۱) جریر بن حازم گو ثقہ ہیں لیکن ان کا آخری عمر میں حافظ خراب ہوگیا تھا تھذیب ص۷۲،ج۲ و میزان ص۳۹۲، ج۱ (۲) سند میں انقطاع ہے کیونکہ جریر کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات و سماع ثابت نہیں۔ جریر کی پیدائش ۹۰ھ میں ہوئی (تہذیب ص۶۱،ج۲) جبکہ ام المومنین کی وفات ۵۸ء میں ہوئی (سیرۃ عائشہ ص۱۵۴) گویا جریر کی پیدائش سے بتیس سال قبل حضرت عائشہ عائشہ رضی اللہ عنہا وفات پاچکی تھیں لہٰذا یہ بات تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ مذکورہ روایت منقطع السند ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے اور امت کے ایک اجماعی مسئلہ کو ایک ضعیف قول سے رد نہیں کیا جاسکتا۔ ابو صھیب
(۹۷) تفسیر کشاف ص۵۴۴،ج۳
(۹۸) مسند احمد ص۱۲۹، ج۶ و اوردہ الحافظ فی فتح الباری ص۳۱۶،ج۱۲
(۹۹) حوالے کے لیے دیکھئے نمبر ۶۱ باب ھذا
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
دوسری آیت اَلْیَوْمَ اکْمَلْت لکم دینکم کا یہ جواب ہے کہ:
''(۱) تورات بھی تمام تھی مگر اس کے بعد پھر کتاب آگئی (۲) قرآن شاہد ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام پر بھی نعمت پوری کی گئی تھی (۳) انعام صرف نبوت ہی نہیں آیت قرآن کی رو سے نبوت صدیقیت، شہادت، صالحیت سب انعام ہیں کیا یہ بھی بند ہیں؟'' (۱۰۰)
الجواب:
(۱) تورات بیشک تمام تھی مگر اپنے وقت اور قوم کے لیے گذشتہ بنی مخصوص قوموں کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ (۱۰۱)
وَکَانَ النبی یُبْعَثُ اِلٰی قَوْمِہٖ خَاصَّۃً وَبُعِثْتُ اِلَی الناسِ عَامَّۃً پہلے نبی اپنی اپنی قوم کی طرف آئے اور میں تمام دنیا کی طرف۔(۱۰۲) (بخاری و مسلم مشکوٰۃ باب سید المرسلین)
(۲) ہاں توریت اپنی ذات میں تمام تھی مگر کامل دین الٰہی اور اتمام نبوت اور تعلیم عالمگیر کے رو سے ناقص تھی '' اب قرآن شریف اور دوسری کتابوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم آوے۔ مگر قرآن شریف کے لیے اب یہ ضرورت در پیش نہیں کیونکہ کمال کے بعد اور کوئی درجہ نہیں تو نئی شریعت اور نئے الہام کے نازل ہونے میں بھی امتناع عقلی لازم آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں خاتم الرسل ہیں۔''(۱۰۳)
اور حضرت یوسف علیہ السلام پر جو نعمت تمام ہوئی وہ اسی طرح کا اتمام تھا کَمَا اَتَمَّھَا عَلٓی ابویک(۱۰۴) (یوسف ع۱) جیسا کہ اس کے باپ دادوں پر ہوا تھا۔ یعنی وقتی اور حسب ضرورت زمانہ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں۔
نبوت، صدیقیت، شہادۃ، صالحیت بلاشبہ انعام ہے اسی طرح صاحب شریعت نبی ہونا بھی انعام ہے۔ جس کی قسمت میں ابتدائے آفرینش سے قسام ازل نے ختم نبوت کا تمغہ مقسوم رکھا تھا۔ جبکہ آدم علیہ السلام منجدل فی طینتہٖ گوندھی ہوئی مٹی میں پڑے تھے۔ اس کے بعد بھی اس انعام کی توقع بلکہ تقدیر الٰہی کو الٹ دینے کی ناپاک کوشش کرنا کچھ اوندھی کھوپری والے انسانوں کو ہی سوجھتا ہے اَلاَ اِنَّ حِزْبَ الشَّیْطَانِ ھُمُ الْخَاسِرُوْنَ۔(۱۰۵)
-----------------------------
(۱۰۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۱۲ تا ۵۱۳ ملخصًا طبعہ ۱۹۴۵ء
(۱۰۱) ایضاً ص۴۴۳ طبعہ ۱۹۳۲
(۱۰۲) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۸،ج۱ کتاب اتیمم باب نمبر۱ و مسلم فی الصحیح ص۱۹۹،ج۱ کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ واحمد فی مسندہٖ ص۳۰۴ ج۳ واوردہ مرزا خدا بخش القادیانی فی عسل مصفّٰی ص۲۲۶، ج۱
(۱۰۳) براھین احمدیہ ص۱۱۰ تا ۱۱۱، ج۲ و روحانی ص۱۰۱ تا ۱۰۳، ج۱ حاشیہ نمبر ۹ و تفسیر مرزا ص۲۲۸، ج۵ ، نوٹ: اب قرآن شریف اور دوسری کتابوں سے پہلی عبارت مولانا معمار مرحوم کی ہے۔ ابو صہیب
(۱۰۴) پ۱۲ یوسف آیت ۶
(۱۰۵) پ۲۸ المجادلہ آیت ۱۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
آیات وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ۔ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا۔ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمام بنی اسرائیل کی طرف رسول تھے کیا ان کے بعد بنی اسرائیل ہی کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام ، سلیمان علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام نبی ہو کر نہیں آئے؟ (۱۰۶)
الجواب:
ہم پہلے ثابت کر آئے ہیں کہ وہ شریعت ناتمام و ناقص تھی۔ اس لیے وقتی ضروریات کے لیے انبیاء کا آنا ضرور تھا۔ اور تورات کے متعلق قرآن شریعت میں ہرگز ہرگز حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ دعویٰ موجود نہیں کہ تمام بنی اسرائیل کے لیے صرف میں ہی اکیلا رسول ہوں بخلاف اس کے قرآن مجید کامل مکمل غیر متبدل اٹل قانون اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کے لیے اکیلے رسول ہونے کے مدعی ہیں اُرْسِلتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً وَخُتِمِ بِیَ النَّبِیُّوْنَ۔ (۱۰۷) (صحیح مسلم) میں تمام دنیا جہان کی طرف بھیجا گیا ہوں میرے ساتھ نبیوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اَنَا رَسُوْلُ مَن ادرکتُ حَیًّا ومَنْ یُوْلَدُ بَعْدِیْ۔(۱۰۸)
'' خدا نے سب دنیا کے لیے ایک ہی نبی بھیجا۔'' (۱۰۹)
----------------------------
(۱۰۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۱۴
(۱۰۷) دیکھئے ۴۰ باب ھذا
(۱۰۸) کنز العمال ص۴۰۴،ج۱۱ رقم الحدیث ۳۱۸۸۶ و طبقات ابن سعد ۱۔۱۔۱۲۷
(۱۰۹) چشمہ معرفت ص۱۳۶ و روحانی ص۱۴۴،ج۲۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
احادیث نبویہ اور مرزائی اعتراضات

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں (بخاری)۔ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ دوسری حدیث میں لَسْتَ نبیا آیا ہے یعنی اے علی تو میرے بعد نبی نہیں۔ یعنی نفی عام نہیں بلکہ نفی کمال ہے۔ (۱۱۰)
الجواب:
دونوں حدیثیں باہم متخالف نہیں۔ بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی نہ تھے اور بیشک دوسری حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی بھی نہ ہوگا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا ہے کہ قیامت تک تیس کذاب پیدا ہوں گے جو نبوت کا دعویٰ کریں گے مگر میں خاتم النبیین ہوں۔ اسی طرح امت میں مدعیان نبوت کے کذاب ہونے کی حدیث بیان کی اور اپنا کافۃ الناس کی طرف رسول ہونا فرمایا۔
پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جو فرمایا گیا کہ تو نبی نہیں اس کا باعث یہ ہے کہ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
-------------------------------------
(۱۱۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۰۹
 
Top