• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسرا اعتراض:
یہ دجال آج سے پہلے پورے ہوچکے ہیں۔ جیسا اکمال الاکمال میں لکھا ہے۔(۱۶۲)
جواب:
حدیث میں قیامت تک شرط ہے۔ اکمال الاکمال والے کا ذاتی خیال ہے جو سند نہیں۔ بعض دفعہ انسان ایک جھوٹے دجال کو بڑا سمجھ لیتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے خیال کے مطابق تعداد پوری سمجھ لی۔ حالانکہ مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت نے وضاحت کردی کہ ابھی اس تعداد میں کسر باقی ہے۔
مزید برآں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری شرح صحیح بخاری میں اس سوال کو حل کرتے ہوئے فرمایا ہے:
ولیس المواد بالحدیث من ادعی النبوۃ مطلقا فانھم لا یحصون کثرۃ لکون غالبھم ینشألھم ذلک عن جنون وسوداء وانما المراد من قامت لہ الشوکۃ۔(۱۶۳)
اور ہر مدعی نبوت مطلقاً اس حدیث سے مراد نہیں اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مدعی نبوت تو بیشمار ہوئے ہیں کیونکہ یہ بے بنیاد دعویٰ عموماً جنون یا سوداء سے پیدا ہوتے ہیں بلکہ اس حدیث میں جن تیس دجالوں کا ذکر ہے وہ وہی ہیں جن کی شوکت قائم ہو جائے اور جن کا مذہب مانا جائے اور جن کے متبع زیادہ ہو جائیں۔
------------------------------------------------------------
(۱۶۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۳۴
(۱۶۳) فتح الباری ص۴۸۴،ج۶ باب علامات النبوۃ فی الاسلام
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مزے دار بات:
اور ملاحظہ ہو ایک طرف تو بحوالہ اکمال الاکمال، آج سے ''چار سو برس پہلے'' تیس دجال کی تعداد ختم لکھی ہے مگر آگے چل کر بحوالہ حجج الکرامہ مصنفہ مولانا نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ لکھا ہے کہ ''آنحضرت نے جو اس امت میں تیس دجالوں کی آمد کی خبر دی تھی وہ پوری ہو کر ستائیس کی تعداد مکمل ہوچکی ہے۔''(۱۶۴) گویا اکمال الاکمال والے کا خیال غلط تھا۔ اس کے ساڑھے تین سو برس بعد تک بھی صرف ستائیس دجال و کذاب ہوئے ہیں۔ بہت خوب، حدیث میں تیس کی خبر ہے۔ جس میں بقول نواب صاحب رحمہ اللہ مسلمہ شما ۲۷ ہوچکے۔ اب ان میں ایک متنبی مرزا صاحب کو ملائیں تو بھی ابھی دوکی کسر ہے۔
یہاں تک تو مرزائی صاحب نے اس حدیث کو رسول اللہ کی مانتے ہوئے جواب دئیے۔ مگر چونکہ اس کا ضمیر گواہی دیتا ہے کہ جواب دفع الوقتی اور بد دیانتی کی کھینچ تان ہے جسے کوئی دانا قبول نہیں کرسکتا۔ اس لیے آگے چل کر عجیب دجالانہ صفائی کی ہے کہ یہ حدیث ہی ضعیف ہے۔ آہ صحاح ستہ خاص کر صحاح سے بھی سب کی سردار کتاب بخاری و مسلم کی حدیث اور ضعیف اور پھر جرأت یہ کہ حجج الکرامۃ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس حدیث تیس دجال والی کو ضعیف لکھا ہے۔ حالانکہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ حجج الکرامۃ کی جو عبارت درج کی ہے اگرچہ ساری نہیں درج کی گئی تاہم اس سے ہی اصل حقیقت کھل رہی ہے، ملاحظہ ہو، لکھا ہے:
'' در حدیث ابن عمر سئی کذاب و در روایتی عبداللہ بن عمر نزد طبرانی است برپا نمیشود ساعت تا آنکہ بیرون آیند ہفتاد کذاب و نحوہ عندابی یعلیٰ من حدیث انس حافظ ابن حجر گفتہ کہ سند ایں ہر دو حدیث ضعیف است۔'' (۱۶۵)
ناظرین کرام! حجج الکرامۃ کی عبارت میں تین روایتوں کا ذکر ہے پہلی ابن عمر کی تیس دجال والی (یہ تو صحیح مسلم و بخاری و ترمذی وغیرہ کی ہے۔ بادنیٰ تغیر) دوسری روایت عبداللہ بن عمر کی جو طبرانی میں ہے ۷۰ دجال والی اور تیسری روایت انس والی جو ابو یعلیٰ میں ہے ۷۰ دجال والی حافظ صاحب نے پچھلی دونوں روایتوں کو ضعیف کہا ہے مگر مرزائی صحیح حدیث کو بھی اسی صف میں لا کر نہ صرف اپنے نامۂ اعمال کو سیاہ کر رہا ہے بلکہ حافظ ابن حجر اور نواب صدیق حسن خاں رحمہما اللہ علیہما پر افترا کرکے اپنی مرزائیت کا ثبوت دے رہا ہے۔
اب آئیے! میں آپ کے سامنے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اصل کتاب جس کا حوالہ دیا گیا ہے پیش کروں:
وَفِیْ رَوَایَۃِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ عِنْدَ الطِّبْرَانِیِّ لَا تَقَوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَخَرُجَ سَبَعُوْنَ کَذَّابًا وَسَنَدُھَا ضَعِیْفٌ وَعِنْدَ اَبِیْ یَعْلٰی مِنْ حدیث انس نَحْوَہٗ وسَنَدُہٗ ضَعِیْفٌ اَیْضًا۔(۱۶۶)
کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں امام طبرانی کے نزدیک یہ وارد ہے کہ ستر کذاب نکلیں گے۔ اور اس کی سند ضعیف ہے اور ابو یعلیٰ کے نزدیک حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی اسی طرح ہے اور اس کی سند بھی ضعیف ہے۔
حاصل یہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صرف ۷۰ دجال والی روایت کو جو دو طریق سے مروی ہے، ضعیف لکھا ہے، نہ کہ تیس دجال والی کو۔
نوٹ: اسی عبارت کو علامہ عینی حنفی نے اپنی شرح صحیح بخاری میں اسی طرح نقل کیا ہے اور مسئلے کو صاف کردیا ہے کہ ستر کی تعداد عالی ہر دو روایات جو طبرانی اور ابو یعلیٰ نے روایت کی ہیں، وہ دونوں ضعیف ہیں۔ (۱۶۷)
---------------------------------------
(۱۶۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۴۰ طبعہ ۱۹۳۲
(۱۶۵) ایضاً
(۱۶۶) فتح الباری ص۷۴،ج۱۳ کتاب الفتن باب ۲۵
(۱۶۷) عمدۃ القاری ص۲۱۵،ج۲۳ طبعہ دارالفکر بیروت ۔ نوٹ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، ابو یعلی ص۱۳۱،ج۴ (رقم الحدیث ۴۰۴۲) میں مروی روایت کی سند میں پہلا راوی، بشر، مجہول ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تقریب ص۳۵ میں اور علامہ ذہبی نے میزان ص۳۲۷،ج۱ میں صراحت کی ہے۔ دوسرا راوی۔ لیث بن ابی سلیم ہے یہ گو صدوق ہے (یعنی جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتا) مگر اسی الحفظ اور کثیر الغلط ہے اس کا آخری عمر میں حافظہ خراب ہوگیا تھا حافظ ابن حجر کا کہنا ہے اس کی روایات میں تمیز نہیں ہوسکی لہٰذا متروک، تقریب ص۲۱۳ و تہذیب ص۴۶۵ تا ۴۶۸، ج۸ و میزان ص۴۲۰ تا ۴۲۳،ج۳ علاوہ ازیں لیث زبردست مدلس ہے اور زیر بحث روایت معنعن ہے۔ طبرانی میں مروی ابن عمرt سے روایت میں یقول علامہ ہیثمی یحییٰ بن عبدالحمید حمانی راوی ہے جو کہ ضعیف ہے، مجمع الزوائد ص۳۳۶،ج۷ (الفتن) باب ماجاء فی الکذابین الذین بین یدی الساعۃ۔ الغرض ستر والی روایات ضعیف ہیں اور انہیں حافظ ابن حجر علامہ عینی اور نواب صاحب نے ضعیف قرار دیا ہے۔ مولانا معمار مرحوم کی اس زبردست گرفت کے بعد مؤلف، احمدیہ پاکٹ بک نے بھی ۱۹۴۵ء کی اشاعت سے یہ عبارت نکال دی ہے (دیکھئے ص۵۳۵) ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حدیث قصر نبوت اور مرزائی اعتراض

نمبر۱:
اول تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محل کی ایک اینٹ قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ بہت بلند ہے۔ پھر اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی شرائع کو کامل کردیا ہے اور شریعت کے محل کو مکمل کردیا۔ حدیث میں پہلے انبیاء کا ذکر ہے بعد میں آنے والے کا نہیں۔(۱۶۸)
الجواب:
محل کی تو ایک مثال ہے۔ شریعت وغیرہ کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین فرمایا اور ساتھ یہ جان کر کہ آئندہ کذاب و دجال پیدا ہونے والے ہیں جن میں سے کوئی تو یہ عذر کرے گا کہ میرا نام '' لا'' ہے اور حدیث میں لا نبی بعدی آیا ہے۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ مردوں میں نبوت ختم ہے۔ میں عورت ہوں اس لیے میرا دعویٰ خاتم النبیین کے منافی نہیں اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ دور محمدیہ میں نبوت ختم ہے نئی کتاب اور شریعت خاتم النبیین کے خلاف نہیں (جیسا کہ بہائی مذہب والے کہتے ہیں) اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ شریعت والی نبوت ختم ہے۔ بغیر شریعت کے نبی آسکتا ہے جیسا کہ مرزا صاحب نے کہا۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ حدیث میں پہلے نبیوں کا ذکر ہے بعد کا نہیں۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے آیت کی وہ تفسیر کرائی جس سے تمام دجالوں کی تاویلات ھباء منثوراً ہو جاویں۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا ان معنوں سے ہے کہ جس طرح ایک محل بنایا جائے۔ جس کی تکمیل میں صرف ایک اینٹ کی کسر ہو۔ سو اسی طرح یہ سلسلہ انبیاء کا ہے جس میں کتاب والے بھی آئے اور بلا کتاب والے بھی۔ یہ روحانی انبیاء کا سلسلہ چلتا چلتا اس مقام پر پہنچا کہ صرف ایک ہی نبی باقی رہ گیا۔ سو وہ نبی میں ہوں جس کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوگا۔ اس مثال سے جملہ دجال و کذاب اشخاص کی تاویلات واہیہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں نہ تشریعی و غیر تشریعی کا عذر نہ عورت و مرد کا امتیاز، نہ پہلے اور پچھلوں کا فرق، محل نبوت تمام ہوگیا، نبوت ختم ہوگئی اب بعد میں پیدا ہونے والے بموجب حدیث سوائے دجال کے اور کسی خطاب کے حق دار نہیں۔
-----------------------------------------------------
(۱۶۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۳۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض۲:
بعض روایات میں لفظ من قبلی موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب انبیاء کی مثال نہیں بلکہ گزشتہ انبیاء کی مثال ہے نیز اس روایت سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ جس قسم کے نبی پہلے آیا کرتے تھے۔ اس قسم کے نبی اب ہرگز نہیں آئیں گے جیسا کہ من قبلی ظاہر کرتا ہے۔ (۱۶۹)
الجواب:
چونکہ سب انبیاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے ہیں اس لیے مِنْ قَبْلِیْ بولا گیا ہے نیز جملہ ختم بی البنیان وختم بی الرسل جریان نبوت کی فقط نفی کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ حدیث میں من قبلی کے الفاظ خصوصیت سے قابل غور ہیں جن سے انبیاء کا عموم بتلایا گیا ہے یعنی شرعی اور غیر شرعی اور جملے ختم بی الرُسُل (ختم کئے گئے ساتھ میرے رسول) اور انا اللبنۃ وَاَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ (کہ نبوت کی آخری اینٹ میں ہوں اور میں ختم کرنے والا ہوں نبیوں کا) اور وجئت انا واتممت تلک اللبنۃ (میرے آنے سے وہ کمی پوری ہوگئی جو ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی) اس کی پوری پوری تشریح کر رہے ہیں۔ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ پہلے صرف بلا واسطہ نبی ہوتے تھے۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ہوا کریں گے تو خدا کی سنت کی تبدیلی اور استثناء کس حرف سے معلوم ہوتا ہے کیا سچ فرمایا ہے مرزا صاحب نے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی بھی ہیں اور جامع الکمالات بھی:
ہست او خیر الرسل خیر الانام
ہر نبوت رابر شد اختتام(۱۷۰)
---------------------------
(۱۶۹) ایضاً ص۵۳۹
(۱۷۰) سراج منیر ص۹۳ و روحانی ص۹۵،ج۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض ۳:
جب نبوت کے محل میں کسی نبی کی گنجائش نہیں رہی تو پھر آخر زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کا تشریف لانا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے۔ (۱۷۱)
الجواب:
مثلاً کہا جاتا ہے خاتم اولاد (سب سے آخر میں پیدا ہونے والا) اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلی اولاد کا صفایا ہوچکا ہے اور سب مر گئے ہیں۔ اسی طرح خاتم النبیین سے کیسے سمجھ لیا گیا کہ تمام انبیاء سابقین پر موت طاری ہوچکی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو یہ عہدۂ نبوت نہیں دیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہدہ نبوت نہیں ملا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مل چکا ہے اور وہ اس وقت سے آخر عمر تک برابر اس وصف کے ساتھ متصف ہیں۔ پھر معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے اور نزول مسیح علیہ السلام کے عقیدہ میں کیا تعارض ہے۔
-----------------------------
(۱۷۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۳۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض۴:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محل کی ایک اینٹ قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے۔(۱۷۲)
الجواب:
اگر کوئی شخص یہ کہے فلاں شخص شیر ہے۔ تو کیا یہ مطلب ہے کہ وہ درندہ جانور ہے جنگلوں میں رہتا ہے۔ اس کی دُم بھی ہے اور بڑے بڑے ناخنوں اور بالوں والا ہے۔ کیا خوب یہ مبلغ علم و فہم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال سمجھانے کے لیے دی ہے اور اس میں توہین کہاں سے آگئی۔ اگر یہ توہین ہے تو پھر مرزا صاحب بھی اس توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بعینہٖ یہی مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے کہ:
'' دیوار نبوت کی آخری اینٹ ہوں۔'' (۱۷۳)
مرزا صاحب نے اس کی تصدیق کی ہے ان پر کیا فتویٰ لگاتے ہیں۔
مرزائی عذر:
حدیث انا العاقب الذی لیس بعدہ نبی کا جواب یہ دیا ہے کہ عاقب کے معنی بعد میں نبوت کی نفی راوی کا اپنا خیال ہے۔(۱۷۴)
الجواب:
یہ غلط ہے جس کسی نے کہا ہے خود اس کا یہ خیال ہے ورنہ حدیث میں کوئی تفریق نہیں۔ عاقب کے یہ معنی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَفی رَوَایَۃِ سُفْیَانَ بْنِ عینیۃ عِنْدَ التِّرْمَذِیْ وغیرہ بلفظ الذیْ لَیْسَ بَعْدِی نبی۔(۱۷۵)
سفیان بن عینیہ کی مرفوع حدیث میں امام ترمذی وغیرہ کے نزدیک یہ لفظ ہیں میں عاقب ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ عاقب کی تفسیر میں جو الفاظ وارد ہیں وہ کلمات مرفوع ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمائے ہیں۔
(حدیث عاقب کی تشریح از ملا علی قاری ملاحظہ ہو کتاب جمع الوسائل فی شرح الشمائل باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )
وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہٗ نَبِیٌ قِیلَ ھٰذَا قَوْلُ الزُّھْرِیْ وَقَالَ الْعَسْقَلَانِی ظَاھِرہ اَنَّہٗ مُدْرَجٌ لکنہٗ وَقَعَ فِیْ رَوَایَۃ سُفْیَانِ بنْ عُیَیْنَۃ عِنْدَ الترِمَذِیْ اَیْ فِی الجامع بِلَفْظِ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدِیْ نبیٌ۔(۱۷۶)
لہٰذا ثابت ہوا کہ عاقب کی تفسیر میں جو الفاظ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدِیْ نَبِیٌّ وارد ہیں وہ کلمات مرفوع ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمائے ہیں۔
مزید برآں شمائل کی شرح (جو جمع الوسائل شرح الشمائل مصری ملا علی قاری کے حاشیہ پر چڑھی ہوئی ہے) کرتے ہوئے علامہ عبدالرؤف المنادی المصری نے متن میں لفظ '' بَعْدِیْ'' کو نقل فرمایا۔ (۱۷۷)
اسی طرح چوتھی صدی کے مشہور محدث حافظ ابن عبدالبر نے روایت مذکور یوں نقل فرمائی ہے قال ... وانا الخاتم ختم اللّٰہ بی النبوۃ وانا العاقب فلیس بعدی نبی۔(۱۷۸)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں خاتم ہوں۔ اللہ نے نبوت میرے ساتھ ختم کردی ہے ۔ اور میں عاقب ہوں پس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
اسی طرح چھٹی صدی کے مشہور محدث قاضی عیاض بھی لکھتے ہیں وفی الصحیح انا العاقب الذی لیس بعدی نبی۔ (۱۷۹)(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں عاقب ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے)
ایسا ہی تفسیر خازن (سورۂ صف) میں ہے انا العاقب الذی لَیْسَ بَعْدِیْ نبی ۔(۱۸۰) ان کتابوں (شفا کتاب الاستیعاب ، خازن، فتح الباری اور شرح الشمائل) میں لفظ بعدی موجود ہے جس سے ثابت ہے کہ یہ تفسیر نبوی ہے۔
-----------------------------------
(۱۷۲) ایضاً ص۵۳۷
(۱۷۳) سرمہ چشم آریہ ص۱۹۸ و روحانی ص۲۴۶،ج۲
(۱۷۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۳۹
(۱۷۵) فتح الباری ص۶۳۵،ج۶ کتاب المناقب باب ماجاء فی اسماء الرسول اللہ ﷺ
(۱۷۶) جمع الوسائل فی شرح الشمائل ص۱۸۳،ج۲
(۱۷۷) ایضاً
(۱۷۸) الاستیعاب علی ھامش الاصابہ ص۳۷،ج۱ طبعہ مصر
(۱۷۹) الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی ص۱۹۱،ج۱ طبعہ استنبول
(۱۸۰) تفسیر خازن ص۷۱،ج۷ طبعہ مصر ۱۳۴۶ھ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
صحاح ستہ جو حدیث کی معتبر کتابیں ہیں ان میں تو یوں نہیں آیا ہے لہٰذا حجت نہیں ہے۔
الجواب:
صحاح ستہ میں سے جامع ترمذی میںیوں ہی موجود ہے۔ چنانچہ ترمذی ابواب الاستیذان والادب، باب ماجاء فی اسماء النبی میں حدیث صحیح مرقوم ہے۔ وانا العاقب الذی لیس بعدی نبی۔ (۱۸۱)
اعلان:
ترمذی مطبوعہ ہند کے بعض نسخوں (مطبوعہ احمدی وغیرہ) میں اس مقام پر بَعْدَہٗ غلط طبع ہوگیا ہے ناظرین سے التماس ہے کہ ترمذی کے اس مقام کو درست کرلیں اور بجائے بعدہ کے بَعْدیْ بنالیں۔ محدثین شارحین حدیث نے بھی ترمذی کے حوالہ سے بَعْدِی نقل کیا ہے دیکھو فتح الباری اسی طرح زرقانی نے شرح مؤطا میں حوالہ ترمذی بَعْدِیْ نقل کیا ہے۔ (۱۸۲)
تشریح لفظ عاقب از علامہ ابن قیم رحمہ اللہ :
وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ جَائَ عَقْبُ الْاَنبیَاء فَلَیْسَ یَعْدہٗ نَبِیٌّ فان العاقب ھُوَ الْاَخِرُ فَھُوَ بِمَنْزِلَۃِ الخاتِمْ ولھذا سمی الْعاقب علی الْاِطْلَاقِ اَیْ عَقْبٌ الانبیاء جاء بعقبھم۔(۱۸۳)
ناظرین کرام! یہ ہیں وہ عذرات واہیہ جو مصنف احمدیہ پاکٹ بک نے ختم نبوت کی آیات و احادیث پر پیش کئے ہیں۔ جن کو ہم نے بفضلہ تعالیٰ قرآن و حدیث کے علاوہ خود اقوال مرزا سے توڑ دیا۔ اب میں اجراء نبوت پر جو دلائل مرزائی پیش کرتے ہیں، آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ تاکہ آپ مرزائی صاحبان کی غلط گوئیوں پر بخوبی مطلع ہو جائیں۔
----------------------------------------------------------
(۱۸۱) ترمذی ص۱۳۷،ج۲ طبعہ مصر ۱۲۹۲ھ و ص۱۰۷،ج۲ طبعہ دہلی ص۱۳۲۸ھ وص۱۱۲،ج۲ طبعہ کانپور ومع شرح تحفۃ الاحوزی ص۳۰،ج۴
(۱۸۲) فتح الباری ص۴۳۵، ج۶ کتاب المناقب باب ماجاء فی اسماء الرسول اللہ ﷺ وزرقانی شرح موطاء ص۲۷۲، ج۴ طبعہ مصر
(۱۸۳) زاد المعاد ص۲۳،ج۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اجرائے نبوت پر مرزائی دلائل کے جوابات

(از قرآن)​
پہلی تحریف:
اللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمٰلٰئِکَۃِ رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ۔ اللہ تعالیٰ چنتا ہے یا چُنے گا فرشتوں میں سے رسول اور انسانوں میں سے۔ اس آیت میں یَصْطفی مضارع کا صیغہ ہے جو حال اور مستقبل دونوں کے لیے آتا ہے پس یصطفے کے معنی ہیں کہ چنتا ہے یا چنے گا (مگر) اس آیت میں یصطفی سے مراد حال نہیں لیا جاسکتا کیونکہ لفظ رسل جمع ہے اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (واحد) نہیں ہوسکتے پس ماننا پڑے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسالت کا سلسلہ جاری ہے اور یصطفی مستقبل کے لیے ہے۔ (۱۸۴)
الجواب:
اس آیت میں کوئی لفظ نہیں کہ آئندہ رسول آئیں گے نصوص صریحہ جن میں بعبارت النص مرقوم ہے کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔ اس امت میں مدعیان نبوت دجال اور کذاب ہیں کے خلاف کھینچ تان خود ایک جرم ہے اور دلیل ضلالت ہے۔ اس آیت کے پہلے یہ ذکر ہے کہ منکرین اسلام کے روبُرو جب قرآن پاک پڑھا جاتا تو وہ منہ پھیرنے کے علاوہ مارنے کو دوڑتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ خفگی کیوں اور کس دلیل پر مبنی ہے تم خود آمد رسل کے قائل ہو اور خدا کی اس قدیم سنت سے باہر ہو کر وہ فرشتوں میں سے رسول چنتا ہے جو خدا کا پیغام انبیاء پر لاتے ہیں اور انسانوں میں سے رسول چنتا ہے جو اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اسی سنتِ قدیمہ کی رُو سے اب بھی یہ رسول بھیجا گیا ہے۔
بخلاف اس صحیح مراد خداوندی کے احمدی صاحب نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ یصطفی مضارع کا صیغہ حال کے لیے نہیں بلکہ آئندہ کے لیے ہے حالانکہ اس ترجمہ کی رو سے اصل مقصد رسالت محمدیہ کی تصدیق ندارد ہوگئی یعنی بجائے اس کے ارسال رسل کی سنت الٰہیہ سے موجودہ نبوت پر استدلال کیا جاتا۔ آئندہ نبوت کا خواہ مخواہ ذکر چھیڑ دیا۔ کیا بیہودہ ترجمہ ہے پھر اس پر جو دلیل قائم کی ہے وہ اس سے بھی لغو تر ہے کہ رسل جمع کا صیغہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واحد ہیں پس آپ مراد نہیں ہوسکتے۔
----------------------------
(۱۸۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۴۴ طبعہ ۱۹۴۵ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا خدا ہمیشہ سے دس دس بیس بیس اکٹھے رسول بھیجتا رہا ہے؟ ہرگز نہیں، کبھی دو دو، کبھی تین تین اور اکثر دفعہ صرف ایک ایک رسول بھیجتا آیا ہے۔ پس اس سنت قدیمہ کی رو سے یہ کہنا بالکل سچ ہے کہ خدا رسولوں کو چنتا ہے۔ ہاں صاحب جب رسل جمع کا صیغہ ہے اور واحد پر استعمال نہیں ہوسکتا۔ تو پھر مرزا صاحب بھی تو واحد ہی ہیں وہ کیسے اس کے مصداق ٹھہریں گے۔ اور سنیے اس آیت میں انبیاء پر اترنے والے فرشتہ کو بھی تو جمع کے صیغہ ''رسل'' سے بیان کیا ہے۔ کیا انبیاء پر دو چار اکٹھے فرشتے پیغام لاتے رہے ہیں؟ غور کرو تم کدھر دھکے کھا رہے ہو۔ اکیلے اکیلے انبیاء تو پھر بھی ہزارہا ہوئے۔ لیکن ان پر وحی لانے والا تو ہمیشہ سے ایک ہی مقرر ہے۔ خود اپنی پاکٹ بک سے سنو! آنحضرت کے بعد نزول وحی کے اثبات میں اپنی تائید کے لیے بزرگانِ دین کے اقوال نقل کیے ہیں کہ :
'' جبریل انبیاء کی طرف وحی لانے کے لیے مقرر ہیں ان کے سوا کوئی دوسرا فرشتہ اس کام پر مقرر نہیں۔'' (۱۸۵)
قرآن پاک بھی شاہد ہے کہ نزلہ علی قلبک باذن اللّٰہ(۱۸۶) جبریل علیہ السلام نے اس قرآن پاک کو تیرے دل پر اتارا ہے۔
۱ ۔ '' رسولوں کی تعلیم اور اعلام کے لیے یہی سنت اللہ قدیم سے جاری ہے جو بواسطہ جبرائیل علیہ السلام کے اور بذریعہ آیات ربانی کلام رحمانی کے سکھلائے جاتے ہیں۔'' (۱۸۷)
۲۔ '' حسب تصریح قرآن رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام و عقائد دبن جبرائیل کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں۔'' (۱۸۸)
پس جس حالت میں پیغام رساں فرشتے کو باوجود واحد ہونے کے جمع کے صیغہ رسل سے ذکر کیا ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں اس کا استعمال ناجائز ہوگیا؟
------------------------------------------------
(۱۸۵) ایضاً ص۵۳۳ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۱۸۶) پ۱ البقرہ، ۹۷
(۱۸۷) ازالہ اوہام ص۵۸۴ و روحانی ص۴۱۵،ج۳
(۱۸۸) ایضاً ص۵۳۴ و روحانی ص۳۸۷،ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قدرت کا کرشمہ:
'' خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ بے حیا سخت دل مجرموں کو خود انہی کے ہاتھوں سے ذلیل و رسوا کیا کرتا ہے۔'' (۱۸۹)
یہی معاملہ اس جگہ ہوا ہے۔ مرزائی پاکٹ بک کے مصنف نے اگرچہ پوری کوشش کی کہ یہ آنحضرت (واحد) رسول پر صادق نہ آسکے۔ مگر قدرت کا زبردست تصرف اس کے قلم پر ہوا کہ اس نے خود ہی آگے چل کر لکھا ہے:
'' پس خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ میں ایک شخص کو انسانوں میں سے چنوں گا پھر ملائکہ میں سے ایک فرشتہ چن کر اس کے ذریعہ اس کی طرف وحی بھیجوں گا۔'' (۱۹۰)
ناظرین کرام! غور فرمائیے یصطفی کے صیغہ کو مضارع کہہ کر حال یا استقبال دو زمانوں سے حال کی نفی اس لیے کی تھی کہ رسل جمع ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واحد اس لیے آئندہ زمانہ کا ذکر ہے مگر آگے چل کر خود ہی رسل کے معنی ایک شخص کردئیے یہ ہے قدرت کا کرشمہ۔
دوسرا استدلال:
مرزائی صاحب نے اس آیت سے بایں الفاظ کیا ہے کہ:
'' مضارع ایک ہی وقت میں ماضی اور مستقبل اور حال تینوں زمانوں کے لیے بھی آسکتا ہے اس کو استمرار تجددی کہتے ہیں فعل مضارع بعض قرائن سے استمرار تجددی کا فائدہ بھی دیتا ہے۔ اللہ یصطفی میں استمرار تجددی ہوسکتا ہے اس کے لیے قرینہ الرسل بصیغہ جمع اور فعل مضارع کا خدا کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ اللہ یصطفی کا مطلب یہ ہے کہ عند الضرورت، خدا تعالیٰ رسول بھیجتا رہے گا۔'' (۱۹۱)
الجواب:
(۱)آپ نے اس جگہ آئندہ نبوت کے اجراء پر قرینۃ الرسل بتایا ہے اور ہم ثابت کر آئے ہیں کہ رسل سے مراد بہت سے رسول ایک دم بھیجنے کا نہیں۔ بلکہ سنت گزشتہ کے حوالہ سے نبوت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید ہے یہ تو تمہیں بھی مسلم سے کہ استمرار میں ماضی، حال، مستقبل تینوں زمانے داخل ہوتے ہیں۔ پس پچھلے انبیاء کو ساتھ ملا کر الرسل کا صیغہ بالکل صاف ہوگیا۔ لہٰذا آئندہ نبوت کے اجرا پر الرسل کا قرینہ تمہاری دلیل نہیں ہوسکتا، باقی رہا یہ امر کہ آئندہ زمانہ بھی تو اس استمرار میں آسکتا ہے جواب یہ ہے کہ آتو سکتا ہے مگر آیت خاتم النبیین اور دوسری آیات اور صدہا احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم قرینہ ہیں کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت بند ہے اور مدعی نبوت کذاب و دجال ہے۔
(۲) دیکھئے جس طرح خدا کی سنت بغیر کتاب کے نبی بھیجنے کی ہے۔ اسی طرح صاحب کتاب نبی بھیجنے کی بھی تو ہے۔ اب اگر بقرینہ تکمیل دین و اتمام شریعت صاحب کتاب نبی کا نہ آنا اس سنت کو آئندہ کے لیے بند کرتا ہے تو اسی طرح آیت خاتم النبیین و احادیث رسول کریم متعلقہ ختم نبوت۔ بغیر کتاب اور ہر طرح کے رسول کے آنے کو بند کرتی ہیں۔
(۳) صیغہ مضارع میں ہمیشہ استقبال نہیں ہوتا بلکہ کبھی زمانہ حال کے لیے اور کبھی زمانہ استقبال کے لیے ہوتا ہے۔ جہاں حال کے معنی لیے جائیں وہاں استقبال کے لیے نہیں رہتا اور جہاں استقبال کے لیے جائیں وہاں حال کے لیے نہیں رہتا۔ کیونکہ صیغہ مضارع حال اور استقبال میں مشترک ہے اور مشترک لفظ ایک محل پر ایک ہی معنی دیتا ہے دوسرے معنی نہیں دے سکتا۔ اور اس جگہ مضارع کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ آیت نازل ہوئی وہ خدا کے فضل سے اس کے نزول کے وقت موجود تھے۔ پس مضارع صرف حال کے لیے ہوا اور اس سے استقبال کے معنی منتزع ہوگئے۔
(۴) اس آیت میں صیغہ مضارع فعل کے اثبات کے لیے ہے۔ نہ تجدد و استمرار کے لیے یعنی اصطفا واجتبا فعل الٰہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا:
ھُوَ الذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖ اٰیَاتِ بَیِّنَاتٍ۔(۱۹۲)
''( وہ ذات پاک جس نے نازل کیں اپنے بندے پر دلائل روشن) اب یہ لازم نہیں آتا کہ قرآن کا نزول مستمر ہو۔''
(۵) رسل میں شرعی اور غیر شرعی دونوں قسم کے نبی ہیں تو پھر صاحب شریعت نبی کا انکار کیوں؟ جو دلیل اس کے انکار کی ہے وہی غیر تشریعی کے انکار کی بھی۔
(۶) اس آیت میں یصطفی زمانہ مستقبل کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ حال ماضی ہے اس امر کی دلیل کہ اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں اپنی سنت ماضیہ بیان کی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے ان مصطفی اور برگزیدہ پیغمبروں کا نام لے کر بیان فرما دیا ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرکے فرمایا وَلَقَدِ اصْطَفَیْنَاہُ فِی الدُّنْیَا(۱۹۳) (البقرہ)موسیٰ علیہ السلام کو خطاب فرمایا۔ یَا مُوْسیٰ اِنِّی اصطفیتک علی الناس۔(۱۹۴) حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسحق علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام کا ذکر کرکے فرمایا وانھم عند نالمن المصطفین الاخیار۔(۱۹۵) آل عمران میں فرمایا اِن اللّٰہ اصطفی آدم ونوحا واٰل ابراھیم واٰل عمران علی العالمین۔ (۱۹۶) انہی برگزیدہ پیغمبروں کا اجمالی تذکرہ آیت اللہ یصطفی میں ہے پس فعل یصطفی میں حکایت ہے حال ماضیہ کی ہے جیسے آیت فریقاً تقتلون۔ (۱۹۷) میں نہ یہ کہ اے یہودیو محمد صلی اللہ علیہ وسلم بعد پیغمبر جو آئندہ آئیں گے ان کو تم قتل کرو گے؟ اسی طرح آیت سورۂ انعام اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ (۱۹۸) جو ہم معنی ہے آیت اللہ یصطفی کی اس میں بھی یَجْعَلَ استقبال کے لیے نہیں ہے بلکہ حکایت حال ماضی ہے جس پر قرینہ اُوْتِی رسل اللہ فعل ماضی ہے جو اس سے قبل متصل ہی مذکور ہے۔ کافروں نے پہلے رسولوں جیسی باتیں چاہئیں تھیں انہیں گزشتہ رسولوں کی بابت حیث یجعل رسالتہ فرمایا گیا۔
اس آیت سے بتلانا مقصود یہ ہے کہ معبودان باطل جن کی تم پرستش کرتے ہو ، کیا کبھی انہوں نے کوئی رسول بنا کر بھیجا؟ وہ تو مکھی پیدا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ خدا تو وہ خدا ہے جو صاحب اختیار و اقتدار ہے۔ جو انبیاء اور رسل بھیجتا رہا ہے۔ بھلا تم ایسے صاحب طاقت و قوت خدا کو چھوڑ کر بے طاقت و ناچیز معبود بنا بیٹھے ہو۔ اجرائے نبوت کا ہرگز ہرگز کوئی ذکر نہیں۔
------------------------------------------------
(۱۸۹) مفہوم استفتاء ص۸ و روحانی ۱۱۶،ج۱۲ حاشیہ
(۱۹۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۹ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۱۹۱) ایضاً ص۴۵۰ طبعہ ۱۹۴۵
(۱۹۲) پ۲۷ الحدید ۹
(۱۹۳) پ۱ البقرہ نمبر۱۳۰
(۱۹۴) پ۹ الاعراف: ۱۴۴
(۱۹۵) پ۲۳ صٓ:۴۷
(۱۹۶) پ۳ اٰل عمران: ۳۳
(۱۹۷) پ۲ البقرہ:۸۷
(۱۹۸) پ۸ انعام:۱۲۴
 
Top