• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پانچویں دلیل:
قَوْلِھِمُ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وَمَا قَتْلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَفَعَ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔(۵۴)
یہود پر لعنت پڑنے کا ایک سبب ان کا یہ قول ہے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا۔ حالانکہ نہیں قتل کیا اس کو اور نہ صلیب پر چڑھایا اس کو۔ لیکن انہوں نے قتل کیا اور صلیب دیا اس شخص کو جو ان کے لیے مسیح کی شکل بنایا گیا۔ یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔
آیت { اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ}(۵۵) میں جس بات کا بلا توقف وعدہ تھا اس کا ایفا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔(۵۶) چونکہ بظاہر یہ کام بڑا خارق عادت معلوم ہوتا ہے اس لیے ساتھ فرما دیا کہ تعجب نہ کرو یہ زبردست حکمت والے خدا کا فعل ہے جس کے نزدیک کوئی بات مشکل نہیں۔
نوٹ: اس آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زندہ رسول تھا۔ خدا نے اسی کا رفع فرمایا ہے۔ پس یہ کہنا کہ رفع سے مراد روحانی رفع ہے(۵۷)۔ نظم قرآن کے صریح خلاف ہے۔
اعتراض:
آیت { بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ} میں لفظ '' بل'' ابطالیہ نہیں۔ نحویوں نے لکھا ہے کہ لفظ ''بل'' قرآن میں نہیں آسکتا۔ (۵۸)
الجواب:
پھر تو یہ مطلب ہوا کہ کافر یہود سچے ہیں جو کہتے تھے ہم نے مسیح کو قتل وغیرہ کردیا۔ اے جناب! تم نے خود بحوالہ کتب نحو لکھا ہے کہ '' جب خدا کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید، اس میں ''بل'' آسکتا ہے۔''(ص۳۷۳) یہی معاملہ اس جگہ ہے۔
خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ اس جگہ لفظ بَلْ تردید قول کفار کے لیے ہے۔
'' مسیح مصلوب، مقتول ہو کر نہیں مرا بلکہ خدا تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔'' (۵۹)
اعتراض:
رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو۔ (۶۰)
جواب:
وعدہ بلا توقف و بجلد رفع کا تھا(۶۱)۔ اگر آپ کے معنی صحیح ہوں تو مطلب یہ ہوا کہ مسیح اسی وقت عزت کے ساتھ مر گیا تھا اور کون نہیں جانتا کہ یہ یہود کی تائید ہے۔ چونکہ یقینا حضرت مسیح علیہ السلام اس زمانے میں فوت نہیں ہوئے۔ جیسا کہ مرزا صاحب کو بھی اقرار ہے(۶۲)۔ لہٰذا اس وقت جو رفع ہوا وہ یقینا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا تھا۔
اس کے علاوہ رفع کے معنی عزت کی موت لینے نہ صرف بوجہ تمام کتب لغت کے خلاف ہونے کے مردود ہیں۔ بلکہ اس میں یہ نقص ہے کہ کلام ربانی درجہ فصاحت سے گر جاتا ہے کیونکہ رَفَعَہُ اللّٰہُ کے پہلے مُتَوَفِّیْکَ کا وعدہ موجود ہے اور توفی کے معنی جیسا کہ ہم کتب عربیہ اور تحریرات مرزا سے ثابت کر آئے ہیں کسی چیز کو پورا لینے کے ہیں۔ پس یہ کہنا کہ زندہ اٹھا لیا۔ پھر ساتھ ہی یہ کہنا کہ عزت کی موت دے کر اٹھا لیا۔ یہ متضاد کلام خدا کی شان سے بعید ہے۔ اگر کہا جائے کہ مُتَوَفِّیْکَ کے معنی بھی موت ہیں تو بھی خلافِ فصاحت ہے کیونکہ جو بات ایک لفظ سے ادا ہوسکتی تھی اس کو دو فقرں میں بیان کرنا بھی شانِ بلاغت پر دھبہ ہے۔ حاصل یہ کہ یہود کہتے تھے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو مار دیا۔ ان کے جواب میں یہ کہنا کہ ہاں مار تو دیا تھا۔ مگر یہ عزت کی موت ہے۔ یہود کی تردید نہیں بلکہ تصدیق ہے حالانکہ خدا تعالیٰ اس عقیدہ کو لعنتی قرار دیتا ہے۔
اعتراض:
رَفَعَہُ اللّٰہُ میں '' ہ''کی ضمیر مسیح مع الجسم کی طرف نہیں۔ مراد یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کی روح کو اٹھا لیا۔ (۶۳)
الجواب:
اس میں بھی وہی نقص ہے جو اوپر مذکور ہوچکا یعنی ایسا کہنا یہود پلید کی موافقت ہے۔
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو مسجدوں کے درمیان دعا مانگتے تھے کہ خدایا میرا رفع کر، اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ متواضع بندے کا رفع ہو جاتا ہے۔ (۶۴)
الجواب:
چونکہ رفع کے پہلے تو فی کا ذکر ہے اور توفی کے معنی حسب زبان عرب و اقرار مرزا ''پورا لینے'' کے ہیں۔ اس لیے اگر رفع کے معنی بفرض محال بلندی درجات بھی لیے جائیں تو ہمارے مدعا کے خلاف نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مسیح بمعہ جسم آسمان پر اٹھایا گیا جیسا کہ مُتَوَفِّیْکَ کا منشا ہے جس سے اس کا مرتبہ بھی بلند ہوگیا۔
اگر توفی کے معنی موت لے کر فع درجات مراد لیا جائے۔ تو یہ یہود کی مطابقت ہے کیونکہ وعدہ بلا ''توقف و بجلد'' توفی اور رفع کا تھا۔ جو یقینا اسی وقت پورا ہوگیا۔ پس رفع کے معنی موت نہیں بلکہ زندہ اٹھانا ہیں۔
اعتراض:
رَفَعَہُ اللّٰہُ میں خدا کی طرف اٹھانا مرقوم ہے۔ آسمان کا کہاں ذکر ہے؟(۶۵)
الجواب:
خدا کے لیے فوق وعلو ہے۔ انہی معنوں سے قرآن میں کہا گیا ہے { ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ ... اَمْ اَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ اَنْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا۔ الاٰیۃ}(۶۶) کیا تم خدا سے نڈر ہوگئے ہو جو آسمان پر ہے کیا تم اس ذات سے خوف نہیں کرتے جو آسمان پر ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر ہواؤں سے پتھراؤ کردے۔
ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انتظار وحی کے وقت آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے { قَدْ نَریٰ تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ}(۶۷) البتہ ہم دیکھتے ہیں تیرا آسمانوں کی طرف منہ کرنا۔ سو ہم تجھے اسی قبلے کی طرف پھیریں گے۔ جدھر تیری خواہش ہے۔ (بقرہ ، پ۲، ع۱)
اسی طرح خود مرزا صاحب نے رفعہ اللہ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں:
'' قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے فوت ہو جانے کے بعد ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔'' (۶۸)
اس تحریر میں بعبارۃ النص رَفَعَہُ اللّٰہُ کے معنی آسمان پر اٹھایا جانا موجود ہے باقی رہا یہ امر کہ مرزا صاحب نے روح کا اٹھایا جانا لکھا ہے۔ سو اس کا ردہم سابقاً کر آئے ہیں کہ یہ معنی یہود کی سرشت سے نکلے ہیں۔
اعتراض:
رَفَعَہُ اللّٰہُ میں مسیح کا زندہ خدا کی طرف اٹھایا جانا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ لفظ '' الیٰ'' غایت انتہا کے لیے آتا ہے۔ کیا حضرت مسیح علیہ السلام بلا فاصلہ خدا کے پہلو بہ پہلو بیٹھے ہیں؟ (۶۹)
جواب:
رَفَعَہُ اللّٰہُ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا ہیں۔ جیسا کہ خود مرزا صاحب نے بھی آسمان کی تصریح کی ہے۔ اگر اس پر بھی زنگ دل دور نہ ہو تو سنو! مرزا صاحب راقم ہیں:
'' اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ۔ یعنی پاک روحیں خدا کی طرف صعود کرتی ہیں اور عمل صالح ان کا رفع کرتا ہے۔'' (۷۰)
کیوں جناب! یہ روحیں جو خدا کی طرف صعود کرتی ہیں۔ کیا خدا کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں یا درمیان میں کچھ فاصلہ ہوتا ہے۔ فَمَا جَوَابُکُمْ فَھُوَ جَوَابُنَا۔
------------------------------------------------------------------
(۵۴) پ۶ النساء : ۱۵۷،۱۵۸
(۵۵) پ ۳ اٰل عمران : ۵۵
(۵۶) آئینہ کمالات اسلام ص۴۶ و روحانی ص۴۶ ، ج۵
(۵۷) براھین احمدیہ ص۴۲، ج۵ و روحانی ص۵۳، ج۲۱ و تفسیر مرزا ص۳۰۸، ج۳
(۵۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۳
(۵۹) ازالہ اوہام ص۵۹۹ و روحانی ص۳۲۳، ج۳ وتفسیر مرزا ص۳۲۷،ج۳
(۶۰) ایضاً
(۶۱) آئینہ کمالات اسلام ص۴۶ و روحانی ۴۶ ، ج۵
(۶۲) اعجاز احمدی ص۱۳ و کتاب البریہ ص۲ وراز حقیقت ص۱۲ وایام الصلح ص۱۱۱ و مسیح ہندوستان میں ص۱۷،۴۹ و حقیقت الوحی ص۳۶ و تحفہ گولڑویہ ص۱۴۱ وبراھین احمدیہ ص۴۱،ج۵ و حمامۃ البشریٰ ص۵۶ و تفسیر مرزا ص۳۱۶،ج۳ تلک عشرۃ کاملۃ۔ ابو صہیب
(۶۳) مفہوم، احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۴
(۶۴) ایضاً ص۳۷۷
(۶۵) ایضاً ص۳۷۷
(۶۶) پ۲۹ ملک : ۱۶
(۶۷) پ۲ البقرہ : ۱۴۴
(۶۸) ازالہ اوہام ص۲۶۴ و روحانی ص۳۳۳، ج۳
(۶۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چھٹی دلیل:
یہود و نصاریٰ متفقہ طور پر مسیح کی موت طبعی کے منکر ہیں اس بارے میں قرآن نے ان کی تردید نہیں کی بلکہ مسیح کا زندہ اٹھا لینا ظاہر کرکے تائید کی ہے۔ اب سوال ہوسکتا تھا کہ مسیح جو آسمان پر اٹھائے گئے کیا وہیںفوت ہوں گے اس کا جواب بل رفعہ اللہ والی آیت کے آگے یہ دیا کہ {وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَؤْتِہٖ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکُونُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدً} (۷۱) اور نہیں ہوگا کوئی اہل کتاب سے مگر ایمان لائے گا ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کے اس کی موت سے پہلے اور عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن ان پر گواہ ہوگا۔
اس آیت نے قطعی فیصلہ کردیا کہ یہود و نصاریٰ مسیح کی موت علی الصلیب کے عقیدہ میں باطل پر ہیں اور مرزا قادیان صلیب پر چڑھنے کے بعد کشمیر میں آبسے اور وہیں مدفون ہونے کے عقیدہ میں کاذب اکذاب ہیں۔
اعتراض:
مسلمان کہتے ہیں کہ سب اہل کتاب مسیح علیہ السلام پر ایمان لائیں گے یہ غلط ہے کیونکہ کئی اہل کتاب نزول مسیح علیہ السلام سے پیشتر فوت ہوچکے ہیں۔ کئی مسیح علیہ السلام کے نزول کے وقت مقتول ہوں گے۔(۷۲)
الجواب:
اس آیت میں ان اہل کتاب کا ذکر ہے جو نزول مسیح کے بعد ان پر ایمان لائیں گے۔ چنانچہ الفاظ بھی اس پر دلیل ہیں۔ فقرہ لَیُؤْمِنَنَّ
'' مضارع مؤکد بہ نون تقیلہ ہے جو مضارع میں تاکید مع خصوصیت زمانہ مستقبل کرتا ہے۔'' (۷۳)
چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ جن کو خود مرزائی مجدد صدی مانتے ہیں اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں:
۱۔ '' ونباشد، ہیچ کس از اہل کتاب۔ البتہ ایمان آور د بعیسیٰ پیش از مردن عیسیٰ و روز قیامت باشد عیسیٰ گواہ برایشاں (حاشیہ میں اس کا حاصل مطلب یہ لکھتے ہیں) یعنی یہودی کہ حاضر شوند نزول عیسیٰ علیہ السلام را البتہ ایمان آرند۔'' (۷۴)
۲۔ '' نہیں کوئی اہل کتاب میں سے مگر البتہ ایمان لاوے گا ساتھ اس کے پہلے موت اس کی کے اور دن قیامت کے ہوگا اوپر اس کے گواہ۔'' (۷۵)
۳۔ وان من اھل الکتاب احد الا لیومنن بعیسی قبل موت عیسی وھم اھل الکتاب الذین یکونون فی زمانہ فتکون ملۃ واحدۃ وھی ملۃ الاسلام وبھذا جزم ابن عباس فیما رواہ ابن جریر من طریق سعید بن جریر عنہ باسناد صحیح(۷۶)۔ (ارشاد الساری شرح صحیح بخاری جلد ۵ ص ۵۱۸،۱۹)
ابن جریر جو نہایت معتبر اور ائمہ حدیث میں سے ہے۔(۷۷) بلکہ '' رئیس المفسرین'' ہے ۔ (۷۸) اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو '' قرآن کریم کے سمجھنے میں اول نمبر والوں میں ہیں اس بارے میں ان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا بھی ہے۔''(۷۹) باسناد صحیح روایت لائے ہیں کہ آیت {ان من اھل الکتاب }میں وہ اہل کتاب مراد ہیں جو اس زمانہ میں ہونگے پس وہ ایک ہی مذہب اسلام پر آجائیں گے۔ اب سنیے مرزا صاحب کا ترجمہ:
'' کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو اپنی موت سے پہلے مسیح پر ایمان نہیں لائے گا۔ دیکھو یہ بھی تو خالص استقبال ہی ہے کیونکہ آیت اپنے نزول کے بعد کے زمانہ کی خبر دیتی ہے بلکہ ان معنوں پر آیت کی دلالت صریحہ ہے۔'' (۸۰)
مرزا صاحب نے آدھا ترجمہ صحیح کیا ہے آدھا غلط۔ بہرحال ان تراجم اربعہ سے یہ امر صاف ہے کہ آیت کا مطلب بلکہ '' دلالت صریحہ'' یہی ہے کہ آئندہ زمانہ میں اہل کتاب مسیح پر ایمان لائیں گے۔ فہٰذا مرادنا۔
اعتراض :
{ یُؤْمِنَنَّ قَبْلَ مَوْتِہٖ} کی جگہ دوسری قرأت میں موتھم آیا ہے۔(۸۱) ایسا ہی مرزا صاحب نے اوپر کی منقولہ عبارت میں لکھا ہے۔
الجواب:
قرآن پاک میں قبل موتہٖ مذکور ہے حضرت ابی کی یہ قرأت بوجہ شاذ ہونے کے متروک ہے۔ حضرت عمرو دیگر صحابہ حضرت ابی کی اس قسم کی قراء توں کو نہیں مانتے تھے جیسا کہ صحیح بخاری پارہ ۲۰ کے آخر میں ہے قال عمر ابی اقرء نا وانا لندع من لحن ابی(۸۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابی بڑے قاری ہیں تو بھی ہم صحابہ لوگ ان کی غلط قراء توں کو چھوڑ دیتے ہیں اور یہی حق ہے۔ ترجمہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب و مولوی نوردین صاحب بغور ملاحظہ ہو۔ نیز قبل موتھم والی قرأت جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کذب محض ہے کیونکہ اس میں دوراوی مجروح ہیں۔ اول خصیف دوم عتاب ابن بشیر تقریب میں خصیف کے متعلق مندرج ہے سَیِّیُٔ الْحفظ خَلَطَ باخِرِہٖ رُمِیَ بِالْارْجَائِ۔(۸۳) (مرزا صاحب کی طرح) خراب حافظہ والا۔ اس پر مرجیہ ہونے کا الزام دھرا گیا۔ میزان الاعتدال میں ہے ضعفہ اَحْمَدُ وَقَالَ اَبُوْ حَاتِمِ تُکَلِّمَ فِیْ سُوْئِ حِفْظِہٖ وقال احمد ایضًا تُکَلِّمُ فِیْ الْاَرْجَائِ وقال عثمان بن عبید عبد الرحمن رأیت علی خصیف ثِیَابًا سَودًا کَانَ عَلی بیت المال(۸۴)۔ یعنی ضعیف الحدیث اور سییٔ الحافظہ اور مرجیہ ہونے کے علاوہ چور بھی تھا۔ بیت المال سے حضرت نے چادر اڑا کر امیرانہ ٹھاٹھ بنانے کو مونڈھوں پر لٹکا لی۔ چہ خوش!
اب سنیے! دوسرے صاحب عتاب کا احوال وہ بھی ضعیف ہیں چنانچہ میزان میں ہے۔ قال النسائی لیس ھذاک فی الحدیث وقال ابن المدینی کان اصحابنا یضعفونہ وقال علی ضربنا علی حدیثہ انتھی ملخصًا(۸۵)۔اس روایت کے جھوٹی اور بناوٹی ہونے پر یہ دلیل ہے کہ ہم ارشاد الساری شرح صحیح بخاری سے بحوالہ روایت ابن جریر انہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحیح السند روایت درج کر آئے ہیں جس میں صاف الفاظ ہیں لیومنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ۔ پس موتھم والی ردایت مردود ہے۔
اب سنیے مرزائیوں کے '' پیغمبر اعظم'' کی الہامی کتاب ازالہ اوہام سے قبل موتہ کی تفسیر:
'' کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہیں جو ہمارے اس بیان مذکورہ پر ایمان نہ رکھتا ہو (قبل موتہ) قبل اس کے کہ اس حقیقت پر ایمان لاوے کہ مسیح اپنی طبعی موت سے مر گیا۔'' (۸۶)
حضرات دیکھئے کس قدر پرفریب اور کیسا بھدا اور بدنما ترجمہ ہے تاہم اس میں قبل موتہ کی ضمیر بطرف مسیح پھیری ہے فہو المطلوب۔
اعتراض:
یومنن بہ کی ضمیر میں بھی اختلاف ہے کوئی عیسیٰ کی طرف پھیرتا ہے کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی طرف۔ (۸۷)
الجواب:
قرآن پاک میں تو مسیح کی طرف ہی ہے لوگ جو چاہیں کہیں اس طرح ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب اور ترجمہ مولوی نوردین اور روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور تحریر مرزا صاحب(۸۸) جو سب نقل کر آئے ہیں صاف شاہد ہیں کہ لیومنن عیسیٰ قبل موت عیسیٰ خود تم نے اسی صفحہ پاکٹ بک پر بہٖ کی ضمیر بطرف مسیح پھیری ہے ''یہود کا ہر فرد حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے پر ایمان لائے گا۔''
اعتراض:
قرآن تو کہتا ہے کہ اہل کتاب میں قیامت تک عداوت رہے گی۔ پس وہ سب کے سب ایمان کیسے لائیں گے ماسوا اس کے جب سب لوگ ایمان لائیں گے تو مسیح کے متبع کن کافروں پر قیامت تک غالب رہیں گے؟ (۸۹)
الجواب:
عداوت یہود و نصاریٰ کے وجود تک ہے۔ جب وہ سب اسلام لا کر مسلمان ہو جائیں گے۔ اس وقت سب عداوتیں مٹ جائیں گی۔ جلدی میں یہ نہ کہہ دینا کہ عداوت اِلٰی یَوْمِ القیمۃ ہے اور اِلٰی کا لفظ چمٹ جانے کے معنی میں آتا ہے۔ الٰی کے معنی قریب ہوتے ہیں یعنی الی یوم القیامۃ سے مراد قرب لیوم القیامۃ ہے۔ کیونکہ فنائے عالم کے بہت عرصہ کے بعد قیامت کا دن ہوگا۔ جیسا کہ حدیثوں سے ثابت ہے۔ جب کوئی آدمی ہی نہ زندہ ہوگا تو دشمنی کس میں ہوگی؟ پس لامحالہ الیٰ کے معنے قرب کے کرنے ہوں گے۔
اعتراض:
جب سب مومن ہو جائیں گے تو پھر غلبہ کن کافروں پر ہوگا۔ (۹۰)
الجواب:
کافروں پر غلبہ اسی وقت تک ہے جب تک کافر موجود ہوں جب کافر ہی نہ رہیں گے۔ سب مومن ہو جائیں گے۔ اس وقت یہ سوال اٹھانا ہی دلیل جہالت ہے۔
قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی سب کا مومن ہونا مرقوم ہے پھر ایک حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اس زمانے میں لَیْسَ بَیْنِ اثنین عداوۃ ۔(۹۱) پھر اس کے بعد جب کافر رہ جائیں گے اس وقت مومن ہی کوئی نہ ہوگا۔ لہٰذا وہاں بھی یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ غلبہ مومنوں کا تبھی تک موعود ہے جب تک مومن رہیں۔ غرض الی یوم القیامۃ سے مراد قرب قیامت ہے۔
دوسرا جواب:
ایمان اور عداوت میں باہمی منافات نہیں ہے۔ دونوں باہم جمع ہوسکتے ہیں۔ سمجھ میں نہ آئے تو قادیانیوں اور لاہوریوں کو دیکھ لیجئے کہ دونوں احمدی کہلاتے ہیں اور ایمان کا بھی دعویٰ ہے لیکن آپس میں کتنی منافرت اور عداوت ہے۔
اس حدیث نے صاف فیصلہ کردیا کہ یہود و نصاریٰ کی عداوت مومنوں کا کافروں پر غلبہ جس کے لیے قرآن میں الی یوم القیامۃ وارد ہے اس کا مطلب قرب قیامت ہی ہے۔
-----------------------------------------
(۷۰) ازالہ اوہام ص۴۳۹ و روحانی ص۳۲۳، ج۳ و تفسیر مرزا ص۱۱۴، ج۷
(۷۱) پ۶ النساء : ۱۵۹
(۷۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۹۳ طبعہ ۹۴۵
(۷۳) ایضاً ص۴۶۲
(۷۴)
(۷۵) فصل الخطاب لمقدمۃ اہل الکتاب ص۳۱۴، ج۲ طبعہ ربوہ ص۱۹۶۳
(۷۶) ارشاد الساری شرح صحیح بخاری
(۷۷) حاشیہ چشمہ معرفت ص۲۵۰ و روحانی ص۲۶۱، ج۲۳
(۷۸) آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۸ و روحانی ص۱۶۸،ج۵
(۷۹) ازالہ اوہام ص۲۴۷ و روحانی ص۲۲۵، ج۳
(۸۰) الحق دہلی ، روداد مناظرہ دہلی ص۳۲ و روحانی ص۱۶۲ ج۴ و تفسیر مرزا ص۳۴۸، ج۳
(۸۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۴۳ طبعہ ۱۹۳۲ و ص۳۹۴ طبعہ ۱۹۴۵
(۸۲) اخرجہ البخاری (من روایت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ) فی الصحیح ص۷۴۸،ج۲ کتاب الفضائل القران باب القراۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم
(۸۳) تقریب التھذیب طبعہ نوٹ: مذکورہ جرح، حضرت علامہ المحدث الشھیر محمد بشیر السہسوانیh (م ۱۳۴۶ھ) نے مباحثہ دہلی میں مرزا کے جواب میں پیش کی تھی جس پر مرزا کے ایک مقرب حواری اور دائیں ہاتھ کے فرشتہ محمد احسن مرزائی امروہی نقد کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ تقریب میں کسی جگہ خفیف کا ترجمہ نہیں لکھا، الحق مباحثہ دہلی ص۱۶۸ و وروحانی ص۲۹۸، ج۴
الجواب: اولاً محدث سہسوانی نے مناظرہ میں جرح حفیف پر نہیں بلکہ خصیف پر کی تھی، الحق ص۷۰ و روحانی ص۲۰۰، ج۴ والحق الصریح فی حیوٰۃ المسیح ص۸۱ طبعہ مطبع انصاری دہلی (۱۳۰۹ھ) مؤلف محدث سہسوانیa)
اور مذخورہ سند میں یہی خصیف بن عبدالرحمن جزری ہیں۔ ثانیاً امر واقعہ یہ ہے کہ تقریب التھذیب، طبعہ دہلی (فاروقی) ۱۲۹۰ھ ص۷۱ میں، خصیف کی بجائے کتابت کی غلطی کی وجہ سے خصیب شائع ہوگیا تھا، اور اس غلطی پر تھذیب التھذیب ص۱۴۳، ج۳ کی ترتیب گواہ ہے۔ اس کتابت کی غلطی سے ہی امروہی صاحب کو غلطی لگ گئی ہے اور تہذیب التہذیب دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی اور یو ہی اعتراض جڑ دیا ہے مگر اس الد الخصام پارٹی کے فاضل اجل کی تحریر میں اللہ تعالیٰ نے غلطی کروا دی کیونکہ محمد احسن امروہی اعتراض تو یہ کرنا چاہتے تھے کہ تقریب التہذیب میں خصیف بن عبدالرحمن جزری نام کے کسی راوی پر جرح نہیں کی گئی مگر امروہی خصیف کی بجائے خصیب کا نام لینا چاہتے تھے مگر کاتب کی غلطی نے اسے خفیف بنا دیا، گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ امروہی مرزائی کا اعتراض محض قلت فہم یا تحصیل شہرت فی الرجال پر مبنی تھا، امر واقعہ یہ ہے کہ محدث سہسوانی نے جو جرح کی ہے وہ ثابت شدہ حقیقت ہے اور تقریب التہذیب میں خصیف کی بجائے خصیب (اور امروہی کی تحریر میں خصیب کی بجائے خفیف) شائع ہونا یہ کاتب کی مہربانیاں ہیں واللہ تعالیٰ اعلم، ابو صہیب
(۸۴) میزان الاعتدال ص۶۵۴،ج۱
(۸۵) ایضاً ص۲۷، ج۲
(۸۶) ازالہ اوہام ص۳۷۲ و روحانی ص۲۹۱، ج۳ و تفسیر مرزا ص۲۸۰، ج۳
(۸۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۴۳ طبعہ ۱۹۳۲ و ص۳۹۹ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۸۸) الحق مباحثہ دہلی ص۳۲ و روحانی ص۱۶۳،ج۴ و تفسیر مرزا ص۳۴۸، ج۳
(۸۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۹۴
(۹۰) ایضاً
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ساتویں دلیل:
ہم سابقاً قرآن مجید کی متعدد آیات قطعی الدلالت سے حضرت مسیح کا آسمان پر اٹھایا جانا و نازل ہونا ثابت کر آئے ہیں۔ اب ہم ایک اور آیت پیش کرتے ہیں جس میں بھی ان کے نزول کا ذکر ہے چونکہ کوئی شخص جب تک کہیں نہ جائے وہاں سے آیا نہیں کرتا اس لیے آمد کا ذکر مثبت رفت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْیَمَ مَثلاً اِذَا قَوْمُکَ مِنْہُ یَصِدُّوْنَ اِلٰی قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَانَّہٗ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَۃِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِھَا وَاتَّبِعُوْنِ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ وَلَا یَصُدَّ نَّکُمْ الشَّیْطَانُ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ۔(۹۲)
'' اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جو نہی ابن مریم کا ذکر کیا جاتا ہے تیری قوم (کفار مکہ و قادیان وغیرہ) جل اٹھتے ہیں (انہیں اپنی بد ذوقی و بے ایمانی میں رہنے دے) لاریب وہ تو قیامت کی نشانی ہے (ان کو کہہ دے کیوں شامتیں آئی ہیں) اس نشانی (یعنی اس کے قیامت کی نشانی از روئے نزول من السماء ہوتے ہیں) شک نہ کرو اور میری اتباع کرو یہ سیدھا راستہ ہے، شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے (جو نزول مسیح کے متعلق طرح طرح کے وساویں ڈال کر تمہیں اس ایمان سے علیحدہ کرنے میں ساعی ہے) سو تم اس کے شکارِ فریب نہ بنو۔''
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کتابِ حدیث ابن ماجہ میں موقوفاً اور مسند احمد میں مرفوعاً مروی ہے عن عبداللہ ابن مسعود قال لما کان لیلۃ اسری برسول اللّٰہ ﷺ لقی ابراھیم و موسی وعیسی فتذکروا الساعۃ فَبَدَأوا بِا بْرَاھِیْمَ فَسَأَلُوْہُ عَنْھَا فَلَمْ یَکُنْ عِنْدَہٗ مِنْھَا عِلْمٌ فرد الحدیث الی عیسی ابن مریم فقال قد عھد الی فیما دون وجبتھا فاما وجبتھا فلا یعلمھا الا اللّٰہ فذکر خروج الدجال قال فانزل فاقتلہ الحدیث۔(۹۳)
معراج کی رات انبیاء سے ملاقات کے وقت قیامت کا تذکرہ شروع ہوا تو سب نے اس کے وقت سے لا علمی ظاہر کی۔ آخر جناب مسیح علیہ السلام سے سوال کیا گیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: علم تو مجھے بھی نہیں البتہ مجھ سے وعدہ ہوا قیامت کے نزدیک کا۔ آپ علیہ السلام نے دجال کا ذکر فرمایا اور کہا کہ میں نازل ہو کر اس کو قتل کروں گا۔
اسی طرح بہت سی احادیث میں قیامت کے قریب مسیح کا نزول لکھا ہے جو آئندہ باب ثبوت حیات مسیح از احادیث میں نقل ہوں گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
آیت اِنَّہٗ لعلم للساعۃ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جن کو بدعا نبوی علم قرآن حاصل تھا جو مرزا کو بھی مسلم ہے۔ مسند احمد جلد اول ص۳۱۷، ۳۱۸ در منثور جلد ۶ ص۲۰ فتح البیان جلد ۸ ص۳۱۱ ابن کثیر جلد ۹ ص۱۴۴ وغیرہ میں مروی ہے کہ اس آیت میں مسیح کا نزول قبل از قیامت مطلوب و مقصود ہے۔(۹۴) ایسا ہی '' ابن جریر رئیس المفسرین'' کی تفسیر جلد ۲۵ ص۴۸ میں ہے۔
اسی طرح محدث عبد بن حمید نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی روایت کی ہے۔ (۹۵)
اعتراض:
اِنَّہٗ کی ضمیر مسیح کی طرف نہیں۔ قرآن کی طرف ہے۔ ساعۃ سے مراد قیامت نہیں۔(۹۶)
جواب:
قرآن پاک کی آیت و حدیث نبوی و اقوال صحابہ کے ہوتے ہوئے یوں دلیری کرنی سخت غلطی ہے۔ اب آؤ ہم مرزا صاحب کے دستخط اس پر کرا دیں:
'' قرآن شریف میں ہے انہ لعلم للساعۃ یعنی اے یہودیو! عیسیٰ کے ساتھ تمہیں قیامت کا پتہ لگ جائے گا۔'' (۹۷)
صاف ظاہر ہے کہ اِنَّہٗ کی ضمیر بطرف مسیح تسلیم کی گئی ہے:
ان فرقۃ من الیھود لکانوا کافرین بوجود القیامۃ فاخبرھم اللّٰہ علی لسان بعض انبیائہ ان ابنا من قومھم یولد من غیراب وھذا یکون ایۃ لھم علی وجود القیامۃ۔(۹۸)
'' یعنی ایک فرقہ یہود کا قیامت کے وجود سے منکر تھا، خدا نے بعض انبیاء کی زبانی ان کو خبر دی کہ تمہاری قوم میں ایک لڑکا بلا باپ پیدا ہوگا، یہ قیامت کے وجود پر ایک نشانی ہے۔''
اس عبارت سے ثابت ہے کہ قیامت سے مراد حقیقی قیامت ہے نہ کوئی اور گھڑی۔ اسی طرح خود مصنف مرزائی پاکٹ بک میں انہ کی ضمیر بطرف مسیح پھیری ہے۔ اور ساعۃ سے مراد حقیقی قیامت لکھی ہے۔ (ملاحظہ ہو ص۳۳۹)
اعتراض:
مسیح کا نزول تو آئندہ ہونا تھا پہلے سے ہی کیسے کہہ دیا کہ شک نہ کرو جب ابھی نشانی نے مدت کے بعد آنا ہے تو ان کو شک سے کس برتے پر روکا جانا ہے؟ (۹۹)
الجواب:
اے جناب! ایک سچ مچ واقعہ ہونے والی بات پر شک نہ کرنے کی ہدایت کرنا کیا ناجائز ہے؟ یہاں تو کفار مخاطب ہیں جو آمد مسیح کے منکر ہیں۔ خدا تعالیٰ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے مصدق و مصدق رسول کو بھی بطور ہدایت فرماتا ہے:
اِنَّ السَّاعَۃُ اٰتِیَۃٌ اِلٰی قَوْلِہٖ فَلَا یَصُدَّنَّکَ عَنْھَا مَنْ لاَّ یُؤْمِنُ بِھَا اَلْایۃ۔(۱۰۰)
اے موسیٰ علیہ السلام قیامت بے شک و شبہ آنے والی ہے۔ خبردار کوئی بے ایمان تجھے اس کے ماننے سے روک نہ دے بھلا اس جگہ کوئی مخالف آریہ وغیرہ تم پر اعتراض کرے کہ موسیٰ علیہ السلام کو قیامت پر شک نہ تھا پھر یہ وعظ کیا معنی رکھتا ہے تو کیا کہو گے؟
آؤ تمہیں تمہارے گھر سے مثال دیں لعلکم تعقلون سنو!
مرزا جی کا نکاح آسمانی دنیا میں نہ ہونا تمہارے مسلمات سے ہے باوجود اس صریح جھوٹی پیشگوئی کے مرزا صاحب کا الہام کنندہ قبل از وقت کہتا تھا۔ اے مرزا:
'' اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ یہ نکاح تیرے رب کی طرف سے حق واقع ہونے والا ہے تو کیوں شک کرتا ہے۔'' (۱۰۱)
کیوں جناب یہ کیا بات ہے کہ نکاح سے پہلے ہی شک سے روکا جاتاہے۔
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
---------------------------------
(۹۱) اخرجہ من حدیث عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مسلم فی الصحیح ص۴۰۳،ج۲ کتاب الفتن باب خروج الدجال واحمد فی مسندہ ص۱۶۶، ج۲ والحاکم فی المستدرک ص۵۴۳،ج۴
(۹۲) پ۲۵ الزخرف : ۵۷،۶۲
(۹۳) اخرجہ ابن ماجۃ فی السنن ص۳۰۹ کتاب الفتن باب فتنۃ الدجال و خروج عیسٰی ابن مریم و احمد فی مسندہٖ ص۳۷۵،ج۱ وابن ابی شیبہ فی مصنفہٖ ص۱۵۸ ج۱۵، کتاب الفتن باب ما ذکر فتنۃ الدجال والحاکم فی المستدرک ص۴۸۸،ج۴ وابن جریر فی تفسیرہٖ ص۷۲،ج۱۷ و البیھقی فی کتاب البحث والنشور، عزاہ السیوطی فی الدر المنثور ص۳۳۶، ج۴ واوردہ الحافظ فی فتح الباری ص۷۶،ج۱۳ کتاب الفتن باب ذکر الدجال مستشھداً بما فھو عندہ حدیث صحیح أو حسن کما صرح بذالک فی کتابہٖ ۔ ھدیۃ الساری مقدمۃ فتح الباری ص۴۔ ابو صہیب
(۹۴) اخرجہ من حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ مرفوعاً ، ابن حبان فی صحیحہ بترتیب الاحسان رقم الحدیث ۶۷۷۸ واحمد فی مسندہٖ ص۳۱۷، ج۱ والطبرانی فی معجمہ اوردہ الھیثمی فی مجمع الزوائد ص۱۰۷،ج۷ ابن جریر فی تفسیرہٖ ص۵۴،ج۲۵ وابن ابی حاتم وابن مردویہ اوردہ السیوطی فی الدر المنثور ص۲۰،ج۶ والحافظ ابن کثیر فی تفسیرہٖ ص۱۳۲، ج۴
(۹۵) درالمنثور ص۲۰،ج۶
(۹۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۶
(۹۷) اعجاز احمدی ص۲۱ و روحانی ص۱۳۰،ج۱۹ و تفسیر مرزا ص۳۰۹،ج۷
(۹۸) حمامۃ البشرٰی ص۹۰ و روحانی ص۳۱۶، ج۷ و تفسیر مرزا ص۳۰۸، ج۷
(۹۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۹۱
(۱۰۰) پ ۱۶ طٰہٰ : ۱۵،۱۶
(۱۰۱) ازالہ اوہام ص۳۹۸ و مجموعہ اشتہارات ص۲۷۷،ج۲ وانجام آتھم ص۵۶ وآئینہ کمالات اسلام ص۵۷۶ وتذکرہ ص۲۲۰،۲۲۲،۲۴۲،۲۸۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آٹھویں دلیل:
وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہٖ قبل موتہ ویوم القیامۃ یکون شھیدا(۱۰۲) سے ظاہر و عیاں ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام آخری زمانہ میں نزول من السماء کے بعد وفات پائیں گے اور قیامت کے دن یہود و نصاریٰ گواہ ہوں گے اسی کی مزید تشریح و تائید آیت ذیل سے ہوتی ہے:
وَاِذْ قَالَ اﷲُ یَاعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ ئَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِٰلہَیْنِ مِنْ دُوْنِ اﷲِ قَالَ سُبْحٰنَکَ مَا یَکُوْنُ لِیْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَیْسَ لِیْ بِحَقٍّ اِنْ کُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلااَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ۔ مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ رَبِّیْ وَ رَبَّکُمْ وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَہِیْدٌ۔ اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔(۱۰۳)
جب کہے گا اللہ تعالیٰ (دن قیامت کے) اے عیسیٰ علیہ السلام کیا تو نے کہا تھا لوگوں کو کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو۔ جواب دیں گے۔ پاک ہے تو اے معبود برحق! کیسے لائق تھا مجھ کو کہ وہ بات کہوں کہ جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے کہا ہے تو تجھے علم ہوگا۔ تو جانتا ہے میرے دلی بھید کو اور میں نہیں جانتا تیرے دل کو بات کو۔ لاریب تو ہی بھیدوں کا جاننے والا ہے۔ نہیں کہا میں نے ان کو مگر وہی جو مجھے تو نے ارشاد کیا تھا کہ عبادت کرو اس ذات پاک کی جو میرا، تمہارا، سب کا پالنے والا ہے اور میں ان پر نگہبان تھا۔ جب تک تو فی سے پہلے ان میں رہا جب تو نے مجھے بمعہ روح وجسم اپنی طرف اٹھا لیا۔ پھر تو تُو ہی ان کا نگہبان تھا اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے میرے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد مجھے پوجا ہے جیسا کہ میں دنیا میں اتر کر مشاہدہ کر آیا ہوں، اگر تو ان کو عذاب کرے تو وہ تیرے غلام ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تُو غالب و حکیم ہے۔''
اس آیت میں حضرت مسیح صاف اقراری ہیں کہ وہ میرے توفی کے بعد بگڑے ہیں۔ اب اگر توفی کے معنی موت لیے جائیں تو اس میں یہود پلید کی تصدیق ہوتی ہے کیونکہ توفی اور رفع کا وعدہ فوراً بلا توقف تھا۔ لامحالہ توفی کے معنی پورا پورا لینے کے ہوں گے۔ اب اگر مسیح علیہ السلام زمین پر آئیں گے ہی نہیں تو قیامت کے دن امت کے بگڑنے کی شہادت کیسے دیں گے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ضرور دنیا پر آئیں گے تاکہ قیامت کے دن نیز تمام اہل کتاب ایمان لانے وغیرہ کی گواہی دیں اسی کی تائید اِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ الایہ سے ہوتی ہے جس میں نص قطعی کے ساتھ مسیح کا زندہ ہونا اور بعد نزول آخری زمانہ میں وفات پانا اور قیامت کے دن اپنی امت پر گواہ ہونا مرقوم و موجود ہے ایسا ہی تائید تمام ان احادیث نبویہ سے ہوتی ہے جن میں نزول مسیح بہ زمانہ آخری اور اس کے بعد وفات پھر مقبرہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مدفون ہونا مذکور ہے۔
اعتراض:
امت کے بگڑنے کا علم مسیح کو قیامت کے دن دیا جائے گا۔
جواب:
یہ کسی آیت سے بھی ثابت نہیں قطعاً بے بنیاد ہے خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کو قیامت سے پیشتر امت بگڑنے کی اطلاع ہے۔
''میرے پر یہ کشفاً ظاہر کیا گیا کہ یہ زہر ناک ہوا جو عیسائی قوم میں پھیل گئی ہے حضرت عیسیٰ کو اس کی خبر دی گئی۔(۱۰۴) خدائے تعالیٰ نے اس عیسائی فتنہ کے وقت میں یہ فتنہ حضرت مسیح کو دکھایا گیا یعنی اس کو آسمان پر اس فتنہ کی اطلاع دی گئی۔''
حضرات! ہمارے پاس قرآن پاک کی نص صریحہ اور احادیث نبویہ صحیحہ ہیں جو اس بات پر شاہد ہیں کہ مسیح دنیا میں آئیں گے اور آکر اپنی امت کا حال زبون ملاحظہ کرکے قیامت کو ان پر گواہ ہوں گے۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب اپنا کشف بتاتے ہیں۔ سواول تو خلاف قرآن و حدیث کسی کا کشف خود عند المرزا قابلِ حجت نہیں۔(۱۰۶) دوم یہ کشف ہمارے مخالف نہیں۔ بلکہ ہمارے بیان کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے یعنی مسیح کو قبل از نزول آسمان پر اس کی خبر دی گئی اور بعد از نزول بموجب آیت قرآن و احادیث نبی علیہ السلام بچشم خود ملاحظہ فرمالیں گے بہرحال یہ متعین ہوگیا کہ مسیح کو قیامت سے پیشتر امت بگڑنے کا پتہ ہے فہو المطلوب۔
ہماری اس تقریر سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرزائی جو کہا کرتے ہیں کہ مسیح قیامت کے دن اپنی لاعلمی کا اظہار کریں گے یہ از سر تا پا جھوٹ فریب بہتان افترا ہے۔
ایک اور طرز سے:
مرزائیوں کو مسلم ہے کہ عیسائی بعد توفی مسیح کے بگڑے ہیں اور یہ بھی ان کا مذہب ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد آپ کشمیر چلے آئے، ایک سو بیس برس زندہ رہے(۱۰۷)۔ حالانکہ:
'' انجیل پر ابھی پورے تیس برس نہیں گزرے تھے کہ بجائے خدا کی پرستش کے ایک عاجز انسان کی پرستش نے جگہ لے لی۔'' (۱۰۸)
مذکورہ بالا بیان سے بلا تاویل ثابت ہے کہ مسیح علیہ السلام کی ہجرت کشمیر کے بعد فوراً تثلیث پھیل گئی تھی۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ توفی کے معنی موت نہیں ہیں۔
اعتراض:
بخاری کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن کہیں گے کہ میری توفی کے بعد میری امت بگڑی ہے اور حضرت مسیح کی مثال دیں گے پس ثابت ہوا کہ توفی کے معنی موت ہیں۔(۱۰۹)
الجواب:
ایک ہی لفظ جب دو مختلف اشخاص پر بولا جائے تو حسبِ حیثیت و شخصیت اس کے جدا جدا معنی ہوسکتے ہیں۔ دیکھئے حضرت مسیح علیہ السلام اپنے حق میں نفس کا لفظ بولتے ہیں اور خدائے پاک کے لیے بھی ''تعلم ما فی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک''(۱۱۰)اب کیا خدا کا نفس اور مسیح کا نفس ایک جیسا ہے؟ ہرگز نہیں! ٹھیک اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی توفی بمعنی اخذ الشی وافیا پورا لینے کے ہے کیونکہ اگر موت لی جائے تو علاوہ نصوصِ صریحہ جن میں حیاتِ مسیح کا ذکر ہے کہ خلاف ہونے کے یہود پلید کی تائید و تصدیق ہوتی ہے۔ کیونکہ وعدہ توفی و رفع کا '' بلا توقف و بجلد'' پورا ہوا ہے جو سوائے رفع جسمانی کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔
-------------------------------------
(۱۰۲) پ۶ النساء : ۱۵۹
(۱۰۳) پ ۷ المائدہ : ۱۱۶ تا ۱۱۱۸
(۱۰۴) آئینہ کمالات اسلام ص۲۵۴ و تذکرہ ص۲۰۹، اس کشف کی مزید تفصیل نور الحق ص۴۱،ج۱ و تحفہ قیصریہ ص۲۱ و تذکرہ ص۲۵۳ میں دیکھئے۔ ابو صہیب
(۱۰۵)آئینہ کمالات اسلام ص۲۶۸ و روحانی ص۲۶۸، ج۵
(۱۰۶) ازالہ اوہام ص۶۲۹ و روحانی ص۴۴۰،ج۳ ، نوٹ: محمد علی مرزائی لاہوری نے اپنی تالیف 'شناخت مامورین' کے صفحہ ۲۰ پر لکھا تھا کہ
حضرت مرزا نے لکھا ہے کہ میں اپنے الہامات کو کتاب اللہ اور حدیث پر عرض کرتا ہوں اور کسی الہام کو کتاب اللہ اور حدیث کے مخالف پاؤں تو اسے کھنگار کی طرح پھینک دیتا ہوں۔ (انتہی)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مؤرخ احمدیت جناب دوست محمد شاہد مرزا لکھتے ہیں کہ حالانکہ حضور نے معاذ اللہ ایسا ہرگز ہرگز کہیں نہیں لکھا، حاشیہ تاریخ احمدیت ص ۲۵۶ ج۴ ۔
دوست محمد شاہد مرزائی پر واضح ہو کہ مرزا نے اپنا یہ عقیدہ اپنی معروف کتاب آئینہ کمالات اسلام میں لکھا ہے فرماتے ہیں کہ : وان کان الامر خلاف ذالک علٰی فرض المحال فنبذنا کلمہ من ایدینا کالمتاع الردی ومادۃ السعالآئینہ کمالات اسلام ص ۲۱ ۔ اگر مؤرخ احمدیت کو عربی سمجھنے کی لیاقت نہیں تو راقم کے پاس تشریف لے آئیں ان شاء اللہ اس عبارت کا انہیں معنی و مفہوم بخوبی سمجھا دیا جائے گا۔ ابوصہیب
(۱۰۷) تذکرۃ الشھادتین وروحانی ص ۲۹، ج ۲۰ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، کشتی نوح ص ۶۹حاشیہ، والھدیٰ والتبصرۃ لمن یریٰ ص ۱۱۵ واعجاز احمدی ص ۱۹ وبراھین احمدیہ ص ۲۲۹ ج۵ و حقیقت الولی ص۹۴، ۱۰۱، ۲۳۲ وغیرہ ابو صہیب
(۱۰۸) چشمہ معرفت ص ۲۵۴ و روحانی ص۲۶۶،ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۴۲۷،ج۶
(۱۰۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۲۹؍۱۱۰ پ ۷ المائدہ ۱۱۶؍۱۱۱پ۲۷ واقعہ ۲۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نویں دلیل:
قرآن مجید میں جہاں کہیں کسی شخص کو مقرب فرمایا ہے سب جگہ مذکور ساکنین آسمان ہیں چنانچہ (سورہ واقعہ میں جنتیوں کے حق لفظ مقرب وارد ہے (۱۱۱)اور قرآن و حدیث سے ظاہر ہے کہ جنت آسمان پر ہے۔ خود مرزا صاحب کو بھی یہ مسلم ہے)۔ (۱۱۲)
دوسرے موقع پر آخر سورۂ نساء فرشتوں اور حضرت مسیح کے حق (۱۱۳)میں اور تیسری جگہ سورہ آلِ عمران میں حضرت مسیح کے لیے ومن المقربین آیا ہے(۱۱۴)۔ مطلب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح آسمان پر ہیں۔ چنانچہ اس کی تائید آیت انی متوفیک ورافعک الی(۱۱۵) وآیت بل رفعہ اللہ الیہ (۱۱۶)وآیت لیومنن بہ قبل موتہ(۱۱۷) جو حیات مسیح پر نصوص قطعیہ ہیں سے بھی ہوتی ہیں۔
------------------------------
(۱۱۲) ازالہ ادہام ص۲۶۴وروحانی ص۲۳۳،ج۳ و تفسیر مرزا ص۳۶۰، ج۸؍۱۱۱ پ۲۷ واقعہ ۲۷
ّ(۱۱۴) پ۳ اٰل عمران ۵۵؍۱۱۶ پ۶ النساء ۱۵۸؍۱۱۷ ایضاً ۱۵۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دسویں دلیل:
یہ بات محتاج ثبوت نہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا بنایا گیا ہے اور خدا کا بیٹا قرار دیا گیا ہے۔ اس عقیدہ پر جو دلائل عیسائی دیتے ہیں وہ مسیح کی ولادت بلا پدر اور رفع آسمانی ہے اب یا تو یہ ہر دو دلیلیں صحیح مثبت مدعائے عیسائیت ہیں۔ یا غلط، اگر غلط ہیں اور یقینا غلط ہیں۔ چنانچہ قرآنِ پاک نے ولادت مسیح بلا باپ والی دلیل عیسائیہ کو عیسائیوں کے مسلمہ عقیدہ اور فی الواقع صحیح مثال ولادت آدم بلا ماں باپ سے توڑا ہے اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ(۱۱۸) تو ضروری و لازمی تھا کہ رفع آسمانی کی دلیل کو بھی اگر یہ نفس الامر میں غلط تھی تو واضح الفاظ میں توڑا جاتا۔ مگر سارا قرآن شریف ورق ورق دیکھ جائیے کہیں بھی عقیدہ رفع آسمانی کی تردید نہیں پائی جائے گی۔ مطلب اس کا یہ ہوا کہ مسیح فی الواقع زندہ آسمان پر موجود ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر جس طرح بلا باپ پیدائش والی دلیل عیسائیہ کو آدم کی مثال سے توڑا ہے جو مسلمہ فریقین ہے اسی طرح رفع آسمانی والی دلیل کو کیوں کسی مسلمہ فریقین مثال سے نہیں توڑا۔ چنانچہ مرزا صاحب یہی اعتراض کرتے ہیں:
'' عیسائیوں نے خدا کے بیٹے ہونے کی ایک دلیل پیش کی کہ وہ بے باپ پیدا ہوا اللہ تعالیٰ نے فوراً اس کی تردید کی اِنَّ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ پس ایسا ہی زندہ آسمان پر موجود ہونے کو عیسائی دلیل ابن اللہ ہونے کی قرار دیتے ہیں۔ اس کی مثال کیوں نہ بیان کی۔'' (۱۱۹)
الجواب:
اللہ تعالیٰ نے تو اس کی مثال بیان کردی۔ قرآنِ پاک میں صاف الفاظ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے قیام سماوی کو مقربین میں شمار کیا اور عیسائیوں کے وہم کو دور کرنے کے لیے دوسری جگہ مسیح کے ساتھ فرشتوں کا ذکر بھی کیا لَنْ یَّسْتَنْکِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّکُوْنَ عَبْدً لِّلّٰہِ وَلَا الْمَلٰئِکَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ (۱۲۰)
او عیسائیو! فرشتے بھی تو مقربین میں سے ہیں ۔ کیا تم انہیں بھی آسمان پر رہنے کی دلیل سے خدایا ابن اللہ کہنے کو تیار ہو؟ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر یہ دلیل تمہاری کیسے مکمل ٹھہرے گی کہ جو بندہ ہو کر آسمان پر اٹھا لیا جائے وہ خدا ہے۔
سنو! حضرت عیسیٰ کو اور جملہ فرشتوں کو ہرگز ہرگز خدا کا بندہ ہونے میں اور کہلانے میں عار نہیں پس کہاں بہکے جا رہے ہو؟
حضرات ملاحظہ ہو اللہ تعالیٰ نے کیسے لطیف پیرائے میں بعبارۃ النص مرزائی اعتراض کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ فلہ الحمد
حاصل یہ کہ یہ آیت حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع جسمانی و قیام آسمانی پر کھلی دلیل ہے۔
---------------------------------------------------
(۱۱۸) پ ۳ اٰل عمران ۵۹
(۱۱۹) بدر جلد ۷ نمبر۲۲ مورخہ ۲۲ ؍ جون ۹۰۸ ص۷ و حاشیہ ملفوظات مرزا ص۶۹۴،ج۵ واللفظ لہ ، نیز دیکھیے، حاشیہ تحفہ گولڑویہ ص۶۸ و۶۹ و حقیقت الوحی ص۴۱ والاستفتاء ص۵۰ تا ۵۱ و براھین احمدیہ ص۳۶ ج۵ وایضاً ضمیمہ ص۲۲۱ و تفسیر مرزا ص۱۲۱ ج ۳، ابو صھیب
(۱۲۰) پ ۶ النساء نمبر ۱۷۲؍ ۱۲۱ پ۳ اٰل عمران نمبر ۴۶؍۱۲۲ احمدیہ پاکٹ بک ص۳۰ طبعہ ۱۹۳۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
گیارہویں دلیل:
حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے پیشتر فرشتے نے جناب مریم صدیقہ کو بشارت کے طور پر خبر دی کہ تمہارے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا جو یُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلاً وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ۔(۱۲۱)
کلام کرے گا لوگوں سے بچپن کی عمر میں اور کہولت کی عمر نیز وہ صالحین سے ہوگا۔ اسی امر کا سورہ مائدہ رکوع ۱۵ میں مذکور ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بطور احسان و نعمت کے مسیح کو یاد دلائے گا کہ میں نے روح القدس کے ساتھ تجھے تائید بخشی پھر وہ بھی میرا احسان یاد کر جب میری مہربانی و خارق عادت قدرت سے تو نے گہوارے میں کلام کیا اور کہولت میں کلام کیا۔
آیات بالا میں حضرت مسیح کے کلام مہدو کہولت کو منجملہ انعامات کے ذکر کیا ہے جو دونوں معجزہ کے رنگ میں ہیں کلام مہد اس لیے معجزہ ہے کہ مولود لڑکے کو تو خود اپنے وجود کی سدھ بدھ نہیں ہوتی چہ جائیکہ وہ اپنی والدہ سے الزام رفع کرے اور اپنے نبی صاحب کتاب ہونے کا دعویٰ سنائے:
'' مسیح نے پہلے دن کلام کرکے یہودیوں کے اتہام کو دور کردیا۔'' (۱۲۲)
'' حضرت مسیح نے تو صرف مہد ہی میں باتیں کیں مگر (میرے) اس لڑکے نے پیٹ میں ہی دو مرتبہ باتیں کیں۔'' (۱۲۳)
باقی رہا کہولت میں کلام کرنا، سو بظاہر نظریہ کوئی خارق عادت بات نہیں کیونکہ اس عمر میں سبھی انسان کلام کرتے ہیں۔ مگر جب قرآن پاک کی دیگر آیات و احادیث پر نظر ڈالی جائے تو حضرت مسیح علیہ السلام کا آسمان پر جانا پھر مدتِ مدید کے بعد بغیر ظاہری تغیر کے اسی حالت میں نازل ہو کر خدمتِ توحید کرنا ثابت و عیاں ہے پس اس جگہ اسی عمر کہولت کا تذکرہ ہے جوفی الواقع معجزہ ہے۔ چنانچہ مرزا صاحب کے مسلمہ '' رئیس المفسرین'' ابن جریر جو نہایت معتبر ائمہ حدیث میں سے ہے۔ اپنی تفسیر میں ابن زید رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں :
قال قد کلمھم عیسی فی المھد وسَیُکَّلِمُھُمْ اذ قتل الدجال وھو یومئذ کھل(۱۲۴)ایسا ہی تفسیر فتح البیان ۔ ترجمان القرآن کبیر۔ معالم میں اس آیت کو نزول من السماء کے بعد کلام پر دلیل لکھا ہے۔
بارہویں دلیل:
وَلَقَدْ اَرَسَلَنَا رُسُلاً مِّنَ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَھُمْ اَزْوَایًا وَّذُرِّیَۃً۔(۱۲۵)
'' اے نبی تجھ سے پہلے رسولوں کو ہم نے اولاد و ازواج والے بنایا تھا۔ ''
چونکہ حضرت مسیح بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے رسول ہیں جو بموجب آیت بالا بیوی بچوں والے ہونے چاہئیں حالانکہ '' ان کی بیوی نہ تھی''(۱۲۶) اور (ریویو ۳ء ص۱۲۴) اور '' اولاد بھی نہ تھی۔'' (۱۲۷)
لہٰذا لازمی ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہوں اور بعد نزول بیوی کرکے صاحبِ اولاد ہو کر فوت ہوں چنانچہ حدیث نبوی میں ہے کہ مسیح زمین پر نازل ہوں گے بیوی کریں گے اور ان کے گھر اولاد ہوگی۔ (۱۲۸)اس حدیث کی تصدیق مرزا صاحب نے بھی کی ہے۔ (۱۲۹)
-----------------------------------------------------
(۱۲۳) تریاق القلوب ص۴۱ و روحانی ص۲۱۷ ج۱۵
(۱۲۴) ابن جریر ص ۱۵۹ ج۳ وفتح البیان وترجمان القرآن و کبیر و معالم زیر آیت سورہ اٰل عمران نمبر ۴۶
(۱۲۵) پ ۱۳ الدعد نمبر ۳۸
(۱۲۶) ریویو ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲۴
(۱۲۷) حاشیہ تریاق القلوب ص۱۰۰ و روحانی ص۳۶۳ ج۱۵
(۱۲۸) العلل المتناھیۃ ص۴۳۳ ج۲ و مشکوٰۃ ص۴۸۰
(۱۲۹) حاشیۃ آئینۃ کمالات اسلام ص۵۷۸ وحمامۃ البشرٰی ص۱۱ و روحانی ص۱۸۷ ج ۷ وضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ و روحانی ص۳۳۷ ، ج۱۱ واربعین ص۳۶ و روحانی ص۳۸۵ ج۱۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیرہویں دلیل:
یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اﷲِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاﷲُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ۔ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُداٰای وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔(۱۳۰)
کفار ارادہ کرتے ہیں کہ چراغ اسلام کو اپنی پھونکوں سے گل کردیں حالانکہ اللہ پورا کرے گا اس نور کو، اگرچہ منکر پسند نہ کریں:
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے اپنا رسول ہدایت و دین حق کا حامل بنا کر بھیجا تاکہ غالب کردے دین الٰہی کو جمیع ادیان باطلہ پر۔ اگرچہ مشرک برا منائیں۔
اس آیت سراپا انعام و ہدایت میں دین اسلام کو جملہ دنیوں پر ایک نمایاں غلبہ دینے کا وعدہ دیا ہے چنانچہ حدیث میں ہے کہ یہ غلبہ کاملہ حضرت مسیح ابن مریم کے نزول کے زمانہ بھی ہوگا :
وَعَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ لَا یَذْھَبُ الَّیْلُ وَالنَّھَارُ حَتّٰی یُعْبَدَ الکلات وَالْعُزیّٰ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُ لَاَ ظُنُّ حِیْنَ اَنْزَلَ اللّٰہُ ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی الآیۃ اَنَّ ذٰالِکَ تَامٌّ قَالَ اِنَّہٗ سَیَکُوْنُ ذَالِکَ مَاشَائَ اللّٰہُ ثُمَّ یَبَعْثَ اللّٰہُ رِیْحًا طَیِّبَۃً فَتُوُفِّیَ کُلُّ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِّنْ اِیْمَانٍ۔(۱۳۱)
'' جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے قیامت قائم نہ ہوگی حتیٰ کہ بت پرستی کا دوبارہ زور شور نہ ہو، میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو جب آیت ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ نازل ہوئی اس وقت سمجھ چکی تھی کہ دین کا غلبہ پورا ہوچکا۔ فرمایا تحقیق بات یہ ہے کہ اس کا غلبہ عنقریب پھر ہوگا جتنا عرصہ اللہ چاہیے گا (مسیح ابن مریم کے زمانہ میں نزول کے بعد) پھر خدا ایک پاک ہوا بھیجے گا جس سے ہر وہ مومن جس کے دل میں رائی کے دانہ برابر ایمان ہوگا مر جائے گا فَیَبْقٰی مَنْ لَا خَیْرَ فِیْہِ فَلَیَوْجِعُوْنَ اِلٰی دِیْنِ آبَائِھِمْ پس باقی رہ جائیں گے ایسے شخص جن میں ذرہ بھر بھی بھلائی نہ ہوگی پس وہ جھک جائیں گے اپنے آبائی دین بت پرستی کی طرف۔''
(مسلم در مشکوۃ باب لا تقوم الساعۃ الاعلی شرار الناس فصل اول)
اسی باب کی دوسری حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ خدا عیسیٰ بن مریم کو بھیجے گا پھر سات سال مسلمانوں پر ایسے آئیں گے کہ کسی دل میں رنج و بغض۔ حسد و عداوت نہ ہوگا پھر خدا ایک پاک ہوا بھیجے گا جوہر مومن کو قبض کرلے گا اور باقی رہ جائیں گے شریر تب ان پر قیامت قائم ہوگی۔(۱۳۲)
الغرض اس آیت سے عیاں ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زندہ ہیں جو آخری زمانہ میں نازل ہوں گے۔ ان کے ہاتھ سے دین اسلام جملہ مذاہب پر پھر غلبہ حاصل کرے گا اس کی مزید تائید مرزا صاحب کی تحریر سے کی جاتی ہے۔ مرزا صاحب براہین احمدیہ ۴۹۸،۴۹۹ پر فرماتے ہیں:
'' ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں یہ پیشگوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ غلبہ مسیح کے ذریعے ظہور میں آئے گا، اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع اقطار میں پھیل جائے گا۔'' (۱۳۳)
عذرات مرزائیہ:
مرزا صاحب نے براہین احمدیہ میں محض رسمی طور پر عقیدہ حیات مسیح لکھا تھا۔ (۱۳۴)
الجواب:
اول تو ہمیں یہ مضر نہیں کیونکہ ہم نے بآیت قرآن و حدیث رسول علیہ السلام ثابت کردیا ہے کہ یہاں حضرت مسیح کا بھی ذکر ہے۔ دوم مرزائیوں کا عذر یوں بھی غلط و مردود ہے کہ مرزا صاحب بقول خود براہین احمدیہ کے وقت رسول اللہ تھے۔(۱۳۵) اور انہیں کا یہ قول ہے:
'' انبیاء کرام کے اقوال و افعال، اجتہادات آرا سب کے سب بوحی خدا ہوتے ہیں، انبیاء کی اپنی ہستی بالکل فنا ہو جاتی ہے، وہ خدا کے ہاتھ میں مردہ یا کٹ پتلی کی طرح ہوتے ہیں، ان سے وہ طاقت ہی سلب کرلی جاتی ہے جس سے خلاف مرضی خدا کا کام کیا جاسکے وغیرہ وغیرہ۔ '' (۱۳۶)
پس مرزا صاحب کی یہ تحریر جس میں مسیح کا اقرار ہے مرزائیوں پر مثل وحی اللہ حجت ہے نیز اس عقیدہ کے غلط نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مرزا صاحب عقیدہ حیات کو بعد میں شرک بتاتے ہیں حالانکہ اسی ریویو جلد دوم ۱۹۰۳ء میں یہ بھی موجود ہے کہ انبیاء شرک مٹانے آئے ہیں۔ اگر وہ خود ہی غلطیوں میں مبتلا ہو جائیں تو پھر وہ نبی ہی نہیں۔ انبیاء کی طرف غلطی منسوب نہیں ہوسکتی۔
پھر اور سنو! براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو بقول مرزا صاحب:
'' مؤلف نے ملہم ہو کر بغرض اصلاح تالیف کی۔''(۱۳۷) اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں رجسٹری ہوچکی ہے آپ نے اس کا نام قطبی رکھا یعنی قطب ستارہ کی طرح غیر متزلزل و مستحکم۔ اور یہ کتاب خدا کے الہام اور امر سے لکھی گئی ہے۔'' (۱۳۸)
اعتراض:
مسیح علیہ السلام کو آسمان پر زندہ ماننا شرکیہ عقیدہ ہے اور مرزا صاحب کا عقیدہ حیات مسیح قبل از الہام تھا۔ الہام کے بعد وہ عقیدہ منسوخ ہوگیا۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ لیکن جب وحی آئی بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے لگے۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے فرمایا کہ مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دو بعد میں فرمایا کہ میں تمام نبیوں سے افضل ہوں پس جب آپ کو وحی ہوئی تو آپ نے فضیلت کا اظہار فرمایا۔ اسی طرح جب مرزا صاحب کو الہام ہوا کہ (مسیح فوت ہوگئے ہیں اور میں مسیح موعود ہوں) تو انہوں نے بھی دعویٰ کردیا۔ نیز مرزا صاحب کا عقیدہ حیات مسیح ایک رسمی عقیدہ تھا۔ (۱۳۹)
الجواب:
(۱) مرزا صاحب کو بارہ برس تک خدائے تعالیٰ سے الہام ہوتے رہے مگر وہ برابر شرک میں مبتلا رہے۔ ہمیں اس کی نظیر انبیاء میں نہیں ملتی اور بیت المقدس کی مثال بالکل مہمل ہے اول تو اس لیے کہ بیت المقدس کو قبلہ بنانا حسب ہدایت آیت فبھدھم اقتدہ (پ۷)(۱۴۰) انبیائے سابقین کی سنت پر عمل ہے اور شرک نہیں۔ تو وہ اس کی مثال کیسے بن سکتا ہے۔ بلکہ ''انبیاء جو شرک کو مٹانے آئے ہیں خود شرک میں مبتلا ہیں؟ دیگر اس وجہ سے بے محل ہے کہ حضرت عیسیٰ کے نزول کا مسئلہ عقائد میں سے ہے اور عقائد میں تنسیخ و تبدیلی نہیں ہوسکتی۔(۱۴۱) در بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا عملیات میں سے جن میں تبدیلی و تنسیخ ہوسکتی ہے پس یہ اس کی نظیر نہیں۔
(۲) مرزائیوں کا یہ کہنا کہ محض رسمی عقیدہ کی بنا پر مرزا صاحب حیات مسیح کے قائل تھے بالکل لغو ہے کیونکہ براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو بقول مرزا صاحب دربار رسالت مآب میں رجسٹری ہوچکی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبولیت کر رہی تھی کیا اس وقت یہ تمام بیانات جن میں حضرت مسیح کی حیات اور رفع آسمانی اور نزول ثانی مرقوم تھے براہین سے نکال کر پیش ہوئے تھے یا آنحضرت کی نظر میں نہ چڑھے تھے اور آپ نے یونہی بلا تحقیق مطالعہ اس کو شہد کی صورت میں ٹپکا دیا۔
(۳) اور حضرت یونس بن متی والی مثال بھی بے محل ہے کیونکہ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ یا تو یہ حدیث ضعیف ہے یا بطور تواضع و انکساری کے ایسا کہا گیا ہے۔ (۱۴۲)
الحاصل براہین احمدیہ والا عقیدہ یقینا صحیح ہے کیونکہ قرآن کی آیت ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ اس کی بنا ہے محض رسمی عقیدہ نہیں تھا۔ حدیث صحیح اس کی تائید کرتی ہے۔
-------------------------------------
(۱۳۰) پ۲۸ الصف نمبر ۸،۹
(۱۳۱) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص ۳۹۴ ، ج۲ کتاب الفتن باب اشراط الساعۃ فصل عبادۃ الاصنام عند قرب الساعۃ و مشکوٰۃ ص۴۸۱ وعسل مصفٰی ص۲۴۱ ج۱
(۱۳۲) ایضاً ص۴۰۳، ج۲ کتاب الفتن باب زکر الرجال و مشکوٰۃ ص۴۸۱
(۱۳۳) براھین احمدیہ ص۴۹۸، ج۴ ، ۴۹۹ و تفسیر مرزا ص۳۵۶ ج۷ و ص۱۱، ج۸
(۱۳۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۷، نوٹ، اگر یہ صرف مرزا جی کا رسمی عقیدہ تھا اور قرآن مجید کی تفسیر نہ تھی تو مرزائیوں نے، مرزا جی کے جو تفسیری نوٹ، شائع کیے ہیں، ان میں براھین کی عبادت کیوں درج کی گئی ہے جبکہ بقول قادیانیوں کے وہ منسوخ تھی، ابو صہیب۔
(۱۳۵) اشتہار ، ایک غلطی کا ازالہ، مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۴۳۱،ج۳ و روحانی ص۲۰۷،ج۱۸ و حقیقت النبوۃ ص۲۶۱ و تاریخ احمدیت ص۱۹۳ ج۳ و ایام الصلح ص۵۵ و روحانی ص۳۵۹، ج۱۴
(۱۳۶) ریویو جلد دوم ص۷۱،۷۲، ۱۹۰۳
(۱۳۷) اشتہار مرزا مندرجہ آئینہ کمالات اسلام کے آخر، و روحانی ص۶۵۷، ج۵ وسدمد چشم آریہ کے آخر، و روحانی ص۳۱۹، ج۲
(۱۳۸) براھین احمدیہ ص۲۴۸، ج۳ ، ۲۴۹ و تذکرہ ص۴،۵ ؍ ۱۳۹ احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۹
(۱۴۰) پ ۷ الانعام ۹۰
(۱۴۱) عقائد میں عدم نسخ کا اصول احمدیوں کو بھی مسلم ہے، چنانچہ مرزا محمود احمد جانشین ثانی مرزا قادیانی اپنی تفسیر کبیر ص ۴۷، ج۳ میں لکھتا ہے کہ نسخ صرف احکام میں ہوسکتا ہے وہ بھی صرف اس لیے کہ بعض اوقات ایک حکم مفید ہوتا ہے بعض اوقات دوسرا (انتھی بلفظہٖ ، ابو صہیب)
(۱۴۲) آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۳ و روحانی ص۱۶۳ ج ۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ثبوت حیات مسیح از الہام و دیگر تحریرات مرزا

چودہویں دلیل:
اگرچہ بقول مرزا صاحب ان کی ہر تحریر الہامی ہے مگر ہم ہر طرح احمدیوں پر حجت پوری کرنے کو مرزا جی کے ایک الہام سے حیات مسیح کا ثبوت پیش کرتے ہیں لَعَلَّھُمْ یُؤْمِنُوْنَ مرزا صاحب براہین احمدیہ میں اپنے الہام لکھتے ہوئے ایک الہام یہ لکھتے ہیں:
'' عَسلی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَ عَلَیْکُمْ وَاِنْ عَدْتم عدنا وَجَعْلَنَا جھنم للکفوین حصیرا خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے جو تم پر رحم کرے اگر تم نے گناہ اور سرکشی کی طرف رجوع کیا تو ہم بھی سزا اور عقوبت کی طرف رجوع کریں گے اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔ یہ آیت (مرزا صاحب اپنے الہام کا نام آیت رکھ کر گو صاحب شریعت رسول کہلانے کو مصالح جمع کر رہے ہیں۔ ناقل) اس مقام میں حضرت مسیح کے جلالی طور پر (نازل) ہونے کا اشارہ ہے یعنی اگر طریق رفق اور نرمی کو قبول نہیں کریں گے تو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب خدا تعالیٰ مجرمین کے لیے قہر اور سختی کو استعمال میں لائے گا اور حضرت مسیح علیہ السلام جلالیت کے ساتھ دنیا پر اتریں گے اور تمام راہوں کو صاف کردیں گے کج اور ناراست کا نام و نشان نہ رہے گا اور جلال الٰہی گمراہی کو نیست و نابود کردے گا۔ (مگر) یہ (میرا) زمانہ اس زمانہ کے لیے بطور ارہاص واقع ہوا اب بجائے اس کے رفق اور احسان سے (خدا) اتمام حجت کر رہا ہے۔ تُوْبُوْا وَاَصْلِحُوْا اِلَی اللّٰہِ توجھو(یہ بھی الہام مرزا کا ہے) تو بہ کرو اور باز آؤ۔ بشریٰ لک یا احمدی انت مرادی و معی الخ (یہ بھی ایک الہام ہے) خوشخبری ہو تجھے اے میرے احمد تو میری مراد ہے اور میرے ساتھ ہے۔'' (۱۴۳)
ناظرین کرام! ملاحظہ ہو مرزا صاحب اپنے الہام سے حیات مسیح کا ثبوت دے گئے ہیں والحمد للہ علی ذلک۔
مرزائی عذر:
یہ مرزا صاحب کا الہام نہیں ہے۔ قرآن کی آیت ہے۔ (۱۴۴)
الجواب:
یہ قرآن کی آیت نہیں ہے کیونکہ اس میں یرحم علیکم لکھا ہے حالانکہ قرآن مجید کی آیت {یرحمکم}(۱۴۵) سارے قرآن میں رحم یرحم کا صلہ کہیں بھی علی نہیں آیا۔ مرزا صاحب اپنے الہام اس جگہ درج کر رہے ہیں۔ کیا '' یا احمدے انت مرادی وغیرہ الہامات بھی آیات قرآن ہیں؟ ہرگز نہیں فمالکم کیف تکفرون انما یفتری الکذب الذین لا یومنون بایت اللّٰہ۔
اب آئیے ہم خود بعبارت نص مرزا صاحب کے اس پر دستخط کرا دیتے ہیں کہ یہ میرا الہام ہے۔ سنو! لکھا ہے:
براہین احمدیہ کے الہامات بطور نمونہ یہ ہیں۔ یا احمد بارک اللہ فیک ...قل اعملوا علی مکانتکم انی عامل فسوف تعملون عسٰی ربکم ان یرحمکم وان عدتم عدنا وجعلنا جھنم للکافرین حصیرا الخ ۔ (۱۴۶)
ایسا ہی حقیقۃ الوحی استفتا ص۸۲ پر اس کو منجملہ اپنے الہاموں کے لکھا ہے۔ (۱۴۷)
------------------------------------------------
(۱۴۳) براھین احمدیہ ص۵۰۵، ج۴ و روحانی ص۶۰۱، ج۱
(۱۴۴) یہ اعتراض مولانا معمار مرحوم نے ذاتی تجربہ کی بنا پر لکھا ہے جبکہ اکابر قادیانیہ اس ہندی عربی کو مرزا جی کا الہام تسلیم کرتے ہیں جیسا کہ مرزا کے مجموعہ الھامات ، تذکرہ ص۷۹، میں درج ہے البتہ محش تذکرہ نے مولانا معمار مرحوم کے اعتراض میں وزن محسوس کرتے ہوئے اِدھر اُدھر سے حوالوں کی بے کار بھرتی کرتے ہوئے لکھا ہے حضرت اقدس نے اس الہام کو اربعین ص۵، ۲ پر اوراس کے علاوہ کئی اور مقامات پر بھی بحوالہ براھین احمدیہ ان ہر حکم درج کیا ہے جرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علی کا لفظ سہو کتابت ہے، حاشیہ تذکرہ ص ۷۹) ہم محش تذکرہ سے مؤدبانہ گزارش کرتے ہیں کہ جب براھین احمدیہ میں علی ہے تو بعد میں اگر مرزا نے کم، بنایا ہے تو علماء اسلام کے اعتراض کرنے کے بعد ایسا کیا گیا ہے، ابو صھیب
(۱۴۵) پ ۱۵ بنی اسرائیل نمبر ۸ ؍ ۱۴۶ اربعین ص ۵، ۲ و روحانی ص۳۵۲، ج۱۷ و تذکرہ ص۳۵۵
(۱۴۷) الاستفتاء ضمیمہ حقیقت الوحی ص۸۲ و روحانی ص۷۰۸ ج۲۲ و حقیقت الوحی ص ۸۲ و روحانی ص ۸۵ ، ج۲۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پندرہویں دلیل:
حضرت مسیح رسول صادق ہیں '' سچے نبیوں اور مامورین کے لیے سب سے پہلے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کرکے مرتے ہیں۔'' (۱۴۸)
'' ان انبیاء لا ینقلبون من ھذہ الدنیا الٰی دار الاخرۃ الا بعد تکمیل رسالات۔(۱۴۹)
بخلاف اس کے مرزا صاحب کو خود اقرار ہے کہ مسیح اپنی پہلی آمد میں ناکام رہے جیسا کہ لکھا ہے:
'' ہدایت اور توحید اور دینی استقامتوں کے کامل طور پر دلوں میں قائم کرنے کے بارے میں ان کی کاروائیوں کا نمبر ایسا کم رہا ہے کہ قریب قریب ناکام کے رہے۔'' (۱۵۰)
اسی طرح بہت سی کتب میں لکھا ہے۔ براہین احمدیہ میں تو بالکل واضح ہے:
'' حضرت مسیح تو انجیل کو ناقص کی ناقص چھوڑ کر آسمانوں پر جا بیٹھے۔'' (۱۵۱)
اندریں حالات لازمی ہے کہ حضرت مسیح دوبارہ دنیا پر تشریف لا کر توحید کی خدمت کریں۔
سولہویں دلیل:
براہین احمدیہ ص۴۹۸ کی تحریر میں بآیاتِ قرآن حضرت مسیح کی آمد بہ شان حکومت و سیاست ملکی و بجلال کمال لکھی ہے جس سے معلوم ہوا کہ مسیح سیاست و حکومت شاہی کے ساتھ آئے گا نہ کہ مرزا کی طرح انگریزوں کو جو بقول مرزا یا جوج و ماجوج یفسدون فی الارض ہیں اپنے اولی الامر منکم میں داخل کرکے ان کا بے دام غلام اور پچاس الماریوں میں تعریف کرنے والا خادم ہوگا۔ چنانچہ احادیث نبویہ میں بھی مسیح کی آمد یا سیاست مرقوم ہے مرزا صاحب راقم ہیں کہ:
''ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا۔''(۱۵۲)
برادران! احادیث میں جس مسیح کی آمد بشانِ حکومت لکھی ہے وہ کوئی ایسا ویسا مسیح نہیں بلکہ وہی مسیح ابن مریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہ مرزا صاحب نے بآیت قرآن اسی کی آمد یا سیاست ملکی براہین احمدیہ میں تسلیم کی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ آنے والا مسیح ابن مریم ہے۔
اعتراض:
جیسے عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ تشریف لائیں گے تو کیا کام کریں گے؟
الجواب:
جناب من! وہی کام کریں گے جو مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کے حاشیہ میں فرمایا ہے:
ھُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھَرِہٗ عَلَی الدِّیْنَ کُلِّہٖ۔ یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں پیش گوئی ہے اور جس غلبۂ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے، وہ غلبہ مسیح علیہ السلام کے ذریعہ ظہور میں آئے گا اور جب حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائے گا۔(۱۵۳)
-----------------------------------------------
(۱۴۸) اربعین ص۵ ، ۴ و روحانی ص ۴۳۴، ج۱۷ و تفسیر مرزا ص ۲۱۳، ج۸
(۱۴۹) حمامۃ البشرٰی ص ۴۹ و روحانی ص ۲۴۳، ج۷ و تفسیر مرزا ص۵۵ ج۷
(۱۵۰) ازالہ اوہام ص ۳۱۱ و روحانی ص۲۵۸ ج۳ حاشیہ
(۱۵۱) براھین احمدیہ ص ۳۶۱، ج ۴ و روحانی ص ۴۳۱ ج ۱؍ ۱۵۲ ازالہ اوہام ص۲۰۰ و روحانی ص۱۹۷ ج۳
(۱۵۳) براھین احمدیہ ص ۴۹۸ ، ج۴ و ۴۹۹ و روحانی ص ۵۹۳ ج۱ و تفسیر مرزا ص۱۱۱، ج۸
 
Top