• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پانچواں معیار:
قرآن مجید میں ہے اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا یُوْحٰی اِلیَّ میں صرف اپنی وحی کی پیروی کرتا ہوں وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہ (۴۰۳) نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر مطاع بنا کر۔
ان آیات سے ظاہر ہے کہ نبی اپنی وحی کا متبع ہوتا ہے (دوسروں کی وحی کو اسی صورت میں مانتا ہے کہ اس کی وحی کے خلاف نہ ہو یا اس کی وحی کا حکم ہو کہ فلاں بات پہلی وحی کی مانو) نبی کسی دوسرے انسان کا مطیع نہیں ہوتا۔ چنانچہ مرزا صاحب بھی اقرار کرتے ہیں:
'' خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کوئی رسول دنیا میں مطیع اور محکوم ہو کر نہیں آتا بلکہ وہ مطاع اور صرف اپنی وحی کا متبع ہوتا ہے۔'' (۴۰۴)
بخلاف اس کے مرزا صاحب بقول خود امتی نبی۔ مطیع اور محکوم رسول تھے۔ اور اپنی وحی کو بجز ''مطابقت'' قرآن کے نہیں مانتے تھے۔ پس وہ منہاج نبوت کی رو سے ''بدعتی رسول'' ہیں۔ (۴۰۵)
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
(۴۰۲) پ۷ الانعام آیت: ۵۱
(۴۰۳) النساء آیت: ۶۵، نوٹ: مرزا اس آیت کا حسب ذیل معنیٰ کرتے ہیں کہ ہر ایک رسول مطاع اور امام بنانے کے لیے بھیجا جاتا ہے اس غرض سے نہیں بھیجا جاتا کہ کسی کا مطیع اور تابع ہو، ازالہ اوہام ص۵۶۹ و حقیقت الوحی ص۱۲۷ و تفسیر مرزا ص۲۴۸، ج۳ وللفظ لہ۔ ابوصہیب
(۴۰۴) ازالہ اوہام ص۵۷۶ و روحانی ص۳۱۱، ج۲۲
(۴۰۵) اس مقام پر ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ مرزا خود کو ساری زندگی حنفی المذہب مقلد باور کراتے رہے ہیں (دیکھئے راقم کا مضمون مندرجہ الاعتصام جلد ۳۹ نمبر ۵ مورخہ ۳۰ جنوری ۱۹۸۷ء ص۱۶) اور نبی امتی کا فقہی مسلک میں پیروکار اور مقلد ہو۔ یہ تو ویسے ہی شان نبوت کی توہین ہے۔ ابو صہیب
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چھٹا معیار:
مرزا صاحب اپنی کتاب تحفہ گولڑہ میں لکھتے ہیں کہ '' نبی کے لیے ضروری ہے کہ چالیس سالہ عمر میں مامور ہو۔'' (۴۰۶) بخلاف اس کے مرزا صاحب کی پیدائش مندرجہ ذیل تحریر کی رو سے ۱۲۶۸ھ ثابت ہوتی ہے:
'' بہت سے اکابر امت گزرے ہیں جنہوں نے میرے لیے پیشگوئی کی اور پتہ بھی بتایا بعض نے تاریخ پیدائش بھی بتائی ہے، جو چراغ دین ۱۲۶۸ھ ہے۔'' (۴۰۷)
اور سنہ بعثت مرزا ان کی ایک تحریر کی رو سے ۱۲۹۰ھ ہے۔ جیسا کہ لکھا ہے:
'' ٹھیک بارہ سو نوے ہجری میں یہ عاجز شرف مکالمہ و مخاطبہ پا چکا تھا۔'' (۴۰۸)
اندریں حساب بوقت بعثت مرزا صاحب کی عمر کل ۲۲ سال ثابت ہوتی ہے۔ حالانکہ از روئے معیار مسلمۂ مرزا انبیاء کے لیے سنت الٰہی یہی ہے کہ وہ چالیس سالہ عمر میں مبعوث ہوں۔
نوٹ: مرزا صاحب نے ''اکابر امت کی پیشگوئی'' کی رو سے اپنی تاریخ پیدائش ۱۲۶۸ھ لکھی ہے اور یہ بھی مرزا صاحب کا مذہب ہے '' مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیٰ کے درجہ پر جب تک انسان نہ پہنچے اس وقت تک اسے پیشگوئی کی قوت نہیں مل سکتی۔'' (۴۰۹)
پس مرزائی یہ نہیں کہہ سکتے کہ '' اکابر امت کی پیشگوئی'' میں تاریخ پیدائش میں غلطی ہے۔
------------------------------------------------
(۴۰۶) تحفہ گولڑویہ ص۱۰۷ و روحانی ص۲۷۶، ج۱۷، مفہوم
(۴۰۷) دیکھئے باب ھذا کا حاشیہ نمبر ۱۲۵
(۴۰۸) دیکھئے باب ہذا کا حاشیہ نمبر ۱۲۸
(۴۰۹) الحکم جلد ۵ نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۱ء ص۹ و تفسیر مرزا ص۱۱، ج۸ و ملفوظات مرزا ص۲۷۵، ج۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ساتواں معیار:
فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ۔ (۴۱۰)
یہ قرآن جبرئیل نے تیرے قلب مبارک پر نازل کیا ہے۔ مرزا صاحب بھی اقراری ہیں کہ:
۱: '' ممکن نہیں کہ دنیا میں ایک رسول اصلاح خلق کے لیے آئے اور اس کے ساتھ وحی الٰہی اور جبرائیل نہ ہو۔'' (۴۱۱)
۲: '' رسولوں کی تعلیم اور اعلام کے لیے یہی سنت اللہ اور قدیم سے جاری ہے جو بواسطہ جبرائیل کے بذریعہ نزول آیات ربانی اور کلام رحمانی سکھلائے جاتے ہیں۔'' (۴۱۲)
صاف عیاں ہے کہ ہر ایک نبی پر نزول جبرائیل بوحی الٰہی لازمی ہے حالانکہ :
(الف): ''یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النبیین کے بعد جبرائیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمد و رفت شروع ہو جائے۔'' (۴۱۳)
(ب): ''صرف ایک ہی فقر ہ حضرت جبرائیل علیہ السلام لا ویں اور پھر چپ ہو جاویں یہ امر بھی ختم نبوت کا منافی ہے۔'' (۴۱۴)
نتیجہ صاف ہے کہ مرزا صاحب اس سنت انبیاء اور معیار رسالت سے باصول خود کورے ہیں۔
-----------------------------------------------------
(۴۱۰) پ۱ البقرہ آیت: ۹۸
(۴۱۱) ازالہ اوہام ص۵۷۸ و روحانی ص۴۱۲، ج۳
(۴۱۲) ایضاً ص۵۸۳ و روحانی ص۴۱۴، ج۳
(۴۱۳) ایضاً ص۵۸۳ و روحانی ص۴۱۴،ج۳
(۴۱۴) ایضاً ص۵۷۷ و روحانی ص۴۱۰، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آٹھواں معیار:
۱: '' کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے لیے ہجرت نہ ہو۔'' (۴۱۵)
۲: '' انبیاء علیہم السلام کی نسبت یہ بھی ایک سنت اللہ ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہجرت کرتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔'' (۴۱۶) مرزا صاحب نے ہجرت نہیں کی۔ (۴۱۷)
نواں معیار:
یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ والی آیت (جس میں ہر ایک شخص کی وفات کے بعد اس کی اولاد کو وارث قرار دیا گیا۔ ناقل) میں جو استثناء ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث کی وجہ سے ہے جو بخاری و مسلم بلکہ تمام صحاح میں مذکور ہے اور وہ نَحْنُ مَعَاشِرُ الْاَنبیائِ لَا نَرِثُ وَلَا نُوْرَثُ ہے (یعنی ہم نبیوں کا گروہ نہ کسی کا وارث ہوتا ہے نہ ہمارا کوئی وارث ہوتا ہے۔ ناقل) اگر کہا جائے کہ یہ حدیث اس لیے صحیح نہیں کہ قرآن شریف کے خلاف ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں ورِثُ سُلَیْمَانُ دَاوٗدَ (النمل ع۲) فَھَبْ لِیْ مِن لَّدُنْکَ وَلِیًّا یَّرثُنِیْ وَیَرِثْ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ(مریم ع) آیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں روحانی ورثہ مراد ہے نہ کہ مالی ورثہ۔'' (۴۱۸)
عبارت بالا سے ثابت ہے کہ انبیاء کرام نہ تو خود اپنے والدین کے مال کے وارث ہوتے ہیں اور نہ ہی آگے ان کی اولاد ان کی جائیداد کی وارث ہوتی ہے حالانکہ مرزا صاحب نے اپنے والد کی جائیداد کا ورثہ بھی پایا، (۴۱۹) اور آگے ان کی اولاد بھی وارث ہوئی (۴۲۰)۔ پس مرزا صاحب اس معیار نبوت پر بھی پورے نہیں اُترے۔
-----------------------------------------------------------------------
(۴۱۵) الحکم جلد ۵ نمبر ۴۴ مورخہ ۳۰ ؍ نومبر ۱۹۰۱ء ص۴ و ملفوظات مرزا ص۵۸۸، ج۱
مرزا اس سلسلہ میں مزید لکھتے ہیں کہ ہجرت سنت انبیاء است حقیقت المہدی ص۳۱ ہر ایک نبی کے لیے ہجرت مسنون ہے، تحفہ گولڑویہ ص۱۳، ابو صہیب
(۴۱۶) براھین احمدیہ ص۱۸۰، ج۵ و روحانی ص۳۵۰، ج۲۱
(۴۱۷) تاریخ احمدیت ص۱۵۰، ج۲ وحیات احمد ص۱۹۳، ج۲، نمبر۳
(۴۱۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۲۴۵ طبعہ ۱۹۳۲ء نوٹ: مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے بعد کی اشاعت میں '' اگر کہا جائے کہ یہ حدیث صحیح نہیں''سے ما قبل کی عبارت کو تو رہنے دیا ہے لیکن ما بعد کی عبارت کو نکال دیا ہے خادم مرزائی نے یہ رد و بدل ایک خاص ضرورت کے ماتحت کیا ہے وہ یہ کہ ان آیات کو انبیاء کی وراثت پر بطور دلیل پیش کرکے مولانا معمار مرحوم کے اعتراض کا جواب دیا ہے۔ پاکٹ بک احمدیہ ص۱۰۸۱ طبعہ ۱۹۴۵ء۔ ابو صہیب
(۴۱۹) تاریخ احمدیت ص۳۹، ج۲ و حیات احمد ص۶۳، ج۲ نمبر۲
(۴۲۰) پاکٹ بک احمدیہ ص۱۰۸۱ طبعہ ۱۹۴۵ء
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دسواں معیار:
مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ ایک صحیح حدیث ہے:
اِنَّہٗ لَمْ یَکُنْ نِبَیٌّ اِلاَّ عَاشَ نِصْفَ الَّذِیْ قَبْلَہٗ وَاَخْبَرنِیْ اِنَّ عِیْسی ابْنَ مَرْیَم عَاشَ عِشْرِیْنَ وَمَائۃ سنۃ فلا ارانی الا ذاھبا علٰی راس الستین واعلموا ایھا الاخوان ان ھذا الحدیث صحیح وَرَجَالُہٗ ثِقَاتٌ لَہٗ طُرُقٌ۔ (۴۲۱)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل نے خبر دی ہے کہ ہر ایک نبی اپنے سے پہلے نبی سے نصف عمر پاتا رہا ہے اور اس نے مجھے بتایا کہ عیسیٰ ایک سو بیس سال زندہ رہا پس میں خیال کرتا ہوں کہ ساٹھ سال کا میں اس جہاں سے رحلت کر جاؤں گا (مرزا صاحب فرماتے ہیں) بھائیو! یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے سب راوی بالکل ثقہ ہیں۔ اور معتبر ہیں اور اس کی بہت سی سندیں ہیں۔''
اس بیان کی رو سے جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ساٹھ سال ہوئی۔ تو مرزا صاحب کی اگر وہ صادق نبی ہوتے تو کل عمر تیس سال ہونی چاہیے تھی چونکہ وہ ۵۹ برس کے ہو کر مرے، لہٰذا وہ اپنے ہی اس مسلمہ معیارِ نبوت کی رو سے کاذب ہیں۔
اعتراض:
یہ تمام انبیاء کے متعلق نہیں، صرف حضرت عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے۔ (۴۲۲)
----------------------------------------------------------
(۴۲۱) حاشیہ حمامۃ البشرٰی ص۲۶ و روحانی ص۲۰۷، ج۷
(۴۲۲) لم اجدہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر چوتھی دلیل

اختلافات مرزا
لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ فَوَجَدُوْا فِیْہِ اِخْتَلَافًا کَثِیْرًا۔ (۴۲۳)
(۱) صرف محدث غیر نبی
'' اس عاجز کے رسالہ فتح الاسلام۔ توضیح المرام۔ ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی میں نبی ہوتا ہے یا یہ کہ محدثیت جزوی نبوت ہے یا یہ کہ محدثیت نبوت ناقصہ ہے یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں سے بیان کئے گئے ہیں مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعویٰ نہیں۔ سو مسلمان بھائیوں کی خدمت میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر وہ ان لفظوں سے ناراض ہیں تو وہ ان کو ترمیم شدہ تصور فرما کر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے سمجھ لیں۔ ابتداء سے میری نیت جس کو اللہ خوب جانتا ہے اس لفظ سے مراد نبوت حقیقی نہیں بلکہ صرف محدث مراد ہے۔ جس کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مکلم مراد لیے ہیں یعنی محدثوں کی نسبت فرمایا:
قَدْ کَانَ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنی اِسْرَائیل رِجَالٌ یُکَلِّمُوْنَ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّکُوْنُوْ انْبِیآئَ ۔ (۴۲۴)
عبارت مندرجہ بالا سے ظاہر ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ بموجب حدیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف محدث ہونے کا ہے جو غیر نبی ہوتا ہے ایک دوسری جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے:
'' نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو بحکم خدا کیا گیا ہے۔'' (۴۲۵)
------------------------------------------
(۴۲۳) پ۵ النساء آیت: ۸۳ مرزائی آیت مذکورہ کا معنی چشمہ معرفت ص۱۹۰ میں ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ اگر وہ (قرآن) خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پایا، انتھی بلفظہٖ۔ ابوصہیب
(۴۲۴) دیکھئے باب ہذا کا حاشیہ نمبر ۳۶۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۱)اس کے خلاف صرف محدث ہونے سے انکار
ان (بروزی اور ظلی) معنوں کی رو سے مجھے نبوت اور رسالت سے انکار نہیں۔ اسی لحاظ سے صحیح مسلم میں بھی مسیح موعود کا نام نبی رکھا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ سے غیب کی خبر پانے والا نبی کا نام نہیں رکھتا تو پھر بتلاؤ کس نام سے اس کو پکارا جائے اگر کہو کہ اس کا نام (صرف) محدث رکھنا چاہیے تو میں کہتا ہوں کہ تحدیث کے معنی کسی لغت کی کتاب میں اظہار غیب نہیں مگر نبوت کے معنی اظہار غیب ہے۔ (۴۲۶)
اس عبارت میں صرف محدث ہونے کا انکار اور ظلی بروزی یعنی بہ فیض محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہونے کا اقرار ہے۔
-----------------------------------------------------------
(۴۲۵) ازالہ اوہام ص۴۲۲ و روحانی ص۳۲۰، ج۳
(۴۲۶) اشتہار مرزا، مورخہ ۵ ؍ نومبر ۱۹۰۱ء بنام ایک غلطی کا ازالہ ، مندرجہ مجموعہ اشتھارات مرزا قادیانی ص۴۳۵، ج۳ و روحانی ص۲۰۹، ج۱۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۲) غیر تشریعی نبوت کا دعویٰ
(الف):'' جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں۔ اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کرکے اور اپنے لیے اسی کا نام پا کر اسی کے واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے رسول اور نبی ہوں مگر بغیر کسی جدید شریعت اس طور کا نبی کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کرکے پکارا سو اب بھی میں انہی معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔'' الخ (۴۲۷)
(ب):'' اب بجز محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو پس اس بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی۔'' (۴۲۸)
اس کے خلاف تشریعی نبوت کا ادّعاء
'' اگر کہو کہ صاحب الشریعۃ افترا کرکے ہلاک ہوتا ہے نہ ہر ایک مفتری تو اول یہ دعویٰ بے دلیل ہے خدا نے افتراء کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی۔ ماسوا اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعۃ ہوگیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔'' (۴۲۹)
ہفوات نمبر ۱ کی عبارت میں اپنے دعویٰ کو لغوی غیر حقیقی نبی کہہ کر صرف محدث غیر نبی ہونے کا اقرار کیا وہ بھی از خود نہیں بلکہ بخاری شریف کی حدیث کی رو سے۔ اس کے بعد ''صرف محدث ہونے کا انکار کیا'' اور ہفوات نمبر ۲ کی پہلی تحریر میں بغیر شریعت کے نبی ہونے کا دعویٰ کیا مگر اربعین نمبر۴ کی منقولہ بالا تحریر میں صاحب الشریعۃ ہونے کے مدعی بن گئے۔
-----------------------------------------------------------------------------------------
(۴۲۷) ایضاً مجموعہ ص۴۳۶، ج۳ و روحانی ص۲۱۰، ج۱۸
(۴۲۸) تجلیات الھٰیہ ص۲۰ و روحانی ص۴۱۲، ج۲۰
(۴۲۹) اربعین ص۶، نمبر۴ و روحانی ص۴۳۵، ج۱۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۳) میرے انکار سے کوئی کافر نہیں ہو جاتا
(الف): '' ابتداء سے میرا یہی مذہب ہے کہ میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہوسکتا۔'' (۴۳۰)
(ب): '' مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا نہیں جو ہماری ایمانیات کی جزو ی ہمارے دین کے رکنوں میں ہو۔ بلکہ صدہا پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں جس زمانہ تک پیشگوئی بیان نہیں کی گئی تھی اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔'' (۴۳۱)
(ج): '' اس جگہ تو ایسے انقلاب کا دعویٰ نہیں وہی اسلام ہے جو پہلے تھا۔ وہی نمازیں ہیں جو پہلے تھیں۔ دین میں سے کوئی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو۔ مسیح موعود کا دعویٰ اس حالت میں گراں اور قابل احتیاط ہوتا جبکہ اس کے ساتھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی۔'' (۴۳۲)
مرزا کا دعویٰ تھا کہ میں وہ مسیح ہوں جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ دیا کہ وہ آئے گا۔ عبارات بالا میں مرزا صاحب صاف مانتے ہیں کہ مسیح موعود کا اقرار و انکار ایمانیات میں داخل نہیں۔ کوئی شخص میرے انکار کی وجہ سے کافر نہیں ہو جاتا۔ اس کے خلاف ملاحظہ ہو۔
میرا منکر جہنمی ، کافر غیر ناجی ہے!
(الف):'' ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔'' (۴۳۳)
(ب): '' جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا رسول کو بھی نہیں مانتا کیونکہ میری نسبت خدا و رسول کی پیشگوئی موجود ہے۔'' (۴۳۴)
(ج):'' (اے مرزا) جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور بیعت میں داخل نہ ہوگا وہ خدا رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے۔'' (۴۳۵)
(د): '' اب دیکھو خدا نے میری وحی اور میری تعلیم اور میری بیعت کو نوح علیہ السلام کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لیے اس کو مدار نجات ٹھہرایا۔'' (۴۳۶)
مرزا کا دعویٰ تھا کہ میں وہ مسیح ہوں جس کے بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی کی ہے بایں ہمہ پہلی تحریرات میں صاف لکھا کہ مسیح موعود کا انکار و اقرار ایمانیات میں داخل نہیں، میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ میری تعلیم میں کوئی انقلاب نہیں۔ ہماری عملی حالت دیگر مسلمانوں جیسی ہے بخلاف اس کے دوسری تحریرات میں مسیح موعود یعنی بزعم خود۔ خود بدولت کے انکار کو خدا و رسول کی پیشگوئی کا منکر کافر، بیعت نہ کرنے والے کو اور پیروی سے باہر رہنے والے کو جہنمی اپنی تعلیم کو مدارنجات ٹھہرایا ہے۔
بعض مرزائی جواب دیا کرتے ہیں کہ یہ کوئی اختلاف نہیں:
'' جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر ظاہر نہ فرمایا گیا۔ آپ انکار فرماتے رہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ نے توصیح فرما دی آپ نے بھی اعلان فرما دیا۔'' (۴۳۷)
الجواب:
یہاں اختلاف دعویٰ کے متعلق ہے اور ہم پہلے مرزا صاحب کی تحریرات سے ثابت کر آئے ہیں کہ براہین احمدیہ کے زمانہ سے ہی مرزا صاحب بقول خود خدا کے نزدیک نبی و رسول تھے اور یہ بھی کہ انبیاء کو ان کے دعویٰ میں غلطی نہیں ہوسکتی (۴۳۸)۔ پس مرزا صاحب کا باجود ''نبی اللہ'' ہونے کے یہ کہنا کہ ''میرے دعویٰ کے انکار کی وجہ سے کوئی کافر نہیں ہوسکتا'' اور پھر کافر کہنا دلیل ہے اس بات کی کہ مرزا صاحب خدا کے نبی ہرگز نہ تھے بلکہ ایک مراقی یا حسب موقع و ضرورت خود۔ گرگٹ کی طرح رنگ بدل لینے والے تھے۔
---------------------------------------------------------------------------------
(۴۳۰) تریاق القلوب ص۱۳۰ و روحانی ص۴۳۲، ج۱۵
(۴۳۱) ازالہ اوہام ص۱۴۰ و روحانی ص۱۷۱، ج۳
(۴۳۲) آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۹ و روحانی جلد ۵ صفحہ ایضًا
(۴۳۳) مکتوب مرزا بنام ڈاکٹر عبدالحکیم خاں مرحوم، مندرجہ الذکر الحکیم ص۲۳ نمبر۴ و حقیقت الوحی ص۱۶۳ و روحانی ص۱۶۷، ج۲۲ وتذکرہ ص۶۰۷
(۴۳۴) حقیقت الوحی ص۱۶۳ و روحانی ص۱۶۸، ج۲۲
(۴۳۵) مکتوب مرزا بنام بابو الٰہی بخش صاحب مورخہ ۱۶؍ جون ۱۸۹۹ء مندرجہ اشتھار مرزا مورخہ ۲۵؍ مئی ۱۹۰۰ء و مجموعہ اشتھارات مرزا ص۲۷۵، ج۳ وتبلیغ رسالت ص۲۷، ج۹ وتذکرہ ص۳۳۶
(۴۳۶) اربعین ص۶ نمبر ۴ و روحانی ص۴۳۵، ج۱۷
(۴۳۷) تفہیمات ربانیہ ص۲۲۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۴) مسیح ابن مریم دوبارہ نازل ہوگا
{ ھُو الّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی }
یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ مسیح کے ذریعے ظہور میں آئے گا۔ مسیح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ ان کے ہاتھ سے اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا۔ (۴۳۹)
اس کے خلاف
'' قرآن شریف قطعی طور پر اپنی آیات بینات میں مسیح کے فوت ہو جانے کا قائل ہے۔'' (۴۴۰)
'' قرآن شریف مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں۔'' (۴۴۱)
مقدم الذکر تحریر میں از روئے قرآن مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد بتائی اور مؤخر الذکر عبارت میں از روئے قرآن انکار کیا اس سے نہ صرف اختلاف ثابت ہوا بلکہ مرزا صاحب کی قرآن دانی بھی معلوم ہوگئی۔
اعتراض:
پہلے مرزا صاحب نے رسمی عقیدہ کی وجہ سے حیات مسیح تسلیم کی بعد میں بوحی الٰہی اس عقیدہ کو چھوڑ دیا۔ (۴۴۲)
جواب:
مرزا صاحب صاحب بقول خود براہین احمدیہ کے زمانہ میں ''نبی اللہ'' تھے اور ''مامور الٰہی'' اور خاص کر مامور بھی اس لیے کئے گئے کہ '' قرآن کی اصلی تعلیم'' بیان کریں لہٰذا مرزا کا ایک ایسے عقیدہ کو رسماً نہیں بلکہ بتمسک قرآن لکھنا جو آئندہ ان کے اصلی دعوے کے مخالف بننے والا تھا۔ صاف ثابت کر رہا ہے کہ وہ مفتری علی اللہ تھے۔ انبیاء کو ان کے دعویٰ میں غلطی نہیں ہوسکتی۔ ماسوا اس کے مرزا صاحب کا یہ بھی مذہب ہے کہ:
'' انبیاء اپنے کل اقوال و افعال میں خدا کے ترجمان ہوتے ہیں ان کی اپنی ہستی کچھ نہیں ہوتی، ایک کٹ پتلی کی طرح بلکہ ایک مردہ کی مانند خدا کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔'' (۴۴۳)
پس برامین احمدیہ والا عقیدہ کبھی غلط نہیں جانا جاسکتا تاوقتیکہ انہیں مفتری علی اللہ نہ سمجھا جائے پھر مرزا صاحب کا یہ بھی قول ہے '' روح القدس کی قدسیت، ہر وقت، ہر دم، ہر لحظہ بلا فصل۔ ملہم کے تمام قویٰ میں کام کرتی رہتی ہے۔'' (یہ میرا ذاتی تجربہ ہے) (۴۴۴) خاص کر براہین احمدیہ تو وہ کتاب ہے جو بقول مرزا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں رجسٹری ہوچکی ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں '' خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام قطبی رکھا۔'' (مفہوم ۴۴۵)
ہاں ہاں۔ براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو بقول مرزا ''مؤلف نے ملہم اور مامور ہو کر بغرض اصلاح و تجدید دین تالیف کیا۔'' (اشتہار براہین) (۴۴۶)
پس اس میں اصلاح کی بجائے مسیحیت پاش۔ مرزائیت سوز بارود کا جمع ہونا مرزا کے کاذب ہونے کی شہادت ہے۔
-------------------------------------------------------------
(۴۳۸) اعجاز احمدی ص۲۶ و روحانی ص۱۳۵، ج۱۹
(۴۳۹) براھین احمدیہ ص۴۹۸، ج۴ و روحانی ص۵۹۳، ج۱ و تفسیر مرزا ص۱۱۱، ج۸
(۴۴۰) ازالہ اوہام ص۱۴۲ و روحانی ص۱۷۲، ج۳
(۴۴۱) ایام الصلح ص۱۴۶ و روحانی ص۳۹۲، ج۱۴
(۴۴۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۳۹ وکشتی نوح ص۴۷ و روحانی ص۵۰، ج۱۹
(۴۴۳) ریویو ص۷۱، ۷۲ جلد دوم مفہوم
(۴۴۴) آئینہ کمالات اسلام ص۹۳
(۴۴۵) براھین احمدیہ ص۲۴۸، ج۳ و روحانی ص۲۷۵، ج۱ وتذکرہ ص۴
(۴۴۶) اشتھار مرزا ملحقہ آخر ، سرمہ چشم آریہ و روحانی ص۳۱۹، ج۲
 
Top