• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد  بن عبد الوہاب اور اُن کی تحریک کے عقائد

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
محمد  بن عبد الوہاب اور اُن کی تحریک کے عقائد

اُن کے مراسلات وخطابات کے آئینے میں!

ڈاکٹر محمد بن سعد الشویعر​
اصطلاحاً ’وہابی‘ نام رکھنا، نسبت و اعتقاد کے لحاظ سے اسی طرح غلط ہے جس طرح شیخ محمد اور ان کے متبعین کی طرف منسوب نظریات غلط تھے اور اُن لوگوں نے اس سے برات ظاہر کی۔سلفی عقیدے کے متلاشی دین اسلام کے دونوں سرچشموں: کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی ہدایات کا مقصد زیادہ بہتر سمجھتے ہیں، اس لیے یہ لقب ان لوگوں کے لیے ناگوارِ خاطر نہیں ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جس لقب سے انہیں ملقب کیا گیاہے، وہ محض ایک بہتان ہے جو بحث و مناظرے میں ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ لوگ اس روشن راہ کے راہی ہیں جس پر سیدنا رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو چھوڑا جس کی رات بھی دن کی طرح ہے، ہلاک ہونے والا ہی اس راہ سے بہکے گا، یہ راہ آپﷺ کے قول و فعل اور تقریر سے صحت وسند پر اطمینان کے بعد اِختیار کی گئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ عمران بن رضوان(موصوف خلیج عربی کے ساحل پر واقع ایرانی شہر’لنجہ‘کے علما و معززین میں سے تھے) ہیں، جو بیرونِ جزیرہ کے مسلمان اور اپنے شہر’لنجہ‘کے علما میں سے ہیں۔ جب اُنہیں یہ دعوت پہنچی اور اِس کی سچائی پر اُنہیں یقین ہوگیا تو ایک قصیدے میں اس کی مدح سرائی کی جس میں ذیل کا شعر بھی آیا ہے:
إن کان تابع أحمد متوهّبا فأنا المـقر بـأنني وهّابي​
’’اگر احمد مصطفیﷺ کی پیروی کرنے والا وہابی ہے تو مجھے اپنے وہابی ہونے کا اعتراف ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور یہ شعر اُنہوں نے صرف اس لیے کہا ہے کہ’وہابی‘ کا لقب بقول عراقی عالم محمد بہجت اَثری دشمنانِ اسلام کی خواہش پر رکھا گیا ہے۔ اسلام کے دشمنوں کا خیال تھا کہ عالم اسلام ایک بے جان ڈھانچہ ہوگیا ہے، یقیناً سامراجی طاقتیں اس کی سرزمین ، خزانوں، کانوں اور دیگر قدرتی وسائل پر قابض ہوجائیں گی، پس اس نئی دعوت کو جس کی گونج وسط جزیرہ نما عرب سے مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور اُنہیں ہلاکتوں سے بچانے کے لیے اُٹھی تھی، ایک فرقے کی شکل میں پیش کیا گیا تاکہ فرقوں کی تعداد میں ایک اور اضافہ ہوجائے۔ اسی لیے اسے’وہابیت‘ کا لقب دیا گیا اورشہرت یافتہ ذرائع ابلاغ نے اس لقب کی اشاعت کی جس سے یہ لقب لوگوں میں زبان زدِ عام ہوگیا۔ حکومتِ عثمانیہ کو بھی یہ لقب بھلا لگا، چنانچہ اس نے اسے درویشوں اور شاہی خاندان کی درگاہوں اور خانقاہوں کے دستر خوان پر پلنے والوں کی زبان پر چالو کردیا اور اس پر شبہات ڈالنے اور اس کی صورت مسخ کرنے میں بڑھ چڑھ کر کام کیا، بالخصوص اُس وقت جب اس کی اَہمیت بڑھ گئی اور اس کی بنیاد پر جزیرہ نمائے عرب میں مضبوط عربی اسلامی حکومت قائم ہوگئی۔(دیکھیےكتاب : محمد بن عبد الوهاب: داعیة التوحید والتجدید في العصر الحدیث ’عصر حاضر میں توحید و تجدید کے داعی محمد بن عبدالوہاب﷫‘: ص16،17)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وہابی تحریک کی نوعیت، دعوت اور اہمیت کو جاننے اور اُس کے خلاف اُٹھائے جانے والے شکوک وشبہات اور الزامات کے ازالے کے لئے شیخ محمد بن عبد الوہاب کے دو خطوط کو یہاں پیش کرنا مناسب ہوگا... :
ایک شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ کا اہل قصیم کے نام خط اور دوسرا وہ خط جو شیخ سلیمان بن عبدالوہاب نے علماے مجمعہ میں سے تین کے نام بھیجا تھا، مگر یہاں بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ان دونوں خطوں کی حتمی تاریخ واضح نہیں ہے۔اس خط میں شیخ محمد احمد سلفی﷫دعوت کے سلسلے میں اپنا منہج واضح کرتے ہیں:
’’جب میں شعبان 1407ھ میں موریتانیا گیا تو وہاں کے بعض علما نے اِفادہ عام کے لیے ان دونوں خطوں کا اضافہ کرنے کی درخواست کی تاکہ پڑھنے والے خود اپنی بصیرت کی روشنی میں حقیقتِ حال جان لیں اور صحیح نتیجے تک پہنچ سکیں۔‘‘
ضروری وضاحت: شیخ محمد﷫ کے خطوط کے مطالعے سے پہلے یہاں شیخ کے ایک خط کی وضاحت ضروری ہے تاکہ قارئین کرام پر اصل حقیقت روشن ہوجائے۔ یہ خط اہل قصیم کے نام ہے۔ ان لوگوں نے شیخ محمد﷫ سے ان کا عقیدہ دریافت کیا تھا تو اس استفسار کے جواب میں شیخ  نے یہ مکتوب ارسال کیا۔ اسے اہل قصیم نے مقامی علماے کرام کی خدمت میں اُن کی رائے جاننے کے لیے پیش کردیا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ مقامی علماے کرام شیخ محمد﷫ کی دعوت کی تائید کردیں گے تو وہ اسے قبول کرلیں گے، بصورتِ دیگر کنارہ کش رہیں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ علماے کرام نے شیخ  کے خط کا بڑی احتیاط اور باریک بینی سے مطالعہ کیا اور شیخ محمد﷫ کی نسبت اعلان کردیا کہ وہ راہِ صواب پر ہیں۔ اس جانچ پرکھ اور تحقیق و تفتیش کے بعد اہل قصیم نے شیخ کی دعوت حق قبول کرلی۔ راہِ حق کے مسافروں کا یہی طریقہ ہونا چاہیے۔ یہی شان اور ذمے داری علماے کرام کی بھی ہے کہ وہ معاملے کو علم و بصیرت اور دلیل و برہان کی روشنی میں دیکھیں اورملامت گر کی ملامت سے بے خوف ہوکر سچائی کا اعلان کردیں۔
اَب شیخ کے مکتوبِ گرامی کا مطالعہ فرمائیے۔ شیخ کے دوسرے خطوط بھی اسی طرح کے ہیں جو اِستفسار کرنے والوں کے جواب میں لکھے گئے۔ جس نے جب کبھی اپنے شک و شبے کا اظہار کیا اور شیخ سے سوال کرکے راہِ حق جاننی چاہی تو شیخ نے فوراً جوابِ باصواب مرحمت فرمایا۔ جس کے نتیجے میں لوگوں پر حقیقتِ حال کھل گئی اور اُنہوں نے شیخ کی دعوت قبول کر لی۔ انہوں نے شیخ کے ہاں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو یا ان مسلّمہ عقائد کے منافی ہو جن پر اُمتِ اسلامیہ کی بڑی شخصیات اعتقاد رکھتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ ﷫ کا اہل قصیم کے نام خط (یہ خط شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ کے شخصی خطوط کی خصوصی قسم میں شائع کیا گیاہے، جو ڈاکٹر محمد بلتاجی، ڈاکٹر سید حجاب اورشیخ عبدالعزیز رومی کی تالیف ہے اوریہ پہلا خط ہے جو الدرر السنیۃ :1؍28تا31 سے منقول ہے۔)
1۔جب اہل قصیم نے شیخ سے اُن کے عقیدے کے بارے میں دریافت کیا تو تحریر فرمایا:
بسم الله الرحمٰن الرحیم​
میں اللہ کو، میرے پاس جو فرشتے حاضر ہیں ،اُنہیں اور آپ لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں وہی اعتقاد رکھتا ہوں جو فرقہ ناجیہ اہل السنّۃ والجماعۃ عقیدہ رکھتا ہے، یعنی اللہ پر،اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوکر اُٹھنے پر اور اچھی یا بُری تقدیر پر ایمان رکھتا ہوں اورایمان باللہ ہی میں سے ان تمام صفات پر بغیر حک و اضافہ، ایمان لانابھی شامل ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو اپنی کتاب میں یا اپنے رسولﷺ کی زبان پر متصف کیا ہے۔میرا عقیدہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے مثل کوئی بھی نہیں۔ وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ جن صفات سے اس نے اپنے آپ کو متصف کیا، ان میں سے کسی کا انکار نہیں کرتا، نہ اس کے کلمات کو اُن کی ٹھیک جگہ سے تبدیل کرتا ہوں۔ اس کے ناموں اور آیات میں کج روی نہیں کرتا۔ اس کی کیفیت بیان کرتا ہوں، نہ اس کی صفات کو مخلوق کی صفات جیسی قرار دیتا ہوں کیونکہ وہ بلند و بالا ہے۔ اس کا کوئی ہم نام ہے، نہ کوئی ہم سر ہے اورنہ کوئی اس کا شریک ہے۔ مخلوق پر اسے قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود اپنے آپ کو غیر سے زیادہ جانتا ہے۔ اپنی بات میں سب سے زیادہ سچا ہے اور اس کی بات سب سے زیادہ بہتر ہے، اس کی ذاتِ عالی ان تمام صفات سے پاکیزہ ہے جن سے کیفیت بیان کرنے والے اورتشبیہ دینے والے مخالفین اسے متصف کرتے ہیں، اس نے ان صفات سے بھی خود کو منزہ قرار دیاہے جن کا ردّوبدل اور حک و اضافہ کرنے والے منکرین انکار کرتے ہیں، اس کا ارشاد ہے:
﴿ سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُوْنَۚ٭وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَۚ﴾صافات۔180-181
’’پاک ہے آپ کا ربّ، جو بہت بڑی عزت والا ہے، ہر اس چیز سے (جو مشرک) بیان کرتے ہیں اورپیغمبروں پر سلامتی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور فرقہ ناجیہ’نجات پانے والا گروہ‘ اللہ تعالیٰ کےاَفعال کے بارے میں قدریہ اور جبریہ کے مابین معتدل ہے اور اللہ کی وعید کے بارے میں وہ لوگ فرقہ مرجئہ و جہمیہ کے مابین معتدل ہیں اور اصحابِ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں شیعہ اور خوارج کے مابین معتدل ہیں۔ میں اعتقاد رکھتا ہوں کہ قرآن اللہ کا نازل کردہ کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔ اسی سے اس کی اِبتدا ہوئی اور اُسی کی طرف وہ لوٹ جائے گا، اللہ تعالیٰ نے حقیقتاً اس کے ذریعے سے کلام کیا اوراپنے بندے، اپنے رسول، اس کی وحی کے اَمین، اس کے اور اس کے بندوں کے درمیان اپنے سفیر، ہمارے نبی محمدﷺ پر اسے نازل فرمایا اور اس بات پر ایمان رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے، اسے کر گزرنے والا ہے۔ اس کے چاہے بغیر کوئی چیز نہیں ہوسکتی اورکوئی چیز اس کی مشیت سے خارج نہیں ہوسکتی۔ دنیا میں کوئی چیز اس کی تقدیر سے باہر نہیں ہے، نہ اس کی تدبیر کے بغیر پیدا ہوتی ہے۔ کسی کو متعین تقدیر سے مُفرنہیں۔ لوحِ مکتوب میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میں موت کے بعد پیش آنے والی ہر اس چیز پر یقین رکھتا ہوں جس کی خبر نبی ﷺ نے دی ہے۔ قبر کی آزمائش اور اس کی نعمتوں پر ، اجسام میں رُوحیں لوٹانے پر ایمان رکھتا ہوں اورلوگ ربّ العالمین کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن، بغیر ختنہ کھڑے ہوں گے۔ آفتاب اُن سے قریب ہوگا، ترازو قائم کی جائے گی اور اس سے بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا جن کے ترازو کا پلڑا بھاری ہوگا، وہ تو نجات پانے والے ہوں گے اور جن کے ترازو کا پلڑا ہلکا ہوگیا، یہی ہیں وہ جنہوں نے اپنا نقصان آپ کرلیا اور ہمیشہ کے لیے واصل جہنم ہوئے۔ دفاتر پھیلا دیے جائیں گے ، کوئی اپنا نامۂ اَعمال اپنے داہنے ہاتھ میں لے گا اورکوئی اپنے بائیں ہاتھ میں لے گا، ان سب باتوں پر میرا ایمان ہے۔
میدانِ حشر میں ہمارے نبیﷺ کے حوض پر میرا یقین ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ اس کے ساغر آسمان کے ستاروں کی تعداد میں ہوں گے ، جو اس حوض سے ایک بار پانی پی لے گا اس کے بعد کبھی پیاس نہیں محسوس کرے گا، میرا اس بات پر ایمان ہے کہ پل صراطِ جہنم کے کنارے پر رکھا جاچکا ہے ، لوگ اس سے اپنے اپنے اَعمال کی حیثیت کے مطابق گزریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
میں نبیﷺ کی شفاعت پر ایمان رکھتا ہوں اور اس بات پر بھی کہ آپ سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہوں گے اور سب سے پہلے آپﷺ ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ صرف اہل بدعت اور گمراہ لوگ نبی ﷺ کی شفاعت کے منکر ہیں لیکن شفاعت اللہ کی اِجازت اور رضا مندی کے بعد ہی ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَ لَا يَشْفَعُوْنَ١ۙ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰى ﴾الانبیاء28
’’وہ کسی کی بھی سفارش نہیں کریں گے بجز اُن کے جن سے اللہ خوش ہو۔‘‘
اور اِرشاد ہے:
﴿ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ ﴾ البقرۃ255
’’کون ہے جو اس کی اِجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے۔‘‘
نیز اِرشاد فرمایا:
﴿ وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِي السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِيْ شَفَاعَتُهُمْ شَيْـًٔا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ يَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَرْضٰى﴾ النجم26
’’اور کتنےہی فرشتے آسمانوں میں ہیں جن کی سفارش ذرا بھی کام آنے والی نہیں، مگریہ اوربات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی خوشی اور اپنی چاہت سے جس کے لیے چاہے اِجازت عطا کردے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اللہ تعالیٰ توحید ہی سےراضی ہوگا اور اہل توحید ہی کو اہل توحید کی سفارش کرنے کی اِجازت دے گا۔ رہے مشرکین تو شفاعت میں ان کا کوئی حصہ نہیں جیساکہ اِرشاد ربانی ہے:
﴿ فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِيْنَؕ﴾المدثر48
’’انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش کوئی نفع نہ دے گی۔‘‘
میرا اس بات پر ایمان ہے کہ جنت اور جہنم مخلوق ہیں۔ دونوں اس وقت موجود ہیں اور دونوں فنا نہیں ہوں گے۔اہل ایمان قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اُسی طرح اپنی نگاہوں سے دیکھیں گے جس طرح چودھویں رات کا چاند دیکھتے ہیں ، اس کی دید سے کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔
میں یہ بھی ایمان رکھتاہوں کہ ہمارے نبی محمدﷺ سارے نبیوں اورپیغمبروں پر مہر ہیں۔ کسی بندے کا ایمان، جب تک وہ آپ ﷺ کی رسالت پر ایمان نہ لائے اور آپﷺ کی نبوت کی گواہی نہ دے، صحیح نہ ہوسکتا۔ آپﷺ کی اُمت میں سب سے اَفضل اَبوبکر صدیق، پھر عمر فاروق، پھر عثمان ذوالنورین، پھر علی مرتضیٰ ، پھر باقی عشرہ مبشرہ، پھر اَہل بدر، پھر درخت والے اَصحابِ بیعتِ رضوان ، پھر باقی صحابہ ہیں۔
 
Top