• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد  بن عبد الوہاب اور اُن کی تحریک کے عقائد

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ایک موقع پر شیخ محمد﷫ مسجد نبوی میں موجود تھے۔لوگ استغاثہ و استعانت کی صداؤں میں گم تھے اورعجیب و غریب حرکتیں کررہے تھے۔ اسی لمحے تدریس حدیث کے جلیل القدر معلم محمد حیات سندی﷫ جو شیخ محمد کے اتالیق بھی تھے، وہاں آگئے۔ شیخ نے جاہلانہ حرکتیں کرنے والوں کی طرف اُنگشت نمائی کی اور پوچھا: ان لوگوں کی نسبت آپ کی کیا رائے ہے؟ موصوف نے معاً سورہ اعراف کی یہ آیت پڑھی:
﴿ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ مُتَبَّرٌ مَّا هُمْ فِيْهِ وَ بٰطِلٌ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾الاعراف139
’’یہ لوگ جس کام میں لگے ہوئے ہیں، وہ باطل ہے اور نیست و نابود ہوکر رہے گا۔‘‘
مذہبی حالت کے علاوہ عرب کی سیاسی اور سماجی حالت بھی خراب تھی۔ عثمانی ترکوں کی حکمرانی کا سکہ چل رہا تھا، نجد چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا۔ خانہ جنگی عام تھی۔ فقر وفاقہ مسلط تھا۔ ترکوں کے زیر اہتمام مصر سے رقوم آتی تھیں اورمزاروں کے مجاوروں اورمتولّیوں میں بانٹی جاتی تھیں۔ لوگوں کی گزر بسر مزاروں ، قبروں اور آستانوں کی مجاوری ، گداگری اور لوٹ کھسوٹ پر موقوف تھی۔ یہ حالات دیکھا کر شیخ کا حساس دل تڑپ اٹھا اور وہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کی دعوت کا پرچم لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کی دعوت کا خلاصہ یہ ہے :
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
1۔ عقیدہ و عمل کی بنیاد صرف قرآن وسنت کی تعلیمات پر رکھی جائے۔
2۔ نماز، روزہ، حج اور اداے زکوٰۃ کا التزام کیا جائے۔
3۔ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات صرف اسی کی ذاتِ عالی سے وابستہ ہیں، ان میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
4۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے، پس اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ مانگا جائے۔
5۔ پختہ قبریں اور مقبرے نہ بنائے جائیں۔
6۔ شراب، تمباکو، جوا، جادو، ریشم اور سونا نہایت سختی سے ممنوع ہے۔
شیخ ﷫ کا جذبہ حق پرستی بڑا پُرجوش تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کی دعوت ہر مسلمان کے رگ و ریشے میں نفوذ کرجائے اور برگ و بار لائے۔ اُنہوں نے دعوت کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ ان کے والد جناب عبدالوہاب﷫ اپنے نورِنظر کی حق پرستی اور علمی وجاہتوں سے اتنے خوش ہوئے کہ اُنہوں نے خود نماز پڑھانی موقوف کردی اوراپنے داعی الیٰ اللہ بیٹے کو آگے بڑھاکر اِمامت کے مُصلے پر کھڑا کردیا۔ شیخ ﷫ نے اپنے اہل خانہ، عزیز و اقارب اور عیینہ کے رہنے والوں کے علاوہ دور و نزدیک کے تمام اکابر و اصاغر کو اصل دین کی طرف رجوع کی دعوت دی۔ موصوف کا خیال تھا کہ بااثر حکام کی مدد حاصل کیے بغیر دعوت کا کام آگے نہیں بڑھے گا، چنانچہ اُنہوں نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو قبولِ حق کی دعوت دی تو اُس نے خوش سے قبول کرلی لیکن ملال کی بات یہ ہے کہ وہ اس عظیم دعوت پر استقامت نہ دکھا سکا۔ شیخ نے عثمان بن معمر کو اپنی رفاقت میں رکھ کر نماز باجماعت کا اہتمام کیا جو پہلے اس علاقے میں مفقود تھا۔ نماز نہ پڑھنے والوں اورجماعت کا التزام نہ کرنے والوں کے لیے سزائیں تجویز کیں۔ شرک و بدعت کے اڈّوں کا صفایا کردیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جن درختوں کی پوجا کی جاتی تھی وہ کٹوا دیئے اورجن قبروں اور قبوں کو ملجا و ماویٰ سمجھا جاتاتھا، اُنہیں ڈھا دیا۔ یہ کوئی انوکھا اقدام نہیں تھا۔ حضرت عمر نے بھی بہت سے دینی مصالح کی بنا پر وہ درخت کٹوا دیا تھا جس کی چھاؤں میں جناب رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پر بیعتِ رضوان ہوئی تھی۔ پکّی قبروں اور قبوں کو مسمار کرنے کے بارے میں علامہ ابن حجر ہیثمی﷫ اپنی کتاب الزواجر عن اقتراف الکبائر میں فرماتے ہیں:
وتجب المبادرة لهدمها وهدم القباب التي علىٰ القبور إذ هي أضر من مسجد الضرار (الزواجر عن اقتراف الکبائر، ج١ص ١٤٩، کبیرہ گناہ نمبر ٩٣تا ٩٨)
یعنی ’’قبروں اور ان پر بنے ہوئے قبوں کو فوراً مسمار کردینا چاہیے، اس لیے کہ یہ’مسجد ضرار‘ سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب ﷫زیارتِ قبور کے خلاف نہیں تھے۔ وہ ان مشرکانہ رسوم اورخرافات کے خلاف تھے جو قبروں اور آستانوں پر روا رکھی جاتی تھیں۔ اسی موقع پر آپ نے تبلیغی رسالے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مرتے دم تک جاری رہا۔
عیینہ میں اصلاح عقیدہ و عمل کا کام آہستہ آہستہ پھیلتا جارہا تھا کہ ایک دن ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ایک لڑکی کسی کمزور لمحے میں جوانی کی بھول کا شکار ہوگئی۔ یہ لڑکی شادی شدہ تھی۔ اپنے گناہ پر بہت نادم ہوئی۔ شیخ کی خدمت میں پہنچی۔ سارا ماجرا سنایا اور سبیل نجات کی خواہش ظاہر کی۔ شیخ اس لڑکی کی روداد سن کر سنّاٹے میں آگئے۔ اُنہوں نے اس المیے کے تمام پہلوؤں کی چھان پھٹک کی اوراس بدقسمت لڑکی پر بار بار جرح کرتے رہے۔ وہ ہٹ کی پکّی تھی، ٹلی نہیں۔ رہ رہ کر اقرارِ گناہ کرتی رہی،چنانچہ شیخ نے سنگساری کا فیصلہ سنا دیا اور علاقے کے مسلم حاکم عثمان بن معمر نے مسلمانوں کی ایک جماعت کےساتھ اس لڑکی کو سنگسار کردیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لڑکی کے سنگسار ہوجانے کی خبر سارے نجد میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔اس زمانے میں یہ اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ تھا، جس نے سنا دم بخود رہ گیا۔ خاص طورپر وہ مالدار لوگ بہت گھبرائے جو زر خرید عیاشیوں سے رت جگے کرتے تھے۔ اللہ اللہ! ربّ العزت کےاحکام کی تعمیل میں کس قدر برکتیں اور خیر کثیر چھپی ہوئی ہے، جب تک اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ان حکموں میں چھپی ہوئی زبردست حکمتیں اور فیوض و برکات بھی عیاں نہیں ہوتے۔ اس کااندازہ اسی سنگساری کے واقعے سے لگائیے کہ جونہی یہ واقعہ رونما ہوا، سابقہ حالت یکسر بدل گئی اور شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ کی دعوت گھر گھر پھیل گئی ۔ پہلے کوئی شیخ کی بات پر توجہ نہیں دیتاتھا، اب سبھی شیخ کی طرف متوجہ ہوگئے اور ہر جگہ انہی کی تحریک کاچرچا ہونے لگا۔
ہوتے ہوتے یہ خبر حکامِ بالا کو پہنچی۔احساء و قطیف کا حاکم اعلیٰ سلیمان بن محمد عزیز حمیدی بدمعاش اور عیاش آدمی تھا۔ اِسے یہ خبر سن کر بڑاغصہ آیا۔ اس نے امیر عیینہ عثمان بن معمر کو فوراً لکھا : مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے ہاں ایک مولوی شرعی فیصلے لاگو کررہا ہے ۔ اسے فوراً قتل کردو، ورنہ ہم تمہیں جو سالانہ بارہ سو دینار اور دیگر امداد بھیجتے ہیں، وہ بند کردی جائے گی۔ عثمان بن معمر یہ حکم نامہ پاکر سراسیمہ ہوگیا۔ اسے اپنے منصب اوردرہم و دینار چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوا تو اس نے شیخ محمد کو عیینہ سے باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جو لوگ اللہ رب العزّت کو اپنا دل دے دیتے ہیں، ان کےلیے اپنے وطن کے مالوفات بھی کوئی کشش نہیں رکھتے۔ وہ جہاں جاتے ہیں، نیکی کے بیج بوتے ہیں اور اعمالِ صالحہ کی فصلیں تیار کرنے لگتے ہیں۔ شیخ نےجلا وطنی کا حکم صبر اور سکون سے سنا۔ وہ بڑی بے بسی اور تہی دامنی کی حالت میں عیینہ سےنکلے۔ درعیہ کا قصد کیا۔ بے آب و گیاہ صحرا کی وسعتیں تھیں، شدید گرمی تھی، کڑی دھوپ پڑ رہی تھی اور شیخ  تنہا بہ تقدیر پیدل چلے جارہے تھے ؎
لیے جاتی ہے کہیں ایک توقع غالب۔۔۔۔ جادہ رہ کشش کاف کرم ہے ہم کو​
پیچھے پیچھے عثمان بن معمر کا فرستادہ سپاہی فرید طفیری گھوڑے پرسوار چلا آتاتھا۔ اس نے ویرانے میں شیخ کو قتل کرنےکے لیےہاتھ اُٹھانا چاہا مگر اللہ کی ایسی زبردست نصرت آئی کہ وہ اس مذموم ارادے سے خود ہی ڈر گیا اور الٹے پاؤں عیینہ بھاگ گیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ محمد بن عبدالوہاب﷫ درعیہ پہنچے ۔ امیر درعیہ محمد بن سعود اور ان کےبھائیوں نے شیخ کا پرتپاک خیر مقدم کیا۔ موصوف نے محمد بن سعود کو بھی دعوتِ حق کی ترغیب دی جو اس نیک بخت انسان نے قبول کرلی۔ یوں شیخ محمد بن عبدالوہاب اورخاندانِ سعود میں باطل عقائد کے خاتمے اوراللہ کے دین کے نفاذ کے لیے وَتَعَاوَنُوا عَلیٰ الْبِرِّ وَالتَّقْوَی کا معاہدہ طے پاگیا۔ اس کی برکت سے وہ عظیم الشان انقلاب ظہور میں آیا کہ خاندانِ سعود کو اللہ تعالیٰ نے پورے ملک کی فرمانروائی عطا کردی۔ اور سارے جزیرہ نمائے عرب سے شرک و بدعت اور مکروہات و خرافات کا خاتمہ ہوگیا۔ آج وہاں توحید کے زبردست حسنات و برکات کا کھلے عام مشاہدہ ہورہا ہے۔ الحمدللہ! دنیابھر میں کہیں اتنا امن و استحکام اورعدل و انصاف موجود نہیں جتنا سعودی عرب میں ہے۔ یہ سب کچھ شرک و بدعت کے خاتمے اور دین قیم کے نفاذ کا فیضان ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کسی دعوے یا دعوت کی سچائی پرکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے داعی کا عمل دیکھا جائے اور یہ جانچا جائے کہ وہ دنیاوی شان و شوکت ، مال و زر،اونچے عہدے اور نفسانی مطلوبات و مرغوبات کا دل دادہ تو نہیں ہے؟ اگر وہ ان چیزوں سے دور ہے تو یقیناً سچا ہے۔ اس کسوٹی پر شیخ محمد کو پرکھا جائے تو وہ کامل معنوں میں سچے، کھرے، مخلص، بےلوث اورمثالی مسلمان نظر آتے ہیں۔ بے داغ صداقت کی وجہ سے تمام اہل نجد شیخ محمد کے فدائی بن گئے تھے اورشیخ کےکردار کی بلندی اور دعوت کی سچائی کی بدولت سارا نجد شیخ کی زندگی ہی میں خاندانِ سعود کے زیر نگیں آگیاتھا۔ امیر محمد بن سعود اور ان کے جانشین امیر عبدالعزیز شیخ کی راہوں میں آنکھیں بچھاتے تھے اور اُن سے مشورہ کیے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ مگر شیخ نے اپنے اس عالی رتبے سے کبھی کسی قسم کا کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ وہ دعوت الیٰ اللہ ہی کے فروغ کی دھن میں سرگرمِ عمل رہے۔ کسی اونچے منصب، عیش و راحت یا دنیاوی مال و دولت کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ اُنہوں نے اپنی اولاد کو بھی اعلیٰ درجے کی دینی تعلیم و تربیت دی اوردنیاوی جاہ و حشم اور مال و زر کی طمع سے دور رکھا۔ اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ آج بھی ان کی اولاد و احفاد سعودی عرب میں عظیم دینی خدمات انجام دے رہی ہے اورکسی دنیاوی منصب یا منفعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ شیخ کی اولاد سعودی عرب میں’آل شیخ‘ کے نام سے معروف ہے اور انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں جب بھی دعوتِ حق کا ظہور ہواہے، اس کا واسطہ تین طرح کے لوگوں سے پڑا ہے:
1۔ وہ لوگ جنہوں نےد عوت قبول کرلی۔
2۔ وہ لوگ جنہوں نےقبول نہیں کی اورچُپ چاپ اپنی ڈگر پر چلتے رہے۔
3۔ اور تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے نہ صرف دعوت قبول نہیں کی بلکہ وہ داعی اور دعوت کے دشمن بن گئے اور آخر دم تک دعوت حق کا چراغ بجھانے کی مذموم کوشش کرتے رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ہر داعی حق کی طرح شیخ محمد بن عبدالوہاب پر بھی یہی ماجرا گزرا۔ انہوں نے کوئی نئی چیز پیش نہیں کی۔ اُن کی ساری دعوت، تمنا اور تڑپ صرف یہ تھی کہ مسلمان فضول باتیں ترک کردیں۔ قرآن و سنت کی طرف پلٹ آئیں اور سچّے عملی مسلمان بن جائیں۔ بنابریں بارہویں صدی ہجری کی اتنی سچی، اتنی پاکیزہ اور اس قدر دل رُبا انقلابی دعوت کو دوسری صدی ہجری کی خارجی وہابیت(دوسری صدی ہجر ی میں خوارج كے اباضی فرقے کی ایک تحریک جو خارجی فرقے کے ایک شخص عبد الوہاب بن عبد الرحمٰن بن رستم سے منسوب تھی، اس تحریک کے بارے میں مغربِ اقصےٰ اور اندلس کے بعض علماء کے شدید فتاوٰی بھی شمالی افریقہ میں پائے جاتے ہیں۔یہ ایک گمراہ فرقہ تھا جس سے محمد بن عبد الوہاب کی تحریک کو متہم کرکےبدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کی وضاحت اور مزید تفصیلات کے لئے محولہ بالا کتاب کا صفحہ 18، اور 19 ملاحظہ ہو۔ ح م )سے منسوب کرنا حق و صداقت کی آخری توہین اور عہدِ جدید کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔
فرنگی سامراج، ترکی اورمصری مدتوں شیخ  پر رکیک حملےکرتے رہے۔ ان کی کمک پر مامور یا مجبور علما مزاروں کی آمدنی سے مالا مال پیر فقیر، ان کے مرید اور متوسلین بھی کم و بیش ڈھائی سو سال سےالزام و دشنام کے تیر برساتے آرہے ہیں۔ اگر ایک انسان کا قاتل پوری انسانیت کا قاتل ہے تو شیخ محمد کی دعوتِ حق پر جھوٹے الزامات لگانے اورسچائی کا خون کرنے والوں کو کیاکہاجائے گا؟ ؎
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں!​
(ماخوذ از کتاب: ’تاریخ وہابیت؛ حقائق کے آئینے میں‘ ، طبع دارالسلام، لاہور)
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
حکومتِ عثمانیہ اسلامی حکومت کے دعویدار ہونے کی بنا پر لوگوں سے زیادہ قریب تھی۔ اس نے ہم سے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر کئی شدید جنگیں کیں۔ ہر طرف سے ہمارا محاصرہ کرلیا۔ مدحت پاشانے قطیف اوراحساء کی جانب سے ہم سے جنگ کی، حجاز اوریمن کی طرف سے لشکرِ جرار کی چڑھائی کرادی، شمالی جانب سے عثمانی لشکر چڑھ آیا، ہمیں نیست و نابود کرنےاور اندر خانہ مارنے کے لیے ہر جانب سے محاصرہ کرلیا گیا۔ کیسی کیسی جھوٹی باتیں گھڑی گئیں، غلط باتوں کی کیسی دھول اُڑائی گئی۔ دعوت جس کو تحریک وہابیت کانام دیا گیا، اسے نیا مذہب بتایا گیا۔ امام محمد بن عبدالوہاب﷫ پر تہمت لگائی گئی کہ وہ تحریک وہابیت کی ایک نئی بدعت لے کر آئے ہیں اور وہابیوں سے جنگ کرنا فرض ہے، پھر خوبصورت الفاظ سے کانوں کو دھوکے دیئے گئے۔ ہم سے جنگ کی گئی۔ بھولے بھالے اورکم عقل عوام کو ہمارے خلاف بہکایا گیا۔ وہ دھوکا کھاگئے اور حکومت کی باتوں میں آکر ہم سے دشمنی کرنےلگے۔ لیکن ان تمام باتوں کی باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح و نصرت عطا فرمائی۔ اس دور میں اوروں نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا، ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا اوردین ہی کے نام پر ہمیں ختم کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان پر کامیابی عطا فرمائی اور اپنے کلمے کو بلند و بالا رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوت توحید سے جو دلوں میں ہے اور طاقت ایمان سے جو سینوں میں ہے، ہماری مدد فرمائی۔
کلمہ گو سے جہاد کا یہ ثبوت نہیں ہے ؟
 
Top