• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمد  بن عبد الوہاب اور اُن کی تحریک کے عقائد

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شاہ عبدالعزیز کا اصلاحی کردار
سقوط خلافت اِسلامیہ عثمانیہ کے بعد 1343ھ؍بمطابق1926ء میں شاہ عبدالعزیز مکہ میں داخل ہوئے۔ جب مدینہ اورجدہ کے علاقے ان کی قیادت میں نئی حکومت کے حدود میں آگئے تو ان کے خلاف کئی غیرملکی آوازیں اٹھیں اور اُنہوں نے ان پر کئی باتوں کی تہمت لگائی جن سے وہ بری ہیں۔ کسی نے کہاکہ وہ وہابی مذہب کے ماننے والے ہیں جوپانچواں مذہب ہے۔ اُنہوں نے حرمین شریفین کا تقدس پامال کیا، مسجد نبوی پر بم برسائے اور عزتیں لوٹیں۔ وہ نبی ﷺ سے محبت نہیں رکھتے اور آپ ﷺ پر درود نہیں بھیجتے۔ اس کے علاوہ دیگر کذب بیانیاں بھی کیں جو پہلے دہرائی جاچکی ہیں۔ اسی دوران علماے اہل حدیث کاایک گروپ آیا جس نے حج کیا، مسجد ِنبویؐ کی زیارت کی اور ان الزامات کو یکسر غلط پایا جو اُن پر لگائے جارہے تھے اور ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کیاجارہا تھا۔ یہ لوگ اپنے اطمینان کے بعد ہندوستان واپس آگئے تاکہ اتہامات کی تردید کریں اورآنکھوں دیکھی حقیقت حال بیان کریں۔ اُنہوں نے لکھنؤ اور دلّی کانفرنس کی تردید کے لئے دو کانفرنسیں منعقد کیں۔ اخباروں نے جن میں اخبار اہل حدیث، اخبار ِمحمدی اورروزنامہ زمیندار پیش پیش تھے، شاہ عبدالعزیز کی حقیقی کارگزاری بیان کی۔ اُنہوں نے حرمین شریفین میں جواصلاحات کیں اورحجاج کے آرام و راحت اور امن و سکون کے لیے جو اَقدامات کیے، ان کی تفصیلات شائع کیں۔ مزید برآں اُن کے عقیدے کی سلامتی اور اللہ کے دین کے لیے ان کی غیرت و حمیت کے جذبات کا حال لکھا۔ شاہ عبد العزیز﷫ جس عقیدے پر مضبوطی سے قائم تھے۔ اس کی وضاحت کے لیے اُنہوں نے خطوط بھی لکھے اورہر سال حجاج کے وفود کے روبرو اپنےفکر و عمل کے اَحوال بھی بیان کرتے رہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
3۔ اس دوران شاہ عبد العزیز نے یکم ذی الحجہ 1347ھ بمطابق 11 مئی 1929ء کومکہ میں شاہی محل میں’یہ ہمارا عقیدہ ہے!‘ کے زیر عنوان ایک جامع تقریر کی۔ اس میں اُنہوں نے وضاحت سے کہا: لوگ ہمارا نام’وہابی‘ رکھتے ہیں اورہمارے مذہب کو پانچواں مذہب ٹھہرا کر’وہابی‘ کہتے ہیں، حالانکہ یہ ایک فاش غلطی ہے جو جھوٹے پروپیگنڈے سے پیدا ہوئی ہے۔ اس کی اِشاعت خود غرض لوگ کیا کرتے تھے۔ ہم کسی نئے مذہب یا نئے عقیدے کے ماننے والے نہیں۔ اورمحمد بن عبدالوہاب﷫ کوئی نیا مذہب لے کر نہیں آئے، بلکہ ہمارا عقیدہ سلف صالحین ہی کا عقیدہ ہے ، ٹھیک وہی عقیدہ ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں آیا ہے اورجس پر سلف صالحین کاربند تھے۔
ہم اَئمہ اربعہ کا احترام کرتے ہیں ،امام مالک، شافعی، احمد اور ابوحنیفہ ﷭ کے مابین ہم کوئی تفریق نہیں کرتے، یہ سب ہماری نظر میں محترم و معظم ہیں۔ ہم فقہ میں مذہب حنبلی کو ترجیح دیتےہیں۔
یہ وہ عقیدہ ہے جس کی دعوت دینے کے لیے شیخ محمد بن عبدالوہاب ﷫اُٹھے اور یہی ہمارا بھی عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ اللہ عزوجل کی توحید پر مبنی ہے۔ ہر قسم کی آمیزش سے پاک ہے۔ ہر بدعت سے منزہ ہے۔ یہی وہ عقیدہ توحید ہے جس کی ہم دعوت دیتے ہیں اوریہی عقیدہ ہمیں آزمائش و مصائب سے نجات دے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رہا وہ تجدد جس کا بعض لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں اورمسلمانوں کو فریب دیتے ہیں کہ اس تجدد میں ہمارے دکھوں کا علاج موجود ہے تو میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ یہ تجدّد دنیاوی اوراُخروی دونوں لحاظ سے ہر سعادت سے خالی ہے۔
یقیناً مسلمان جب تک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کی پابندی کرتے رہیں گے بھلائی میں رہیں گے۔ خالص کلمہ توحید کے بغیر ہم سعادتِ دارین حاصل نہیں کرسکتے۔ہمیں وہ تجدد ہرگز نہیں چاہیے جو ہمارا عقیدہ اوردین ضائع کردے۔ ہمیں اللہ عزوجل کی رضا چاہیے اور جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عمل کرے گا، اللہ اس کے لیےکافی ہے۔ وہ اس کا مددگار ہوگا۔ مسلمانوں کو ماڈرن بننے کی ضرورت نہیں، اُنہیں صرف سلف صالحین کے منہج کی طرف واپسی کی ضرورت ہے۔ جو چیز کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں آئی، اس پر مسلمانوں نے عمل نہیں کیا تو وہ گناہوں کی کیچڑ میں لت پت ہوگئے۔ اللہ جل شانہ نے اُنہیں ذلیل و خوار کیا۔ وہ ذلت و رسوائی کی اس حد کو پہنچ گئے جس پر آج آپ انہیں دیکھ رہے ہیں، اگر وہ کتاب اللہ اورسنت رسول اللہ ﷺ کو مضبوطی سے تھامے رکھتے تو جن آزمائشوں اور گناہوں میں آج مبتلا ہیں، وہ اُنہیں لاحق نہ ہوتے ، نہ وہ اپنی عزت و سربلندی کو ضائع کرپاتے۔میرے پاس بے سروسامانی کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں اسی حالت میں نکلا، میرے پاس افرادی قوت بھی نہیں تھی۔ دشمن میرے خلاف اکٹھے ہوگئے تھے لیکن اللہ کے فضل اور اس کی قوت سے مجھے غلبہ حاصل ہوا اور یہ سارا ملک فتح ہوگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج مسلمان مختلف مذاہب میں بٹ گئے ہیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ غیر مسلم پردیسی ہماری مصیبت کا سبب ہیں۔ سب کچھ ہمارا کیا دھرا ہے۔ اپنی مصیبتوں کا سبب ہم خود ہیں، غور فرمائیے ! ایک غیر مسلم پردیسی کسی ایسے ملک میں جاتاہے جہاں کروڑوں مسلمان ہوتے ہیں اوروہ تنہا اپنے کام میں لگا رہتا ہے تو کیا ایسا تن تنہا شخص لاکھوں کروڑوں اَفراد پر اَثرا انداز ہوسکتا ہے جب تک کہ مقامی لوگوں میں سے کچھ لوگ اپنے افکار و کردار سےاس سے تعاون نہ کریں؟
نہیں، ہرگز نہیں، غیروں کے یہی معاونین ہماری مصیبتوں اور آزمائشوں کا سبب ہیں۔ ایسے مددگار ہی دراصل اللہ کے اور خود اپنے نفس کے دشمن ہیں، لہٰذا قابل ملامت وہ کروڑوں مسلمان ہیں ، نہ کہ غیر مسلم پردیسی۔ کوئی تخریب کار ایک مضبوط محکم عمارت میں تخریب کاری کی جتنی چاہے کوشش کرلے جب تک عمارت میں شگاف نہ پڑے اور کدال گھسنے کی راہ ہموار نہ ہو، وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہی حال مسلمانوں کا ہے۔ اگر وہ متفق و متحد اوریک جان رہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ ان کی صفوں میں سوراخ کردے اوران کا کلمہ منتشر کردے۔
اس ملک میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو اسلامی جزیرہ نمائے عرب کو نقصان پہنچانے، اَندر ہی اَندر اس پر ضرب لگانے اور ہمیں تکلیف دینے کے لیے غیر مسلم تارکین وطن کی مدد کرتے ہیں، لیکن ان شاء اللہ جب تک ہماری نبض چل رہی ہے، ان کی یہ مذموم خواہش پوری نہیں ہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسلمان متفق ہوجائیں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ پر عمل کریں، اس طرح وہ یقیناً کامیاب اور بہ عافیت رہیں گے۔ پس مسلمانوں کو چاہیے کہ آگے بڑھیں، اللہ کی کتاب اور اس کے نبی محمدﷺ کی سنت میں جو کچھ آیاہے، اس پر عمل کرنے اور توحید خالص کی دعوت دینے کے لیے آپس میں متحد ہوجائیں تو میں بھی اُن کی طرف قدم بڑھاؤں گا اور جو کام وہ کریں گے اور جو تحریک لے کر وہ اُٹھیں گے، میں ان کےدوش و بدوش رہ کر ان کا ساتھ دوں گا۔
اللہ کی قسم! مجھے حکومت پسند نہیں۔ یہ اَچانک میرے ہاتھ آگئی ہے۔ میں صرف رضائے اِلٰہی کا آرزو مند ہوں اور توحید کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔ مسلمان اسے مضبوطی سے پکڑنے کا عہد کریں اور متحد ہوجائیں۔ یوں میں ایک بادشاہ، لیڈریا ایک امیر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک خادم کی حیثیت سے ان کے شانہ بہ شانہ چلوں گا۔(دیکھیے المصحف والسیف ...جمع وترتیب: مجد الدین القابسی، ص :55، 56)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
4۔ 23 محرم 1348ھ بمطابق یکم جولائی 1929ء کو ایک تقریر میں اُنہوں نے فرمایا:
آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ بعض لوگ راہِ ہدایت سے الگ ہوگئے ہیں، صراطِ مستقیم سے ہٹ گئے ہیں اوران چالوں کی وجہ سے جو بعض مدعیانِ اسلام چلتےہیں اوراسلامی غیرت کا اعلان اور اظہار کرتے ہیں، شیطان کے پھندے میں پڑگئے ہیں۔ اللہ گواہ ہے کہ دین ان سے اور اُن کی کارستانیوں سے بَری ہے۔
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور برابر کہتا رہوں گا کہ جتنا خطرہ مجھے بعض مسلمانوں سے لاحق ہے، اتنا غیر مسلم تارکین وطن سے نہیں، کیونکہ ان کا معاملہ عیاں ہے، ان سے بچنا ممکن ہے، ان کےحملوں کو روکنے، ان کی چال بازیوں کا ناکام بنانے کے لیے تیاری ممکن ہے، یہ لوگ اسلام کے نام پر ہم سے جنگ کرنےکی طاقت نہیں رکھتے۔ رہے بعض مسلمان تو یہ لوگ اب تک نجد اور اہل نجد کے خلاف اسلام اور مسلمانوں کے نام پر چالیں چلتے ہیں اور اسلام کا نام لے کر اپنے مسلمان بھائیوں سے جنگ کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حکومتِ عثمانیہ اسلامی حکومت کے دعویدار ہونے کی بنا پر لوگوں سے زیادہ قریب تھی۔ اس نے ہم سے اسلام اور مسلمانوں کے نام پر کئی شدید جنگیں کیں۔ ہر طرف سے ہمارا محاصرہ کرلیا۔ مدحت پاشانے قطیف اوراحساء کی جانب سے ہم سے جنگ کی، حجاز اوریمن کی طرف سے لشکرِ جرار کی چڑھائی کرادی، شمالی جانب سے عثمانی لشکر چڑھ آیا، ہمیں نیست و نابود کرنےاور اندر خانہ مارنے کے لیے ہر جانب سے محاصرہ کرلیا گیا۔ کیسی کیسی جھوٹی باتیں گھڑی گئیں، غلط باتوں کی کیسی دھول اُڑائی گئی۔ دعوت جس کو تحریک وہابیت کانام دیا گیا، اسے نیا مذہب بتایا گیا۔ امام محمد بن عبدالوہاب﷫ پر تہمت لگائی گئی کہ وہ تحریک وہابیت کی ایک نئی بدعت لے کر آئے ہیں اور وہابیوں سے جنگ کرنا فرض ہے، پھر خوبصورت الفاظ سے کانوں کو دھوکے دیئے گئے۔ ہم سے جنگ کی گئی۔ بھولے بھالے اورکم عقل عوام کو ہمارے خلاف بہکایا گیا۔ وہ دھوکا کھاگئے اور حکومت کی باتوں میں آکر ہم سے دشمنی کرنےلگے۔ لیکن ان تمام باتوں کی باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح و نصرت عطا فرمائی۔ اس دور میں اوروں نے بھی ہمارے ساتھ یہی سلوک کیا، ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا اوردین ہی کے نام پر ہمیں ختم کرنا چاہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان پر کامیابی عطا فرمائی اور اپنے کلمے کو بلند و بالا رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے قوت توحید سے جو دلوں میں ہے اور طاقت ایمان سے جو سینوں میں ہے، ہماری مدد فرمائی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دانائے قلوب اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ توحید نے صرف ہماری ہڈیوں اور جسموں ہی پر قبضہ نہیں کیا بلکہ ہمارے دلوں اور اعضاء و جوارح پر بھی اس کا قبضہ اور غلبہ ہوگیا ہے۔ ہم نے توحید کو شخصی مقاصد پورا کرنے اورمال غنیمت کے حصول کا آلہ کار نہیں بنایا بلکہ ہم اسے مضبوط عقیدے اور قوی ایمان کےساتھ تھامے ہوئے ہیں تاکہ اللہ ہی کا کلمہ بلند رکھا جائے۔(دیکھیے المصحف والسیف، ص : 58، 59) یہ ہماری حقیر سی کوشش ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے التجا ہے کہ وہ اس عمل کو اپنی ذات کریم کے لیے خالص بنائے اور اس کے ذریعے طالبانِ علم و معرفت کو ہمیشہ نفع پہنچائے۔والحمد لله رب العٰلمین وصلى الله وسلم علىٰ سیدنا ونبینا محمد وعلى آله وصحبه أجمعین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
..................................

اَب تک جو معروضات کی گئی ہیں، اُن کے مطالعے کے بعد درج ذیل حقائق پر پھر توجہ فرمائیے اور اس پورے معاملے پر حتمی نظر ڈالیے۔
زندگی ربّ ذوالجلال کی بہت بڑی نعمت ہے اور نہایت عظیم الشان مقاصد کے لیے دی گئی ہے۔ جن لوگوں نے اس زندگی کو خودغرضی، ہیرا پھیری، الزام و دشنام، عیش و عشرت اور جسم و جنس کے مطالبوں پر ضائع کیا، وہ تاریخ کے کباڑ خانے میں پھینک دیے گئے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو زندگی کو اللہ ربّ العزت کی امانت سمجھتے تھے، وہ ہر عیش سے منہ موڑ کر اور ہر صعوبت برداشت کرکے آخر دم تک مقاصدِ حسنہ کے لیے کام کرتے رہے اور تاریخ کے ایوان میں شہیدوں کی طرح سرخرو ہوکر لازوال ہوگئے۔ شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب﷫ ایسے ہی منفرد انسانوں میں سے تھے۔وہ احیاے دین ہی کے لیے جیے۔ اِسمی اور رسمی مسلمانوں کو سچا اور کھرا مسلمان بنانے کے لیے دن رات جدوجہد کرتے رہے۔ طرح طرح کی مصیبتیں جھیلتے رہے اور اسی مقدس جدوجہد میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ رحمه الله تعالىٰ رحمة واسعة.
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
شیخ موصوف بارہویں صدی ہجری میں منظر عام پر آئے۔ اس وقت اُمتِ مسلمہ کے فکر وعمل کا کیاحال تھا؟ یہ ایک دل دوز داستان ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت نے رب العزت کی بندگی فراموش کردی تھی۔ عقلوں پر نیند طاری تھی، ظنون و اوہام کی پیروی کی جارہی تھی، ذلّت و مسکنت چھائی ہوئی تھی۔ہندوستان کے بے شمار مسلمانوں کی پیشانیاں قبروں اور آستانوں پر جھکی ہوئی تھیں۔ مصر میں بدوی و رفاعی، عراق میں سیدنا علی المرتضیٰ ، حضرت حسین ،امام ابوحنیفہ﷫ اور شیخ عبدالقادر جیلانی﷫، یمن میں ابن علون، مکہ مکرمہ اورطائف میں ابن عباس سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔ خاص طور پر اہل نجد اخلاقی انحطاط کا شکار تھے۔ لوگوں کا بہت بڑا طبقہ صدیوں سے مشرکانہ عقیدوں کی زندگی بسر کرتا چلا آرہا تھا۔ جبیلہ میں حضرت زید بن خطاب کی قبر اور وادئ غِیرہ میں حضرت ضرار بن ازور کا قُبہ شرک و بدعت کے اعمال کا گڑھ بن گیاتھا۔ علاقہ بلیدۃ الفداء میں ایک پرانا درخت تھا، اس کے بارے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ یہ لوگوں کو اولاد عطا کرتا ہے۔ اس فاسد عقیدے کی وجہ سے بے شمار عورتیں آتی تھیں اور اس درخت سے چمٹی رہتی تھیں۔ درعیہ میں بعض صحابہ کرام سے منسوب قبروں پر جاہلانہ عقیدت کے مظاہر عام تھے۔ اسی علاقے کے قریب ایک غار تھا، یہاں لوگ شرمناک افعال انجام دیتے تھے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر بھی شرک و بدعت کے افعال سے محفوظ نہیں تھے۔ مسجد نبویؐ میں عین رسول اللہ ﷺ کے مرقد کے قریب مشرکانہ صدائیں بلند کی جاتی تھیں اور غیر اللہ کے وسیلوں سے مرادیں مانگی جاتی تھیں۔
 
Top