Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : نبیﷺ(کی وجہ سے ) طعام میں برکت۔
1531: سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے کھانا طلب کر رہا تھا تو آپﷺ نے اس کو آدھا وسق جَو دئیے (ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے )۔ پھر وہ شخص، اس کی بیوی اور مہمان ہمیشہ اس میں کھاتے رہے ، یہاں تک کہ اس شخص نے اس کو ماپا۔ پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو اس کو نہ ماپتا تو ہمیشہ اس میں سے کھاتے اور وہ ایسا ہی رہتا (کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کا بھروسہ جاتا رہا اور بے صبری ظاہر ہوئی پھر برکت کہاں رہے گی)۔
1532: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہﷺ کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اور کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے ؟ کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع جَو تھے اور ہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری عورت نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا)۔ میں آپﷺ کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جَو کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے ، آپﷺ چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لائیے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے پکارا اور فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہﷺ بھی تشریف لائے۔ آپﷺ آگے آگے تھے اور لوگ آپﷺ کے پیچھے تھے۔ میں اپنی عورت کے پاس آیا، وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی بُرا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہﷺ نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی)میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہﷺ نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری عورت سے ) فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر نکالتی جا، اس کو اتارنا مت۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے ، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھا،اس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔
1533: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا کسی پاس کھانا ہے ؟ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ۔پھر وہ سب گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے لمبا بکریاں لے کر ہانکتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہ دیتا ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں بیچتا ہوں۔ آپﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپﷺ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ اللہ کی قسم ان ایک سو تیس آدمی میں سے کوئی نہ رہا جس کے لئے آپﷺ نے اس کلیجی میں سے کچھ جدا نہ کیا ہو، اگر وہ موجود تھا تو اس کو دے دیا اور (اگر موجود نہ تھا تو) اس کا حصہ رکھ دیا۔ اور آپﷺ نے دو پیالوں میں گوشت نکالا، پھر ہم سب نے ان میں سے کھایا اور سیر ہو گئے بلکہ پیالوں میں کچھ بچ رہا، اس کو میں نے اونٹ پر لاد لیا یا ایسا ہی کہا (اس حدیث میں آپﷺ کے دو معجزے ہیں ایک تو کلیجی میں برکت اور دوسرے بکری میں برکت)۔
1534: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ اصحابِ صُفّہ محتاج لوگ تھے اور رسول اللہﷺ نے ایک بار فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین کو لے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی لے جائے اور سیدنا ابو بکرؓ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہﷺ دس آدمیوں کو لے گئے (آپﷺ کے اہل و عیال بھی دس کے قریب تھے تو گویا آدھا کھانا مہمانوں کے لئے ہوا)۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ ہمارے گھر میں کوئی مَیں تھا سوائے میرے باپ اور میری ماں کے۔ راوی نے کہا کہ شاید اپنی بیوی کا بھی کہا اور ایک خادم جو میرے اور سیدنا ابو بکرؓ کے گھر میں تھا۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ نے رات کا کھانا رسول اللہﷺ کے ساتھ کھایا، پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس لوٹ گئے اور وہیں رہے ، یہاں تک کہ آپ ﷺ سو گئے۔ غرض بڑی رات گزرنے کے بعد جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی سیدنا ابو بکرؓ گھر آئے اور ان کی بیوی نے کہا کہ تم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے ؟ سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے تمہارے آنے تک نہیں کھایا اور انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا تھا لیکن مہمان ان پر نہ کھانے میں غالب ہوئے۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ میں تو (سیدنا ابو بکرؓ کی ناراضگی کے ڈر سے ) چھپ گیا تو انہوں نے مجھے پکارا کہ اے سست مجہول یا احمق! تیری ناک کٹے اور مجھے بُرا کہا اور مہمانوں سے کہا کہ کھاؤ اگرچہ یہ کھانا خوشگوار نہیں ہے (کیونکہ بے وقت ہے )۔ اور سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ میں اللہ کی قسم میں اس کو کبھی بھی نہ کھاؤں گا۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے نیچے وہ کھانا اتنا ہی بڑھ جاتا، یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابو بکرؓ نے اس کھانے کو دیکھا کہ وہ اتنا ہی ہے یا زیادہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنی عورت سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن (ان کا نام اُمّ رومان تھا اور بنی فراس ان کا قبیلہ تھا) یہ کیا ہے ؟ وہ بولی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (یعنی رسول اللہﷺ کی) کہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ ہے تین حصے زیادہ ہے (یہ سیدنا ابو بکرؓ کی کرامت تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء سے کرامت ظاہر ہو سکتی ہے )۔ پھر سیدنا ابو بکرؓ نے اس میں سے کھایا اور کہا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ (غصے میں) شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا، اس کے بعد وہ کھانا رسول اللہﷺ کے پاس لے گئے۔ میں بھی صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان عقد تھا (یعنی صلح کا اقرار تھا)، پس اقرار کی مدت گزر گئی تو آپﷺ نے بارہ آدمی ہمارے افسر کئے اور ہر ایک کے ساتھ لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ پھر وہ کھانا ان کے ساتھ کر دیا اور سب لوگوں نے اس میں سے کھایا۔
1531: سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے کھانا طلب کر رہا تھا تو آپﷺ نے اس کو آدھا وسق جَو دئیے (ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے )۔ پھر وہ شخص، اس کی بیوی اور مہمان ہمیشہ اس میں کھاتے رہے ، یہاں تک کہ اس شخص نے اس کو ماپا۔ پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو اس کو نہ ماپتا تو ہمیشہ اس میں سے کھاتے اور وہ ایسا ہی رہتا (کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کا بھروسہ جاتا رہا اور بے صبری ظاہر ہوئی پھر برکت کہاں رہے گی)۔
1532: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہﷺ کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اور کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے ؟ کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع جَو تھے اور ہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری عورت نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا)۔ میں آپﷺ کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جَو کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے ، آپﷺ چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لائیے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے پکارا اور فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہﷺ بھی تشریف لائے۔ آپﷺ آگے آگے تھے اور لوگ آپﷺ کے پیچھے تھے۔ میں اپنی عورت کے پاس آیا، وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی بُرا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہﷺ نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی)میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہﷺ نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری عورت سے ) فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر نکالتی جا، اس کو اتارنا مت۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے ، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھا،اس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔
1533: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا کسی پاس کھانا ہے ؟ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ۔پھر وہ سب گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے لمبا بکریاں لے کر ہانکتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہ دیتا ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں بیچتا ہوں۔ آپﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپﷺ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ اللہ کی قسم ان ایک سو تیس آدمی میں سے کوئی نہ رہا جس کے لئے آپﷺ نے اس کلیجی میں سے کچھ جدا نہ کیا ہو، اگر وہ موجود تھا تو اس کو دے دیا اور (اگر موجود نہ تھا تو) اس کا حصہ رکھ دیا۔ اور آپﷺ نے دو پیالوں میں گوشت نکالا، پھر ہم سب نے ان میں سے کھایا اور سیر ہو گئے بلکہ پیالوں میں کچھ بچ رہا، اس کو میں نے اونٹ پر لاد لیا یا ایسا ہی کہا (اس حدیث میں آپﷺ کے دو معجزے ہیں ایک تو کلیجی میں برکت اور دوسرے بکری میں برکت)۔
1534: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ اصحابِ صُفّہ محتاج لوگ تھے اور رسول اللہﷺ نے ایک بار فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین کو لے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی لے جائے اور سیدنا ابو بکرؓ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہﷺ دس آدمیوں کو لے گئے (آپﷺ کے اہل و عیال بھی دس کے قریب تھے تو گویا آدھا کھانا مہمانوں کے لئے ہوا)۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ ہمارے گھر میں کوئی مَیں تھا سوائے میرے باپ اور میری ماں کے۔ راوی نے کہا کہ شاید اپنی بیوی کا بھی کہا اور ایک خادم جو میرے اور سیدنا ابو بکرؓ کے گھر میں تھا۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ نے رات کا کھانا رسول اللہﷺ کے ساتھ کھایا، پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس لوٹ گئے اور وہیں رہے ، یہاں تک کہ آپ ﷺ سو گئے۔ غرض بڑی رات گزرنے کے بعد جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی سیدنا ابو بکرؓ گھر آئے اور ان کی بیوی نے کہا کہ تم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے ؟ سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے تمہارے آنے تک نہیں کھایا اور انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا تھا لیکن مہمان ان پر نہ کھانے میں غالب ہوئے۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ میں تو (سیدنا ابو بکرؓ کی ناراضگی کے ڈر سے ) چھپ گیا تو انہوں نے مجھے پکارا کہ اے سست مجہول یا احمق! تیری ناک کٹے اور مجھے بُرا کہا اور مہمانوں سے کہا کہ کھاؤ اگرچہ یہ کھانا خوشگوار نہیں ہے (کیونکہ بے وقت ہے )۔ اور سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ میں اللہ کی قسم میں اس کو کبھی بھی نہ کھاؤں گا۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے نیچے وہ کھانا اتنا ہی بڑھ جاتا، یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابو بکرؓ نے اس کھانے کو دیکھا کہ وہ اتنا ہی ہے یا زیادہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنی عورت سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن (ان کا نام اُمّ رومان تھا اور بنی فراس ان کا قبیلہ تھا) یہ کیا ہے ؟ وہ بولی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (یعنی رسول اللہﷺ کی) کہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ ہے تین حصے زیادہ ہے (یہ سیدنا ابو بکرؓ کی کرامت تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء سے کرامت ظاہر ہو سکتی ہے )۔ پھر سیدنا ابو بکرؓ نے اس میں سے کھایا اور کہا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ (غصے میں) شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا، اس کے بعد وہ کھانا رسول اللہﷺ کے پاس لے گئے۔ میں بھی صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان عقد تھا (یعنی صلح کا اقرار تھا)، پس اقرار کی مدت گزر گئی تو آپﷺ نے بارہ آدمی ہمارے افسر کئے اور ہر ایک کے ساتھ لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ پھر وہ کھانا ان کے ساتھ کر دیا اور سب لوگوں نے اس میں سے کھایا۔