• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ(کی وجہ سے ) طعام میں برکت۔
1531: سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے کھانا طلب کر رہا تھا تو آپﷺ نے اس کو آدھا وسق جَو دئیے (ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے )۔ پھر وہ شخص، اس کی بیوی اور مہمان ہمیشہ اس میں کھاتے رہے ، یہاں تک کہ اس شخص نے اس کو ماپا۔ پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو اس کو نہ ماپتا تو ہمیشہ اس میں سے کھاتے اور وہ ایسا ہی رہتا (کیونکہ ان سے اللہ تعالیٰ کا بھروسہ جاتا رہا اور بے صبری ظاہر ہوئی پھر برکت کہاں رہے گی)۔

1532: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ جب (مدینہ کے گرد) خندق کھودی گئی تو میں نے رسول اللہﷺ کو بھوکا پایا۔ میں اپنی بیوی کے پاس لوٹا اور کہا کہ تیرے پاس کچھ ہے ؟ کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو بہت بھوکا پایا ہے۔ اس نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع جَو تھے اور ہمارے پاس بکری کا پلا ہوا بچہ تھا، میں نے اس کو ذبح کیا اور میری عورت نے آٹا پیسا۔ وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہوئی میں نے اس کا گوشت کاٹ کر ہانڈی میں ڈالا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس پلٹنے لگا تو عورت بولی کہ مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کے ساتھیوں کے سامنے رسوا نہ کرنا (کیونکہ کھانا تھوڑا ہے کہیں بہت سے آدمیوں کی دعوت نہ کر دینا)۔ میں آپﷺ کے پاس آیا اور چپکے سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جَو کا آٹا جو ہمارے پاس تھا، تیار کیا ہے ، آپﷺ چند لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر تشریف لائیے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے پکارا اور فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے تو چلو۔ اور آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی ہانڈی کو مت اتارنا اور آٹے کی روٹی مت پکانا، جب تک میں نہ آ جاؤں۔ پھر میں گھر میں آیا اور رسول اللہﷺ بھی تشریف لائے۔ آپﷺ آگے آگے تھے اور لوگ آپﷺ کے پیچھے تھے۔ میں اپنی عورت کے پاس آیا، وہ بولی کہ تو ہی پریشان ہو گا اور لوگ تجھے ہی بُرا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو وہی کیا جو تو نے کہا تھا (لیکن رسول اللہﷺ نے اعلان کر دیا اور سب کو دعوت سنا دی)میں نے وہ آٹا نکالا تو رسول اللہﷺ نے اپنا لب مبارک اس میں ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہماری ہانڈی کی طرف چلے اور اس میں بھی تھوکا اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد (میری عورت سے ) فرمایا کہ ایک روٹی پکانے والی اور بلا لے جو تیرے ساتھ مل کر پکائے اور ہانڈی میں سے ڈوئی نکال کر نکالتی جا، اس کو اتارنا مت۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار آدمی تھے ، پس میں قسم کھاتا ہوں کہ سب نے کھایا، یہاں تک کہ چھوڑ دیا اور لوٹ گئے اور ہانڈی کا وہی حال تھا، ابل رہی تھی اور آٹا بھی ویسا ہی تھا،اس کی روٹیاں بن رہی تھیں۔

1533: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا کسی پاس کھانا ہے ؟ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ۔پھر وہ سب گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے لمبا بکریاں لے کر ہانکتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہ دیتا ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں بیچتا ہوں۔ آپﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپﷺ نے اس کی کلیجی بھوننے کا حکم دیا۔ راوی نے کہا کہ اللہ کی قسم ان ایک سو تیس آدمی میں سے کوئی نہ رہا جس کے لئے آپﷺ نے اس کلیجی میں سے کچھ جدا نہ کیا ہو، اگر وہ موجود تھا تو اس کو دے دیا اور (اگر موجود نہ تھا تو) اس کا حصہ رکھ دیا۔ اور آپﷺ نے دو پیالوں میں گوشت نکالا، پھر ہم سب نے ان میں سے کھایا اور سیر ہو گئے بلکہ پیالوں میں کچھ بچ رہا، اس کو میں نے اونٹ پر لاد لیا یا ایسا ہی کہا (اس حدیث میں آپﷺ کے دو معجزے ہیں ایک تو کلیجی میں برکت اور دوسرے بکری میں برکت)۔

1534: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرؓ سے روایت ہے کہ اصحابِ صُفّہ محتاج لوگ تھے اور رسول اللہﷺ نے ایک بار فرمایا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین کو لے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا ہو وہ پانچویں یا چھٹے کو بھی لے جائے اور سیدنا ابو بکرؓ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہﷺ دس آدمیوں کو لے گئے (آپﷺ کے اہل و عیال بھی دس کے قریب تھے تو گویا آدھا کھانا مہمانوں کے لئے ہوا)۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ ہمارے گھر میں کوئی مَیں تھا سوائے میرے باپ اور میری ماں کے۔ راوی نے کہا کہ شاید اپنی بیوی کا بھی کہا اور ایک خادم جو میرے اور سیدنا ابو بکرؓ کے گھر میں تھا۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ نے رات کا کھانا رسول اللہﷺ کے ساتھ کھایا، پھر وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ عشاء کی نماز پڑھی گئی۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس لوٹ گئے اور وہیں رہے ، یہاں تک کہ آپ ﷺ سو گئے۔ غرض بڑی رات گزرنے کے بعد جتنی اللہ تعالیٰ کو منظور تھی سیدنا ابو بکرؓ گھر آئے اور ان کی بیوی نے کہا کہ تم اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے ؟ سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ انہوں نے کہا کہ مہمانوں نے تمہارے آنے تک نہیں کھایا اور انہوں نے مہمانوں کے سامنے کھانا پیش کیا تھا لیکن مہمان ان پر نہ کھانے میں غالب ہوئے۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ میں تو (سیدنا ابو بکرؓ کی ناراضگی کے ڈر سے ) چھپ گیا تو انہوں نے مجھے پکارا کہ اے سست مجہول یا احمق! تیری ناک کٹے اور مجھے بُرا کہا اور مہمانوں سے کہا کہ کھاؤ اگرچہ یہ کھانا خوشگوار نہیں ہے (کیونکہ بے وقت ہے )۔ اور سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ میں اللہ کی قسم میں اس کو کبھی بھی نہ کھاؤں گا۔ سیدنا عبد الرحمنؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم جو لقمہ اٹھاتے نیچے وہ کھانا اتنا ہی بڑھ جاتا، یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا جتنا پہلے تھا اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ سیدنا ابو بکرؓ نے اس کھانے کو دیکھا کہ وہ اتنا ہی ہے یا زیادہ ہو گیا ہے تو انہوں نے اپنی عورت سے کہا کہ اے بنی فراس کی بہن (ان کا نام اُمّ رومان تھا اور بنی فراس ان کا قبیلہ تھا) یہ کیا ہے ؟ وہ بولی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم (یعنی رسول اللہﷺ کی) کہ یہ تو پہلے سے بھی زیادہ ہے تین حصے زیادہ ہے (یہ سیدنا ابو بکرؓ کی کرامت تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء سے کرامت ظاہر ہو سکتی ہے )۔ پھر سیدنا ابو بکرؓ نے اس میں سے کھایا اور کہا کہ میں نے جو قسم کھائی تھی وہ (غصے میں) شیطان کی طرف سے تھی۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا، اس کے بعد وہ کھانا رسول اللہﷺ کے پاس لے گئے۔ میں بھی صبح کو وہیں تھا اور ہمارے اور ایک قوم کے درمیان عقد تھا (یعنی صلح کا اقرار تھا)، پس اقرار کی مدت گزر گئی تو آپﷺ نے بارہ آدمی ہمارے افسر کئے اور ہر ایک کے ساتھ لوگ تھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ہر ایک کے ساتھ کتنے لوگ تھے۔ پھر وہ کھانا ان کے ساتھ کر دیا اور سب لوگوں نے اس میں سے کھایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کی وجہ سے دودھ میں برکت۔
1535: سیدنا مقدادؓ کہتے ہیں کہ میں اور میرے دونوں ساتھی آئے اور (فاقہ وغیرہ کی) تکلیف سے ہماری آنکھوں اور کانوں کی قوت جاتی رہی تھی۔ ہم اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے اصحاب پر پیش کرتے تھے لیکن کوئی ہمیں قبول نہ کرتا تھا۔ آخر ہم رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ ہمیں اپنے گھر لے گئے۔ وہاں تین بکریاں تھیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ان کا دودھ دوہو، ہم تم سب پئیں گے پھر ہم ان کا دودھ دوہا کرتے اور ہم میں سے ہر ایک اپنا حصہ پی لیتا اور رسول اللہﷺ کا حصہ رکھ چھوڑتے۔ آپﷺ رات کو تشریف لاتے اور ایسی آواز سے سلام کرتے جس سے سونے والا نہ جاگے اور جاگنے والا سن لے۔ پھر آپﷺ مسجد میں آتے ، نماز پڑھتے ، پھر اپنے دودھ کے پاس آتے اور اس کو پیتے۔ ایک رات جب میں اپنا حصہ پی چکا تھا کہ شیطان نے مجھے بھڑکایا۔ شیطان نے کہا کہ رسول اللہﷺ تو انصار کے پاس جاتے ہیں، وہ آپﷺ کو تحفے دیتے ہیں اور جو آپﷺ کو ضرورت ہے ، مل جاتا ہے آپﷺ کو اس ایک گھونٹ دودھ کی کیا ضرورت ہو گی؟ آخر میں آیا اور وہ دودھ پی گیا۔ جب دودھ پیٹ میں سما گیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ دودھ نہیں ملنے کا تو اس وقت شیطان نے مجھے ندامت کی اور کہنے لگا کہ تیری خرابی ہو تو نے کیا کام کیا؟ تو نے رسول اللہﷺ کا حصہ پی لیا، اب آپﷺ آئیں گے اور دودھ کو نہ پائیں گے تو تجھ پر بددعا کریں گے اور تیری دنیا اور آخرت دونوں تباہ ہوں گی۔ میں ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا جب اس کو پاؤں پر ڈالتا تو سر کھل جاتا اور جب سر ڈھانپتا تو پاؤں کھل جاتے تھے اور مجھے نیند بھی نہ آ رہی تھی جبکہ میرے ساتھی سو گئے اور انہوں نے یہ کام نہیں کیا تھا جو میں نے کیا تھا۔ آخر رسول اللہﷺ آئے اور معمول کے موافق سلام کیا، پھر مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، اس کے بعد دودھ کے پاس آئے ، برتن کھولا تو اس میں کچھ نہ تھا۔ آپﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا میں سمجھا کہ اب آپﷺ بددعا کرتے ہیں اور میں تباہ ہوا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! کھلا اس کو جو مجھے کھلائے اور پلا اس کو جو مجھے پلائے۔ یہ سن کر میں نے اپنی چادر کو مضبوط باندھا، چھری لی اور بکریوں کی طرف چلا کہ جو ان میں سے موٹی ہو اس کو رسول اللہﷺ کے لئے ذبح کروں۔ دیکھا تو اس کے تھن میں دودھ بھرا ہوا ہے۔ پھر دیکھا تو اور بکریوں کے تھنوں میں بھی دودھ بھرا ہوا ہے۔ میں نے آپﷺ کے گھر والوں کا ایک برتن لیا جس میں وہ دودھ نہ دوہتے تھے (یعنی اس میں دوہنے کی خواہش نہیں کرتے تھے )۔ اس میں مَیں نے دودھ دوہا، یہاں تک کہ اوپر جھاگ آگیا (اتنا بہت دودھ نکلا) اور میں اس کو لے کر آپﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے اپنے حصے کا دودھ رات کو پیا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ دودھ پیجئے۔ آپﷺ نے پی کر مجھے دیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اور پیجئے۔ آپﷺ نے اور پیا۔ پھر مجھے دیا، جب مجھے معلوم ہو گیا کہ آپﷺ سیر ہو گئے اور آپﷺ کی دعا میں نے لے لی ہے ، تب میں ہنسا، یہاں تک کہ خوشی کے مارے زمین پر گر گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے مقداد! تو نے کوئی بُری بات کی؟ وہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ! میرا حال ایسا ہوا اور میں نے ایسا قصور کیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت کا دودھ (جو خلافِ معمول اترا) اللہ کی رحمت تھی۔ تو نے مجھ سے پہلے ہی کیوں نہ کہا ہم اپنے دونوں ساتھیوں کو بھی جگا دیتے کج وہ بھی یہ دودھ پیتے ؟ میں نے عرض کیا کہ قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچا کلام دے کر بھیجا ہے کہ اب مجھے کوئی پرواہ نہیں جب آپ نے اللہ کی رحمت حاصل کر لی اور میں نے آپﷺ کے ساتھ حاصل کی تو کوئی بھی اس کو حاصل کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کی وجہ سے گھی میں برکت۔
1536: سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ اُمّ مالک رضی اللہ عنہا رسول اللہﷺ کو ایک کپی میں بطور تحفہ کے گھی بھیجا کرتی تھیں، پھر اس کے بیٹے آتے اور اس سے سالن مانگتے اور گھر میں کچھ نہ ہوتا تو اُمّ مالک رضی اللہ عنہا اس کپی کے پاس جاتی، تو اس میں گھی ہوتا۔ اسی طرح ہمیشہ اس کے گھر کا سالن قائم رہتا۔ ایک بار اُمّ مالک نے (حرص کر کے ) اس کپی کو نچوڑ لیا، پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئیں تو آپﷺ نے استفسار فرمایا کہ کیا تم نے اس کو نچوڑ لیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر تو اس کو یوں ہی رہنے دیتی (اور ضرورت کے وقت لیتی) تو وہ ہمیشہ قائم رہتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کے لئے درخت کا تابع فرمان ہو جانا۔
1537: سیدنا عبادہ بن ولید بن عبادہ بن صامتؓ کہتے کہ میں اور میرا والد حصول علم کی غرض سے قبیلہ انصار کی طرف نکلے مبادا یہ کہ ان کا کوئی فرد باقی نہ رہے (فوت ہو جائیں یا ادھر ادھر ہجرت کر جائیں)۔ چنانچہ سب سے پہلے ہم ابو الیسر سے ملے جو رسول اللہﷺ کے صحابی تھے۔ ان کے ساتھ ان کا غلام بھی تھا جو کتابوؑ (خطوں) کا ایک بنڈل لئے ہوئے تھا۔ اور ابو الیسر کے بدن پر ایک چادر تھی اور ایک معافری نامی ایک کپڑا تھا۔ ان کے غلام پر بھی ایک چادر تھی اور ایک معافری کپڑا تھا (یعنی مالک اور غلام دونوں ایک ہی طرح کا لباس پہنے ہوئے تھے )۔ میں نے ان سے کہا کہ اے چچا آپ کچھ رنجیدہ معلوم ہوتے ہیں۔ وہ بولے کہ بنی حرام قبیلے کے فلاں بن فلاں پر میرا قرض آتا تھا، میں اس کے گھر والوں کے پاس گیا، سلام کیا اور پوچھا کہ وہ شخص کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ہے۔ اتنے میں اس کا ایک نوجوان بیٹا باہر نکلا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تیرا باپ کہاں ہے ؟ وہ بولا کہ آپ کی آواز سن کر میری ماں کے چھپر گھٹ میں گھس گیا ہے۔ تب میں نے آواز دی اور کہا کہ اے فلاں! باہر نکل مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تو کہاں ہے۔یہ سن کر وہ باہر نکلا۔ میں نے کہا کہ تو مجھ سے چھپ کیوں رہا ہے ؟ وہ بولا کہ اللہ کی قسم میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا ، اللہ کی قسم میں ڈرا کہ آپ سے جھوٹ بات کروں یا وعدہ کروں اور اس کے خلاف کروں اور تم صحابی رسولﷺ ہو، اور اللہ کی قسم میں محتاج ہوں۔ میں نے اللہ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا تم واقعی محتاج ہو؟ تو اس نے اللہ کی قسم کھائی اور کہا کہ میں محتاج ہوں۔میں نے پھر قسم دے کر پوچھا تو اس نے پھر قسم کھائی، میں نے پھر قسم دی تو اس نے پھر اللہ کی قسم کھائی۔ پھر اس کا وثیقہ یا نوشتہ (قرض نامہ) لایا گیا۔ ابو الیسرؓ نے اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دیا اور کہا کہ اگر تیرے پاس روپیہ آئے تو ادا کرنا وگرنہ تو آزاد ہے۔ پس میں گواہی دیتا ہوں، میری ان دونوں آنکھوں کی بصارت نے دیکھا اور ابو الیسرؓ نے اپنی دونوں انگلیاں اپنی آنکھوں پر رکھیں اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا اور ابو الیسرؓ نے اپنے دل کی رگ کی طرف اشارہ کیا (اور کہا) کہ رسول اللہﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا قرض معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں رکھے گا۔ عبادہ نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ اے چچا اگر تم اپنے غلام کی چادر لے لو اور اپنا معافری کپڑا اس کو دے دو، تو تمہارے پاس بھی ایک جوڑا پورا ہو جائے گا اور اس کے پاس بھی ایک جوڑا ہو جائے گا۔ ابو الیسرؓ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا یا اللہ اس لڑکے کو برکت دے ، اے میرے بھتیجے ! میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا اور ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے یاد رکھا اور اپنے دل کی رگ کی طرف اشارہ کیا (اور کہا) کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ لونڈی اور غلام کو کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔ پھر اگر میں اس کو دنیا کا سامان دے دوں تو وہ میرے نزدیک اس سے آسان ہے کہ وہ قیامت کے دن میری نیکیاں لے لے۔ عبادہؓ نے کہا پھر ہم چلے یہاں تک کہ سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاریؓ کے پاس ان کی مسجد میں پہنچے ، وہ ایک کپڑا لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا ان کے اور قبلہ کے درمیان میں جا بیٹھا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے ، آپ ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہیں حالانکہ آپ کی (دوسری) چادر آپ کے پہلو میں رکھی ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے سینے پر اس طرح سے اشارہ کیا، انگلیوں کو کشادہ رکھتے ہوئے انہیں کمان کی طرح خم کیا اور کہا کہ میں نے یہ چاہا کہ تیری مانند کوئی احمق میرے پاس آئے ، پھر وہ مجھے دیکھے جو میں کرتا ہوں اور ویسا ہی کرے۔ رسول اللہﷺ ہماری اس مسجد میں آئے اور آپﷺ کے ہاتھ میں ابن طاب (کھجور) کی ایک چھڑی تھی۔ آپﷺ نے مسجد میں قبلہ کی طرف بلغم دیکھا (کسی نے تھوکا تھا)، تو آپﷺ نے اس کو لکڑی سے کھرچ ڈالا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم میں سے کون یہ بات پسند کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے ؟ ہم یہ سن کر ڈر گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے ؟ ہم یہ سن کر ڈر گئے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے منہ پھیر لے ؟ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم میں سے تو کوئی بھی یہ نہیں چاہتا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے نماز میں کھڑا ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے منہ کے سامنے ہوتا ہے (نووی نے کہا یعنی جہت جس کو اللہ تعالیٰ نے عظمت دی یا کعبہ)، تو اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے اور نہ داہنی طرف بلکہ بائیں طرف بائیں پاؤں کے نیچے (تھوکے )۔ اگر بلغم جلدی نکلنا چاہے تو اپنے کپڑے میں تھوک کر ایسا کر لے ، پھر اپنے کپڑے کو تہہ در تہہ لپیٹا۔ اس کے بعد فرمایا کہ میرے پاس خوشبو لاؤ۔ ہمارے قبیلے کا ایک جوان لپکا اور دوڑتا ہوا اپنے گھر میں گیا اور اپنی ہتھیلی میں خوشبو لے آیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس خوشبو کو لکڑی کی نوک پر لگایا اور جہاں اس بلغم کا نشان مسجد پر تھا وہاں خوشبو لگا دی۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ اس حدیث سے تم اپنی مسجدوں میں خوشبو رکھتے ہو۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ بطن بواط کی لڑائی میں چلے (وہ جہینہ کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ ہے )۔ آپﷺ مجدی بن عمرو جہنی کی تلاش میں تھے (جو ایک کافر تھا) اور ہم لوگوں کا یہ حال تھا کہ پانچ اور چھ اور سات آدمیوں میں ایک اونٹ تھا، جس پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ چنانچہ ایک انصاری کی باری آئی، اس نے اونٹ کو بٹھایا، اس پر چڑھا، پھر اس کو اٹھایا تو اونٹ کچھ اڑا۔ وہ انصاری بولا "شاء" (یہ کلمہ ہے اونٹ کو ڈانٹنے کا) اللہ تجھ پر لعنت کرے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا یہ کون ہے جو اپنے اونٹ پر لعنت کرتا ہے ؟ وہ انصاری بولا کہ میں ہوں یا رسول اللہﷺ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس اونٹ پر سے اتر جا اور ہمارے ساتھ وہ نہ رہے جس پر لعنت کی گئی ہو۔ اپنی جانوں، اپنی اولاد اور اپنے مالوں کے لئے بددعا نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بددعا اس ساعت نکلے کہ جب اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگا جاتا ہے اور وہ قبول کر لیتا ہے (تو تمہاری بددعا بھی قبول ہو جائے اور تم پر آفت آ جائے )۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ چلے ، جب شام ہوئی اور عرب کے ایک چشمے کے قریب آئے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کون شخص ہم لوگوں سے آگے بڑھ کر اس حوض کو درست کرے گا، خود بھی پیئے اور ہم کو بھی پلائے ؟ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ میں کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ میں وہ شخص ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا اور کون شخص جابر کے ساتھ جائے گا؟ چنانچہ جبار بن صخر اٹھے۔ خیر ہم دونوں آدمی کنویں / چشمے کی طرف چلے اور حوض میں ایک یا دو ڈول ڈالے ، پھر اس پر مٹی لگائی۔ اس کے بعد اس میں پانی بھرنا شروع کیا، یہاں تک کہ لبالب بھر دیا۔ سب سے پہلے ہم کو رسول اللہﷺ دکھائی دیئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم دونوں (مجھے اور میرے جانوروں کو پانی پینے پلانے کی) اجازت دیتے ہو؟ ہم نے عرض کیا "جی ہاں یا رسول اللہﷺ"۔ آپﷺ نے اپنی اونٹنی کو چھوڑا، اس نے پانی پیا، پھر آپﷺ نے اس کی باگ کھینچی اس نے پانی پینا موقوف کیا اور پیشاب کیا۔ پھر آپﷺ اس کو الگ لے گئے اور بٹھا دیا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ حوض کی طرف آئے ، اس میں سے وضو کیا۔ میں بھی کھڑا ہوا اور جہاں سے آپﷺ نے وضو کیا تھا میں نے بھی وہیں سے وضو کیا۔ جبار بن صخرؓ قضائے حاجت کے لئے چلے گئے۔ رسول اللہﷺ نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے۔ میرے بدن پر ایک چادر تھی۔ میں اس کے دونوں کناروں کو الٹنے لگا، وہ چھوٹی ہوئی ، اس (چادر) میں پھُندے لگے تھے۔ آخر میں نے اس کو الٹا کیا، پھر اس کے دونوں کنارے الٹے ، پھر اس کو اپنی گردن سے باندھا، اس کے بعد آ کر رسول اللہﷺ کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا ، گھمایا اور داہنی طرف کھڑا کر لیا۔ پھر جبار بن صخر آئے ، انہوں نے بھی وضو کیا اور رسول اللہﷺ کی بائیں طرف (نماز پڑھنے کے لئے ) کھڑے ہو گئے۔ آپﷺ نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑے اور پیچھے ہٹا دیا یہاں تک کہ ہم کو اپنے پیچھے کھڑا کیا (معلوم ہوا کہ اتنا عمل نماز میں درست ہے )۔ پھر رسول اللہﷺ نے مجھ کو گھورنا شروع کیا اور مجھ کو خبر نہیں۔ خبر ہوئی تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اپنی کمر باندھ لے (تاکہ ستر نہ کھلے )۔ جب رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو کہا کہ اے جابر! میں نے عرض کیا کہ حاضر ہوں یا رسول اللہﷺ۔ آپ نے فرمایا جب چادر کشادہ ہو تو اس کے دونوں کنارے الٹ لے اور جب تنگ ہو تو اس کو کمر پر باندھ لے۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ پھر ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ چلے اور ہم میں سے ہر ایک شخص کو خوراک کے لئے ہر روز ایک کھجور ملتی تھی اور وہ اس کو چوس لیتا تھا۔ پھر اس کو اپنے دانتوں میں پھراتا۔ اور ہم اپنی کمانوں سے درخت کے پتے جھاڑتے اور ان کو کھاتے ، یہاں تک کہ (گرمی ، خشکی اور پتے کھاتے کھاتے ) ہمارے منہ اندر سے زخمی ہو گئے۔ پھر ایک دن کھجور بانٹنے والا ایک شخص کو بھول گیا۔ ہم اس شخص کو اٹھا کر لے گئے اور گواہی دی کہ اس کو کھجور نہیں ملی۔ بانٹنے والے نے اس کو کھجور دی۔ وہ کھڑا ہو گیا اور کھجور لے لی۔ پھر ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ چلے ، یہاں تک کہ ایک کشادہ وادی میں اترے۔ رسول اللہﷺ حاجت کو تشریف لے گئے۔ ایک ڈول پانی لے کر میں بھی آپﷺ کے پیچھے چلا گیا۔ رسول اللہﷺ نے کوئی آڑ نہ پائی۔ دیکھا تو دو درخت وادی کے کنارے پر لگے ہوئے تھے۔ آپﷺ ایک درخت کے پاس گئے ، اس کی ایک شاخ پکڑی، پھر (درخت سے ) فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرا تابعدار ہو جا۔وہ آپﷺ کا تابعدار ہو گیا جیسے وہ اونٹ جس کی ناک میں نکیل ڈال دی جاتی ہے اور وہ اپنے کھینچے والے کا تابعدار ہو جاتا ہے۔ پھر آپﷺ دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی بھی ایک شاخ پکڑی اور فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرا تابعدار ہو جا۔ وہ بھی اسی طرح آپﷺ کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپﷺ ان درختوں کے درمیان میں پہنچے تو ان کو ایک ساتھ کر کے فرمایا کہ اللہ کے حکم سے میرے سامنے جڑ جاؤ، چنانچہ وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ میں دوڑتا ہوا نکلا اس ڈر سے کہ کہیں رسول اللہﷺ مجھ کو نزدیک دیکھیں اور زیادہ دور کہیں تشریف لے جائیں۔ میں بیٹھا اپنے دل میں باتیں کئے جا رہا تھا کہ اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ سامنے سے تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت جدا ہو کر اپنی جڑ پر کھڑے ہو گئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ تھوڑی دیر کھڑے ہوئے اور سر سے اس طرح دائیں اور بائیں اشارہ کیا، پھر سامنے آئے۔ جب میرے پاس پہنچے تو فرمایا اے جابر ! میں جہاں کھڑا تھا تو نے دیکھا؟ سیدنا جابرؓ نے عرض کیا کہ "جی ہاں یا رسول اللہﷺ" آپﷺ نے فرمایا کہ تم ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ہر ایک میں سے ایک ایک شاخ کاٹ کر لے آؤ۔ جب اس جگہ پہنچے جہاں میں کھڑا ہوا تھا تو ایک شاخ اپنی داہنی طرف ڈال دے اور ایک ڈالی بائیں طرف۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ میں کھڑا ہوا اور ایک پتھر لیا، اس کو توڑ کر تیز کیا۔ وہ تیز ہو گیا تو ان دونوں درختوں کے پاس آیا اور ہر ایک میں سے ایک ایک شاخ کاٹی، پھر میں ان شاخوں کو کھینچتا ہوا اس جگہ پر لے آیا جہاں رسول اللہﷺ ٹھہرے تھے اور ایک شاخ داہنی طرف ڈال دی اور ایک شاخ بائیں طرف ڈال دی ، پھر آپﷺ سے جا کر مل گیا اور عرض کیا کہ جو آپﷺ نے فرمایا تھا وہ میں نے کر دیا، لیکن اس کی وجہ کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ وہاں دو قبریں ہیں، ان قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے تو میں نے چاہا کہ ان کی سفارش کروں، جب تک یہ شاخیں ہری رہیں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہو۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ پھر ہم لشکر میں آئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اے جابر! لوگوں وضو کے پانی کے لئے آواز لگاؤ۔ میں نے تین دفعہ آواز دی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ قافلہ میں ایک قطرہ پانی کا نہیں ہے۔ ایک انصار ی مرد تھا جو رسول اللہﷺ کے لئے ایک مشک میں جو لکڑی کی شاخوں پر لٹکتی تھی، پانی ٹھنڈا کیا کرتا تھا، آپﷺ نے فرمایا کہ اس انصاری کے پاس جاؤ اور دیکھو، کیا اس کی مشک میں کچھ پانی ہے ؟ میں گیا، دیکھا تو مشک میں پانی نہیں ، اس کے منہ میں صرف ایک قطرہ ہے کہ اگر اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی لے۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ اس مشک میں تو پانی نہیں ہے صرف ایک قطرہ اس کے منہ میں ہے ، اگر میں اس کو انڈیلوں تو سوکھی مشک اس کو بھی پی جائے۔ آپﷺ نے فرمایا جاؤ اور اس مشک کو میرے پاس لے آؤ۔ میں اسی مشک کو لے آیا۔ آپﷺ نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا، پھر زبان سے کچھ فرمانے لگے جس کو میں سمجھ نہ سکا اور مشک کو اپنے ہاتھ سے دباتے جاتے تھے۔ پھر وہ مشک میرے حوالے کی اور فرمایا کہ اے جابر آواز دے کہ قافلے کا گھڑا لاؤ (یعنی پانی والا بڑا برتن)۔ میں نے آواز دی وہ (برتن) لایا گیا۔ لوگ اس کو اٹھا کر لائے۔ میں نے آپﷺ کے سامنے وہ برتن رکھ دیا۔ رسول اللہﷺ نے اپنا ہاتھ اس گھڑے میں پھیر کر اس طرح سے پھیلا کر انگلیوں کو کشادہ کیا، پھر اپنا ہاتھ اس کی تہہ میں رکھ دیا اور فرمایا اے جابر! وہ مشک لے اور میرے ہاتھ پر ڈال دے اور بسم اللہ کہہ کر ڈالنا۔ میں نے بسم اللہ کہہ کر وہ پانی ڈال دیا۔ پھر میں نے دیکھا تو آپﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پانی جوش مار رہا تھا، یہاں تک کہ گھڑے نے جوش مارا اور گھوما اور بھر گیا۔ آپﷺ نے فرمایا، اے جابر! آواز دے کہ جس کو پانی کی حاجت ہو (وہ آئے )۔ سیدنا جابرؓ نے کہا لوگ آئے ، پانی لیا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ میں نے کہا کوئی ایسا بھی رہا جس کو پانی کی ضرورت ہو؟ پھر آپﷺ نے اپنا ہاتھ گھڑے سے اٹھا لیا اور وہ پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اور لوگوں نے آپﷺ سے بھوک کی شکایت کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قریب ہے کہ اللہ تم کو کھلائے۔ پھر ہم دریا (یعنی سمندر) کے کنارے پر آئے۔ سمندر کی لہر نے جوش مارا اور ایک جانور باہر ڈال دیا۔ ہم نے اس کے کنارے آگ سلگائی اور اس جانور کا گوشت بھون کر پکایا اور سیر ہو کر کھایا۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ پھر میں اور فلاں فلاں پانچ آدمی اس کی آنکھ کے گولے میں گھس گئے ، ہم کو کوئی نہ دیکھتا تھا یہاں تک کہ ہم باہر نکلے (اتنا بڑا جانور تھا)۔ پھر ہم نے اس کی پسلیوں میں سے پسلی لی اور قافلے میں سے اس شخص کو بلایا جو سب سے بڑا تھا اور سب سے بڑے اونٹ پر سوار تھا اور سب سے بڑا زین اس پر تھا تو وہ اپنا سر جھکائے بغیر اس پسلی کے نیچے سے گزر گیا(اتنی اونچی اس جانور کی پسلی تھی۔ بیشک اللہ اپنے راہ میں نکلنے والوں کو دیتا ہے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : چاند کا ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو جانا۔
1538: سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ منیٰ میں تھے کہ چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا۔ ایک ٹکڑا تو پہاڑ کے اس طرف رہا اور ایک اس طرف چلا گیا۔ پس رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ گواہ رہو۔

1539: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ والوں نے رسول اللہﷺ سے کوئی نشانی چاہی تو آپﷺ نے انہیں دو حصوں میں چاند کا پھٹنا دکھایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : شر کے ارادے سے آنے والے سے نبیﷺ کا محفوظ رہنا۔
1540: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ابو جہل نے کہا کہ محمدﷺ اپنا منہ تمہارے سامنے زمین پر رکھتے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ ابو جہل نے کہا کہ قسم لات اور عزیٰ کی کہ اگر میں ان کو اس حال (یعنی سجدہ) میں دیکھوں گا تو میں ان کی گردن روندوں گا یا منہ میں مٹی لگاؤں گا۔ پھر جب آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے ، وہ رسول اللہﷺ کے پاس اس ارادہ سے آیا تاکہ آپﷺ کی گردن روندے ، تو لوگوں نے دیکھا کہ یکایک ہی ابو جہل الٹے قدموں پھر رہا ہے اور ہاتھ سے کسی چیز سے بچتا ہے۔لوگوں نے پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ وہ بولا کہ میں نے دیکھا کہ محمدﷺ کے درمیان میں آگ کی ایک خندق ہے اور خوف ہے اور (پر) بازو رہیں (وہ فرشتوں کے بازو/پر تھے ) رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ میرے نزدیک آتا تو فرشتے اس کی بوٹی بوٹی، عضو عضو اچک لیتے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اتاریں کہ "ہرگز نہیں، آدمی شرارت کرتا ہے۔ اس وجہ سے کہ اپنے آپ کو امیر سمجھتا ہے۔ آخر تجھے تیرے رب کی طرف جانا ہے۔ کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جوا یک بندے کو نماز سے روکتا ہے ؟ (معاذ اللہ جو کسی مسلمان کو نماز سے منع کرے یا مسجد سے روکے تو وہ ابو جہل جیسا ہے ) بھلا تو کیا سمجھتا ہے کہ اگر یہ (محمدﷺ) سیدھی راہ پر ہوتا اور اچھی بات کا حکم کرتا ہو؟ تو کیا سمجھتا ہے کہ اگر اس نے جھٹلایا اور پیٹھ پھیری؟ یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے۔ ہرگز نہیں اگر یہ (ان بُرے کاموں سے ) باز نہ آئے گا تو ہم اس کو ماتھے کے بل گھسیٹیں گے اور اس کا ماتھا جھوٹا اور گنہگار ہے وہاں وہ اپنی قوم کو پکارے اور ہم فرشتوں کو بلائیں گے تو ہرگز اس کا کہنا نہ مان" (العلق:13--6)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس نے اس کو حکم دیا جس کا اس نے اس کو حکم دیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ پس چاہئیے کہ اپنی قوم کو پکارے یعنی اپنی قوم کے لوگوں کو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا، قتل کے ارادے سے آنے والے (کے شر) سے محفوظ رہنا۔
1541: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ہمراہ نجد کی طرف جہاد کو گئے تو ہم نے آپﷺ کو ایک وادی میں پایا جہاں کانٹے دار درخت بہت زیادہ تھے۔ آپﷺ ایک درخت کے نیچے اترے اور اپنی تلوار ایک شاخ سے لٹکا دی اور لوگ اس وادی میں الگ الگ ہو کر سایہ ڈھونڈھتے ہوئے پھیل گئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص میرے پاس آیا، میں سو رہا تھا کہ اس نے تلوار اتار لی اور میں جاگا تو وہ میرے سر پر کھڑا ہوا تھا۔ مجھے اس وقت خبر ہوئی جب اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار آ گئی تھی۔ وہ بولا کہ اب تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے ؟ میں نے کہا کہ اللہ! پھر دوسری بار اس نے یہی کہا تو میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ۔ یہ سن کر اس نے تلوار نیام میں کر لی۔ وہ شخص یہ بیٹھا ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے اس سے کچھ بھی نہ کہا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : زہر اور زہر ملی بکری (کا گوشت) کھانے کا بیان۔
1542: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودیہ عورت رسول اللہﷺ کے پاس زہر ملا کر بکری کا گوشت لائی تو آپﷺ نے اس میں سے کھایا۔ پھر وہ عورت آپﷺ کے پاس لائی گئی تو آپﷺ نے پوچھا کہ یہ تو نے کیا کیا؟ وہ بولی کہ میں آپﷺ کو مار ڈالنا چاہتی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھے اتنی طاقت دینے والا نہیں (کہ تو اس کے پیغمبر کو ہلا ک کر سکے )۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! ہم اس کو قتل نہ کر دیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں (یہ آپﷺ کا اس پر رحم تھا اور اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ آپﷺ پیغمبر برحق تھے ورنہ اگر بادشاہ ہوتے تو اس عورت کو قتل کراتے ) راوی نے کہا کہ میں ہمیشہ اس زہر کا اثر آپﷺ کے حلق کے کوے میں پاتا رہا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا اندازہ درست نکلنے کے متعلق۔
1543: سیدنا ابو حمیدؓ کہتے ہیں کہ تبوک کی جنگ میں ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نکلے۔ وادی القریٰ (شام کے راستے میں مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے ) میں ایک عورت کے باغ کے پاس پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اندازہ لگاؤ اس باغ میں کتنا میوہ ہے ؟۔ ہم نے اندازہ کیا اور رسول اللہﷺ نے کے اندازے میں وہ دس وسق معلوم ہوا۔ آپﷺ نے اس عورت سے فرمایا کہ جب تک ہم لوٹ کر آئیں تم یہ (اندازہ) گنتی یاد رکھنا ، اگر اللہ نے چاہا۔ پھر ہم لوگ آگے چلے ، یہاں تک کہ تبوک میں پہنچے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ آج رات تیز آندھی چلے گی، لہٰذا کوئی شخص کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو، وہ اس کو مضبوطی سے باندھ لے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ زوردار آندھی چلی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تو اس کو ہوا اڑا لے گئی، اور (وادی) طے کے دونوں پہاڑوں کے درمیان ڈال دیا۔ ابن العلماء حاکم اَیلہ کا ایلچی ایک خط لے کر آیا اور رسول اللہﷺ کے لئے ایک سفید خچر تحفہ لایا۔ رسول اللہﷺ نے اس کو جواب لکھا اور ایک چادر تحفہ بھیجی۔ پھر ہم لوٹے ، یہاں تک کہ وادی القریٰ میں پہنچے۔ آپﷺ نے اس عورت سے باغ کے میوے کا حال پوچھا کہ کتنا نکلا؟ اس نے کہا پورا دس وسق نکلا۔ (پھر) آپﷺ نے فرمایا کہ میں جلدی جاؤں گا، لہٰذا تم میں سے جس کا دل چاہے وہ میرے ساتھ جلدی چلے اور جس کا دل چاہے ٹھہر جائے۔ ہم نکلے یہاں تک کہ مدینہ دکھائی دینے لگا، آپﷺ نے فرمایا کہ یہ "طابہ" ہے (طابہ مدینہ منورہ کا نام ہے ) اور یہ احد پہاڑ ہے جو ہم کو چاہتا ہے اور ہم اس کو چاہتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ انصار کے گھروں میں بنی نجار کے گھر بہترین ہیں (کیونکہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہوے ) پھر بنی عبدالاشہل کے گھر، پھر بنی حارث بن خزرج کے گھر۔ پھر بنی ساعدہ کے گھر اور انصار کے سب گھروں میں بہتری ہے۔ پھر سعد بن عبادہؓ ہم سے ملے۔ ابو اسیدؓ نے کہا کہ تم نے نہیں سنا کہ رسول اللہﷺ نے انصار کے گھروں کی بہتری بیان فرمائی تو ہم کو سب کے اخیر میں کر دیا؟۔ یہ سن کر سیدنا سعدؓ رسول اللہﷺ سے ملے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ نے انصار کی فضیلت بیان کی اور ہم کو سب سے آخر میں کر دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ کافی نہیں ہے کہ تم اچھوں میں رہے ؟۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا فرمان کہ میں تمہاری کمر پکڑ کر جہنم سے روکتا ہوں۔
1544: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کہ میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کے گرد روشنی ہوئی تو اس میں کیڑے اور یہ جانور جو آگ میں ہیں، گرنے لگے اور وہ شخص ان کو روکنے لگا، لیکن وہ نہ رکے اور اس میں گرنے لگے۔ یہ مثال ہے میری اور تمہاری، میں تمہاری کمر پکڑ کر جہنم سے روکتا ہوں اور کہتا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم نہیں مانتے اسی میں گھسے جاتے ہو۔
 
Top