• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کا اپنے علاوہ کسی سے قرآن سننا۔
2119: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ تم میرے سامنے قرآن پڑھو۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ا! میں آپﷺ کے آگے قرآن پڑھوں؟ حالانکہ آپﷺ ہی پر تو اترا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اور سے سنوں۔ پھر میں نے سورۂ نساء پڑھی، یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا "فکیف اذا جئنا" (النسآء:41) تو میں نے سر اٹھایا یا مجھے کسی نے چٹکی لی تو میں نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ آپﷺ کے آنسو بہہ رہے تھے۔

2120: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں حمص میں تھا کہ لوگوں نے مجھ سے قرآن سنانے کو کہا۔ میں نے سورۂ یوسف پڑھی۔ ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم! ایسا نہیں اترا۔ میں نے کہا کہ تیری خرابی ہو، اللہ کی قسم! میں نے تو یہ سورت رسول اللہﷺ کے آگے پڑھی تھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے خوب پڑھا۔ غرض میں اس سے بات کر ہی رہا تھا کہ میں نے اس سے شراب کی بُو پائی۔ میں نے کہا کہ تو شراب پیتا ہے اور اللہ کی کتاب کو جھٹلاتا ہے ؟ تو جانے نہ پائے گا جب تک میں تجھے حد نہ مار لوں گا۔ پھر میں نے اسے (شراب کی حد کے ) کوڑے مارے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قرآن کے بارے میں اختلاف کرنے سے سختی۔
2121: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں صبح سویرے رسول اللہﷺ کے پاس گیا۔ آپﷺ نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو ایک آیت کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو آپﷺ باہر نکلے اور آپﷺ کے چہرے پر غصہ معلوم ہوتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جھگڑا کرنے کی وجہ سے تباہ ہوئے (جو نفسانیت اور فساد کی نیت سے ہویا لوگوں کو بہکانے کیلئے۔ لیکن مطلب کی تحقیق کے لئے اور دین کے احکام نکالنے کے لئے درست ہے۔ نووی)۔

2122: سیدنا جندب بن عبد اللہ بجلیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قرآن اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارے دل تمہاری زبان سے موافقت کریں اور جب تمہارے دل اور زبان میں اختلاف پڑے ، تو اٹھ کھڑے ہو۔
بُو پائی۔ میں نے کہا کہ تو شراب پیتا ہے اور اللہ کی کتاب کو جھٹلاتا ہے ؟ تو جانے نہ پائے گا جب تک میں تجھے حد نہ مار لوں گا۔ پھر میں نے اسے (شراب کی حد کے ) کوڑے مارے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قرآن کے بارے میں اختلاف کرنے سے سختی۔
2121: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ ایک دن میں صبح سویرے رسول اللہﷺ کے پاس گیا۔ آپﷺ نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو ایک آیت کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو آپﷺ باہر نکلے اور آپﷺ کے چہرے پر غصہ معلوم ہوتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جھگڑا کرنے کی وجہ سے تباہ ہوئے (جو نفسانیت اور فساد کی نیت سے ہویا لوگوں کو بہکانے کیلئے۔ لیکن مطلب کی تحقیق کے لئے اور دین کے احکام نکالنے کے لئے درست ہے۔ نووی)۔

2122: سیدنا جندب بن عبد اللہ بجلیؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قرآن اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارے دل تمہاری زبان سے موافقت کریں اور جب تمہارے دل اور زبان میں اختلاف پڑے ، تو اٹھ کھڑے ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب: تفسیر (قرآن مجید)

سورۃ البقرة
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَادْخُلُوْا الْبَابَ سُجَّدًا ...﴾ کے متعلق۔
2123: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ تم (بیت المقدس کے ) دروازہ میں رکوع کرتے ہوئے جاؤ اور کہو گُناہوں کی بخشش (چاہتے ہیں) تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے " لیکن بنی اسرائیل نے حکم کے خلاف کیا اور وہ دروازہ میں سرین کے بل گھسٹتے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ "بالی میں دانہ" (یعنی ہمیں گندم چاہئیے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَیْسَ الْبِرَّ ...﴾ کے بارے میں۔
2124: ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا براءؓ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ انصار جب حج کر کے لوٹ کر آتے تو گھر میں (دروازے سے ) نہ آتے بلکہ پیچھے سے (دیوار پر چڑھ کر) آتے۔ ایک انصاری آیا اور دروازے سے داخل ہوا تو لوگوں نے اس کے بارے میں اس سے گفتگو کی، تب یہ آیت اتری کہ "یہ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں پیچھے سے آؤ، بلکہ نیکی یہ ہے کہ پرہیزگاری کرو اور گھروں میں دروازے سے آؤ"۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿رَبِّ اَرِنِیْ ...﴾ کے متعلق۔
اس باب میں سیدنا ابو ہریرہؓ کی حدیث کتاب الفضائل میں گزر چکی ہے (دیکھئے حدیث: 1608)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالی کے فرمان ﴿وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِی...﴾ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے متعلق۔
2125: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ پر یہ آیت: نازل ہوئی ﴿ِللهِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْض ...﴾ یعنی "جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے ، سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ تم اس بات کو ظاہر کرو جو تمہارے دلوں میں ہے یا چھپائے رکھو، اللہ تعالیٰ تم سے حساب لے لے گا، پھر جس کو چاہے گا معاف کر دے گا اور جس کو چاہے گا عذاب دے گا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے " نازل ہوئی تو یہ آیت صحابہ کرامؓ پر بہت ہی سخت گزری۔ وہ نبیﷺ کے پاس آئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ پھر کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ (پہلے تو ) ہم نماز، روزہ، جہاد اور صدقہ وغیرہ ایسے اعمال کے مکلف بنائے گئے تھے (جن پر طاقت رکھتے تھے )، اور اب آپ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے ، اس کی تو ہم طاقت ہی نہیں رکھتے۔ نبیﷺ نے فرمایا کیا تم ویسی ہی بات کہنا چاہتے ہو جیسی تم سے پہلے دو کتابوں والوں (یہود و نصاریٰ) نے کہی تھی (یعنی انہوں نے کہا) "سمعنا و عصینا" کہ ہم نے (اللہ اور رسول کی بات کو) سن تو لیا ہے لیکن مانتے نہیں ہیں، بلکہ آپ لوگوں کو یوں کہنا چاہیئے کہ ہم نے (اللہ کی اور رسول کی بات کو) سن لیا اور مان لیا۔ اے ہمارے رب ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور ہماری واپسی تیری طرف ہے۔ تو صحابہ کرامؓ نے یہی کہا کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا ہم اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہیں اے ہمارے رب! اور تیری ہی طرف واپسی ہے۔ جب صحابہ کرامؓ نے اس کو پڑھنا شروع کیا تو اس کے پڑھنے سے ان کی زبانوں کو سہولت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل کیں ﴿اٰمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ ...﴾ یعنی "رسول اللہﷺ اس (شریعت) کے ساتھ ایمان لائے جو ان کے رب کی طرف سے ان پر نازل کی گئی اور مومن لوگ بھی ایمان لائے اور سب کے سب ایمان لائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ (سب کے سب کہتے ہیں) کہ ہم اللہ کے رسولوں کے درمیان فرق نہیں کرتے (سب رسولوں کو مانتے ہیں یہ نہیں کہ کسی رسول کو مانیں اور کسی کو نہ مانیں) اور انہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور مان لیا، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی طرف واپسی ہے "۔
جب صحابہ کرامؓ نے یہ کیا (یعنی ان آیات کو پڑھا اور سچے دل سے پڑھا) تو اللہ تعالی نے آیت ﴿وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسُکُمْ ...﴾ آیت کو منسوخ کر دیا اور آیت ﴿لَا یُکَلِّفُ الله نَفْسًا... ﴾ اتار دی یعنی "اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف میں نہیں ڈالتا، اس (نفس) کے لئے وہ ہے جو اس نے کمایا اور اس کے خلاف بھی وہی کچھ ہو گا جو اس نے کمایا، اے ہمارے رب! ہم پر ویسا بوجھ نہ رکھنا جیسا کہ ہم سے پہلے والوں پر رکھا تھا تو اللہ نے فرمایا "ہاں"۔ اے ہمارے رب! ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوانا جس کی ہم میں اٹھانے کی طاقت نہ ہو تو اللہ نے فرمایا "ہاں"۔ اور ہمیں معاف کر دے ، ہمیں بخش دے ، ہم پر رحم کر تو ہمارا دوست یا مالک ہے ، پس تو کافر قوم پر ہماری مدد فرما تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا "ہاں"۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سورۃ آل عمران
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ ...﴾ کے متعلق۔
2126: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ "اللہ تعالیٰ وہ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری، اس میں بعض آیتیں مضبوط (محکم) ہیں، وہ تو کتاب کی جڑ ہیں اور بعض متشابہ (یعنی گول مول یا چھپے مطلب کی)۔ پھر جن لوگوں کے دل میں گمراہی ہے ، وہ متشابہ آیتوں کا کھوج کرتے ہیں اور فساد چاہتے ہیں اور اس کا مطلب چاہتے ہیں حالانکہ اس کا مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو پکے علم والے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے سب آیتیں ہمارے رب کے پاس سے آئی ہیں اور نصیحت وہی سنتے ہیں جو عقل رکھتے ہیں" اُمّ المؤمنین کہتی ہیں کہ (تلاوت کے بعد) رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کا کھوج کرتے ہیں تو ان سے بچو کہ وہی لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے (قرآن میں) نام لیا ہے۔ (یعنی ان کے دلوں میں کجی ہے اس لئے ایمان والوں کو ایسے لوگوں سے بچنا چاہیئے )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ ...﴾ کے متعلق۔
2127: سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ کچھ منافق رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں ایسے تھے کہ جب آپﷺ لڑائی پر جاتے تو وہ پیچھے رہ جاتے اور نبیﷺ کے پیچھے گھر میں بیٹھنے سے خوش ہوتے۔ پھر جب آپﷺ لوٹ کر آتے تو آپﷺ سے عذر کرتے اور قسم کھاتے اور چاہتے کہ لوگ ان کی ان کاموں پر تعریف کریں جو انہوں نے نہیں کئے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "مت گمان کرو ان لوگوں کو جو اپنے کئے سے خوش ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی ایسے کاموں پر تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کئے ، پس ان کے بارہ میں یہ گمان ہرگز نہ کرو کہ یہ عذاب سے چھٹکارا پائیں گے ان کو دُکھ کی مار ہے "۔

2128: حمید بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا کہ ابن عباسؓ کے پاس جا اور کہہ کہ اگر ہم میں سے ہر اس آدمی کو عذاب ہو جو اپنے کئے پر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ لوگ اس کی اس بات پر تعریف کریں جو اس نے نہیں کی، پھر تو ہم سب کو عذاب ہو گا (کیونکہ ہم سب میں یہ عیب موجود ہے ) تو سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ تمہیں اس آیت سے کیا تعلق ہے ؟ یہ آیت تو اہل کتاب کے حق میں اتری ہے۔ پھر سیدنا ابن عباسؓ نے یہ آیت ﴿وَاِذْ اَخَذَ اللهُ ...﴾ آخر تک پڑھی اور پھر ﴿لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ ...﴾ آیت پڑھی۔ سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے اہل کتاب سے کوئی بات پوچھی تو انہوں نے اس کو چھپایا اور اس کے بدلے دوسری بات بتائی۔ پھر اس حال میں نکلے کہ آپﷺ کو یہ سمجھایا کہ ہم نے آپﷺ کو وہ بات بتا دی جو آپﷺ نے پوچھی تھی اور آپﷺ سے اپنی تعریف کے طلبگار ہوئے اور دل میں اپنے کئے پر خوش ہوئے (یعنی اپنی اصل بات کے چھپانے پر جو آپﷺ نے ان سے پوچھی تھی تواللہ تعالیٰ انہیں کو فرماتا ہے کہ ان کو عذاب ہو گا اور مراد وہی اہلِ کتاب ہیں)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سورۃ النساء
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا ...﴾ اور ﴿وَیَسْتَفْتُوْنَکَ فِی النِّسَآءِ ...﴾ کے متعلق۔
2129: سیدنا عروہ بن زبیرؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے اس فرمان "اگر تم ڈرو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند آئیں دو دو سے اور تین تین سے اور چار چار سے " کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اے میرے بھانجے ! اس آیت سے مراد وہ یتیم لڑکی ہے جو اپنے ولی کی گود میں ہو (یعنی پرورش میں جیسے چچا کی لڑکی بھتیجے کے پاس ہو) اور اس کے مال میں شریک ہو (مثلاً چچا کے مال میں)، پھر اس ولی کو اس کا مال اور حسن و جمال پسند آئے اور وہ اس سے نکاح کرنا چاہے لیکن اس کے مہر میں انصاف نہ کرے اور اتنا مہر نہ دے جو اور لوگ دینے کو مستعد ہوں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا ہے مگر اس صورت میں (نکاح کرنا جائز ہے ) جب وہ انصاف کریں اور مہر پورا دینے پر راضی ہوں اور ان کو حکم کیا کہ (ان کے علاوہ) دوسری عورتوں سے نکاح کریں جو ان کو پسند آئیں۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ لوگوں نے یہ آیت اُترنے کے بعد پھر رسول اللہﷺ سے ان لڑکیوں کے بار ے میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "تجھ سے عورتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، تو تم کہو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہے ، اور جو کتاب میں ان یتیم عورتوں کے حق کے بارے میں پڑھا جاتا ہے جن کا مہر مقرر تم نہیں دیتے اور ان سے نکاح کرنا چاہتے ہو" اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا تھا کہ "اگر تمہیں اس بات کا خدشہ ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہیں کر سکو گے ، تو (ان کے علاوہ) جو عورتیں تمہیں پسند ہوں، ان سے نکاح کر لو۔ اور اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان دوسری آیت میں "اور تم رغبت رکھتے ہو ان سے نکاح کی" سے مراد تم میں سے کسی ایک کا اس یتیم لڑکی سے جو کہ تمہاری زیر پرورش ہو اور مال اور حسن و جمال میں کم ہو، نکاح نہ کرنے کا ارادہ مراد ہے۔ پس انہیں اس یتیم عورت سے جو کہ مال والی اور حسن و جمال والی ہو، نکاح کرنے سے منع کر دیا گیا مگر اس صورت میں کہ جب انصاف کریں (یعنی ان کا حق مہر ان اور ان کا مال وغیرہ ان کو پورا دیں)۔ (اس کا مفہوم یہ ہے کہ شروع میں چونکہ لوگ ایسا کرتے تھے کہ وہ اس یتیم لڑکی سے جو ان کے زیر پرورش ہوتی تھی اور مالدار اور حسین و جمیل ہوتی تھی تو خود ہی ان سے نکاح کر لیتے لیکن ان کے مال میں خیانت کرتے اور مہر بھی پورا نہ دیتے۔ اس صورت میں سورت کے شروع والی آیت میں انہیں ان سے نکاح کرنے سے منع کر دیا لیکن جب صحابہ کرام نے ان کے ساتھ خود نکاح کرنے میں ان کے لئے بہتری کی صورت میں ان سے نکاح کرنے کے بارہ میں پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی دوسری آیت نمبر 127 نازل فرمائی کہ انصاف کے ساتھ نکاح کرنا چاہو تو جائز اور احسن اقدام ہے )۔
 
Top