• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سورۂ مریم
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَاَنْذِرْھُمْ یَوْمَ الْحَسَرَةِ﴾ کے متعلق۔
2149: سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن موت ایک سفید مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی اور اس کو دوزخ اور جنت کے درمیان میں ٹھہرا دیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اے جنت والو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ اپنا سر اٹھا کر کہیں گے اور اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہاں! ہم پہچانتے ہیں، یہ موت ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے دوزخ والو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ بھی سر اٹھا کر اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہاں! ہم اس کو پہچانتے ہیں، یہ موت ہے۔ پھر حکم ہو گا تو وہ مینڈھا ذبح کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا کہ اے جنت والو! تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اور کبھی موت نہیں ہے اور اے دوزخ والو! تمہیں بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور تمہارے لئے بھی کبھی موت نہیں ہے۔ پھر رسول اللہﷺ نے یہ آیت پڑھی "اور ان کو حسرت کے دن سے ڈراؤ جب فیصلہ ہو جائے گا اور وہ غفلت میں ہیں اور یقین نہیں کرتے " آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ کیا (یعنی دنیا میں ایسے مشغول ہیں کہ قیامت کا ڈر نہیں ہے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اَفَرَاَیْتَ الَّذِیْ کَفَرَ ...﴾ کے متعلق۔
2150: سیدنا خبابؓ کہتے ہیں کہ عاص بن وائل پر میرا قرض تھا، میں اس سے لینے کو گیا تو وہ بولا کہ میں کبھی نہ دوں گا جب تک تو محمد ا(کے دین) سے پھر نہ جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں تو محمد (ا) سے اس وقت بھی نہ پھروں گا کہ تو مر کر جی اٹھے۔ وہ بولا کہ میں مرنے کے بعد پھر اٹھوں گا تو تیرا قرض ادا کروں گا۔ تب یہ آیت اتری "تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہنے لگا کہ مجھے مال اور اولاد ملے گی۔ کیا وہ غیب کی بات کو جانتا ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی اقرار کیا ہے ؟ ......" آخر تک۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سورۃ الانبیاء
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿کَمَا بَدَاَنَا اَوَّلَ خَلْق ...﴾کے متعلق۔
2151: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ اے لوگو! تم اللہ کی طرف ننگے پاؤں بن ختنہ کئے اکٹھے کئے جاؤ گے "جیسے ہم نے اوّل بار پیدا کیا، ویسا ہی دوبارہ پیدا کریں گے۔ یہ ہمارا وعدہ ہے جس کو ہم کرنے والے ہیں" (104) خبردار رہو! تمام مخلوقات میں سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو قیامت کے دن کپڑے پہنائے جائیں گے ، اور آگاہ رہو کہ میری امت کے کچھ لوگ لائے جائیں گے پھر ان کو بائیں (کافروں کی) طرف ہٹا دیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ اے میرے مالک! یہ تو میرے ماننے والے ہیں۔ جواب میں کہا جائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا نئے کام کئے۔ پس میں وہی کہوں گاجو نیک بندے (عیسیٰ علیہ السلام) نے کہا کہ "میں تو ان لوگوں پر اس وقت تک گواہ تھا جب تک ان میں موجود تھا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ان پر نگہبان تھا (اور مجھے ان کا علم نہ رہا) اور تو ہر چیز پر گواہ ہے (یعنی تیرا علم سب جگہ ہے )۔ اگر تو ان کو عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب حکمت والا ہے " (المائدہ: 117-118) پھر مجھ سے کہا جائے گا کہ تمہارے جدا ہونے کے بعد یہ لوگ مرتد ہو گئے یعنی دین سے پھر گئے۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ...﴾ کے متعلق۔
2146: سیدنا ابن عباسؓ اس آیت "تم اپنی نماز کو نہ زیادہ اونچی آواز میں پڑھو اور نہ بالکل ہی آہستہ، بلکہ متوسط طریقہ اختیار کرو" کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کہ رسول اللہﷺ خوف کی وجہ سے ایک گھر میں پوشیدہ تھے۔ واقعہ یہ ہے جب آپﷺ صحابہ کو نماز پڑھاتے تو قرآن بآوازِ بلند پڑھتے۔ پس جب کہ مشرک قرآن کریم کی آواز سنتے تو قرآن کریم، اس کو نازل کرنے والے (یعنی اللہ تعالیٰ) اور جس پر نازل ہوا (یعنی رسول اللہﷺ ) کو گالیاں دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ سے فرمایا کہ"آپﷺ تنے زور سے نماز (میں قرآن)نہ پڑھیں" کہ جسے مشرک سن سکیں "اور اتنے آہستہ بھی نہ (قرآن) پڑھیں" کہ آپ کے اصحاب بھی نہ سن سکیں "بلکہ درمیانی آواز میں (قرآن) پڑھئے " آہستہ اور اونچی آواز کے درمیان درمیان۔

2147: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان "وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ... کے متعلق کہتی ہیں کہ یہ دعا کے بارے نازل ہوئی (یعنی دعا نہ بہت زور سے مانگو اور نہ بہت آہستہ آواز میں)۔
حدیث کی کتاب کا نا م ؟
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سورۂ حج
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿ھَذَانِ خَصْمَان اخْتَصَمُوْا ...﴾ کے متعلق۔
2152: سیدنا قیس بن عباد کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابو ذرؓ سے سنا، وہ (سورہ حج کی اس آیت کے متعلق) قسم کھاتے تھے کہ "یعنی یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں، جو اپنے رب کے بارے میں لڑتے ہیں" بیشک یہ ان لوگوں کے حق میں اتری ہے جو بدر کے دن مسلمانوں کی طرف سے (صف سے ) لڑنے کے لئے باہر نکلے تھے۔ سیدالشہداء سیدنا حمزہ، سیدنا علی مرتضی اور عبیدہ بن حارثؓ اور کافروں کی طرف سے عتبہ اور شیبہ دونوں ربیعہ کے بیٹے اور ولید بن عتبہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سورۃ النور
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿اِ نَّ الَّذِیْنَ جَاؤوْکَ بِالْاِفْکِ ...﴾کے متعلق۔
2153: زہری کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، علقمہ بن وقاص اور عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث روایت کی، جب ان پر تہمت لگانے والوں نے تہمت لگائی اور کہا جو کہا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی تہمت سے پاک کیا۔ زہری نے کہا کہ ان سب لوگوں نے مجھ سے اس حدیث کا ایک ایک ٹکڑا روایت کیا اور ان میں سے بعض دوسروں سے اس حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے تھے اور زیادہ حافظ اور عمدہ بیان کرنے والے تھے اور میں نے ہر ایک سے جو اس نے روایت کی یاد رکھا اور بعض کی حدیث بعض کی تصدیق کرتی ہے۔
ان لوگوں نے بیان کیا کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے اور جس عورت کے نام پر قرعہ نکلتا اس کو سفر میں ساتھ لے جاتے تھے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے جہاد کے ایک سفر میں قرعہ ڈالا تو اس میں میرا نام نکلا، میں رسول اللہﷺ کے ساتھ گئی اور یہ اس وقت کا ذکر ہے جب پردہ کا حکم اتر چکا تھا۔ میں اپنے ہودج میں سوار ہوتی اور راہ میں جب پڑاؤ ہوتا تو میرا ہودج اتار لیا جاتا۔
جب رسول اللہﷺ جہاد سے فارغ ہو کر لوٹے اور مدینہ سے قریب ہو گئے تو ایک بار آپﷺ نے رات کو کوچ کا حکم دیا؟ جب لوگوں نے کوچ کی خبر کر دی تو میں کھڑی ہوئی اور چلی یہاں تک کہ لشکر سے ایک طرف چلی گئی۔ جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوئی تو اپنے ہودج کی طرف آئی اور سینہ کو چھوا تو معلوم ہوا کہ میرا ظفار کے نگینوں کا ہار گم ہو گیا ہے (ظفار یمن میں ایک گاؤں کا نام ہے ) میں لوٹی اور اس ہار کو ڈھونڈھنے لگی، اس کے ڈھونڈھنے میں مجھے دیر لگی اور وہ لوگ آ پہنچے جو میرا ہودہ اٹھاتے تھے ، انہوں نے ہودہ اٹھایا اور اس اونٹ پر رکھ دیا جس پر میں سوار ہوتی تھی اور وہ یہ سمجھے کہ میں اسی ہودے میں ہوں۔
اس وقت عورتیں ہلکی (دبلی) ہوتی تھیں کیونکہ تھوڑا کھانا کھاتی تھیں۔ اس لئے جب انہوں نے ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا تو انہیں اس کا وزن ہلکا محسوس نہ ہوا میں ویسے بھی ایک کم سن لڑکی تھی۔ آخر لوگوں نے اونٹ کو اٹھایا اور چل دئیے۔ میں نے اپنا ہار اس وقت پایا جب سارا لشکر چل دیا تھا اور میں جو ان کے ٹھکانے پر آئی تو وہاں نہ کسی کی آواز تھی اور نہ کوئی آواز سننے والا تھا۔ میں نے یہ ارادہ کیا کہ جہاں بیٹھی تھی وہیں بیٹھ جاؤں اور میں سمجھی کہ لوگ جب مجھے نہ پائیں گے تو یہیں لوٹ کر آئیں گے۔ تو میں اسی ٹھکانے پر بیٹھی تھی کہ میری آنکھ لگ گئی اور میں سو رہی۔
اور صفوان بن معطل سلمی ذکوانیؓ ایک آدمی جو کہ آرام کے لئے آخر رات میں لشکر کے پیچھے ٹھہرے تھے جب وہ روانہ ہوئے تو صبح کو میرے ٹھکانے پر پہنچے۔ ان کو ایک آدمی کا جسم معلوم ہوا جو سو رہا ہو، وہ میرے پاس آیا اور مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ پردہ کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ میں ان کی آواز سن کر جاگ اٹھی جب اس نے مجھے پہچان کر "انا للہ وانا الیہ راجعون" پڑھا پس میں نے اپنی اوڑھنی سے اپنا منہ ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم! اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ میں نے اس کی کوئی بات سوائے "انا للہ وانا الیہ راجعون" کہنے کے سنی۔ پھر اس نے اپنا اونٹ بٹھایا اور اونٹ کے گھٹنے پر اپنا پاؤں میرے سوار ہونے کے لئے رکھا۔ میں اونٹ پر سوار ہو گئی اور وہ اونٹ کو کھینچتا ہوا پیدل چلا، یہاں تک کہ ہم لشکر میں پہنچے اور لشکر کے لوگ دوپہر کی سخت گرمی میں اتر چکے تھے۔ سو میرے اس معاملہ میں بدگمانی کی وجہ سے ہلاک ہوئے جو ہوئے ، اور قرآن میں جس کے متعلق "تولّٰی کِبْرَہ" آیا ہے ، یعنی اس تہمت کا بانی مبانی، وہ عبد اللہ بن ابی ابن سلول (منافقوں کا سردار) تھا۔
آخر ہم مدینہ میں آئے اور جب میں مدینہ میں پہنچی تو بیمار ہو گئی۔ ایک مہینہ تک بیمار رہی اور لوگوں کا یہ حال تھا کہ بہتان لگانے والوں کی باتوں میں غور کرتے تھے اور مجھے ان کی کسی بات کی کوئی خبر نہ تھی۔ صرف مجھے اس بات سے شک ہوا کہ میں نے اپنی بیماری میں رسول اللہﷺ کی وہ شفقت نہ دیکھی جو پہلے میری بیماری کی حالت میں ہوتی تھی۔اس دوران آپﷺ صرف اندر آتے ، سلام کرتے اور پھر فرماتے کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ پس اس بات سے مجھے شک ہوتا لیکن مجھے اس خرابی کی خبر نہ تھی، یہاں تک کہ جب میں بیماری کے جانے کے بعد دبلی ہو گئی تو میں مناصع کی طرف نکلی اور میرے ساتھ اُمّ مسطح بھی نکلی (مناصع مدینہ کے باہر جگہ تھی) لوگوں کے (پائخانے بننے سے پہلے ) پائخانے تھے۔ پھر دوسری رات کو جاتے تھے۔ یہ ذکر اس وقت کا ہے جب ہمارے گھروں میں پائخانے نہیں بنے تھے اور ہم لوگ اگلے عربوں کی طرح (پائخانے کے لئے ) جنگل میں جایا کرتے تھے اور گھر کے پاس پائخانے بنانے سے نفرت رکھتے تھے۔ تو میں چلی اور اُمّ مسطح بھی میرے ساتھ تھی اور وہ ابی رہم بن مطلب بن عبد مناف کی بیٹی تھی اور اس کی ماں صخر بن عامر کی بیٹی تھی جو سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی خالہ تھی (اس کا نام سلمیٰ تھا)۔ اس کے بیٹے کا نام مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب تھا۔ غرض میں اور اُمّ مسطح دونوں جب قضائے حاجت سے فارغ ہو چکیں تو واپسی پر اپنے گھرکی طرف آ رہی تھیں کہ اُمّ مسطح کا پاؤں اپنی چادر میں الجھا تو وہ بولی کہ مسطح ہلاک ہو۔ میں نے کہا کہ تو نے بُری بات کہی۔ تو اس شخص کو بُرا کہتی ہے جو بدر کی لڑائی میں شریک تھا؟ وہ بولی کہ اے نادان! تو نے کچھ نہیں سنا کہ مسطح نے کیا کہا؟ میں نے کہا کہ اس نے کیا کہا؟ اس نے مجھ سے بیان کیا جو بہتان والوں نے کہا تھا۔ یہ سن کر میری بیماری زیادہ ہو گئی۔ میں جب اپنے گھر پہنچی تو رسول اللہﷺ اندر تشریف لائے اور سلام کیا اور فرمایا کہ تمہارا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا کہ آپ مجھے اپنے ماں باپ کے پاس جانے کی اجازت دیتے ہیں؟ اور میرا اس وقت یہ ارادہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ کے پاس جا کر اس خبر کی تصدیق کروں گی۔ آخر رسول اللہﷺ نے مجھے اجازت دی اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی۔ میں نے اپنی ماں سے کہا کہ امی جان! یہ لوگ کیا بک رہے ہیں؟ وہ بولی کہ بیٹا تو اس کا خیال نہ کر اور اس کو بڑی بات مت سمجھ، اللہ کی قسم! ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی مرد کے پاس ایک خوبصورت عورت ہو جو اس کو چاہتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور سوکنیں اس کے عیب نہ نکالیں۔ میں نے کہا کہ سبحان اللہ! لوگوں نے تو یہ کہنا شروع کر دیا۔ میں ساری رات روتی رہی، صبح تک میرے آنسو نہ ٹھہرے اور نہ نیند آئی، صبح کو بھی میں رو رہی تھی۔
رسول اللہﷺ نے علی بن ابی طالب اور اسامہ بن زید ث کو بلایا کیونکہ وحی نہیں اتری تھی اور ان دونوں سے مجھے جدا کرنے (یعنی طلاق دینے ) کا مشورہ لیا اور اسامہ بن زیدؓ نے تو وہی رائے دی جو وہ رسول اللہﷺ کی بیوی کے حال کو جانتے تھے اور اس کی عصمت کو اور آپﷺ کی اس کے ساتھ محبت کو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ عائشہ (رضی اللہ عنہا) آپﷺ کی بیوی ہیں اور ہم تو ان کی سوائے بہتری کے اور کوئی بات نہیں جانتے۔ علیؓ بن ابی طالب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ پر تنگی نہیں کی اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا عورتیں بہت ہیں اور اگر آپﷺ لونڈی سے پوچھیں تو وہ آپﷺ سے سچ کہہ دے گی (لونڈی سے مراد بریرہ رضی اللہ عنہا ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہتی تھی) اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے بریرہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے بریرہ! تو نے کبھی عائشہ سے ایسی بات دیکھی ہے جس سے تجھے اس کی پاکدامنی پر شک پڑے ؟ بریرہ نے کہا کہ قسم اس کی جس نے آپﷺ کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا ہے ، اگر میں ان کا کوئی کام دیکھتی تو میں عیب بیان کرتی، اس سے زیادہ کوئی عیب نہیں ہے کہ عائشہ کم عمر لڑکی ہے ، گھر کا آٹا چھوڑ کر سو جاتی ہے ، پھر بکری آتی ہے اور اس کو کھا لیتی ہے (مطلب یہ ہے کہ ان میں کوئی عیب نہیں جس کو تم پوچھتے ہو نہ اس کے سوا کوئی عیب ہے ، جو عیب ہے وہ یہی ہے کہ بھولی بھالی لڑکی ہے اور کم عمری کی وجہ سے گھرکا بندوبست نہیں کر سکتی)۔
اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور عبد اللہ بن ابی ابن سلول سے جواب طلب کیا۔ آپﷺ نے منبر پر فرمایا کہ اے مسلمان لوگو! اس شخص سے مجھے کون انصاف دلائے گا جس کی ایذا دینے والی سخت بات میرے گھر والوں کی نسبت مجھ تک پہنچی، اللہ کی قسم! میں تو اپنی گھر والی (یعنی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کو نیک سمجھتا ہوں اور جس شخص پر یہ تہمت لگاتے ہیں (یعنی صفوان بن معطل) اس کو بھی میں نیک سمجھتا ہوں اور وہ کبھی میرے گھر نہیں گیا مگر میرے ساتھ۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن معاذ انصاریؓ (جو قبیلہ اوس کے سردار تھے ) کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ میں آپﷺ کا بدلہ لیتا ہوں اگر تہمت کرنے والا ہماری قوم اوس میں سے ہو تو ہم اس کی گردن مارتے ہیں اور جو ہمارے خزرج بھائیوں میں سے ہو تو آپﷺ حکم کیجئے ہم آپﷺ کے حکم کی تعمیل کریں گے (یعنی اس کی گردن ماریں گے )۔ یہ سن کر سیدنا سعد بن عبادہؓ کھڑے ہوئے اور وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور نیک آدمی تھے۔ لیکن اس وقت ان کو اپنی قوم کی غیرت آ گئی اور کہنے لگے کہ اے سعد بن معاذ! اللہ کے بقا کی قسم! تو نے جھوٹ بولا ہے ، تو ہماری قوم کے شخص کو قتل نہ کر سکے گا (یہ سن کر) سیدنا اسید بن حضیر جو سیدنا سعد بن معاذؓ کے چچازاد بھائی تھے ، کھڑے ہوئے اور سیدنا سعد بن عبادہؓ سے کہنے لگے کہ تو نے غلط کہا، اللہ کے بقا کی قسم! ہم اسکو قتل کریں گے اور تو منافق ہے جبھی تو منافقوں کی طرف سے لڑتا ہے۔ غرض کہ دونوں قبیلے اوس اور خزج کے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ خونریزی شروع ہو جاتی کہ رسول اللہﷺ منبر پر کھڑے ان کو سمجھا رہے تھے اور ان کا غصہ ٹھنڈا کر رہے تھے ، یہاں تک کہ وہ خاموش ہو گئے اور آپﷺ بھی خاموش ہو رہے۔
اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس دن بھی سارا دن روتی رہی، میرے آنسو نہیں تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی اور میرے باپ نے یہ گمان کیا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ میرے ماں باپ میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رو رہی تھی۔
اتنے میں انصار کی ایک عورت نے اجازت مانگی۔ میں نے اس کو اجازت دی وہ بھی آ کر رونے لگی۔ پھر ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے اور سلام کر کے بیٹھ گئے اور جس روز سے مجھ پر تہمت ہوئی تھی، اس روز سے آج تک آپﷺ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک مہینہ یونہی گزر چکا تھا کہ میرے مقدمہ میں کوئی وحی نہیں اتری تھی۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر رسول اللہﷺ نے بیٹھتے ہی تشہد پڑھا اور فرمایا کہ اما بعد! اے عائشہ مجھے تمہاری طرف سے ایسی ایسی خبر پہنچی ہے ، پھر اگر تم پاکدامن ہو تو عنقریب اللہ تعالیٰ تمہاری پاکدامنی بیان کر دے گا اور اگر تو نے گناہ کیا ہے تو توبہ کر اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگ، اس واسطے کہ بندہ جب گناہ کا اقرار کرتا ہے اور توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب رسول اللہﷺ اپنی بات مکمل کر چکے تو میرے آنسو بالکل بند ہو گئے ، یہاں تک کہ ایک قطرہ بھی نہ رہا۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہﷺ کو جواب دیں۔ وہ بولے کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہﷺ کو کیا جواب دوں (سبحان اللہ ان کے والد تو رسول اللہﷺ کے محبوب تھے گو ان کی بیٹی کا مقدمہ تھا، لیکن رسول اللہﷺ کے سامنے دم نہ مارا۔ باوجودت زمن آواز نیامد کہ منم) میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ تم میری طرف سے رسول اللہﷺ کو جواب دو تو وہ بولی کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہﷺ کو کیا جواب دوں۔ آخر میں نے خود ہی کہا اور میں کمسن لڑکی تھی، میں قرآن زیادہ نہیں پڑھی تھی، اللہ کی قسم!مجھے یہ معلوم ہے کہ تم لوگوں نے اس بات کو یہاں تک سنا ہے کہ تمہارے دل میں جم گئی ہے اور تم نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے (اور یہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے غصہ سے فرمایا ورنہ سچ کسی نے نہیں سمجھا تھا سوائے تہمت کرنے والوں کے )، پھر اگر تم سے کہوں کہ میں بے گناہ ہوں اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں، تو بھی تم مجھے سچا نہیں سمجھو گے اور اگر میں اس گناہ کا اعتراف کر لوں حالانکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں اس سے پاک ہوں، تو تم مجھے سچا سمجھو گے اور میں اپنی اور تمہاری مثال سوا اس کے اور کوئی نہیں پاتی جو یوسف علیہ السلام کے والد (یعقوب علیہ السلام) کی تھی (عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو رنج میں ان کا نام یاد نہ آیا تو یوسف علیہ السلام کے والد کہا) جب انہوں نے کہا کہ "اب صبر ہی بہتر ہے اور تمہاری اس گفتگو پر اللہ ہی کی مدد کی ضرورت ہے "(سورۂ یوسف) پھر میں نے کروٹ موڑ لی اور میں اپنے بچھونے پر لیٹ رہی۔ اور اللہ کی قسم! میں اس وقت جانتی تھی کہ میں پاک ہوں اللہ تعالیٰ ضرور میری برأت ظاہر کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میری شان میں قرآن اترے گا جو (قیامت تک) پڑھا جائے گا، کیونکہ میری شان خود میرے گمان میں اس لائق نہ تھی کہ اللہ جل جلالہ عزت اور بزرگی والا میرے مقدمہ میں کلام کرے گا اور کلام بھی ایسا کہ جو پڑھا جائے ، البتہ مجھے یہ امید تھی کہ رسول اللہﷺ خواب میں کوئی ایسا مضمون دیکھیں گے جس سے اللہ تعالیٰ میری پاکیزگی ظاہر کر دے گا۔
اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! رسول اللہﷺ اپنی جگہ سے نہیں اٹھے تھے اور نہ گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرﷺ پر وحی بھیجی اور قرآن اتارا۔ آپﷺ کو وحی کی سختی معلوم ہونے لگی، یہاں تک کہ سردی کے دنوں میں آپﷺ کے جسم مبارک پر سے اس کلام کی سختی کی وجہ سے جو آپﷺ پر اترا، موتی کی طرح پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے (اس لئے کہ بڑے شہنشاہ کا کلام تھا)۔ جب آپﷺ کی یہ حالت جاتی رہی (یعنی وحی ختم ہو چکی) تو آپﷺ ہنسنے لگے اور اوّل آپﷺ نے منہ سے یہ کلمہ نکالا اور فرمایا کہ اے عائشہ! خوش ہو جا، اللہ تعالیٰ نے تجھے بے گناہ اور پاک فرمایا ہے۔ میری والدہ نے کہا کہ اٹھ اور نبیﷺ کی تعریف کر (اور شکر کر)۔ میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو نبیﷺ کی طرف نہ اٹھوں گی اور نہ کسی کی تعریف کروں گی سوا اللہ تعالیٰ کے کہ اسی نے میری پاکدامنی اتاری۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اتارا کہ "بیشک جو لوگ بہتان گھڑ لائے ہیں، وہ تم ہی میں سے ایک گروہ ہیں، اس (واقعے ) کو اپنے لئے شر (بُرا) نہ سمجھو بلکہ تمہارے لئے خیر (اچھا) ہی ہے " آخر تک دس آیتوں کو اللہ تعالیٰ نے میری پاکدامنی کے لئے اتارا۔
سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے جو مسطح کی قریبی رشتہ داری، غربت کی وجہ سے اس پر خرچ کیا کرتے تھے ، کہا کہ اللہ کی قسم!جب اس نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی نسبت ایسا کہا تو اب میں اس کو کچھ نہ دوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ "تم میں سے جو لوگ فضل اور مقدرت والے ہیں، وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ وہ کچھ (نہ) دیں گے ، اپنے رشتہ داروں اور مساکین اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے اور اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے "۔
حبان بن موسیٰ نے کہا کہ عبد اللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ آیت اللہ کی کتاب میں بڑی امید کی ہے (کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے میں بخشش کا وعدہ کیا ہے ) سیدنا ابو بکرؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخشے۔ پھر مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے وہ جاری کر دیا اور کہا کہ میں کبھی بند نہ کروں گا۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے اُمّ المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بھی میرے بارے میں پوچھا کہ وہ کیا جانتی ہیں؟ یا انہوں نے کیا دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے کہا (حالانکہ وہ سوکن تھیں) کہ یا رسول اللہﷺ ! میں اپنے کان اور آنکھ کی احتیاط رکھتی ہوں (یعنی بن سنے کوئی بات نہیں کہتی اور نہ بن دیکھے کو دیکھی ہوئی کہتی ہوں)، میں تو عائشہ کو نیک ہی سمجھتی ہوں۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ زینب رضی اللہ عنہا ہی ایک بیوی تھیں جو نبیﷺ کی ازواج میں سے میرے مقابل کی تھیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی پرہیزگاری کی وجہ سے اس تہمت سے بچایا اور ان کی بہن حمنہ بنت جحش نے بہن کے لئے تعصب کیا اور ان کے لئے لڑیں تو جو لوگ تباہ ہوئے ان میں وہ بھی تھیں (یعنی تہمت میں شریک تھیں)۔ زہری نے کہا کہ تو ان لوگوں کا یہ آخر حال ہے جو ہم تک پہنچا۔

2154: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ لوگ ایک آدمی پر آپﷺ کی حرم سے (یعنی رسول اللہﷺ کی اُمّ ولد لونڈی) کو تہمت لگاتے تھے۔ آپﷺ نے سیدنا علیؓ سے فرمایا کہ جا اور اس شخص کی گردن مار (شاید وہ منافق ہو گا یا کسی اور وجہ سے قتل کے لائق ہو گا)۔ سیدنا علیؓ اس کے پاس گئے ، دیکھا تو وہ ٹھنڈک کے لئے ایک کنوئیں میں غسل کر رہا ہے۔ سیدنا علیؓ نے اس سے کہا کہ نکل۔ اس نے اپنا ہاتھ سیدنا علیؓ کے ہاتھ میں دیا۔ انہوں نے اس کو باہر نکالا تو دیکھا کہ اس کا عضو تناسل کٹا ہوا ہے۔ سیدنا علیؓ نے اس کو قتل نہ کیا اور رسول اللہﷺ کے پاس آ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ وہ تو مجبوب ہے (یعنی ذکر کٹا ہوا)۔ اس کا ذکر ہی نہیں۔ (تو سیدنا علیؓ یہی سمجھے کہ آپﷺ نے زنا کے خیال سے اس کے قتل کا حکم دیا ہے ، اس واسطے انہوں نے قتل نہ کیا اور شاید آپﷺ کو وحی سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ وہ قتل نہ کیا جائے گا۔ لیکن آپﷺ نے قتل کا حکم دیا تاکہ اس کا حال ظاہر ہو جائے اور لوگ اپنی تہمت پر نادم ہوں اور ان کا جھوٹ کھل جائے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَا تُکْرِھُوْا فَتَیَاتِکُمْ ...﴾ کے متعلق۔
2155: سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی مسیکہ اور امیمہ نامی دو لونڈیاں تھیں۔ وہ دونوں کو زنآپر مجبور کرتا تھا۔ انہوں نے اس کی شکایت رسول اللہﷺ سے کی، تب یہ آیت اتری کہ "اور اپنی لونڈیوں کو زنا کاری پر مجبور نہ کرو اگر وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں ... بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے " تک۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سورۃ الفرقان
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ ...﴾ کے متعلق۔
2156: سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ مشرکوں میں سے چند لوگوں نے (شرک کی حالت میں) بہت خون کئے تھے اور بہت زنا کیا تھا۔ پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپﷺ جو فرماتے ہیں اور جس راہ کی طرف بلاتے ہیں، وہ اچھی ہے اور آپﷺ ہمیں بتلائیں کہ کیا وہ ہمارے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہے ؟ (اگر کفارہ ہے تو ہم اسلام لائیں گے ) تب یہ آیت اتری کہ "جو لوگ اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کو نہیں پکارتے اور جس جان کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اس کو نہیں مارتے ، مگر کسی حق کے بدلے اور زنا نہیں کرتے اور جو کوئی ان کاموں کو (یعنی خون اور زنا اور شرک) کرے تو وہ بدلہ پائے گا اور اس کو قیامت کے دن دردناک عذاب ہو گا اور وہ ہمیشہ اسی عذاب میں ذلت سے رہے گا۔ لیکن جو کوئی ایمان لایا اور اس نے توبہ کی اور نیک کام کئے تو اس کی بُرائیاں مٹ کر نیکیاں ہو جائیں گی اور اللہ تعالیٰ مہربان ہے اور بخشنے والا ہے " (اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بتلا دیا کہ تم اسلام لاؤ تمہارے اگلے سب گناہ شر ک کے زمانے کے معاف ہو جائیں گے ) اور یہ آیت اتری کہ "اے میرے بندو! جنہوں نے گناہ کئے ہیں اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو......" پوری آیت۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سورۂ سجدہ
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا اُخْفِیَ ...﴾ کے متعلق۔
2157: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے وہ تیار کیا ہے جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ہے اور کسی آدمی کے دل پر اس کا خیال بھی نہیں گزرا۔ یہ سب نعمتیں میں نے بنا رکھی ہیں۔ ان کو چھوڑو جو اللہ نے تمہیں بتلایا (یعنی جو نعمتیں اور لذتیں معلوم ہیں وہ کیسی عمدہ ہیں اور بھلی ہیں تو جنت کی نعمت اور لذت جس کا علم اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا وہ کیسی ہوں گی)۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ "کوئی نہیں جانتا جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لئے چھپایا گیا ہے " (جنت میں)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ کے فرمان ﴿وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِنَ الْعَذَابِ ...﴾ کے متعلق۔
2158: سیدنا ابی بن کعبؓ اللہ تعالیٰ کے اس قول "ہم ان کو چھوٹا عذاب دیں گے ..." کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس سے مراد دنیا کی تکالیف ہیں اور روم اور بطشہ ( یا دخان)۔ اور شعبہ کو شک ہے کہ بطشہ کہا یا کہ دخان کہا۔
 
Top