Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : طواف اور سعی میں رمل کرنا (یعنی تیز چلنا یا دوڑنا)۔
693: سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب حج یاعمرہ میں پہلے پہل طواف کرتے تو تین بار دوڑتے ، پھر چار بار چلتے ، پھر دو رکعت نماز پڑھتے پھر صفا اور مروہ کی سعی کرتے۔
694: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں دوڑتے ہوئے طواف کیا۔
695: سیدنا ابو الطفیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ سے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے طواف میں تین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے ؟ اس لئے کہ تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی جھوٹے بھی ہیں۔ میں نے پوچھا اس کا کیا مطلب کہ انہوں نے سچ بولا اور جھوٹ کہا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا، کہ محمد (ﷺ ) اور آپﷺ کے اصحاب بیت اللہ شریف کا طواف ضعف اور لاغری و کمزوری کے سبب نہیں کر سکتے اور وہ آپﷺ سے حسد رکھتے تھے۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصودہ سمجھا، یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا کہ ہمیں صفا اور مروہ کے درمیان میں سوار ہو کر سعی کرنے کے بارے میں بتائیے کہ کیا یہ سنت ہے ؟ کیونکہ آپ کے لوگ اسے سنت کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی۔ میں نے کہا کہ اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو لوگوں کی بھیڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد (ﷺ ) ہیں یہ محمد (ﷺ ) ہیں اور رسول اللہﷺ (کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپﷺ )کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو بچو ، جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے ، ویسی آپﷺ کے لئے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپﷺ سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلا ضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپﷺ نے سوار ہو کر سعی کی)۔
693: سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب حج یاعمرہ میں پہلے پہل طواف کرتے تو تین بار دوڑتے ، پھر چار بار چلتے ، پھر دو رکعت نماز پڑھتے پھر صفا اور مروہ کی سعی کرتے۔
694: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں دوڑتے ہوئے طواف کیا۔
695: سیدنا ابو الطفیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ سے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے طواف میں تین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے ؟ اس لئے کہ تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی جھوٹے بھی ہیں۔ میں نے پوچھا اس کا کیا مطلب کہ انہوں نے سچ بولا اور جھوٹ کہا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا، کہ محمد (ﷺ ) اور آپﷺ کے اصحاب بیت اللہ شریف کا طواف ضعف اور لاغری و کمزوری کے سبب نہیں کر سکتے اور وہ آپﷺ سے حسد رکھتے تھے۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصودہ سمجھا، یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا کہ ہمیں صفا اور مروہ کے درمیان میں سوار ہو کر سعی کرنے کے بارے میں بتائیے کہ کیا یہ سنت ہے ؟ کیونکہ آپ کے لوگ اسے سنت کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی۔ میں نے کہا کہ اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو لوگوں کی بھیڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد (ﷺ ) ہیں یہ محمد (ﷺ ) ہیں اور رسول اللہﷺ (کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپﷺ )کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو بچو ، جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے ، ویسی آپﷺ کے لئے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپﷺ سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلا ضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپﷺ نے سوار ہو کر سعی کی)۔