• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : طواف اور سعی میں رمل کرنا (یعنی تیز چلنا یا دوڑنا)۔
693: سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب حج یاعمرہ میں پہلے پہل طواف کرتے تو تین بار دوڑتے ، پھر چار بار چلتے ، پھر دو رکعت نماز پڑھتے پھر صفا اور مروہ کی سعی کرتے۔

694: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں دوڑتے ہوئے طواف کیا۔

695: سیدنا ابو الطفیل کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباسؓ سے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے طواف میں تین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے ؟ اس لئے کہ تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی جھوٹے بھی ہیں۔ میں نے پوچھا اس کا کیا مطلب کہ انہوں نے سچ بولا اور جھوٹ کہا؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا، کہ محمد (ﷺ ) اور آپﷺ کے اصحاب بیت اللہ شریف کا طواف ضعف اور لاغری و کمزوری کے سبب نہیں کر سکتے اور وہ آپﷺ سے حسد رکھتے تھے۔ آپﷺ نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصودہ سمجھا، یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا کہ ہمیں صفا اور مروہ کے درمیان میں سوار ہو کر سعی کرنے کے بارے میں بتائیے کہ کیا یہ سنت ہے ؟ کیونکہ آپ کے لوگ اسے سنت کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی۔ میں نے کہا کہ اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ جب مکہ میں تشریف لائے تو لوگوں کی بھیڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد (ﷺ ) ہیں یہ محمد (ﷺ ) ہیں اور رسول اللہﷺ (کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپﷺ )کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو بچو ، جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے ، ویسی آپﷺ کے لئے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپﷺ سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلا ضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپﷺ نے سوار ہو کر سعی کی)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : طواف کے دوران حجر اسود کا بوسہ۔
696: عبد اللہ بن سرجس کہتے ہیں کہ میں نے اصلع (یعنی جس کے سر پر بال نہ ہوں، اس سے مراد سیدنا عمرؓ ہیں) کو دیکھا (اس سے معلوم ہوا کہ کسی کا لقب اگر مشہور ہو جائے اور وہ اس سے بُرا نہ مانے تو اس لقب سے اسے یاد کرنا درست ہے اگرچہ دوسرا شخص بُرا مانے ) اور وہ حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں تجھے بوسہ دیتا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے کہ نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے اور اگر میں نے رسول اللہﷺ کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے بوسہ دیتے تھے تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا (اس قول سے بت پرستوں اور گور (قبر) پرستوں اور چلہ پرستوں کی نانی مر گئی جو قبروں وغیرہ کو اس خیال سے بوسہ دیتے ہیں کہ ہماری مراد دیں گے اس لئے کہ جب حجر اسود جو یمن اللہ ہے اس کا بوسہ بھی اتباع رسول کریمﷺ کے سبب سے ہے نہ اس خیال سے کہ ضر ر رساں یا نفع دہندہ ہے تو پھر اور چیزیں جن کا بوسہ کہیں ثابت نہیں بلکہ منع ہے اس خیال ناپاک کے ساتھ کیونکر جائز ہو گا؟)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : طواف میں رکنین یمانیین (حجر اسود اور رکن یمانی) کا استلام۔
697: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ جب سے میں نے رسول اللہﷺ کو حجر اسود اور رکن یمانی کو استلام کرتے ہوئے دیکھا ہے ، تب سے میں نے (بھی ان کا استلام) نہیں چھوڑا نہ سختی میں نہ آرام میں (یعنی کتنی ہی بھیڑ بھاڑ ہو میں استلام نہیں چھوڑتا)۔

698: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو رکنین یمانیین (حجر اسود اور رکن یمانی) کے علاوہ استلام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ (یعنی دوسرے دو ارکان کا استلام نہیں کیا)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سوار ہو کر طواف کرنا۔
699: سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حجۃ الوداع میں اپنی اونٹنی پر بیت اللہ کا طواف کیا اور حجر اسود کو اپنی چھڑی سے چھوتے تھے۔ (سوار اس لئے ہوئے ) تاکہ لوگ آپ کو دیکھیں اور آپ اونچے ہو جائیں اور آپﷺ سے مسائل پوچھیں، اس لئے کہ لوگوں نے آپﷺ کو بہت گھیرا ہوا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عذر کی وجہ سے سوار ہو کر طواف کرنا۔
700: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ سے اپنے بیمار ہونے کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا کہ سب لوگوں کے پیچھے سے سوار ہو کر طواف کر لو۔ پس انہوں نے کہا کہ میں طواف کرتی تھی اور آپﷺ بیت اللہ کی ایک طرف نماز پڑھ رہے تھے جس میں سورۂ طور کی تلاوت کر رہے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : صفا و مروہ کے درمیان طواف اور اللہ تعالیٰ کے فرمان﴿ان الصفا والمروۃمن شعائر الله﴾ کے بیان میں۔
701: عروہ کہتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اگر میں صفا مروہ کی سعی نہ کروں تو میں سمجھتا ہوں کہ کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ عروہ نے کہا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، پھر جو کوئی حج یا عمرہ کرے اور ان کا طواف کرے تو گناہ نہیں"ﷺالبقرة:158 [۔ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر یہ بات ہوتی تو اللہ تعالیٰ یوں فرماتا کہ اگر کوئی طواف نہ کرے تو کچھ گناہ نہیں۔ اور یہ بات تو انصار کے لوگوں کے بارے میں اتری کہ وہ لوگ جب لبیک پکارتے تو زمانہ جاہلیت میں مناۃ کے نام سے لبیک پکارا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں صفا اور مروہ میں سعی کرنا درست نہیں۔ پھر جب رسول اللہﷺ کے ساتھ حج کو آئے تو انہوں نے اس بات کا ذکر کیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ پس مجھے اپنی جان کی قسم ہے اس کا حج پورا نہ ہو گا جو صفا اور مروہ کی سعی نہ کرے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کسی کا حج اور عمرہ پورا نہیں ہوتا، جب تک صفا اور مروہ کا طواف (یعنی سعی) نہ کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : صفا و مروہ کے درمیان سعی (سات چکر) صرف ایک بار ہے۔
702: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ نے صفا اور مروہ کے درمیان صرف ایک دفعہ سعی کی ہے۔ (یعنی مکہ میں جاتے ہی طواف کے بعد۔ پھر طواف افاضہ کے وقت نہیں کی)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس آدمی پر کیا لازم آتا ہے جو حج کا احرام باندھے اور مکہ مکرمہ میں طواف اور سعی کرنے کے لئے آئے۔
703: وبرہ (یعنی ابن عبدالرحمن) کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عمرؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ مجھے عرفات میں جانے سے پہلے طواف کرنا صحیح ہے ؟ سیدنا ابن عمرؓ نے کہا کہ ہاں تو اس نے کہا کہ سیدنا ابن عباسؓ تو کہتے ہیں کہ عرفات میں جانے سے پہلے طواف نہ کرو۔ سیدنا ابن عمرؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے حج کیا اور عرفات میں جانے سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا۔ تو اگر تو (اپنے ایمان میں) سچا ہے تو رسول اللہﷺ کا قول لینا بہتر ہے یا سیدنا ابن عباسؓ کا؟ﷺ مقامِ عبرت ہے کہ سیدنا ابن عباس جیسے جلیل القدر فقیہ صحابی کی بات جب آپﷺ کی بات کے خلاف ہو تو اُن کی بات کی طرف دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے چہ جائیکہ آج کی طرح ائمہ یا پیر و مرشد کی باتوں پر بلا چوں چراں عمل کو دین سمجھ لیا جائے [۔ ایک دوسری روایت میں ہے ، سیدنا ابن عمرؓ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے حج کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی کی۔

704: عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا ابن عمرؓ سے پوچھا کہ ایک شخص عمرہ کے لئے آیا اور بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد صفا مروہ کی سعی سے پہلے اپنی بی بی سے صحبت کر سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ مکہ میں آئے اور سات چکروں میں بیت اللہ کا طواف کیا اور مقامِ ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اور صفا اور مروہ کے درمیان سات بار سعی کی اور تمہارے لئے رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ اسوۂ حسنہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کعبہ شریف میں داخل ہونے ، اس میں نماز پڑھنے اور دعا مانگنے کا بیان
705: سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ فتح مکہ کے دن آئے اور کعبہ کے صحن میں اترے۔ اور (کعبہ کے کلید بردار) عثمان بن طلحہؓ کے پاس کہلا بھیجا تو وہ چابی لائے اور دروازہ کھولا اور آپﷺ اور سیدنا بلال اور سیدنا اسامہ اور عثمان بن طلحہؓ اندر داخل ہوئے اور دروازہ بند کرنے کا حکم دیا تو دروازہ بند کر دیا گیا۔ (آپﷺ اور صحابہ کرامؓ) تھوڑی دیر ٹھہرے پھر دروازہ کھول دیا گیا تو میں سب لوگوں سے پہلے آپﷺ سے کعبہ کے باہر ملا اور سیدنا بلالؓ آپﷺ کے پیچھے تھے۔ پس میں نے سیدنا بلالؓ سے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے نماز پڑھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں۔ میں نے کہا کہ کہاں؟ انہوں نے کہا کہ اپنے سامنے کے دو ستونوں کے درمیان۔ اور میں بھول گیا کہ پوچھوں کتنی رکعتیں پڑھیں؟

706: ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے کہا کہ کیا تو نے سیدنا ابن عباسؓ کو یہ کہتے سنا ہے کہ تمہیں طواف کا حکم ہوا ہے اور کعبہ کے اندر جانے کا حکم نہیں ہوا۔ عطاء نے کہا کہ وہ اس کے اندر جانے سے منع نہیں کرتے ، مگر میں نے ان کو سنا کہتے تھے کہ مجھے سیدنا اسامہ بن زیدؓ نے خبر دی کہ جب نبیﷺ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس میں ہر طرف دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب نکلے تو قبلہ کے آگے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔ میں نے اُن سے کہا کہ اس کے کناروں کا کیا حکم ہے اور اس کے کونوں میں نماز کا کیا حکم ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ بیت اللہ شریف کے ہر طرف قبلہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کے حج کا بیان۔
707: جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ہم سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کے گھر گئے تو انہوں نے سب لوگوں کا (حال) پوچھا یہاں تک کہ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ میں محمد بن علی ہوں سیدنا حسینؓ کا پوتا تو انہوں نے میری طرف (شفقت سے ) ہاتھ بڑھایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے اوپر کا بٹن کھولا، پھر نیچے کا بٹن کھولا (یعنی شلوکے وغیرہ کے ) اور پھر اپنی ہتھیلی میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے درمیان میں رکھی، میں ان دنوں نوجوان لڑکا تھا۔ پھر کہا کہ شاباش خوش آمدید، اے میرے بھتیجے ! مجھ سے جو چاہو پوچھو پھر میں نے ان سے پوچھا اور وہ نہ نابینا تھے اور اتنے میں نماز کا وقت آگیا تو وہ ایک چادر اوڑھ کر کھڑے ہوئے کہ جب اُس کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر رکھتے تھے تو وہ اس چادر کے چھوٹے ہونے کے سبب سے نیچے گر جاتے تھے اور ان کی بڑی چادر ایک طرف تپائی پر رکھی ہوئی تھی۔ پھر انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی (یعنی امامت کی) پھر میں نے کہا کہ مجھے رسول اللہﷺ کے حج کے بارے میں خبر دیجئے (یعنی ٍحجۃ الوداع سے ) تو سیدنا جابرؓ نے اپنے ہاتھ سے نو 9 کا اشارہ کیا اور کہا کہ رسول اللہﷺ نو برس تک مدینہ منورہ میں رہے اور حج نہیں کیا پھر لوگوں میں دسویں سال اعلان کیا کہ رسول اللہﷺ حج کو جانے والے ہیں تو مدینہ میں بہت سے لوگ جمع ہو گئے اور سب رسول اللہﷺ کی پیروی چاہتے تھے اور ویسا ہی کام کریں (حج کرنے میں) جیسے آپﷺ کریں۔ غرض ہم لوگ سب آپﷺ کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکرؓ کو جنا۔ اور انہوں نے نبیﷺ سے کہلا بھیجا کہ (نفاس کی حالت میں) اب کیا کروں تو آپﷺ نے فرمایا کہ غسل کر کے ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر احرام باندھ لو۔ پھر رسول اللہﷺ نے مسجد میں دو رکعت پڑھیں اور قصوا اونٹنی پر سوار ہوئے ، یہاں تک کہ جب وہ آپﷺ کو لے کر سیدھی ہوئی (مقامِ) بیداء پر تو میں نے آگے کی طرف دیکھا کہ جہاں تک میری نظر گئی سوار اور پیدل لوگ ہی لوگ نظر آتے تھے اور اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف اور پیچھے بھی لوگوں کی ایسی ہی بھیڑ تھی اور رسول اللہﷺ ہمارے درمیان موجود تھے اور آپﷺ پر قرآن شریف اترتا تھا اور آپﷺ ہی اس کی حقیقت کو خوب جانتے تھے۔ اور جو کام آپﷺ نے کیا وہی ہم نے بھی کیا۔ پھر آپﷺ نے توحید کے ساتھ لبیک پکاری اور لوگوں نے بھی وہی لبیک پکاری جو اب لوگ پکارتے ہیں (یعنی نبیﷺ کی لبیک میں کچھ لفظ بڑھا کر پکارے اور آپﷺ نے ان کو روکا نہیں) اور پھر آپﷺ مسلسل لبیک ہی پکارتے ہی رہے۔ اور سیدنا جابرؓ نے کہا کہ ہم حج کے سوا اور کچھ ارادہ نہیں رکھتے اور عمرہ کو پہچانتے ہی نہ تھے بلکہ ایام حج میں عمرہ بجا لانا ایام جاہلیت سے برا جانتے تھے یہاں تک کہ جب ہم بیت اللہ میں آپ کے ساتھ آئے تو آپﷺ نے رکن (یعنی حجر اسود) کو چھوا اور طواف میں تین بار رمل کیا (یعنی اچھل اچھل کر چھوٹے چھوٹے ڈگ رکھ کر اور شانے اچھال اچھال کر چلے ) اور چار بار عادت کے موافق چلتے ہوئے طواف پورا کیا۔ پھر مقام ابراہیم پر آئے اور یہ آیت پڑھی کہ "مقامِﷺ براہیم کو نماز کی جگہ مقرر کرو" اور مقامِ ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے درمیان میں کیا پھر میرے باپ کہتے تھے اور میں نہیں جانتا کہ انہوں نے ذکر کیا ہو (اپنی طرف سے ) مگر نبیﷺ سے ہی ذکر کیا ہو گا کہ آپﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں اور ان میں سورۃ "اخلاص" اور سورۃ "کافرون" پڑھیں۔ پھر حجر اسود کے پاس لوٹ کر گئے اور اس کو بوسہ دیا اور اس دروازہ سے نکلے جو صفا کی طرف ہے پھر جب صفا کے قریب پہنچے (صفا ایک پہاڑی کا نام ہے جو کعبہ کے دروازے سے بیس پچیس قدم پر ہے ) تو یہ آیت پڑھی کہ "صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں" اور آپﷺ نے فرمایا کہ ہم شروع کرتے ہیں جس سے اللہ نے شروع کیا اور آپﷺ صفا پر چڑھے ، یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی بڑائی بیان کی (یعنی لا الٰہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہا) اور کہا کہ "کوئی معبود لائق عبادت نہیں سوا اللہ تعالیٰ کے وہ اکیلا ہے ، اس نے اپنا وعدہ پورا کیا (یعنی دین کے پھیلانے کا او اپنے نبیﷺ کی مدد کا) اور اس نے اپنے بندے (محمدﷺ ) کی مدد کی اور اس اکیلے نے سب لشکروں کو شکت دی پھر اس کے بعد دعا کی، پھر ایسا ہی کہا، پھر دعا کی۔ غرض تین بار ایسا ہی کیا۔ پھر اترے اور مروہ کی طرف چلے ، یہاں تک کہ جب آپﷺ کے قدم میدان کے بیچ میں اترے تو دوڑے یہاں تک کہ مروہ پر پہنچے۔ مروہ پر بھی ویسا ہی کیا جیسے کہ صفا پر کیا تھا یعنی وہ کلمات کہے اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعا کی یہاں تک کہ جب مروہ پر آخری چکر مکمل ہو گیا (یعنی سات چکر ہو چکے ) تو آپﷺ نے فرمایا کہ اگر مجھے پہلے سے اپنا کام معلوم ہوتا جو بعد میں معلوم ہوا تو میں قربانی ساتھ نہ لاتا (اور مکہ ہی میں خرید لیتا) اور اپنے اس احرامِ حج کو عمرہ کر ڈالتا۔ پس تم میں سے جس کے ساتھ قربانی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے (یعنی طواف و سعی ہو چکی اور عمرہ کے افعال پورے ہو گئے ) اورﷺ سکو عمرہ کر لے۔ (یہ سن کر) سراقہ بن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسولﷺ! یہ حج کو عمرہ کر ڈالنا ہمارے اسی سال کے لئے خاص ہے یا ہمیشہ کے لئے اس کی اجازت ہے ؟ تو آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں ڈالیں اور دو مرتبہ فرمایا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اجازت ہے۔ اور سیدنا علیؓ یمن سے نبیﷺ کے اونٹ لے کر آئے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ ان میں سے ہیں جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا اور وہ رنگین کپڑے پہنے ہوئی تھیں اور سرمہ لگائے ہوئے تھیں۔ سیدنا علیؓ نے بُرا مانا تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ راوی نے کہا کہ سیدنا علیؓ عراق میں کہتے تھے کہ میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اس احرام کے کھولنے کے سبب سے غصہ کرتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس گیا۔ اور میں نے آپﷺ کو خبر دی کہ میں نے اس کو بُرا جانا تو آپﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا (یعنی میں نے ہی ان کو احرام کھولنے کا حکم دیا ہے ) پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم نے حج کا ارادہ کرتے ہوئے کیا نیت کی تھی؟ تو میں نے عرض کیا کہ میں نے کہا کہ اے اللہ! میں اسی کا احرام باندھتا ہوں جس کا تیرے رسولﷺ نے باندھا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میرے ساتھ قربانی ہے (اس لئے میں نے احرام نہیں کھولا) اب تم بھی احرام نہ کھولو۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ پھر وہ اونٹ جو سیدنا علیؓ یمن سے لائے تھے اور وہ جو نبیﷺ اپنے ساتھ لائے تھے سب مل کر سو اونٹ ہو گئے۔ سیدنا جابرؓ نے کہا کہ پھر سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کترائے مگر نبیﷺ نے اور جن کے ساتھ قربانی تھی (محرم ہی رہے ) پھر جب ترویہ کا دن ہوا (یعنی ذوالحجہ کی آٹھویں تاریخ) تو سب لوگ منیٰ کو چلے اور حج کی لبیک پکاری اور رسول اللہﷺ بھی سوار ہوئے اور منیٰ میں ظہر، عصر، مغرب اور عشاء اور فجر (پانچ نمازیں) پڑھیں۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور آپﷺ نے ، وہ خیمہ جو بالوں کا بنا ہوا تھا (مقامِ) نمرہ میں لگانے کا حکم دیا۔ اور رسول اللہﷺ چلے اور قریش یقین کرتے تھے کہ آپﷺ مشعر الحرام میں وقوف کریں گے جیسے سب قریش کے لوگوں کی ایام جاہلیت میں عادت تھی۔ آپﷺ وہاں سے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات پہنچے اور آپﷺ نے اپنا خیمہ نمرہ میں لگا ہوا پایا تو اس میں اترے یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپﷺ کے حکم سے قصواء اونٹنی تیار کی گئی اور آپﷺ وادی کے درمیان میں پہنچے اور آپﷺ نے لوگوں پر خطبہ پڑھا۔ فرمایا: تمہارے خون اور اموال ایک دوسرے پر (ایسے ) حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے اور زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے دونوں پیروں کے نیچے رکھ دی گئی (یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہ رہا) اور جاہلیت کے خون بے اعتبار ہو گئے اور پہلا خون جو میں اپنے خونوں میں سے معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ کا خون ہے کہ وہ بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور اس کو ہذیل نے قتل کر ڈالا (غرض میں اس کا بدلہ نہیں لیتا) اور اسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود سب چھوڑ دیا گیا (یعنی اس وقت کا چڑھا سود کوئی نہ لے ) اور پہلے جو سود ہم اپنے یہاں کے سود میں سے چھوڑتے ہیں (اور طلب نہیں کرتے ) وہ عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود ہے اس لئے کہ وہ سب چھوڑ دیا گیا اور تم لوگ عورتوں کے بارہ میں اللہ سے ڈرو اس لئے کہ ان کو تم نے اللہ تعالیٰ کی امان سے لیا ہے اور تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے حلال کیا ہے۔ اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بچھونے پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں (یعنی تمہارے گھر میں) جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ ان کو سخت چوٹ نہ لگے (یعنی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹے ، کوئی عضو ضائع نہ ہو، حسن صورت میں فرق نہ آئے کہ تمہاری کھیتی اجڑ جائے ) اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ ان کی روٹی اور ان کا کپڑا دستور کے موافق تمہارے ذمہ ہے اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے (وہ ہے ) اللہ تعالیٰ کی کتاب۔ اور تم سے (قیامت میں) میرے بارہ میں سوال ہو گا تو پھر تم کیا کہو گے ؟ ان سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپﷺ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیرخواہی کی۔ پھر آپﷺ اپنی انگشت شہادت (شہادت کی انگلی) آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا۔ تین بار (یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا) پھر اذان اور تکبیر ہوئی تو ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر اقامت کہی اور عصر پڑھائی اور ان دونوں کے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا (یعنی سنت و نفل وغیرہ) پھر رسول اللہﷺ سوار کر موقف میں آئے اونٹنی کا پیٹ پتھروں کی طرف کر دیا اور پگڈنڈی کو اپنے آگے کر لیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور غروبِ آفتاب تک وہیں ٹھہرے رہے۔ زردی تھوڑی تھوڑی جاتی رہی اور سورج کی ٹکیا ڈوب گئی تب (سوار ہوئے ) سیدنا اسامہؓ کو پیچھے بٹھا لیا اور واپس (مزدلفہ کی طرف) لوٹے اور قصواء کی مہار اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ اس کا سر کجاوہ کے آ(اگلے حصے ) مورک سے لگ گیا تھا (مورک وہ جگہ ہے جہاں سوار بعض وقت تھک کر اپنآپیر جو لٹکا ہوا ہوتا ہے اس جگہ رکھتا ہے ) اور آپﷺ سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے کہ اے لوگو! آہستہ آہستہ آرام سے چلو اور جب کسی ریت کی ڈھیری پر آ جاتے (جہاں بھیڑ کم پاتے ) تو ذرا مہار ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ اونٹنی چڑھ جاتی (آخر مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو تکبیروں سے پڑھیں اور ان دونوں فرضوں کے بیچ میں نفل کچھ نہیں پڑھے (یعنی سنت وغیرہ نہیں پڑھی) پھر آپﷺ لیٹ رہے۔ (سبحان اللہ کیسے کیسے خادم ہیں رسول اللہﷺ کے کہ دن رات آپﷺ کے سونے بیٹھنے ، اٹھنے جاگنے ، کھانے پینے پر نظر ہے اور ہر فعل مبارک کی یادداشت و حفاظت ہے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کرے ) یہاں تک کہ صبح ہوئی جب فجر ظاہر ہو گئی تو اذان اور تکبیر کے ساتھ نمازِ فجر پڑھی پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ اکبر کہا اور لا الٰہ الا اللہ کہا اور اس کی توحید پکاری اور وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ بخوبی روشنی ہو گئی اور آپﷺ وہاں سے طلوعِ آفتاب سے قبل لوٹے اور سیدنا فضل بن عباسؓ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فضلؓ ایک نوجوان اچھے بالوں والا گورا چٹا خوبصورت جوان تھا۔ پھر جب آپﷺ چلے تو عورتوں کا ایک ایسا گروہ چلا جاتا تھا کہ ایک اونٹ پر ایک عورت سوار تھی اور سب چلی جاتی تھیں اور سیدنا فضلؓ ان کی طرف دیکھنے لگے تو رسول اللہﷺ نے فضلؓ کے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا (اور زبان سے کچھ نہ فرمایا۔
سبحان اللہ یہ اخلاق کی بات تھی اور نہی عن المنکر کس خوبی سے ادا کیا) اور فضلؓ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا اور دیکھنے لگے (یہ ان کے کمال اطمینان کی وجہ تھی رسول اللہﷺ کے اخلاق پر) تو رسول اللہﷺ نے پھر اپنا ہاتھ ادھر پھیر کر ان کے منہ پر رکھ دیا تو فضل دوسری طرف منہ پھیر کر پھر دیکھنے لگے یہاں تک کہ بطن محسر میں پہنچے تب اونٹنی کو ذرا تیز چلایا اور بیچ کی راہ لی جو جمرہ کبریٰ پر جا نکلتی ہے ، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے (اور اسی کو جمرہ عقبہ کہتے ہیں) اور سات کنکریاں اس کو ماریں۔ ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے ، ایسی کنکریاں جو چٹکی سے ماری جاتی ہیں (اور دانہ باقلا کے برابر ہوں) اور وادی کے بیچ میں کھڑے ہو کر ماریں (کہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ داہنی طرف اور مکہ بائیں طرف رہا) پھر نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر (یعنی قربان) کئے ، باقی سیدنا علیؓ کو دئیے کہ انہوں نے نحر کئے۔ اور آپﷺ نے ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا اور پھر ہر اونٹ سے گوشت ایک ٹکڑا لینے کا حکم فرمایا۔ (آپﷺ کے حکم کے مطابق لے کر) ایک ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا پھر آپﷺ نے اور سیدنا علیؓ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربا پیا۔ پھر آپﷺ سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف آئے اور طواف افاضہ کیا اور ظہر مکہ میں پڑھی۔ پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے کہ وہ لوگ زمزم پر پانی پلا رہے تھے آپﷺ نے فرمایا کہ پانی بھرو اے عبدالمطلب کی اولاد! اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ بھیڑ کر کے تمہیں پانی نہ بھرنے دیں گے تو میں بھی تمہارا شریک ہو کر پانی بھرتا (یعنی جب آپﷺ بھرتے تو سنت ہو جاتا تو پھر ساریﷺ مت بھرنے لگتی اور ان کی سقایت جاتی رہتی) پھر ان لوگوں نے ایک ڈول آپﷺ کو دیا اور آپﷺ نے اس میں سے پیا۔
 
Top