• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختصر صحیح مسلم - (اردو ترجمہ) یونیکوڈ

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جو (لمبے ) سفر سے آئے تو گھر میں جلدی داخل ہونے کی کوشش نہ کرے تاکہ (اس کی) عورت بالوں (وغیرہ) کو سنوار لے۔
847: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک جہاد میں رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے۔ پھر جب لوٹ آ رہے تھے تو میں اپنے اونٹ کو جو کہ بڑا سست تھا، جلدی جلدی چلا رہا تھا کہ ایک سوار میرے پیچھے سے آیا اور میرے اونٹ کو اپنی چھڑی سے ایک کونچا دیا، جو ان کے پاس تھی اور میرا اونٹ ایسے چلنے لگا کہ کہ جیسے تم کوئی بہت اچھا اونٹ دیکھتے ہو۔ میں نے پھر کر دیکھا تو وہ رسول اللہﷺ تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے جابر! تمہیں کیا جلدی ہے ؟ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! میری نئی نئی شادی ہوئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ باکرہ سے یا ثیبہ سے ؟ میں نے کہا ثیبہ سے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔ پھر جب ہم مدینہ آئے اور گھر داخل ہونے کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ رات آ جائے یعنی عشاء کا وقت، تاکہ پریشان بالوں والی سر میں کنگھی (وغیرہ) کر لے اور جس کا شوہر باہر گیا ہوا ہو وہ زیر ناف بال صاف کر لے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جب گھر جاؤ تو سمجھ داری سے کام لینا۔ (یہ نہ ہو کہ عورت ایام حیض میں ہو اور تم اتنے دنوں بعد آئے ہو اور صبر نہ کر سکو)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب: طلاق کے مسائل

باب : مرد حیض کی حالت میں اپنی عورت کو طلاق نہ دے۔
848: نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو سیدنا عمر فاروقؓ نے نبیﷺ سے استفسار کیا۔ آپﷺ نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ کہا کہ اسے ایک حیض تک مہلت دو۔ پھر مہلت دو کہ (وہ اس حیض سے ) پاک ہو جائے ، پھر (اگر طلاق دینا چاہے تو) جماع کرنے سے پہلے طلاق دے۔ اور یہ وہ وقت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ راوی (نافع) نے کہا کہ پھر جب سیدنا ابن عمر سے ایسے آدمی کے بارہ میں پوچھا جاتا کہ جس نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی ہو، تو وہ یہی کہتے کہ اگر تو نے ایک یا دو طلاقیں (یعنی رجعی ہے ) دی ہیں تو اس بارہ میں رسول اللہﷺ نے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ پھر اسے ایک حیض اور حیض سے پاکیزگی حاصل کرنے کی مہلت دے ، اور پھر اسے (پاکیزگی کی حالت میں) جماع کرنے سے پہلے طلاق دے۔ اور اگر تم نے اسے تین طلاق (یعنی طلاق بائنہ جس میں رجوع نہیں) دی ہے تو تم نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کے معاملہ میں اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کا ارتکاب کیا ہے اور تمہاری بیوی تم سے (مطلقہ) بائنہ ہو گئی۔

849: ابن سیرین کہتے ہیں کہ بیس برس تک مجھ سے ایک شخص جس کو میں متہم نہیں جانتا تھا روایت کرتا تھا کہ سیدنا ابن عمرؓ نے اپنی عورت کو تین طلاق حالتِ حیض میں دیں تھیں اور ان کو رجوع کرنے کا حکم ہوا تھا۔ میں اس کی اُس روایت کو مہتم نہ کرتا تھا اور نہ حدیث کو بخوبی جانتا تھا (کہ صحیح کیا ہے ) یہاں تک کہ میں ابو غلاب یونس بن جبیر باہلی سے ملا اور وہ پکے آدمی تھے۔ پس انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے سیدنا ابن عمرؓ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دی تھی تو مجھے رجعت کا حکم دیا گیا۔ راوی نے کہا پھر میں نے پوچھا کہ وہ طلاق بھی ان پر شمار کی گئی تھی؟ (یعنی اگر دو طلاق دو تو وہ ملا کر تین پوری ہو جائیں) انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں کیا اگر وہ عاجز ہو گیا یا احمق ہو گیا (یہ سیدنا عبد اللہؓ نے اپنے آپ کو خود کہا) یعنی اگر اس طلاق کو نہ گنوں تو حماقت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیﷺ کے دورِ اقدس میں تین طلاق کا بیان۔
850: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دَور میں اور سیدنا ابو بکر کے دَور خلافت اور سیدنا عمرؓ کے دَور خلافت میں بھی (پہلے ) دو برس تک ایسے تھا کہ جب کوئی یکبارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی۔ پھر سیدنا عمرؓ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس بات میں جس میں انہیں مہلت ملی ہے ، پس اگر ہم اس کو جاری کر دیں تو مناسب ہے۔ پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی یہ حکم دے دیا کہ جو کوئی یکبارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو جائیں گی)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کسی آدمی نے اپنی بیوی کو طلاق دی، وہ عورت دوسرے سے شادی کر لیتی ہے اور اس دوسرے نے دخول نہیں کیا، تو ایسی حالت میں یہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہے۔
851: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رفاعہ القرضی نے اپنی بیوی کو طلاق بتہ (یعنی بائنہ غیر رجعی طلاق) دے دی، تو اس نے (یعنی ان کی بیوی نے ) عبد الرحمن بن زبیرؓ سے نکاح کر لیا۔ پھر نبیﷺ کے پاس آ کر استفسار کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میں رفاعہؓ کے عقد میں تھی کہ اس نے مجھے تین میں سے آخری طلاق دے دی تو میں نے عبدالرحمن بن زبیرؓ سے نکاح کر لیا۔ اور اپنی چادر کا ایک پلو پکڑ کر کہنے لگی کہ اللہ کی قسم ان کے پاس تو کپڑے اس پلو کی طرح ہی ہے۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہﷺ (اس کی بات سن کر) مسکرا دیئے اور فرمایا کہ شاید تم پھر رفاعہؓ کے پاس لوٹنا چاہتی ہو، نہیں ایسا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ تمہاری لذت نہ چکھ لے اور تم اس کی لذت نہ چکھ لو (یعنی جماع نہ کر لو)۔ (اس وقت) سیدنا ابو بکر صدیقؓ رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور خالد بن سعید بن عامیؓ حجرے کے دروازے پر اجازت کے منتظر تھے۔ راوی کہتا ہے کہ خالدؓ نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو آواز دی کہ آپ اس عورت کو ڈانٹتے کیوں نہیں ہو کہ یہ رسول اللہﷺ کے سامنے کیا کہہ رہی ہے ؟۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (کسی چیز کو ) حرام کہنے اور اللہ تعالیٰ کے قول ﴿یا ایھا النبی لم تحرم ما احل الله لک﴾ (التحریم:1) کے متعلق، اور اس میں اختلاف کا بیان۔
852: سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب کوئی اپنی بیوی کو کہے تو مجھ پر حرام ہے ، تو یہ قسم ہے اس میں کفارہ دینا ضروری ہے اور سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ بیشک تمہارے لئے رسول اللہﷺ کے طریقہ میں بہتر نمونہ ہے۔

853: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اُمّ المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس ٹھہرا کرتے اور ان کے پاس شہد پیا کرتے تھے۔ پس اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اور اُمّ المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے ایکا کیا کہ جس کے پاس بھی آپﷺ تشریف لائیں، وہ آپﷺ سے عرض کرے کہ میں آپ کے پاس سے مغافیر کی بدبو پاتی ہوں، کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ (یہ ایک قسم کا گوند ہے جس کی بو ناپسندیدہ تھی)۔ نبیﷺ جب ایک کے پاس آئے تو اس نے آپﷺ سے یہی کہا، تو آپﷺ نے فرمایا بلکہ میں نے تو زینب کے پاس شہد پیا ہے اور اب کبھی نہ پیوں گا۔ پھر یہ آیت اتری کہ "اے نبیﷺ! آپﷺ اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے ... اگر وہ دونوں توبہ کریں" یعنی اُمّ المؤمنین عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ "نبی نے ایک بات چپکے سے اپنی ایک بیوی سے کہی" (التحریم: 3-1) تو اس بات سے وہی بات مراد ہے جو نبیﷺ نے فرمایا تھا کہ میں نے شہد پیا ہے۔

854: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کو شیرینی اور شہد بہت پسند تھا اور (آپﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ) جب آپﷺ نمازِ عصر پڑھ چکتے تو اپنی ازواج مطہرات کے پاس آتے اور ہر ایک سے قریب ہوتے۔ پس ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور وہاں اور دنوں سے زیادہ ٹھہرے تو میرے اس کا سبب دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کی قوم کی ایک عورت کے پاس سے ان کے پاس شہد کی ایک کپی ہدیہ میں آئی تھی، اور انہوں نے رسول اللہﷺ کو شہد کا شربت پلایا ہے۔ پس میں نے کہا کہ اللہ کی قسم ہم ان سے ایک تدبیر کریں گی۔ میں نے سودہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا اور ان سے کہا کہ جب نبیﷺ تمہارے پاس آئیں اور تم سے قریب ہوں تو تم کہنا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا آپ نے مغافیر کھایا ہے ؟ آپﷺ کہیں گے نہیں، تو تم آپﷺ سے کہنا کہ پھر یہ بدبو کیسی ہے ؟ اور رسول اللہﷺ کی عادت تھی کہ آپﷺ کو اس بات سے بہت نفرت تھی کہ آپ سے بدبو آئے پھر نبیﷺ تم سے کہیں گے کہ مجھے حفصہ نے شہد پلایا ہے ، تب تم آپﷺ سے کہنا کہ شاید اس کی مکھی نے عرفط کے درخت سے رس چوس لیا ہے (عرفط اسی درخت کا نام ہے جس کی گوند مغافیر ہے )۔ اور میں بھی ان سے ایسا ہی کہوں گی اور اے صفیہ (رضی اللہ عنہا) تم بھی آپﷺ سے ایسا ہی کہنا۔ پھر جب آپﷺ سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے تو سودہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ قسم ہے جس اللہ کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں قریب تھی کہ نبیﷺ سے باہر نکل کر وہی بات کہوں جو تم نے (اے عائشہ) مجھ سے کہی تھی اور نبیﷺ دروازے پر تھے اور میرا کہنے میں اس طرح جلدی کرنا تمہارے ڈر سے تھا، پھر جب رسول اللہﷺ نزدیک ہوئے تو انہوں نے کہا کہ کیا آپﷺ نے مغافیر کھایا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں پھر انہوں نے کہا کہ یہ بدبو کس کی ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے حفصہ نے شہد کا شربت پلایا ہے۔ تب انہوں نے کہا کہ مکھی نے عرفط کا رس چوس لیا ہے (اس لئے اس کی بو شہد میں آ گئی ہے ) پھر جب میرے پاس آئے تو میں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے بھی آپﷺ سے یہی کہا پھر صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے اور انہوں نے بھی ایسا ہی کہا، تو جب دوبارہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میں اس میں سے آپ کے لئے شہد لاؤں، تو آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سودہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سبحان اللہ! ہم نے رسول اللہﷺ کو شہد پینے سے روک دیا، تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ چپ رہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مرد کا اپنی بیوی کو اختیار دینا۔
855: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ سیدنا ابو بکرؓ آئے اور رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت چاہی اور لوگوں کو دیکھا کہ آپﷺ کے دروازے پر جمع ہیں اور کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوئی۔ راوی نے کہا کہ سیدنا ابو بکرؓ کو اجازت مل گئی تو اندر چلے گئے۔ پھر سیدنا عمرؓ آئے اور اجازت چاہی تو انہیں بھی اجازت مل گئی اور نبیﷺ کو پایا کہ آپﷺ بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے گرد آپﷺ کی ازواج مطہرات ہیں کہ غمگین چپکے بیٹھی ہوئی ہیں۔ سیدنا عمرؓ نے (اپنے دل میں) کہا کہ میں ضرور کوئی ایسی بات کہوں کہ نبیﷺ کو ہنساؤں۔ پس انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کاش آپ دیکھتے کہ خارجہ کی بیٹی کو (یہ سیدنا عمرؓ کی زوجہ ہیں) کہ اس نے مجھ سے خرچ مانگا تو میں اس کے پاس کھڑا ہو کر اس کا گلا گھونٹنے لگا، تو رسول اللہﷺ ہنس دئیے اور فرمایا کہ یہ سب بھی میرے گرد ہیں جیسا کہ تم دیکھتے ہو اور مجھ سے خرچ مانگ رہی ہیں۔ پس سیدنا ابو بکرؓ کھڑے ہو کر عائشہ رضی اللہ عنہا کا گلا گھونٹنے لگے اور سیدنا عمرؓ حفصہ رضی اللہ عنہا کا اور دونوں (اپنی اپنی بیٹیوں سے ) کہتے تھے کہ تم رسول اللہﷺ سے وہ چیز مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ہے ؟ اور وہ کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم ہم کبھی رسول اللہﷺ سے ایسی چیز نہ مانگیں گی جو آپﷺ کے پاس نہیں ہے۔ پھر آپﷺ ان سے ایک ماہ یا انتیس دن جدا رہے پھر آپﷺ پر یہ آیت اتری کہ "اے نبیﷺ! اپنی بیویوں سے کہہ دو ...سے ... اجر عظیم ہے " تک (احزاب: 28,29)۔ پس رسول اللہﷺ پہلے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور ان سے فرمایا کہ اے عائشہ! میں تم پر ایک چیز پیش کر رہا ہوں ہوں اور چاہتا ہوں کہ تم اس میں جلدی نہ کرو جب تک اپنے ماں باپ سے مشورہ نہ لے لو۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ کیا بات ہے ؟ پھر آپﷺ نے ان پر یہ آیت پڑھی تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ کیا میں آپﷺ کے بارے میں اپنے والدین سے مشورہ لوں؟ بلکہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کو اختیار کرتی ہوں۔ اور میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ آپ اپنی ازواج میں سے کسی کو میرے اس جواب کی خبر نہ دیں جو میں نے دیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے جو بیوی مجھ سے پوچھے گی میں اسے فوراً خبر کر دوں گا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تنگی اور سختی کرنے والا نہیں بلکہ آسانی سے سکھانے والا بنا کر بھیجا ہے۔

856: مسروق کہتے ہیں کہ مجھے کچھ خوف نہیں اگر میں اختیار دوں اپنی بیوی کو ایک بار یا سو بار یا ہزار بار جب وہ مجھے پسند کر چکی ہے اور میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں اختیار دیا تھا تو کیا یہ طلاق ہو گئی؟ (یعنی نہیں ہوئی)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وان تظاہرا علیہ﴾ کے متعلق۔
857: سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے ، کہتے ہیں کہ میں ایک سال تک سیدنا عمرؓ سے اس آیت کے بارے پوچھنے کا ارادہ کرتا رہا لیکن ان کے رعب کی وجہ سے نہ پوچھ سکا، یہاں تک کہ وہ حج کو نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ نکلا۔ پھر جب واپسی میں تھے کہ سیدنا عمر ایک بار پیلو کے درختوں کی طرف کسی حاجت کو جھکے اور میں ان کے لئے ٹھہرا رہا، یہاں تک کہ وہ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے تو میں ان کے ساتھ چلا۔ اور میں نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! وہ دونوں عورتیں کون ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ پر آپ کی ازواج میں سے زور ڈالا، تو انہوں نے کہا کہ وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما ہیں۔کہتے ہیں کہ میں نے ان سے کہا کہ اللہ کی قسم میں آپ سے اس بارے میں ایک سال سے پوچھنا چاہتا تھا لیکن آپ کی ہیبت سے نہ پوچھ سکا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں ایسا مت کرو، جو بات تمہیں خیال آئے کہ مجھے معلوم ہے اس کو تم مجھ سے دریافت کر لو، اگر میں جانتا ہوں تو تمہیں بتا دوں گا۔کہتے ہیں پھر سیدنا عمرؓ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ہم پہلے جاہلیت میں گرفتار تھے اور عورتوں کو کچھ اہمیت نہیں دیتے تھے ، یہاں تک کہ اللہ نے ان کے ادائے حقوق میں اتارا جو کہ اتارا اور ان کے لئے باری مقرر کی جو مقرر کی۔ چنانچہ ایک دن ایسا ہوا کہ میں کسی کام میں مشورہ کر رہا تھا کہ میری بیوی نے کہا کہ تم اس طرح کرتے تو خوب ہوتا، تو میں نے اس سے کہا کہ تجھے میرے کام میں کیا دخل؟ جس کا میں ارادہ کرتا ہوں تجھے اس سے کیا سروکار؟ تو اس نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تعجب ہے تم تو چاہتے ہو کہ کوئی تمہیں جواب ہی نہ دے حالانکہ تمہاری صاحبزادی رسول اللہﷺ کو جواب دیتی ہے ، یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ رہتے۔ ہیں سیدنا عمرؓ نے کہا کہ پھر میں اپنی چادر لے کر گھر سے نکلا اور حفصہ پر داخل ہوا اور اس سے کہا کہ اے میری پیاری بیٹی! تو رسول اللہﷺ کو جواب دیتی ہے یہاں تک کہ وہ دن بھر غصہ میں رہتے ہیں؟ تو حفصہ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں تو ان کو جواب دیتی ہوں پس میں نے اس سے کہا کہ تو جان لے میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور رسول اللہﷺ کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں اے میری بیٹی! تم اس بیوی کے دھوکے میں مت رہو جو اپنے حسن، اور رسول اللہﷺ کی محبت پر ناز کرتی ہیں (یعنی اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا)۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس قرابت کے سبب جو مجھے ان کے ساتھ تھی داخل ہوا اور میں نے ان سے بات کی۔ اُمّ اسلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے کہا کہ اے ابن خطاب! تم پر تعجب ہے کہ تم ہر چیز میں دخل دیتے ہو یہاں تک کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہﷺ اور ان کی ازواج کے معاملہ میں بھی دخل دو۔ مجھے ان کی اس بات سے بہت صدمہ پہنچا جس نے مجھے اس نصیحت سے باز رکھا جو میں کرنا چاہتا تھا۔ اور میں ان کے پاس سے چلا آیا۔ انصار میں سے میرا ایک دوست تھا کہ جب میں غائب ہوتا تو وہ مجھے (رسول اللہﷺ کی مجلس اور احادیث کی) خبر دیتا اور جب وہ غائب ہوتا تو میں اس کو خبر دیتا تھا اور ہم ان دنوں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کا خوف رکھتے تھے اور ہم میں چرچا تھا کہ وہ ہماری طرف آنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ہمارے سینے اس کے خیال سے بھرے ہوئے تھے۔ اس دوران میرے دوست نے آ کر دروازہ بجایا اور کہا کہ کھولو کھولو! میں نے کہا کہ کیا غسانی آ گئے ؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ پریشانی کی ایک بات ہے ، کہ رسول اللہﷺ اپنی ازواج مطہرات سے جدا ہو گئے ہیں۔ پس میں نے کہا کہ حفصہ اور عائشہ کی ناک خاک آلود ہو۔ پھر میں نے اپنے کپڑے لئے اور نکلا یہاں تک کہ میں رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا اور آپﷺ ایک بالا خانے میں تھے کہ اس کے اوپر کھجور کی ایک جڑ سے چڑھتے تھے اور رسول اللہﷺ کا ایک سیاہ فام غلام اس سیڑھی کے سرے پر تھا۔ پس میں نے کہا کہ یہ عمر ہے میرے لئے اجازت دی گئی۔ سیدنا عمرؓ نے کہا کہ پھر میں نے یہ سب قصہ رسول اللہﷺ سے بیان کیا اور جب میں اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہﷺ مسکرا دیئے اور آپﷺ ایک چٹائی پر تھے کہ ان کے اور چٹائی کے بیچ میں اور کوئی بچھونا نہ تھا اور آپﷺ کے سرکے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا۔ اور آپﷺ کے پیروں کی طرف سلم کے کچھ پتے ڈھیر تھے (جس سے چمڑے کو رنگتے ہیں) اور آپﷺ کے سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہﷺ کے پہلو پر چٹائی کا اثر اور نشان دیکھا تو رونے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا: اے عمر! تجھے کس بات نے رلایا؟ میں نے کہ کہ اے اللہ کے رسولﷺ! بیشک کسریٰ اور قیصر عیش میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم راضی نہیں ہو کہ ان کے لئے دنیا ہو اور تمہارے لئے آخرت۔
تکیہ تھا جس میں کھجور کا چھلکا بھرا ہوا تھا۔ اور آپﷺ کے پیروں کی طرف سلم کے کچھ پتے ڈھیر تھے (جس سے چمڑے کو رنگتے ہیں) اور آپﷺ کے سرہانے ایک کچا چمڑا لٹکا ہوا تھا۔ میں نے رسول اللہﷺ کے پہلو پر چٹائی کا اثر اور نشان دیکھا تو رونے لگا۔ آپﷺ نے فرمایا: اے عمر! تجھے کس بات نے رلایا؟ میں نے کہ کہ اے اللہ کے رسولﷺ! بیشک کسریٰ اور قیصر عیش میں ہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ تب آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم راضی نہیں ہو کہ ان کے لئے دنیا ہو اور تمہارے لئے آخرت۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب: عدت کے مسائل

باب : حاملہ عورت اپنے خاوند کی وفات کے (تھوڑے عرصے ) کے بعد بچہ جنے (تو اس کی عدت کا بیان)۔
858: عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ سے روایت ہے کہ ان کے والد نے عمر بن عبد اللہ بن ارقم الزہری کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں اور ان سے ان کی حدیث کے بارہ میں پوچھیں کہ ان سے رسول اللہﷺ نے کیا فرمایا تھا جب انہوں نے آپﷺ سے فتویٰ طلب کیا تھا؟ تو عمر بن عبد اللہ نے ان کو لکھا کہ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خبر دی ہے کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں جو قبیلہ بنی عامر بن لوی سے تھے اور غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے تھے۔ ٍحجۃ الوداع میں انہوں نے وفات پائی تو یہ حاملہ تھیں۔ پھر ان کی وفات کے کچھ ہی دیر بعد وضع حمل (یعنی ولادت) ہو گئی۔ اور جب اپنے نفاس سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے منگنی کا پیغام دینے والوں کے لئے بناؤ سنگار کیا۔ ابو السنابل جو قبیلہ بنی عبدالدار سے تعلق رکھتے تھے ، ان کے پاس آئے اور کہا کہ کیا سبب ہے کہ میں تمہیں سنگار کئے ہوئے دیکھتا ہوں؟ شاید تم نکاح کا ارادہ رکھتی ہو؟ اور اللہ کی قسم تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک تم پر چار مہینے اور دس دن نہ گزر جائیں۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب انہوں نے مجھ سے یوں کہا تو میں اپنی چادر اوڑھ کر شام کو نبیﷺ کے پاس آئی اور آپﷺ سے پوچھا، تو آپﷺ نے مجھے فتویٰ دیا کہ میری عدت اسی وقت اپنی پوری ہو چکی تھی جب میں نے وضع حمل کیا اور اگر میں چاہوں تو مجھے نکاح کی اجازت دی۔ ابن شہاب نے کہا کہ میں اس میں بھی کچھ مضائقہ نہیں جانتا کہ کوئی عورت بعد وضع کے اسی وقت نکاح کرے اگرچہ وہ ابھی خون نفاس میں ہو مگر اتنی بات ضرور ہے کہ اس کا شوہر اس سے صحبت نہ کرے جب تک کہ وہ پاک نہ ہو جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مطلقہ عورت اپنے باغ کی کھجوروں کو توڑنے کے لئے (باہر) جا سکتی ہے۔
859: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ میری خالہ کو طلاق ہو گئی اور انہوں نے چاہا کہ اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لیں، تو ایک شخص نے ان کے باہر نکلنے پر انہیں جھڑکا۔ وہ نبیﷺ کے پاس حاضر ہوئیں تو آپﷺ نے فرمایا کیوں نہیں تم جاؤ اور اپنے باغ کی کھجوریں توڑ لو۔ اس لئے کہ شاید تم اس میں سے صدقہ دو (تو اوروں کا بھلا ہو) یا اور کوئی نیکی کرو (کہ تمہارا بھلا ہو)۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مطلقہ عورت اپنے اوپر کسی ڈر کی وجہ سے اپنے گھر سے جا سکتی ہے۔
860: سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ! میرے شوہر نے مجھے تین طلاق دے دی ہیں اور مجھے اپنے ساتھ سختی اور بد مزاجی کا خوف ہے ، تو نبیﷺ نے حکم دیا کہ وہ کسی اور گھر میں چلی جائیں۔ (راوی نے کہا کہ) وہ دوسری جگہ چلی گئیں۔

861: ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت قیس نے اس کو خبر دی کہ وہ ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ کے نکاح میں تھیں اور ابو عمرو نے انہیں تین طلاقوں میں سے تیسری بھی دے دی۔ پھر وہ گمان کرتی تھی کہ وہ نبیﷺ کے پاس آئی تھی اور اس گھر سے نکلنے کے بارے میں فتویٰ پوچھا تھا، تو آپﷺ نے اس کو عبد اللہ بن ام مکتومؓ کے پاس منتقل ہونے کا حکم دیا تھا۔ اس مروان نے اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کیا کہ مطلقہ عورت (خاوند کے ) گھر سے نکل سکتی ہے۔ اور عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ کی بات کا انکار کر دیا۔ (مطلقہ عورت اپنے خاوند کے گھر سے باہر نہ نکلے )۔
 
Top