• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مشکلات القراء ات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تطبیق کااصول اورطریقہ
دومتعارض دلیلوں کودوحالتوں پرمحمول کرناتطبیق کاایک طریقہ ہے،چنانچہ اصول السرخسی میں ہے:
’’فأما المخلص بطریق الحال، فبیانہ في قولہ تعالیٰ:’’ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ ‘‘بالتخفیف في إحدی القرائتین وبالتشدید في الأ خری، فبینھما تعارضٌ في الظاہر، لأن حتّٰی للغایۃ وبین امتداد الشيء إلی غایۃٍ وبین قصورہٖ دونَھا منافاۃ… ولکن باعتبار الحال ینتفي ھٰذا التعارض۔‘‘ (أصول السرخسي: ۲؍۱۳۔۱۹، نیز أصول الشاشي: ۵۰)
یعنی طریق حال کے ذریعہ سے تعارض کودورکیاجاسکتاہے۔اس اصول کے پیش نظر اَحناف کا مذہب باکل واضح ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ ھدایہ میں ہے :
’’ اگر خون دس دن کے بعد منقطع ہو تو غسل سے پہلے بھی مباشرت جائز ہے، کیونکہ حیض دس دن سے زیادہ نہیں ہوا کرتا۔ البتہ غسل سے پہلے مباشرت کرنا مستحب اور مستحسن امر نہیں ۔ کیونکہ قراء ۃ تشدید کے مطابق ممانعت موجود ہے ۔ ’’وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطّھّرن‘‘ جب تک کہ خوب پاک نہ ہو جائے ، نظافت وپاکیزگی کا کمال غسل ہی ہے۔‘‘ (الہدایۃ للمرغیناني: ۱؍۵۰،۵۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مولاناظفراَحمدعثمانی لکھتے ہیں:
’’جمع الحنفیۃ بین القرائتین، وجعلھما کالآیتین… ولما رأی سادتنا الحنفیۃ أن ھٰھنا قرائتین… واحتاجوا للجمع بجعل کل واحد منھما آیۃً مستقلۃً، فحملوا الأولیٰ علی الانقطاع بأکثر المدۃ، والثانیۃ لتمام العادۃ التي لیست أکثر مدۃ الحیض۔‘‘ (أحکا م القرآن: ۱؍۴۱۴)
’’حنفیہ نے دو قرا ء توں کو جمع کیا ہے اور ان کو دو آ یتوں کی طرح شمار کیا ہے ۔ اور جب ہما رے حنفی اَئمہ نے دیکھا کہ اس مقام پر دو قراء تیں ہیں ۔۔۔ اور وہ محتا ج ہو ئے اس با ت کی طرف کہ دونو ں قرا ء توں کو مستقل آیت بنا کر جمع کیا جا ئے ، تو انہوں نے پہلی قرا ء ت کو اکثر مدت پر خو ن کے بند ہو نے پر محمو ل کیا ، اور دوسری قرا ء ت کو اس عادت کے اِنقطاع پر محمول کیا جو اکثر مدت سے کم ہو ۔‘‘
لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک دونوں صورتوں میں عورت کاجماع سے پہلے غسل کرناضروری ہے۔ چنانچہ کتاب الأم میں ہے:
’’وأبان عزوجل أنھا حائض وأمرَ أن لا تقرب حائضٌ حتّٰی تَطَھَّرَ ولا إِذا طَھُرَتْ حتّٰی تتطھَّرَ بالماء‘‘ (کتاب الأم للشافعي: ۱؍۵۹)
’’اوراللہ تعالی نے واضح کردیاہے کہ وہ عورت حائضہ ہے ،اور یہ حکم دیاہے کہ حائضہ سے جماع نہ کیاجائے،یہاں تک کہ وہ بالکل پاک نہ ہوجائے،نہ کہ اس وقت کہ جب اس کاصرف خون بندہوجائے ،یہاں تک کہ وہ غسل نہ کرلے۔‘‘
نتیجہ قراء ت یہ ہے کہ اس مقام پر دوقراء توں کی بناپرفقہی اختلاف پیداہواہے۔احناف نے ان کودومختلف صورتوں پرمحمول کیاہے، لیکن امام شافعی رحمہ اللہ نے دونوں قراءتوں کوایک ہی معنی پرمحمول کیاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) وضوء میں پیردھونے یامسح کامسئلہ
’’ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا إِذَا قُمْتُمْ إِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ أَیْدِیَکُمْ إِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ‘‘ (المائدہ :۶)
’’اے ایمان والو !جب تم نماز کا ارادہ کروتواپنے چہروں اور ہاتھوں کودھولو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پیروں کو دھولو ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِختلاف قراء ات
اس آیت میں کلمہ وأرجلکم میں د و قرا ء تیں ہیں :
(١)۔۔۔۔وَأَرْجُلَکُمْ۔۔۔۔’نصب کے ساتھ‘ نافع ۔ابن عامر ،کسائی ،یعقوب ،حفص ۔
(٢)۔۔۔۔وَأَرْجُلِکُمْ۔۔۔۔’جر کے ساتھ ‘ ابن کثیر ،ابوعمر ،شعبہ ،حمزہ،ابوجعفر ،خلف (النشر لابن الجزري: ۲؍۲۵۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
معنی قراء ات
نصب والی قراء ت پر اس آیت کا معنی بالکل واضح ہے۔ جر والی قرا ء ت میں یہ احتمال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں أرجلِکم کا عطف کلمہ قرآنی برئوسکم پر ہوتو پیروں کا مسح مراد ہونا چاہیے۔ اَئمہ َاربعہ سمیت جمہور فقہاء کا مذہب یہ ہے کہ جروالی قراء ت سے بھی پیروں کا دھونا ہی مراد ہے، مسح مراد نہیں ہے۔(کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ للجزیری: ۱؍۸۵ ۔۱۰۳)
تاہم امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ ملتا ہے کہ جر والی قراء ت سے مسح علی الخفین مراد ہے۔(تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر: ۲؍۲۴۔۲۹)
صرف اہل تشیع نے جر والی قراء ت سے پیروں کا مسح ثابت کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ (م ۷۷۴ھ) لکھتے ہیں:
’’ومن أوجب من الشیعۃ مسحھما کما یمسح الخفّ فقد ضل وأضل، وکذا من جوّز مسحھما وجوّز غسلھما فقد أخطأ۔‘‘ (ابن کثیر: ۲؍۲۶)
’’ اور شیعوں میں سے جنہوں نے پیروں کامسح واجب کیا ہے، جیسے موزے پرمسح کیا جاتا ہے تووہ خو د بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کوبھی گمراہ کیا اور اسی طرح جنہوں نے مسح اورغسل دونوں کو جائز رکھا انہوں نے بھی غلطی کی ہے ۔‘‘
البتہ اگر پیروں پر موزے پہنے ہوئے ہوں توجر والی قرا ء ت سے مسح علی الخفین مراد ہو سکتا ہے ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام ابن کثیررحمہ اللہ اپنی تفسیرمیں لکھتے ہیں :
’’ھي محمولۃ علی مسح القدمین إذا کان علیھما الخفان قالہ أبوعبد اﷲ الشافعی۔‘‘ (ابن کثیر، حوالہ مذکور)
’’اور بعض لوگوں نے اس کو مسح علی القدمین پر محمول بتایا ہے بشرطیکہ پیروں پر موزے پہنے ہوئے ہوں ،یہ قول امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے ۔‘‘
٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م۲۰۴ھ) فرماتے ہیں :
’’ونحن نقرؤھا وأرجلَـکم علی معنی: فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ وَامْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ‘‘ (کتاب الأم للشافعی: ۱/ ۲۷، نیز أحکام القرآن للشافعي: ۱؍۴۴)
’’ہم اس کو نصب کے ساتھ پڑھتے ہیں، اس معنی میں کہ تم اپنے چہروں،ہاتھوں، اورپیروں کودھوؤ ، اور سروں کامسح کرو۔‘‘
آگے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فاحتمل أمر اﷲ تبارک وتعالیٰ بغسل القدمین: أن یکون علی کل متوضیٔ، واحتمل أن یکون علی بعض المتوضئین دون بعض۔ فدل مسح رسول اﷲ ﷺ علی الخفّین أنھا علی من الأخفین علیہ إذا ھو لبسھما علی کمال طھارۃ۔‘‘ (الشافعی، حوالہ مذکور: ۱؍۵۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اِمام شافعی رحمہ اللہ نصب والی قراء ت کی صورت میں مسح علی الخفین کی توجیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ اللہ تعالیٰ کا پیروں کو دھونے کا حکم دواحتمال رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ یہ حکم ہر وضو کرنے والے کیلئے ہو، اور دوسرا حتمال یہ ہے کہ بعض وضو کرنے والوں کے لئے غسل کا حکم ہواور بعض کیلئے نہ ہو ،پس رسول اللہﷺ کے خفین پر مسح کرنے سے یہ ثابت ہوگیا کہ مسح والا حکم اس آدمی کیلئے ہے، جس نے موزے پہن رکھے ہوں ،بشرطیکہ ان کو کمال طہارت پر پہنا گیا ہو ۔‘‘
گویا امام شافعی رحمہ اللہ اس بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اس آیت میں نصب والی قراء ت میں پیروں کو دھونے کا حکم ہے ،لیکن یہ حکم تمام وضو کرنے والوں کیلئے نہیں ہے لہٰذا مسح علی الخفین کتاب اللہ کے خلاف نہیں ہے ۔
اِما م نسفی رحمہ اللہ (م۷۱۰ھ) نے جروالی قراء ت کی ایک توجیہ یہ بھی کی ہے کہ پیروں کو دھوتے وقت پانی کا اسراف عام طور پر ہوجاتاہے۔
لہٰذا اس کو ممسوح پر معطوف کیاگیا اس بات پر تنبیہ کرنے کیلئے کہ پیروں کو دھونے میں میانہ روی سے کام لیا جائے ،اِسراف نہ کیاجائے۔ (مدارک التنزیل للنسفي: ۱؍۴۳۰)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ مفتی عبدالشکور ترمذی رحمہ اللہ ( م۱۴۲۱ھ) اَحکا م القرآن میں لکھتے ہیں :
’’فالدلیل علی أن المراد الغَسل دون المسح اتفاق الجمیع علی أنہ إذا غسل فقد أدّی فرضَہٗ۔‘‘ (أحکام القرآن: ۱؍۳۷۶)
’’ غسل مراد ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جوشخص پیروں کودھولے اس کا فرض اَدا ہو جائے گا۔‘‘
 
Top