• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
بھائی اشماریہ صاحب آپ کی محنت اللہ قبول فرمائے ۔ لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ
آپ نے دو نسخوں کی تصویریں چسپاں کی ہیں ۔ لیکن دونوں ہی محل نزاع میں مفید نہیں ۔
پہلا نسخہ
جس کے لیے رمز ( ع ) استعمال کی گئی ہے جوکہ شیخ عابد السندھی کی طرف منسوب ہے اس کے بارے میں آپ کے حنفی محقق محمد عوامہ کا یہ فیصلہ سن لیں :
و هي نسخة للاستئناس لا للاعتماد عليها ( مقدمة المحقق للمصنف ص 28 )
کہ یہ نسخہ بذات خود قابل اعتماد نہیں ہے ۔
دوسرا نسخہ
جس کے لیے رمز ( ت ) استعمال کی گئی ہے جو کہ شیخ زبیدی رحمہ اللہ کا نسخہ کہلاتا ہے ۔ وہ بھی آپ کے لیے دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس میں مطلوبہ مقام پر سقط کا احتمال ہے ۔
اس بات کی وضاحت کے لیے مصنف ابن ابی شیبہ ( بتحقیق محمد عوامہ ) حدیث وائل اور اس سے بعد والی دو روایات ملاحظہ فرمائیں :
3959- حدثنا وكيع ، عن موسى بن عمير ، عن علقمة بن وائل بن حجر ، عن أبيه ، قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه على شماله في الصلاة
(تحت السرة.)
3960- حدثنا وكيع ، عن ربيع ، عن أبي معشر ، عن إبراهيم ، قال : يضع يمينه على شماله في الصلاة
تحت السرة.
3961- حدثنا وكيع ، قال : حدثنا عبد السلام بن شداد الجريري أبو طالوت ، عن غزوان بن جرير الضبي ، عن أبيه ، قال : كان علي إذا قام في الصلاة وضع يمينه على رسغه ، فلا يزال كذلك حتى يركع متى ما ركع ، إلا أن يصلح ثوبه ، أو يحك جسده.

ان تینوں روایات پر غور کریں اور پھر نسخہ (ت ) پر بھی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں وہ حصہ جس کو میں نے پیلے رنگ سے نمایاں کیا ہوا ہے ساقط ہوگیا ہے ۔ اور ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے وہ الفاظ جو ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اثر کے ساتھ تھے وہ حدیث وائل کے ساتھ جڑ گئے ہیں ۔
اور اس بات کی واضح اور بین دلیل یہ ہےکہ آپ کے پیش کردہ نسخہ ( ت ) میں امام نخعی کا اثر موجود ہی نہیں ۔ جبکہ دیگر نسخوں میں یہ موجود ہے ۔
اس تفصیل کے بعد اگر آپ شیخ محمد عوامہ کی تحقیق کے ساتھ یہ مقام ملاحظہ فرمائیں گے تو تعجب ہوگا کہ کس طرح انہوں نےسب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بنا کسی دلیل ( فیما أعلم ) حدیث وائل کے ساتھ ’’ تحت السرۃ ‘‘ کا اضافہ بھی باقی رکھا اور ابراہیم نخعی کے اثر کو بھی باقی رکھا ۔
حالانکہ جن نسخوں میں ابراہیم نخعی کا اثر ہے ان میں حدیث وائل کےساتھ ’’تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ نہیں اورجن میں ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ ہیں ان میں ابراہیم نخعی کا اثر نہیں ۔
واللہ اعلم ۔
اور اس سےبھی بڑھ کر ان لوگوں کی جرأت ہےجو ’’ تحت السرۃ ‘‘ کے الفاظ کے بغیر کتابیں چھاپنے والوں کو ’’ محرفین ‘‘ کا لقب دے دیتے ہیں ۔
آخر کس بنیاد پر اس تحریف کا الزام ۔۔۔۔؟؟ صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے اپنے مذہبی اور ذاتی رجحانات کو ’’ متن کتاب ‘‘ کا حصہ نہیں بننے دیا ؟
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔۔۔
دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں قران وسنت کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔۔
اشماریہ بھائی آپ کی باتیں پڑھیں کچھ اچھی بھی لگیں اور کچھ عجیب بھی۔۔۔
محترم بھائی آپ نے کہا
سب سے پہلے تو اس سے المعجم الکبیر، کتاب المعرفۃ و والتاریخ اور السنن الکبری کو نکال دیں کیوں کہ ان میں موجود احادیث کا مضمون ہی مختلف ہے۔ ان میں بائیں ہاتھ کو دائیں سے پکڑنے کا ذکر ہے اور مذکورہ حدیث میں دایاں ہاتھ بائیں پر رکھنے کا۔ ایک میں دائیں ہاتھ کا فعل بتایا جا رہا ہے اور دوسری میں مقام۔ لہذا دونوں الگ الگ ہیں۔ الفاظ ہیں:۔
قبض علی یمینہ بشمالہ
محترم بھائی عرض یہ ہیکہ اگر الفاظ میں فرق ہے تو کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ حدیث ہی مختلف ہے یا اس مضمون سے ہی باہر ہے کتنی آسانی سے آپ نے کہہ دیا کہ یہ اس سے نکال دیں،،
محترم بھائی برادرانہ گزارش ہے کہ آپ ذرہ ان تمام کتب میں موجود اسناد پر غور کریں سب میں تقریبا ایک ہی سند ہے جو کہ موسی بن عمیر سے ہے۔۔۔ اور آگے صحابی بھی ایک ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ہی روایت ہے بس مختلف روات نے اپنے الفاظ میں اسکو بیان کیا۔۔
چلیں ایک منٹ کیلئے آپ کی بات کو مان بھی لیا جائے تو کیا روات نے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے پورے ایک مستقل مسئلے کو ہی حذف کر لیا؟؟ اور سرۃ کا تذکرہ تک نا کیا!!! عجیب بات نہیں؟؟

اگلی باتیں اس سے بھی عجیب کیں آپ نے۔۔۔
آپ لکھتے ہیں۔۔
اب اس میں سے مصنف کے مطبوعہ نسخے نکال دیجیے کیوں کہ وہ کسی مخطوطہ کی بنیاد پر ہی طبع ہوتے ہیں اور بسا اوقات تو ایک ہی نسخے سے طبع ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بات یہاں مخطوطوں کی چل رہی ہے کہ تحت السرہ کی زیادتی ہے یا نہیں۔ اب آپ کے پاس ایک مخطوطہ ہے اور ایک صرف قول۔ اسکین اور فوٹو اسٹیٹ کے زمانے میں قول کی کیا حیثیت ہے آپ بخوبی جانتے ہیں
بات اتنی آسان نہیں جتنی آسانی سے آپ نے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔۔
کیا جو بھی تحقیق کرتا ہے وہ ایسے ہی بس کاپی کرنا شروع کر دیتا ہے ؟؟ نہین بھائی یہ آپ کا گمان ہے۔ بلکہ جب بھی کوئی کتاب کی تحقیق کرتا ہے تو مختلف مخطوطوں سے اسکا موازنہ کرتا ہے اور اس چیز کا ذکر موجود بھی ہوتا ہے۔۔
اور یہاں تو آپ کی بات ایسے ہی ہے جیسا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنا۔۔ وہ اس لیئے کہ شرح السنہ کی تحقیق شعیب الارناؤوط نے کی ہے اور انکے بارے میں ہر کسی کو پتہ ہے کہ وہ کس طرح کے حنفی ہیں۔ اور اسکی ایک جھلک انہوں نے سیر اعلام النبلاء میں دکھائی ہے کہ جہاں کوئی بات نا پسند آئی پوری کی پوری عبارت غائب۔۔ اللہ کی پناہ۔۔۔
تو آپ کا کیا خیال ہے کہ انکے سامنے آپ کے پیش کردہ مخطوطہ ہوتا یا اسے وہ صحیح سمجھتے تو اسکو نقل نہ کرتے؟؟

اگلی بات پڑھ کر تو میں چکرا سا گیا۔۔۔ آپ کی میں عزت کرتا ہوں اور آپ کا حنفی ہونے کے باوجود محققانہ انداز رکھنا اور تحمل سے پیش آنا مجھے بہت پسند ہے لیکن یہاں آپ نے انتہائی عجیب بات کی۔۔۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ زیادتی ثقہ مقبول ہے اگر اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کی روایت کے منافی نہ ہو تو مقبول ہے۔
پھر اگر زیادتی سے ساکت اور زیادتی والی روایت میں منافاۃ نہیں تو مطلقا قبول ہے اور اگر منافاۃ ہے تو ترجیح کی جائے گی۔
میں یہاں دو سندیں لکھتا ہوں ایک آپ کے پیش کردہ مخطوطے سے اور ایک اوپر والے سے اور یاد رہے دونوں ایک ہی کتاب کے ہیں ۔۔۔
لولی صاحب کا پیش کردہ۔۔۔۔
حدثنا وکیع عن موسی بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاۃ۔

آپکا ؟مخطوطا؟۔۔
حدثنا وکیع عن موسی بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاۃ تحت السرۃ۔

مجھے انصاف سے بتائے آیا دونوں سندوں میں کوئی فرق ہے؟؟ اگر ہے کوئی ثقہ راوی آیا ہے تو جی بسم اللہ ہم قبول کرتے ہیں ذیادتی ثقہ۔۔۔
لیکن جب دونوں سندیں ایک ہیں اور لازما ایک ہی ہیں تو پھر یہ ذیادتی ثقہ کس کو شمار کر رہے ہیں آپ؟؟
کیا آپ ناشرین کو روات بنا رہے ہیں؟؟ کیا انکی ذیدتی مقبول ہے؟؟
اور آپ نے خود اوپر کہا
کیا ان صاحب کی توثیق کسی نے کی ہے؟
تو کیا یہ بات یہاں منطبق نہیں ہوتی؟؟
برائے مہربانی کچھ خیال کیجئے۔۔
اللہ تعالٰی سمجھنے کی اور عمل کی توفیق دے۔ آمین
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بھائی اشماریہ صاحب آپ کی محنت اللہ قبول فرمائے ۔ لیکن میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ
آپ نے دو نسخوں کی تصویریں چسپاں کی ہیں ۔ لیکن دونوں ہی محل نزاع میں مفید نہیں ۔
پہلا نسخہ
جس کے لیے رمز ( ع ) استعمال کی گئی ہے جوکہ شیخ عابد السندھی کی طرف منسوب ہے اس کے بارے میں آپ کے حنفی محقق محمد عوامہ کا یہ فیصلہ سن لیں :
و هي نسخة للاستئناس لا للاعتماد عليها ( مقدمة المحقق للمصنف ص 28 )
کہ یہ نسخہ بذات خود قابل اعتماد نہیں ہے ۔
؟


جزاك الله خضر بهائی۔ آپ کی تحقیق بھی اللہ پاک قبول فرمائیں۔ میں یہ کام صرف دینی نقطہ نظر سے کرتا ہوں اور آپ کے بارے میں بھی یہی حسن ظن رکھتا ہوں۔
بات کسی حنفی کی ہو یا کسی دوسرے مسلک والے کی اگر وہ مجھے درست معلوم ہو تو میں اسے درست کہتا ہوں۔ لہذا حنفی ہونے کا حوالہ براہ کرم نہ دیجیے۔
البتہ یہ قول انہوں نے اپنی تحقیق میں اس نسخے کے بارے میں کہا ہے نہ کہ اس نسخے کے اپنے بارے میں۔ علامہ عابد سندھی کا لکھوایا ہوا یہ نسخہ جس پر انہوں نے ابواب خود لکھے ہیں ایسا تو نہیں کہ اس پر اعتماد ہی نہ ہو۔ اور اگر بالفرض یہی مراد مان لیں تو بلا دلیل یہ بات کیسے قبول ہو سکتی ہے؟
شیخ نے ان نسخوں کے بارے میں مقدمہ میں یہ لکھا ہے کہ ان میں تمام نسخے مل کر اطمینان دلاتے ہیں۔ الگ الگ نسخہ کامل نہیں ہے سوائے ایک کے اور وہ بھی تام نہیں ہے۔
جو جملہ آپ نے نقل فرمایا اس سے پہلے محمد عوامہ نے لکھا ہے:۔
وھی تامۃ فی مجلدین کبیرین، و علیھا وقفیتہ
اس کے بعد آپ کا دیا ہوا جملہ لکھا ہے یعنی یہ تام ہونے کے باوجود یہ نسخہ "استئناس" کے لیے ہے "اعتماد" کے لیے نہیں۔ یعنی اپنی تحقیق میں انہوں نے اس پر اعتماد نہیں کیا۔

دوسرا نسخہ
جس کے لیے رمز ( ت ) استعمال کی گئی ہے جو کہ شیخ زبیدی رحمہ اللہ کا نسخہ کہلاتا ہے ۔ وہ بھی آپ کے لیے دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ اس میں مطلوبہ مقام پر سقط کا احتمال ہے ۔
اس بات کی وضاحت کے لیے مصنف ابن ابی شیبہ ( بتحقیق محمد عوامہ ) حدیث وائل اور اس سے بعد والی دو روایات ملاحظہ فرمائیں :
3959- حدثنا وكيع ، عن موسى بن عمير ، عن علقمة بن وائل بن حجر ، عن أبيه ، قال : رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وضع يمينه على شماله في الصلاة
(تحت السرة.)
3960- حدثنا وكيع ، عن ربيع ، عن أبي معشر ، عن إبراهيم ، قال : يضع يمينه على شماله في الصلاة
تحت السرة.
3961- حدثنا وكيع ، قال : حدثنا عبد السلام بن شداد الجريري أبو طالوت ، عن غزوان بن جرير الضبي ، عن أبيه ، قال : كان علي إذا قام في الصلاة وضع يمينه على رسغه ، فلا يزال كذلك حتى يركع متى ما ركع ، إلا أن يصلح ثوبه ، أو يحك جسده.
ان تینوں روایات پر غور کریں اور پھر نسخہ (ت ) پر بھی غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں وہ حصہ جس کو میں نے پیلے رنگ سے نمایاں کیا ہوا ہے ساقط ہوگیا ہے ۔ اور '' تحت السرۃ '' کے وہ الفاظ جو ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے اثر کے ساتھ تھے وہ حدیث وائل کے ساتھ جڑ گئے ہیں ۔
اور اس بات کی واضح اور بین دلیل یہ ہےکہ آپ کے پیش کردہ نسخہ ( ت ) میں امام نخعی کا اثر موجود ہی نہیں ۔ جبکہ دیگر نسخوں میں یہ موجود ہے ۔

یہ ایک احتمال ہے جو پہلے نسخے کی وجہ سے ساقط ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ یہ زیادہ ظاہر ہے کہ اگلا اثر موجود نہ ہو جیسا کہ نسخوں میں ہوتا ہے بنسبت اس کے اگلا اثر غائب ہو کر تحت السرہ پچھلی روایت سے جا ملے اور بوقت تصحیح بھی نوٹ نہ ہو۔
جب ہم اس روایت کو شیخ عابد سندھیؒ کے نسخے کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو یہ احتمال بالکل باطل نظر آتا ہے۔
پھر یہاں ایک اور نسخہ ہے جس کا ذکر شیخ ہاشم سندھیؒ نے کیا ہے اور جس کا انکار شیخ حیات سندھیؒ کو بھی نہیں تھا۔ لیکن بد قسمتی سے وہ نسخہ ہمارے سامنے موجود نہیں ہے۔ وہ نسخہ ہے علامہ قاسم ابن قطلوبغا کا۔ اس میں بھی یہ زیادتی موجود ہے۔
اس کے بارے میں شیخ ہاشم کے الفاظ یہ ہیں
المقابلۃ المصححۃ المتعددۃ الموافقۃ التی اتصل بنا سندھا
معیار النقاد (درہم الصرۃ ص 107)

اس کی روشنی میں بھی یہ زیادتی ثابت نظر آتی ہے۔ اور احتمال باطل معلوم ہوتا ہے۔

اس تفصیل کے بعد اگر آپ شیخ محمد عوامہ کی تحقیق کے ساتھ یہ مقام ملاحظہ فرمائیں گے تو تعجب ہوگا کہ کس طرح انہوں نےسب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بنا کسی دلیل ( فیما أعلم ) حدیث وائل کے ساتھ '' تحت السرۃ '' کا اضافہ بھی باقی رکھا اور ابراہیم نخعی کے اثر کو بھی باقی رکھا ۔
اوپر بیان کی ہوئی تفصیل کی روشنی میں شیخ کا اسے باقی رکھنا زیادہ درست معلوم ہوتا ہے جب کہ نیچےحاشیے میں تفصیلا بحث بھی کی ہے۔
کیونکہ جن نسخوں میں ابراہیم نخعی کا اثر ہے ان میں حدیث وائل کےساتھ ''تحت السرۃ '' کے الفاظ نہیں اورجن میں '' تحت السرۃ '' کے الفاظ ہیں ان میں ابراہیم نخعی کا اثر نہیں ۔
واللہ اعلم ۔

پہلا نسخہ آپ نے خود ہی ملاحظہ فرمالیا ہے۔ اور علامہ قاسم كے نسخے كا حال ذكر كیا گیا ہے۔ بعینہ آپ کا والا اعتراض علامہ حیات سندھی نے بھی کیا تھا اور ہاشم سندھی نے اس کا جواب دیا تھا۔ لیکن یہ اعتراض ہی کمزور ہے۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔۔۔۔
دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں قران وسنت کی صحیح سمجھ عطا فرمائے۔۔


وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
آمین

محترم بھائی عرض یہ ہیکہ اگر الفاظ میں فرق ہے تو کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ حدیث ہی مختلف ہے یا اس مضمون سے ہی باہر ہے کتنی آسانی سے آپ نے کہہ دیا کہ یہ اس سے نکال دیں،،
محترم بھائی برادرانہ گزارش ہے کہ آپ ذرہ ان تمام کتب میں موجود اسناد پر غور کریں سب میں تقریبا ایک ہی سند ہے جو کہ موسی بن عمیر سے ہے۔۔۔ اور آگے صحابی بھی ایک ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ہی روایت ہے بس مختلف روات نے اپنے الفاظ میں اسکو بیان کیا۔۔
چلیں ایک منٹ کیلئے آپ کی بات کو مان بھی لیا جائے تو کیا روات نے اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے پورے ایک مستقل مسئلے کو ہی حذف کر لیا؟؟ اور سرۃ کا تذکرہ تک نا کیا!!! عجیب بات نہیں؟؟

محترم بھائی میری مراد یہ تھی کہ اس بحث سے نکال دیں کیوں کہ اس روایت کا اس بحث سے تعلق نہیں۔
"قبض علی" اور وضع کے معنی میں فرق ہے۔ ایک حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نبی ﷺ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیتے تھے۔ یہ پکڑنا اوپر سے بھی ہو سکتا ہے اور نیچے سے بھی۔ (میرا یہ مطلب نہیں کہ حدیث کی مراد میں یہ احتمال ہے۔ میں معانی کا فرق واضح کر رہا ہوں)۔ دوسری حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر رکھتے تھے۔ لہذا ان دونوں روایات کے مضامین الگ الگ ہیں اور ان میں الگ باتیں بیان ہوئی ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ یہ باقاعدہ دو الگ الگ روایات ہیں جو ایک ہی رواۃ سے مروی ہیں۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ قبض والی روایات میں علقمہ کا فعل بھی بیان کیا گیا ہے جب کہ وضع والی روایات میں ایسا کچھ نہیں ہے؟
تو جب معاملہ ایسا ہو تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ایک جگہ روایت بغیر ذکر تحت السرہ کے ہے اور دوسری جانب ذکر کے ساتھ۔ یہ تو دونوں روایات ہی الگ الگ ہیں۔
اسی لیے آپ کا یہ اعتراض بھی درست نہیں ہے کہ کیا رواۃ نے ایک مستقل مسئلہ کو ہی حذف کر لیا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ مستقل مسئلہ بیان ہی نہیں ہوا ہے۔ وہ تو دوسری حدیث ہے۔
اور اگر اسی کے بعض طرق میں یہ مسئلہ بیان ہوا بھی ہو تب بھی اسے لے کر دوسری روایت پر اعتراض کیسے درست ہو سکتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ رواۃ نے انداز مختلف رکھا ہے بیان کا تو روایت بالمعنی کے لیے یہ تو کم از کم شرط ہے کہ دونوں الفاظ کا معنی و مفہوم ایک ہو جب کہ میں نے یہی واضح کیا سب سے پہلے کہ ان کا معنی ہی مختلف ہے۔ اگر صرف حروف مختلف ہوتے تو میں اس پر اعتراض نہیں کرتا۔

بات اتنی آسان نہیں جتنی آسانی سے آپ نے حل کرنے کی کوشش کی ہے۔۔
کیا جو بھی تحقیق کرتا ہے وہ ایسے ہی بس کاپی کرنا شروع کر دیتا ہے ؟؟ نہین بھائی یہ آپ کا گمان ہے۔ بلکہ جب بھی کوئی کتاب کی تحقیق کرتا ہے تو مختلف مخطوطوں سے اسکا موازنہ کرتا ہے اور اس چیز کا ذکر موجود بھی ہوتا ہے۔۔
اور یہاں تو آپ کی بات ایسے ہی ہے جیسا اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنا۔۔ وہ اس لیئے کہ شرح السنہ کی تحقیق شعیب الارناؤوط نے کی ہے اور انکے بارے میں ہر کسی کو پتہ ہے کہ وہ کس طرح کے حنفی ہیں۔ اور اسکی ایک جھلک انہوں نے سیر اعلام النبلاء میں دکھائی ہے کہ جہاں کوئی بات نا پسند آئی پوری کی پوری عبارت غائب۔۔ اللہ کی پناہ۔۔۔
تو آپ کا کیا خیال ہے کہ انکے سامنے آپ کے پیش کردہ مخطوطہ ہوتا یا اسے وہ صحیح سمجھتے تو اسکو نقل نہ کرتے؟؟

میرے انتہائی قابل احترام اور قابل قدر بھائی!
یہ دلیل عجیب معلوم ہوئی۔ جب ہمیں یہی نہیں پتا کہ ارناؤوط کے سامنے یہ مخطوطہ تھا یا نہیں تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہم اسے صرف اس بنا پر کہیں کہ ارناؤوط نے دیگر جگہ پر خیانت کی ہے لہذا اس کے لیے یہاں بھی خیانت کرنا لازم تھا۔ یہ تو کوئی بات بھی نہ ہوئی۔
مصنف کے مخطوطوں میں سقط بہت زیادہ ہیں جس کا ذکر عوامہ نے بھی مقدمہ میں کیا ہے۔ ہر مخطوطہ میں کوئی نہ کوئی چھوٹی بڑی خرابی ہے۔ اور یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ تمام نسخے تمام محققین نے جمع بھی کیے ہیں یا نہیں۔ جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مطبوعہ کے لیےالگ سے تحقیق نہیں ہوتی بلکہ بسا اوقات دیگر نسخوں یا کسی ایک مخطوطہ سے ہی طبع کر دیا جاتا ہے۔


میں یہاں دو سندیں لکھتا ہوں ایک آپ کے پیش کردہ مخطوطے سے اور ایک اوپر والے سے اور یاد رہے دونوں ایک ہی کتاب کے ہیں ۔۔۔
لولی صاحب کا پیش کردہ۔۔۔۔
حدثنا وکیع عن موسی بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاۃ۔
آپکا ؟مخطوطا؟۔۔
حدثنا وکیع عن موسی بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاۃ تحت السرۃ۔
مجھے انصاف سے بتائے آیا دونوں سندوں میں کوئی فرق ہے؟؟ اگر ہے کوئی ثقہ راوی آیا ہے تو جی بسم اللہ ہم قبول کرتے ہیں ذیادتی ثقہ۔۔۔
لیکن جب دونوں سندیں ایک ہیں اور لازما ایک ہی ہیں تو پھر یہ ذیادتی ثقہ کس کو شمار کر رہے ہیں آپ؟؟
کیا آپ ناشرین کو روات بنا رہے ہیں؟؟ کیا انکی ذیدتی مقبول ہے؟؟

مجھے علم ہے کہ دونوں کی سندیں یکساں ہیں۔ ہم تک زیادتی آئی ہے ناسخین کی جانب سے۔ اور ناسخین میں ہمارے سامنے نام ہے شیخ قاسم بن قطلوبغا کا جن کا حوالہ لولی بھائی نے دیا ہے۔ شیخ قاسم وہ ہیں جن کی ثقاہت و فقہ کا انکار شیخ حیات سندھی نے بھی نہیں کیا۔ اور ان کا یہ نسخہ بقول شیخ ہاشم مقابلہ مصححہ متعددہ ہے اور اس بات سے بھی حیات سندھیؒ نے انکار نہیں کیا۔ اسی طرح دوسرا نام ہے شیخ عابد سندھی کا اور تیسرا نام ہے مرتضی زبیدی کا۔ تینوں اپنے اپنے وقت کے علماء بے مثل ہیں۔
مرتضی زبیدی کا یہ نسخہ بدر الدین عینی کے پاس بھی رہا ہے۔ اور اس کے ناسخ یوسف بن عبد اللطیف ہیں۔
جن نسخوں میں یہ زیادتی نہیں ہے وہ بھی زیادہ سے زیادہ اسی درجہ کے ہو سکتے ہیں۔ اس درجہ پر ناسخین کے اس فرق کو دیکھتے ہیں تو جو زیادتی ہمیں ان نسخ میں نظر آتی ہے اسے ہم زیادتی ثقہ کہہ کر قبول ہی کرسکتے ہیں۔
یہاں میری مراد رواۃ کی زیادتی نہیں بلکہ ناسخین کی زیادتی ہے جو کہ درحقیقت ایک طرح کے رواۃ ہی ہیں۔
اس پر شیخ حیات سندھیؒ نے اتصال سند کا سوال کیا تھا تو ہاشم سندھیؒ نے قاسمؒ کے نسخے کے بارے میں فرمایا تھا کہ سیوطی کے نقل کردہ ابو اسحاق اسفرائنی کے قول کے مطابق اس پر اجماع ہے کہ کتب معتمدہ سے نقل کر لیا جائے اور اس کی سند مصنف تک متصل نہ ہو۔

مزید تفصیل کے لیے درہم الصرۃ، اس کے دو جواب حیات سندھی کی جانب سے اور ان کے جواب الجواب ہاشم سندھی کی جانب سے ملاحظہ فرمائیے۔

اللہ تعالٰی سمجھنے کی اور عمل کی توفیق دے۔ آمین
آمین۔
میں واقعی خود کو سخت نا اہل و ناقابل سمجھتا ہوں۔
آپ دونوں بھائی جہاں میری غلطی دیکھیں تو میری گرفت کر سکتے ہیں۔ اللہ پاک آپ حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ایک علامت اس پر کہ قاسم بن قطلوبغا کے نسخے میں اس حدیث میں تحت السرہ موجود تھا یہ ہے کہ انہوں نے التعریف و الاخبار تخریج احادیث الخیار اس حدیث کی اسی طرح تخریج کی ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے وھذا سندہ جید۔
ص 314 ط جامعہ ام القری

ایک کتاب ہے جس کا نام فوز الکرام ہے۔ میں اسے حاصل کرنا چاہ رہا ہوں لیکن اس کا کوئی لنک نہیں مل رہا ورنہ شنید ہے کہ اس میں بہت تفصیل سے یہ بحث ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
"قبض علی" اور وضع کے معنی میں فرق ہے۔ ایک حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نبی ﷺ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیتے تھے۔ یہ پکڑنا اوپر سے بھی ہو سکتا ہے اور نیچے سے بھی۔ (میرا یہ مطلب نہیں کہ حدیث کی مراد میں یہ احتمال ہے۔ میں معانی کا فرق واضح کر رہا ہوں)۔ دوسری حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر رکھتے تھے۔ لہذا ان دونوں روایات کے مضامین الگ الگ ہیں اور ان میں الگ باتیں بیان ہوئی ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ یہ باقاعدہ دو الگ الگ روایات ہیں جو ایک ہی رواۃ سے مروی ہیں۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ قبض والی روایات میں علقمہ کا فعل بھی بیان کیا گیا ہے جب کہ وضع والی روایات میں ایسا کچھ نہیں ہے؟
لا حول ولا قوۃ الا باللہ!
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
"قبض علی" اور وضع کے معنی میں فرق ہے۔ ایک حدیث میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نبی ﷺ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑ لیتے تھے۔ یہ پکڑنا اوپر سے بھی ہو سکتا ہے اور نیچے سے بھی۔ (میرا یہ مطلب نہیں کہ حدیث کی مراد میں یہ احتمال ہے۔ میں معانی کا فرق واضح کر رہا ہوں)۔ دوسری حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ آپ دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر رکھتے تھے۔ لہذا ان دونوں روایات کے مضامین الگ الگ ہیں اور ان میں الگ باتیں بیان ہوئی ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ یہ باقاعدہ دو الگ الگ روایات ہیں جو ایک ہی رواۃ سے مروی ہیں۔ کیا آپ نے ملاحظہ نہیں فرمایا کہ قبض والی روایات میں علقمہ کا فعل بھی بیان کیا گیا ہے جب کہ وضع والی روایات میں ایسا کچھ نہیں ہے؟
جتنی حیرانگی مجھے آج آپ کی یہ بات پڑھ کر ہوئی ہے اتنی شاید آپ کے آج تک کے کسی مراسلے میں نہ ہوئی ہو گی۔
آج تک کسی عالم نے ان دو روایات میں شاید کوئی فرق نہ کیا ہو گا لیکن آج آپ نے اس ریکارڈ کو توڑ دیا۔ میں آپ کی فقاہت کی داد دیتا ہوں!
ایک لفظ کے فرق کی بنیاد پر آپ نے دونوں روایتوں کو ہی الگ الگ بنا دیا! سبحان اللہ
اتنا ہلکا اختلاف تو ہر روایت میں پایا جاتا ہے۔ اس طرح کا طریقہ اپنائیں تو دنیاء کی کسی حدیث کے دو متابعات آپس میں خوبخو نہیں ملیں گے اور آپ کو ہر ایک کو الگ حدیث باور کرانا پڑے گا!
اس اختلاف کی بات ہی چھوڑیں آپ کے حنفی علماء نے تو اس سے بھی کئی بڑے بڑے اور واضح اختلافات کی تطبیق کی ہے۔ اس قسم کا لفظی اختلاف احناف کی نامور کتب میں بہت موجود ہیں، بطور نمونہ ایک مثال پیش خدمت ہے:
(قَوْلُهُ تَحْتَ ثَدْيِهَا) كَذَا فِي بَعْضِ نُسَخِ الْمُنْيَةِ، وَفِي بَعْضِهَا عَلَى ثَدْيِهَا. قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: وَكَانَ الْأَوْلَى أَنْ يَقُولَ عَلَى صَدْرِهَا كَمَا قَالَهُ الْجَمُّ الْغَفِيرُ لَا عَلَى ثَدْيِهَا وَإِنْ كَانَ الْوَضْعُ عَلَى الصَّدْرِ قَدْ يَسْتَلْزِمُ ذَلِكَ بِأَنْ يَقَعَ بَعْضُ سَاعِدِ كُلِّ يَدٍ عَلَى الثَّدْي
یعنی عورت اور ہجڑا ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر انہیں پستان کے نیچے رکھ لیں اور منیہ کے بعض نسخوں میں ہے کہ پستان کے اوپررکھیں، حلیہ میں ہے کہ بہتر یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ سینے پر رکھیں جیسا کہ جم غفیر کا قول ہے کیونکہ جب سینے پر ہاتھ ہونگے تو کلائی کا کچھ حصہ لازما پستان پر ہو گا۔ (رد المختار علی الدر المختار ج 2 ص 188)
منیہ کے نسخوں کے لفظی اختلاف کو جس طرح علامہ ابن عابدین نے حل کیاہے اسی طرح وضع اور قبض کے لفظی اختلاف کو بھی حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ کوئی ایسا اختلاف نہیں جس کی بنیاد پر روایت ہی الگ قرار دے دی جائے۔
مستزاد یہ کہ اگر کسی روایت کے الفاظ میں اختلاف ہو بھی تو کیا اسے فورا الگ حدیث قرار دے دیا جاتا ہے!؟ ہرگز نہیں!
ہاں اگر یہ اختلاف ایسا اختلاف ہوتا جس میں دونوں روایتوں کے الفاظ باہم متعارض ہوں اور ان میں کوئی تطبیق ممکن نہ ہو تب شاید کہا جا سکتا تھا، لیکن ایسی حالت میں بھی روایت کو ایک الگ روایت قرار دےکر سائڈ پر نہیں رکھا جاتا۔ بلکہ پھر اس روایت پر ضعف، اضطراب، یا شذوذ وغیرہ کے اعتبار سےحکم لگایا جاتا ہے۔
اور پھر وضع اور قبض کیا ایسے متعارض الفاظ ہیں کہ ان میں تطبیق ممکن ہی نہیں!؟ بلکہ جس طرح قرآن قرآن کی تفسیر کرتا ہے اسی طرح حدیث حدیث کی وضاحت کرتی ہے۔ لفظ وضع ایک عام لفظ ہے جس میں ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھنا مطلوب ہے، جب کہ قبض نے اس کی تخصیص کر دی اور اس میں ان ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑنا مطلوب ہے! ان میں سرے سے کوئی تعارض ہی نہیں! اور اگر ہوتا بھی تو تب بھی دونوں ایک ہی روایتیں کہلائیں گی بس یہ کہا جائے گا کہ ہر راوی نے اپنی سمجھ یا مشاہدے کے مطابق ہر ایک کو تعبیر دیا ہے!
صاحب مرعاۃ المفاتیح اسی روایت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وفي البعض أخذ الشمال والقبض عليها باليمين، كما روى النسائي من حديث وائل قال: رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا كان قائماً في الصلاة قبض بيمينه على شماله. وروى الترمذي وابن ماجه من حديث قبيصة بن هلّب عن أبيه، قال: كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه. وورد في رواية أحمد وأبي داود من حديث وائل: "وضع اليمنى على الكف اليسرى والرسغ والساعد". فالسنة أن يجمع بين الوضع والقبض جمعًا بين هذه الأحاديث، وكيفية الجمع أن يضع الكف اليمنى على الكف اليسرى ويحلق الإبهام والخنصر على الرسغ ويبسط الأصابع الثلاث على الذراع، فيصدق أنه وضع اليد على اليد وعلى الذراع، وأنه أخذ شماله وقبض عليها بيمينه. قلت: لا حاجة إلى هذا التكلف للتوفيق والجمع لكون التوفيق فرع التعارض، ولا يظهر التعارض أصلاً؛ لأنه لا تناقض بين الأفعال المختلفة لجواز وقوع الكل في أوقات مختلفة (3:59-60)
اب آتے ہیں اس طرف کہ کیا آپ سے پہلےعلماء و محدثین نے ان دونوںمیں کوئی فرق کیا ہے یا ان دونوں کو ایک دوسرے کی متابعت کے طور پر پیش کیا ہے یا نہیں!
تو سب سے پہلے ہم امام المجتہد ابو عبد الرحمن النسائی ہی کی طرف آتے ہیں جن سے اصلا یہ روایت مروی ہے۔ امام نسائی نے جس باب کے تحت یہ روایت نقل کی ہےاس کا نام ہی انہوں نے رکھا ہے "وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ" اور اس باب میں انہوں نے صرف یہی ایک روایت بیان کی ہے!! سبحان اللہ! گویا ان کے نزدیک ان میں فرق نہیں ہے! اور پھر راوی اپنی روایت کو باقیوں سے بہتر جانتا ہے۔
اسی طرح امام دارقطنی نے اپنی سنن میں، امام ابن عبد البر نے التمہید میں ان دو روایتوں میں کوئی فرق نہیں کیا۔
یہاں تک کہ آپ کے مغلطائی حنفی نے بھی اس قبض والی روایت کو وضع والی روایات کی متابعت کے طور پر پیش کیا ہے۔
اسی طرح ابن الاثیر نے جامع الاصول میں بھی باب باندھا وضع الیدین کا اور حدیث نقل کی قبض والی۔ مزید دیکھیں البدر المنیر۔
اس کے علاوہ شعیب الارناوط سے لے کر دنیاء کہ ہر اس محقق نے جس نے بھی اس روایت کی تخریج کی ہے ، دونوں روایات کو ایک دوسرے کی متابعت کے طور پر ہی پیش کیا ہے!
اس کے لئے تو ایک ہی دلیل کافی تھی اور میں نے پھر بھی اتنی زیادہ نقل کردیں! اب بھی اگر تسلی نہ ہو تو اللہ ہی مالک ہے! میرا حسن ظن ہے کہ یہ انوکھی بات کرنے سے پہلے آپ اگر اپنے دیوبندی علماء سے بھی استفسار کر لیتے تو ان کا جواب بھی یہی ہوتا!
اب آپ کے لئے یہ کہنا جائز نہیں کہ یہ دونوں روایتیں مختلف ہیں!
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اب آتے ہیں حدیث میں لفظ "تحت السرۃ" کی طرف
بالفرض اگر ہم یہ تسلیم کر بھی لیں کہ "تحت السرۃ" کا لفظ اصل مخطوطہ میں موجود ہے۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ مختلف نسخوں میں اس عبارت پر اختلاف ہے۔ کچھ اس لفظ کو بیان کرتے ہیں تو کچھ نہیں کرتے۔ اب اس اختلاف کا حل کس طرح نکالا جائے۔ کیا اس اختلاف کو حل کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ جو لفظ مذہب کے موافق ہو اسے لے لیا جائے اور جو مذہب کے خلاف ہو اسے رد کر دیا جائے!؟ ہرگز نہیں!
بلکہ نسخوں میں اختلاف کی تصحیح کرنے کے بھی کچھ اصول و قواعد ہوتے ہیں جن سے اختلاف کی صورت میں راجح الفاظ کو لیا جاتا ہے! اور ان اصولوں کی دیوبندی حضرات بھی بڑے شوق و زوق سے اپنی کتب میں پیروی کرتے ہیں لیکن جب مذہب کی بات آتی ہے تو تقلید سب اصول بھلا دینے پر مجبور کر دیتی ہے اور تبھی ایسی غلطیاں سامنے آتی ہیں!
1- اس قسم کے اختلاف کی صورت میں پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ باقی کتب کا موازنہ کیا جائے کہ ان میں اس روایت کو کس طرح بیان کیا گیا ہے، پس اگر ایک روایت بھی ایسی مل جائے جس میں ان مختلف لفظوں میں سے کسی ایک کی موافقت کی گئی ہےتو یہی اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کافی و شافی ہوتی ہے! لیکن اس حدیث کے معاملے میں تو ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ اندازا چھ سات روایتوں نے "تحت السرۃ" کے عدم موجودگی پر موافقت کی ہے۔ اتنی بہترین دلیل کے بعد تو کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی کہ پھر بھی دوسرے غریب الفاظ کو بغیر کسی دلیل کے ترجیح دی جائے!
2- اگر موازنہ ممکن نہ ہو تو اس اختلاف میں سب سے زیادہ پرانے اور معتبر نسخے کو ترجیح حاصل ہو گی۔ اس اصول پر بھی یہ روایت "تحت السرۃ" کی زیادتی کے بغیر معتبر ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ سب سے پرانا اور بہترین نسخہ مکتبہ ظاہریہ کا نسخہ ہے، اور اس میں بھی یہ روایت بغیر ان الفاظ کے موجود ہے! اور زیادہ تر نسخے اس نسخے کی موافقت بھی کرتے ہیں!
تب بھی اگر کوئی شخص اس کے مخالف الفاظ کو ترجیح دیتا ہے تو وہ محض تعصب اور تقلید کی بناء پر ہو گا۔
لیکن اصل حقیقت تو یہی ہے کہ یہ الفاظ تحریف شدہ ہیں اور اصل نسخے کا بھی حصہ نہیں ہیں!
اگر آپ یہ کہیں کہ ثقہ کی زیادتی مقبول ہے اور اس میں ناسخ نے زیادتی کی ہے تو عرض ہے کہ مطلقا کسی کی بھی زیادتی قبول کرنابالواسطہ یہ کہنے کے مترادف ہے کہ ثقہ راوی اگرچہ متن میں مخالفت کی وجہ سے شاذ تو روایت کر سکتا ہے لیکن زیادت بیان کرنے میں اس سے کبھی کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ اور یہ اہل الظاہر کا طریقہ ہے مزید تفصیل کے لئے دیکھیں یہ مضمون۔
دوسری بات یہ کہ زیادتی صرف راوی کرتا ہے ناسخ نہیں، ناسخ بھی اگر اپنی طرف سے زیادتی کرنے لگا تو وہ محض تحریف کہلائے گی کیونکہ اس نے اس چیز کا اضافہ کیا جو کتاب میں موجود ہی نہیں تھی! راوی جب زیادت بیان کرتا ہے تو اس کا انحصار اس کے حافظے پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کبھی زیادتی والے الفاظ بیان کرتا ہے توکبھی بیان نہیں کرتا۔ لیکن ناسخ کا اعتبار پہلے ہی سے موجود ایک کتاب پر ہوتا ہے جس میں سب کچھ لکھا جا چکا ہے اب اس اصل کتاب میں اضافہ کرنا تحریف کہلائے گی! لہٰذا ناسخ کے معاملے میں زیادتی پر نہیں بلکہ اس کے اتقان و دیگر قرائن پھر بھروسہ ہوتا ہے!
ہاں اگر معاملہ کچھ اس طرح ہوتا کہ کچھ نسخوں میں زیادتی ہے اور کچھ میں نہیں مگر زیادتی والے نسخے میں کسی نے کوئی مخالفت بھی نہیں کی ہو اور اس کے ثبوت پر بھی یقین ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ کسی نسخے میں اس زیادتی کا نہ ہونا اس کو نقصان دہ نہیں۔ لیکن یہاں یہ معاملہ ہرگز نہیں ہے!

اب چلیں ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ہم اگر یہ بھی تسلیم کر لیں کہ تمام کے تمام نسخوں میں تحت السرۃ کے الفاظ موجود ہیں اور یہ الفاظ مصنف میں قطعا طور پر ثابت ہیں، تو اب جا کر ہم اس روایت کا فنی سطحہ پر جائزہ لیں گے یعنی اصول حدیث کے مطابق اس کا جائزہ لیں گے آیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں!
تو اب یہ روایت پھر بھی غلط کی غلط ہی رہے گی فرق بس اتنا ہو گا کہ غلطی کا امکان ناسخین سے منتقل ہو کر کتاب کے مصنف کی طرف منسوب ہو جائے گی۔ کیونکہ امام ابن ابی شیبہ چاہے کتنے ہی بڑے امام کیوں نہ ہوں، امام احمد وغیرہ سے ان کا مقام زیادہ نہیں اور اس روایت میں "تحت السرۃ" کی زیادتی میں انہوں نے امام احمد کی ہی نہیں بلکہ ثقہ ثبت محدثین کے ایک جم غفیر کی مخالفت کی ہے، اور نہ صرف ابن ابی شیبہ بلکہ اس سند کے ہر طبقہ یعنی مصنف سے لے کر تابعی تک یہ سند نہایت غریب اور شاذ کہلائے گی۔ کیونکہ اس اسناد کہ ہر طبقہ کے راوی نے اپنے اپنے طبقہ کے بے شمار راویوں کی مخالفت کی ہے۔ جس سے اس حدیث کے غلط و شاذ ہونے پر کوئی شک باقی نہیں رہے گا!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جتنی حیرانگی مجھے آج آپ کی یہ بات پڑھ کر ہوئی ہے اتنی شاید آپ کے آج تک کے کسی مراسلے میں نہ ہوئی ہو گی۔
آج تک کسی عالم نے ان دو روایات میں شاید کوئی فرق نہ کیا ہو گا

لیکن آج آپ نے اس ریکارڈ کو توڑ دیا۔ میں آپ کی فقاہت کی داد دیتا ہوں!
ایک لفظ کے فرق کی بنیاد پر آپ نے دونوں روایتوں کو ہی الگ الگ بنا دیا! سبحان اللہ


اتنا ہلکا اختلاف تو ہر روایت میں پایا جاتا ہے۔ اس طرح کا طریقہ اپنائیں تو دنیاء کی کسی حدیث کے دو متابعات آپس میں خوبخو نہیں ملیں گے اور آپ کو ہر ایک کو الگ حدیث باور کرانا پڑے گا!
!


جزاک اللہ خیرا رضا میاں بھائی۔ اللہ پاک آپ کی اس محنت کو قبول فرمائیں۔
محترم انتہائی احترام کے ساتھ عرض ہے کہ میں اگرچہ آپ سے علم و عمل و عمر میں کم بلکہ کمتر ہوں لیکن بحث صرف علمی طرز پر رہے تو بہت مناسب رہتا ہے۔ میں نے غلط کہا۔ آپ رد فرمادیں۔ لیکن جو ہائی لائٹ کر رہا ہوں یہ انداز مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ طنز بھی خوبصورت پیرائے میں اچھا ہوتا ہے۔
بہر حال۔۔۔
آپ نے اس پوسٹ میں دو چیزیں بیان فرمائیں:۔
تطبیق۔
متابعۃ اور ایک کی جگہ دوسری روایت ذکر کرنا۔

جن کی جانب آپ نے نسبت فرمائی ان کے حوالہ جات نہ ہونے کی وجہ سے اگرچہ مجھے کافی مشکل کا سامنا ہے لیکن پھر بھی عرض کرتا ہوں۔
میرے محترم بھائی!
تطبیق ہوتی ہی اس وقت ہے جب دو چیزوں میں فرق ہو، اختلاف ہو۔ تو انہیں ایک جگہ جمع کر دیا جاتا ہے۔ اس کو جمع و تطبیق کہتے ہیں۔
اس کی تعریف علامہ جرجانی یوں فرماتے ہیں:۔


وهو أن يجمع بين المتضادين مع مراعاة التقابل
التعریفات 1۔61 ط دار الکتب العلمیہ

"وہ یہ ہے کہ دو متضاد اشیاء کے درمیان تقابل کی رعایت رکھتے ہوئے جمع کر دیا جائے۔"
اس تعریف میں غور فرمائیں "متضاد"۔ اب یہ ضروری نہیں ہے کہ من کل الوجوہ متضاد ہو بلکہ من بعض الوجوہ متضاد ہو سکتا ہے۔
جمع کا ذکر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نزہۃ النظر میں دو روایات کے معارضہ کے ضمن میں کرتے ہیں:۔
وإن كانت المعارضة بمثله؛ فلا يخلو: إما أن يمكن الجمع بين مدلوليهما بغير تعسف، أو لا، فإن أمكن الجمع فهو النوع المسمى: مختلف الحديث.
علامہ مناویؒ اس کی شرح الیواقیت والدر میں کرتے ہیں:۔
فإن أمكن الجمع بينهما بأن تحمل كل منهما على حال مغاير لما حمل عليه الآخر لا مانع شرعا من الحمل عليه فيجب الجمع عند الإمكان
آگے جمع کی مثال دی ہے:۔
ومثل له جمع بحديث الترمذي وغيره: " أيما إهاب دبغ فقد طهر " مع حديث أبي داود والترمذي وغيرهما: " لا تنتفعوا من الميتة بإهاب ولا عصب ". الشامل للإهاب المدبوغ وغيره حملناه على غيره جمعا بين الدليلين.
ص453 ط رشد

اور بھی مثالیں دی ہیں۔
ملا علی قاریؒ اس کی تشریح فرماتے ہیں:۔

(وإن كانت المعارضة) أي معارضة حديث، (بمثله) أي بمقبول آخر، (فلا يخلو) أي حينئذ من أمرين:
(إما أن يمكن الجمع) أي بتأويل، أو تقييد، أو تخصيص (بين مدلوليهما) أي معنييهما، (بغير تعسف) متعلق بالجمع، والتعسف: أزيد من التكلف، لأنه خروج عن الجادة. قال المصنف: لأن ما كان بتعسف فللخصم أن يرده، وينتقل إلى ما بعده من المراتب، نقله تلميذه.
شرح النخبۃ 1۔362 ط دار الارقم

ان تمام باتوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ تطبیق (جسے جمع بھی کہا جاتا ہے) کا مطلب ہے دو ایسی چیزوں میں جو ایک دوسرے کے خلاف ہوں تاویل وغیرہ کر کے ایک دوسرے کے مطابق کرنا۔ یہ مطابق کرنا اس لیے ہوتا ہے تاکہ دونوں پر عمل ہو سکے۔
لیکن محترم بھائی اس کے ساتھ ہی یہ بھی پتا چلتا ہے کہ تطبیق ان چیزوں میں ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے الگ ہوں۔ تو اگر آپ کی بات تسلیم کریں:۔
مستزاد یہ کہ اگر کسی روایت کے الفاظ میں اختلاف ہو بھی تو کیا اسے فورا الگ حدیث قرار دے دیا جاتا ہے!؟ ہرگز نہیں!
ہاں اگر یہ اختلاف ایسا اختلاف ہوتا جس میں دونوں روایتوں کے الفاظ باہم متعارض ہوں اور ان میں کوئی تطبیق ممکن نہ ہو تب شاید کہا جا سکتا تھا، لیکن ایسی حالت میں بھی روایت کو ایک الگ روایت قرار دےکر سائڈ پر نہیں رکھا جاتا۔ بلکہ پھر اس روایت پر ضعف، اضطراب، یا شذوذ وغیرہ کے اعتبار سےحکم لگایا جاتا ہے۔

اور تطبیق کا کہیں تو خود ہی یہ روایات الگ الگ ہو جاتی ہیں۔ ہماری بحث یہ نہیں ہے کہ اس مسئلہ میں اس روایت کو چھوڑ دیا جائے بلکہ ہماری بحث یہ ہے کہ جس روایت پر اعتراض کیا گیا ہے دی گئی روایت وہی روایت نہیں بلکہ الگ روایت ہے۔
اب جب جمع کا ذکر آپ نے خود کر دیا اور میں نے یہ واضح کردیا کہ جمع الگ الگ چیزوں میں ہوتا ہے تو آپ کا دیا ہوا حوالہ ہی نقل کردیتا ہوں۔
صاحب مرعاۃ المفاتیح اسی روایت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وفي البعض أخذ الشمال والقبض عليها باليمين، كما روى النسائي من حديث وائل قال: رأيت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إذا كان قائماً في الصلاة قبض بيمينه على شماله. وروى الترمذي وابن ماجه من حديث قبيصة بن هلّب عن أبيه، قال: كان النبي - صلى الله عليه وسلم - يؤمنا فيأخذ شماله بيمينه. وورد في رواية أحمد وأبي داود من حديث وائل: "وضع اليمنى على الكف اليسرى والرسغ والساعد". فالسنة أن يجمع بين الوضع والقبض جمعًا بين هذه الأحاديث، وكيفية الجمع أن يضع الكف اليمنى على الكف اليسرى ويحلق الإبهام والخنصر على الرسغ ويبسط الأصابع الثلاث على الذراع، فيصدق أنه وضع اليد على اليد وعلى الذراع، وأنه أخذ شماله وقبض عليها بيمينه. قلت: لا حاجة إلى هذا التكلف للتوفيق والجمع لكون التوفيق فرع التعارض، ولا يظهر التعارض أصلاً؛ لأنه لا تناقض بين الأفعال المختلفة لجواز وقوع الكل في أوقات مختلفة (3:59-60)

الافعال المختلفۃ۔۔۔۔اگرچہ اس حوالے کے بعد ان کو الگ روایات کہنے کے لیے غالبا اور کسی بات کی ضرورت نہیں رہ جاتی لیکن پھر بھی وضاحت کرتا جاتا ہوں۔
اس پر سب سے بڑا شاہد اس کے الفاظ ہیں۔ ایک میں قبض کا ذکر ہے جو الگ چیز ہے اور دوسرے میں وضع کا۔ ہم ان دونوں سے یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ نبیﷺ نے رکھنے اور پکڑنے کے لیے دائیں ہاتھ کو استعمال کیا لیکن معنی کے اعتبار سے یہ کہہ دیں کہ یہ ایک ہی روایت ہے لیکن رواۃ نے روایت بالمعنی کر دی ہے یہ کیسے درست ہو سکتا ہے۔ وضع کے معنی ہیں رکھنا۔ وضع یمینہ علی شمالہ کا آسان سا معنی ہے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا۔ اس رکھنے میں پکڑنے کا بالکل ذکر نہیں ہے۔
اب فرض کریں راوی اصل نے روایت کی تھی وضع کی۔ یعنی یہ کہ "میں نے نبیﷺ کو دیکھا آپ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا تھا۔"
پکڑنے کا کوئی ذکر نہیں۔
روایۃ بالمعنی کرنے والا کہتا ہے "میں نے نبیﷺ کو دیکھا کہ جب آپ نماز میں کھڑے ہوئے تو آپ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے پکڑ لیا۔ اور میں نے علقمہ کو بھی ایسا کرتے دیکھا۔"
اس میں رکھنے کے ساتھ پکڑنے کا ذکر بھی آگیا۔ کیا روایت بالمعنی میں ایسا لفظ استعمال کرنا درست ہے جس سے معنی میں ایک واضح اضافہ ہو جائے؟
اور اگر اصل راوی کے الفاظ قبض تھے تو کیا راوی ثانی اس میں سے پکڑنے کا پورا معنی غائب کر سکتا ہے؟ وہ اس کی جگہ امسک بھی استعمال کر سکتا تھا اور اخذ بھی۔
پھر اگر دونوں ایک ہی روایات ہیں اور علقمہ کے فعل کا ذکر بھی قبض کی روایات میں متعدد جگہوں میں آیا ہے تو کیا علقمہ کے فعل کو وضع والی روایت میں زیادتی ثقہ سمجھ کر قبول کر سکتے ہیں؟

دوسری چیز آپ نے متابعت کی بات کی تو اول سوال یہ ہے کہ کیا متابعت کے لیے یا کسی خاص بحث میں لانے سے یہ لازم آتا ہے کہ دونوں حدیثیں ایک ہیں؟
ایسا ہر گز نہیں ہوتا بلکہ متابعت کا اصل مطلب ایک راوی کا دوسرے راوی کی موافقت کرنا ہوتا ہے کسی خاص معنی میں۔ یہ خاص معنی بسا اوقات ایک ہی لفظ سے ادا ہو جاتا ہے اور بسا اوقات الگ الگ الفاظ اور ایک معنی سے ادا ہو جاتا ہے۔
اصل بات صرف کسی خاص معنی کا مترشح ہونا ہوتا ہے۔
دیکھیے کتاب الام میں امام شافعیؒ روایت فرماتے ہیں:۔

أخبرنا الربيع قال أخبرنا الشافعي قال أخبرنا مالك عن عبد الله بن دينار عن ابن عمر أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال :الشهر تسع وعشرون لا تصوموا حتى تروا الهلال ولا تفطروا حتى تروه، فإن غم عليكم فأكملوا العدة ثلاثين
الام 2۔103 ط دار المعرفۃ

اس کی متابعت مسلم میں ہے:۔

حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر رمضان، فضرب بيديه فقال: الشهر هكذا، وهكذا، وهكذا - ثم عقد إبهامه في الثالثة - فصوموا لرؤيته، وأفطروا لرؤيته، فإن أغمي عليكم فاقدروا له ثلاثين
مسلم 2۔759 ط دار احیاء التراث

حافظ نے انہیں نزہۃ النظر میں متابع قرار دیا ہے۔ یہ متابعت قاصرہ ہے۔
کیا یہ دونوں ایک ہی حدیث ہیں؟
اس طرح کی کئی مثالیں مل جائیں گی۔
اسی طرح کسی بحث میں (باب میں یا مسئلہ کی بحث میں) کسی خاص معنی کا اعتبار کرتے ہوئے کوئی حدیث درج کردی جاتی ہے۔ جیسے نسائیؒ نے استعمال یمین یا لفظ "علی" کی بنیاد پر غالبا اسے اس باب میں داخل کیا ہے۔ اس سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ ان دونوں باتوں کا معنی ایک ہے؟
دیگر افراد کا واضح حوالہ نہیں تھا اس لیے انہیں نہیں دیکھ سکا لیکن اگر آپ اس وضاحت کو دیکھیں گے تو ان شاء اللہ یہ حل ہو جائے گا۔
صاحب مرعاۃ المفاتیح علامہ مبارکپوری نے جو انہیں مختلف افعال فرمایا ہے تو اگر آپ ان کے ایک ہی فعل ہونے پر کوئی واضح حوالہ دیدیں تو میں مشکور ہوں گا۔ ورنہ صرف یہ احتمالات ہی رہیں گے۔

اب بھی اگر تسلی نہ ہو تو اللہ ہی مالک ہے! میرا حسن ظن ہے کہ یہ انوکھی بات کرنے سے پہلے آپ اگر اپنے دیوبندی علماء سے بھی استفسار کر لیتے تو ان کا جواب بھی یہی ہوتا!
اب آپ کے لئے یہ کہنا جائز نہیں کہ یہ دونوں روایتیں مختلف ہیں!

اب تو جائز ہے نا میرے بھائی؟
اللہ پاک آپ کے علم و عمل میں اضافہ فرمائے۔

آخر میں ایک اور بات عرض کرتا جاؤں کہ میں اس بات پر اس لیے اتنی بحث نہیں کر رہا کہ یہ میرا مسلک ہے۔ بلکہ مجھے اس مسئلہ میں کشمیریؒ کی رائے زیادہ صواب معلوم ہوتی ہے کہ یہ تحت السرۃ اور فوق السرۃ ایسا معاملہ ہے کہ کوئی اس کا زیادہ اندازہ نہیں کر سکتا اور "علی الصدر" غیر معمول بہ اور ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی احادیث میں کوئی قید نہیں ہے اس لیے جہاں مناسب معلوم ہو وہاں رکھ لینا چاہیے۔ فطری طور پر مجھے تحت السرہ ادب کے زیادہ لائق اور ہاتھ چھوڑنے پر خود بخود وہاں پہنچنے کے فطری انداز کی وجہ سے زیادہ پسند ہے لیکن جو جسے مناسب معلوم ہو۔

زیادتی کی بحث پر ان شاء اللہ پھر لکھتا ہوں۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
محترم انتہائی احترام کے ساتھ عرض ہے کہ میں اگرچہ آپ سے علم و عمل و عمر میں کم بلکہ کمتر ہوں لیکن بحث صرف علمی طرز پر رہے تو بہت مناسب رہتا ہے۔ میں نے غلط کہا۔ آپ رد فرمادیں۔ لیکن جو ہائی لائٹ کر رہا ہوں یہ انداز مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ طنز بھی خوبصورت پیرائے میں اچھا ہوتا ہے۔
اگر آپ کو بُرا لگا تو مجھے معاف کیجئے گا۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں لیکن ہائی لائٹ کردہ بات غالبا درست نہ ہو! ابتسامہ


تطبیق ہوتی ہی اس وقت ہے جب دو چیزوں میں فرق ہو، اختلاف ہو۔ تو انہیں ایک جگہ جمع کر دیا جاتا ہے۔ اس کو جمع و تطبیق کہتے ہیں۔
جی بالکل، اور جب ایک ہی راوی کی روایت کو بیان کرنے میں اس کے شاگرد اختلاف کریں تو ان میں بھی تطبیق ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ ان کے استاد نے انہیں دو مختلف احادیث بیان کیں۔ راوی کو اختیار ہوتا ہے کہ ایک ہی روایت کو کبھی طوالت سے بیان کرے تو کبھی اسی کو اختصار سے بیان کرے۔ کبھی کسی لفظ کو بیان کرے تو کبھی کسی لفظ کو۔ اور بعض اوقات اختلاف راوی کے اپنے وہم سے بھی ہوتا ہے۔ تو کیا راوی جتنے الفاظ بیان کرے وہ سب اتنی الگ الگ حدیثیں بن جاتی ہیں!؟ جب کہ وہ واقعہ یا وہ تحدیث تو صرف ایک ہی بار ہوا تھا۔ اختلاف تو بعد کے راویوں سے آیا ہے!
اس تعریف میں غور فرمائیں "متضاد"۔ اب یہ ضروری نہیں ہے کہ من کل الوجوہ متضاد ہو بلکہ من بعض الوجوہ متضاد ہو سکتا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ ان تعریفات کو نقل کرنے کا کیا مقصد ہے۔ اگر آپ یہ باور کرانا چاہ رہے ہیں کہ لفظ متضاد کا مطلب دو الگ الگ حدیثیں ہیں تو کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ایک روایت کے بیان کرنے میں بھی راویوں کا اختلاف کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، اور اس کو بھی متضاد سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے!
ان تمام باتوں سے یہ پتا چلتا ہے کہ تطبیق (جسے جمع بھی کہا جاتا ہے) کا مطلب ہے دو ایسی چیزوں میں جو ایک دوسرے کے خلاف ہوں تاویل وغیرہ کر کے ایک دوسرے کے مطابق کرنا۔ یہ مطابق کرنا اس لیے ہوتا ہے تاکہ دونوں پر عمل ہو سکے۔ لیکن محترم بھائی اس کے ساتھ ہی یہ بھی پتا چلتا ہے کہ تطبیق ان چیزوں میں ہوتی ہے جو ایک دوسرے سے الگ ہوں۔
ارے بھائی جان، ایک دوسرے سے خلاف ہونے کا مطلب یہ کہاں ہے کہ روایتیں مختلف ہیں!؟؟؟؟
دو راویوں نے اپنے شیخ سے ایک روایت بیان کی۔ دونوں نے الفاظ میں اختلاف کیا۔ ان دونوں کے الفاظ باہم متعارض نظر آئے۔ یعنی دونوں نے متضاد الفاظ استعمال کیے۔ تو اب دونوں میں جمع و تطبیق کر کے اسے ایک بنا لیا جائے!! سمجھ میں نہیں آتا اس میں مشکل کیا ہے!
ایک مثال دیتا ہوں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غار حرا میں پہلی وحی والا قصہ مشہور ہے۔ جب خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ کو ورقۃ بن نوفل کے پاس لے کر جاتی ہیں تو بخاری میں ورقہ کا ذکر اس طرح درج ہے:
فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ العُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الكِتَابَ العِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ
یعنی اس روایت کے مطابق ورقہ عبرانی میں انجیل کو لکھا کرتے تھے۔ جبکہ بخاری ہی میں ایک دوسری جگہ یہی حدیث اسی مخرج سے اس طرح بیان کیا گئی:
فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَانْطَلَقَتْ بِهِ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ وَكَانَ رَجُلًا تَنَصَّرَ يَقْرَأُ الْإِنْجِيلَ بِالْعَرَبِيَّةِ
اور ای طرح مسند احمد میں بھی یہی حدیث اسی مخرج کے ساتھ اس طرح بیان کی گئی ہے:
ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ , وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا , وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ , فَكَتَبَ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ
اب اس روایت کے بطابق ورقہ عبرانی میں نہیں بلکہ عربی میں لکھا کرتے تھے! اب دونوں میں اختلاف آ گیا بلکہ بہت واضح اور ہماری زیرِ بحث روایت سے بھی بڑا اختلاف ہے جبکہ روایت ایک ہی ہے، اور مخرج بھی ایک ہے۔ تو کیا اب آپ یہ کہیں گے کہ یہ دونوں روایتیں مختلف ہیں! جبکہ یہ قصہ تو ایک ہی تھا!! ان کا دو مختلف واقعات ہونا ممکن نہیں ہے!
لیکن حافظ ابن حجر نے دونوں میں تطبیق کرتے ہوئے فرمایا:
والجميع صحيح لأن ورقة تعلم اللسان العبراني والكتابة العبرانية فكان يكتب الكتاب العبراني كما كان يكتب الكتاب العربي لتمكنه من الكتابين واللسانين فتح الباری۔
اسی طرح اسی بخاری کی روایت میں اماں خدیجہ رضی اللہ عنہ، ورقہ کو پکارتے ہوئے فرماتی ہیں:
يا بن عم یعنی ایک میرے چچا کے بیٹے۔
جبکہ مسلم کی روایت میں الفاظ ہیں: "يا عم" اے چچا!
اب آپ ہی دیکھ لیں ایک ہی روایت، ایک ہی مخرج، مگر الفاظ میں واضح اختلاف۔ یہ کہنا بھی ممکن نہیں کہ یہ دو مختلف واقعات۔ حافظ ابن حجر ان دونوں کی تطبیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"قولها يا بن عم هذا النداء على حقيقته ووقع في مسلم يا عم وهو وهم لأنه وأن كان صحيحا لجواز إرادة التوقير لكن القصة لم تتعدد ومخرجها متحد فلا يحمل على أنها قالت ذلك مرتين فتعين الحمل على الحقيقة"
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مختلف الفاظ سے مروی روایت کے مخرج ایک ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ روایت ایک ہی ہے۔ اور وہ واقعہ یا قول دو مختلف مقامات پر نہیں بولے گئے!
لیکن آپ کہتے ہیں کہ ذرا سا اختلاف ہونے سے روایت ہی بدل جاتی ہے جو کہ بعید از عقل ہے!
اگر آپ کے اصول کو اپنایا جائے تو آپ کے نزدیک روایت میں وہم، شذوذ، اور بالمعنی روایت وغیرہ جیسی چیزوں کا نام و نشان ہی ختم ہو جائے گا کیونکہ جہاں پر بھی ذرا سا اختلاف ہوا آپ کے نزدیک وہ روایت ہی بدل جائے گی پھر اس پر شذوذ یا راوی کے وہم وغیرہ کا حکم لگانا ہی بیکار ہے۔

بالفرض اگر ان دونوں کو الگ روایتیں بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی ہمارا موقف یا وجہ استدلال وہیں کا وہیں رہتا ہے، کیونکہ آپ نے خود ہی فرما دیا کہ:
متابعت کا اصل مطلب ایک راوی کا دوسرے راوی کی موافقت کرنا ہوتا ہے کسی خاص معنی میں۔ یہ خاص معنی بسا اوقات ایک ہی لفظ سے ادا ہو جاتا ہے اور بسا اوقات الگ الگ الفاظ اور ایک معنی سے ادا ہو جاتا ہے۔
الحمد للہ ، ہم بھی تو وہی کہہ رہے ہیں نہ کہ یہ دونوں (آپ کے مطابق) مختلف روایتیں ایک دوسرے کی ایک ہی معنی پر متابعت کر رہی ہیں یعنی "تحت السرۃ" کے عدم موجودگی پر۔ تو اب انہیں ایک دوسرے کی متابعت کے طور پر لینے میں کیا چیز مانع ہے؟ اور یہی تو کیا ہے شعیب الارناؤط و دیگر تمام محققین نے جنہوں نے ان دو روایتوں کو ایک دوسرے کی متابعت کے طور پر پیش کیا!

آپ نے خود ہی ہماری مدد کر دی۔ جہاں تک آپ کے باقی کلام کا تعلق ہے تو وہ قابل جواب نہیں ہے کیونکہ اتنے سے ہی کام ہو جائے گا، ان شاء اللہ!
 
Top