• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اگر آپ کو بُرا لگا تو مجھے معاف کیجئے گا۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں لیکن ہائی لائٹ کردہ بات غالبا درست نہ ہو! ابتسامہ


اگر آپ کی عمر مجھ سے کم ہو تو میں آپ کی علمیت پر بہت متعجب ہوں گا۔ اللہ پاک آپ کے علم میں اضافہ فرمائے۔

جی بالکل، اور جب ایک ہی راوی کی روایت کو بیان کرنے میں اس کے شاگرد اختلاف کریں تو ان میں بھی تطبیق ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہا جاتا کہ ان کے استاد نے انہیں دو مختلف احادیث بیان کیں۔ راوی کو اختیار ہوتا ہے کہ ایک ہی روایت کو کبھی طوالت سے بیان کرے تو کبھی اسی کو اختصار سے بیان کرے۔ کبھی کسی لفظ کو بیان کرے تو کبھی کسی لفظ کو۔ اور بعض اوقات اختلاف راوی کے اپنے وہم سے بھی ہوتا ہے۔ تو کیا راوی جتنے الفاظ بیان کرے وہ سب اتنی الگ الگ حدیثیں بن جاتی ہیں!؟ جب کہ وہ واقعہ یا وہ تحدیث تو صرف ایک ہی بار ہوا تھا۔ اختلاف تو بعد کے راویوں سے آیا ہے!
محترم بھائی! آپ شاید روایت اور واقعہ میں فرق نہیں کر رہے۔
دیکھیں ایک تو واقعہ ہوتا ہے جو پیش آیا ہو جیسے یہ ورقہ کا واقعہ جو عائشہ رض نے بیان کیا ہے۔
دوسری اس واقعہ کی روایت ہوتی ہے جو دو بندے یا ایک ہی بندہ الگ الگ چیزوں کے ساتھ کر سکتا ہے۔

مثال کے طور پر میرے ساتھ ایک واقعہ ہوا۔ میرے اوپر کچھ برتن گرتے ہیں۔
اس واقعہ کو مجھ سے ارسلان بھائی روایت کرتے ہیں: "میرے اوپر شیشے کا ایک گلاس گرا۔"
اسی واقعہ کو مجھ سے عبدہ بھائی روایت کرتے ہیں: "میرے اوپر پلاسٹک کا ایک گلاس گرا۔"
دونوں ثقہ ثبت ہیں۔ آپ اس میں تطبیق کیسے دیں گے؟ علماء اسے یوں کہیں گے کہ "اشماریہ پر ایک شیشے کا اور ایک پلاسٹک کا گلاس گرا۔"
اب اس میں واقعہ ایک ہے اور روایات دو۔
اسی طرح کبھی ایک شخص سے بھی دو روایات مروی ہوتی ہیں۔ جیسے اسی واقعہ میں آپ یعنی رضا میاں ایک بار پہلی اور دوسری بار دوسری روایت کریں۔ خضر بھائی جب اسے لکھیں گے تو دونوں لکھیں گے اور دونوں کا راوی ایک ہی یعنی آپ ہوں گے۔ اور دونوں میں تطبیق کرتے وقت یہی کہا جائے گا کہ "اشماریہ پر ایک شیشے کا اور ایک پلاسٹک کا گلاس گرا۔"
تو واقعہ تو ایک ہوتا ہے لیکن روایات دو ہوتی ہیں۔ دو روایات سے واقعہ کا دو ہونا لازم نہیں آتا۔

اس تمہید کے بعد اپنی دی ہوئی مثال کی طرف آئیے:۔
ایک مثال دیتا ہوں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا غار حرا میں پہلی وحی والا قصہ مشہور ہے۔ جب خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ کو ورقۃ بن نوفل کے پاس لے کر جاتی ہیں تو بخاری میں ورقہ کا ذکر اس طرح درج ہے:
فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ العُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الكِتَابَ العِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الإِنْجِيلِ بِالعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ
یعنی اس روایت کے مطابق ورقہ عبرانی میں انجیل کو لکھا کرتے تھے۔ جبکہ بخاری ہی میں ایک دوسری جگہ یہی حدیث اسی مخرج (؟؟؟) سے اس طرح بیان کیا گئی:
فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَدِيجَةَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ فَانْطَلَقَتْ بِهِ إِلَى وَرَقَةَ بْنِ نَوْفَلٍ وَكَانَ رَجُلًا تَنَصَّرَ يَقْرَأُ الْإِنْجِيلَ بِالْعَرَبِيَّةِ
اور ای طرح مسند احمد میں بھی یہی حدیث اسی مخرج کے ساتھ اس طرح بیان کی گئی ہے:
ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ , وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا , وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ , فَكَتَبَ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ
اب اس روایت کے بطابق ورقہ عبرانی میں نہیں بلکہ عربی میں لکھا کرتے تھے! اب دونوں میں اختلاف آ گیا بلکہ بہت واضح اور ہماری زیرِ بحث روایت سے بھی بڑا اختلاف ہے جبکہ روایت ایک ہی ہے، اور مخرج بھی ایک ہے۔ تو کیا اب آپ یہ کہیں گے کہ یہ دونوں روایتیں مختلف ہیں! جبکہ یہ قصہ تو ایک ہی تھا!! ان کا دو مختلف واقعات ہونا ممکن نہیں ہے!
لیکن حافظ ابن حجر نے دونوں میں تطبیق کرتے ہوئے فرمایا:
والجميع صحيح لأن ورقة تعلم اللسان العبراني والكتابة العبرانية فكان يكتب الكتاب العبراني كما كان يكتب الكتاب العربي لتمكنه من الكتابين واللسانين فتح الباری۔

یہ دو روایات ہیں اور واقعہ اسی طرح ایک ہے۔ عقیل نے جب ابن شہاب سے روایت کی ہے تو کہا ہے الکتاب العبرانی۔ اور یونس اور معمر نے جب روایت کی ہے ابن شہاب سے تو کہا ہے الکتاب العربی۔
حافظؒ فتح الباری میں فرماتے ہیں۔
قوله فكان يكتب الكتاب العبراني فيكتب من الإنجيل بالعبرانية وفي رواية يونس ومعمر ويكتب من الإنجيل بالعربية ولمسلم فكان يكتب الكتاب العربي والجميع صحيح لأن ورقة تعلم اللسان العبراني والكتابة العبرانية فكان يكتب الكتاب العبراني كما كان يكتب الكتاب العربي لتمكنه من الكتابين واللسانين
اب جب روایات الگ الگ آگئیں، دونوں کے رواۃ ثقہ ہیں اور واقعہ ایک ہے تو ہم جمع کرتے ہیں۔ یعنی دونوں روایات کا ایسا محمل بیان کرتے ہیں جس پر دونوں صحیح ہو جائیں چناں چہ حافظ نے جیسے جمع کیا ہے وہ مذکور ہے ہی۔ نوویؒ نے اس طرح جمع کیا ہے کہ وہ کہیں عربی میں اور کہیں عبرانی میں لکھتے تھے۔
تو خلاصہ کلام واقعہ ایک ہوتا ہے اور روایات الگ الگ۔ چاہے رواۃ ایک ہی ہوں یا الگ الگ ہوں۔ جمع اسی لیے کیا جاتا ہے۔
ایک ہی واقعہ ہو، ایک ہی رواۃ ہوں اور ایک ہی روایت ہو لیکن الفاظ الگ الگ ہوں اور ان الفاظ کے معانی میں بھی فرق ہو ایسا صرف اسی وقت ممکن ہے جب راوی کو وہم لگا ہو۔ اس نے ایک بار ایک ذکر کیا اور دوسری بار دوسرا۔ لیکن یہ حکم لگانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
اسی طرح اسی بخاری کی روایت میں اماں خدیجہ رضی اللہ عنہ، ورقہ کو پکارتے ہوئے فرماتی ہیں:
يا بن عم یعنی ایک میرے چچا کے بیٹے۔
جبکہ مسلم کی روایت میں الفاظ ہیں: "يا عم" اے چچا!
اب آپ ہی دیکھ لیں ایک ہی روایت، ایک ہی مخرج، مگر الفاظ میں واضح اختلاف۔ یہ کہنا بھی ممکن نہیں کہ یہ دو مختلف واقعات۔ حافظ ابن حجر ان دونوں کی تطبیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"قولها يا بن عم هذا النداء على حقيقته ووقع في مسلم يا عم وهو وهم لأنه وأن كان صحيحا لجواز إرادة التوقير لكن القصة لم تتعدد ومخرجها متحد فلا يحمل على أنها قالت ذلك مرتين فتعين الحمل على الحقيقة"
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مختلف الفاظ سے مروی روایت کے مخرج ایک ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ روایت ایک ہی ہے۔ اور وہ واقعہ یا قول دو مختلف مقامات پر نہیں بولے گئے!

یہاں ذرا سا غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بخاری میں ہے یابن عم۔ راوی ہیں یونس عن ابن شہاب۔ مسلم میں ہے ای عم۔ راوی ہیں یونس عن ابن شہاب۔
اب یہاں ایک ہی راوی ہیں اور الفاظ دو۔ سوال یہ ہے کہ انہیں الگ الگ روایات کیوں نہیں کہہ سکتے؟ یا انہیں تطبیق کی صورت میں الگ الگ جگہوں پر محمول کیوں نہیں کر سکتے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں میں ان الفاظ کے ادا کی ایک خاص جگہ متعین ہے۔ اور وہ ہے ورقہ کے پاس پہنچ کر خدیجہ رض کا ایک خاص انداز و الفاظ سے بات شروع کرنا۔
وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت خديجة: يا ابن عم، اسمع من ابن أخيك (بخاری)
وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت له خديجة: أي عم، اسمع من ابن أخيك(مسلم)
یہ کلام دو الگ جگہوں پر جا ہی نہیں سکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کلام کی ابتدا دو بار کی گئی ہو یکساں الفاظ سے۔ اس لیے یہ کہا گیا ہے كہ یہ وہم ہے۔ لیکن کس کا وہم بخاری کا یا مسلم کا؟ تو دیگر قرائن کی بنیاد پر مسلم کا وہم قرار دیا گیا ہے۔
مخرج سے مراد میرے خیال میں مخرج کلام ہے اور ایک ہونے کا مطلب کلام کی ابتدا کرنا ہے اس سے۔ واللہ اعلم
(یاد رہے کہ یہ حافظؒ کے نقطہ نظر سے وضاحت ہے۔ ورنہ میرے خیال میں اس میں بھی تطبیق ممکن ہے اور نوویؒ نے بھی تطبیق کی ہے۔)

اب ہم اپنی روایت کی طرف آتے ہیں۔
ایک ہی رواۃ نے روایت کی ہے قبض اور انہی نے وضع۔ لیکن مخرج کلام ایک ہونا کہیں سے متعین نہیں۔
میں کہتا ہوں کہ یہ دو روایات ہیں۔ اس پر تین قرائن ہیں:۔
  1. دونوں کے معانی میں واضح فرق ہونا۔
  2. آخر میں علقمہ کے فعل کا ذکر ہونا۔
  3. مبارکپوریؒ کا انہیں مختلف افعال ذکر کرنا اور ان میں تطبیق کرنا۔
(تطبیق کے بارے میں اوپر تفصیلا ذکر کیا تھا کہ وہ الگ روایات میں ہوتی ہے اور آپ کی دی ہوئی مثال میں بھی بتایا کہ یہ دونوں روایات راوی کے الگ ہونے کی وجہ سے الگ ہیں۔)
چوں کہ دونوں روایات میں واضح تطبیق ممکن ہے اس لیے اسے وہم کہہ ہی نہیں سکتے۔

اگر میرے محترم بھائی آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں روایات ایک ہی ہیں جبکہ معانی میں واضح فرق تو ہے ہی تو آپ کو یہ بتانا ہوگا کہ کس راوی کو وہم لگا ہے یا دوسرے لفظوں میں کس راوی نے روایت کے معنی میں کمی یا زیادتی کی ہے؟

اب آخر میں میں آپ کے چند اشکالات کا حل لکھتا ہوں:۔
لیکن آپ کہتے ہیں کہ ذرا سا اختلاف ہونے سے روایت ہی بدل جاتی ہے جو کہ بعید از عقل ہے!
مکرمی! جس میں معنی اتنے تبدیل ہو جائیں وہ ذرا سا اختلاف نہیں ہوتا۔ جہاں افعال مختلف ہوں وہ بھی ذرا سا اختلاف نہیں ہوتا۔
اگر آپ کے اصول کو اپنایا جائے تو آپ کے نزدیک روایت میں وہم، شذوذ، اور بالمعنی روایت وغیرہ جیسی چیزوں کا نام و نشان ہی ختم ہو جائے گا کیونکہ جہاں پر بھی ذرا سا اختلاف ہوا آپ کے نزدیک وہ روایت ہی بدل جائے گی پھر اس پر شذوذ یا راوی کے وہم وغیرہ کا حکم لگانا ہی بیکار ہے۔
ذرا سے اختلاف کا تو میں نہیں کہہ رہا۔ اگر اختلاف "ذرا سا" ہو اور معنی ایک ہوں تو وہ تو روایت بالمعنی ہوتی ہے۔
شذوذ اور وہم وغیرہ کے الزام کوئی معمولی چیز نہیں ہیں۔ یہ زیادہ ہو جائیں تو بسا اوقات راوی کو مجروح کر دیتے ہیں۔ اس لیے اس الزام سے پہلے اگر راوی مضبوط ہو تو قرائن دیکھنے ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر روایت میں میں نے ذکر کیا۔
پھر اگر اسے تسلیم کر لیں تو وہی سوال آتا ہے کہ آپ ان دونوں میں سے کس روایت میں وہم مانیں گے؟


الحمد للہ ، ہم بھی تو وہی کہہ رہے ہیں نہ کہ یہ دونوں (آپ کے مطابق) مختلف روایتیں ایک دوسرے کی ایک ہی معنی پر متابعت کر رہی ہیں یعنی "تحت السرۃ" کے عدم موجودگی پر۔ تو اب انہیں ایک دوسرے کی متابعت کے طور پر لینے میں کیا چیز مانع ہے؟
عجیب! کیا کوئی روایت عدم ذکر یا سکوت پر بھی متابعت کرتی ہے؟ یہ بعید از عقل معلوم ہوتا ہے۔
ایک میں تحت السرہ کا ذکر نہیں اور دوسری اس کی متابع ہے اس وجہ سے کہ اس میں بھی تحت السرہ کا ذکر نہیں؟ میرے محترم متابعت میں نے تو انہی روایات میں دیکھی ہے جہاں دوسری روایت پہلی کے الفاظ یا معنی میں سے کسی چیز کو مضبوط کر رہی ہو۔ یعنی موجود چیز کو۔ کسی غیر موجود چیز کو مضبوط کرنا معنی ہی نہیں رکھتا۔
نہ ہی عدم ذکر کو مضبوط کرنا کوئی معنی رکھتا ہے۔ اس طرح تو بے شمار روایات ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں لیکن کسی چیز کے ذکر نہ کرنے میں دونوں مشترک ہیں تو کیا انہیں کوئی ایک دوسرے کے متابع کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے؟
شعیب ارناؤوط وغیرہم نے بھی متابعت اس چیز میں پیش کی ہوگی جو موجود ہے یعنی استعمال الیمین یا لفظ "علی" سے مترشح ہوتا معنی۔ ("ہوگی" اس لیے کہ میں نے ابھی تک خود ان کی تحقیق نہیں دیکھی حوالہ جات نہ ہونے کی وجہ سے اور آپ کے کہنے پر اعتماد کر رہا ہوں۔) اگر کسی محقق نے اسے تحت السرہ کی عدم موجودگی پر متابع قرار دیا ہے تو اس سے بھی میں یہی اختلاف کروں گا کہ عدم ذکر پر متابعت کیسے ہو سکتی ہے؟
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
سب سے پہلے تو معذرت کہ انتہائی مصروفیت کی وجہ سے فورم پر نہ آسکا۔۔۔۔
اس کے بعد گزارش یہ ہے کہ برائے مہربانی حدیث کو حدیث سمجھ کر سمجھا جائے تو ان شاء اللہ سمجھنے میں بھی آسانی ہو گی لیکن معذرت کے ساتھ اگر حدیث کو اپنے ذہن کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو وہی سمجھ آئے گا جو پہلے ذہن میں موجود تھا۔۔۔۔
اور اسی وجہ سے بات لمبی ہو رہی ہے حالانکہ مسئلہ اتنا لمبا نہیں ہے اسی وجہ سے تو ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے والے علماء بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہوئے۔۔۔
"تلک الزیادۃ معلولۃ"۔۔(حاشیہ فیض الباری)
الانصاف ان ھذہ الزیادۃ وان کانت صحیحۃ لوجودہا فی اکثر النسخ من المصنف لکنھا مخالفۃ الروایات الثقات فکانت غیر محفوظۃ۔(التعلیق الحسن)
دلیل ابی حنیفۃ ما رواہ احمد والدارقطنی والبیہقی عن علی۔۔۔۔ (اتحاف السادۃ ج3 ص 37)

شائد مجھے بات سمجھانے کا کوئی صحیح طریقہ نہیں آتا اسی وجہ سے اتنی آسان باتیں آپ کو سمجھ نہیں آرہیں۔۔۔۔۔اسی وجہ سے یہ کچھ سکین پیج لگا رہا ہوں ان شاء اللہ تعصب سے بالا ہو کر پڑھیں گے تو فائدہ ہوگا۔۔۔اللہ سمجھ کی توفیق دے۔۔۔۔۔
اور اس مسئلے میں اگر آپ حدیث اور اہل تقلید کتاب سے یہ مسئلہ پڑھیں بلکہ میں کہتا ہوں کوئی بھی حنفی بھائی تعصب سے بالا ہو کر پڑھے تو وہ سمجھ جائے گا۔۔۔۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
سب سے پہلے تو معذرت کہ انتہائی مصروفیت کی وجہ سے فورم پر نہ آسکا۔۔۔۔
اس کے بعد گزارش یہ ہے کہ برائے مہربانی حدیث کو حدیث سمجھ کر سمجھا جائے تو ان شاء اللہ سمجھنے میں بھی آسانی ہو گی لیکن معذرت کے ساتھ اگر حدیث کو اپنے ذہن کے مطابق سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تو وہی سمجھ آئے گا جو پہلے ذہن میں موجود تھا۔۔۔۔
اور اسی وجہ سے بات لمبی ہو رہی ہے حالانکہ مسئلہ اتنا لمبا نہیں ہے اسی وجہ سے تو ناف سے نیچے ہاتھ باندھنے والے علماء بھی یہ بات کہنے پر مجبور ہوئے۔۔۔
"تلک الزیادۃ معلولۃ"۔۔(حاشیہ فیض الباری)
الانصاف ان ھذہ الزیادۃ وان کانت صحیحۃ لوجودہا فی اکثر النسخ من المصنف لکنھا مخالفۃ الروایات الثقات فکانت غیر محفوظۃ۔(التعلیق الحسن)
دلیل ابی حنیفۃ ما رواہ احمد والدارقطنی والبیہقی عن علی۔۔۔۔ (اتحاف السادۃ ج3 ص 37)

شائد مجھے بات سمجھانے کا کوئی صحیح طریقہ نہیں آتا اسی وجہ سے اتنی آسان باتیں آپ کو سمجھ نہیں آرہیں۔۔۔۔۔اسی وجہ سے یہ کچھ سکین پیج لگا رہا ہوں ان شاء اللہ تعصب سے بالا ہو کر پڑھیں گے تو فائدہ ہوگا۔۔۔اللہ سمجھ کی توفیق دے۔۔۔۔۔
اور اس مسئلے میں اگر آپ حدیث اور اہل تقلید کتاب سے یہ مسئلہ پڑھیں بلکہ میں کہتا ہوں کوئی بھی حنفی بھائی تعصب سے بالا ہو کر پڑھے تو وہ سمجھ جائے گا۔۔۔۔


جزاک اللہ خیرا محمد وقاص گل بھائی!
یہ ایک علمی موضوع ہے اور اس پر کسی فرد کی بھی کسی جانب کی رائے ہو سکتی ہے جیسے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی رائے میں نے خود اوپر ایک پوسٹ میں ذکر کی ہے۔
سب قابل احترام ہیں اور خود میں کشمیریؒ کی رائے کو زیادہ مناسب سمجھتا ہوں لیکن اس پر جو میرے ذہن میں ہے اس کی بنیاد پر بات عرض کر رہا ہوں۔ اس میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔
آپ نے اثریؒ کے جو صفحات لگائے اگر اس کے جواب میں میں امین اوکاڑویؒ کے صفحات لگاؤں تو غالبا یہ مناسب نہیں ہوگا۔ وہ ان باتوں کا اپنے انداز میں جواب دے چکے ہیں۔
کچھ میں عرض کرتا ہوں۔
اثریؒ کی باتوں کا خلاصہ یہ ہے:۔
  1. شیخ عوامہ کا للاستئناس لا للاعتماد کہنا اور قدیم نسخے پر اعتبار نہ کرنا۔
  2. بہت سے علماء کا اس کو دلائل میں ذکر نہ کرنا۔
  3. نیمویؒ وغیرہ کا موقف۔
شیخ عوامہ کے بارے میں تو اوپر ذکر کرچکا ہوں۔
البتہ یہ قول انہوں نے اپنی تحقیق میں اس نسخے کے بارے میں کہا ہے نہ کہ اس نسخے کے اپنے بارے میں۔ علامہ عابد سندھی کا لکھوایا ہوا یہ نسخہ جس پر انہوں نے ابواب خود لکھے ہیں ایسا تو نہیں کہ اس پر اعتماد ہی نہ ہو۔ اور اگر بالفرض یہی مراد مان لیں تو بلا دلیل یہ بات کیسے قبول ہو سکتی ہے؟
شیخ نے ان نسخوں کے بارے میں مقدمہ میں یہ لکھا ہے کہ ان میں تمام نسخے مل کر اطمینان دلاتے ہیں۔ الگ الگ نسخہ کامل نہیں ہے سوائے ایک کے اور وہ بھی تام نہیں ہے۔
جو جملہ آپ نے نقل فرمایا اس سے پہلے محمد عوامہ نے لکھا ہے:۔
وھی تامۃ فی مجلدین کبیرین، و علیھا وقفیتہ
اس کے بعد آپ کا دیا ہوا جملہ لکھا ہے یعنی یہ تام ہونے کے باوجود یہ نسخہ "استئناس" کے لیے ہے "اعتماد" کے لیے نہیں۔ یعنی اپنی تحقیق میں انہوں نے اس پر اعتماد نہیں کیا۔

آپ اسے پچھلی پوسٹس میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ انہوں نے قدیم نسخے پر اعتماد کیوں نہیں کیا۔ ویسے بھی یہ کوئی عقل میں آنے والی بات نہیں ہے کہ جو نسخہ جتنا قدیم ہوگا وہ اتنا اغلاط سے پاک ہوگا۔ آخر کیوں؟

حنفی علماء نے ذکر نہیں کیا تو یہ تسلیم ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے دونوں قسم کے نسخے موجود ہیں اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے پاس کس زمانے میں کونسا نسخہ تھا۔ البتہ یہ بات کہ علامہ قاسم کے پاس یہی نسخہ تھا شیخ عوامہ نے احتمال کے طور پر بیان کی ہے اور یہ قرین قیاس نہیں لگتی کیوں کہ ملا قائم سندھیؒ نے جو خصوصیات اس نسخے کی ذکر کی ہیں کہ ہر صفحے پر علامات تصحیح موجود ہیں وہ اس پر نہیں ملتیں۔ اور اگر اس پر ہوں تو اس کا درست ہونا واضح ہو جائے گا اور تمام اشکالات و احتمالات رفع ہو جائیں گے۔
مزید یہ کہ جو اشکال کیا جاتا ہے کہ یہ دوسرے اثر سے مل گیا ہے یہ فقط احتمال ہے جس کی نفی عابد سندھیؒ کا نسخہ، شیخ قاسم ابن قطلوبغا کا نسخہ اور شیخ قاسم کی عبارت التعریف و الاخبار، کرتے ہیں۔
البتہ ایک اشکال یہ ہے کہ مرتضی زبیدیؒ اور عینیؒ نے ذکر کیوں نہیں کیا جب کہ ان کے پاس یہ نسخہ موجود تھا۔ اس اشکال سے کیا ثابت کیا گیا ہے یہ سمجھ نہیں آتا۔ اگر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اس نسخے میں یہ الفاظ موجود نہیں تھے تو یہ تو نظر آ رہے ہیں اور بعد میں اگر اضافہ کیا جاتا تو اتنی جگہ پہلے کیوں چھوڑ دی گئی؟ اور اگر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت درست نہیں تھی تو اس بارے میں کیا خیال ہے کہ جو دیگر روایات دلائل میں ذکر کی گئی ہیں وہ درست ہیں؟ اگر وہ بھی صحیح نہیں ہیں تو پھر اسے درج کرنے میں کیا حرج لازم آتا تھا۔ خلاصۃ ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ یہ بات محتاج وضاحت مع دلیل ہے۔
ایک بات اور کہی جا سکتی ہے کہ ان کو علم تھا کہ یہ اس اثر کا حصہ نہیں ہے اور شامل ہو گیا ہے تو اس صورت میں عینی وغیرہ نے اتنے حواشی اس نسخے پر لکھے تو ایک حاشیہ اور لگانے میں کیا جاتا تھا۔
اس سب کے بجائے یہ کہنا آسان ہے کہ انہیں اس کا استحضار نہیں رہا تھا اور یہ ایک عام بات ہے۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔
شیخ عوامہ نے بہت پیاری بات لکھی ہے کہ جنہوں نے اس نسخے سے نقل کیا جس میں یہ اضافہ نہیں ہے تو انہوں نے اضافہ نہیں کیا اور جنہوں نے اس سے نقل کیا جس میں اضافہ ہے تو انہوں نے اضافہ کر دیا۔ اضافہ نہ کرنے والے اس میں تو معذور ہیں کہ انہوں نے اضافہ نہیں کیا لیکن اس میں تو معذور نہیں کہ وہ اضافہ کی نفی بھی کر دیں۔
اوکاڑویؒ نے ایک طویل لسٹ دی ہے جنہوں نے اس روایت کے مختلف کتب میں لکھے جانے کے بعد اس کا انکار نہیں کیا۔ کیا ان کا اعتبار نہیں ہوگا؟

نیموی وغیرہ کے موقف کے بارے میں ذکر کرچکا ہوں کہ یہ ان کی رائے ہے۔
ثقات کی مخالفت سے انہوں نے کیا مطلب لیا ہے یہ سمجھ نہیں آتا۔ کیوں کہ اگر اس ایک لفظ کی زیادتی ابن ابی شیبہ سے ان کی مراد ہے تو یہ زیادتی کسی روایت صحیحہ کے خلاف نہیں ہے اس لیے اصول محدثین کے مطابق قبول ہونی چاہیے۔ اور اس سے مراد کسی ناسخ کی زیادتی ہے تو ناسخین میں شیخ عابد سندھی اور قاسم بن قطلوبغا ایسے نام ہیں جن کی جانب اس کے بلا وجہ اضافے کا گمان کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے درست نسخے میں پائی ہوگی تبھی یہ زیادتی کی ہوگی خاص طور جب کہ شیخ قاسم نے اس کی تصحیح بھی کی ہو اور مقابلہ بھی۔
چناں چہ نیمویؒ کے اس موقف سے متفق ہونا ایک مشکل کام ہے۔
تین نسخوں کا ذکر کشمیریؒ نے کیا ہے۔ اور جو نسخے ہمارے سامنے امید یہی کہ وہ یہ تین نسخے ہوں گے۔ نہ بھی ہوں تو بھی شیخ قائم سندھیؒ کا جملہ اور ہاشم سندھیؒ کا موقف سامنے آجاتا ہے کہ قاسم بن قطلوبغا کا نسخہ مصححہ متعددہ مقابلہ ہے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ اس پر علامات تصحیح موجود ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ ایک نسخہ ان سے کئی نسخوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ پھر ہم انہیں ترجیح کیسے دیں؟ شیخین کریمین کی بات ایسے ہی ہے گویا انہوں نے اس نسخے کی اس بات کو بذریعہ کتاب آگے روایت کیا ہو۔ اس لیے اگر یہ نسخہ موجود نہیں بھی ہے تو ان کی یہ روایت کافی ہے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
یہ ایک علمی موضوع ہے اور اس پر کسی فرد کی بھی کسی جانب کی رائے ہو سکتی ہے جیسے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی رائے میں نے خود اوپر ایک پوسٹ میں ذکر کی ہے۔
معذرت کے ساتھ ۔۔۔ علمی موضوع کا یہی مطلب ہے کہ رائے درست غلط جو بھی ہو وہ ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔ ایک ہی رائے کو پکڑے رکھنا احادیث کو نہ دیکھنا یہ کس جگہ کا انصآف ہے؟؟ یہاں تو مسئلہ صرف ایک حدیث کا ہے کیا آپ کی تحت السرۃ کی یہی دلیل ہے؟؟ کیا صدر کی اور کوئی صحیح روایت موجود نہیں جو آپ اس ایک احتمالی بات کو لیکر بیٹھ گئے ہیں؟؟
ہم تو صرف یہاں ایک خیانت کی یا غلطی کی وضاحت کر رہے ہیں وگرنہ یہ مسئلہ سورج کی طرح واضح ہے ان شاء اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نماز میں قیام کے اندر سینے پر ہاتھ باندھنا تھی۔۔۔

سب قابل احترام ہیں اور خود میں کشمیریؒ کی رائے کو زیادہ مناسب سمجھتا ہوں لیکن اس پر جو میرے ذہن میں ہے اس کی بنیاد پر بات عرض کر رہا ہوں۔ اس میں غلط بھی ہو سکتا ہوں۔
سب سے قابل احترام ہستی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور پھر انکے اصحاب کی اور گمراہی اسی وقت آتی ہے جب ہم متقدمین کو چھوڑ کر قران و حدیث کو چھوڑ کر بعض الناس کی رائے کی طرف جاتے ہیں۔۔

غلط ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی آڑے رہنا ہے کشمیری صاحب کے قول؟ پر۔۔۔۔ عجیب۔۔۔۔۔

ویسے بھی یہ کوئی عقل میں آنے والی بات نہیں ہے کہ جو نسخہ جتنا قدیم ہوگا وہ اتنا اغلاط سے پاک ہوگا۔ آخر کیوں؟
بالکل ایسے ہی ہے۔۔۔۔۔
اور کیوں کی وجہ آپ مناہج البحث کی کتب میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ٹآئم اجازت دیتا تو اس تفصیل کو ضرور لکھتا۔۔۔

حنفی علماء نے ذکر نہیں کیا تو یہ تسلیم ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ زمانہ قدیم سے دونوں قسم کے نسخے موجود ہیں اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کے پاس کس زمانے میں کونسا نسخہ تھا۔ البتہ یہ بات کہ علامہ قاسم کے پاس یہی نسخہ تھا شیخ عوامہ نے احتمال کے طور پر بیان کی ہے اور یہ قرین قیاس نہیں لگتی کیوں کہ ملا قائم سندھیؒ نے جو خصوصیات اس نسخے کی ذکر کی ہیں کہ ہر صفحے پر علامات تصحیح موجود ہیں وہ اس پر نہیں ملتیں۔ اور اگر اس پر ہوں تو اس کا درست ہونا واضح ہو جائے گا اور تمام اشکالات و احتمالات رفع ہو جائیں گے۔
نیموی وغیرہ کے موقف کے بارے میں ذکر کرچکا ہوں کہ یہ ان کی رائے ہے۔
ثقات کی مخالفت سے انہوں نے کیا مطلب لیا ہے یہ سمجھ نہیں آتا
ہماری باری آئے تو یقینی باتیں بھی تسلیم نہیں اور اپنے احتمالات پر بھی دلائل اور وہ ٹھیک۔۔
اور ہمارے موقف کی تائید آپ کے عالم کی دلیل آئے تو وہ شاذ وہ سمجھ نہیں آتا۔۔۔۔۔۔؟؟!!! میں کیا کہوں اسے؟؟
ان باتوں کا جواب میرے پاس نہیں کوئی اور بھائی دے دے تو شکر گزار ہونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!

ثقات کی مخالفت سے انہوں نے کیا مطلب لیا ہے یہ سمجھ نہیں آتا۔ کیوں کہ اگر اس ایک لفظ کی زیادتی ابن ابی شیبہ سے ان کی مراد ہے تو یہ زیادتی کسی روایت صحیحہ کے خلاف نہیں ہے اس لیے اصول محدثین کے مطابق قبول ہونی چاہیے۔ اور اس سے مراد کسی ناسخ کی زیادتی ہے تو ناسخین میں شیخ عابد سندھی اور قاسم بن قطلوبغا ایسے نام ہیں جن کی جانب اس کے بلا وجہ اضافے کا گمان کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے درست نسخے میں پائی ہوگی تبھی یہ زیادتی کی ہوگی خاص طور جب کہ شیخ قاسم نے اس کی تصحیح بھی کی ہو اور مقابلہ بھی۔
چناں چہ نیمویؒ کے اس موقف سے متفق ہونا ایک مشکل کام ہے۔
تین نسخوں کا ذکر کشمیریؒ نے کیا ہے۔ اور جو نسخے ہمارے سامنے امید یہی کہ وہ یہ تین نسخے ہوں گے۔ نہ بھی ہوں تو بھی شیخ قائم سندھیؒ کا جملہ اور ہاشم سندھیؒ کا موقف سامنے آجاتا ہے کہ قاسم بن قطلوبغا کا نسخہ مصححہ متعددہ مقابلہ ہے اور میں نے خود دیکھا ہے کہ اس پر علامات تصحیح موجود ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ ایک نسخہ ان سے کئی نسخوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ پھر ہم انہیں ترجیح کیسے دیں؟ شیخین کریمین کی بات ایسے ہی ہے گویا انہوں نے اس نسخے کی اس بات کو بذریعہ کتاب آگے روایت کیا ہو۔ اس لیے اگر یہ نسخہ موجود نہیں بھی ہے تو ان کی یہ روایت کافی ہے۔
روایت صحیحہ کی مخالفت نہیں وہ کیسے؟؟

واقعی نیموی صاحب کی بات کو تسلیم کرنا گزشتہ باتوں کے تناظر میں کافی مشکل لگتا ہے۔۔۔۔۔۔!!

ہاں جی ویسے بھی کہا جاتا ہے امید پر دنیا قائم ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔

اور کراچی والوں نے جو شیخ راشدی کے مصححہ نسخے کے ساتھ کیا وہ کس کھاتے میں جائے گا۔۔۔۔۔

نوٹ۔۔ محترم بھائی کوئی بات بری لگی ہو تو اس کیلیئے معذرت مجبوری یہ ہے کہ جب دلائل کے مقابلے میں ایسے احتمال اور پر امید باتیں ہونگی تو اس پر بندہ عاجز ہے۔۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
معذرت کے ساتھ ۔۔۔ علمی موضوع کا یہی مطلب ہے کہ رائے درست غلط جو بھی ہو وہ ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔ ایک ہی رائے کو پکڑے رکھنا احادیث کو نہ دیکھنا یہ کس جگہ کا انصآف ہے؟؟ یہاں تو مسئلہ صرف ایک حدیث کا ہے کیا آپ کی تحت السرۃ کی یہی دلیل ہے؟؟ کیا صدر کی اور کوئی صحیح روایت موجود نہیں جو آپ اس ایک احتمالی بات کو لیکر بیٹھ گئے ہیں؟؟
ہم تو صرف یہاں ایک خیانت کی یا غلطی کی وضاحت کر رہے ہیں وگرنہ یہ مسئلہ سورج کی طرح واضح ہے ان شاء اللہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نماز میں قیام کے اندر سینے پر ہاتھ باندھنا تھی۔۔۔


سب سے قابل احترام ہستی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور پھر انکے اصحاب کی اور گمراہی اسی وقت آتی ہے جب ہم متقدمین کو چھوڑ کر قران و حدیث کو چھوڑ کر بعض الناس کی رائے کی طرف جاتے ہیں۔۔

غلط ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی آڑے رہنا ہے کشمیری صاحب کے قول؟ پر۔۔۔۔ عجیب۔۔۔۔۔


بالکل ایسے ہی ہے۔۔۔۔۔
اور کیوں کی وجہ آپ مناہج البحث کی کتب میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ٹآئم اجازت دیتا تو اس تفصیل کو ضرور لکھتا۔۔۔




ہماری باری آئے تو یقینی باتیں بھی تسلیم نہیں اور اپنے احتمالات پر بھی دلائل اور وہ ٹھیک۔۔
اور ہمارے موقف کی تائید آپ کے عالم کی دلیل آئے تو وہ شاذ وہ سمجھ نہیں آتا۔۔۔۔۔۔؟؟!!! میں کیا کہوں اسے؟؟
ان باتوں کا جواب میرے پاس نہیں کوئی اور بھائی دے دے تو شکر گزار ہونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!


روایت صحیحہ کی مخالفت نہیں وہ کیسے؟؟

واقعی نیموی صاحب کی بات کو تسلیم کرنا گزشتہ باتوں کے تناظر میں کافی مشکل لگتا ہے۔۔۔۔۔۔!!

ہاں جی ویسے بھی کہا جاتا ہے امید پر دنیا قائم ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔

اور کراچی والوں نے جو شیخ راشدی کے مصححہ نسخے کے ساتھ کیا وہ کس کھاتے میں جائے گا۔۔۔۔۔

نوٹ۔۔ محترم بھائی کوئی بات بری لگی ہو تو اس کیلیئے معذرت مجبوری یہ ہے کہ جب دلائل کے مقابلے میں ایسے احتمال اور پر امید باتیں ہونگی تو اس پر بندہ عاجز ہے۔۔
محترم بھائی!
آپ میری بات کو مسترد کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے میں ایک طالب علم ہوں۔
لیکن جن احتمالات کا آپ نے کہا انتہائی احترام کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ عجیب آپ نے پوسٹ فرما دی ہے۔
علی الصدر کی صحیح روایات، نبی ﷺ کو چھوڑ کر اصحاب کی طرف جانا، میرا نبی ﷺ کی رائے کے مقابلے میں کشمیریؒ کی رائے پر "اڑے" رہنا، میرا اپنے عالم کی بات "مخالف کی تائید میں ہونے پر" مسترد کر دینا، خیانت و غلطی۔ یا للعجب۔ ان ابحاث میں یہ بھی ہوتا ہے؟
میرے انتہائی قابل احترام بھائی!
میں نے بارہا عرض کیا ہے گرچہ بالفاظ دگر کہ میں اپنی غور و فکر کے بعد ایک رائے رکھتا ہوں اور اس کے خلاف کسی بھی عالم کی رائے ہو اس پر غور و فکر کرتا ہوں، اس کی تائید و تردید کرتا ہوں چاہے وہ عالم حنفی ہو یا کوئی اور۔
اس تحت السرہ کی بحث کو انا کا مسئلہ کیوں بنایا جاتا ہے؟
آپ نے تو شاید یہ بھی ملاحظہ نہیں فرمایا کہ کشمیریؒ کی رائے ہے کیا؟ وہ بھی تحت السرہ کی تعیین کے قائل نہیں ہیں۔ اور مجھے یہی رائے پسند ہے۔
لیکن اس طرز میں بحث کو آگے بڑھانا تو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔
البتہ ایک بات کہوں گا کہ اتنا مسلکی تعصب اور جمود تو مجھ مقلد میں نہیں ہے جتنا آپ میں سے بعض لوگوں میں ہے۔ علمی ابحاث میں بھی عجیب سا طرز اپناتے ہیں آخر میں۔
خدا نخواستہ میں آپ کو متہم نہیں کر رہا۔ آپ میرے لیے محترم ہیں۔
لیکن محدث فورم کے اس علمی و دعوتی پلیٹ فارم سے مجھے اس بات کا اندازہ بسا اوقات ضرور ہوا ہے کہ تحقیق کے میدان میں مجھے اکیلے ہی آگے جانا ہوگا۔
آپ کی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی۔ صرف ابھی تک جاری بحث اور اس پر اس انداز کی پوسٹ پر تعجب ہوا۔ میں ان باتوں میں سے کچھ کو ہائیلائیٹ کر دیتا ہوں۔
فقط والسلام
 
Top