• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,478
پوائنٹ
964
ماشاء اللہ ۔ اثری صاحب کا بالا مضمون میری نظر سے نہیں گزرا تھا اس لیے سوچ رہا تھا کہ اس حوالے کچھ لکھوں گا ۔
اسی غرض سے مصنف ابن ابی شیبہ کے دو طبعات کے مقدمۃ التحقیق پڑھے جس میں ایک شیخ عوامہ کی تحقیق اور دوسرا لحیدان و من معہ کی تحقیق سے ۔
لیکن وقاص بھائی نے اثری صاحب کا مضمون چسپاں کردیا ہے جب تک اس کا کوئی قابل ذکر جواب نہیں بنتا مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ماشاء اللہ ۔ اثری صاحب کا بالا مضمون میری نظر سے نہیں گزرا تھا اس لیے سوچ رہا تھا کہ اس حوالے کچھ لکھوں گا ۔
اسی غرض سے مصنف ابن ابی شیبہ کے دو طبعات کے مقدمۃ التحقیق پڑھے جس میں ایک شیخ عوامہ کی تحقیق اور دوسرا لحیدان و من معہ کی تحقیق سے ۔
لیکن وقاص بھائی نے اثری صاحب کا مضمون چسپاں کردیا ہے جب تک اس کا کوئی قابل ذکر جواب نہیں بنتا مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
ملاحظہ فرمائیے۔
اگر کوئی اشکال ہو تو بیان کیجیے
http://forum.mohaddis.com/threads/مصنف-ابن-ابی-شیبہ-میں-وائل-بن-حجر-رضی-اللہ-عنہ-سے-مروی-حدیث.17353/page-3#post-163501
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ماشاء اللہ ۔ اثری صاحب کا بالا مضمون میری نظر سے نہیں گزرا تھا اس لیے سوچ رہا تھا کہ اس حوالے کچھ لکھوں گا ۔
اسی غرض سے مصنف ابن ابی شیبہ کے دو طبعات کے مقدمۃ التحقیق پڑھے جس میں ایک شیخ عوامہ کی تحقیق اور دوسرا لحیدان و من معہ کی تحقیق سے ۔
لیکن وقاص بھائی نے اثری صاحب کا مضمون چسپاں کردیا ہے جب تک اس کا کوئی قابل ذکر جواب نہیں بنتا مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ۔
لحیدان كا كوئی لنك هو تو عنایت فرمائیے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
محترم بھائی!
آپ میری بات کو مسترد کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے میں ایک طالب علم ہوں۔
لیکن جن احتمالات کا آپ نے کہا انتہائی احترام کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے عرض کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ عجیب آپ نے پوسٹ فرما دی ہے۔
علی الصدر کی صحیح روایات، نبی ﷺ کو چھوڑ کر اصحاب کی طرف جانا، میرا نبی ﷺ کی رائے کے مقابلے میں کشمیریؒ کی رائے پر "اڑے" رہنا، میرا اپنے عالم کی بات "مخالف کی تائید میں ہونے پر" مسترد کر دینا، خیانت و غلطی۔ یا للعجب۔ ان ابحاث میں یہ بھی ہوتا ہے؟
میرے انتہائی قابل احترام بھائی!
میں نے بارہا عرض کیا ہے گرچہ بالفاظ دگر کہ میں اپنی غور و فکر کے بعد ایک رائے رکھتا ہوں اور اس کے خلاف کسی بھی عالم کی رائے ہو اس پر غور و فکر کرتا ہوں، اس کی تائید و تردید کرتا ہوں چاہے وہ عالم حنفی ہو یا کوئی اور۔
اس تحت السرہ کی بحث کو انا کا مسئلہ کیوں بنایا جاتا ہے؟
آپ نے تو شاید یہ بھی ملاحظہ نہیں فرمایا کہ کشمیریؒ کی رائے ہے کیا؟ وہ بھی تحت السرہ کی تعیین کے قائل نہیں ہیں۔ اور مجھے یہی رائے پسند ہے۔
لیکن اس طرز میں بحث کو آگے بڑھانا تو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔
البتہ ایک بات کہوں گا کہ اتنا مسلکی تعصب اور جمود تو مجھ مقلد میں نہیں ہے جتنا آپ میں سے بعض لوگوں میں ہے۔ علمی ابحاث میں بھی عجیب سا طرز اپناتے ہیں آخر میں۔
خدا نخواستہ میں آپ کو متہم نہیں کر رہا۔ آپ میرے لیے محترم ہیں۔
لیکن محدث فورم کے اس علمی و دعوتی پلیٹ فارم سے مجھے اس بات کا اندازہ بسا اوقات ضرور ہوا ہے کہ تحقیق کے میدان میں مجھے اکیلے ہی آگے جانا ہوگا۔
آپ کی کوئی بات مجھے بری نہیں لگی۔ صرف ابھی تک جاری بحث اور اس پر اس انداز کی پوسٹ پر تعجب ہوا۔ میں ان باتوں میں سے کچھ کو ہائیلائیٹ کر دیتا ہوں۔
فقط والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
یہ ایک عجیب مسئلہ ہے کہ جب کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو تو ایسے بندے کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو ولیوں نبیوں کے گستاخ ہیں۔۔۔
اسی طرح کہا جائے کہ حدیث سے آگے نہ بڑھا جائے یا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا اس پر سر تسلیم خم کر لیا جائے تو کہا جاتا ہے یہ تعصب ہے تشدد ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!!
محترم بھائی آپ نے کہا میں ہر کسی کی رائے کو پرکھتا ہون۔۔۔۔۔
تو اسی آپ کی بات نے یہاں مجھے بات کرنے پر مجبور کیا وگرنہ آپ میری اتنی لمبی بات کسی جگہ نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی میری عادت ہے۔۔
بھائی تحقیق اور جمود دو متضاد چیزیں ہیں اور تحقیق نام ہی اس چیز کا ہے کہ انسان کو حدیث نظر آئے تو اس پر عمل کرے یہ نہیں کہ وہ اپنے کچھ احتمالات کی بنا پر اس بات کو چھوڑ دے جو صحیح ہے۔۔۔
آپ نے کہا کہ اس مسئلے کو اتنا بڑا کیوں بناتے ہیں ہم۔۔۔!!!ِ؟؟ بھائی یہی بات اگر آپ خود سے پوچھیں گے تو ان شاء اللہ صحیح جواب کی امید ہے۔۔۔
اور میں نے اوپر بھی اس بات کو آپ کے سامنے رکھا ہے علی الصدر کا مسئلہ صحیح اور صریح احادیث سے ثابت ہے اور قوی دلائل موجود ہیں جبکہ تحت السرۃ کی کیا دلیل ہے اور اس کا کیا مقام ہے وہ بھی آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں۔۔۔
ہاں اگر آپ کہیں کہ واقعی تحت السرۃ کی اور تمام احادیث ضعیف ہیں اسی وجہ سے اس احتمالی دلیل سے سہارہ لیا جاتا ہے تو پھر اس حوالے سے مزید کچھ کہا جا سکتا ہے۔۔ واللہ اعلم
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اب آتے ہیں حدیث میں لفظ "تحت السرۃ" کی طرف
بالفرض اگر ہم یہ تسلیم کر بھی لیں کہ "تحت السرۃ" کا لفظ اصل مخطوطہ میں موجود ہے۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ مختلف نسخوں میں اس عبارت پر اختلاف ہے۔ کچھ اس لفظ کو بیان کرتے ہیں تو کچھ نہیں کرتے۔ اب اس اختلاف کا حل کس طرح نکالا جائے۔ کیا اس اختلاف کو حل کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ جو لفظ مذہب کے موافق ہو اسے لے لیا جائے اور جو مذہب کے خلاف ہو اسے رد کر دیا جائے!؟ ہرگز نہیں!
بلکہ نسخوں میں اختلاف کی تصحیح کرنے کے بھی کچھ اصول و قواعد ہوتے ہیں جن سے اختلاف کی صورت میں راجح الفاظ کو لیا جاتا ہے! اور ان اصولوں کی دیوبندی حضرات بھی بڑے شوق و زوق سے اپنی کتب میں پیروی کرتے ہیں لیکن جب مذہب کی بات آتی ہے تو تقلید سب اصول بھلا دینے پر مجبور کر دیتی ہے اور تبھی ایسی غلطیاں سامنے آتی ہیں!


محترم رضا میاں بھائی!
میں نے وعدہ کیا تھا کہ زیادتی پر بعد میں بات کروں گا لیکن پھر وقت میسر نہ ہوا۔ ابھی ہم اس زیادتی کاجائزہ لیتے ہیں۔
جن اصولوں کا آپ نے ذکر کیا وہ اگرچہ انسانوں کے ہی بنائے ہوئے ہیں اور ان سے اختلاف ممکن ہے کیوں کہ ہر اہل فن اپنی رائے رکھتا ہے لیکن ہم انہی کی روشنی میں روایت کا مطالعہ کرتے ہیں۔
1- اس قسم کے اختلاف کی صورت میں پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ باقی کتب کا موازنہ کیا جائے کہ ان میں اس روایت کو کس طرح بیان کیا گیا ہے، پس اگر ایک روایت بھی ایسی مل جائے جس میں ان مختلف لفظوں میں سے کسی ایک کی موافقت کی گئی ہےتو یہی اس اختلاف کو دور کرنے کے لئے کافی و شافی ہوتی ہے! لیکن اس حدیث کے معاملے میں تو ایک نہیں دو نہیں تین نہیں بلکہ اندازا چھ سات روایتوں نے "تحت السرۃ" کے عدم موجودگی پر موافقت کی ہے۔ اتنی بہترین دلیل کے بعد تو کوئی گنجائش ہی نہیں بچتی کہ پھر بھی دوسرے غریب الفاظ کو بغیر کسی دلیل کے ترجیح دی جائے!
میرے محترم یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایک ہے اختلاف الفاظ اور دوسری ہے زیادتی اور اضافہ۔
اگر اسی سند کے ساتھ اسی متن میں یہ ذکر ہوتا "وضع یمینہ علی شمالہ علی صدرہ" اور دوسرے نسخے میں ہوتا "وضع یمینہ علی شمالہ تحت السرۃ" تو یہ اختلاف ہے۔ اس صورت میں قرائن کی غیر موجودگی میں دوسری کتب کی روایات کو دیکھا جائے گا اور اس کی بنا پر فیصلہ کیا جائے گا۔ لیکن یہاں یہ نہیں ہے بلکہ اس بات پر معاملہ ٹکا ہوا ہے کہ آیا ابن ابی شیبہ نے لفظ "تحت السرۃ" کو بیان کیا یا چھوڑ دیا۔ ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ لفظ روایت کیا ہے۔ یہاں محدثین کا یہ اصول ہے کہ اگر زیادتی ثقہ دیگر ثقات کی روایات کے خلاف نہ ہو تو قبول ہوگی۔ یہاں امام احمد اور یوسف بن موسی امام ابن ابی شیبہ کے مقابلے میں حدیث روایت کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ زیادتی نہیں کی جبکہ ابن ابی شیبہ نے کی ہے۔ ان کی یہ زیادتی ان دونوں کی روایت کے کسی حصے کی نفی نہیں کر رہی تو ہم کس بنیاد پر اس زیادتی کا انکار کر رہے ہیں؟ اس طرح تو کوئی زیادتی بھی قابل قبول نہیں ہوگی؟ پھر محدثین کا یہ اصول کس چیز کے بارے میں ہے؟
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سند میں زیادتی الگ چیز ہے اور متن میں الگ۔ اس میں بھی علماء کا کافی اختلاف ہے۔ ایک زیادتی والی روایت کو درست قرار دیتے ہیں اور دوسرے اس کا انکار کر دیتے ہیں۔ یہ اپنی اپنی فہم کی بات ہے۔
(چونکہ یہ اصول حدیث بھی انسانوں کا تخلیق کردہ ہے اس لیے اسے عقلا سمجھتے ہیں۔ ایک استاد جیسے وکیع ایک روایت دو بار بیان کرتے ہیں۔ ایک بار کمی کے ساتھ اور ایک بار زیادتی کے ساتھ۔ جب کمی کے ساتھ بیان کی تو بعض رواۃ نے سنی اور جب زیادتی کے ساتھ روایت کی تو بعض جیسے ابن ابی شیبہ نے سن لی۔ تو اس وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ثقہ راوی کی یہ زیادتی مقبول ہے جب کہ دیگر ثقات کے خلاف نہ ہو۔)

دوسرا اصول:۔
2- اگر موازنہ ممکن نہ ہو تو اس اختلاف میں سب سے زیادہ پرانے اور معتبر نسخے کو ترجیح حاصل ہو گی۔ اس اصول پر بھی یہ روایت "تحت السرۃ" کی زیادتی کے بغیر معتبر ہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ سب سے پرانا اور بہترین نسخہ مکتبہ ظاہریہ کا نسخہ ہے، اور اس میں بھی یہ روایت بغیر ان الفاظ کے موجود ہے! اور زیادہ تر نسخے اس نسخے کی موافقت بھی کرتے ہیں!
تب بھی اگر کوئی شخص اس کے مخالف الفاظ کو ترجیح دیتا ہے تو وہ محض تعصب اور تقلید کی بناء پر ہو گا۔

آپ کی اس بات پر میں نے تھوڑی سی تحقیق کی۔
یہ اصول ابو عبد الرحمان سناری کے الفاظ میں یوں ہے:۔
منازل النسخ (درجات النسخ):
إن أقدار النسخ للكتاب الواحد تتفاوت جدا، فمنها ما لا قيمة له أصلا في تصحيح نص الكتاب، ومنها ما يعول عليه ويوثق به، ووظيفة المحقق الماهر أن يعرف قدر كل نسخة ويقيمها، ويفاضل بينها وبين سائر النسخ، متبعا في ذلك عدة قواعد منها:
1- أن النسخة الكاملة أفضل من النسخة الناقصة.
2- أن النسخة الواضحة أحسن من غير الواضحة.
3- أن النسخة القديمة أفضل من الحديثة.
4- أن النسخ التي قوبلت بغيرها أحسن من التي لم تقابل, وكذا التي عليها تعليقات العلماء وسماعاتهم،ولكن لهذه القواعد شواذ، ( ).
إذا نسخ المخطوطات للكتاب الواحد تتفاضل كأي شيء ، ونتعرف الآن على منازل النسخ ودرجاتها .
فما هي أعلى النسخة؟
الجواب على هذا يكون بهذا التسلسل:
1- النسخ التي كتبها المصنف بيده (المبيضة:الكتاب الذي نقحه) وتسمي النسخة الأم أو الأصل.
ما حكمها إذا وجدت؟
تجب كل النسخ ولا يجوز تركها ولو كانت في الصين ، ولكن لا تهمل النسخ الأخر لأنه لعله تكون النسخ الأم فيها طمس أو أرضة أو نقص فيستكمل الباقي من النسخ الأخرى، وقد اهتهم العلماء قديما بالنسخ الأصول، وللأخ الباحث تام الجبالي كتاب في جمع هذه النسخ ، وللعلم نسخة المؤلف قليلة .
2- المسودة النسخ التي لم ينقحها المصنف إذا لم نجد المبيضة.
3- النسخة التي نقلت من نسخة المؤلف.
4- النسخة التي أملاه المؤلف .
5- النسخة التي كتبها عالم ثقة.
6- النسخة التي كتبت في عصر المؤلف.
7- النسخة التي عليها تعليقات العلماء .

اس میں اہم مقامات ہائیلائٹ کررہا ہوں۔
یہ چیزیں ہمیں ان نسخوں میں ملتی ہیں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ مکتبہ ظاہریہ کا نسخہ جس کا آپ نے ذکر کیا اس کے شیخ عوامہ اور شیخ اسامہ بن ابراہیم کے مطابق دو نسخے ہیں جنہیں ہم الف اور ب سے ذکر کرتے ہیں۔
الف: اس کی چھ جلدیں موجود ہیں یعنی پہلی، دوسری، ساتویں، آٹھویں، گیارہویں اور بارہویں۔
ان میں سے اول دو الگ خط میں ہیں اور باقی چار الگ خط میں۔ اول دو کا نہ تو ناسخ معلوم ہے اور نہ ہی تاریخ نسخ۔ اور جس حدیث پر ہماری بحث ہے وہ جلد اول میں ہے۔
ب: یہ نسخہ امام نوویؒ کے پاس رہا ہے۔ اس کی تاریخ نسخ 735ھ ہے لیکن بدقسمتی سے اس کے ناسخ کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔
یہ تاریخ اس پر درج ہے ان الفاظ میں سنۃ خمس و ثلاثین و سبع مائۃ۔ امام نووی کا ذکر شیخین نے اس وجہ سے کیا ہے کہ اس کی ابتدا میں تعلیقا ذکر ہے قال الشیخ محیی الدین رحمہ اللہ۔ اور انتہائی عجیب بات یہ ہے کہ محیی الدین یحیی بن شرف نووی کی وفات زرکلی اور ابن کثیر کے مطابق 676ھ میں ہے (الاعلام، طبقات الشافعیین)۔ تو یہ نسخہ لکھے جانے سے پہلے کیسے ان کے پاس آگیا؟
یا تو محیی الدین سے کوئی اور مراد ہیں اور یا پھر ناسخ نے اسے قدیم ثابت کرنے کی کسی وجہ سے کوشش کی ہے۔
بہر حال جو بھی ہو اگر یہ بات درست ہے کہ یہ 735ھ میں لکھا گیا ہے تو اس کے صرف 6 سال بعد یوسف بن عبد اللطیف نے مرتضی زبیدی کے نسخے کی کتابت شروع کردی تھی۔
اس کی پہلی جلد کی کتابت 741ھ میں ہوئی ہے۔ پھر یہ مرتضی زبیدی اور علامہ عینی کے پاس رہا ہے اور ان کی تعلیقات اس پر ہیں۔
(عینی کی تعلیقات چوتھی اور پانچویں جلد میں ہیں)
یہ قدیم بھی ہے۔ اس کا ناسخ بھی معلوم ہے۔ شیخ اسامہ کے مطابق واضحۃ جیدۃ بھی ہے۔ علماء کی اس پر تعلیقات بھی موجود ہیں۔
پھر مزید اس کی تائید شیخ عابد سندھی کے نسخے سے بھی اس روایت میں ہوتی ہے کیوں کہ وہ اس سے نقل نہیں کیا گیا جس پر شاہد یہ ہے کہ اگلا اثر اس میں موجود نہیں ہے جب کہ عابد سندھی کے نسخے میں موجود ہے۔ پھر مزید ایک نسخہ وہ ہے جسکا ذکر ملا قائم سندھیؒ اور ہاشم سندھیؒ نے کیا ہے کہ اس پر ہر صفحے پر تقابل و تصحیح کی علامات موجود ہیں اور اس کا تقابل متعدد بار کیا گیا ہے اور وہ تھا بھی ایک بڑے عالم یعنی قاسم بن قطلوبغا کے پاس۔
یہ ہے حال مرتضی زبیدی، قاسم بن قطلوبغا اور مکتبہ ظاہریہ کے نسخوں کا۔
اب میرے محترم بھائی آپ خود بیان فرمائیے کہ کس نسخے کو ترجیح ہوگی؟ اور یہ زیادتی معتبر ہوگی یا نہیں؟


لیکن اصل حقیقت تو یہی ہے کہ یہ الفاظ تحریف شدہ ہیں اور اصل نسخے کا بھی حصہ نہیں ہیں!
اگر آپ یہ کہیں کہ ثقہ کی زیادتی مقبول ہے اور اس میں ناسخ نے زیادتی کی ہے تو عرض ہے کہ مطلقا کسی کی بھی زیادتی قبول کرنابالواسطہ یہ کہنے کے مترادف ہے کہ ثقہ راوی اگرچہ متن میں مخالفت کی وجہ سے شاذ تو روایت کر سکتا ہے لیکن زیادت بیان کرنے میں اس سے کبھی کوئی غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔ اور یہ اہل الظاہر کا طریقہ ہے مزید تفصیل کے لئے دیکھیں یہ مضمون۔

کیا اوپر بیان کردہ تفصیل کے باوجود بھی یہ الفاظ تحریف شدہ ہیں؟؟؟؟ اگر واقعی تو یہ تحریف کس نے کی ہے؟؟؟
باقی زیادتی کے بارے میں تفصیل میں اوپر عرض کر دی۔
دوسری بات یہ کہ زیادتی صرف راوی کرتا ہے ناسخ نہیں، ناسخ بھی اگر اپنی طرف سے زیادتی کرنے لگا تو وہ محض تحریف کہلائے گی کیونکہ اس نے اس چیز کا اضافہ کیا جو کتاب میں موجود ہی نہیں تھی! راوی جب زیادت بیان کرتا ہے تو اس کا انحصار اس کے حافظے پر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ کبھی زیادتی والے الفاظ بیان کرتا ہے توکبھی بیان نہیں کرتا۔ لیکن ناسخ کا اعتبار پہلے ہی سے موجود ایک کتاب پر ہوتا ہے جس میں سب کچھ لکھا جا چکا ہے اب اس اصل کتاب میں اضافہ کرنا تحریف کہلائے گی! لہٰذا ناسخ کے معاملے میں زیادتی پر نہیں بلکہ اس کے اتقان و دیگر قرائن پھر بھروسہ ہوتا ہے!
ہاں اگر معاملہ کچھ اس طرح ہوتا کہ کچھ نسخوں میں زیادتی ہے اور کچھ میں نہیں مگر زیادتی والے نسخے میں کسی نے کوئی مخالفت بھی نہیں کی ہو اور اس کے ثبوت پر بھی یقین ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ کسی نسخے میں اس زیادتی کا نہ ہونا اس کو نقصان دہ نہیں۔ لیکن یہاں یہ معاملہ ہرگز نہیں ہے!

زیادتی ناسخ کے بارے میں تو آپ کی بات درست ہے لیکن جزوی طور پر۔
زیادتی ناسخ کس وجہ سے ہو سکتی ہے؟
1۔ مولف اول کتاب دو بار تحریر کرے اور ایک نسخے میں زیادتی کرے اور ایک میں نہیں۔
2۔ مولف املاء کروائے اور ایک طالب زیادتی لکھ لے اور دوسرا نہیں۔
3۔ مولف املاء کرواتے وقت کسی وجہ سے کسی لفظ کو پست آواز میں ادا کرے تو قریب والا ناسخ لکھ لے اور دور والا نہ لکھ سکے۔
4۔مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور بعد میں کوئی استاد اس طرح املاء کروائے اور مندرجہ تین معاملات میں سے کوئی ہو۔
5۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور اس سے لکھنے والا ناسخ اس لفظ کو نہ لکھے غلطی سے۔
6۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور لکھنے والا ناسخ نہ لکھے تحریف کی وجہ سے۔
7۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور لکھنے والا ناسخ اس لفظ کو بڑھا دے غلطی سے۔
8۔ مولف سے ایک ہی نسخہ ہو اور لکھنے والا ناسخ اس لفظ کو بڑھائے تحریفا۔
9۔ ناسخ لفظ کو ساقط کرے کسی دلیل کی بنا پر۔

میرا خیال ہے کہ مزید کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔ اور یہ سب احتمال ایک زیادتی میں ہیں۔ جب تک کوئی دلیل نہیں موجود ہم کسی کو متعین نہیں کر سکتے۔ ان میں سے سات احتمالات ایسے ہیں جن میں یہ زیادتی مقبول ہوگی۔ روایت میں بھی شاید اسی وجہ سے ثقہ اگر ثقات کے خلاف روایت کرے تو وہ متہم بالکذب نہیں ہوتا۔

آپ اپنے ہرگز کی وضاحت فرمائیں گے؟

اب چلیں ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے ہم اگر یہ بھی تسلیم کر لیں کہ تمام کے تمام نسخوں میں تحت السرۃ کے الفاظ موجود ہیں اور یہ الفاظ مصنف میں قطعا طور پر ثابت ہیں، تو اب جا کر ہم اس روایت کا فنی سطحہ پر جائزہ لیں گے یعنی اصول حدیث کے مطابق اس کا جائزہ لیں گے آیا یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں!
تو اب یہ روایت پھر بھی غلط کی غلط ہی رہے گی فرق بس اتنا ہو گا کہ غلطی کا امکان ناسخین سے منتقل ہو کر کتاب کے مصنف کی طرف منسوب ہو جائے گی۔ کیونکہ امام ابن ابی شیبہ چاہے کتنے ہی بڑے امام کیوں نہ ہوں، امام احمد وغیرہ سے ان کا مقام زیادہ نہیں اور اس روایت میں "تحت السرۃ" کی زیادتی میں انہوں نے امام احمد کی ہی نہیں بلکہ ثقہ ثبت محدثین کے ایک جم غفیر کی مخالفت کی ہے، اور نہ صرف ابن ابی شیبہ بلکہ اس سند کے ہر طبقہ یعنی مصنف سے لے کر تابعی تک یہ سند نہایت غریب اور شاذ کہلائے گی۔ کیونکہ اس اسناد کہ ہر طبقہ کے راوی نے اپنے اپنے طبقہ کے بے شمار راویوں کی مخالفت کی ہے۔ جس سے اس حدیث کے غلط و شاذ ہونے پر کوئی شک باقی نہیں رہے گا!

اس کی وضاحت میں کر چکا ہوں۔ آپ ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ دو کا تو مجھے علم ہے لیکن جم غفیر میں کون کون ہے؟
اور ایک بات یہ کہ "غلط" اور شاذ میں بہت فرق ہے۔ شاذ سے استدلال نہیں کرتے لیکن وہ غلط نہیں ہوتی۔
واللہ اعلم

اس موضوع میں اس مقام سے مدد لی گئی ہے۔ لنک
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔
یہ ایک عجیب مسئلہ ہے کہ جب کہا جاتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو مت پکارو تو ایسے بندے کو کہا جاتا ہے کہ یہ تو ولیوں نبیوں کے گستاخ ہیں۔۔۔
اسی طرح کہا جائے کہ حدیث سے آگے نہ بڑھا جائے یا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا اس پر سر تسلیم خم کر لیا جائے تو کہا جاتا ہے یہ تعصب ہے تشدد ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!!
محترم بھائی آپ نے کہا میں ہر کسی کی رائے کو پرکھتا ہون۔۔۔۔۔
تو اسی آپ کی بات نے یہاں مجھے بات کرنے پر مجبور کیا وگرنہ آپ میری اتنی لمبی بات کسی جگہ نہیں دیکھیں گے اور نہ ہی میری عادت ہے۔۔
بھائی تحقیق اور جمود دو متضاد چیزیں ہیں اور تحقیق نام ہی اس چیز کا ہے کہ انسان کو حدیث نظر آئے تو اس پر عمل کرے یہ نہیں کہ وہ اپنے کچھ احتمالات کی بنا پر اس بات کو چھوڑ دے جو صحیح ہے۔۔۔
آپ نے کہا کہ اس مسئلے کو اتنا بڑا کیوں بناتے ہیں ہم۔۔۔!!!ِ؟؟ بھائی یہی بات اگر آپ خود سے پوچھیں گے تو ان شاء اللہ صحیح جواب کی امید ہے۔۔۔
اور میں نے اوپر بھی اس بات کو آپ کے سامنے رکھا ہے علی الصدر کا مسئلہ صحیح اور صریح احادیث سے ثابت ہے اور قوی دلائل موجود ہیں جبکہ تحت السرۃ کی کیا دلیل ہے اور اس کا کیا مقام ہے وہ بھی آپ اوپر ملاحظہ کر چکے ہیں۔۔۔
ہاں اگر آپ کہیں کہ واقعی تحت السرۃ کی اور تمام احادیث ضعیف ہیں اسی وجہ سے اس احتمالی دلیل سے سہارہ لیا جاتا ہے تو پھر اس حوالے سے مزید کچھ کہا جا سکتا ہے۔۔ واللہ اعلم
محترم بھائی۔ تحت السرۃ پر عمل ابتدائی زمانے سے چلتا آرہا ہے۔ جبکہ میری معلومات کے مطابق علی الصدر کی جو روایات ہیں ان کی بھی تشریح حافظ ابن حجر وغیرہ عند الصدر یا سینے کے ابتدائی حصے سے کرتے ہیں۔ سینے کے اوپر تو کوئی قائل نہیں غالبا۔ واللہ اعلم
اسی طرح علی الصدر کی روایات ضعیف بھی ہیں۔ اور تحت السرۃ کی روایات بھی ضعیف ہیں سوائے اس ایک روایت کے۔ اور اس کی کتابت پر بھی یہ بحث ہے۔ میں نے اس سلسلے میں اپنا موقف اس تھریڈ میں بیان کر دیا ہے اگر آپ دوبارہ ملاحظہ فرما لیں۔ میں اس تفصیل کے نتیجے میں جو پورے تھریڈ میں پھیلی ہوئی ہے یہ سمجھتا ہوں کہ اس روایت میں یہ لفظ موجود ہے۔
ہم اس وقت اس مسئلہ پر بحث نہیں کر رہے بلکہ اس روایت پر بحث کر رہے ہیں۔

لیکن پھر بھی اگر علی الصدر کی صحیح احادیث بیان فرما دیں تو یہ میرے علم میں قابل قدر اضافہ ہوگا۔ اگر واقعی علی الصدر کی صحیح احادیث موجود ہیں اور ان کی کوئی صحیح توجیہ علمائے امت نے نہیں کی اور تحت السرہ کی کوئی ایک صحیح حدیث موجود نہیں (ایک تو معلوم ہو ہی گئی ہے) تو کیا وجہ ہے کہ ہم ہاتھ نیچے باندھیں؟ ابو حنیفہؒ کی رائے قابل صد احترام سہی لیکن اگر اس پر میں مطمئن نہیں ہوں تو اسے ترک کر سکتا ہوں۔ مجھے آخر کوئی کیوں منع کرے گا؟
 
Top