• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث

شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
جی بات واضح تو ہے لیکن آپ کے نزدیک۔ مجھے کیا پتا کونسا نمبر کس بات کا جواب دینے کے لیے لگایا ہے آپ نے۔ اور کس بات سے آپ کا ذہن کیا نتیجہ نکال رہا ہے۔ بس سیدھے سیدھے نمبر لکھے ہوئے ہیں کہ فلاں بات ہو گئی تو فلاں بات ہے۔ مجھے کیا پتا فلاں بات کہاں سے ہو گئی۔


کس میں؟


اس وقت میرے ذہن میں اس جملہ کا جس کا ذکر آپ نے کیا استحضار نہیں تھا۔ آپ نے اصلاح فرما دی اور یہ جملہ یاد دلادیا۔
پتا نہیں آپ حضرات کے ذہن میں یہ ہی کیوں ہے کہ سب لوگ غلطیوں سے معصوم ہوتے ہیں یا معصوم نہیں تو "ضدی" تو ضرور ہوتے ہیں کہ ایک بار جو کہہ دیا اس سے رجوع نہیں کریں گے نہ اس پر نظر ثانی کریں گے۔ عجیب بات ہے۔
شق ثانی آل ریڈی موجود ہے۔ یہ کس بات کا جواب ارشاد فرمایا گیا ہے؟


التعریف و الاخبار ص 314 پر ابن قطلوبغا نے تحت السرہ کی بحث کے دوران محل دلیل میں یہ حدیث پیش کی ہے اور کہا ہے :۔
قلت: رواہ ابن ابی شیبۃ علی خلاف ہذا فقال حدثنا وکیع ۔۔۔۔۔۔۔ وہذا سند جید۔
اب یہ نہ فرما دیجیے گا کہ اس میں کہاں لکھا ہے کہ میں اس سے حجت پکڑتا ہوں! کیوں کہ دنیا کے تقریبا تمام ہی علماء کا یہ طرز ہے کہ وہ اکثر مقامات میں قرینہ مقام پر اکتفا کرتے ہیں۔



اب یہ کس بات کا جواب ہے؟


یہ کس بات کا جواب ہے؟ اور میں نے جزما کہاں کہا ہے کہ اب دلیل بن گئی ہے؟ اصل میں آپ اصل بات تو نقل کرتے نہیں اس لیے مزے سے جو جی میں آئے فرض کر کے جواب لکھ دیتے ہیں۔


جب میں نے ابتدا سے بحث اصل نسخہ جات پر کی ہوئی تھی تو آپ شاہد کے درپے تھے۔ اب چینج آ گیا ہے تو سامنے موجود مسائل کو پہلے حل کرتے جاتے ہیں پھر سب چیزوں کو دیکھ لیں گے۔
احتجاج میں نے بیان کر دیا ہے۔

اس بار تو نمبر وار پوسٹ کا جواب دے دیا ہے لیکن اگلی بار یہ نہیں کروں گا۔
اور آپ سے میں نے صفحہ نمبر پوچھے تھے کتاب کے؟؟؟


ابن قطلوبغا کا حدیث ذکر کرنا یعنی خبر دینا ھے.تو یہ جناب محض ٹھٹھوی صاحب کو نہیں خبر دینا بلکہ سب کے لیے عام ھے.

ابن قطلوبغا کے نسخے کی بات کررھا ھوں کہ پہلے اس میں آپکو کیا کمزوری نظر آئی تھی اور کیا قوت نظر آگئی ھے.

باقی کتاب کے حوالے کی بات یہ ھے کہ وہ صفحہ اس میں نہیں ھے.اصل میں شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے مکتبہ میں ان پانچھوں کتب کے مصورے ھیں میں نے وھاں سے لکھا ھے.میں نے سمجا کہ ان مطبوع کتب کے شروع والے صفحہ میں ھوگا لیکن نہیں ھے.

ھذا سند جید ....کیا یہ حدیث سے حجت پکڑنے پر دلالت کرتے ھیں.ٹھٹھوی صاحب نے کہا ھے کہ ابن قطلوبغا نے اس حدیث سے احتجاج کیا ھے لہذا یہ نسخہ قابل اعتماد ھے ھے.جی تو دکھائیں اس حدیث سے کہاں احتجاج کیا گیا ھے؟

باقی آپکو یہ میں بتادوں کہ ابن قطلوبغا یہ طرز قطعا درست نہیں کہ وہ بس یہ کہدیں کہ ..مارواہ ابن ابی شیبہ....الخ.
بلکہ انکو ایک محقق کے ناطے یہ کہنا چاھئے تھا کہ مصنف ابن ابی شیبہ کہ ایک نسخے میں اس طرح کے الفاظ ھیں.اور بعض میں یہ الفاظ نہیں.کیوںکہ انکو پتہ تھا کہ یہ اختلافی مسئلہ ھے اس لئے ایسا کہنا یہ ایک محقق کی شان سے از حد بعید ھے...بلکہ میں کہتا ھوں قطعا مناسب نھیں.

دوسری بات یہ کہ انھوں جس انداز میں اس روایت کا ذکر کیا ھے اگر نیوٹل ذہن ھوکر دیکھا جائے تو نصف النھار کی طرح واضح معلوم ھوتا ھے کہ خود انکے نزدیک بھی یہ نسخہ معتمد علیہ نہ تھا.سوچنے کی بات ھے اتنا صدیوں پرانا اختلاف اور ابن قطلوبغا نے بس دو الفاظ لکھدیے.اور اسکی کوئی وضاحت نہیں کی.کچھ تو وضاحت کرتے.مسئلہ اتنا بڑا اور جواب دینے کا انداز ..واہ..کتنا عجیب تر ھے...بھر کیف وہ نسخہ ابن قطلوبغا کے یھاں بھی قابل اعتماد نہ تھا.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ابن قطلوبغا کا حدیث ذکر کرنا یعنی خبر دینا ھے.تو یہ جناب محض ٹھٹھوی صاحب کو نہیں خبر دینا بلکہ سب کے لیے عام ھے.
جی لہذا جس طرح اس سے ہاشمؒ کو خبر ملی ہے اسی طرح آپ خود کو خبر ملنا بھی مان لیجیے۔

ابن قطلوبغا کے نسخے کی بات کررھا ھوں کہ پہلے اس میں آپکو کیا کمزوری نظر آئی تھی اور کیا قوت نظر آگئی ھے.
میں نے عرض کیا تھا کہ:۔
مزید آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اگر ابھی تک میں اس پر اعتماد کر کے اسے بنیادی دلیل نہیں بنا رہا تھا تو اب بنا سکتا ہوں۔ کیا اس میں کوئی قباحت ہے یا کسی نے منع کیا ہے؟
میں نے جزما نہیں کہا کہ اس کو دلیل بنا رہا ہوں۔ سمجھ گئے ہوں گے امید ہے۔
البتہ اگر آپ اس میں قباحت کا نہ ہونا تسلیم کر لیں تو ہم اس کی حیثیت پر غور کر کے دیکھ لیں گے کہ اسے دلیل بنانا چاہیے یا نہیں۔
محترم بھائی! بات یہ ہے کہ میں اپنے مقصود و مدعا کو ثابت کرنے کے لیے بحث نہیں کرتا بلکہ تحقیق کے لیے کرتا ہوں۔ اگر ایک چیز کو میں کمزور سمجھتا ہوں اور بعد میں دوران بحث یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قوی ہے تو میں قوی مان لیتا ہوں۔

باقی کتاب کے حوالے کی بات یہ ھے کہ وہ صفحہ اس میں نہیں ھے.اصل میں شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے مکتبہ میں ان پانچھوں کتب کے مصورے ھیں میں نے وھاں سے لکھا ھے.میں نے سمجا کہ ان مطبوع کتب کے شروع والے صفحہ میں ھوگا لیکن نہیں ھے.
ٹھیک ہے اس بات کو یاد رکھیے گا۔

ھذا سند جید ....کیا یہ حدیث سے حجت پکڑنے پر دلالت کرتے ھیں.ٹھٹھوی صاحب نے کہا ھے کہ ابن قطلوبغا نے اس حدیث سے احتجاج کیا ھے لہذا یہ نسخہ قابل اعتماد ھے ھے.جی تو دکھائیں اس حدیث سے کہاں احتجاج کیا گیا ھے؟
نا جی۔ یہ کس نے کہا ہے؟ بلکہ میں نے یہ عرض کیا ہے کہ مقام دلیل میں کوئی حدیث اپنے موقف کے مطابق پیش کرنے کا مطلب اس سے احتجاج کرنا ہوتا ہے۔ یہ تحت السرۃ کی بحث ہے اور اس میں ابن قطلوبغا نے یہ حدیث پیش کی ہے۔ لہذا یہ بطور دلیل پیش کرنا سمجھا جائے گا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اگر ایسے احتجاج نہیں ہوتا تو پھر کیسے ہوتا ہے؟ اور جو آپ کا طرز ہوگا اس کا کس کس نے التزام کیا ہے؟
اگر اس مذکورہ طرز کی مثال دیکھنی ہے تو کوئی بھی فقہ کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں۔ بلکہ امام بخاری کی کتاب جزء القراءۃ ہی اٹھا لیں۔ کیا انہوں نے ہر ہر روایت پر یہ کہا ہے کہ میں اس سے احتجاج کرتا ہوں؟

باقی آپکو یہ میں بتادوں کہ ابن قطلوبغا یہ طرز قطعا درست نہیں کہ وہ بس یہ کہدیں کہ ..مارواہ ابن ابی شیبہ....الخ.
بلکہ انکو ایک محقق کے ناطے یہ کہنا چاھئے تھا کہ مصنف ابن ابی شیبہ کہ ایک نسخے میں اس طرح کے الفاظ ھیں.اور بعض میں یہ الفاظ نہیں.کیوںکہ انکو پتہ تھا کہ یہ اختلافی مسئلہ ھے اس لئے ایسا کہنا یہ ایک محقق کی شان سے از حد بعید ھے...بلکہ میں کہتا ھوں قطعا مناسب نھیں.
دونوں چیزوں پر دلیل؟؟

  1. یہ طرز درست نہیں ہے۔ دلیل؟
  2. انہیں پتا تھا کہ نسخوں میں اختلاف ہے۔ دلیل؟

دوسری بات یہ کہ انھوں جس انداز میں اس روایت کا ذکر کیا ھے اگر نیوٹل ذہن ھوکر دیکھا جائے تو نصف النھار کی طرح واضح معلوم ھوتا ھے کہ خود انکے نزدیک بھی یہ نسخہ معتمد علیہ نہ تھا.سوچنے کی بات ھے اتنا صدیوں پرانا اختلاف اور ابن قطلوبغا نے بس دو الفاظ لکھدیے.اور اسکی کوئی وضاحت نہیں کی.کچھ تو وضاحت کرتے.مسئلہ اتنا بڑا اور جواب دینے کا انداز ..واہ..کتنا عجیب تر ھے...بھر کیف وہ نسخہ ابن قطلوبغا کے یھاں بھی قابل اعتماد نہ تھا.
مجھے تو نیوٹرل ذہن سے اس کے خلاف نصف النہار کی طرح واضح معلوم ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک یہی نسخہ درست اور مصححہ مقابلہ تھا اس لیے انہیں ضرورت ہی نہیں تھی کہ کسی اور بات کی وضاحت بھی کرتے۔ لہذا آپ کی یہ کوئی دلیل نہ ہوئی۔
اب دلیل دیجیے کہ ابن قطلوبغا کے یہاں یہ نسخہ قابل اعتماد نہیں تھا۔ وگرنہ ہاشم سندھی کی بات زیادہ قرین قیاس و موافق ظاہر ہے کہ ابن قطلوبغا جیسا محدث شرائط نسخہ سے بخوبی واقف تھا اور اس نے تقابل و تصحیح لازما کی ہوگی ورنہ وہ خطیب کی شرط کے مطابق بیان کردیتا۔ (الفاظ میرے ہیں)۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جناب عالی یہ سوال تو تشنہ ہی رہ گیا:۔
مقدمۃ ابن صلاح میں یہ شرائط ذکر ہیں۔ ابن قطلوبغا ایک بڑے محدث ہیں اور مزید یہ کہ ابن صلاح کی یہ علوم الحدیث انہوں نے باقاعدہ اپنے شیخ التاج النعمانی سے پڑھی ہے۔ علامہ سیوطی الضوء اللامع میں کہتے ہیں:۔
وارتحل قديما مع شيخه التاج النعماني إلى الشام بحيث أخذ عنه جامع مسانيد أبي حنيفة للخوارزمي وعلوم الحديث لابن الصلاح وغيرهما
تو جب انہوں نے یہ احتجاج کیا ہے تو ظاہر یہی ہے کہ انہوں نے ان شرائط کا لحاظ کیا ہے۔ اگر ہم اسے تسلیم نہ کریں تو جتنے محدثین نے کسی بھی حدیث سے استدلال کیا ان سب پر یہ اشکال لازم آئے گا کہ ان کے نسخوں میں یہ شرائط پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ اس صورت میں شاید اکثر دلائل ضائع ہی جائیں گے۔ اور علماء میں سے کوئی یہ نہیں کہتا میرے علم کی حد تک۔
لہذا اگر آپ خلاف ظاہر کا دعوی کرتے ہیں کہ تقابل و تصحیح نہیں تھے تو آپ پر دلیل لازم ہے۔ والا ثبت ما ثبت بالظاہر۔
اس کا جواب مطلوب ہے تا کہ ہم آگے بڑھیں اور ہاں یہ جواب آپ کے اخبار کی شق کو تسلیم کرنے پر مطلوب ہے۔ آدھا تو آپ نے مان لیا ہے کہ اس طرح حدیث بیان کر کے خبر دی ہے۔ (اگر نہیں مانا تو بتا دیں)۔ باقی آدھا اب یہاں بتا دیں کہ تقابل و تصحیح تھے یا نہیں؟

اور اقتباس لینے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی عبارت کو سیلیکٹ کر کے اوپر "عربی" کے دائیں جانب والا بٹن دبائیں تو سامنے ایک آپشن اقتباس کا آ جائے گا۔ اس پر کلک کر لیا کریں۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
جی لہذا جس طرح اس سے ہاشمؒ کو خبر ملی ہے اسی طرح آپ خود کو خبر ملنا بھی مان لیجیے۔


میں نے عرض کیا تھا کہ:۔

میں نے جزما نہیں کہا کہ اس کو دلیل بنا رہا ہوں۔ سمجھ گئے ہوں گے امید ہے۔
البتہ اگر آپ اس میں قباحت کا نہ ہونا تسلیم کر لیں تو ہم اس کی حیثیت پر غور کر کے دیکھ لیں گے کہ اسے دلیل بنانا چاہیے یا نہیں۔
محترم بھائی! بات یہ ہے کہ میں اپنے مقصود و مدعا کو ثابت کرنے کے لیے بحث نہیں کرتا بلکہ تحقیق کے لیے کرتا ہوں۔ اگر ایک چیز کو میں کمزور سمجھتا ہوں اور بعد میں دوران بحث یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ قوی ہے تو میں قوی مان لیتا ہوں۔


ٹھیک ہے اس بات کو یاد رکھیے گا۔


نا جی۔ یہ کس نے کہا ہے؟ بلکہ میں نے یہ عرض کیا ہے کہ مقام دلیل میں کوئی حدیث اپنے موقف کے مطابق پیش کرنے کا مطلب اس سے احتجاج کرنا ہوتا ہے۔ یہ تحت السرۃ کی بحث ہے اور اس میں ابن قطلوبغا نے یہ حدیث پیش کی ہے۔ لہذا یہ بطور دلیل پیش کرنا سمجھا جائے گا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اگر ایسے احتجاج نہیں ہوتا تو پھر کیسے ہوتا ہے؟ اور جو آپ کا طرز ہوگا اس کا کس کس نے التزام کیا ہے؟
اگر اس مذکورہ طرز کی مثال دیکھنی ہے تو کوئی بھی فقہ کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں۔ بلکہ امام بخاری کی کتاب جزء القراءۃ ہی اٹھا لیں۔ کیا انہوں نے ہر ہر روایت پر یہ کہا ہے کہ میں اس سے احتجاج کرتا ہوں؟


دونوں چیزوں پر دلیل؟؟

  1. یہ طرز درست نہیں ہے۔ دلیل؟
  2. انہیں پتا تھا کہ نسخوں میں اختلاف ہے۔ دلیل؟


مجھے تو نیوٹرل ذہن سے اس کے خلاف نصف النہار کی طرح واضح معلوم ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک یہی نسخہ درست اور مصححہ مقابلہ تھا اس لیے انہیں ضرورت ہی نہیں تھی کہ کسی اور بات کی وضاحت بھی کرتے۔ لہذا آپ کی یہ کوئی دلیل نہ ہوئی۔
اب دلیل دیجیے کہ ابن قطلوبغا کے یہاں یہ نسخہ قابل اعتماد نہیں تھا۔ وگرنہ ہاشم سندھی کی بات زیادہ قرین قیاس و موافق ظاہر ہے کہ ابن قطلوبغا جیسا محدث شرائط نسخہ سے بخوبی واقف تھا اور اس نے تقابل و تصحیح لازما کی ہوگی ورنہ وہ خطیب کی شرط کے مطابق بیان کردیتا۔ (الفاظ میرے ہیں)۔
واہ جناب جی واہ....کہاں کی بات کہاں لیجارھے ھیں آپ...ھاشم ٹھٹھوی نے نہ نسخہ دیکھا..اور خبر دینے کی بات اپنی طرف سے کیسے فٹ کررھے ھیں.

بڑی عجیب منطق چلارھے ھیں آپ....دلیل بھی بنارھے ھیں...اور یہ بھی کہ رھے ھیں کہ جزما نہیں...مجھے ذرا وضاحت سے یہ سمجھالیں یہ.

اور اس بات کا تو جواب دیں نا کہ پہلے وہ آپ کے نزدیک کمزور تھی اب مضبوط ـ جزما نہ سہی ـ کیسے بن گئی...بات کو لٹکائے کیوں رکھتے ھیں...واضح کریں.

اگر دلیلا پیش کیا ھے تو اسکو کمزور کر کے کیوں پیش کیا ھے....کیا کسی کے مقابلے میں دلیل کو مضبوط کر کے پیش کرتے ھیں یا کمزور کر کے....ابن قطلوبغا نے تو اسکو شاہد بنایا ھے.حالاںکہ سند جید کہا ھے....اب کمزور بنانے کی وجہ کیا ھے..


یعنی آپ کہتے ھیں کہ انکومعلوم نہیں تھا اور نہ ہی انکا یہ طریقہ غیر درست ھے..ھمممم

پہلے ثابت تو کریں کہ حجت کہاں پکڑی ھے....پھر اسکا موقع آئیگا..
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
واہ جناب جی واہ....کہاں کی بات کہاں لیجارھے ھیں آپ...ھاشم ٹھٹھوی نے نہ نسخہ دیکھا..اور خبر دینے کی بات اپنی طرف سے کیسے فٹ کررھے ھیں.
.
اب یہ کس بات کے جواب میں کہا ہے؟
آپ نے خود فرمایا تھا خبر دینے کے بارے میں:۔
ابن قطلوبغا کا حدیث ذکر کرنا یعنی خبر دینا ھے.تو یہ جناب محض ٹھٹھوی صاحب کو نہیں خبر دینا بلکہ سب کے لیے عام ھے.
میں نے اپنی طرف سے کیا فٹ کیا ہے محترم بھائی؟

بڑی عجیب منطق چلارھے ھیں آپ....دلیل بھی بنارھے ھیں...اور یہ بھی کہ رھے ھیں کہ جزما نہیں...مجھے ذرا وضاحت سے یہ سمجھالیں یہ.
میں نے عرض کیا کہ بنا "سکتا" ہوں۔ یعنی بالقوۃ یہ کر سکتا ہوں بالفعل یہ ابھی نہیں کر رہا۔ ابھی بھی سمجھ میں نہیں آیا تو کم از کم تیسیر المنطق ہی پڑھ آئیں۔ یہ عجیب نہیں درست منطق ہے۔ آپ کو نہ علم ہو قواعد کا تو اس میں میرا کیا قصور؟

اور اس بات کا تو جواب دیں نا کہ پہلے وہ آپ کے نزدیک کمزور تھی اب مضبوط ـ جزما نہ سہی ـ کیسے بن گئی...بات کو لٹکائے کیوں رکھتے ھیں...واضح کریں.
میں نے یہ تو کہا ہے کہ بطور شاہد کے پیش کیا ہے دلیل اصل اسے نہیں بنایا۔ لیکن اس سے یہ کیسے لازم آگیا کہ وہ کمزور تھی؟ کیا شاہد ہمیشہ کمزور ہی ہوتا ہے؟ مثالیں دوں قوی شواہد کی؟

اگر دلیلا پیش کیا ھے تو اسکو کمزور کر کے کیوں پیش کیا ھے....کیا کسی کے مقابلے میں دلیل کو مضبوط کر کے پیش کرتے ھیں یا کمزور کر کے....ابن قطلوبغا نے تو اسکو شاہد بنایا ھے.حالاںکہ سند جید کہا ھے....اب کمزور بنانے کی وجہ کیا ھے..
یار آپ کی شاید رات کو نیند پوری نہیں ہوئی۔
ارے بھائی میں نے روایت پر تو کسی قسم کا اعتراض کیا ہی نہیں ہے؟؟؟ سند جید کہا ہے تو میں نے کب انکار کیا ہے؟

یعنی آپ کہتے ھیں کہ انکومعلوم نہیں تھا اور نہ ہی انکا یہ طریقہ غیر درست ھے..ھمممم
ظاہر یہی ہے۔ باقی آپ کا دعوی اس کے خلاف ہے تو دلیل دیجیے۔ ہاں اگر یہ صرف آپ کا اپنا ذاتی خیال ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ میرا متفق ہونا ضروری نہیں۔

پہلے ثابت تو کریں کہ حجت کہاں پکڑی ھے....پھر اسکا موقع آئیگا..
اللہ پاک کی عطا کی ہوئی آنکھوں کا خوبصورت استعمال کرت ہوئے دوبارہ ملاحظہ فرمائیے:۔
۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ عرض کیا ہے کہ مقام دلیل میں کوئی حدیث اپنے موقف کے مطابق پیش کرنے کا مطلب اس سے احتجاج کرنا ہوتا ہے۔ یہ تحت السرۃ کی بحث ہے اور اس میں ابن قطلوبغا نے یہ حدیث پیش کی ہے۔ لہذا یہ بطور دلیل پیش کرنا سمجھا جائے گا۔
کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اگر ایسے احتجاج نہیں ہوتا تو پھر کیسے ہوتا ہے؟ اور جو آپ کا طرز ہوگا اس کا کس کس نے التزام کیا ہے؟
اگر اس مذکورہ طرز کی مثال دیکھنی ہے تو کوئی بھی فقہ کی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں۔ بلکہ امام بخاری کی کتاب جزء القراءۃ ہی اٹھا لیں۔ کیا انہوں نے ہر ہر روایت پر یہ کہا ہے کہ میں اس سے احتجاج کرتا ہوں؟
ھاں یہ ھے کہ معارضے میں اس حدیث کو پیش کیا ھے.اور وہ تو ھے.
احتجاج کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟

ویسے میں نے اوپر اقتباس لینے کا طریقہ بیان کر دیا ہے۔ اب مہربانی فرما کر کسی خاص بات کا جواب دینے کے لیے اس کا اقتباس لے لیجیے گا۔ بات کچھ ہوتی ہے آپ کچھ فرماتے ہیں۔ اقتباس سامنے ہوگا تو آسانی رہے گی۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
میں نے بھی اب فیصلہ کرلیا ھے.
قارئین کرام کے سامنے تمام باتیں واضح ھوچکی ھیں.لہذا اب مزید ایک غیر مستقل مزاج شخص بحث فضول ھے.
میرا دو ٹوک میں میں جواب ھے.

۱
مرتضی زبیدی والے نسخے میں سقط کا احتمال ھے لہذا "اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال " کے تحت اس سے اس سے استدلال باطل اور فضول ھے.

۲
عابد سندھی والا نسخہ غیر معتمد علیہ قرار دیا جا چکا ھے.اور آپ کے کیا خصوصیات ھیں.جو اس پر اعتماد کیا جائے.

۳ قط
جن آپ کی دلیلوں کا یہ حال ھے تو آپ کے شاہد ـ ابن قطلوبغا والا نسخہ ـ کا اسی سے ھی اندازہ لگایا جا سکتا ھے
ویسے بھی ابن قطلوبغا کے حوالے سے اوپر میں اس کے طرز پر تنبیہ کرچکا ھوں.اور یہ بھی عرض کردوں کہ اس نے اس حدیث تخریج کیوں نہیں کی...وہ اس لئے کہ اس سے محمد عوامہ کی طرح اسکا بھی انداز سامنے آجاتا.
اور ابن قطلوبغا نے اس حدیث کو حجت کے طور پر پیش نہیں کیا اگر چہ سند جید کہا ھے. شاھد کے ھونے کاکس نے انکار کیا ھے..بات یہ ھے کہ اگر اتنی سند جید ھونے کے باوجود ایک شدید الضعف کا شاھد بنانا چہ معنی دارد
کیا اس حدیث کو شاہد کی ضرورت ھے...قطعا نہیں...اور عدم احجاج کی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ ھو ھی نہیں سکتی کہ ابن قطلوبغا کو اس نسخے پر اعتماد ھی نہیں تھا..
ویسے بھی صدیا گذر گئیں امت اسلامیہ ایک غیر سنت عمل کرتی اور ابن قطلوبغا نے اس سنت کو ظاھر کردیا..واہ.
بہر حال اس موضوع پر میری یہ آخری پوسٹ ھے لہذا اب میری طرف سے جواب نہیں آئیگا.اور فیصلہ قارئین کے ھاتھوں میں ھے.اگر میری طرف سے کوئی سختی وغیرہ ھوگئی ھو تو درگذر کی اپیل ھے.اللہ تعالی سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
والسلام.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میں نے بھی اب فیصلہ کرلیا ھے.
قارئین کرام کے سامنے تمام باتیں واضح ھوچکی ھیں.لہذا اب مزید ایک غیر مستقل مزاج شخص بحث فضول ھے.
لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔ ظاہر ہے یہی کہہ کر جانا تھا آپ نے۔

۱
مرتضی زبیدی والے نسخے میں سقط کا احتمال ھے لہذا "اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال " کے تحت اس سے اس سے استدلال باطل اور فضول ھے.
یہ احتمال تو عابد سندھی اور ابن قطلوبغا کے نسخے سے ساقط ہو گیا۔ پھر؟؟؟
دلیل تو باقی رہ گئی۔
دوسری بات اس نسخے کی مضبوطی بھی میں پیچھے بیان کر چکا ہوں۔

۲
عابد سندھی والا نسخہ غیر معتمد علیہ قرار دیا جا چکا ھے.اور آپ کے کیا خصوصیات ھیں.جو اس پر اعتماد کیا جائے.
آپ کے پاس دلیل ہے اس کے غیر معتمد ہونے کی؟
ابن عوامہ کے قول کی تو میں نے ماقبل میں وضاحت کر دی ہے۔

۳ قط
جن آپ کی دلیلوں کا یہ حال ھے تو آپ کے شاہد ـ ابن قطلوبغا والا نسخہ ـ کا اسی سے ھی اندازہ لگایا جا سکتا ھے
دلیلوں کا حال تو بہت مضبوط ہے۔ پرانی باتیں کرنے کے علاوہ کسی ایک بات کا بھی آپ نے رد کیا؟؟

ویسے بھی ابن قطلوبغا کے حوالے سے اوپر میں اس کے طرز پر تنبیہ کرچکا ھوں.اور یہ بھی عرض کردوں کہ اس نے اس حدیث تخریج کیوں نہیں کی...وہ اس لئے کہ اس سے محمد عوامہ کی طرح اسکا بھی انداز سامنے آجاتا.
ابن قطلوبغا پر تخریج کرنا آپ نے فرض قرار دیا تھا؟ اور اگر ابن قطلوبغا اور عوامہ تخریج کر بھی دیتے تو کیا ہوتا زیادہ سے زیادہ؟ یہ سامنے آتا کہ ابن ابی شیبہ نے زیادتی کے ساتھ روایت کی ہے احمد کے مقابلے میں۔ تو ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے۔

اور ابن قطلوبغا نے اس حدیث کو حجت کے طور پر پیش نہیں کیا اگر چہ سند جید کہا ھے. شاھد کے ھونے کاکس نے انکار کیا ھے..بات یہ ھے کہ اگر اتنی سند جید ھونے کے باوجود ایک شدید الضعف کا شاھد بنانا چہ معنی دارد
دو بار تو بیان کر چکا ہوں کہ حجت کے طور پر پیش کرنا کیسے ہوتا ہے۔ تیسری بار میرا خیال ہے ضرورت نہیں ہے۔
پھر شدید الضعف تو آپ ثابت کر ہی نہیں سکے۔

ویسے بھی صدیا گذر گئیں امت اسلامیہ ایک غیر سنت عمل کرتی اور ابن قطلوبغا نے اس سنت کو ظاھر کردیا..واہ.
یعنی امت اسلامیہ جمع ہو کر ایک غیر سنت (تحت السرہ پر) عمل کرتی رہی؟ آپ کو علم ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کی بات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تحت السرہ کی جو ضعیف روایات ہیں وہ بھی امت کے تلقی بالقبول کی وجہ سے قوی ہو جائیں گی۔

بہر حال اس موضوع پر میری یہ آخری پوسٹ ھے لہذا اب میری طرف سے جواب نہیں آئیگا.اور فیصلہ قارئین کے ھاتھوں میں ھے.اگر میری طرف سے کوئی سختی وغیرہ ھوگئی ھو تو درگذر کی اپیل ھے.اللہ تعالی سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
والسلام.
میں اپنی تحقیق کے لیے بحث کرتا ہوں اس لیے مجھے قارئین سے فیصلہ کرانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔
ویسے کوئی دماغ کو معتدل رکھ کر اس بحث کو پڑھے تو اس کے لیے بہت کچھ واضح ہو جائے گا۔
باقی میں اپ سے اس موضوع پر یہ بحث چاہتا بھی نہیں تھا کیوں کہ اس پر بنیادی تفصیلی بحث میں ماقبل میں کر چکا تھا۔ اس لیے آپ کو میرے ابتدائی جوابات ایسے نظر آئیں گے جیسے میں جان چھڑا رہا ہوں۔ لیکن جب آپ نے میرے الفاظ پر گرفت کر کے اور دلائل کا مطالبہ کر کر کے مجھے مجبور کر دیا تو میں نے بھی اپنا موقف تھوڑا بہت ظاہر کر دیا۔ آپ کے مزید جوابات کی تمنا بھی نہیں ہے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ۔
 

ںازیا

مبتدی
شمولیت
اکتوبر 28، 2014
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
8
میں نے بھی اب فیصلہ کرلیا ھے.
قارئین کرام کے سامنے تمام باتیں واضح ھوچکی ھیں.لہذا اب مزید ایک غیر مستقل مزاج شخص بحث فضول ھے.
میرا دو ٹوک میں میں جواب ھے.

۱
مرتضی زبیدی والے نسخے میں سقط کا احتمال ھے لہذا "اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال " کے تحت اس سے اس سے استدلال باطل اور فضول ھے.

۲
عابد سندھی والا نسخہ غیر معتمد علیہ قرار دیا جا چکا ھے.اور آپ کے کیا خصوصیات ھیں.جو اس پر اعتماد کیا جائے.

۳ قط
جن آپ کی دلیلوں کا یہ حال ھے تو آپ کے شاہد ـ ابن قطلوبغا والا نسخہ ـ کا اسی سے ھی اندازہ لگایا جا سکتا ھے
ویسے بھی ابن قطلوبغا کے حوالے سے اوپر میں اس کے طرز پر تنبیہ کرچکا ھوں.اور یہ بھی عرض کردوں کہ اس نے اس حدیث تخریج کیوں نہیں کی...وہ اس لئے کہ اس سے محمد عوامہ کی طرح اسکا بھی انداز سامنے آجاتا.
اور ابن قطلوبغا نے اس حدیث کو حجت کے طور پر پیش نہیں کیا اگر چہ سند جید کہا ھے. شاھد کے ھونے کاکس نے انکار کیا ھے..بات یہ ھے کہ اگر اتنی سند جید ھونے کے باوجود ایک شدید الضعف کا شاھد بنانا چہ معنی دارد
کیا اس حدیث کو شاہد کی ضرورت ھے...قطعا نہیں...اور عدم احجاج کی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ ھو ھی نہیں سکتی کہ ابن قطلوبغا کو اس نسخے پر اعتماد ھی نہیں تھا..
ویسے بھی صدیا گذر گئیں امت اسلامیہ ایک غیر سنت عمل کرتی اور ابن قطلوبغا نے اس سنت کو ظاھر کردیا..واہ.
بہر حال اس موضوع پر میری یہ آخری پوسٹ ھے لہذا اب میری طرف سے جواب نہیں آئیگا.اور فیصلہ قارئین کے ھاتھوں میں ھے.اگر میری طرف سے کوئی سختی وغیرہ ھوگئی ھو تو درگذر کی اپیل ھے.اللہ تعالی سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
والسلام.
آنوار صھاھ ڑاسھدی صھااب، ُععر ضھاندا کا جہ ںئسکھا ھای، وہ آللاما آابید صیندھی ک ںئسکھع سع تاس-ھعع سھئدا ھای۔ آللاما آابید صیندھی ک نئسکھع معین یزافا ھای، لعکین پععر جھاندا ک نئسکھع معین یزافا ناھی ھای۔ ےاھا تہ گادباد ُععر ضھاندا ک نئسکھع معین لاگ راھی ھای، نا ک آللاما آابید ک۔
 
Top