• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معرکۂ عظیم از رضی الدین سیّد

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مندرجہ بالا علامات کا خلاصہ
یہودیوں کی جانب سے دجال کی آمد کے لئے اسٹیج کی تیاریوں کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
(ا) عالمی بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (imf) کے ذریعے عالم اسلام کو مکمل طور پر یہودی قرضے میں جکڑ لینا۔
(ب) تیل کی دولت پر قبضے کے لئے امریکی افواج کو سعودی عرب اور عراق میں لا کر بٹھا دینا۔
(ج) عثمانی خلافت کا بالجبر خاتمہ کردینا۔
(د) مسلم حکومتوں کی جانب سے تمام اسلامی تحریکوں پر پابندی کی خبریں آنا نیز غیر ملکی طلباء کو گرفتار کرنا۔
(ہ) کشمیر کے حل کی صورت میں ایک اور اسرائیل نما ریاست کے قیام کی کوشش کرنا۔
(و) افغانستان پر قبضہ کرلینا۔
(ز) شہر یروشلم کو جبراً ہتھیا لینا۔
(ح) دنیا بھر میں موجود نمایاں بنیاد پرستوں کو گرفتار کر کے امریکہ طلب کرنا۔یہ تمام ایسے معاملات ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی دجال کی آمد کے لئے فضا تیار کررہے ہیں۔
ضروری ہے کہ ہم اس موقع پر یہودیوں کی مقدس کتاب ''تنک'' (tanak) کے ایک باب کا ترجمہ پیش کردیں جو کچھ اس طرح ہے:
''میں تم کو قوموں میں سے نکال لوں گا اور تمام ملکوں سے جمع کروں گا اور تمہارے اپنے ملک میں پہنچا دوں گا ... تم میرے حکم پر چلو گے اور میرے قانون کو مان کر اس کے مطابق عمل کرو گے، تم اس ملک میں جا بسو گے جو میں نے تمہارے آباؤ اجداد کو دیا تھا۔''
یہ ترجمہ واضح طور پر اسرائیل کے قیام کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے یہودی ملکوں ملکوں سے کھینچ کر اسرائیل میں جا رہے ہیں۔
یہ ٹھیک وہی بات ہے جسے قرآن پاک نے بیان کیا ہے (ترجمہ) ''اور ہم نے بنی اسرائیل سے کہہ دیا ہے کہ اب تم اس سرزمین میں رہو۔ پھر جب آخرت کا وعدہ ہو گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے حاضر کردیں گے۔'' (بنی اسرائیل آیت ۱۰۴) قرآن پاک اور تنک کی پیشین گوئیوں میں کتنی حیرت انگیز مماثلت ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مسلمانوں کی انفرادی عبادات
بھی خطرے کی زد میں
پاکستان کا تو خیر معاملہ یہ رہا ہے کہ یہاں قیام پاکستان کے بعد ہی سے مقتدر طبقے کو دین کا نام سننا پسند نہ تھا۔ انہیں دین و مذہب کے نام سے سخت وحشت ہوتی تھی۔ کتنی عجب بات ہے کہ وہ ملک جو اسلام کے نعرے پر حاصل کیا گیا تھا اور جس کی بنیاد ہی نظریہ پاکستان رہی اسی سرزمین میں دین کو برسرِ اقتدار آنے سے روکنے کے لئے ہر ممکن جتن اختیار کئے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ملک کو کوئی خالص دینی آئین میسر نہ آسکا ۔ اور اسی جرم میں ممتاز عالم دین مولانا مودودی مرحوم کو پھانسی کی سزا بھی سنائی گئی۔
افغانستان میں طالبان کی بظاہر ''سرکوبی'' کے بعد حالات جس تیزی سے بدل گئے ہیں اور جس شدت کے ساتھ مغرب کو اسلام سے وحشت ہوتی جارہی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں مسلمانوں کے لئے پوری دنیا میں حالات بہت کٹھن ہوجائیں گے۔ دجالی قوتیں مسلمانوں کی ایک ایک حرکت پر انفرادی و اجتماعی دونوں لحاظ سے نظریں رکھ رہی ہوں گی۔ چنانچہ اللہ کے بندوں کے لئے اس کے بعد دین کی خاطر کام کرنا دشوار بنا دیا جائے گا اور پھر ان کی ذاتی عبادات بھی خطرے کی زد میں لے آئی جائیں گی۔ موجودہ حالات میں اس کی کچھ جھلکیاں ہمیں نظر بھی آرہی ہیں۔ مثلاً ان صیہونی طاقتوں نے اسلام کے بنیادی فریضے ''جہاد'' کو دہشت گردی کا نام دے کر عالمی طور پر پہلے ہی بدنام کردیا ہے۔
آج دنیا بھر کے خطوں سے مسلمانوں کو ''دہشت گرد'' کا نام دے کر چن چن کر تلاش کیا جا رہا ہے۔ ان کی اپنی امریکہ نواز حکومتیں انہیں پکڑ پکڑ کر بلا جھجک امریکہ کے حوالے کررہی ہیں۔ اس ضمن میں ہر ایئرپورٹ پر عربی، فلسطینی، سوڈانی، پاکستانی اور دیگر مسلم ممالک کے افراد شک و شبے میں حراست میں لئے جا رہے ہیں اور ان سے اسامہ بن لادن، القاعدہ، ملا عمر، طالبان اور دہشت گردی سے کھلا یا چھپا تعلق دریافت کیا جا رہا ہے۔
اس دوران اگر کسی عالم دین یا تحریکی شخصیت نے اتفاق سے افغانستان کا سفر بھی کیا ہو تو گویا اس کی تو شامت ہی آجاتی ہے۔ پھر تو وہ سو فیصد دہشت گرد اور القائدہ کا رکن شمار ہوتا ہے۔ دوسری طرف طلبہ کے نصاب سے یہود دشمن اور جہاد سے متعلق آیات مسلسل نکالی جا رہی ہیں۔ (واضح رہے کہ یہ کام ہر مسلم ملک میں یکسانی سے انجام دیا جا رہا ہے)۔
یہ وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہودی طاقتیں آئندہ کسی متحرک دینی شخصیت کو دین کا کام کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتیں۔ اس مقصد کے لئے وہ متعلقہ حکومتوں کو احکامات جاری کرتی ہیں اور پھر وہ حکومتیں اس پر من و عن عمل کرتی ہیں۔ تنگ آ کر اگر یہ شخصیات کسی غیر ملک میں منتقل ہونا چاہیں تب بھی ایئرپورٹ پر fia اور fbi کے افسران پاسپورٹ کی گہری چھان بین کر کے اسے گرفتار کرلیتے ہیں۔ کیا ہم نہیں دیکھتے کہ کس طرح مغربی ایئرپورٹس پر باشرع داڑھی اور جبہ و ٹوپی والے مسلمان اور اسکارف و برقعہ پہننے والی خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور انہیں علیحدہ لے جا کر تفصیلی تفتیش کی جاتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اب یہودی قوتیں اس سے آگے بڑھ کر اپنے اقدامات کریں گی اور مسلمانوں کی انفرادی عبادات مثلاً نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر بھی پابندی لگانے کے احکامات جاری کریں گی۔ جسے شاید ہماری مسلم حکومتیں خوشی یا ناخوشی سے قبول کرلیں گی۔ انہیںہماری ذاتی عبادتوں سے بھی دہشت گردی کی مہک آتی ہے۔ حکم دیا جائے گا کہ مسجدیں توڑ دو، حج کی پروازیں بند کردو، مسلمانوں کو عمرے کے لئے ویزے جاری کرنا ختم کردو اور روزے رکھوانے کا سلسلہ بند کردو وغیرہ ۔ اورشایدمسلم حکومتیں ان احکامات کی تعمیل میں آناً فاناً مصروف ہوجائیں گی۔ جبریہ ہدایات جاری کی جائیں گی کہ قرآن پاک سے جہاد کی آیات نکال دی جائیں جیسا کہ حال ہی میں امریکی یہودی نے وہاں کے میڈیا پر تجویز دی تھی کہ خانہ کعبہ پر بم گرا کر اسے ہمیشہ کے لئے برباد کردیا جائے۔ اس کے بعد ہماری تابعدار حکومتیں بڑے خوبصورت دلائل کے ساتھ ان آیا ت کو خارج کرنے کے لئے مہم شروع کردیں گی۔ یہودی طاقتیں جانتی ہیں کہ مسلمانوں کو دینی غذا مدرسوں ہی سے فراہم ہوتی ہے اس لئے انہیں بند کردینا ہی مسئلے کا اصل حل ہے۔ یہ وہ ہزار سالہ پرانے مدرسے ہیں جنہیں انگریزوں اور فرانسیسیوں نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں کبھی بند کرنے کا نہ سوچا تھاحالانکہ انہی مدرسوں میں سلطان صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے نزدیک اس دور میں ان اداروں کے اساتذہ و طلبہ بالکل بے ضرر قسم کے لوگ تھے۔ لیکن آج یہی لوگ صیہونیوں کو سب سے زیادہ خطرناک نظر آرہے ہیں۔ یہ کوئی بعید امر نہیں ہے کہ امریکی و یہودی طاقتیں مسلمانوں کو سیٹلائٹ کے ذریعے سحری کرتے اور گھروں میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھیں اور میزائل کے ذریعے سے انہیں سزا دینے کی کوشش کریں۔ اس کے باوجود جو مسلمان ان احکامات کی پرواہ نہیں کریں گے اور اپنے فرائض و عبادات پر عمل کے لئے اصرار کریں گے تو ان کے لئے سخت سزائیں تجویز کی جائیں گی۔ انہیں ملازمتوں سے برخواست کیا جائے گا۔ ان کے بینک اکاؤنٹس منجمد کئے جائیں گے اور انہیں جیل کی سزائیں سنائی جائیں گی وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ مغرب کے اندر رہنے والے مسلمانوں کو بھی جہاں تحریر و تقریر کی آزادی اور جمہوریت کا بہت چلن ہے اور جہاں اختلاف رائے کو حق سمجھ کر برداشت کیا جاتا ہے۔ وہاں بھی یہ تمام کارروائیاں بغیر کسی رو رعایت کے دہرائی جائیں گی۔ یہ وہ دور ہو گا جو مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ کٹھن ہو گا۔ اسی لئے اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ''قیامت سے پہلے دو خیمے ہوں گے جن میں سے ایک میں نفاق اور دوسرے میں اسلام ہو گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نفاق کے خیمے میں 90 فیصد اور اسلام کے خیمے میں صرف 10 فیصد لوگ ہوں گے۔ (ابو دائود)
چنانچہ دجال کے خاتمے تک اللہ کے یہ دشمن مسلمانوں کے خلاف اسی طرح دہشت گردی کرتے رہیں گے تاکہ انہیں دباؤ میں رکھ سکیں۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ قابل رحم صورت حال دور خلافت کے خاتمے ہی سے جاری ہے۔ جبر کی حکمرانی کا موجودہ دور، خلافت کے احیاء کے آخری دور تک جاری رہے گا۔ جس کے بعد دنیا پر اسلام کی حکمرانی کا دور واپس آئے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بہرحال ان تابناک ایام کے آنے سے پہلے تک، موجودہ جبریہ دور سے گزرنے کے باعث ایک طرف مومنوں کو زبردست چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور دوسری طرف اس کی وجہ سے مومنوں اور منافقوں کے درمیان شناخت آسان ہوتی جا رہی ہے۔ نفاق نے آج کے اکثر و بیشتر مسلمانوں کے دل میں گھر کر لیاہے۔
مسلمانوں کی وعدہ شدہ آخری کامیابی حاصل ہونے تک یوں تو بہت ساری نشانیاں طویل عرصے سے ہمارے سامنے آچکی ہیں۔ تاہم بہت ساری نشانیاں ابھی ظاہر ہونی باقی ہیں۔ جن آزمائشوں سے امت مسلمہ کو دوچار ہونا پڑے گا ان میں سے چند یہ ہیں :
٭ معصوم مسلم مرد، عورتیں اور بچے ہلاک کئے جائیں گے لیکن الٹا ہم ہی کو قاتل اوربربریت پسند کہا جائے گا اور اس طرح مسلمانوں کے قتل عام کو جائز قرار دے دیا جائے گا۔
٭ مسلمانوں کو کچلا اور دبایا جائے گا، ان کے خلاف سازشیں کی جائیں گی۔ اور پھر بھی انہیں کو دہشت گرد کہہ کر پکارا جائے گا۔ دہشت گردی اور ظلم و ستم عالمی ثقافت کا حصہ بن جائیں گے۔
٭ تمام مسلمان ''مشکوک'' کہلائیں گے اور جو لوگ ان سے اظہار ہمدردی کریں گے وہ بھی ''ہدف'' سمجھے جائیں گے۔
٭ ہمارے ہی ممالک لوٹے اور برباد کئے جائیں گے مگر اس کے باوجود ہمیں ہی مجرم کہہ کر پکارا جائے گا۔
٭ ''اقتصادی پابندیوں'' کے نام سے اکثر مسلم ممالک کا گھیراؤ کیا جائے گا۔
٭ اللہ تعالیٰ کی دشمن طاقتیں مسلم ممالک کے دولت اور وسائل پر قبضہ کر کے خود مسلم ممالک ہی کے خلاف استعمال کریں گی۔
٭ منافقین اللہ کے دشمنوں کے ساتھ مل کر ان کی مدد کریں گے اور مومنوں کے خلاف غلط بیانیوں کا سہارا لیں گے۔
٭ مسلمانوں کی اکثریت بے بسی کے ساتھ بس اتنا ہی کہہ کر رہ جائے گی کہ ''ہم کیا کریں۔ ہم تو کچھ بھی نہیں کرسکتے۔''
٭ کفر کا رعب بڑھتا رہے گا یہاں تک کہ یہ بڑھتے بڑھتے دجال کی شکل میں ظاہر ہونے لگے گا۔ یہ دجال جھوٹ، فریب، استحصال اور ظلم میں ماہر ترین ہو گا۔
٭ مسلمانوں کو اس وقت اپنے ایمان پر چلنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
غالباً یہی وہ حالات ہیں جن کے بارے میں نبی کریم e نے آج سے پندرہ سو سال قبل پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ''وہ ایسی صورت حال ہوگی جس میں ایک شخص اگر صبح کو مسلمان ہو گا تو شام کو کافر ہوجائے گا اور شام کو مسلمان ہو گا تو صبح کو کافر ہوجائے گا۔ پھر آپ e نے فرمایا تھا کہ ''عنقریب ایسے فتنے جنم لیں گے جس میں بیٹھنے والا کھڑے رہنے والے سے، کھڑا رہنے والا چلنے والے سے، اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا۔'' پھر آپ e نے آگاہ کیا کہ ''جو ان فتنوں کی طرف جھانکے گا وہ فتنے اس کی طرف دوڑیں گے۔ لہٰذا جو شخص بھی کوئی پناہ گاہ پائے ، وہ اس میں چھپ جائے۔'' (بخاری و مسلم)
اس انتہائی آزمائش والے دور میں اہل ایمان کی نوے فیصد اکثریت نفاق کے خیمے میں داخل ہوجائے گی جب کہ صرف دس فیصد ایمان والے باقی رہ جائیں گے اور وہ اپنے ایمان کے خیمے میں منتقل ہوجائیں گے۔
یہ وہ سخت آزمائشوں کا دور ہو گا جس میں سے مسلمانوں کو لازماً گزرنا ہو گا۔ یہودی بھی مسلمانوں کو اس مصیبت میں مبتلا کروانے کے لئے اس وقت کا بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ وہ عالمی سطح پر مسلسل ایسے اقدامات کررہے ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کی نہ صرف تمام تحریکیں ختم ہوجائیں بلکہ ان کی انفرادی و ذاتی عبادات بھی باقی نہ رہیں۔ کیونکہ ان کا مسیح دجال ان کے بقول انہیں سرخروئی اور تمام عالم پر غلبہ دلائے گا۔
یہ تمام علامات قرب قیامت کی ہیں۔ مسلمانوں کو اس وقت سے بچنے کے لئے اللہ سے توبہ کرنی چاہئے اور اپنے ایمان کو مضبوط کرنے کی فکر کرنی چاہئے۔ تاہم فی الوقت مسلمان محض دنیوی چمک دمک پر ریجھے ہوئے ہیں اور اس سے آگے کچھ بھی سوچنے پر تیار نہیں ہیں۔ حالانکہ کتنی ہولناک صورت حال تیزی سے ان کے قریب بڑھتی چلی آرہی ہے۔ اپنے نزدیک ہم سب کچھ ہیں سوائے مسلمان کے، اور غیروں کے نزدیک ہم کچھ بھی نہیں ہیں سوائے مسلمان کے۔ کیسا عجیب تضاد ہے مسلم اور غیر مسلم کے طرز عمل میں!
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسرائیلی معیشت۔ زوال کا شکار
اس وقت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کی کل آبادی صرف ایک کروڑ پچاس لاکھ ہے جس میں سے 48 لاکھ یہودی ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اور تقریباً باسٹھ لاکھ یہودی اسرائیل میں آباد ہیں۔ اسرائیل کی آبادی پہلے اور بھی کم تھی لیکن افغان روس جنگ میں روس کی شکست و ریخت کے بعد روس کی ریاستوں سے یہودی اسرائیل پہنچ رہے تھے۔ اس دور میں دن رات کے حساب سے تقریبا 5 لاکھ یہودی ہجرت کر کے مستقل طور قیام کی خاطر اسرائیل وارد ہوئے تھے۔ اس طرح ان کی تعداد میں وہاں بڑا اضافہ ہوا۔ البتہ امریکی یہودیوں کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ تمام تر ترغیب اور تحریص اور اسرائیلی ریاست کے مذہبی تقدس کا درجہ رکھنے کے باوجود امریکی یہودی اسرائیل آنے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کے وفادار ضرور ہیں اور اس کی تمام تر مالی امداد بھی کریں گے لیکن امریکہ چھوڑ کر اسرائیل میں جا بسنا ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ انہیں امریکی سہولتیں، آزادی اور ذاتی مفاد کی تسکین امریکہ سے نکلنے پر آمادہ نہیں کرتی۔
اس وقت مقبوضہ فلسطین میں مسلمانوں کی تعداد 2000 کے اعداد و شمار کے مطابق 37 لاکھ جبکہ اوپر بتائی گئی حقیقت کے لحاظ سے فلسطین میں یہودیوں کی تعداد 62 لاکھ ہے جو فلسطینیوں کی نسبت174فیصد ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اپنے تمام تر اسلحے، ساز و سامان اور عالمی تعاون کے باوجود وہ آج تک ان 37 لاکھ فلسطینیوں پر قابو نہیں پا سکے ہیں جبکہ غریب فلسطینی نہتے اور دربدر بھی ہیں۔ تاریخ کا یہ حیرت انگیز کمال ہے اور اس کی واحد وجہ مسلمانوں کا قدرتی رعب ہے۔ جہاد کرنے والے مسلمانوںکے اندر اللہ تعالیٰ قدرتی طور پر ایک ایسا رُعب ڈال دیتا ہے کہ بڑی بڑی طاقتور افواج بھی ان سے غیر محسوس طور پر مرعوب رہنے لگتی ہیں۔ مسلمانوں کا رُعب یہودیوں کے لئے ایک لحاظ سے deterrent کا کام دے رہا ہے، ورنہ 62 لاکھ یہودی ان 26فیصد فلسطینیوں کو نہ جانے کب کا تباہ و برباد کر چکے ہوتے۔
اسرائیل کا معاشی بحران ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور وہاں کی سرکردہ تجارتی شخصیات مطالبہ کر رہی ہیں کہ تباہی کے خطرے سے دوچار ملکی معیشت کو بچانے کے لئے ایک متحدہ قومی حکومت بہت ضروری ہے۔ امریکہ اسرائیل کو ہر سال سوا تین ارب ڈالر کی خطیر رقم بطور امداد فراہم کرتا ہے تاہم اس کے باوجود اسرائیلی حکومت امریکہ سے مسلسل مزید مالی تعاون مانگتی رہتی ہے۔ گذشتہ عشرے میں صیہونیوں کے خلاف جو دو انتفاضے شروع ہوئے تھے، اس نے اسرائیلی معیشت پر کاری ضربیں لگائی ہیں جن کے باعث اسرائیل کی سیاحت، زراعت، تعمیرات اور صنعت کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اسرائیل میں بے روزگاری کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اے این پی کی رپورٹ کے لحاظ سے اگست 2003ء تک اسرائیل کے 65 فیصد تجارتی مراکز بند ہو چکے تھے جس کی وجہ سے اُس سال 48 ہزار افراد ملازمتوں سے فارغ کئے گئے تھے۔ اب حال ہی میں حماس کی قیادت نے اعلان کیا ہے اگر ان کی منتخب حکومت کو تباہ و برباد کیا گیا تو وہ اسرائیل میں ایک بار پھر تیسری انتفاضہ شروع کر دے گی۔ اسرائیلی شہریوں پر خودکش بم دھماکوں کا اتنا بھاری خوف طاری ہے کہ شاپنگ علاقے اور تفریحی مقامات عام طور پر خالی نظر آتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مذکورہ انتفاضوں کے باعث اسرائیل کے فوجی اخراجات بھی حد سے سوا ہو گئے ہیں۔ میجر جنرل یوزی دریان نے جو 2001ء میں اسرائیل کی نیشنل سیکورٹی کاؤنسل کا سربراہ تھا، ستمبر 2001ء میں وضاحت کی تھی کہ انتفاضہ کی تحریک کی وجہ سے اسرائیل کو ہر سال 3 ارب ڈال کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی فوجیوں میں بھی بغاوت کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی فوجیوں نے اسرائیلی حکومت کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
اسرائیلی معیشت کے زوال کی ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی تیار کردہ اکثر مصنوعات مسلم دنیا کے 56 ممالک میں سے محض دو یا تین ممالک میں برآمد کی جاتی ہیں کیونکہ ان کے سفارتی تعلقات اسرائیل کے ساتھ قائم نہیں ہیں۔ روزنامہ انقلاب بمبئی کے ایک تجزئیے کے مطابق اسرائیل میں دنیا بھر کے یہودیوں کی آمد کے ساتھ ساتھ ان کی ایک بڑی تعداد اب خوابوں کے اپنے اس ملک سے ترک وطن کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ یہ یہودی خیال کرتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت کا ہر شہری کو لازمی فوجی خدمت انجام دینے کا قانون ان کے ساتھ زیادتی ہے جس کی بنیاد پر ہر شہری کو اسرائیلی فوج کے ساتھ فلسطینیوں اور لبنانیوں وغیرہ سے لڑنے کیلئے جنگی کاروائیوں میں لازماً حصہ لینا ہوتا ہے۔ پسلوانیا (امریکہ) کے ایک پروفیسر ایان لیسٹک کے مطابق اگر فلسطینی انتفاضہ تحریک یونہی جاری رہی تو اسرائیل سے بھاگنے والے یہودیوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جائے گی۔
یورپی ممالک کی طرح ہندوستان کے یہودی بھی بھاری تعداد میں اسرائیل آکر آباد ہوئے تھے لیکن ان کے ساتھ اس حکومت نے متعصبانہ سلوک کیا اور انہیں غیرآباد اور غیر سہولیاتی علاقوں میں بسایا گیا۔ حکومت کی اس غیر منصفانہ پالیسی پر ہیبرو یونیورسٹی کی ڈاکٹر سیلوابیل خاصی برہم نظر آتی ہیں۔ انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یہودیوں کو تو یروشلم اور تل ابیب جیسے شہروں میں بسایا جاتا ہے جبکہ ہندوستان سے آئے ہوئے یہودیوں کو دھول اور گندگی سے بھرے چھوٹے چھوٹے قصباتی علاقوں میں آباد کیا جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ فلسطینی علاقوں سے قریب ان چھوٹے شہروں میں اکثر بمباری بھی ہوتی رہتی ہے۔ 1970ء میں اسرائیل کی طرف ہجرت کرنے والے اسرائیلی رہنما لاریمیڈ کے مطابق ''ہندوستان میں ہم کافی خوش تھے۔ وہاں ہمیں کبھی اپنے حقوق کی لڑائی نہیں لڑنی پڑی لیکن یہاں ہمیں ہر روز یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ اور یہ سب کچھ ہمارے کالے رنگ کی وجہ سے ہوتا ہے''۔ ایک دوسرا بھارتی یہودی انجینئر یووال ابراہیم کہتا ہے کہ ''اگر آپ گورے یہودی نہیں ہیں تو آپ کے ساتھ درجہ دوئم کے شہری جیسا برتاؤ کیا جائے گا''۔ (بحوالہ سہ روز دعوت، نئی دہلی 7 نومبر 2006ء)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
قارئین کے لئے یہ بات بھی حیرت و مسرت کا باعث ہو گی کہ دنیا میں یہودیوں کی آبادی ویسے ہی کم ہو رہی ہے۔ یہودی افراد عیسائیوں کے ساتھ باہم شادیاں کرتے ہیں لیکن چونکہ عیسائیوں میں مذہب کی گرفت بہت کمزور ہے، اس لئے پیدا ہونے والی اولاد 30 فیصد لادین ہے۔ 40 فیصد عیسائی اور صرف 30 فیصد یہودی رہتی ہے۔ بی بی سی کے ایک جائزے کے مطابق اسرائیل میں آباد فلسطینی مسلمانوں میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر یہی حال رہا تو آئندہ دس سے پندرہ برسوں میں یہودی ان علاقوںمیں اقلیت بن کر رہ جائیں گے جہاں اسرائیل نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے۔ بی بی سی کا کہنا ہے کہ آبادی میں اضافے کی اس جنگ میں اسرائیل کی شکست واضح ہے۔ (پندرہ روزہ جہاد کشمیر۔ راولپنڈی۔ 6 ستمبر2006ء بحوالہ انقلاب بمبئی)۔
سینٹرل بینک آف اسرائیل نے نومبر 2002ء میں حکومت کو متنبہ کر دیا تھا کہ 2003ء میں اسرائیل کو معاشی ابتری (Resurrection) کا سامنا کرتے ہوئے لگاتار تین سال ہو جائیں گے۔ اسرائیلی معیشت کی قسمت پھیرنے کے لئے حکومتی مشیروں کی نظر یں صرف امریکا کی امداد پر جمی ہوئی ہیں لیکن اسرائیل کے خلاف بار بار اٹھنے والی انتفاضہ اسرائیلی حکومت کی ہر کوشش پر پانی پھیر دیتی ہے۔ جس طرح کا بھاری معاشی خسارہ اسرائیل کو درپیش ہے اور جس طرح اسرائیلیوں کی ذاتی خوشحالی اور تحفظ خطرے میں پڑے ہوئے ہیں، اس کا لازمی نتیجہ یہی نکل رہا ہے کہ یہودیوں کی بہت بڑی تعداد اب اسرائیل سے اپنے آبائی وطن پرواز کر رہی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امریکی یہودی تنظیمیں اور ان کا کردار
یہ بات تو اب بہت عام ہو چکی ہے کہ امریکہ آج مکمل طور پر اسرائیل کی گرفت میں ہے بلکہ ایک سابق امریکی فوجی افسر کے بقول پینٹاگون تو اسرائیل کے لئے ایک گھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ میں اس وقت کئی یہودی تنظیمیں بیک وقت کام کر رہی ہیں جن سب کے مقاصد ایک ہی ہیں۔ (۱) امریکی حکومت اور پارلیمنٹ کو مکمل طور پر یہودی گرفت میں رکھیں۔ (۲) اسرائیل مخالف امریکیوں کے لئے زندگی دشوار کر دیں (اسی لئے امریکہ میں اسرائیل کے خلاف بات کرتے ہوئے ہر رکنِ کانگریس سخت کانپتا ہے)۔ (۳) اسرائیل کے لئے امریکی حکومت سے زیادہ سے زیادہ اسلحہ اور امداد کی ترسیل کروائی جائے۔ (۴)۔ امریکی عوام سے کروڑوں ڈالر عطیات جمع کئے جائیں اور (۵) مسلم ممالک کے خلاف کریک ڈاؤن پر ہر امریکی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے۔
یہ یہودی تنظیمیں امریکہ میں آباد یہودیوں کے اندر اس انداز میں کام کرتی ہیں کہ ان میں صیہونی مقاصد کے ساتھ لگن پیدا ہو سکے اور وہ یہ باور کر لیں کہ اسرائیل ہی ان کی زندگی کا محور و مرکز ہے۔ ایک امریکی یہودی تنظیم ''امریکن زائنسٹ فیڈریشن'' مختلف شہروں میں عوامی اجتماعات کا انعقاد کرتی ہے جن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ غیر یہودیوں سمیت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اسرائیل کا بطور ریاست تصور پہنچایا جائے اور یروشلم کو اسرائیل کا سرکاری دارالحکومت تسلیم کرانے کے لئے عوامی دباؤ بڑھایا جائے۔ اس تنظیم نے ایک صیہونی کارواں بھی تشکیل دیا ہے جو ہر سال امریکہ کے بیس شہروں کا دورہ کرتا ہے اور اسرائیل کے حق میں فضا ہموار کرتا ہے۔ بعض یہودی تنظیموں نے تعلیمی اداروں میں اپنے اثر و نفوذ کے لئے اکیڈمک کونسلیں قائم کر رکھی ہیں جن کے ذریعے وہ یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو اسرائیل کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔ امریکہ ہی میں یہودی خواتین کی بھی ایک تنظیم (حداثہ) کام کر رہی ہے جس کا اثر و نفوذ اسکول کے طلبہ و طالبات میں ہے۔ حداثہ نوجوانوں کی قیادت کے لئے تربیتی کیمپ بھی منعقد کرتی ہے اور تیرہ سال سے زائد عمر کے بچوں کے لئے مسلم گرما میں ''اسرائیل کی سیر'' کا انتظام بھی کرواتی ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
امریکہ کی یہودی سماجی انجمنوں کا ایک بنیادی کام یہ رہا ہے کہ امریکی معاشرے میں یہودیوں کے خلاف تعصبات یا شہری حقوق کی خلاف ورزی کی سرعام مذمت کی جائے۔ لہٰذا اب یہ انجمنیں ان افراد یا شعبوں کو بھی ہدف تنقید بنانے سے نہیں چوکتیں جو اسرائیل پر معمولی سی بھی نکتہ چینی کرتے ہیں۔ ان تنظیموں کے عہدیدار، جو خود بھی بااثر امریکی یہودی ہوتے ہیں، امریکی حکومت اور انتظامیہ کے بڑوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور انہیں اپنی کانفرنسوں میں مدعو کرتے ہیں جہاں ان سے صیہونیت کے حق میں تقریر کروائی جاتی ہیں۔ ان تقریروں کے عوض یہودی تنظیمیں ان امریکی سیاست دانوں کو بھاری رقوم بطور ''اعزازیہ'' ادا کرتی ہیں۔ امریکی جیوئش کمیٹی کے صدر بلاسٹن نے اب سے کئی عشرے قبل ڈیوڈبن گوریان (جو بعد میں اسرائیل کا وزیر اعظم بنا) کے ساتھ ایک بیان میں کہا: ''کسی کو اسرائیل کے لئے ہماری محبت کو غلط نہیں سمجھنا چاہیئے۔ ہم دن رات اس محبت کااظہار کرتے رہیں گے۔ ہم اسرائیل کے لئے اپنی پوری قوت، اپنی ذہنی اور بدنی صلاحیتوں سے کام کریں گے۔ ہم اپنے تمام وسائل اور توانائی کو بروئے کار لائیں گے۔ اسرائیل سے بڑھ کر ہماری کوئی ترجیح نہیں ہے''۔ ایک دوسری یہودی تنظیم جس سے گذشتہ دنوں پاکستان کے صدر مشرف نے بھی خطاب کیا تھا، یعنی امریکن جیوئش کانگریس، رائے عامہ کی تشکیل کرنے والوں کے اشتراک و تعاون کے ذریعے یہ باور کروانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے کہ اقتصادی اور فوجی اعتبار سے ایک مضبوط اسرائیل مشرقِ وسطی کے امن اور امریکہ کے نازک دفاعی مفادات کے تحفظ کے لئے ناگزیر ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ہم وہائٹ ہاؤس میں پیدا ہونے والے ہر اس رجحان کے خلاف کام کرتے رہیں گے جو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی روح کے منافی ہو۔1976ء میں اسی امریکی یہودی کانگریس نے نیویارک ٹائمز میں پورے صفحے کا ایک اشتہار شائع کروایا جس کا عنوان تھا: ''یہودی ہونے پر فخر کیجئے''۔
یہ کانگریس امریکہ کے بڑے بڑے شہروں کے مئیر حضرات کو یروشلم کے دور پر بھیجنے کے انتظامات کرتی ہے۔ ان دوروں پر جانے والوں کو کانفرنسوں میں سب سے پہلے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ پورے یروشلم میں اسرائیل کی بالادستی کیوں ضروری ہے؟ اس کے بعد جب یہ امریکی مئیر دوروں سے واپس آتے ہیں تو وہ امریکی عوام اور انتظامیہ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں۔ یہ کانگریس اپنے ارکان پر زور دیتی ہے کہ جب حالات معمول پر ہوں تو ذرائع ابلاغ کے اہم افراد اور کالم نگاروں سے ذاتی سطح پر تعلقات استوار کریں، اس طرح دوررس نتائج پیدا ہوں گے اور ''بحران'' کے دنوں میں ان تعلقات کو ضرورت کے مطابق کام میں لایا جا سکے گا۔ اس کانگریس کے تحت ذرائع ابلاغ سے متعلق شخصیات کو اسرائیل کے دوروں کا بھی بندوبست کرایا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ اخبارات میں اشتہارات صرف اسی صورت میں دیئے جائیں جب آپ کا نقطہ نظر شائع کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں۔
 
Top