• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معرکۂ عظیم از رضی الدین سیّد

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک اور معروف یہودی تنظیم اینٹی ڈی فیمیشن لیگ (adf) کی کاروائیوں کی تعریف کرتے ہوئے سابق امریکی صدر ہنری ٹرومین نے اسے ''امریکی عوام کے لئے کھلا ہوا گلاب'' قرار دیا۔ ایک اور صدر لنڈن بی جانسن نے اس کی ستائش کے لئے حسب ذیل الفاظ ادا کئے: ''آپ نے جہاں جہاں بھی اپنی شمع روشن کی، وہاں تحمل، برداشت، شائستگی، اور فیاضی جگمگا اٹھی اور تعصب اور ہٹ دھرمی نے اپنا منہ چھپا لیا''۔ (اس بیان کی شاعرانہ نوعیت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے)۔ اسی adf نے ایک بار اسرائیلی صحافی اور رکن پارلیمنٹ (kenesset) ''یوری ایویزی'' کے خلاف پورا محاذ کھول دیا جو 1970ء میں امریکی دورے پر تھا۔ adf نے ملحقہ یہودی تنظیموں کو ہدایت کی کہ اسے نہ تو اپنے کسی پروگرام میں مدعو کریں اور نہ کسی اور تنظیم کے ساتھ مل کر اس کی کوئی تقریر کرائیں۔ ہدایات میں مذکورہ اسرائیلی صحافی کو صیہونیت اور یہودیت کے نظریئے کا مخالف قرار دیا گیا تھا اورکہا گیا تھا کہ یہ صحافی ایسی باتیں کہہ سکتا ہے جو یہودیوں کے لئے تکلیف دہ اور پریشان کن ثابت ہوں۔
1982ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران نیویارک ٹائمز نے ایک اداریہ لکھا جس میں اس نے اسرائیل کو اس بات پر سخت سست کہا تھا کہ اس نے اس جنگ میں امریکیوں کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔ اس کے جواب میں anti defamation league (adf) نے ایک تجزیہ شائع کروایا جس میں کہا گیا تھا کہ شام اور سعودی عرب اسرائیل کی قیمت پر امریکہ سے مفادات حاصل کررہے ہیں۔ اضافی طور پر اسی نیویارک ٹائمز میں ایک اشتہار شائع کروایا گیا جس کے الفاظ تھے کہ ''مشرق وسطیٰ کے 36 سال پرانے مرض اور عربوں کی طرف سے باربار مسترد کئے جانے کے باعث ''امن'' بالآخر چل بسا۔ امن کی اس موت پر صرف adf ہی کو ماتم نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان تمام لوگوں کو بھی آنسو بہانے چاہئیں جو بربریت پر تہذیب کی فتح کے قائل ہیں''۔
ایک اور اسرائیلی تنظیم ''ماعا'' کے سابقہ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ٹھامسن ڈائن سرعام یہ کہتا رہا کہ ہم اپنی سیاسی قوت کا صرف زبانی ہی اظہار نہیں کرتے بلکہ اسے عمل میں بھی لاتے ہیں۔ تھامسن ڈائن اس تصور کی سختی سے مخالفت کرتا تھا کہ امریکی یہودیوں کو اسرائیل کی حمایت میں دبے پاؤں ہی چلنا چاہیئے۔ اور اسرائیل و یہودیت کی مخالفت کو بلاوجہ ابھارنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ امریکی ہاؤس آف ریپریزنیٹیٹیو کی اُمور خارجہ کی کمیٹی کا ڈیموکریٹ رکن مارون، اسرائیل کو مریکی امداد پر زیرلب نکتہ چینی کرتا رہتا تھا۔ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق اس رکن نے بتایا کہ وہ جب بھی اسرائیلی امداد پر معمولی سی بھی تنقید کرتا تھا تو فوراً ہی ''ماعا'' (یہودی امریکی تنظیم) کا ایک وفد اس سے ملنے آجاتا تھا۔ اس رکن نے مزید بتایا کہ وہ بات تو ضرور اسرائیل کی امداد کے خلاف کرتا ہے لیکن ووٹ وہ بالآخر اسرائیل کے حق میں ہی استعمال کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس نے ''ماعا'' کے رکن کو بتایا کہ اس نے ایک بار بھی ان کے مفاد کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ لیکن وفد کے ارکان نے کہا کہ فلاں موقع پر آپ اسرائیل کے حق میں ووٹنگ سے غیر حاضر رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ''ماعا'' کتنی باخبر ہے! ضرورت کے وقت ماعا جذباتی دباؤ بھی ڈالتی ہے۔ گذشتہ ایام میں کانگریس میںجب سعودی عرب کو اواکس طیارے دینے کے سوال پر بحث ہو رہی تھی تو اس دوران ماعا نے ہر رکن کانگریس کو ڈاک سے ''ہولوکاسٹ'' نامی ناول کی ایک ایک جلد فراہم کی۔ (واضح رہے کہ یہ ناول بے حد جذباتی مناظر پیش کرتا ہے)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کانگریس کے انتخاب پر یہودی کتنا اثر رکھتے ہیں؟ اس کی ایک مثال ''اسٹیونسن'' کی ہے۔ اس نے اسرائیل کے خلاف جس معاندانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا، اس کے نتیجے میں 1982ء کے انتخاب میں ریاست الی نوائس کے یہودی ووٹروں نے اسے ووٹ دینے سے انکار کر دیا اور یوں وہ انتخاب ہار گیا۔ اسی طرح اسرائیلی طرز عمل کے مخالف پندرہ بار کے منتخب امریکی سینیٹر کو برداشت کی انتہا کے بعد ''الی نوائس'' سے ''پال فنڈلے'' کو ہرا دیا گیا۔ اسی طرح سینیٹر ابراہیم ربی کوف نے ایک بار اسرائیلی وزیر اعظم اور ''ماعا'' پر شدید نکتہ چینی کی تو کینکٹی کٹ کے علاقے سے تاروں اور خطوط کا تاتنا بندھ گیا جن میں ربی کوف کے اس موقف کی مذمت کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ''ماعا'' نے کینکٹی کٹ کے اپنے ارکان کو ایک یادداشت پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ ربی کوف نے PLO کے یاسر عرفات کے ساتھ ایک ظہرانے میں شرکت کی ہے۔ اسی طرح اسے بھر پور طریقے سے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔
امریکہ میں مختلف یہودی تنظیموں کے سازشی کردار کی ہم نے محض ایک مختصر جھلک دکھائی ہے جسے خود ایک امریکی مصنفہ ''لی اوبرائن'' نے اپنی کتاب "American Jewish Organisations" میں بہت تفصیل اور اعداد و شمار کے ساتھ رقم کیا ہے۔ اس جھلک میں ان یہودی تنظیموں کی اسرائیل کے ساتھ اپنی محبت کی انتہا جھلکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ہم ہیں کہ اپنے پاکستان کی بنیاد نظریہ پاکستان ہی کو کھودنے میں مصروف ہیں۔ خان عبدالولی خان نے انڈیا آفس لائبریری لندن سے جو تحقیقات اخذ کیں وہ یہ تھیں کہ قائد اعظم انگریز کے ایجنٹ تھے۔ ایک اور سیاستدان نے بھارت میں بیٹھ کر بیان دیا کہ ہمارے بزرگوں نے پاکستان بنا کر غلطی کی تھی جبکہ آج کئی حکومتی ذمے داران برسرعام کہہ رہے ہیں کہ ہندی اور پاکستانی تہذیب ایک ہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب صورتِ حال ایسی ہو تو اسرائیل لازماً مضبوط سے مضبوط تر ہو گا اور پاکستان کی قسمت میں غلامی در غلامی ہی لکھی جائے گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ایک امریکی صدر جس نے اسرائیل کو اس کی اوقات یاد دلائی
امریکہ کے لئے اسرائیل آج ایک اس کی اپنی ریاست کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکی حکومت سے اسرائیل اپنا جو بھی مطالبہ چاہے، منوا سکتا ہے۔ قیام اسرائیل کے بعد امریکہ کا ہر صدر خود کو اسرائیل کا فرمانبردار غلام سمجھتا رہا ہے۔ البتہ امریکی تاریخ میں ایک امریکی صدر ایسا بھی گذرا ہے جس نے اسرائیل کو اپنے آگے ناک رگڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس نے اسرائیل کے دھونس، دباؤ اور غیر قانونی اقدام پر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے صاف انکار کیا تھا۔ اور الٹا اسرائیل پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ اٹھائے گئے اپنے ناجائز اقدام کو فوری طور پر واپس لے ورنہ اس کا حشر برا کر دیا جائے گا۔
اس ''مجاہد'' امریکی صدر کا نام ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور تھا جسے دنیا آج محض آئزن ہاور کے نام سے پہچانتی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے بحران کا تذکرہ کرتے ہوئے نہ جانے کیوں آئزن ہاور کے اس جراتمندانہ کردار کا ذکر نہیں کیا جاتا؟۔ آج ہم اپنے قارئین کے لئے تاریخ کا یہی اہم ورق پلٹ رہے ہیں۔
یہ اکتوبر 1956ء کی بات ہے جبکہ اسرائیل نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر ایک خفیہ معاہدہ کیا کہ یہ تینوںممالک مل کر مصر پر حملہ کریں گے اور صدر ناصر کا تختہ الٹ دیں گے۔ اصولی طور پر برطانیہ اور فرانس امریکہ کے حلیف تھے اور ایسی کسی کاروائی سے قبل ان تینوں ممالک کو امریکہ کے ساتھ بھی مشاورت کرنی چاہیئے تھی لیکن انہوں نے امریکہ کو اطلاع دینے سے پہلو تہی کی۔ اسرائیل کی جانب سے یہ حملہ 29 اکتوبر 1956ء کو شروع ہوا تھا اور 7 نومبر1956ء کو یہ حملہ ختم ہوا۔ کرنل ناصر نے انہی دنوں نہر سوئیز کو اپنے قبضے میں (قومیا) لیا تھا۔
منصوبہ یہ تھا کہ اسرائیل صحرائے سینا پار کر کے نہر سوئز کی طرف بڑھے گا جبکہ برطانیہ اور فرانس فضائی بمباری کرتے ہوئے شمال کی جانب سے مصر پر حملہ آور ہوں گے۔ امریکہ سے اس حملے کو خفیہ رکھنے کی خاطر اسرائیل نے واشنگٹن میں اپنے سفیر کو امریکہ کو تسلی دلانے کی خاطر یہ ہدایت جاری کی کہ مسلح افواج کی یہ نقل و حرکت محض حفاظتی نقطہء نظر سے ہے اور اس کا کوئی تعلق مصر پر حملہ کرنے سے نہیں ہے۔ تینوں ممالک سمجھتے تھے کہ صدر آئزن ہاور اپنے سابقہ جنگی حلیفوں (برطانیہ اور فرانس) کی اعلانیہ مخالفت نہیں کرے گا۔
تاہم صدر امریکہ کو جب اس خفیہ حملے کی اطلاع ملی تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے اسرائیل کو امریکی امداد بند کر دینے کی دھمکی دی۔ اس نے اپنے سیکرٹری آف اسٹیٹ جان فوسٹر کو تحکمانہ انداز سے ہدایت جاری کی کہ ''فوسٹر انہیں بتا دو کہ ہم ان کے خلاف پابندیاں عائد کریں گے۔ ہم یہ معاملہ اقوام متحدہ میں اٹھائیں گے اور ہر وہ اقدام کریں گے جس سے یہ حملہ رُک جائے''۔ آئزن ہاور نے یہ بھی کہا کہ ہم نے اسرائیلیوں کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ اگر وہ (اسرائیلی) یہ چاہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ہم ان کی پوزیشن کی حمایت کریں تو انہیں اپنے رویئے کی اصلاح کرنی ہو گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
تاہم اسرائیل برطانیہ اور فرانس نے امریکہ کی ان دھمکیوں کی مطلق پرواہ نہ کی اور اپنا حملہ جاری رکھا۔ آخر کار مجبور ہو کر صدر آئزن ہاور نے اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا اور اسرائیل کو ہر قسم کی امداد پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد اسرائیل نے مجبور ہو کر مصر پر اپنا حملہ روک دیا اور فوجیں اپنے اپنے مقام پر رُک گئیں۔ فرانس اور برطانیہ نے بھی اسرائیل کی پیروی کی اور شمالی علاقوں پر اپنے بمبار حملے بند کر دیئے۔ مصر پر تین ممالک کا مشترکہ حملہ رکوانا صدر آئزن ہاور کی بہت بڑی کامیابی تھی باوجود اس کے کہ برطانیہ اور فرانس امریکہ کے حلیف تھے جبکہ مصر اپنی وابستگی امریکہ مخالف روس کے ساتھ رکھے ہوئے تھا۔تاہم آئزن ہاور محض جنگ بندی پر خوش نہ تھا کیونکہ حملہ روک دینے کے بعد بھی اسرائیل نے مصر کی اہم بندگاہ ''شرم الشیخ'' اور اس کے زیر انتظام غزہ کی پٹی پر اپنا غاصبانہ فوجی قبضہ برقرار رکھا تھا اور وہاں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھا۔ امریکہ کے کہنے پر اقوام متحدہ نے بھی مقبوضہ علاقے خالی کرانے کی چھ قراردادیں منظور کیں لیکن اسرائیل نے ان میں سے کسی ایک کی بھی پرواہ نہ کی۔
یہ وہ دَور تھا جب آئزن ہاور اپنے صدارتی انتخاب کی مہم کے آخری مرحلے میں تھا اور امریکی مبصرین اندازہ کر رہے تھے کہ اسرائیل پر بھاری دباؤ ڈالنے کے سبب وہ اپنا یہ انتخاب ہار جائیں گے (امریکی یہودی جس اُمیدوار کو ووٹ دینے سے دست کش ہو جائیں تقریبا ناممکنات میں سے ہے کہ پھر وہ امیدوار اپنی نشت آسانی سے نکال لے)۔ لیکن حیرت انگیز طور پر آئزن ہاور نے اپنی صدارت کا یہ معرکہ پہلے سے زیادہ ووٹوں سے جیتا۔ 1952ء کے 36 فیصد یہودی ووٹوں کے مقابلے میں 1956ء میں اسے 40 فیصد یہودی ووٹ حاصل ہوئے۔
شرم الشیخ اور غزہ کی پٹی سے انخلا پر دباؤ سے دستبردار ہونے کے لئے اب یہودیوں نے آئزن ہاور پر اپنا بھر پور دباؤ استعمال کرنا شروع کیا۔ ایک موقعہ ایسا بھی آیا جب آئزن ہاور سے سابق امریکی صدر روز ویلیٹ کی بیوہ، سابقہ متصل صدر ٹرومین اور سینیٹ میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن سینیٹرز نے ملاقات کی اور صدر کو اپنا اصرار واپس لینے کی درخواست کی۔ سیکرٹری آف اسٹیٹ جان فاؤسٹر ڈلس کو انہوں نے یہ الفاظ بھی کہے تھے کہ ''اس طرز عمل سے ہمارے اور امریکہ کے راستے جدا جدا ہو جائیں گے''۔ لیکن ڈلس نے بھی دوبدو جواب دیتے ہوئے نرمی سے کہا: ''تم اپنی دھمکی پر ذرا غور کرو۔ ظاہر بات ہے کہ امریکہ کی ساری پالیساں یروشلم میں تشکیل نہیں پا سکتیں''۔ ڈلس نے مزید کہا کہ ''مجھے معلوم ہے کہ اس ملک میں یہودی حمایت سے عاری، خارجہ پالیسی پر عمل کرنا کس قدر دشوارہوتا ہے لیکن پھر بھی میں ایک آزاد پالیسی تشکیل دینے کی کوشش کروں گا'' اس نے کہا کہ ''اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں ایک اسرائیل دشمن فرد ہوں بلکہ میں جارج واشنگٹن کے ان الفاظ پر یقین رکھتا ہوں کہ ''معاملات پر دوسرے ملک کے ساتھ جذباتی وابستگی کو اثر انداز نہیں ہونا چاہیئے''۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
1957ء میں صدر میںصدر آئزن ہاور نے ایک tv خطاب کے ذریعے امریکی عوام سے کہا ''کیا ایک ملک جو حملہ آور بھی ہو اور اقوام متحدہ کی مخالفت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے غیر ملکی علاقے (مصر) پر قبضہ بھی جاری رکھے، اپنے انخلاء کے لئے اسے خود ساختہ شرائط منوانے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟؟'' اس نے مزید کہا کہ ''اگر ہم یہ بات مان لیں کہ جارحیت سے جارح ملک کا مسلہ حل ہو سکتا ہے تو میرے خیال میں ہم عالمی نظام کو (جنگلی نظام) کی طرف دھکیل رہے ہیں''۔
آئزن ہاور کی اس tv تقریر کے بعد وہائٹ ہاؤس میں یہودیوں کی جانب سے خطوط اور تاروں کا تانتا بندھ گیا۔ ان میں سے ہر خط اسرائیلی اقدام کی حمایت اور امریکی صدر کی مذمت میں تھا۔ لیکن وہ جرأت مند صدر مردِ استقلال بنا رہا اور اس نے مزید دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے سارا جزیرہ نمائے سینائی اور غزہ کی پٹی خالی نہ کی تو امریکہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف پابندیوں کی قرارداد کی حمایت کرے گا اور اسرائیل کے لئے ملک میں جمع کئے جانے والے عطیات پر انکم ٹیکس سے چھوٹ کی رعایت واپس لے لے گا۔
لہٰذا بالآخر آئزن ہاور کی صد اور اصول پسندی نے اسرائیل سے گھٹنے ٹکوا دیئے اور اسے شرم الشیخ اور غزہ کی پٹی سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس سابق امریکی صدر کی استقامت نے اسرائیل کو اس کی اوقات یاد دلا دی۔
آئزن ہاور کے اس جرأت مندانہ کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے سوانح نگار اسٹیفن ای ایمبروز نے لکھا کہ صدر کی ''اقوام متحدہ کی برتری پر اصرار، معاہدوں کی پاسداری اور تمام اقوام کے حقوق پر زور دینے کے باعث امریکہ کا وقار اس قدر بلند ہوا کہ اس جیسا پہلے کبھی نہ تھا''۔
قاہرہ سے امریکی سفیر ریمنڈ ہیئر نے وہائٹ ہاؤس کو تار بھیجا کہ ''امریکہ یکایک سچ کا چمپیئن بن کر ابھرا ہے''۔
امریکہ کے بارے میں یہ دو تبصرے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ آج ساری دنیا میں امریکی وقار پامال ہے اور ہر جگہ اس کے پرچم پیروں تلے روندے جارہے ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی فرد ہو جسے امریکہ سے نفرت نہ ہو۔ کیونکہ امریکہ آج سچ کی بجائے محض جھوٹ کا چیمپئین بنا ہوا ہے۔ اگر کوئی امریکی صدر آج بھی اسرائیل کے مقابلے میں سچائی و انصاف پر ڈٹ جائے تو امریکہ کا وقار آج بھی بلندیوں پر جا سکتا ہے۔
گذشتہ دور میں ایک اور سابق صدر جمی کارٹر کے دل میں بھی آئزن ہاور بننے کا خیال پیدا ہوا تھا اور اس نے کہا تھا کہ وہ ایک ایسا صدر ثابت ہوگا جو اسرائیل کے دباؤ میں نہیں آئے گا۔ صدارت سنبھالنے کے بعد اس کی تمنا تھی کہ وہ فلسطینیوں کے لئے بھی ایک علیحدہ خود مختار وطن قائم کروائے لیکن یہودی لابی نے اسے چین سے نہ بیٹھنے دیا اور اس پر اتنا شدید دباؤ ڈالا کہ کارٹر جلد ہی اپنے تمام خیالات سے تائب ہو گیا۔
مشرق وسطی کی تاریخ پڑھنے والوں کو سابق امریکی صدر آئزن ہاور کے اس مجاہدانہ کردار کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیئے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ہولوکاسٹ اور اس وقت کی دنیا کا ردّ عمل
ہولوکاسٹ (holocuast) یہودیوں کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس موہوم واقعے کی بنیاد پر وہ آج تک ساری دنیا (خصوصاً عیسائیوں) کی ہمدردی سمیٹتے رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ سارے عالمی میڈیا پر تقریبا انہی کا قبضہ ہے۔ اس لئے اس کے ذریعے سے انہوں نے ساری دنیا کو باور کرایا ہے (اور اس میں وہ مکمل طور پر کامیاب رہے ہیں) کہ جرمن ڈکٹیٹر ہٹلر نے اپنے دورِ حکومت میں یہودیوں پر بے پناہ تشدد کیا تھا اور ملک کے مختلف چیمبروں میں بیک وقت سینکڑوں یہودیوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہٹلر نے اپنے دورِ اقتدار میں 60 لاکھ یہودیوں کو ہلاک کیا تھا۔ اگرچہ یہ سوال آج نمایاں طور پر اُٹھ رہا ہے کہ کیا اس دور میں جرمنی میں 60 لاکھ سے زائد یہودی موجود بھی تھے یا نہیں؟ اس لئے کہ اس دور میں عیسائی دنیا یہودیوں کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑی ہوئی تھی اور یہودی ساری دنیا میں دربدری کی زندگی گزار رہے تھے۔ لہٰذا 80-70 لاکھ کی تعداد میں صرف یہودیوں کا جرمنی میں پایا جانا واقعی ایک بہت بڑا سوال ہے۔ تاہم ہولوکاسٹ کے واقعے سے یہودی دنیا بھر سے نہ صرف ہمدردیاں سمیٹتے ہیں بلکہ بیشمار رعایتیں بھی وصول کرتے ہیں جن میں سے ایک، اسرائیلی ریاست کا قیام بھی شامل ہے۔ قارئین کے علم میں ہونا چاہیئے کہ یورپ اور امریکہ میں یہودی جہاں بھی رہے، اندرونِ خانہ سازشیں کرتے رہے اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی آئین کا بانی بنجامن فرنکلین ان کی سازشوں کو دیکھ کر چیخ اٹھا تھا کہ ''اے امریکیو! ان یہودیوں کو اٹھا کر امریکہ سے باہر پھینک دو، ورنہ کل تمہارے بچے تمہاری قبروں پر کھڑے ہو کر تمہیں کوس رہے ہوں گے''۔ (کتاب اینٹی زائن ولیئم گرمسٹاڈ) لہٰذا فلسطین میں اسرائیل کے قیام کو اس نظریئے سے بھی دیکھا جانا چاہیئے کہ یورپ کے عیسائیوں نے اس گندگی کو اپنے ہاں (مغرب) سے اٹھا کر مشرق میں پھینک دیا ہے۔
اب اکیسویں صدی میں بعض عیسائی دانشوروں اور پروفیسروں کو ہولوکاسٹ کے یہ قصے سمجھ میں آنے لگے ہیں اور وہ برملا کہنے لگے ہیں کہ یہ سب محض فرضی باتیں ہیں جن کی کوئی جڑ بنیاد نہیں ہے۔ اس قسم کی تحریر و تقریر اب ان کی طرف سے منظر عام پر بھی آنے لگی ہے جو ایک طرح سے انسانیت کے حق میں ہے کیونکہ اگر دنیا کو یہودیوں کی حقیقت سمجھ میں آجائے گی تو ان کی بربریت اور سفاکی کا پردہ چاک ہو گا اور دنیا امن کی طرف گامزن ہو گی لیکن چونکہ ہولوکاسٹ کا افشاء یہودیوں کے خلاف جاتا ہے اس لئے وہ ان لوگوں کے لئے سخت رویہ اختیار کرتے ہیں۔ آج کسی بھی یورپی ملک میں ہولوکاسٹ کے خلاف لکھنا یا بولنا قانوناً جرم ہے۔ یہودیوں نے آج ہر یورپی ملک کو اپنے شکنجے میں کسا ہوا ہے، اس لئے وہاں کے قوانین یہودیوں کو بہت ساری رعایتیں دیتے ہیں۔ لہٰذا اسی بنیاد پر جرمنی، ہالینڈ، آسٹریا اور بیلجیم وغیرہ میں ہولوکاسٹ کے خلاف لکھنے اور بولنے والے کو ملک کا باغی اور مجرم گردانا جاتا ہے اور انہیں قید و بند کی سزائیں دی جاتی ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
ہٹلر نے بے شک یہودیوں کو ایک بڑے عذاب سے گذارا تھا لیکن یہ بات کہ اس نے 60 لاکھ افراد کو ہلاک کیا، بذات خود ثبوت کی طلبگار ہے۔ اسی لئے کل کا ''مقدس ہولوکاسٹ'' آج کا محض افسانہ بنتا ہوا نظر آرہا ہے۔
ہولوکاسٹ کی اس حقیقت سے قطع نظر اس مضمون میںہم قارئین کو آج یہ دکھانا چاہیں گے کہ جرمنی میں ہٹلر جب یہودیوں پر ظلم و تشدد کر رہا تھا تو اس کے عظیم سرپرست ملک امریکہ اور دوسرے یورپی ممالک کا ردّ عمل کیا تھا؟ نیز خود صیہونیوں نے اس واقعے سے کیا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تھی؟ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ، یورپ اور صیہونیوں نے اس واقعہ پر ناقابل یقین سردمہری کا مظاہرہ کیا۔ ایک امریکی مصنف رون ڈیوڈ اپنی کتاب ''عربس اینڈ ازرائیل'' میں لکھتا ہے:
''جنوری 1930ء میں جرمنی کا چانسلر منتخب ہونے کے بعد اس نے اگلے چند برسوں میں یہودیوں کے لئے (۱) اچھی ملازمتوں پر پابندیاں لگائیں۔ (۲) یہودی قوم سے جرمن شہریت چھین لی۔ (۳) انہیں جرمن عورتوں سے شادی کرنے کی ممانعت کی گئی اور (۴) ''پاک'' ہونے کی سند جاری کرنے سے پہلے 1800ء تک یہودی خون کی تحقیقات کی گئی''۔
جولائی 1938ء میں 32 ممالک کے نمائندے فرانس میں جمع ہوئے تاکہ غور کیا جائے کہ کون سا ملک کتنے یہودیوں کو اپنے ہاں پناہ دے سکتا ہے؟
جواب: (۱) یوراگوئے اور وینزولا نے جواب دیا ''نہیں''۔
(۲) فرانس جس کے پاس پہلے سے دو لاکھ یہودی پناہ گزین موجود تھے، نے کہا کہ وہ پہلے ہی انتہاء تک پہنچا ہوا ہے، اس لئے وہ مزید یہودی ''نہیں'' لے سکتا۔
(۳) ارجنٹائن نے بھی جس کے پاس پہلے سے کافی یہودی پناہ گزین موجود تھے، یہودیوں کا مزید بوجھ اٹھانے سے انکار کر دیا۔
(۴) ہالینڈ اور ڈنمارک نے بھی ''پیک'' ہونے کی وجہ سے معذرت کر لی۔
(۵) امریکہ جس نے بڑی کوشش سے یہ کانفرنس خود بلائی تھی، یہودیوں کے لئے کوئی بھی پیشکش ''نہیں'' کی بلکہ صرف اسی بات پر زور دیا کہ پہلے سے موجود یہودیوں کو اپنے ہاں سے نہ نکالا جائے۔ مذکورہ مصنف لکھا ہے:
''اس ساری کاروائی پر نازی قوم ہم امریکیوں کو منافقوں کا ایک گروہ قرار دیتے ہوئے ہم پر ہنسنے لگی''۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
پھر اپریل 1939ء میں امریکی کانگریس یہ فیصلہ کرنے کے لئے بیٹھی کہ بیس ہزار یہودی بچوں،جی ہاں بچوں کو امریکہ میں لا کر بسایا جائے تاکہ وہ ہٹلر کے مظالم سے محفوظ رہ سکیں تو کانگریس نے ایک بار پھر فیصلہ دیا کہ ''نہیں''۔
1941ء میںجبکہ یہودیوں کے قتل عام کا سلسلہ رومانیہ تک پہنچ چکا تھا، رومانیہ میں ترکی کے سفیر نے امریکہ کو 3 لاکھ رومانی یہودیوں کے تحفظ کا ایک منصوبہ پیش کیا لیکن امریکہ نے اس منصوبے پر عملدرآمد کرنے سے ایک بار پھر معذرت کر لی۔
اوپر کی تفصیل سے ہم نے دیکھا کہ آج امریکہ اوریورپ جن یہودیوں کے دوست بنے ہوئے ہیں، کل جب ان یہودیوں کے اوپر خود بیت رہی تھی، تو ان میں سے ہر ملک نے یہودیوں کو اپنے ہاں پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا حتی کہ ان کے بچوں کو بھی پناہ دینے سے بے رحمانہ طور پر معذرت کر لی تھی۔
یہی مصنف آگے چل کر لکھتا ہے کہ ''سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکا کا یہ جواب تو جو کچھ تھا، سو تھا، لیکن خود صیہونی لیڈروں نے یہودیوں کی واپسی کے لئے امریکہ پر دباؤ کیوں نہ ڈالا کہ انہیں نازیوں کے کیمپوں سے نجات دلائی جائے''؟
رَون ڈیوڈ لکھتا ہے کہ اس سوال کا جواب بہت تلخ ہے۔ صیہونی اس بات سے کم دلچسپی رکھتے تھے کہ یہودیوں کو ہٹلر کے مظالم سے بچایا جائے۔ اس کے برعکس انہیں اس بات سے زیادہ دلچسپی تھی کہ (یہودی مریں تو مریں لیکن) فلسطین میں ایک علیحدہ ریاست بہرطور قائم ہو جائے۔ اس لئے صیہونیوں نے نہ صرف یہ کہ یہودی پناہ گزینوں کو امریکہ بھیجنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ ان کی کوشش یہ رہی کہ الٹا انہیں امریکہ سے دور ہی رکھا جائے''۔ (تاکہ یہودی مظلومیت کی بنیاد پر ایک علیحدہ اسرائیلی ریاست وجود میں آسکے)۔
اس زمانے کے امریکی صدر روز ویلیٹ کے مشیر ارنیسٹ مورس نے 1948ء میں لکھا کہ ''خود اسے یورپ کے ان ستم رسیدہ لوگوں کو امریکہ میں تحفظ دلوانے کی بجائے ان کے لئے صرف فلسطین (اسرائیل) ہی کو آخری پناہ گاہ کے طور پر پیش کئے جانے کے عمل سے سخت دھچکا پہنچا''۔ اس نے مزید لکھا کہ ''جب میں نے ہولوکاسٹ سے زندہ بچ رہ جانے والوں کے لئے امریکہ میں داخلے کی تحریک شروع کی تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ صیہونیوں نے نہ صرف یہ کہ میری تجویز سے انکار کیا بلکہ میری تذلیل کی اور مجھ پر حملہ کیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے (یہ تجویز پیش کر کے) میں ان کے نزدیک ایک غدار فرد بن گیا ہوں''۔
یہ تھا ان ممالک اور خود صیہونیوں کا رویہ یہودیوں کے بارے میں، جن کے لئے انہوں نے ساری دنیا کو اپنا ماتحت بنایا ہوا ہے۔ مغرب کی ان ساری قوموں کا رویہ محض منافقت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہودیوں کے لئے عیسائیوں اور صیہونیوں دونوں کا جواب سخت منافقانہ تھا۔ اگرچہ وہ آج باہم ملے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن دراصل اندر ہی اندر وہ ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بنی اسرائیل پر ان کی مقدس کتابوں میں بھی پھٹکار کی گئی ہے
بنی اسرائیل پر صرف قرآنِ پاک ہی میں پھٹکار نہیں کی گئی ہے بلکہ خود ان کے صحیفوں میں بھی یہ لعنت اور پھٹکار جابجا درج ہے۔ قومِ بنی اسرائیل کا مزاج سمجھنے کے لئے ان کے صحیفوں زبور، ڈیو ٹرو نومی، جرمیاہ اور ایسیاہ وغیرہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ ذیل میں ہم وہ اقتباسات پیش کر رہے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان پر پھٹکار اور غضب نمایاں ہے۔ یہ آیتیں ان کی مقدس کتابوں میں آج بھی موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر کا تعلق اولڈ ٹیسٹامنٹ یعنی عہدنامہء قدیم سے ہے۔
٭ زیم (زبور) باب 106 کو پڑھتے ہوئے ہمیں ایسا لگے گا جیسے ہم قرآنِ پاک کی سورئہ بقرہ پڑھ رہے ہوں۔ یعنی اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہودیوں پر اپنے بعض انعامات گنوائے ہیں اور اس کے ساتھ ان کی سرکشیاں اور بغاوتوں کا بھی ذکر کیاہے۔ ان کی انہی نافرمانیوں کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے انہی دھمکی دی ''اس لئے اللہ نے قسم ظاہر کرنے کے لئے ان کی مخالفت کی خاطر اپنا ہاتھ اوپر اٹھایا تاکہ انہیں صحراؤں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دے اور ان کی نسلوں کو دنیا کی دوسری قوموں میں ذلیل و خوار کرے''۔ (زیم 106 آیات 26-26)۔
٭ ''اے زمین کان دھر اور اے آسمانو سنو! خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے بچوں (بنی اسرائیل) کی نگہداشت کی لیکن انہوں نے میرے خلاف بغاوت کر دی۔ بیل اور گدھا اپنے آقا کو خوب پہچانتے ہیں لیکن بنی اسرائیل اپنے آقا کو نہیں پہچانتے۔ افسوس کہ یہ لوگ ایک گناہ گار قوم ہیں جو ظلم و سرکشی سے بھرے ہوئے ہیں۔ یہ جرائم کی جڑیں ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو بدکار ہیں۔ انہوں نے بنی اسرائیل کے مقدس خدا کو ناراض کر دیا ہے۔ تمہارا سارا سر اور تمہارا سارا دل بیمار ہے۔ تمہارے پاؤں سے لے کر تمہارے سر تک پورا جسم بیمار ہے۔ اس میں کوئی حصہ صحت مند نہیں ہے۔ زخم اور پکے ہوئے بدبودار پھوڑے کے سوا وہاں کوئی جگہ صاف نہیں ہے''۔ (ایسیاہ1 آیات 2تا6)
٭ لعنت ہے ان تمام افراد پر جو برائیوں کو نیکیاں اور نیکیوں کو برائیاں قرار دیتے ہیں۔ جو روشنی کی جگہ اندھیرا اور اندھیرے کی جگہ روشنی لاتے ہیں۔ جو مٹھاس کی جگہ کڑواہٹ اور کڑواہٹ کی جگہ مٹھاس لاتے ہیں۔ لعنت ہے ان لوگوں پر جو اپنی نظروں میں عقلمند اور چالاک ہیں۔ لعنت ہے ان آدمیون پر جو شراب پینے میں بہت جرات مند اور مشروبات میں ملاوٹ کرنے میں بہت تیز ہیں۔ جو پیسے کے عوض ظلم کو حلال کر لیتے ہیں اور مظلم شخص کو انصاف فراہم نہیں کرتے''۔ (ایسیاہ باب5۔ آیا 20تا25)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
٭ ''اویعقوب کے سردارو اور اے بنی اسرائیل کے حکمرانو سنو! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم انصاف کو پہچانو؟ تم جو برائی کو پسند اور اچھائی کو ناپسند کرتے ہو۔ او اہل یعقوب! او بنی اسرائیل کے حکمرانو! جو انصاف سے نفرت اور اصولِ مساوات سے بغاوت کرتے ہو جو صیہونیت کو خون خراب سے قائم کرتے اور یروشلم کو ناانصافی سے بھرتے ہو؟''۔ (میکاہ3 آیات10-9)۔
٭ ''اور تم خود کو بے شک کسی کیمیاوی مادے سے دھو لو اور بے تحاشا صابن استعمال کر لو۔ پھر بھی تمہاری ناپاکی برقرار رہے گی۔ تم کیسے دعوے کرتے ہو کہ میں ناپاک نہیں ہوں؟''۔ (جرمیاہ2۔ آیات23-22)۔
٭ ''بدکاری تمہاری ناپاکی کا ایک حصہ ہے۔ میں نے تمہیں پاک کیا تھا مگر تم نے خود کو پاک نہیں کیا۔ اب آخر وقت میں یہ ناپاکی تم سے دور نہیں ہو سکتی۔ میرا انتقام آخر کار تم تک پہنچ کر رہے گا''۔ (ایزاخیل 24۔ آیت13)۔
٭ ''یہ روئے زمین ناپاکی سے بھر گئی ہے۔ انہوں نے (میرے) قوانین میں تحریف کی۔ انہیں تبدیل کیا اور میرے ساتھ کئے گئے عہد کو توڑا۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے زمین پر میرا غضب ٹوٹ پڑا''۔ (ایسیاہ24۔ آیات6-5)۔
٭ ''یہ لعنت تم پر آکے رہے گی۔ اگر تم اپنے خدا کی پکار پر دھیان نہیں دو گے اور اس کے احکامات سے لاپروائی اختیار کرو گے تو میری لعنت تمہیں ڈھانپ لے گی۔ تم پر تمہارے شہروں میں، تمہارے دیہاتوں میں لعنت کی گئی ہے۔ تمہارے تھیلوں میں، تمہارے کھانے والے پیالوں میں لعنت کی گئی ہے۔ تمہاری جسمانی محنت اور فصلوں کی پیداوار پر لعنت ہے۔ جب تم گھر کے اندر آؤ گے اور جب تم گھر سے باہر نکلو گے تو میری لعنت تم پر قائم رہے گی''۔ ''تمہارا آقا، تمہارا مالک، تم پر غصہ اور لعنت بھیجتا رہے گا۔ اس پر بھی (لعنت بھیجے گا) جو تم اپنے ہاتھوں سے بناؤ گے یہاں تک کہ تم مٹ جاؤ اور تباہ ہو جاؤ۔ یہ تمہارے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہو گا کیونکہ تم نے مجھے بھلا دیا ہے۔ تم پر یہ تمام غضب ٹوٹے گا اور تمہیں گھیرے میں لے لے گا اور پھر بالآخر تمہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا۔ اس نے تمہیں ہدایت کی تھی کہ تم اس کے احکام کو مضبوطی سے پکڑے رہو۔ ہم یہ سزا تمہیں اور تمہاری نسلوں کو ہمیشہ کے لئے دیں گے تاکہ تم دنیا کے لئے عبرت کا سامان بنو''۔ (ڈیوٹرونومی28۔ آیات15تا19۔ اور 46)۔
٭ ''کیا ایک حبشی اپنی کھال اور ایک چیتا اپنے نشانات کو تبدیل کر سکتا ہے؟ تو کیا تم جو گناہ کے کام کرتے ہو، کبھی نیکیاں بھی کر سکتے ہو؟ (یعنی تمہارے لئے بھی یہ تبدیلی ناممکن ہے۔ مصنف)۔ لہٰذا اب میں تمہاری قمیض کے دامن کو تمہارے چہروں پر پلٹ دوں گا تاکہ تمہاری شرمگاہ سب پر ظاہر ہو جائے۔ میں نے تمہاری بدکاریاں، تمہاری بکواسیں، تمہاری قحبہ کاریاں، تمہاری نفرتیں، پہاڑوں میں اور میدانوں میں دیکھی ہیں۔ لعنت ہو تم پر اے یروشلم والو۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ تم پاک و صاف ہو جاؤ؟''۔ (جرمیاہ باب13۔ آیات 23تا 27)۔
 
Top