• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معزز مفتیان کے تفصیلی فتاویٰ جات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۲۰)​
قراء ات متواترہ حدیث حروف سبعہ کے مطابق اور صحیح سند اور تواتر حکمی سے ثابت ہیں اس لئے ان کا حکم یہ ہے:
(١) قرآن یا اس کے کسی جزو کا انکار کفر ہے۔
(٢) کوئی اگر بعض قراء توں کو تسلیم کرتا ہو مثلاً روایت حفص کو مانتا ہو اور دیگر کا انکار کرتاہوں تو اس میں مندرجہ ذیل شقیں ہیں:
(ا) کسی محقق کے نزدیک دیگر قراء توں کاتواتر ثابت نہ ہو اس وجہ سے ان کا انکار کرتا ہو۔ اس پرتکفیر نہ ہوگی۔
(ب):اس کو دیگر قراء توں کا تواتر سے ثابت ہونا معلوم نہ ہو جیساکہ عام طور پر عوام کو دیگر قراء توں کا علم نہیںہوتا اور صرف ان ہی لوگوں کاان کو علم ہوتا ہے جوان کے پڑھنے پڑھانے میں لگے ہوں۔ ایسی لاعلمی کی وجہ سے انکار پربھی تکفیر نہ کی جائے گی البتہ ایسے شخص کو حقیقت حال سے باخبر کیا جائے گا۔
(ج): تواتر تسلیم ہونے کے بعد بھی انکار کرے تب بھی تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ حقیقتاً یہ تواتر ضروری وبدیہی ہیں بلکہ نظری و حکمی ہے جس کے انکار پر تکفیر نہیں کی جاتی۔ البتہ سخت گمراہی کی بات ہے۔ (قراء ات نمبر، ص۱۴۰)
امین احسن اصلاحی اور جاوید غامدی جو ان قراء ات کا انکار کرتے ہیں کسی علمی بنیاد پرنہیں کرتے بلکہ محض قیاس آرائی سے کرتے ہیں ہیں اور یہ ان کی شدید گمراہیوں میں سے ایک ہے۔
رہے منکرین حدیث جیسے غلام احمد پرویز اور اس کے ہم فکر لوگ تو یہ سنت و حدیث کی تشریعی حیثیت کو بگاڑنے اور قرآن پاک میںتحریف معنوی کرنے کی وجہ سے کافر ہیں ان کا قراء ات متواترہ کا انکار کرنابھی قرآن کی تحریف قبیل سے ہے۔ کسی علمی اشکال پر مبنی نہیں ہے۔ واللہ اعلم
مولانامفتی عبد الواحد
(صدر دار الافتاء، جامعہ مدنیہ، لاہور)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۲۱)​
الجواب بعد البسلمۃ والحمدلۃ والتصلیۃ والتسلیمۃ
قراء سبعہ کی قراء ات تواتر سے نبی کریمﷺ سے ثابت ہیں جن کی تغلیط اور انکار جائز نہیں ہے۔
کما ذکرہ السیوطی رحمہ اللہ عن الزّرکشی!’’فالقرآن:ھو الوحي المنزل علی محمد ! للبیان والإعجاز،والقراء ات اختلاف ألفاظ الوحي المذکور في الحروف أو کیفیتھا،من تخفیف وتشدید وغیرھما،والقراء ات السبع متواترۃ عند الجمہور،وقیل بل مشھورۃ، قال الزرکشي: والتحقیق أنھا متواترۃ عن الأئمۃ السبعۃ‘‘(الإتقان في علوم القرآن للسیوطی:۱؍۷۵، النوع الثانی إلی السابع والعشرین،سہیل اکیڈمی)
انظر للتفصیل:
(١) (البرھان فی علوم القرآن للزرکشی رحمہ اللہ :۱؍۲۲۱،إلی ۲۳۲،دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(٢) (فتح الباری شرح صحیح البخاری۔للعسقلانی رحمہ اللہ:۹؍۱۸،دارإحیاء التراث العربی بیروت)
(٣) (عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری للعینی:۱۳؍۵۳۸، تحت رقم الحدیث۴۹۹۱۔ دارالفکر بیروت)
(٤) (امداد الاحکام لحکیم الأمۃ التھانوی قدس سرہّ۔۱؍۱۳۹ومن ۱۶۶، -إلیٰ،۱۸۰۔مکتبہ دارالعلوم کراچی)
(٥) (أحسن الفتاویٰ لمفتی رشید أحمد لدھیانوی:۱؍۴۹۴، إلی، ۴۹۶۔ ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی)
(٦) (ردّ المختار علی دُرّ المختار، الشامی:۱؍۳۵۸،المکتبۃ الماجدیۃ،کوئٹہ)
چونکہ جلدی اور مختصر جواب کا مطالبہ تھا بنا بریں اصل جواب مختصر لکھ کر مراجعت اور مزید تفصیل کے لیے مندرجہ بالا کتب کا حوالہ دینے پر اکتفا کیاگیاہے۔ فقط واﷲ أعلم بالصواب وعلمہ أتم وأحکم۔
مفتی شیر محمد علوی(سابق مفتی جامعہ اشرفیہ) محمد ابوبکر علوی
(دارالافتا جمیلی،مدرسہ خدام اہل سنت ،تعلیم القرآن،وحدت روڈ،لاہور)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۲۲)​
قراء ت سبعہ اہل سنت والجماعت کے ہاں متواتر ہیں۔اس بات کے درج ذیل قرائن ہیں:
(١) علماء اہل سنت کے نصوص صریحہ کہ یہ قرأ ت سبعہ متواتر ہیں۔ ان نصوص کو کتب قراء ت و تفسیر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
(٢) سلف سے لے کر خلف تک مفسرین تفسیر کرتے وقت مختلف قراء توں کا تذکرہ و تشریح کرتے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ زمخشری رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ۱۲ مقامات پر قراء ت عامہ کو چھوڑ کرد وسری قراء ت کی تفسیر کی۔ پھر قراء ت عامہ کو (وقرء بکذا)سے تعبیرکیا۔
(٣) مختلف قراء توں سے اہل مذاہب بالعموم اوراحناف بالخصوص استدلال کرتے ہیں۔ اگر ان کے ہاں یہ حجت ہی نہ ہوں تو پھراستنباط و استدلال چہ معنی دارد؟
متقدمین میں جار اللہ زمخشری رحمہ اللہ اور پھر شیخ رضی نے شرح کافیہ میں اس کے تواتر سے انکار کیاہے۔ شیعہ علماء نے عموماً اور ابوالقاسم خوئی رحمہ اللہ نے خصوصاً ان کے تواتر پر سخت جرح کی ہے۔مگر کسی قراء ت کا کسی شخص کی طرف منسوب ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ اس کاایجاد کردہ ہے یاوہ اس میں متفرد ہے جس طرح کہ نحو کے اصحاب مذاہب میں ہے، دور حاضر میں امین احسن اصلاحی رحمہ اللہ نے ان کے تواتر کا انکار کیاہے۔ تعجب ہے ان لوگوں پر جو حماسہ اور معلقات سبعہ کو تو متواتر تسلیم کرتے ہیں اور قرا ء اتِ سبعہ کے تواتر کے منکر ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صرف اعتقادی لغزش ہی نہیں بلکہ اُمت مسلمہ پربہت بڑا ظلم بھی ہے، اس لیے کہ پھر نئے سرے سے اہل ضلالت یہ سوال قائم کریں گے کہ مختلف قراء تیں جب جائز نہیں تو پھریہ کیاہے؟ ہم نہیں سمجھتے کہ الزام تحریف سے کس طرح قرآن کو بچایا جائے گا اور ان احادیث کا کیا ہوگا جومختلف قراء توں کا اثبات کرتی ہیں؟
اللہ کرے کہ اُمت مسلمہ کسی نئی مشکل میں گرفتار نہ ہو۔
مولانا محمد احمد واسطی
دار الافتا منصورہ ،لاہو
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۲۳)​
جناب مدیر ماہنامہ ’رشد‘ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ !
آپ نے یاد فرمایا، شکرگزار ہوں۔ علم قراء ات اور حجیت قراء ات کا موضوع بلا شبہ بڑا اہم ہے۔ جس طرح علم تجوید آج کل دینی مدارس تک میں ایک Neglected علم ہے اور عموماً اس سے صرف نظر ہی کیا جاتاہے اسی طرح علمی حلقوں میں حجیت قراء ات کے ساتھ بھی یہی طرز عمل ہے۔بلکہ بیشتر لوگ علم قراء ات،رسم عثمانی اور اسی قبیل کے دوسرے علوم کے ساتھ سرے سے واقفیت ہی نہیں رکھتے۔ اگر گستاخی پر محمول نہ فرمائیں تو کہہ دوں کہ بڑے بڑے علماء و مفتیان کرام بھی ان علوم سے نابلد … دیہاتیوں کو چھوڑیئے، بڑے بڑے شہروں کے آئمہ کرام بھی قرآن غلط پڑھتے ہیں اور غلط ہی کو درست خیال کئے ہوئے ہیں۔
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس قدر فقیہان حرم بے توفیق​
آج کل چلن یہ ہے کہ ایک خاص طبقہ نے تولحن اور لہجہ ہی کو تجوید و قراء ت سمجھ لیاہے۔ بعض بے سمجھ ایسے بھی ہیں کہ سانس کی طوالت اور کانوں پر ہاتھ دھر کر تلاوت کو قراء ت کا کمال خیال کرتے ہیں۔ اللہ سمجھ عطا کرے۔ آپ نے اس چار سو پھیلی تاریکی میں اس موضوع پر کام کرنے کے لیے عملی اقدام کافیصلہ کیا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کی اس سوچ میں برکت دے اور آپ کی مساعی کو شرف قبول عطا کرے اور آپ کے عمل سے علم تجوید و قراء ت کی روشنی کو عام فرمائے۔
سچی بات ہے کہ میں تو عالم نہ ملا نہ فقیہ۔ جانے آپ نے مجھے کیوں خط لکھا اور اس وقیع علم پر راہ نمائی کا مطالبہ بھی کردیا۔ من دانم کہ من آنم
راہ نمائی تو وہ کرے جو خود منزل کو جانے، راستے کا علم رکھے، بھلا بھٹکا راہی بھی کبھی راستے کی نشاندہی کرسکتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آپ کا پہلا سوال: ’’کیا مروّجہ قراء ات عشرہ (جو مدارس میں پڑھی پڑھائی جارہی ہیں) کاقرآن و سنت میں کوئی ثبوت موجود ہے؟‘‘ پہلے یہ فرمائیے کہ یہ قراء اتِ عشرہ کون سے مدارس میں پڑھائی جارہی ہیں۔ صرف چند رکوعات رٹائے جارہے ہیں۔ انہی کو روایات کانام دے کر محافل قراء ت میں رعب داب قائم کیا جاتاہے۔ اس رٹے ہوئے رکوعات کو چھوڑ کر قرآن کے کسی حصے سے تلاوت کرائیے ساری قلعی نہ کھل جائے تو داغ نام نہیں۔
رہی بات قرآن و سنت میں موجودگی کی تو اگر ان کاوجود کتاب و سنت میں نہ ہوتا تو یہ کب کی مٹ چکی ہوتیں، ختم ہو چکی ہوتیں۔ ان کاوجود بھی نہ ہوتا۔عالم اِسلام ہی میں نہیں پوری دنیا میں ایک بھی ڈھونڈے سے نہ ملتا،جو ان قراء ات عشرہ کوجانے اور سمجھے، ان کے مطابق تلاوت کرے۔ اللہ کا شکر ہے کہ پورے عالم اسلام میں بلکہ افریقہ جیسے دور دراز علاقوں میں بھی ان قراء ات کو جاننے، پڑھنے اور پڑھانے والے موجود ہیں۔ تورات، زبور، انجیل کا وجود برقرار رکھنا منظور ومقصود نہ تھا، قدرت کی طرف سے ان کا مٹنا اور محو ہونا ہی ہدف تھا۔ ساری دنیا میں تلاش کیجئے ان کتب کا کہیں وجود نہ ملے گا۔ قراء ات کا باقی رکھنا مقصود الٰہی تھااور ہے۔ جبھی تو چودہ سو برس بعد بھی یہ قراء ات زندہ ہیں اور زندہ رہیں گی۔ اس لیے انکار قراء ات والے ایڑی چوٹی کا زور لگالیں… مٹ جائیں تو کہیے۔ جب تک قرآن کاوجود باقی، قراء ات بھی باقی۔ قرآن انمٹ ہے، قراء ات بھی انمٹ ہیں۔ آپ ثبوت مانگتے ہیں، تواتر اپنی ذات میں سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس ضمن میں اسلاف اُمت کی وہی رائے ہے جو تابعین کی تھی، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تھی،جو خود جناب رسول اللہﷺکی بلکہ جو خود رب کائنات کی تھی اور ہے۔یہی رائے اخلاف امت کی ہے۔ قراء ات کی طلب رسول اللہﷺنے خود اللہ سے کی۔ انہی قراء ات کادرس آپ ؐنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کو آگے منتقل کیا۔ یہ علم پوری دنیا میں پھیلا۔ اگر یہ مقدس علم کتاب و سنت کے منافی ہوتا تو کوئی تو اس کا راستہ روکتا۔ کوئی تو احمد بن حنبل رحمہ اللہ پیدا ہوتا۔ کوئی تو اس کے خلاف سنت ہونے کا فتویٰ لکھتا جس پر لوگ بھی صاد کرتے۔ آج اکادکا گولڈزیہر کے نقال اس کی بولی بولنے لگیں تو آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا۔ ان کوبولنے اور بھڑکنے دیجئے۔ سورج کی تابانی ساری دنیا کو روشن کرتی ہے۔ چمگادڑ کے شور سے یہ ٹکیہ ماند نہیں پڑتی،نہ سورج کی روشنی میں کمی آتی ہے۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے​
یہاں یہ ضرور عرض کروں گا کہ اس موضوع پر اسلم جیراج پوری اورعلامہ تمنا عمادی رحمہم اللہ نے کچھ لکھا ہے۔ ان حضرات کی تحریریں ایسی تو نہیں کہ انہیں درخور اعتناء خیال کیاجائے۔ تاہم علمی محاکمہ اوردلائل کے ذریعے محاسبہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے اوربذات خود علمی کام ہے، تحقیقی کام ہے۔ جس کی ضرورت ہے اور رہے گی۔اس کام پر کسی عالم کو لگائیے جو عقلی اور نقلی دلائل سے قراء ات کے خلاف بولنے والوں کو گنگ کردے۔
آپ کا تیسرا سوال ہے کہ جو لوگ قراء ات متواترہ کا انکار کرتے ہیں، شرعی اعتبار سے ان کا کیا حکم ہے اور اُمت کو ان کے ساتھ کس قسم کابرتاؤ و اسلوب روا رکھنا چاہئے۔ میں کیا اورمیری بساط کیا کہ منہ کھولوں۔ اس سوال کا جواب جبہ و دستار کے حاملین مفتیان کرام سے طلب کیجئے کہ یہ انہی کا منصب ہے۔ قلندر جز دو حرفے لاالٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا۔
پروفیسر ڈاکٹر قاری محمد طاہر
(مدیر ماہنامہ’التجوید‘ فیصل آباد)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۲۴)​
الجواب ھو الموفق للصواب
قرآن کریم کی قراء ت عشرہ حق اور منزل من اللہ ہیں انہیں نبی کریمﷺنے پڑھا اور حضورﷺسے صحابہ، صحابہ سے تابعین اور ان سے ہم تک پہنچا۔ قراء تِ عشرہ کاثبوت اَحادیث صحیحہ متواترہ سے ملتا ہے۔
عن عمر بن خطاب قال سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیات رسول اﷲ ! فاستمعت لقراء تہ فإذا ھو یقرأ علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اﷲ! فکدت أساورہ في الصلوٰۃ فتصبرت حتی سلم فلببتہ بردائہ فقلت من أقرأک ھذہ السورۃ التی سمعتک تقرأ۔ قال أقرأنیھا رسول اﷲ! فقلت لہ کذبت فإن رسول اﷲ! قد أقرأنیھا علی غیر ما قرأت فانطلقت بہ أقودہ إلی رسول اﷲ! فقلت إنی سمعت ھذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروفٍ کثیرۃ لم تقرئنیھا فقال أرسلہ اقرأ یا ہشام فقرأ القراء ۃ التی سمعتہ فقال رسول اﷲ! کذلک أنزلت ثم قال اقرأ یا عمر فقرأت القراء ۃ التی أقرأني فقال کذلک أنزلت إنَّ ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرء وا ما تیسر منہ (صحیح البخاري :۲؍۷۴۷)
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان اس طریقہ سے مختلف پڑھتے سنا جو میں نے رسول اللہﷺسے پڑھا تھا اور یہ حضورﷺکی حیات مبارکہ میں ہوا قریب تھا کہ میں حالت نماز میں ان پر جھپٹ پڑتا تو میں نے صبر کیا یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوئے میں نے ان کی چادر پکڑی اور انہیں کھینچا میں نے انہیں کہا کہ کس نے آپ کو یہ سورت پڑھائی جیساکہ میں نے آپ کو پڑھتے ہوئے سنا اس پر انہوں نے جواب دیا کہ مجھے رسول اللہﷺنے پڑھائی میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہوکیونکہ رسول اللہﷺنے مجھے اس سے مختلف طریقہ سے پڑھائی جس پر آپ نے پڑھا، میں انہیں حضورﷺکی خدمت میں لے گیا میں نے عرض کی یارسول اللہﷺمیں ان کو فرقان اس سے مختلف طریقہ سے پڑھتے ہوئے سنا ہے جس طریقہ پر آپ نے پڑھائی تھی۔ رسول اللہﷺنے فرمایا ان کو چھوڑ دو پھر حضرت ہشام رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم پڑھو چنانچہ انہوں نے اسی طرح پڑھا جس طرح کہ میں نے انہیں پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ اس پر رسول اللہﷺنے فرمایا کہ یہ اسی طرح اتری ہے پھر مجھے فرمایاعمررضی اللہ عنہ تم پڑھو تو میں نے پڑھی تو آپ نے فرمایا یہ اسی طرح اتری ہے اس کے بعد آپﷺنے فرمایا کہ ’ّقرآن سات حروف پر نازل ہواہے، لہٰذاجس طرح سہولت ہو اسی طرح تم پڑھو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’ فی الحجۃ قراء ۃ القرآن بالقراء ات السبعۃ والروایات کلھا جائزۃ ولکن أری الصواب أن لا یقرأ القراء ۃ العجیبۃ بالإمالات وروایات الغریبۃ کذا في التاتارخانیۃ‘‘ (فتاویٰ ہندیہ فصل الرابع في القراء ۃ، ج، ص۷۹)
’’حجہ میں ہے کہ سات قراء توں اور تمام روایات میں قرآن کا پڑھنا درست و جائز ہے، لیکن میں اس بات کو صحیح سمجھتا ہوں کہ نامانوس قراء ت میں امالات اور روایات غریبہ کے ساتھ نہ پڑھا جائے جیسا کہ تاتارخانیہ میں ہے۔‘‘
فتاویٰ ردّ المختار میں ہے:
لأن بعض السفھاء یقولون ما لا یعلمون فیقعون فی الإثم الشقاء ولاینبغی للأئمۃ أن یحملوا العوام علی ما فیہ نقصان دینھم ولا یقرأ عندھم مثل قراء ۃ أبی جعفر وابن عامر وحمزۃ وعلی الکسائي صیانۃ لدینھم فلعلھم یستخفون أو یضحکون وإن کان کل القراء ات والروایات صحیحۃ فصیحۃ ومشائخنا اختاروا قرا ء ۃ أبي عمرو حفص عن عاصم(ردّ المختار فصل فی القرأۃ :۱؍۳۶۴)
’’اس لیے کہ بعض بے وقوف وہ کچھ کہیں گے جو وہ جانتے نہیں تو گناہ اور بدبختی میں مبتلاہوجائیں گے اور ائمہ کے لیے مناسب نہیں کہ وہ عوام کو اس بات پر ابھاریں جس میں ان کے دین کا نقصان ہے اورعوام کے دین کوبچانے کے لیے ان کے سامنے ابوجعفر، ابن عامر، علی بن حمزہ اور کسائی رحمہم اللہ کے قراء ت میں قرآن مجید نہ پڑھا جائے، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اس کو ہلکاسمجھیں اور اس پر ہنسیں اگرچہ تمام روایات صحیح اور فصیح ہیں۔ ہمارے مشائخ نے ابو عمرو حفص رحمہ اللہ کی قراء ات کو اختیارکیا ہے جو عاصم رحمہ اللہ سے مروی ہے۔‘‘
فتاویٰ شامیہ میں ہے:
القرآن الذی تجوز بہ الصلوٰۃ بالاتفاق ھو المضبوط في مصاحف الأئمۃ التی بعث بھا عثمان إلی الأمصار وھو الذی أجمع علیہ الأئمۃ العشرۃ وھذا ھو المتواتر جملۃ وتفصیلا فما فوق السبعۃ إلی العشرۃ غیر شاذ وإنما الشاذّ ما وراء العشرۃ وھو الصّحیح(فتاویٰ شامیۃ:۱؍۴۸۶) واﷲ أعلم بالصّواب
مفتی غلام سرور قادری (نائب مفتی)حافظ رب نواز
(دار الافتائ، جامعہ رضویہ، ماڈل ٹاؤن لاہور)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۲۵)​
الجواب :
قرآن عظیم کی دسوں(۱۰) قراء تیں حق اور دسوںمنزل من اللہ، دسوں طرح حضور سید عالمﷺنے پڑھا اور حضورﷺسے صحابہ ، صحابہ سے تابعین، تابعین سے ہم تک پہنچا تو ان میں ہر ایک کا پڑھنا بلاشبہ قراء ت قرآن و نور ایمان و رضائے رحمان ہے۔ باایں ہمہ علماء نے ارشاد فرمایا: کہ جہاں جو قراء ت رائج ہو نماز و غیر نماز میں عوام کے سامنے وہی قراء ت پڑھیں۔ دوسری قراء ت جس سے ان کے کان آشنا نہیں نہ پڑھیں۔ مبادا وہ اس پر ہنسنے اور طعن کرنے سے اپنا دین خراب کرلیں۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے۔ في الحجۃ قراء ۃ القرآن بالقراء ات السبعۃ والروایات کلھا جائزۃ ولکنی أری الصواب أن لا یقرأ القراء ۃ العجبیۃ بالإمالات والروایات الغربیۃ کذا فی التاتارخانیۃ (فصل الرابع فی القراء ۃ:۱؍۷۹) ’’حجہ میں ہے کہ ساتوں قراء ت اور تمام روایات میں قرآن مجید پڑھنا جائز ہے، لیکن میں اس بات کو درست سمجھتا ہوں کہ نامانوس قراء ت میں امالات اور روایات غربیہ کے ساتھ قرآن مجید نہ پڑھا جائے، جیساکہ تاتارخانیہ میں ہے۔ ‘‘
ردّ المختار میں ہے: لأن بعض السفھاء یقولون ما لا یعلمون فیقعون فی الإثم والشقاء ولا ینبغی للأئمۃ أن یحملوا العوام علی ما فیہ نقصان دینھم ولا یقرأ عندھم مثل قراء ۃ أبی جعفر وابن عامر وعلی بن حمزۃ الکسائی صیانۃ لدینھم فلعلھم یستخفون أو یضحکون وإن کان کل القراء ات والروایات صحیحۃ فصیحۃ ومشائخنا اختاروا قراء ۃ أبی عمرو حفص عن عاصم (فصل فی القراء ۃ: ۱؍۳۶۴) من التاتارخانیہ،عن فتاویٰ الحجۃ۔
’’ اس لیے کہ بعض بیوقوف وہ کچھ کہیں گے جو وہ جانتے نہیں ہیں تو گناہ اور بدبختی میں مبتلا ہوجائیں گے اورائمہ کے لیے مناسب نہیں کہ وہ عوام کو اس چیز پربرانگیختہ کریں جس میں ان کے دین کا نقصان ہے اور عوام کے دین کو بچانے کے لیے ان کے پاس ابوجعفر، ابن عامر، علی بن حمزہ اور کسائی رحمہم اللہ کی قراء ۃ میں قرآن مجید نہ پڑھا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے وہ اس کو ہلکا جانیں اور اس پرہنسیں۔اگرچہ تمام قراء ات و روایات صحیح اور فصیح ہیں۔ہمارے مشائخ نے ابوعمرو حفص رحمہ اللہ کی قراء ۃ کو اختیار کیاہے جو عاصم رحمہ اللہ سے مروی ہے۔
فتاویٰ رضویہ میں ہے اور جوشخص قرآن مجید میں زیادت یا نقص یاتبدیلی یعنی کسی طرح کے تصرف بشری کادخل مانے یا اُسے محتمل جانے توبالاجماع کافر مرتد ہے کیونکہ صراحۃً قرآن عظیم کی تکذیب کررہا ہے، اللہ عزوجل سورۃ حجر میں فرماتا ہے: ’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُونَ ‘‘(آیت:۹) ’’بے شک ہم نے اتارا یہ قرآن اور بالیقین ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔‘‘ (بحوالہ فتاویٰ رضویہ:۱۴؍۲۵۹) امام قاضی عیاض شفا شریف مطبع صدیقی صفحہ ۳۶۴ میں بہت سے یقینی اجماعی کفر بیان کرکے فرماتے ہیں: وکذلک ومن أنکرالقرآن أو حرفا منہ أو غیر شیئا منہ أو زاد فیہ’’یعنی اسی طرح وہ بھی قطعاً اجماعاً کافر ہے جو قرآن عظیم یا اس کے کسی حرف کاانکار کرے یا اُس میں سے کچھ بدلے یاقرآن میں اس موجودہ میں کچھ زیادہ بتائے۔‘‘
(نائب مفتی)مولانا محمد تنویر القادری
(دار الافتا،جامعہ نظامیہ رضویہ،لاہور)

٭_____٭_____٭
 
Top